عورت کا اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔
(ارشاد
الحق اثری صاحب کے مضمون کا تحقیقی جواب)
مفتی ابن اسماعیل المدنی
ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
فتنہ کے زمانہ میں عورت کے پردہ اور اس کے ستر کی حفاظت کے لحاظ
کی وجہ سے افضل یہ ہے کہ عورت اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرے ، مسجد میں نہیں ۔
اعتکاف کی جگہ
:
افضل یہ ہے کہ عورت اپنے گھرمیں اعتکاف کرے ۔ ، اس جگہ پر جو
اس نے پنجوقتہ نماز کیلئے مقرر کرلی ہو ،جسے مسجد البیت یعنی گھر کی مسجد کہا جاتا
ہے ۔ اگر پہلے سے کوئی جگہ مقرر نہ ہوتو اب
کرلے پھر اس جگہ میں اعتکاف کرے۔
ائمہ اربعہ میں سے امام ابوحنیفہؒ ،مشہور تابعی اور فقیہ العراق
ابراہیم نخعی ؒ،اور محدث کبیر اور فقیہ سفیان ثوری کا یہی قول ہے ۔ [1]
الامام الحافظ
المجتہد ابو یوسف ؒ اور الامام
المسلمین الحافظ الکبیر الفقیہ محمد بن
الحسن الشیبانی ؒ کا بھی
فتوی ہیں۔ (الأصل المعروف بالمبسوط للامام محمد ؒ : ۲/۲۷۴، ۱/۲)
اعتراض نمبر ۱:
ارشاد
الحق اثری صاحب کہتے ہیں کہ ازواج مطہرات نے بھی مسجد ہی میں اعتکاف کیا اور کسی صحابیہ
سے گھر میں اعتکاف ثابت نہیں ، تو یہ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ عورت کو بھی مسجد میں
ہی اعتکاف کرنا چاہیے ، جیسا کہ امام شافعی
ؒ وغیرہ نے فرمایا ہے ۔ (مقالات ارشاد الحق
اثری ۱/۲۷۷)
الجواب نمبر ۱ :
ارشاد
الحق اثری صاحب نے امام شافعی ؒ کا ایک ہی قول نقل کیا ہے ، ان کا قولِ قدیم قولِ جدید
کے خلاف ہے ، اور امام شافعی ؒ کا قول قدیم فقہاء شافعیہ کی جماعت کی تحقیق میں زیادہ
صحیح ہے ، جس کی تفصیل اگر آرہی ہے ، لیکن جہاں تک موصوف کی یہ بات ازواج مطہرات نے
بھی مسجد ہی میں اعتکاف کیا ، تحقیق کی روشنی
میں صحیح نہیں ہے ۔
حضرت عائشہ ؓ جنہوں
نے ازواج مطہرات کا مسجد نبوی میں اعتکاف کرنانقل کیا ہے، خود انہوں نے مسجد کے
باہر اعتکاف کیا ہے ۔صحیح البخاری اور حدیث کی دوسری کتابوں میں موجود ہے کہ:
حضرت عائشہ ؓ نے ثبیر پہاڑ پرایک مہینہ اعتکاف کرنے کی نذر
مانی تھی ، آپ کے بھائی عبد الرحمنؓ آپ کو اس سے منع کرتے تھے ، اس ڈر سے کہ
کہیں یہ لوگوں کا طریقہ نہ بن جائے ، مگر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایاکہ میرے دل میں
اسکا تقاضہ ہے ، لہذا جب حضرت عبد الرحمن ؓ کا انتقال ہوگیا تو حضرت عائشہ ؓ نے
اپنی نذر پوری کی ۔(یہ کئی روایتوں کا خلاصہ ہے ) دیکھئے:
(صحیح البخاری : حدیث نمبر ۱۶۱۸[2]،۳۰۸۰[3]،مصنف عبد الرزاق: حدیث نمبر ۸۰۲۱[4]،۸۰۲۲[5]،۸۰۲۹ [6]،۹۰۱۸[7]،۱۵۸۸۷[8]،۱۵۹۵۱[9]،اخبار
مکہ للفاکہی: حدیث نمبر ۴۸۳[10]، ۱۳۳۵[11]،مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۱۳۳۰۲[12])
اس حدیث کی بعض
روایتوں میں صاف طور پر اعتکاف کا لفظ ہے ۔ (مصنف عبد الرزاق حدیث نمبر ۸۰۲۱،مسند
الامام الشافعی حدیث نمبر ۲۴۵
[13]،اخبار مکہ للفاکہی حدیث نمبر ۲۴۸۹ ،معرفۃ
السنن والآثار للبیہقی حدیث نمبر ۱۹۵۲۴،السنن الکبری للبیہقی
حدیث نمبر ۱۹۹۳۷،إرواء الغلیل /۸/۱۹۵)
ان تمام روایتوں میں
یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے ثبیر پہاڑ پر اعتکاف کیا تھا اور بعض روایتوں میں مجاورہ (یعنی ٹھہرنا) کا لفظ استعمال
ہوا ہے ، لیکن اس میں کوئی اشکال کی بات نہیں ،اس لئے کہ : خود
بخاری اورمسلم کی بعض حدیثوں میں، اعتکاف کیلئے ،مجاورہ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔
(بخاری : حدیث نمبر ۲۰۱۸[14]،مسلم : حدیث نمبر ۱۱۶۷[15])
صحیح بخاری کے مشہور شارح امام ابن بطال ؒ (م۴۴۹ھھ)نے اس حدیث سے مسجد کے باہر اعتکاف کے
درست ہونے پر استدلال کیا ہے ۔ [16]اسی طرح حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے اس بات
کو تسلیم کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓنے وہاں پر اعتکاف فرمایا۔[17]
تو اس سے تو یہی بات ثابت ہوئی کہ عورت مسجد کے علاوہ بھی
اعتکاف کرسکتی ہے۔
لہذا ارشاد الحق اثری صاحب کی بات صحیح نہیں ہے اور جب مسجد
کے علاوہ اعتکاف درست ہے ، تو پھر گھر میں بھی اعتکاف درست ہے ۔
اعتراض نمبر ۲:
ارشاد
الحق اثری صاحب کہتے ہیں کہ’’ گھر میں اعتکاف درست نہیں ہے ‘‘۔ (مقالات ، جلد ۱، صفحہ ۲۷۹)
الجواب نمبر ۱:
امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں عنوان قائم کیا ہے
: باب اعتکاف النساء یعنی عورتوں کے اعتکاف کرنے کا بیان :
اس کے تحت یہ حدیثیں لائے ہیں :
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے
آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے ، میں آپ کیلئے ایک خیمہ نصب کردیتی تھی ، آپ ﷺ
فجر کی نماز پڑھ کر اس میں اخل ہوتے ، پھر حضرت حفصہ نے حضرت عائشہ سے خیمہ نصب
کرنے کی اجازت مانگی ، انہوں نے اجازت دے دی ، تو حفصہؓ نے بھی ایک خیمہ نصب کیا ،
جب زینب بن جحش ؓنے دیکھا تو انہوں نے بھی ایک دوسرا خیمہ نصب کیا جب صبح ہوئی تو
نبی ﷺ نے چند خیمے دیکھے ، آپ نے فرمایاکہ یہ خیمے کیسے ہیں ؟ آپﷺ سے واقعہ بیان
کیا گیا تو آپ نے فرمایا :’’ ‘‘ کیا تم ان میں نیکی سمجھتے ہوئے ، چنانچہ آپ نے
اس مہینہ میں اعتکاف چھوڑ دیا ، پھر شوال کے ایک عشرہ میں اعتکاف کیا۔
اس
کے بعد کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں :
حضرت
عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اعتکاف کرنے کا ارادہ کیا، جب اس جگہ پر پہنچے
جہان اعتکاف کرنے کا ارادہ تھا تو دیکھا
کہ کچھ خیمے لگے ہیں ، حضرت عائشہ کا خیمہ ، حضرت حفصہ کا خیمہ ، حضرت زینب کا
خیمہ ،تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم ان میں بھلائی سمجھتے ہوپھر آپ واپس ہوگئے اور
اعتکاف نہیں کیا یہاں تک کہ شوال کے ایک عشرہ میں اعتکاف کیا ۔
الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ اس حدیث کو دو عنوان کے تحت
اور بیان کیا ہے :
(۱) شوال میں اعتکاف کرنے کا بیان ۔
(۲) اگر کوئی شخص اعتکاف کرے اور اسے مناسب معلوم ہو کہ اعتکاف
سے باہر ہوجائے ۔
ان حدیثوں کی شرح ملاحظہ فرمائیں :
(۱) حافظ
ابن حجر ؒ لکھتے ہیں :
وفیہ
۔۔۔۔ وأن الأفضل للنساء أن لا یعتکفن فی المسجد ۔
یعنی :اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ عورتوں کیلئے افضل
یہی ہے کہ وہ مسجد میں اعتکاف نہ کریں ۔(فتح الباری ۴/۲۷۷)
(۲) ابن حجر ؒ لکھتے ہیں : امام شافعی ؒ نے ، ایسی مسجد میں جس میں
جماعت سے نماز پڑھی جاتی ہو ، عورتوں کے اعتکاف کرنے کو مطلقاً مکروہ کہا ہے، اور اسی
