نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

استقر الامر علی عشرین رکعۃ (مسنون تراویح احادیث وسلف صالحین کے ارشادات کی روشنی میں) تحقيق ركعات التراويح في عهد الفاروق۔(کفایت اللہ کو جواب)

 

استقر الامر علی عشرین رکعۃ

(مسنون تراویح احادیث وسلف صالحین کے ارشادات کی روشنی میں)

مولانا نذیر الدین قاسمی

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

روایت نمبر ۴ :  ( مصنف عبد الرزاق کی حدیث پر اہل حد یثوں کے اشکال کا جواب)

امام عبد الرزاق الصنعانی ؒ  (المتوفی  ۲۱۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ

’’عن الاسلمی عن الحارث بن عبدالرحمن بن أبی ذباب عن السائب بن یزید قال ’’کنا ننصرف من القیام علی عہد عمر ؓ وقد دنا فروع الفجر ،وکا ن القیا م علی عہد عمر ثلاثۃ وعشرین رکعۃ ‘‘

سائب بن یزید ؓ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں فارغ ہوتے تھے تو فجر کا وقت قریب ہو چکا ہوتا تھا اور عمر فاروقؓ کے زمانے میں تیئس رکعت پڑھی جاتی تھی ۔(مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر:۷۷۳۳، اسنادہ حسن بالمطابعات)

اعتراض : اس بیس رکعت والی روایت میں الاسلمی ؒکو کفایت اللہ سنابلی ابراہیم بن محمد بن ابی یحیی ؒالمتوفی ۱۸۴؁ھ قرار دیتے ہیں۔ (مسنون تراویح )

الجواب : حارث بن عبدالرحمن بن ابی ذباب ؒکے شاگردوں میں الاسلمی ؒکے نام سے دو راوی ہیں۔

                ۱:ابراہیم بن محمد بن ابی یحیی الاسلمی ؒالمتوفی۱۸۴؁ھ۔

                ۲:محمد بن فلیح الاسلمی ؒالمتوفی ۱۹۷؁ھ۔ دیکھئے تہذیب الکمال جلد:۲۶صفحہ :۲۹۹

یہی وجہ ہے کہ مشہور غیر مقلد عالم عبدالمنان نور پوری صاحب نے اپنی کتاب’’ تعداد تراویح ‘‘میں انہیں دونوں راویوں کو امام عبدالرزاق کا استاذ بتایا ہے ۔(تعداد تراویح صفحہ ۳۴۳) اسکین  ملاحظہ فرمائے :

بغیر کسی مضبوط دلیل کے کفایت صاحب کا الاسلمی ؒسے مراد ابراہیم بن محمدبن یحیی الاسلمی المتوفی ۱۸۴؁ھ لینا باطل ومردود ہے۔

شبہہ:بعض لوگوں نے حافظ ابن حجر ؒ العسقلانیؒ المتوفی ۸۵۲؁ھ کا قول پیش کیا ہے کہ انہوں نے الاسلمی سے مراد ابراہیم بن محمد لیا ہے ۔حالانکہ حافظ ابن حجرؒ  کا پورا قول یہ ہے :  وقال عبدالرزاق فی مصنفہ أنا الاسلمی عن زید بن اسلم سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن العربان فی البیع فأحلہ وہذا ضعیف مع ارسالہ والاسلمی ہو ابراہیم بن محمد بن أبی یحیی (تلخیص الحبیر جلد ؛۳ صفحہ ۳۹)

                غور فرمائیے !حافظ ابن حجر ؒنے زید بن اسلم ؒ کی روایت میں بتایا ہے کہ الاسلمی سے مراد ابراہیم بن محمد بن یحیی مراد ہیں ۔نہ کہ حارث بن عبدالرحمن بن أبی ذباب ؒکی روایت میں ۔ لیکن بحث اس پر ہے کہ حارث بن عبدالرحمن بن أبی ذباب کی روایت میں الاسلمی کون ہیں ؟اس کے میں حافظ ؒنے کچھ بھی نہیں کہا لہذا اس سے دلیل پکڑنا ہی بے کار ہے ۔

اعتراض۔۲:کفایت صاحب کہتے ہیں کہ ابراہیم بن أبی یحیی کذاب ہے۔اور لکھتے ہیں کہ روایت کے موضوع (من گھڑت ہونے میں ہمیں کوئی شک نہیں ۔(مسنون رکعات تراویح صفحہ ؛۶۶)

الجواب ۔۱:اگر اہل حدیثوں کے  بقول الاسلمی سے مراد ابراہیم بن أبی یحیی ؒہوں تو اہل حدیثوں کا عموما اور کفایت صاحب کا خصوصا ان کو کذاب کہنا بے کار ہے ،کیونکہ اہل حدیثوں کے محدث