حدیث سے استدلال کیا ہے ، یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے
کہ عورت کا اپنے گھر کی مسجد کے علاوہ کہیں بھی اعتکاف کرنا مکروہ ہے ۔ (فتح
الباری ۴/۲۷۵)
یہ امام
شافعی ؒ کا قول قدیم ہے ۔[18]
(۳) اسی حدیث کی شرح کرتے ہوئے مشہور شارح حدیث علامہ خطابی ؒ(م۳۸۸ھ
) ابو داؤد کی شرح میں فرماتے ہیں :
وفیہ
کالدلالۃ علی أن اعتکاف المرأۃ فی بیتہا جائز ۔( معالم السنن ۲/۱۳۹)
یعنی
: اس حدیث میں گویا اس بات پر دلیل موجود ہے کہ عورت کا
اپنے گھر میں اعتکاف کرنا جائز ہے ۔
(۴) شیخ
محمد بن شیخ علی بن آدم الاتیوبی ؒ لکھتے ہیں :
ومنہا ان الافضل للنساء ان لا یعتکفن فی المسجد ۔(ذخیرۃ العقبی فی شرح المجتبیٰ للنسائی ۸/۶۹۰) میں
یعنی اس حدیث میں یہ بھی بیان ہے کہ عورتوں کیلئے
افضل یہ ہے کہ وہ مسجد میں اعتکاف نہ کریں ۔
یاد رہے : مشہور سلفی علماء شیخ ناصر الدین الالبانی ؒ اور شیخ
مقبل الوادعی ؒ نے سنن نسا ئی کی اس شرح کی بہت تعریف کی ہے : شیخ البانی ؒ اس کتاب کی بارے میں کہتے تھے کہ وہ سنن نسائی
کی اس جیسی کوئی اور سلفی شرح نہیں جانتے ۔
شیخ مقبل
کہتے تھے :بہت سی وہ باتیں جن کو شیخ نے ترجیح دی ہے یا اختیار کیا ہے اس پر دل مطمئن
ہے ، اسلئے کہ وہ دلیل کے موافق ہیں ، اور میں طلبہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس عظیم کتاب
کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ، اس لئے کہ اس زمانہ میں ہر محدث اس طرح کی شرح نہیں لکھ
سکتا ہے ۔
(۵) شیخ
محمود بن محمد بن خطاب السبکی لکھتے ہیں:
’’ ثم اعتکف ازواجہ من بعدہ ‘‘ یعنی پھر آپ ﷺ کے بعد آپ کی ازواج نے اعتکاف کیا:’’وفیہ
دلیل علی أن الاعتکاف لم ینسخ وأن النساء فیہ کالرجال غیر أنہن یعتکفن فی مساجد
بیوتھن ۔ ‘‘ اس حدیث میں اس بات پر
دلیل موجود ہے کہ اعتکاف منسوخ نہیں ہوا، اور اعتکاف کے باب میں عورتیں بھی مردوں کی
طرح ہیں ، مگر
وہ اپنے گھروں کی مسجدوں میں اعتکاف کریں گی ۔
( المنہل العذب المورود فی شرح ابی داؤد،۱۰/۲۹۹)
(۶)شیخ
احمد بن عبد الرحمن الساعاتی اسی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : ’’(قلت )
وھو (أی اعتکاف المرأۃ فی مسجد بیتہا ) الواجب المتعین الذی یجب المصیر الیہ
خصوصا فی عصرنا ھذا ۔ ‘‘ میں کہتا ہوں : یہی ضروری ہے اور اسی پر عمل کیا جائے گا کہ عورت
اپنے گھر ہی میں اعتکاف کرے، خاص کرکے اس زمانہ میں ۔ (الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل
الشیبانی ۱۰/۲۶۲)
(۷)مشہور
سلفی عالم اور بڑے بڑے سلفی علماء کے شاگرد ، شیخ عطیہ سالم ، حدیث کی مشہور کتاب بلوغ
المرام کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’فإذا کان
للمرأۃ مسجد فی بیتہا بمعنی : مکان مخصص لصلاتھا فیصح اعتکافھا فیہ ، ویقول بعض
السلف : لولا أنہ جاء اعتکاف النساء فی المسجد علی عہد رسول اللہ لقلت : لیس لھا
أن تعتکف فی المسجد ، لکثرۃ ما یراھا الناس ، ولکثرۃ تعرضھا للناس ۔‘‘
یعنی
: اگر عورت کی اس کے گھر مسجد ہومطلب اس کی نماز کیلئے کوئی مخصوص جگہ ہو تو عورت کا
وہاں اعتکاف کرنا صحیح ہے ، سلف میں سے کسی نے کہا ہے کہ اگر حدیث میں یہ بات نہ آئی
ہوتی کہ عورتیں حضرت نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں مسجد میں اعتکاف کرتی تھیں ، تو میں کہتا
کہ عورت مسجد میں اعتکاف کرہی نہیں سکتی ، اسلئے کہ کثرت سے لوگ اسے دیکھیں گے اور
کثرت سے اس کا لوگوں سے واسطہ پڑے گا۔ (شرح بلوغ المرام لعطیہ سالم: ۱۵۷/۱۱)
(۸)امام
احمد ؒ فرماتے ہیں عورتیں مسجد میں اعتکاف کریں گی ، ان کے لئے مسجد میں خیمے لگائے
جائیں گے ، اور لوگوں سے یہ چیز جاچکی ہے ۔ (مسائل الامام
احمد روایۃ ابی داؤد السجستانی/۱۳۸)۔ اس سے صاف ظاہر ہے
کہ اسلاف کے زمانہ سے ہی عورتوں نے مسجد میں اعتکاف کرنا چھوڑ دیا تھا۔
(۹)سلفی
عالم دکتور حسام عفانہ کہتے ہیں :
خلاصہ
یہ کہ اعتکاف مردوں کی طرح عورتوں کیلئے بھی مشروع ہے ، ان شرطوں کے ساتھ جو پہلے بیان
کی گئیں ، لیکن ان مشکل حالات کے پیش نظر جن میں ہم ان ملکوں میں جی رہے ہیں ، میری
رائے یہ ہے کہ عورتیں مسجدوں میں اعتکاف نہ کریں ، نہ رمضان کے اخیری عشرہ میں نہ اسکے
علاوہ ، ہاں دن میں ایک آدھ گھنٹہ مسجد میں اعتکاف کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ،
لیکن رات کو اعتکاف نہ کرے۔ (فتاویٰ د ۔ حسام عفانۃ ۹/۱۴)
(۱۰) شیخ
ابن العثیمین ؒ فرماتے ہیں :
عورت
مسجد حرام میں یا مسجد نبوی میں یا کسی اور مسجد میں اعتکاف کرے اس میں کوئی حرج نہیں
،اس شرط کہ ساتھ کہ وہاں کوئی فتنہ نہ ہو، اور مسجد حرام ومسجد نبوی کو دیکھنے والے
یہی رائے ہوگی کہ افضل یہ ہے کہ عورت مسجد میں اعتکاف نہ کرے ، اس لئے کہ وہ کسی جگہ
تنہا رہے یہ ممکن نہیں ہے، برخلاف نبی کریم ﷺ کے زمانہ کے ، کہ اس وقت عورت مسجد میں
اپنا خیمہ لگاکر اس میں رہ سکتی تھی ، لیکن موجودہ وقت میں یہ ممکن نہیں ، تو اس کے
اعتکاف کی وجہ سے جو شر ، بلاء اور فتنہ ہوگا وہ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں مناسب
نہیں ، ہوسکتا ہے عورت سو جائے اور لوگ آتے جاتے اس کے پاس سے گذریں ،ہوسکتا ہے سوتے
وقت اس کا کپڑا کچھ کھل جائے ، اس لئے کہ بہت سے لوگ جب سوتے ہیں تو انہیں اپنا ہوش
نہیں رہتا ، بلکہ اکثر لوگ، اس وجہ سے ہماری رائے ہے کہ عورت مسجدوں میں اعتکاف نہ
کرے۔
لیکن
بالفرض حرمین کے علاوہ کوئی مسجد ہے ، جہاں عورتوں کیلئے خاص جگہیں ہیں ، اور عورت
اس میں اعتکاف کرنا چاہتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ (فتاویٰ نور علی الدرب ۱۱/۲)
ان تمام
علماء کی باتوں سے صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ عورت کیلئے افضل یہ ہے کہ وہ مسجد میں
اعتکاف نہ کرے۔[19]
الجواب نمبر ۲ : حضرت
عائشہؓ فرماتی ہیں کہ’’لو أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء
لمنعهن كما منعت نساء بني إسرائيل‘‘ عورتوں نے جو (زیب وزینت اور خو بصورتی کے) طریقے
ایجاد کرلیا ہیں اگر رسول اللہﷺ اسے دیکھ لیتے
تو آپ ﷺ ان کو مسجد (میں آکر نماز پرھنے )سےروک دیتے جیسا بنی اسرائیل کی عورتیں
روک دی گئ تھی۔(صحیح بخاری : حدیث نمبر ۸۶۹)
اس سے
استدلال کرتےہوئےبقول غیر مقلدین کے تقلید نہ کرنے والے[20]،مجتہد
اور امام الحافظ الطحاویؒ (م۳۲۱ھ) فرماتے ہیں کہ ’’ولم تكن عائشة لتطلق هذا على
رسول الله صلى الله عليه وسلم في النساء إلا بعد علمها أنه إنما أذن لهن في
المساجد لعدم حال قد صارت فيهن بعده وإذا كن كذلك في زمن عائشة فهن بعدها مما كن