 (۱)           مولانا عبدالرحمن مبارک پوری ؒالمتوفی ۱۳۵۳؁ھ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ ’’فیہ ابراہیم بن محمد بن أبی یحیی فقد وثقہ جماعۃ منہم الشافعی ابن الاصبحانی وابن عدیوابن عقد ہ وضعہ آخرو ن قالہ القیم فی جلاء الافہام  ‘‘ اس روایت میں ابراہیم بن محمد بن أبی یحیی ہیں اور ان کو ایک جماعت نے ثقہ قرار دیا ہے ،جسمیں امام شافعی ؒ المتوفی ۲۰۴ ؁ھ، امام ہمدان بن الہیثم الاصبہانیؒ المتوفی ۳۰۱؁ھ ،امام احمد محمد بن عقبہ ؒ المتوفی ۳۳۲؁ھ ،امام ابن عدیؒ المتوفی ۳۶۵؁ھ اور کچھ دوسرے لوگوں نے ضعیف کہا ہے جیساکہ ابن القیم ؒنے جلاء الافہام میں کہا ہے ۔(تحفۃ الاحوذی جلد؛۴صفحہ ؛۹۳)  معلوم ہوا کہ خود فرقہ اہل حدیث کے محدث مولانا عبدالرحمن مبارک پوری ؒ کے نزدیک ابراہیم بن محمد بن أبی یحیی کذاب نہیں ہیں ۔

نوٹ :مولانا عبد الرحمن مبارک پوری ؒ کا ایک اور قول انکی ایک کتاب القول السدید کے حوالے سے آگے آرہاہے ۔

 (۲)           مشہور اہل حدیث عالم مولانا شمس الحق عظیم آبادیؒ نے بھی یہی بات کہی ہے ۔(عون المعبود جلد:۸ صفحہ :۳۵۰)

 (۳)          اسی طرح ایک اور اہل حدیث عالم مولانا عبیداللہ مبارکپوری ؒایک روایت جس میں ابراہیم بن محمد بن أبی یحیی موجود ہیں اس کا دفاع کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ ’’قلت (ہو قول السیوطی ) کان الشافعی یوثقہ  والحدیث اخرجہ ابن ماجہ ، والحق فیہ أنہ لیس بموضوع۔‘‘ میں کہتا ہوں (امام سیوطی ؒ کا قول یہ ہے ) کہ امام شافعی ؒ ابراہیم بن أبی یحیی ؒ کو ثقہ کہتے تھے اور امام ابن ماجہ نے اس کی تخریج کی ہے ۔اور اس بات میں حق یہ ہے کہ وہ روایت جسمیں ابراہیم بن ابی یحیی ؒ موجود ہیں وہ موضوع نہیں ہے ۔(مرعات شرح مشکوۃ جلد ؛۵ صفحہ ؛۲۸۳) معلوم ہواکہ اس اہل حدیث عالم کے نزدیک بھی ابراہیم بن ابی یحیی ؒ کذاب نہیں ہیں تبھی تو اس کی روایت کو موضوع نہیں کہا ۔

 (۴)          قاضی شوکا نی غیر مقلد لکھتے ہیں کہ ’’فی اسنادہ ابراہیم بن محمد بن ابی یحیی  وہو ضعیف وان کا ن حجۃ عند الشافعی والحدیث یدل علی ان التیمم ضربۃ واحدۃ ‘‘ اس روایت کی سند میں ابراہیم بن محمد بن أبی یحیی ؒ ہیں اور وہ ضعیف ہیں اگرچہ امام شافعی ؒ کے نزدیک وہ حجت ہیں ۔اور تیمم میں ایک ضرب کے ہونے پر حدیث دلالت کرتی ہے ۔(نیل الاوطار جلد؛۱ صفحہ ؛۳۲۸)

(۵)          مصر کے اہل حدیث عالم شیخ مصطفی العدوی صاحب نے ابراہیم بن أبی یحیی ؒکی اسی بیس رکعت والی روایت کو ضعیف تو کہا ہے لیکن موضوع  (من گھڑت )نہیں کہا۔(عدد رکعات قیام اللیل صفحہ ؛۴۱)

                یہ خود فرقہ اہل حدیث کے علماء ہوئے جو ابراہیم بن یحیی کو کذاب نہیں مانتے ،نیز اتنا ہی نہیں بلکہ  جمہور فقہا ء و محدثین کے نزدیک بھی ابراہیم بن ابی یحیی ؒالمتوفی ۱۸۴؁ھ ضعیف ہی ہیں کذاب ہرگز نہیں ، بلکہ بعض کے نزدیک تو ثقہ ہیں جسکی تفصیل یہ ہے۔۔

(۱)           امام محمد بن ادریس الشافعی ؒ المتوفی ۲۰۴؁ھ فرماتے ہیں ۔۔وکان ثقۃ فی الحدیث ۔ کہ ابراہیم  بن ابی یحیی ؒ حدیث میں ثقہ ہیں ۔