عليه في زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم أبعد، وإذا منعن من المساجد للصلوات،
كن من المنع من المساجد بالاعتكاف أولى‘‘ اور حضرت عائشہؓ، نبی ﷺ کی طرف منسوب
کرکے ،عورتوں کے بارے میں یہ بات اسی وقت کہیں گی جبکہ انہیں معلوم ہو کہ آپ ﷺ نے
انہیں مسجدوں کی اجازت اسی لئے دی تھی کیونکہ ان کا وہ حال نہیں ہوا تھا جو نبی ﷺ کے
بعد ہوا، اور جب وہ حضرت عائشہ ؓ کے دور میں ایسی تھیں ، تو ان کے بعد تو،ان حالات
سے اور دور ہوجائیں گی جو حالات نبی ﷺ کے زمانہ میں تھے۔ اور جب انہیں نمازوں کیلئے مسجد آنے سے روک دیا
گیا تواعتکاف کیلئے بدرجہ اولیٰ انہیں منع کیا جائے گا۔ (أحكام القرآن : ج ۱ : ص۵ ۴۶)
ایک اور مقام پر مقام تے ہیں کہ ’’ فکان قول
عائشہ فی ھذا وھی المأمونۃ علی ماقالت مع علمھا وفقھھا ویقظتھا ، ما قد دل علی
انما کان لہم اتیان المساجد فی حیاۃ رسول اللہ ﷺ واسعا لحال کن علیھا ، وقد خرجن
عنھا بعدہ إلیٰ ضدھا ، فانتفیٰ بذلک ماکان واسعا لہن من إتیانھن إیاہ علی ماکن
یأتینہ فی حیاۃ رسول اللہ ﷺ وإذا کن کذلک فی حیاۃ عائشۃ کن بعد موتھا من ذلک
أبعد ، فإذا کان ذلک کذلک عقلنا أنہ : إن کان لھن أن یعتکفن ، فإنما یکون ذلک
منھن فی خلاف المساجد ، لا فی المساجد ۔ وباللہ التوفق‘‘ حضرت عائشہ ؓاپنے قول میں امانت دار ہیں ،پھر ساتھ ساتھ آپ
کاعلم، آپ کی فقاہت ، اور آپ کی بیدار مغزی ، توآپ ؓ کا یہ فرمانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عورتوں کی حالت ،حضرت
نبی کریم ﷺ کی حیات میں ایسی تھی کہ ان کیلئے مسجد آنے کی گنجائش تھی،مگرآپ کے بعد
ان کی حالت اس کے الٹ ہوگئی ، اس لئے نبی کریم ﷺ کی حیات میں ان کے لئے جو گنجائش تھی
وہ اب نہ رہی ، اور جب حضرت عائشہ ؓ کے زمانہ میں وہ اپنی پہلی حالت سے وہ اتنی دور
ہوچکی تھیں تو اب تو اور دور ہوچکی ہیں ، اس سے ہمیں یہ سمجھ میں آیا کہ آج عورتیں
اعتکاف تو کریں گی مگر مسجد میں نہیں ۔۔(شرح مشکل الآثار : ج ۱۲ : ص ۱۴۱ : حدیث
نمبر : ۴۷۱۳)
الجواب نمبر ۳ : قیاس بھی یہی کہتا ہے کہ عورت
گھر میں اعتکاف کرے ۔ دلائل درج ذیل
ہیں :
ارشاد نبوی ہے:
)۱(’’خیر صلاۃ
النساء فی قعر بیوتھن‘‘ یعنی
عورتوں کی بہترین نماز ان کے گھروں کے بالکل اندرونی حصہ کی ہے ۔ (مسند الامام احمد /۲۶۵۷۰۔صحیح الجامع الصغیر
وزیادتہ ۱/۶۲۶ /۳۳۱۱(
)۲( ’’المرأۃ عورۃ وإنہا إذا خرجت
استشرفہا الشیطان ، وإنہا لا تکون أقرب إالی اللہ منہا فی قعر بیتہا ‘‘یعنی
عورت پردہ کی چیز ہے ، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان تاک جھناک کرتا ہے ، اور وہ اللہ کے
سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے بالکل اندرونی حصہ میں ہوتی ہے
۔ (صحیح ابن حبان /۵۵۹۹،سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ۶/۴۲۴/۲۶۸۸(
)۳(’’خیر
مساجد النساء قعر بیوتھن‘‘یعنی عورتوں کی بہترین
مسجدیں ان کے گھروں کا بالکل اندرونی حصہ ہے ۔(مسند الامام احمد / ۲۶۵۴۲،صحیح الجامع الصغیر
وزیادتہ۱/۶۲۸/۳۳۲۷(
) ۴ (حضرت ابو حمید ؓ کی اہلیہ ام حمید ؓ حضرت نبی کریم
ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا پسند
کرتی ہوں ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں جانتا ہوں تم میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی
ہو، لیکن تمہارا اپنے گھر کے اندرونی کمرہ میں نماز پڑھنا ، گھر کے باہری کمرہ میں
نماز پڑھنے سے افضل ہے ، اور گھرکے باہری کمرہ میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز
پڑھنے سے افضل ہے ، اور صحن میں نماز پڑھنا محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے
اور اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ۔
حدیث کے راوی کہتے
ہیں : حضرت ام حمید ؓکے کہنے پر ان کے گھر کے سب سے اندرونی اور اندھیرے حصہ نماز پڑھنے
کی جگہ بنادی گئی ، تمام عمروہ اسی جگہ نماز پڑھاکرتی تھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ
سے جاملیں۔ (مسند احمد /۲۷۰۹۰،صحیح الترغیب والترہیب ۱/۲۵۸/۳۴۰) ابن حجر ؒ نے اس کی
سند کو حسن کہا ہے ۔ (فتح الباری ۲/۳۴۹(
)۵( ’’وما عبدت
امرأۃ ربھا مثل أن تعبدہ فی بیتہا ‘‘ یعنی اور عورت
اپنے گھر میں جیسے اپنے رب کی عبادت کرتی ہے ویسی عبادت وہ (کہیں اور ) نہیں کرتی۔
)المعجم الکبیر للطبرانی
۹/۱۸۵/۸۹۱۴،صحیح الترغیب والترہیب
۱/۲۶۱/۳۴۸(
)۶( عورت اپنے گھر میں نماز پڑھنے کیلئے جو جگہ مقرر کرتی ہے ، حدیثوں میں اس جگہ کو
اس عورت کی مسجد کہا گیا ہے ۔
’’فقامت الی مسجدھا‘‘ یعنی وہ ( حضرت زینب بن جحش ؓ )اپنی مسجد کی طرف کھڑی ہوئیں۔(صحیح
مسلم /۱۴۲۸(
’’ أن
النبی ﷺمر علیہا وھی فی مسجدھا‘‘ یعنی حضرت نبی کریم ﷺ حضرت
جویریہ ؓ کے پاس سے گذرے جبکہ وہ اپنی مسجد میں تھیں ۔ (سنن الترمذی /۳۵۵۵(
ان روایتوں سے معلوم ہوا :
عورت
کی سب سے بہترین نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھرمیں ادا کرے، اور اس میں بھی جتنے زیادہ
اندرکے کمرے میں ادا کرے گی اتنا ہی افضل ہوگا۔
عورت کی سب سے بہترین عبادت وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں کرے ۔
عورت
سب سے زیادہ اللہ سے قریب اپنے گھر میں ہوتی ہے ۔
عورت اپنے گھر کے جس حصہ کو نماز کیلئے خاص کرتی ہے اسے اس کی
مسجد کہا گیا ہے ۔
اسلاف کی عورتیں اپنے گھر کی مسجد میں عبادت کیا کرتی تھیں
۔
تو اعتکاف جو:
اللہ
تعالیٰ کاقرب حاصل کرنے کیلئے کیا جاتا ہے۔
اور
جس میں یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت کی جاتی ہے ،
اس کے
لئے وہی جگہ زیادہ مناسب ہے جہاں:
بندہ
اللہ کے زیادہ قریب ہو۔
جہاں
کی عبادت اللہ کو زیادہ محبوب ہو ۔
جہاں
بندہ کو زیادہ یکسوئی حاصل ہو ۔
اوران حدیثوں سے معلوم ہواکہ عورت کے حق میں وہ جگہ اس کی مسجد
البیت یعنی اس کے گھر کا وہ ہے حصہ جو اس نے نماز کیلئے خاص کیا ہو ۔
۱ - امام
حافظ ، علامہ ، ناقد ابوبکر الرازی ؒ(م۳۷۰ھ) فرماتے ہیں کہ ’’ أن اعتكافها في مسجد بيتها
أفضل من اعتكافها في مسجد جماعة، وذلك لقول النبي صلى الله عليه وسلم: "لا
تمنعوا إماء الله مساجد الله، وبيوتهن خير لهن".وقال صلى الله عليه وسلم:
"خير صلاة المرأة في بيتها" قال ایضا فی أحكام القرآن رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى
الله عليه وسلم أنه قال لَا تَمْنَعُوا إمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ
وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ فَأَخْبَرَ أَنَّ بَيْتَهَا خَيْرٌ لَهَا..........