(۲)           امام ابن عدی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ قال الشیخ سألت احمد بن محمد بن سعید فقلت تعلم أحد أحسن القول فی ابراہیم بن أبی یحیی غیر الشافعی ،فقال لی نعم حدثنا أ-حمد بن یحیی الاودی قال سألت حمدان بن الاصبہانی یعنی محمد افقلت أتدین بحدیث ابراہیم بن ابی یحیی ؟فقال نعم ۔‘‘ میں نے احمد بن محمد بن سعید ؒ (جو کہ امام ابن عقبہ  ؒ ہیں ان سے ) پوچھا کہ کیا آپ  امام شافعیؒ کے علاوہ ابراہیم بن ابی یحیی ؒ کے بارے میں کسی ایک کا اچھا قول جانتے ہیں ؟تو امام ابن عقبہ ؒ نے مجھ سے کہا کہ :ہاں پھر فرمایا کہ

 ہمیں احمد بن یحیی الاودی ؒ نے بیان کیا کہ میں نے امام حمدان بن الاصبہانی ؒ المتوفی ۳۰۱؁ھ سے سوال کیا کہ کیا ابراہیم بن ابی یحیی ؒ کی حدیثوں کو معتبر سمجھتے ہیں تو امام حمدان بن الاصبھانی ؒ نے کہا :ہاں۔

 (۳)          امام احمد بن محمد بن عقبہ ؒ المتوفی ۳۳۲؁ھ فرماتے ہیں کہ ’’ نظرت فی حدیث ابراہیم بن ابی یحیی کثیرا ولیس ہو بمنکر الحدیث ۔ ‘‘ میں نے ابراہیم بن ابی یحیی ؒکی حدیثوں میں بہت غور کیا ہے اور وہ منکرالحدیث نہیں ہیں ۔

(۴)          امام ابن عدی ؒ المتوفی۳۶۵؁ھ فرماتے ہیں کہ ’’وقد نظرت انا ایضا فی حدیثہ الکثیر فلم اجد فیہ منکرا الا عن شیوخ یحتملون ،وقد حدث عنہ ابن جریج والثوری وعباد بن منصور ومندل وابوا یوب و یحیی  بن ایوب المصری وغیرہم من ا لکبار  ،وقد نطرت انا فی احادیثہ وتبحرتہا وفتشت الکل منہا فلیس فیہا حدیث منکر ، وانما یروی المنکر اذا کا ن العہدۃ من قبل الراوی عنہ او من قبل من یروی ابراہیم عنہ وکأنہ أتی من قبل شیخہ لامن قبلہ ،وہو فی جملۃ من یکتب حدیثہ وقد وثقہ الشافعی وابن الاصبہانی وغیرہما ‘‘ میں نے ان کی بہت سی حدیثوں میں غور کیا تو میں نے اس میں کسی ایک حدیث کو منکر نہیں پایا مگر مشتبہ شیخ سے ۔ اور ان سے ابن جریج ، سفیان ثوری ، عباد بن منصور، مندل ، ابو ایوب اوریحیی بن ایوب المصری رحمہم اللہ وغیرہ بڑے بڑے لوگوں نے ان سے روایت کیا ہے ۔  ایک اور مقام پر ابن عدی ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کی حدیثوں میں غور کیا ،گہرائی سے دیکھا ،اور ان کی تمام احادیث کی تحقیق کی تو ان کی کوئی حدیث منکر نہیں ملی ۔

اور ان کی روایت منکر تب آتا تھا جب کہ اس سے روایت کرنے والے کی  بات ہو ،یعنی منکر والی بات امام ابن ابی یحیی کی وجہ سے نہیں ہوتی تھی بلکہ ان سے روایت کرنے والے کی وجہ سے ہوتی تھی ۔  اور وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی حدیثیں لکھی جاتی ہیں،اور اس میں شک نہیں کہ امام شافعی ؒ اور امام ابن الاصبہانی ؒ وغیرہ نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے ۔(الکامل لابن عدی جلد؛۱ صفحہ ؛۳۵۷،۳۵۸،۳۶۷)

(۵)          امام دار قطنی ؒالمتوفی ۳۸۷؁ھ بھی ابراہیم بن ابی یحیی ؒ کو ضعیف کہتے ہیں (سنن دار قطنی جلد ؛ ۱ صفحہ ؛ ۶۲)

(۶)           امام بیہقی  ؒ المتوفی ۴۵۸؁ھ بھی ابراہیم بن ابی یحیی  کے بارے میں  اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ قد اختلف الحفاظ فی عدالتہ ‘‘ حفاظ نے  ان کی عدالت کے بارے میں اختلاف کیا ہے (سنن کبری للبیہقی جلد ؛۱ صفحہ ؛۲۰۵)                                                                  ایک اور مقام پر تفصیل سے امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ مختلف فی ثقاہتہ وضعفہ أکثر أہل العلم بالحدیث وطعنوافیہ وکان الشافعی یبعدہ عن الکذب ،قا ل الشافعی:لان یخر ابراہیم من بعد أحب الیہ من ان یکذب ،وکان ثقۃ فی الحدیث ۔وقال ابو احمد ۔ابن عدی ۔:قد نظرت انا فی احا دیثہ فلیس فیہا حدیث منکر ،وانما یروی المنکر اذا کان العہدۃ من قبل الراوی عنہ او من قبل من یروی ابراہیم عنہ‘‘ ان کی ثقاہت اور ضعف کے بارے میں اختلاف ہے ،اکثر علماء نے ان کو ضعیف قرار دیا ہے اور حدیچ کے سلسلے میں ان پر طعن کیا ہے ۔امام شافعی ؒ ان کو کذب سے بری قرار دیتے ہیں،امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ ابراہیم بن یحیی گر پڑے یہ مجھے زیادہ پسندیدہ ہے اس بات سے کہ وہ جھوٹ بولے۔(میں نہیں سمجھتاکہ وہ جھوٹ بولیں گے ) اور وہ حدیث میں ثقہ ہیں ۔ اما م ابن عدی ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کی احادیث کو غور سے دیکھا ہے اس میں کوئی حدیث منکر نہیں ہے ،اور ان کی روایت میں منکر تب آتاہے جب کہ اس سے روایت کرنے والے کی بات ہو، یعنی منکر والی بات ابراہیم بن ابی یحیی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان سے روایت کرنے والے کی وجہ سے ہوتی ہے ۔یا جن سے ابراہیم بن ابی یحیی ؒ نے روایت نقل کی ہے ان کی وجہ سے روایت منکر ہوتی  ہے۔(سنن کبری للبیہقی جلد ؛۱ صفحہ ؛۳۷۸)

(۷)          امام ابو عبد الملک بن عبد البر ؒ المتوفی ۳۳۸؁ھ فرماتے ہیں کہ ’’قال ابو عبد الملک بن عبد البر فی ’’تاریخ قرطبۃ ‘‘روی عنہ بقی بن مخلد ،وکان من اکبر الناس  فی ابن عیینۃ ،وبقی لایروی الا عن ثقۃ عندہ‘‘ بقیہ بن مخلدؒ نے ابراہیم محمد ؒ سے روایت کیا ہے، وہ ابن عیینہ ؒکے بڑے شاگردوں میں سے ہیں  اور بقیہ صرف  ثقہ ہی سے روایت کرتے تھے ۔(تاریخ قرطبہ  بہ حوالہ اکمال تہذیب الکمال جلد ؛۱صفحہ ؛۲۸۵)

اسی طرح ۔۔۔

(۸)          امام عجلی ؒ المتوفی ۲۶۱؁ھ

(۹)           امام ابو احمد الحاکم ؒ  المتوفی  ۳۷۴؁ھ

(۱۰)         امام ابو ذرعہ الرازیؒ  المتوفی    ۲۸۱؁ھ

(۱۱)          امام یعقوب بن سفیان ؒ  المتوفی  ۲۷۷؁ھ

(۱۲)         امام ابن سعد ؒ  المتوفی   ۲۳۰؁ھ  ان سب حضرات نے ابراہیم بن ابی یحییی ؒ پر جرح تو کی ہے پر کسی نے ان کو کذاب نہیں کہا ہے ۔(تہذیب التہذیب جلد ؛صفحہ ۱۵۹)

امام ابن القطان ؒ المتوفی  ۶۲۸؁ھ (اپنی علل میں ) فرماتے ہیں کہ : قد کان من الناس من احسن الرأی فیہ منہم الشافعی وابن جریج ۔ ابراہیم بن ابی یحیی کے بارے میں اچھی رائے رکھنے والے لوگوں میں امام شافعی  ؒ اور

(۱۳)         امام ابن جریج  ؒ المتوفی   ۱۵۰؁ھ ہیں۔ (کتا ب  العلل لابن قطان  بہ حوالہ  البدر المنیر جلد ؛۱ صفحہ ؛ ۴۴۱)

باوجود ان پر شدید جرح نقل کرنے کے 

(۱۴)         امام ذہبی  ؒ المتوفی  ۷۴۸؁ھ

(۱۵)         امام ابن حجر عسقلانی  ؒ المتوفی  ۸۵۲؁ھ ان کو کذاب نہیں کہتے۔(میزان الاعتدال ؛جلد ؛ ۱ صفحہ ۵۷،،تقریب التہذیب رقم : ۲۴۱)

مزید امام ذہبی  ؒ نے ابراہیم بن ابی یحییی کو عالم، محدث ، شیخ ، فقیہ اور علماء  میں سے قرار دیتے ہیں ۔(سیر اعلام النبلاء جلد؛۸ صفحہ ؛۴۵۰)

(۱۶)         حافظ ابن عبدا لہادیؒ المتوفی ۷۴۴؁ھ نے بھی ضعیف کہا ہے ۔(تنقیح التحقیق جلد ؛۴)  الغرض یہ کچھ فقہا ء ومحدثین ہیں جنہوں ابراہیم بن ابی یحیی ؒ پر جرح تو کی ہے لیکن ان کو کذاب نہیں قرار دیا ہے ۔جبکہ بعض نے ان کی توثیق بھی کی ہے ۔

نوٹ ۔ ۱ :  جہاں تک بعض محدثین کا ابراہیم بن ابی یحیی کو کذاب کہنے کی بات ہے ، تو ہماری تحقیق کے مطابق امام مالک ؒ نے انہیں سب سے پہلے کذاب قرار دیا ہے ۔(الکامل جلد؛۱ صفحہ ؛۳۵۳)