......ولما أجاز لِلْمَرْأَةِ الِاعْتِكَافُ بِاتِّفَاقِ الْفُقَهَاءِ وَجَبَ أَنْ
يَكُونَ ذلك في بيتها لقوله صلّى الله عليه وسلم (وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ
لَهُنَّ)............ قوله صلى الله عليه وسلم (صلاة المرأة في دارها أفضل من
صلاتها في مسجدها وصلاتها في بيتها أفضل من صلاتها في دارها وصلاتها في مخدعها
أفضل من صلاتها في بيتها) فلما كانت صلاتها في بيتها أفضل من صلاتها في المسجد كان
اعتكافها كذلك ويدل على كراهة الاعتكاف في المساجد للنساء۔ ‘‘ عورت کا اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرنا ایسی مسجد میں اعتکاف
کرنے سے افضل ہے جس میں جماعت سے نماز ہوتی ہے، اس لئے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد
فرمایا : اللہ کی باندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو ، اور ان کے گھر ان کے لئے
بہتر ہیں ،اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : عورت کی بہترین نماز اس کے گھر میں ہے ۔ اور احکام القرآن میں کہتے ہیں : نبی کریم ﷺ سے منقول ہے آپ نے ارشاد
فرمایا : اللہ کی باندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو، اور ان کے گھر ان کے لئے بہتر
ہیں ، تو آپ ﷺ نے بتایا کہ عورت کا گھر اس کے لئے زیادہ بہتر ہے ، ..........اور جب تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ عورت کیلئے اعتکاف کرنا جائز
ہے تو لازم ہے کہ وہ اس کے گھر میں ہو ، اس لئے کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اور ان کے
گھر ان لئے زیادہ بہتر ہیں .......... ......آپ ﷺ کا فرمان ہے : عورت کا اپنے
گھر کے صحن میں نماز پڑھنا ، محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ، اورگھر میں
نماز پڑھنا، صحن میں پڑھنے سے افضل ہے ، اورگھر کے باہری کمرہ کے مقابلہ اندرونی کمرہ
میں پڑھنا افضل ہے ۔ پس جب اس کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے تو اعتکاف بھی اسی طرح
ہوگا، اور یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ عورتوں کا مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے
۔(شرح مختصر
الطحاوي للجصاص : ج 2 : ص 473, أحكام القرآن
: ج 2 : ص 303)
۲ - امام علی بن ابی بکر بن عبد الجلیل المرغینانی ؒ ؒ(م۵۹۳ھ) فرماتے
ہیں کہ ’’ أما المرأة فتعتكف في مسجد
بيتها لأنه هو الموضع لصلاتها فيتحقق انتظارها فيه ولو لم يكن لها في البيت مسجد
تجعل موضعا فيه فتعتكف فيه ‘‘ عورت اپنے گھر کی مسجد میں
اعتکاف کرے گی ، اس لئے کہ وہی اس کی نماز کی جگہ ہے ، تو نماز کا انتظار اسی میں
پایا جائے گا، اور اگر گھر میں کوئی نماز کی جگہ متعین نہ ہو تو کوئی جگہ طے کرلے
اور پھر وہاں اعتکاف کرے ۔ (الهداية : ج 1 : ص
129)
۳ - فقیہ
فخر الدین زیلعی ؒ ؒ(م۷۴۳ھ) کہتے ہیں ’’ الْمَرْأَةُ تَعْتَكِفُ فِي
مَسْجِدِ بَيْتِهَا لِأَنَّهُ هُوَ الْمَوْضِعُ لِصَلَاتِهَا فَيَتَحَقَّقُ
انْتِظَارُهَا فِيهِ وَلَوْ اعْتَكَفَتْ فِي مَسْجِدِ الْجَمَاعَةِ جَازَ
وَالْأَوَّلُ أَفْضَلُ ‘‘ عورت اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرے
گی ، اس لئے کہ وہی اس نماز کی جگہ ہے ، تو نماز کا انتظار بھی اسی میں متحقق
ہوگا، اور اگر ایسی مسجد میں اعتکاف کرے جہاں جماعت سے نماز ہوتی ہو تو جائز ہے
مگر پہلا(یعنی گھر کی مسجد میں اعتکاف کرنا)
افضل ہے ۔
۴ - امام
عبد اللہ بن محمود بن مودود موصلی ؒ ؒ(م۶۸۳ھ) کہتے
ہیں ’’ الْمَرْأَةُ تَعْتَكِفُ فِي
مَسْجِدِ بَيْتِهَا وَهُوَ الْمَوْضِعُ
الَّذِي أَعَدَّتْهُ لِلصَّلَاةِ....وَكَانَتْ صَلَاتُهَا فِي بَيْتِهَا أَفْضَلَ
كَانَ اعْتِكَافُهَا فِيهِ أَفْضَلَ ‘‘ عورت اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف
کرے گی ، اور (گھر کی مسجد سے مراد ) وہ جگہ ہے جو اس نے نماز کیلئے بنائی ہو، اور
جب اس کی نماز اس کے گھر میں افضل ہے تو اس کا اعتکاف بھی اسی میں افضل ہے۔(تبيين الحقائق : ج 1 : ص 350,
الاختيار لتعليل المختار : ج 1 : ص 137)
۵ - الامام الحافظ الطحاوي ؒ ؒ(م۳۲۱ھ)
نے فرمایا کہ ’’ ولمَّا كَانَ
مَوضِع اعْتِكَاف الرِّجَال هُوَ مَوضِع الْفضل لَهُم فِي الصَّلَوَات المكتوبات،
كَانَ مَوضِع اعْتِكَاف النِّسَاء فِي مَوضِع الْفضل لَهُنَّ فِي الصَّلَوَات
المكتوبات، وَهن فِي بُيُوتهنَّ، وَهَذَا قَول أَبِي حَنِيفَةَ، وَزفر، وأبى
يُوسُف، وَمُحَمّد‘‘ جب مردوں کے اعتکاف کی جگہ وہ ہے جو فرض نمازیں
ادا کرنے کیلئے ان کے حق میں افضل ہے، تو عورتوں کے اعتکاف کیلئے بھی وہی جگہ افضل
ہونی چاہیے جو ان کی فرض نمازوں کیلئے افضل ہے ، اور وہ ان کے گھر ہیں ۔ یہی اما م
ابوحنیفہؒ ، امام زفرؒ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کا قول ہے ۔ (أحكام القرآن للطحاوي : ج 1 : ص 470)[21]
مسجد شرعی کی قید لگانا:
بعض لوگوں نے گھر کی مسجد
پر یہ اعتراض کیا ہے کہ:
گھر کی مسجد ، شرعی مسجد نہیں ہوتی ،اسے مجازاً مسجد کہا جاتا ہے،
اسی لئے اس میں ناپاک مردو عورت کا آنا ، اس جگہ کوبیچنا ،وغیرہ سب جائز ہے۔ اس لئے عورت کا اس میں اعتکاف کرنا درست نہیں ۔
قرآن نے جس مسجد میں اعتکاف کرنے کا حکم دیا ہے اس سے شرعی مسجد مراد ہے مجازی
مسجد نہیں ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ :
اولاً: قرآن میں مسجد میں اعتکاف
کرنے کا حکم ہے ، اور عورت اپنے گھر میں نماز کیلئے جو جگہ طے کرلیتی ہے حدیث میں
اس جگہ کے لئے مسجد ہی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