اور خود کفایت صاحب کے فرقے کے عالم ارشاد الحق اثری صاحب محمد بن  اسحق ؒ المتوفی ۱۵۰؁ھ پر  امام مالک ؒ کی جرح کا جوب دیتے ہوئے ایک قاعدہ بیان کیا ہے ،وہ لکھتے ہیں ۔۔۔۔’’امام مالک ؒ اہل حجاز میں سے ہیں اور ان کے متعلق امام ابن حبان ؒ نے تصریح کی ہے کہ اہل حجاز خطا پر بھی کذب ( جھوٹ) کا اطلاق کرتے ہیں ۔بلکہ علامہ محمد مرتضی زبیدی ؒ نے التوشیح کے حوالے سے لکھا ہے کہ باقی لوگوں نے بھی  اس میں اہل حجازکی پیروی کی ہے ،اور مولانا ظفر احمد تھانوی ؒنے انہاء السکن میں بھی اسی قول کا ذکر کیا ہے ۔علامہ انور شاہ کشمیری ؒ نے لکھا ہے کہ ائمہ جرح و تعدیل ایک خطا پر کاذب کا اور متعدد خطاؤں پر کذاب کااطلاق کرتے ہیں۔(توضیح الکلام صفحہ :۲۲۹)

اسکین  :

لہذ ا اہل حدیث حضرات کے نزدیک جب یہ اصول ہے کہ اہل حجاز غلطیوں پر بھی کذاب کا لفظ استعمال کرتے ہیں ،اور اس میں باقی لوگ بھی ان کی پیروی کرتے ہیں تو خود اہل حدیث حضرات کے اصول کی روشنی میں ۔۔امام مالک ؒکا ابراہیم بن ابی یحیی ؒ کو کذاب کہنا بھی خطا اور غلطی پر محمول ہوگا ،کیونکہ امام مالک ؒ اہل حجاز مدینہ کے فقیہ اور عالم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دوسرے محدثین نے بھی اس میں اہل حجاز (امام مالک ؒ) کی اتباع کی ہے۔

نوٹ -۲:  یاد رہے کہ دوسرے محدثین نے ان کو متابعت اور شواہد میں قابل قبول مانا ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔

 لہذا کفایت صاحب کا اسے کلی طور سے کذاب کہنا مردود ہے اور ان کا ایسے اعتراضا ت کرنا گویا اپنے ہی اصول سے ناواقفیت کی دلیل دیناہے ۔یہی وجہ کہ امام ذہبی ؒ المتوفی  ۷۴۸؁ھ فرماتے ہیں کہ ’’ قلت ماکان ابن ابی یحیی فی وزن من یضع الحدیث ‘‘ ابراہیم بن محمد بن ابی یحیی  ؒموضوع حدیث گھڑنے والے نہیں تھے ۔(تذکرۃ الحفاظ جلد ؛۱ صفحہ؛۱۸۱) لہذا ان کے بارے میں صحیح قول یہی ہے کہ وہ کذاب نہیں ہے اور کفایت صاحب کا ان کی حدیث کو موضوع کہنا مردود ہے ۔

اہل حدیث عالم مولانا عبدالرحمن مبارک پوریؒ کا ابراہیم بن ابی یحیی کے بارے میں فتوی  :

 اہل حدیثوں کے محدث مولانا عبدالرحمن مبارک پوریؒ اسی راوی کے بارے میں اپنا فیصلہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ان کی کسی حدیث کو استشہاداً ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں‘‘ (القول السدید صفحہ ؛۳۷)

اسکین   :

یعنی اہل حدیث عالم مبارک پوری صاحب کے نزدیک ابراہیم بن ابی یحیی  ؒ کی روایت شاہد کے طور پر سپورٹ کے طور پر ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔لہذا جب ان کی حدیث کو سپورٹ کے طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے تو ابراہیم ؒ کی بیس رکعت والی روایت کو بھی شاہد کے طور پر ذکر کیا جاسکتا ہے ۔الغرض کفایت صاحب کا اعتراض ان کے اپنے ہی عالم کے اصول کی روشنی میں باطل ومردود ہے ۔

محدثین کا ابراہیم بن ابی یحیی کے بارے میں  فیصلہ :

(۱)           امام مغطائی  ؒ المتوفی  ۷۶۲؁ھ فرماتے ہیں کہ ۔۔خرج الحاکم حدیثہ فی الشواہد من کتاب الجنائز

(۲)           امام حاکم ؒ المتوفی  ۴۰۵؁ھ  نے ان کی حدیث کو شواہد میں ذکر کیا ہے کتاب الجنائز میں (اکمال تہذیب الکمال جلد ؛۱صفحہ ؛ ۲۸۵) معلوم ہوا کہ امام حاکم ؒ کے نزدیک ان کی روایت کو شواہد میں ذکر کیا جا سکتاہے ۔نیز امام مغطا ئی ؒ   نے امام حاکم ؒ کا منہج ذکر کیا ہے اور سکوت کے ذریعہ اس کی تائید کی ہے ۔اور علی زئی صاحب کے اصول کے مطابق امام مغطائی ؒ کے نزدیک بھی ابراہیم ؒ کو شواہد میں ذکر کیا جا سکتا ہے ۔(انوار الطریق صفحہ ۸)

(۳)          ایک حدیث میں حضور    نے فرمایا ہے کہ خلق اللہ الارض یوم السبت والجبال یوم ا لاحد  والشجر یوم الاثنین والمکروہ یوم الثلثاء والنور یوم الاربعاء والدواب یوم الخمیس وآدم یوم الجمعۃ ۔ اللہ تعالی نے زمین کو ہفتہ کے دن  پیدا کیا  اور پہاڑ کو اتوار کے دن پیدا کیا اور درختوں کو پیر کے دن پیدا کیا اور نا پسند چیزوں کو منگل کے دن پیدا کیا اور چوپایوں کو جمعرات کے دن پیدا کیا اور حضرت آدم ؑ کو جمعہ کے دن پیدا کیا ۔ اس روایت کی سند میں ابراہیم بن ابی یحیی ؒ موجود ہیں لیکن پھر بھی امام حاکم ؒ نے اس روایت کو متصل کہنے کے بعد فرمایا ہے کہ ’’وانما ذکرتہا لیستدل بشواہدہا علیہا ان شاء اللہ ‘‘ اور میں نے اس حدیث کو اس لئے ذکر کیا ہے تاکہ اس کے شواہد کے ذریعے  اس سے استدلال کیا جائے ،ان شاء اللہ ۔(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم صفحہ ۳۳)

(۴)          امام سخاوی ؒ المتوفی  ۹۰۲؁ھ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔(العجالہ للفادانی صفحہ ؛۱۴ ،،ولفظہ الغایہ للشوکانی)

اسی طرح ابراہیم بن ابی یحیی ؒ کی ایک دوسری حدیث  تقویت  دینے کے لئے

(۵)          امام بیہقی ؒ المتوفی  ۴۵۸؁ھ نے ابراہیم  بن ابی یحیی کے تفرد پر ابن المدینی ؒ کے اعتراض کا جواب دیا ہے ۔(الاسماء والصفات جلد ؛۲ صفحہ ؛۲۵۶ )

(۶)           اسی طرح امام ابن حجر ؒ  المتوفی  ۸۵۲؁ھ ایک روایت میں ابراہیم ؒ کے تفرد کا دفاع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’  أما ابراہیم بن ابی یحیی الراوی عنہ فلم ینفرد بہ بل تابعہ علیہ عبد اللہ بن عبداللہ الاموی  أخرجہ البیہقی والدارقطنی  ‘‘ جہاں تک ابراہیم بن ابی یحیی ؒ کی ان سے روایت کرنیکی  بات ہے تو ابراہیم اس روایت میں منفرد ہیں بلکہ عبداللہ بن عبداللہ الاموی ؒ نے ان کی متابعت کی ہے جس کی امام بیہقی ؒاور امام دارقطنیؒ  نے تخریج کی ہے۔(تلخیص الحبیر جلد ؛۲ صفحہ ؛۴۵۹) یہ کلام بھی بتارہا ہے کہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کے نزدیک ابراہیم بن ابی یحیی ؒمتابعت میں مقبول ہیں ۔کیونکہ انہوں نے خود ایک روایت میں ان کے تفردکا دفاع کیا تاکہ ان کی روایت کو دوسری سند سے تقویت دیا جا سکے ۔

وضاحت : محدثین کے منہج سے یہ بات بالکل واضح ہو رہی ہے کہ ابراہیم ابی یحیی ؒ کی روایت کا جب کوئی متابع یا شاہد موجود ہو تو ان کی روایت بھی مقبول ہو جاتی ہے ۔ اور ابراہیم بن ابی یحییؒ کی بیس رکعت تراویح  والی روایت کے کئی صحیح متابعات موجود ہیں ۔ لہذا متابعات کی وجہ سے ان کی یہ روایت حسن ہوگی ۔

الجواب -۲ : اگر ابراہیم بن یحیی ؒ کو کذاب مان لیں تو بھی کفایت صاحب کا اس روایت پر اعترض باطل ہے۔کیونکہ آٹھ رکعت تراویح کی روایت میں ایک راوی محمد بن حمید الرازی ہیں جس کو خود کفایت صاحب کذاب کہتے ہیں۔(مسنون رکعات تراویح صفحہ ؛۴۹) لیکن اس راوی کی روایت پر اعتراض کا جواب دیتے ہوئے زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں کہ  اس حدیث کو یعقوب بن عبداللہ القمی سے محمد بن حمید کے علاوہ اور بھی بہت سے راویوں نے بیان کیا ہے پھر ان راویوں کا نام ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ سارے راوی ثقہ و صدوق ہیں ،لہذا محمد بن حمید پر اعتراض غلط ومردود ہے ۔(تعداد رکعات قیام رمضان صفحہ : ۱۹)

 اسکین  :