حضرت جویریہ ؓ اپنے گھر کی مسجد میں بیٹھ کر ذکر کررہی تھیں مگر حدیث
میں اس کے لئے مسجد ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ’’أن النبی ﷺ مر علیھا وھی فی المسجد تدعو۔‘‘ (سنن
النسائی /۱۳۵۲)
حضرت نبی کریم ﷺ ان کے پاس سے گذرے وہ مسجد میں ذکر کر رہی تھیں یعنی
قرآن نے جس چیز کاحکم دیا تھا حدیث کے روشنی میں اس پر عمل ہورہا ہے ۔
ثانیاً: غیر مقلدین یہ مانتے ہیں کہ :
(۱) وہ عبادت جسے مرد کیلئے
مسجد میں ادا کرنا ضروری ہے جیسے فرض نماز۔ عورت کیلئے اس کو اپنے گھر میں ادا
کرناافضل ہے ۔
(۲)حدیث شریف میں ہے :
’’فجلس فی المسجد
ینتظر الصلاۃ ، لم یزل فی صلاۃ حتی یصلی ‘‘ یعنی پس وہ
شخص نماز کا انتظار کرتے ہوئے مسجد ہی میں بیٹھا رہے ، تو وہ مسلسل نماز ہی میں ر
ہے گایہاں تک کہ وہ نماز پڑھ لے۔۔ (مؤطا مالک /۵۵۶)
اس حدیث میں مسجد کا لفظ ہے، کہ وہ شخص مسجد میں بیٹھ کر دوسری نماز کا
انتظار کرتا رہے۔
اس کے باوجود سلفی عالم شیخ عبد الکریم الخضیر کہتے ہیں :
عورت اپنے گھر کی مسجد میں یہ عمل
کرے تو اسے بھی یہ فضیلت حاصل ہوگی ۔ (شرح المؤطا للخضیر ۲۵/۳۳)
معلوم ہوا ،ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار جو مرد سے مسجد میں
مطلوب ہے ۔آپ کے نزدیک ،عورت یہ عمل گھر میں ادا کرے ،تو بھی اسے اس کی فضیلت حاصل
ہوگی ۔
(۳) حدیث شریف میں جس عبادت
کی فضیلت جماعت سے نماز ادا کرنے پر بیان کی گئی ہے ،جیسے ذکر اللہ کی بعض صورتیں۔
غیر مقلدین یہ بھی مانتے ہیں کہ وہی عبادت
اگر عورت اپنے گھر میں، تنہا بھی اداکرے تب بھی اسے وہ افضیلت حاصل ہوگی ، جیسے :
حدیث میں ہے : ’’من صلی الغداۃ فی جماعۃ ثم قعد یذکر اللہ حتی تطلع الشمس ثم صلی
رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ تامۃ تامۃ تامۃ ‘‘جو شخص
جماعت کے ساتھ فجر کی نماز پڑھے، پھر سورج طلوع ہونے تک بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا رہے
، پھر دو رکعت پڑھے ، اس کو حج وعمرہ کے اجر کی طرح اجر ملے گا ،مکمل مکمل مکمل۔(سنن
ترمذی /۵۸۶،سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ/۳۴۰۳)
سلفی شیخ ابن باز ؒسے پوچھا گیا کہ :
اگر کوئی عورت اپنے گھر میں تنہاء نماز پڑھے ،پھر اشراق تک ذکر کرنے کے
بعد دو رکعت پڑھے تو اسے بھی یہ فضیلت حاصل ہوگی ؟
انہوں نے کہا: ہاں امیدہے اسے بھی یہ عظیم فضیلت حاصل ہوگی ۔ (فتاویٰ
نور علی الدرب ۹/۸۹) یہی بات شیخ عبد المحسن العبادحفظہ اللہ (موجودہ محدث مدینہ ) نے بھی
کہی ہے ۔ (شرح الاربعین النوویۃ للعباد ۲۷/۲۳)
حدیث میں جماعت سے نماز پڑھنے کی
تصریح ہے ، جو اکثر مسجد ہی میں ادا کی جاتی ، اس کے باوجود اہل حدیث حضرات کا فتویٰ ہے کہ: گھر میں اور تنہا
پڑھنے پر بھی امید ہے کہ عورت کو وہ فضیلت حاصل ہوگی۔
ایک اہم بات :
اس حدیث میں فجر
کی نماز کے بعد وہیں بیٹھ کر سورج نکلنے تک ذکر کرنے کی فضیلت بتائی گئی ہے ۔ تویہ
جو فجر کی نماز کے بعد سے لے کر اشراق تک کے درمیان کی مدت ہے ،جس میں ذکر کرنے کی
یہ فضیلت ہے،اس کو علماء نے ’اعتکاف‘ قرار دیا ہے۔ ۔ اس مدت کے بارے میں اہل
حدیث عالم[22]
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں : یہ وہ اعتکاف ہے جسے رسول اللہ ﷺ ہر روز کیا کرتے تھے ۔ (حجت اللہ البالغہ ۲/۲۴)
معلوم ہوا مسجد میں بیٹھ کر ذکر کرنے کی یہ جو مختصر مدت ہے ، شاہ ولی
اللہ ؒ اسے اعتکاف مان رہے ہیں ۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ بھی تھوڑی دیر مسجد
میں بیٹھ کر ذکر کرنے کو اعتکاف کہتے ہیں : وقال عطاء : قال یعلی بن منیہ : انی لأمکث
فی المسجد الساعۃ ، وماأمکث الا لأعتکف ۔قال عطاء : وھو اعتکاف مامکث فیہ، وان
جلس فی المسجد احتساب الخیر فھو معتکف وإلا فلا۔ (شرح
صحیح البخاری لابن بطال ۴/۱۶۰، ولفظہ لہ،مصنف ابو بكر عبد الرزاق : حدیث نمبر
: ۸۰۰۶-۸۰۰۷)
اور آپ کے علماء خود یہ فتویٰ دے رہے ہیں کہ : یہ اعتکاف جو مرد سے
مسجد میں مطلوب تھا، عورت وہ اعتکاف اپنے گھر میں کر سکتی ہے ۔
نیزاثری صاحب ایک سوال کا جواب بھی عنایت فرمائے کہ جب اہل حدیث علماء کے نزدیک ’اعتکاف اصغر‘ عورت گھر میں کرسکتی ہے تو
’اعتکاف اکبر‘کیوں نہیں کر سکتی ؟
(۴) مردکا مسجد سے بہت تعلق
ہو، اس کا دل ہمیشہ مسجد میں لگا رہتا ہو ،یہ فضیلت کی چیز ہے۔
حدیث میں
ہے کہ ایسا شخص قیامت کے دن عرش کے سایہ میں ہوگا۔ (صحیح مسلم /۱۰۳۱) اور اعتکاف
میں بھی یہی چیز ہوتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو مسجد میں روکے رکھتا ہے ۔ علامہ ابن
تیمیہ ؒ لکھتے ہیں : ’’الاعتکاف یوجب الاحتباس فی المسجد‘‘یعنی
اعتکاف اپنے آپ کو مسجد میں روکے رکھنے کولازم کرتا ہے ۔ (شرح العمدۃ لابن تیمیہ ۲/۷۴۶)
مگرایک عورت جس کا مسجد سے ایسا ہی تعلق تھا ، وہ ہمیشہ مسجد میں رہتی
، سعودی کے کبار علماء نے اسے فتویٰ دیا کہ : تمہارا گھر میں بیٹھنا مسجد جاکر وہاں
بیٹھنے سے افضل ہے ۔ (فتاویٰ لجنہ دائمہ ۲۔ ۶/۲۵۲۔ رقم
الفتویٰ /۱۷۵۹۴)
اب رہا کیا؟
اعتکاف میں جتنی چیزیں ہوتی ہیں وہ ساری چیزیں آپ عورت کو گھر میں ادا
کرنے کہتے ہیں :
فرض نمازوں
کا اہتمام : آپ کے نزدیک عورت کیلئے افضل یہ ہے کہ وہ ان کو گھر میں اداکرے ۔
ایک نماز کے بعد
دوسری نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت حاصل کرنا : آپ کے نزدیک یہ عمل بھی عورت اپنے
گھرمیں کرسکتی ہے ۔
ذکر اللہ کی کثرت:
آپ کے نزدیک عورت کو یہ چیز اپنے گھر میں کرنا چاہیے ۔
اپنے آپ کو اللہ
کے گھر میں روکے رکھنا : آپ کے نزدیک عورت کو یہ عمل اپنے گھر میں کرنا چاہیے۔
مسجد میں