                الغرض جب محمد بن حمید الرازی  اہل حدیثوں کے نزدیک کذاب ہونے کے باوجود صرف متابعت کی وجہ سے ان کی روایت صحیح ہو سکتی ہے ،تو پھر اہل حدیث حضرات کے اسی اصو ل کی روشنی میں ابراہیم بن ابی یحیی ؒ کی بھی روایت کی متابعات ہونے کی وجہ سے کم سے کم حسن تو ضرور ہوگی۔ اس لحاظ سے  بھی کفایت صاحب کا اعتراض باطل ومردود ہے ۔

آخری بات :کفایت صاحب کی بات اپنے ہی اصول کی روشنی میں

کفایت صاحب خود لکھتے ہیں کہ جب مطلقا کسی کے کذاب ہونے بات کہی جائے  تو حقیقی معنی ہی مراد ہونگے مگر یہ کہ کوئی قرینہ مل جائے ۔(مسنون رکعات تراویح صفحہ ۴۵)

ہم کہتے ہیں کہ ابراہیم بن ابی یحیی ؒ کو کذاب نہ کہنے کا قرینہ یہ ہے کہ ان کی  بیس رکعت والی روایت کے کئی صحیح متابعات موجود ہیں ۔ لہذا ان کے اپنے اصول کی روشنی میں ہی ان کا اعتراض باطل و مردود ثابت ہوا ۔

البانی صاحب کا الزامی طور پر ایک حوالہ :

ممکن ہے کہ کفایت صاحب ہمارے قرینے کا رد کر دیں اس ہم البانی صاحب کا ایک حوالہ ذکر کر رہے ہیں:علامہ البانی ؒ  نے ابراہیم بن عثمان ابو شعیبؒ جنکو کفایت صاحب کذاب کہتے ہیں (مسنون رکعات تراویح صفحہ ؛۴۳) اس ابراہیم بن عثمان ؒ کی ایک روایت کو البانی ؒحسن نہیں صحیح کہہ رہے ہیں  ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر :۱۴۹۵) اسکین  ملاحظہ فرمائے :

                کفایت صاحب !کیا وجہ ہے کہ آپ کے محدث البانی صاحب نے آپ کے بہ قول ایک کذاب کی روایت کو صحیح کہہ رہے ہیں ۔ پس جو جواب آپ اس روایت کا دیں گے وہی ہماری طرف سے ابراہیم بن ابی یحیی ؒ کے بارے میں ہو گا ۔                                                            خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابراہیم بن ابی یحیی ؒ پر کذاب کا الزام اس بیس رکعت والی روایت میں مردود ہے ۔اور ان کی یہ روایت متابعات کی وجہ سے حسن درجہ کی ہے۔ واللہ اعلم

روایت نمبر ۵ :

یزید بن رومانؒ کہتے ہیں کہ ’’ كان الناس يقومون في زمان عمر بن الخطاب في رمضان بثلاث وعشرين ركعة ‘‘  لوگ حضرت عمرؓ کے زمانے میں۲۰ رکعات (تراویح ) اور ۳ رکعات وترپڑھتے تھے۔(مؤطا امام مالک  : ۱/۱۱۵)

اعتراض : سنابلی صاحب  اسے منقطع قرار دیتے ہے۔ (مسنون رکعات التراویح : ۹۸)

الجواب :  یہ روایت مرسل ہے اور مرسل روایت جمہور فقہاء ومحدثین(امام اعظم ابو حنیفہ ؒ، امام مالکؒ ،امام اوزاعیؒ، امام احمدؒ (مشہور روایت کے مطابق) ، امام سفیان ثوریؒ وغیرہ حضرات )کے نزدیک حجت ہے۔ (تدریب الراوی ، ۱/ ۱۰۳ ، نخبۃ الفکر ، ص: ۲۵۷، شرح مسلم للنووی ، ۱/۳۰ ،الکفایہ فی علم الروایہ للخطیب ،ص: ۳۸۴ ،فتح المغیث ،۱/ ۲۴۶،ط، رسالہ ابی داؤد الی اہل مکہ، ص: ۲۴،ط، دار العربیہ بیروت)

البتہ امام شافعی ؒ اور ان کے ہم فکر محدثین کے نزدیک مرسل روایت حجت نہیں ، لیکن ان کے نزدیک مرسل معتضد حجت ہے یعنی اس مرسل کی تائید کسی دوسرے مرسل یا مسند سے ہو۔(شرح مسلم للنووی، ۱/۳۰، نزہۃ النظر لابن حجر ،ص: ۲۲۰) لہذا یہ روایت بھی دوسرے مرسل اور مسند  روایات کے ساتھ مل کر محدثین کے نزدیک قابل حجت ہوتی ہے۔ اسی طرح  مرسل معتضد اہل حدیثوں کے نزدیک حجت ہے۔[1] لہذا سنابلی صاحب کا اسے منقطع بتاکر رد کرنا انکے اپنے مسلک کے اصول کی روشنی میں ہی مردود ہے۔

 

روایت نمبر ۶ :

یحییی بن  سعید انصارىؒ کہتے ہیں کہ ’’ أن عمر بن الخطاب أمر رجلا يصلي بهم عشرين ركعة ‘‘ حضرت عمر ؓ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ ۲۰ رکعات (تراویح)پڑھائیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ،  حدیث نمبر : ۷۷۶۴، و اسنادہ صحیح  مرسل لکن حجۃ کما مر)

روایت نمبر ۷ :

ابن ابی ملیکہ ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ بلغني أن عمر بن الخطاب أمر عبد الله بن السايب المخزومي حين جمع الناس في رمضان أن يقوم بأهل مكة ‘‘ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عمرؓ بن خطاب نے عبد اﷲ بن سائب مخزومیؓ کو حکم دیا جس وقت کہ لوگوں کو رمضان میں جمع کیا کہ وہ اہل مکہ کو نماز (تراویح)پڑھائے ، راوی (نافع بن عمرؒ) کہتے ہیں کہ ’’ بلغني أن قيام عبد الله بن السائب وابن أبي مليكة عشرين ركعة، عشرين ركعة ‘‘ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ عبد اﷲ ؓ  اور ابن ابی ملیکہ ؒ کا قیام ۲۰ہی رکعات تھا۔(طبقات الکبری لابن سعد، الطبقۃ الرابعۃ من الصحابہ:ص۱۶۰،ط، مکتبہ صدیق ، سعودیہ) یہ روایت کی سند میں ’أبو بكر بن محمد بن أبي مرة المكي‘ ہے جن کے حالات نہیں ملے۔مگرمتابعات کی وجہ سے اس کی سند ’حسن‘ ہے۔ واللہ اعلم

الغرض ان تمام صحیح روایات سے معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ ۲۰ رکعات تراویح کا حکم فرمایاتھااور۲۰ رکعات کا ہی معمول حضرت عمرؓ کے دور میں تھا۔ اسی کو امت نے قبول کیا۔اسی طرح ایک اور روایت محمد بن کعب القرظی ؒسے بھی یہی بات مروی ہے کہ ’’كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً يُطِيلُونَ فِيهَا الْقِرَاءَةَ وَيُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ ‘‘۔( مختصر قیام اللیل للمروزی،ص: ۲۲۰،ط، حدیث اکیڈمی پاکستان)[2]

لہذا صحیح اور راجح بات یہی ہے کہ  حضرت عمرؓ ۲۰ رکعات تراویح کا حکم فرمایاتھا اور اہل حدیث حضرات کا اس کا انکار کرنا باطل اور مردود ہے۔


[1] مرسل معتضد یعنی جب مرسل کی تائید کسی دوسری مرسل یا مسند سے ہوجائے ، تو اسے مرسل معتضد کہتے ہیں  اور یہ مرسل معتضد اہل حدیثوں کے نزدیک حجت ہے :

                ۱  -  اہل حدیث محدث ، مولانا عبد الرحمن مبارکپوری ؒ ابوقلابہ ؒ کی مرسل کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ تمام محدثین کے نزدیک مرسلِ معتضد حجت ہے ۔ (ابکار المنن ، صفحہ /۴۷۱-۴۷۲)

                ۲  -  غیر مقلد محقق عبد الرؤف صاحب لکھتے ہیں کہ : یہ مرسلاً مروی ہے اور یہ حدیث اپنے شواہد کی بناء پر صحیح ہے ۔ ( القول المقبول /۶۲۱)

                ۳ - قاضی شوکانی  ؒ (م ۱۲۵۰؁ھ ) فرماتے ہیں کہ ’’ھذا وإن کان مرسلا لکنہ معتضد بما سبق ‘‘ اگر چہ یہ روایت مرسل ہے ، لیکن سابقہ روایات سے معتضد اور مؤید ہے ۔ (نیل الاوطار  ۷/۹۲)

                ۴  -  مولانا صادق سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں کہ  گویا یہ حدیث مرسل ہے ، لیکن دوسری مستند احادیث سے مل کر قوی ہوگئی ہے ۔(صلاۃ الرسول /۳۴۰)

                ۵  -  مولانا رئیس ندوی سلفی صاحب لکھتے ہیں کہ :  مرسل حدیث احناف ومالکیہ کے نزدیک مطلقاً حجت ہے ، اور دوسرے اہل علم کے نزدیک بعض شرائط کے ساتھ حجت ہے ، جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دوسری متصل سند سے ، خواہ ضعیف ہو مروی ہو۔ (نماز ِ جنازہ اور اس کے مسائل /۴۶)

                ۶- علامہ الالبانی  ؒ کے نزدیک بھی مرسلِ معتضد حجت ہے ۔ (دیکھئے ص  )

                ۷- اہل حدیثوں کے ’امیر المومنین فی اسماء الرجال‘ علامہ معلمی ؒ بھی مرسلِ معتضد حجت مانتے ہے۔ (آثار الشيخ العلامة

عبد الرحمن  بن يحيي المعلمي: ج۵ : ص ۱۱۲)

[2] اس کی سند نہیں ملی۔



ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

 سکین کیلئے 
الاجماع (PDF )
 دیکھیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...