ذکر کیلئے بیٹھنا اعتکاف ہے : اور وہ بھی آپ کے نزدیک عورت اپنے گھر میں کرے ۔
جب اعتکاف کے سارے ہی اعمال عورت اپنے گھر میں کرے ، یہی افضل ہے ۔ پھر یہ کہناکہ: لیکن اعتکاف
مسجد شرعی ہی میں کرے گی ۔ یہ مسئلہ نہیں معمہ ہے ۔
علماء
احناف کی عبارت :
ارشاد
الحق ا ثری صاحب نے علماء احناف کی عبارت نقل کی ہے کہ عورت کو مسجد میں اعتکاف کرنا
جائز ہے ۔
الجواب :
جہاں
پر جائز ہونے کی بات نقل کی گئی ہے ، وہاں پر یہ بات کی بھی صراحت ہے کہ افضل یہ ہے
کہ عورت گھر ہی میں اعتکاف کرے ، اور یہی احناف کا مفتی بہ قول ہے[23]
، اور اگر ارشاد الحق اثری صاحب اس پر اصرار کرتے ہیں کہ جب عورت کا مسجد میں اعتکاف
کرنا جائز ہے ، جس سے عورت کے لئے مسجد میں اعتکاف کے موقف ہی کی تائید ہوتی ہے ۔
(صفحہ ۲۸۱)
تو نماز میں رکوع میں جاتے اور اٹھتے
وقت رفع الیدین کرنے کے بارے میں خود علماء اہل حدیث نے فتویٰ دیا ہے ،کہ اگر نماز
میں رفع الیدین نہ کیا جائے تو بھی ان کے نزدیک نماز کی صحت میں کوئی فرق نہیں آتا۔
(فتاویٰ علماء حدیث ۳/۱۵۴) یعنی اہل حدیث حضرات کے نزدیک نماز
میں رفع الیدین نہ کرنا بھی جائز ہے ، تو ارشاد الحق اثری صاحب ! کیا اس سے نماز میں
رفع الیدین نہ کرنے والوں کے مذہب کی تائید ہوتی ہے ؟ جو جواب آپ اس کا عنایت فرمائےگے
وہی جواب ہماری طرف سے ہمارے علماء کی عبارات کا ہوگا۔
الغرض
اس تفصیل و تحقیق سے معلوم ہوا کہ عورت کے لئے افضل یہی ہے کہ وہ اپنے گھر کی مسجد
میں اعتکاف کرے۔اور اثری صاحب کے تمام اعتراضات باطل اور مردودہے۔
[1] قال الحافظ المغرب رحمة
الله :
وقال ابو حنیفۃ لا تعتکف المرأۃ إلا فی مسجد بیتہا ولا
تعتکف فی مسجد الجماعۃ ، وقال الثوري اعتکاف المرأۃ فی بیتھا أفضل من اعتکافہا
فی المسجد وھو قول إبراہیم ۔ (الاستذکار ۳/۳۹۹)
[2]
الفاظ یہ ہیں : ’’۔۔۔وکنت آتی عائشۃ أنا
وعبید بن عمیر ، وھی مجاورۃ فی جوف ثبیر ، قلت : وماحجابھا ؟ قال : ھی فی قبۃ
ترکیۃ ، لھا غشاء وما بیننا وبینھا غیر ذلک ، ورأیت علیھا درعاً مورداً۔ ‘‘
[3]
الفاظ
یہ ہیں : ’’سمعت عطاء ً : یقول : ذھبت مع عبید بن عمیر إلیٰ
عائشۃ ؓ وھی مجاورۃ بثبیر ۔۔۔‘‘
[4]
الفاظ
: ’’عن ابن ملیکۃ قال : اعتکفت
عائشۃ بین حراء وثبیر فکنا نأتیھا ھناک ، وعبد لھا یؤمھا ۔‘‘
[5]
الفاظ
: ’’عن عطاء أن عائشۃ نذرت جواراً فی جوف ثبیر ممایلی
منیً، قلت : فقد جاورت ؟ قال : أجل ، وقد کان عبد الرحمن بن أبی بکر نھاھا أن تجاور
خشیۃ أن یتخذ سنۃ ، فقالت عائشۃ : حاجۃ کانت فی نفسی ۔‘‘
[6] الفاظ : ’’عن ابن جریج قال : قلت لعطاء : ۔۔۔۔ فنذر جواراً
علی رؤوس ھذہ الجبال جبال مکۃ أیقضی عنہ أن یجاور فی المسجد ؟ قال : نعم المسجد
خیر وأطیب ، قلت:و کذلک فی کل أرض ؟ قال : نعم ، ثم أخبرنی عند ذلک خبر عائشۃ
حین نذرت أن تجاور فی جوف ثبیر ۔ ‘‘
[7]
الفاظ
: ’’وکنت آتی عائشۃ أنا وعبید بن عمیر ، وھی مجاورۃ
فی جوف ثبیر ، قلت : فماحجابھا حینئذ ٍ؟ قال : ھی فی قبۃلھا ترکیۃ ،علیھا غشاء لھا
، بیننا وبینھا،قال : ولکن قد رأیت علیھا درعاً معصفراًوأنا صبي ۔ ‘‘
[8]
الفاظ
: ’’ أخبرنی عطاء : أن عائشۃ
ابنۃ ابی بکر کانت نذرت جواراً فی جوف ثبیر ، فکان أخوھا عبد الرحمن یمنعھا حتی مات
، فجاورت ثم ۔ ‘‘
[9]
الفاظ
: ’’ أخبرنی عطاء : أنہ جاء عائشۃ
أم المومنین مع عبید بن عمیر ، وکانت مجاورۃ فی جوف ثبیر ، فی نحو منی
[10]الفاظ : ’’وکنت آتی عائشۃ أنا وعبید بن عمیر ، وھی مجاورۃ
فی جوف ثبیر ، قلت : فماحجابھا حینئذ ٍ؟ قال : ھی فی قبۃلھا ترکیۃ ،علیھا غشاء لھا
، بیننا وبینھا،قال : ولکن قد رأیت علیھا درعاً معصفراًوأنا صبي ۔ ‘‘
[11]
الفاظ
: ’’نذرت عائشہ ام المومنین جواراً
فی جوف ثبیر ممایلی منیً، قلت : نعم ، فقد جاورت ، قال : أجل ، وقد کان عبد الرحمن بن أبی بکر نھاھا عن ذلک
، عن أن تجاور ، ثم أراہ منعھا خشیۃ أن یتخذ ذلک سنۃ ، قال : فقالت عائشۃ ؓ : حاجۃ
کانت فی نفسی ۔ ‘‘
[12]
الفاظ
: ’’ عن عبد الملک عن عطاء قال
: أتیت أنا وعبید بن عمیر اللیثی عائشہ وھی مجاورۃ بثبیر ، قال : وکان علیھا نذر
أن تجاور شھراً ، قال وکان أخوھا عبد الرحمن یمنعھا من ذلک ، ویقول : جوار البیت
وطواف بہ أحب إلی وأفضل ، قال : فلما مات عبد الرحمن خرجت ۔ ‘‘
[13] الفاظ : ’’قال
عطاء : ذھبت أنا وعبید بن عمیر إلی عائشۃ ؓ وھی معتکفۃ فی ثبیر ۔ ‘‘
[14]
الفاظ
: ’’کان رسول اللہ ﷺ یجاور فی
رمضان العشر الذی فی وسط الشہر ۔۔۔۔۔‘‘
[15] الفاظ: ’’کان رسول اللہ ﷺ یجاور فی رمضان العشر الذی فی وسط
الشہر ۔۔۔۔‘‘
[16]
(فتح الباری ۳/۴۸۱) اور حافظ ؒ کے الفاظ یہ ہیں : ’’واستنبط منہ ابن بطال الاعتکاف فی غیر المسجد، لأن ثبیرا
خارج عن مکۃ ۔ ‘‘
[17] لیکن آگے یہ بھی کہا کہ ہوسکتا ہے حضرت عائشہ ؓ نے وہاں مسجد بنالی ہو،
یا ان کو مسجد حرام میں جگہ میسر نہ آئی ہو۔ الفاظ یہ ہیں : ’’لکن
یلزم من إقامۃ عائشۃ ھناک أنھا أرادت الإعتکاف سلمنا لکن لعلھا اتخذت فی المکان
الذی جاورت فیہ مسجداً اعتکفت فیہ وکأنھا لم یتیسر لھا مکان فی المسجد الحرام
تعتکف فیہ فاتخذت ذلک ۔ ‘‘(فتح الباری ۳/۴۸۱) ہو
بہو ابن حجر ؒ کی یہ بات اردن کے بڑے عالم ،قاضی ومفتی شیخ محمد الخضر الشنقیطیؒ نے
بھی نقل کی ہے ۔ (کوثر المعانی ۱۳/۲۴۵)
مگرامام، علامہ ،حافظ ابن حجر ؒ ( کے بہت ہی
ادب واحترام کے ساتھ ، ان) کی یہ بات قابل غور ہے ، اس لئے کہ:
(۱) ابن
حجر ؒ نے صرف انداز سے یہ بات کہی ہے کہ ہوسکتا ہے انہوں نے وہاں کوئی مسجد بنالی ہو،
کوئی مدلل بات نہیں فرمائی۔
(۲) انہوں
نے نذر ہی پہاڑ پر اعتکاف کرنے کی مانی تھی تو مسجد کی بات ہی کہاں رہی ۔
ویسے یہ کہنا کہ ام المومنین کو مسجد حرام میں اعتکاف
کیلئے کوئی جگہ میسر نہیں تھی ، یہ خود ایک عجیب بات ہے ۔
(۳) (ابن
جریج ؒ نے حضرت عطاء ؒسے اس حدیث کو روایت
کیا ہے ، اور حضرت عطائؒ خودحضرت عائشہ ؓسے ملنے گئے تھے )
ان ابن جریج ؒ نے اس حدیث کوپہاڑ پر اعتکاف کرنے کے سوال کے
جواب میں بیان کیا ہے ۔
۔۔۔قلت فنذر جواراً علی رء وس ہذہ الجبال جبال مکۃ ،
أیقضی عنہ أن یجاور فی المسجد ؟ قال نعم ، المسجد خیر وأطہر ، قلت : وکذلک فی
کل أرض ؟ قال نعم ، ثم أخبرنی عند ذلک خبر عائشۃ حین نذرت أن تجاور فی جوف ثبیر ۔ (مصنف
عبد الرزاق /۸۰۲۹،اخبار مکہ للفاکہی /۱۳۳۵)
(۴)حضرت
عائشہ ؓ نے پہاڑ پر اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی ، اسی لئے تو ان کے بھائی حضرت عبد
الرحمن نے ان کو منع کیا تھا ، کہ کہیں لوگ اس کو طریقہ
نہ
بنالیں ، اگر عائشہ ؓ نے مسجد میں اعتکاف کی نذر مانی ہوتی تو یہ اندیشہ درست نہ ہوتا،اسلئے
کہ وہ تو ہے ہی سنت ۔
(۵) کسی
بھی حدیث میں اس کا بات ذکر نہیں کہ انہوں نے وہاں کوئی شرعی مسجد بنالی تھی ، پھر
اس میں اعتکاف کیا تھا، بلکہ پردہ کے طور پر ہر جگہ صرف ان کے خیمہ کا تذکرہ موجود
ہے ۔
ہاں یہ ممکن ہے کہ انہوں نے نماز پڑھنے
کیلئے وقتی طور پر کوئی مصلّٰی بنا لیا ہو۔ جیسا کہ بعض روایتوں میں ہے کہ ان کے غلام وہاں ان کی امامت کرتے تھے۔ (مصنف عبد
الرزاق /۸۰۲۱)
[18] امام شافعی ؒ کا قول قدیم جو فقہ شافعی کی تقریباً ہر کتاب میں موجود ہے
، کہ عورت اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کر سکتی ہے، اس قول کو اگر بعض نے رد کیا
ہے۔لیکن فقہاء شافعیہ کی ایک جماعت نے اسی قول کو ترجیح بھی دی ہے ۔ چنانچہ الإمام الشيخ جمال
الدين عبد الرحيم بن الحسن الإسنوي (م۷۷۲ھ) فرماتے ہیں کہ : ثم قال إذا قلنا بصحتہ ، أی
صحۃ اعتکاف المرأۃ فی مسجد بیتہا ، فیجوز أن یقال : إنہ فی مسجد بیتہا افضل ،
لانہ أستر لھا ، ویجوز أن یقال : أنہ فی المسجد أفضل ، للخروج من الخلاف ،
والتی یکرہ لھا الاعتکاف فی المسجد ، وھی التی یکرہ لھا حضور الجماعات ، فالاعتکاف
فی المسجد الجامع فی حقہا أشد کراھۃ ۔ انتھی کلام ابن الرفعة ۔
ومقتضاہ
أنہ لم یقف فی ھذہ المسألۃ علی نقل ، وھو غریب ، فقد نص الشافعی علی کراھۃ
اعتکافہا فی غیرھا ، کذا ذکرہ القاضی الحسین فی تعلیقہ ، والشیخ ابو حامد فیما
علقہ علی البندنیجی ، وسلیم الرازی فی المجرد ، وابن الصباغ فی الشامل ، والشاشی
فی الحلیۃ ، والمعتمد ، والعمرانی فی البیان ، وقال المحاملی ، فی المجموع ، إن
اعتکافھا فی بیتھا افضل ، ولم یعبر بالکراھۃ ، وأغرب من ھذا أن المصنف نفسہ قبل
ھذا الموضع بنخو ورقتین قد نقل عن ابن الصباغ والقاضی الحسین ما نقلتہ عنہما من
کراھۃ الشافعی اعتکافھا فی غیرہ ۔
پھر آگے مصنف(یعنی
ابن الرفعةؒ) نے کہا: اگر ہم اسے صحیح کہیں ،
یعنی عورت کے اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرنے کوصحیح کہیں تو یہ بھی کہا جاسکتا
ہے کہ اپنے گھر کی مسجد میں افضل ہے، اس لئے کہ اس میںعورت کیلئے پردہ زیادہ ہے ،
اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مسجد میں افضل ہے ، اس لئے کہ اس میں( علماء کے
)اختلاف سے بچنا ہے ۔ اور مسجد میں اعتکاف کرنا اسی کیلئے مکروہ ہے جس کے لئے
جماعت (سے نماز پڑھنے کیلئے مسجد )میں حاضر ہونامکروہ ہے ، پس اس کے حق میں جامع
مسجد میں اعتکاف کرنا اور زیادہ مکروہ ہوگا۔ مصنف کی بات پوری ہوئی ۔
(اس
کا جواب دیتے ہوئےالإمام إسنوي (م۷۷۲ھ) فرماتے ہیں کہ)
اس (عبارت ) سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی عبارت پر مطلع نہیں ہوئی ، یہ عجیب بات ہے
، اس لئے کہ امام شافعی ؒ (م۲۰۴ھ)نے تصریح فرمائی ہے کہ اس (یعنی عورت ) کا اس
(یعنی گھر کی مسجد ) کے علاوہ کہیں اور اعتکاف کرنا مکروہ ہے ، جیسا کہ امام
القاضی حسین ؒ (م۴۶۲ھ)نے اپنی’ تعلیق ‘میں ذکر کیا ہے ،الْإِمَام أبو حامد
الإسْفَرايينی ؒ (م۴۰۶ھ) نے امام بندنیجیؒ (م۴۲۶ھ) کی کتاب
(پر موجود)اپنی تعلیق میں ،الامام المفسر الفقیہ سلیم الرازیؒ (م۴۴۷ھ) نے’ مجرد
‘میں ، ابن الصباغ ؒ(م۴۴۸ھ) نے’ الشامل‘ میں ،امام الشاشیؒ (م۵۰۷ھ) نے’ حلیہ اور
معتمد‘ میں ،فقیہ عمرانیؒ (م۵۵۸ھ) نے ’البیان ‘میں ،الامام الجليل محاملیؒ
(م۴۱۵ھ) نے’ مجموع ‘ میں ، کہ یقینا عورت کا اپنے گھر
میں اعتکاف کرنا افضل ہے ، اور مکروہ
سے تعبیر نہیں کہا ہے ، اور اس کے عجیب بات یہ ہے کہ خود مصنف ؒ نے اس جگہ سے دو
ورق پہلے ، ابن الصباغ اور قاضی حسین سے وہی بات نقل کی ہے جو میں نے نقل کی ، کہ اس گھر کے علاوہ کہیں اعتکاف کرنا امام شافعیؒ کے
نزدیک مکروہ ہے ۔
(الہدایہ إلی اوھام الکفایۃ ۲۰/۲۷۲)
معلوم ہوا کہ فقہاء شافعیہ کی ایک جماعت نے امام شافعیؒ کے قدیم قول کو ترجیح
دی ہے۔ اور یاد رہے کہ زبیر علی زئی صاحب کے اصول کے مطابق شافعی علماء نے اعلان
کیا کہ ہم شافعی کے مقلد نہیں ہیںبلکہ ہماری رائے(اجتہاد کی وجہ سے) ان کی رائے کے
موافق ہوگئ ہے۔(اختصار علوم الحدیث مترجم از علی زئی: ص ۱۳،دین میں تقلید کا مسئلہ
: ص۴۶) لہذا ان فقہاء شافعیہ نے اپنے
اجتہاد کی وجہ سےامام شافعیؒ کے قدیم قول کو ترجیح دی ہے۔ اورامام النخعیؒ، امام
ابو حنیفہؒ، صاحبین اور امام سفیان الثوریؒ وغیرہ کی طرح ان کے نزدیک بھی ’ عورت کا اپنے گھر میں اعتکاف کرنا افضل ہے ‘ ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ
کہ آج شافعی حضرات کا عمل اسی پر ہے ۔ الغر ض امام شافعیؒ
کے قدیم قول ہی بقول زبیر علی زئی کہ ان کے اجتہاد کرنے والے علماءکے نزدیک زیادہ صحیح
ہے۔ مگر ارشاد الحق اثری صاحب نے یہ سب باتیں چھپالی ۔
اثری صاحب کا ایک اور اعتراض اور اس کا جواب :
امام ،علامہ ، حافظ ، ناقد ابوبکر جصاص الرازی ؒ پر اعتراض کرتے
ہوئے ارشاد الحق صاحب لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ کو اعتکاف
کی اجازت دی ، بڑے تعجب کی بات ہے کہ اس کے متعلق علامہ ابوبکر جصاص الرازی نے کہا
کہ یہ اجازت گھروں میں اعتکاف کے متعلق تھی ۔ (احکام القرآن ) حالانکہ اگر یہ اجازت
گھروں میں اعتکاف کے بارے میں تھی اور مسجد میں اعتکاف ان کے لئے جائز نہ تھا ، تو
آنحضرت ﷺ کے بعد ان کا مسجد میں اعتکاف کرنا اور کسی بھی صحابی کا اس پر اعتراض نہ
کرنا چہ معنی دارد؟ اندازہ کیجئے مسلک کی کورانہ حمایت میں کن کن تاویلات کا سہارا
لیا گیا ہے ۔ (مقالات ۱/۲۷۹)
الجواب : حافظ ابوبکر جصاص الرازی ؒ (م ۳۷۰ ھ ) کی پوری عبارت
یہ ہے : یحتمل
أن یکون الاذن انصرف إلی اعتکافھن فی بیوتھن ، ویدل علیہ أنہ لما رأی ابنیتھن
فی المسجد ترک الاعتکاف فی المسجد حتی ترکن أیضاً وھذا یدل علی أن الاذن بدیا لم
یکن إذنا لھن فی الاعتکاف فی المسجد ۔ (احکام القرآن ۱/۳۰۴) اگر اثری صاحب کو حافظ ابوبکر الرازی ؒ کے اجتہاد پر اعتراض
ہے تو قریب قریب یہی بات تو امام شافعی ؒ (م ۲۰۴ ھ ) نے بھی اپنے قدیم
قول میں کہی ہے ، جس کو حافظ ابن حجر عسقلانی
ؒ ( م ۸۵۲ ھ ) نے نقل کیا ہے ، پھر اسی حدیث کی وجہ سے امام
خطابی ؒ (م ۳۸۸ھ ) نے عورت کیلئے ان کے گھروں اعتکاف کرنے کو جائز کہا ہے
، جس کے حوالے پہلے گزرچکے ، مگر سوال یہ ہے کہ بقول ارشاد الحق اثری صاحب کے ان حضرات
نے کسی مسلک کی تائید میں حدیث کی تاویل کی ہے ؟ پھر اہل حدیث عالم ، محدث شیخ
بدیع الدین شاہ راشدی صاحب حافظ ابوبکر الرازی ؒ کا حنفی کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں
کہ : ’’ ابوبکر الرازی لکھنوی نے تعلیقات السنیۃ میں مجتہد فی المذہب قرار دیا ہے ،
اس کی تفسیر بھی بتاتی ہے کہ وہ تقلید سے بالا تھے ۔ (تنقید السدید : ص ۳۴۳)
لہذا جب وہ خود اہل حدیث حضرات کے نزدیک حنفی نہیں تھے ، تو
مسلک کی کورانہ حمایت میں تاویلات والی بات کہاں تک صحیح ہے ، یہ آپ دیکھ رہے ہیں
۔
[19] بلکہ گھر ہی میں کرے، کیوں کہ آپ ﷺ نے صحابیہ کو اس لئے منع فرمایا تھا
کیونکہ اگر وہ مسجد میں اعتکاف کریں گی ، تو مردوں سے اختلاط اور بے پردگی کا اندیشہ
ہوگا ، لہذا حضور ؓ نے اجازت نہیں دی ، اس کے بالمقابل عورتوں کیلئے گھر میں اعتکاف
کرنا جائز ہے ، جیسا کہ امام خطابی ، امام شافعی ؒ وغیرہ اہل علم کے اقوال گزر چکے
، کیونکہ وہاں وہ مسجد سے زیادہ محفوظ اور پردہ میں رہے گی ، بلکہ افضل یہی ہے کہ عورت گھر
میں اعتکاف کرے اور قیاس بھی یہی کہتا ہے ۔
[20] (تنقید السدید : ص۳۴۳)
[21] پورے
گھر کی بجائے مسجد البیت یعنی گھر کی مسجد کی تعیین کی وجہ :
ارشاد الحق اثری صاحب اعتراض کرتے ہیں :
عورت کے لئے… پورے گھر کی چار
دیواری میں نماز پڑھنے کو علی حسب التستر افضل قرار دیا ہے ، اس میں گھر کی مسجد
مراد نہیں ، لیکن اعتکاف کیلئے جو خود علماء احناف نے گھر کی مسجد کو مخصوص کیا
ہے، یہ کس دلیل کی بنا پر ہے ؟ (ص ۲۷۶)
اس
کا جواب یہ ہے کہ :
قرآن شریف میں اعتکاف کو مسجد
میں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ {وانتم
عاکفون فی المساجد} (سورۃ البقرۃ/۱۸۷ )
یہاں لفظ مسجد عام ہے ، کسی بھی
مسجد میں اعتکاف کرنے سے اس حکم پر عمل ہوجائے گا۔
مگرعلماء نے اس میں تخصیص
کی ہے ۔
حضرت حذیفہ بن الیمان ؓ کے نزدیک
مسجد حرام ، مسجد نبوی ، اور مسجد اقصی ان تینوں مسجد وں میںہی اعتکاف کرنا جائز
ہے ۔
شیخ البانی کا بھی یہی قول ہے ۔
(الصحیحہ/۲۷۸۶)(قیام رمضان /۳۶)
امام زہری ؒ کے نزدیک جامع مسجد
ضروری ہے ۔
حضرت عطاء کے نزدیک مسجد حرام اور
مسجد نبوی میں ہی اعتکاف کیا جاسکتا ہے ۔
حضرت سعید بن المسیب ؒ کے نزدیک
صرف مسجد نبوی میں درست ہے ۔
وخصہ طائفۃ من السلف کالزھری بالجامع مطلقاً ۔۔۔۔
وخصہ حذیفۃ بن الیمان بالمساجد الثلاثۃ وعطاء بمسجد مکۃ والمدینۃ وابن المسیب
بمسجد المدینۃ ۔
(فتح الباری ۴/۲۷۲)
امام احمد ؒ کے نزدیک ایسی مسجد ضروری ہے جس میں
جماعت سے نماز ہوتی ہو۔ (المغنی ۳/۱۸۹)
امام مالک ؒ کے نزدیک ایسی مسجد
شرط ہے جس میں جمعہ کی نماز ہوتی ہو۔ (المدونۃ ۱/۲۹۸)
اسی طرح علماء احناف نے قرآنی
حکم کہ اعتکاف مسجد میں ہو ، کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا کہ:
اگر عورت گھر میں اعتکاف کرے تو اسی جگہ کرے جسے
حدیث میں عورت کی مسجد کہا گیا ۔
اس سے علماء احناف کی دقت نظر،
اور اعتراض کرنے والے کی کم علمی اور کوتاہ نظری ظاہر ہے ۔
[22]
شاہ
ولی اللہ محدث دہلوی ؒکو غیر مقلدین علماء ’اہل حدیث ‘ قرار دیتے ہے۔اس لئےیہاں ان
کو الزامی طور پر اہلحدیث عالم کہا گیا ہے۔ (عقیدہ اہل حدیث : ص ۱۱،سیرۃ سنائی : ص ۳۰۰،عقیدہ
توحید اور سلف کی خدمات : ص ۶۸)
[23] اگر چہ عورت کا مسجد میں اعتکاف کرنا غیر مفتی بہ قول ہے ، لیکن جہاں پر علماء نے جائز کہا ہے ، وہاں شرائط بھی لگائی ہے کہ عورت اپنے شوہر کی اجازت لے ، اور امام طحاوی ؒ (م ۳۲۱ ھ ) نے ایک اور شرط یہ بھی ذکر کی ہے کہ عورتیں اپنے شوہروں کے ساتھ اعتکاف کریں ۔ ان کے الفاظ یہ ہیں : قال ابوجعفر: إنما جاز لھن لأنھن کن مع أزواجھن ، وللمرأۃ أن تعتکف فی المسجد مع زوجھا کما تسافر معہ ۔ (مختصر اختلاف العلماء للطحاوی ۲/۴۹) لہذا صرف جواز کو نقل کرنا اور تمام شرائط کو نقل نہ کرنا یہ کونسی دیانت داری ہے ؟
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں