نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

عیدین کی رات میں عبادت کرنے کی فضیلت ثابت ہے۔

 

عیدین کی رات میں عبادت کرنے کی فضیلت ثابت ہے۔

مفتی ابن اسماعیل المدنی

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

سوال : کیا عیدین کی رات میں عبادت کرنے کی کوئی خاص فضیلت ثابت ہے ؟ فرقہ اہل حدیث والے کہتے ہیں کہ اس رات میں عبادت کرنے کی کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں، اس لئے یہ بدعت ہے ۔

الجواب : حامداً ومصلیاً ومسلماً: عیدین کی راتوں کو، ذکر اللہ ، نماز ، تلاوت قرآن مجید، استغفار وغیرہ طاعات کے ذریعہ زندہ کرنا مستحب ہے ۔

چنانچہ امام ابن ماجہؒ (م۲۷۳ھ) اپنی  ’’سنن‘‘ میں فرماتے ہیں کہ

                حدثنا ابو احمد المرار بن حمویہ، قال حدثنا محمد بن المصفی، قال حدثنا بقیۃ بن الولید ، عن ثور بن یزید ، عن خالد بن معدان، عن أبی امامۃ عن النبیﷺقال: من قام لیلتی العیدین محتسباً للہ لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب ۔

                 نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : جو عیدین کی رات کو قیام کرے گا ، (اور بعض روایتوں میں عیدین کی راتوں کو زندہ کرنے کا لفظ آیا ہے ) اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید کرتے ہوئے، اس کا دل اس دن نہیں مرے گا ،جس دن کے دل مر دہ ہوجائیں گے ۔ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔(حدیث نمبر ۱۷۸۲)

 لیکن بقیہ بن الولیدؒ (م۱۹۷ھ)  کی وجہ سے اس حدیث کی سند پر محدثین نے کلام کیا ہے ۔اور وہ کلام یہ ہے کہ ان کی عادت تھی کہ وہ سند کے ضعیف راویوں کو چھپالیتے تھے ۔  اور اسی بات کو بہانہ بنا کر فرقہ اہل حدیث والے کہتے ہیں کہ عیدین کی رات میں عبادت کرنے کی کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں۔                          ہم ان شاء اس کے دس جوابات دیں گے ۔

جواب  نمبر ۱  یہ ہے کہ :

بقیہ بن الولید کی تدلیس کی وجہ سے محدثین نے ان پر کلام کیا ہے، لیکن اسی حدیث میں بقیہ بن الولید کے استاد کے استاد خالد بن معدانؒ(م۱۰۳؁ھھ)  جو کہ تابعی (یعنی صحابی کے شاگرد ) ہیں ان سے یہی حدیث دوسری صحیح   سند سے بھی منقول ہے ۔ دیکھئے: (فضائل شھر رجب للخلال ،حدیث نمبر  ۱۷)                   اس  روایت کے الفاظ یہ ہیں :’’ قال ابو محمد الخلال[1] حدثنا عمر بن أحمد بن هارون المقرئ[2]   ثنا أحمد بن الحسن الفقيه[3] ثنا الحسن بن علي [4]   ثنا سويد بن سعيد[5]   ثنا سلمة بن موسى الأنصاري[6] بالشام عن أبي موسى الهلالي [7]عن خالد بن معدان[8] قال:خمس ليال في السنة من واظب عليهن رجاء ثوابهن وتصديقا بوعدهن أدخله الله الجنة أول ليلة من رجب يقوم ليلها ويصوم نهارها وليلة النصف من شعبان يقوم ليلها ويصوم نهارها وليلة الفطر يقوم ليلها ويصوم نهارها وليلة الأضحى يقوم ليلها ويصوم نهارها وليلة عاشوراء يقوم ليلها ويصوم نهارها‘‘۔

جواب  نمبر ۲  یہ ہے کہ :

                صحابی حضرت ابو درداء ؓ سے بھی یہی بات ثابت ہے ۔

                اخبرنا الربیع قال أخبرنا الشافعی قال أخبرنا ابرہیم بن محمد قال أخبرنا ثور بن یزید عن خالد بن معدان عن أبی الدرداء ؓبہ ۔ (الام للامام الشافعی ؒ، حدیث ۱/۲۶۴)

                اس کی سند میں ایک راوی ابراہیم بن محمد ابو یحیٰ ہیں ،جن پر کلام ہے۔

                لیکن اس راوی ابراہیم بن محمد کے بارے میں فرقہ ا ہل حدیث کے مشہور محدث ، علامہ مبارکپوری ؒ کہتے ہیں کہ ابراہیم بن ابی یحیٰ کو اگر چہ قطان نے کذاب کہا ہے ، مگر امام شافعی ؒ نے ان کی توثیق کی ہے ، اور کہا ہے کہ یہ حدیث میں ثقہ ہیں ، اور امام ممدوح نے ان سے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں اور سفیان ثوری اور ابن جریج اور بڑے بڑے محدثین نے ان سے حدیثیں روایت کی ہیں ، ابن عقدہ ؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم بن یحیٰ کی حدیث میں غورو فکر کیا اور اس کو دیکھا تو معلوم ہوا وہ منکر الحدیث نہیں ہیں ، ابن عدیؒ نے کہا کہ میں نے بھی ان کی حدیثوں کو بہت دیکھا لیکن کوئی حدیث منکر نہیں پائی ، حوالہ کیلئے دیکھئے میزان الاعتدال ، پس جب ابراہیم بن ابی یحیٰ کے بارے میں امام شافعی ؒ ، ابن عقدہ اور ابن عدی کا یہ قول ہے تو ان کی کسی حدیث کے استشہاداً (یعنی بطور سپورٹ کے )ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔  (القول السدید : ص ۳۷)

                معلوم ہوا کہ اہل حدیثوں کے نزدیک ابراہیم بن محمد ابو یحیٰ کی حدیث کو سپورٹ میں ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔

                ہم نے یہاں پر بھی ان کی حدیث کو سپورٹ میں ہی ذکر کیا ہے ۔ [9] اس ابراہیم بن محمد ابو یحیٰ کی حدیث سے کم سے کم  بقیہ بن الولیدؒ  پر تدلیس کا الزام باطل ہوجاتاہے۔

 جواب  نمبر ۳  یہ ہے کہ :

مشہور محدث الحسن بن سفیان نے بھی اپنی مسند میں دوسرے صحابی حضرت عبادہ ؓ سے یہ حدیث روایت کی ہے ۔ (التلخیص الحبیر ۲/۱۹۱/حدیث:۶۷۶)[10] اس سند سے بقیہ بن الولیدؒ کی روایت کی تائد ہوتی ہے۔

جواب نمبر ۴ یہ ہے کہ

حضرت مکحول ؒ جو کہ تابعی ہیں ان سے بھی یہی حدیث مروی ہے ۔ امام دارقطنیؒ  (م۳۸۵؁ھ)  اس کو محفوظ کہتے ہے ۔ ان کے الفاظ یہ  ہیں :  والمحفوظ أنہ موقوف علی مکحول ۔  (العلل للدارقطنی، حدیث /۲۷۰۳)[11] اس سےبھی بقیہ بن الولیدؒ کی روایت کی تائد ہوتی ہے۔

جواب نمبر ۵ یہ ہے کہ

                حضرت امام عبد اللہ ابن المبارکؒ (م۱۸۱؁ھ) جو تبع تابعی (یعنی صحابی کے شاگرد کے شاگرد ) ، بہت بڑے محدث اور امام اہل سنت ہیں ، یہی حدیث ان کو بھی پہونچی تھی۔ (البر والصلہ للحسین بن حرب : حدیث نمبر۶۳ ، وسندہ صحیح الی ابن المبارک)[12]

امام عبد اللہ ابن المبارکؒ (م۱۸۱؁ھ)  بقیہ بن الولیدؒ (م۱۹۷؁ھ) کےمعاصر ہے۔لہذا ابن المبارکؒ کے قول سے بھی اس روایت میں بقیہؒ پر تدلیس کا الزام باطل ہے۔

جواب نمبر ۶ یہ ہے کہ :

                امام الحافظ بوصیری ؒ ۸۴۰؁ھ)  جو خود بہت بڑے محدث ہیں ، انہوں نے اس حدیث کو کئی سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے قوی کہا ہے ۔ (مصباح الزجاجۃ ۲/۸۵)[13]

جواب نمبر ۷ یہ ہے کہ :

                الشيخُ الِإمامُ العالمُ العلامةُ  الْفَقِيه مُحَمَّد بن مُفْلِحؒ (م۷۶۳؁ھ) فرماتے ہیں کہ’وهو حديث حسن إن شاء الله تعالى‘ وہ حدیث ان شاء اللہ حسن ہے۔(كتاب الفروع لا بن مفلح : ج۲ : ص ۴۰۸)

جواب نمبر ۸ یہ ہے کہ :

                علوم حدیث کے بڑے ماہر اورسلفی عالم، جنہیں شیخ ابن باز ؒ (م  ۱۴۲۰ ؁ھ ) نے علامہ کا لقب دیا تھا،نور الدین عتر صاحب نے حدیث کے اصول کی روشنی میں کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف تو ہے ، لیکن رات کو نماز پڑھنا اورعبادت کرنا ،اس پر قرآن اورسنت متواترہ میں ابھارا گیا ہے اور دعاء وذکر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا یہ ایسے اعمال ہیں جن کی ترغیب تو ہر وقت اور ہر حال میں دی گئی ہے ،  جن میں عیدین کی راتیں بھی داخل ہیں ۔

                جس سے صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ اس حدیث سے کوئی نئی چیز ثابت نہیں ہوئی بلکہ ایک ایسے عمل کی فضیلت بیان ہوئی ہے جو شریعت کے اصول اور قرآن وسنت کی عام نصوص کے موافق ہے ۔

                لہذا اس حدیث پر عمل کے مستحب ہونے میں کوئی تردد نہیں ۔[14]

                 نیز فضائل اعمال کے باب میں ، ایسی ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی شیخ البانی  ؒ (م  ۱۴۲۰؁ھ ) کے نزدیک بھی گنجائش ہے ، جس میں کسی ثابت شدہ عمل کا کوئی خاص اجر وثواب بیان کیا گیا ہو۔ [15] شیخ الابانیؒ کے اس اصول کے لحاظ سے بھی عیدین میں عبادت والی حدیث مقبول ہے۔

جواب نمبر ۹  یہ ہے کہ :

                اسلاف کے زمانہ سے اس حدیث پر عمل چلا آرہا ہے ۔

حافظ ابو محمد موفق الدين عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامةؒ (م۶۲۰ھ) کے نزدیک بہت سے سلف سے یہ بات منقول ہے کہ وہ اس کو مستحب سمجھتے تھے کہ رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنے والا عید کی رات کو مسجد ہی میں قیام کرے ، اور پھر وہیں سے عیدگاہ جائے ، تاکہ اس رات کوعبادت کے ذریعہ زندہ کرے ۔  (المغنی لابن قدامۃ ۳/۲۰۸،[16]کشف القناع  ۲/۵۲)

                حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے عدی بن ارطاۃ ؒ کو لکھا ہے کہ تمہیں چار راتوں میں (عبادت کاخاص) اہتمام کرنا چاہئے ، ان میں اللہ تعالیٰ رحمت برساتے ہیں ، جن میں عیدین کی راتیں بھی ہیں ۔ (التلخیص الحبیر ۲/۱۹۱، ح: ۶۷۶، الترغيب والترهيب  للأصبهاني : ج۲ : ص ۳۹۳ و اسنادہ لیّن)

جواب نمبر ۱۰  یہ ہے کہ : چاروں مسلکوں میں اس کو مستحب قرار دیا گیا ہے ۔

فقہ حنفی کی کتاب میں ہے :

                ’’وندب إحیاء لیلۃ العیدین الفطر والاضحٰی لحدیث من أحیا لیلۃ العید أحیا قلبہ یوم تموت القلوب ‘‘  یعنی مستحب ہے ، عیدین کی راتوں کو زندہ کرنا مذکورہ بالا حدیث کی وجہ سے ۔(مراقی الفلاح /۱۵۰)

فقہ مالکی کی کتاب میں ہے :

                ’’ (وندب )۔۔۔۔(إحیاء لیلتہ ) أی العیدبالعبادۃ من صلاۃ وقراء ۃ قرآن وذکر واستغفار ‘‘۔ (منح الجلیل شرح مختصر الخلیل ۱/۴۶۳)

فقہ شافعی کی کتاب میں ہے:

                ’’ویستحب لیلتی العید بالعبادۃ‘‘ ۔ (نہایۃ المحتاج إلی شرح المنہاج  ۲/۳۹۷)

فقہ حنبلی کی کتاب میں ہے کہ :

                ’’ (إن کان المعتکف فرغ من اعتکافہ قبل لیلۃ العید ، استحب لہ المبیت لیلۃ العید فی المسجد ) لیحییھا ‘‘رمضان کے اخیری عشرہ کا اعتکاف کرنے والے اور عید کی رات مسجد ہی میں بتانا مستحب ہے تاکہ اس رات کو عبادت کے ذریعہ زندہ کرے ۔ (کشف القناع عن متن الاقناع ۲/۵۲ )

بلکہ اس حدیث پر عمل کرنے پر فقہاء کا اتفاق نقل کیا گیا ہے ۔ چنانچہ ’ الموسوعۃ الکویتیہ ‘ میں ہیں کہ

                ’’اتفق الفقہاء علی انہ یندب قیام لیلتی العیدین لقولہ ﷺ : من قام لیلتی العیدین محتسبا للہ لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب ‘‘  فقہاء کا اتفاق ہے کہ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے عیدین کی رات کو عبادت کے ذریعہ زندہ کیا جائے۔(الموسوعۃ الکویتیہ ۳۴/۱۲۳)

معلوم ہوا کہ اس حدیث پر بقول ابن قدامۃؒ کےسلف کااور چاروں مسالیک کا عمل ہےیعنی اس حدیث پر اہل علم کا عمل ہےاور جب کسی حدیث پر اہل علم کا عمل ہوتا اور تو وہ حدیث تعامل اہل علم کی وجہ غیر مقلدین کے نزدیک صحیح ہوجاتی ہے۔(فتاوی نذیریہ: ج۳ : ص ۴۱۱) اس لحاظ سے بھی  غیر مقلدین کا اعتراض باطل ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ :

                عیدین کی راتوں کو اللہ کی عبادت کے ذریعہ زندہ کرنا مستحب ہے ۔

                حدیث شریف میں اس کی فضیلت آئی ہے ۔

                وہ حدیث اصول حدیث کے مطابق قابل قبول اور حسن درجہ کی ہے ۔

                نیز سلف کا اس پر عمل رہا ہے ،جس سے اس حدیث کو مزید تقویت ملتی ہے ۔

                 چاروں مسلکوں میں اسے مستحب قرار دیا گیا ، معلوم ہوا امت کی اکثریت اس عمل کو مستحب سمجھتی ہے ۔اس لئے اسے بدعت قرار دینا ، سلف کے زمانہ سے لے کر آج تک کی اکثر امت کو گمراہ قرار دینا ہے ۔


[1] ھو الإمام، الحافظ، المجود، محدث العراق، الثقۃ،أبو محمد الحسن بن أبي طالب الخلال  ؒ(المتوفى: ۴۳۹ھ)۔(سير أعلام النبلاء : ج۱۷: ص ۵۹۳)

[2] ھو الثقۃ، الصالح،  عمر بن أحْمَد بن هارون، أَبُو حفص الْآجرُّيُّ البغداديُّ المقرئ  ؒ(المتوفى: ۳۸۲ھ)۔(تاريخ الإسلام: ج۸: ص ۵۳۶)

[3] ھوالإِمَامُ، المُحَدِّثُ، الحَافِظ، الفَقِيْه، المُفْتِي، شَيْخُ العِرَاق   أحمد بْن سلْمان بْن الْحَسَن، أَبُو بَكْر النّجّاد   ؒ(المتوفى: ۳۴۸ھ)۔(سير أعلام النبلاء: ج۱۵: ص ۵۰۲)

[4] ھوالإمام، الحافظ، المجود، البارع، محدث العراق، أبو علي الحسن بن علي المعمري   ؒ(المتوفى: ۲۹۵ھ)۔(سير أعلام النبلاء: ج۱۳: ص ۵۱۰)

[5] ان کا نام ’’سويد بن سعيد بن سهل ، الهروى الحدثانى(المتوفى: ۲۴۰ھ)‘‘ہے۔یہ مسلم کے راوی ہے اور جمہور کےنزدیک ثقۃ ہے۔اور اپؒ کا آخری عمر میں اختلاط ہوگیا تھا۔ لیکن امام لاحافظ ابو نعیمؒ (م۴۳۰؁ھ) نے ’’الحسن بن علي المعمري ثنا سويد بن سعيد‘‘کی سند کو صحیح کہا ہے۔(المسند المستخرج على صحيح الإمام مسلم لاأبی نعيم : ج ۲ : ص ۱۳۰ ،نماز میں ہاتھ باندھنےکا حکم اور مقام : ص ۴۹) یعنی ’ امام لاحافظ ابو نعیمؒ (م۴۳۰؁ھ)‘ کے نزدیک الحسن بن علی المعمری نے سوید بن سعید سے اختلاط سے سماع کیاتھا جیسا کہ زبیر علی زئی صاحب کا اصول ہے۔(مقالات : ج۶ : ص ۱۴)

[6] سلمة بن موسى الأنصاري بھی ثقۃ ہے۔حافظ قاسم بن قطلوبغاؒ (م۸۶۹؁ھ) نے ان کو ثقات میں شمار کیاہے اور امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ ’ما أرى به بأساً ‘ ۔ (کتاب الثقات للقاسم بن قطلوبغاؒ  : ج ۵ : ص ۷۱)

[7] ابو موسی الھلالی ؒ بھی مقبول راوی ہے۔ابن حبانؒ (م ۳۵۴؁ھ)نے  آپ کو کتاب الثقات میں شمار کیاہے ۔ (رقم ۱۱۹۷۶ ) امام ابو داودؒ (م۲۷۵؁ھ) نے آپ کی روایت پر سکوت اختیار کیاہے (حدیث نمبر۵۹ ۲۰،۲۰۶۰) اور ان کا سکوت اہل حدیثوں کے نزدیک روایت کے معتبرہونے کی دلیل ہے دیکھئے : ص ۵۳ ۔(یعنی ان کے اصول کے مطابق امام ابو داودؒ (م۲۷۵؁ھ) اس روایت کو معتبر مانتے ہیں ۔اور جب کسی حدیث کو کوئی محدث یا امام صحیح قرار دے ، تو ان کا صحیح کہنا کفایت صاحب ، علی زئی او ر دوسرے اہل حدیث کے نزدیک اس حدیث کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے ۔ (نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں /۱۷، انوار البدر /۲۷) ،اسی طرح امام بخاری ؒ نے اپنی تاریخ الکبیر  ۷/۳۸۹ میں اس راوی کا ذکر کیا اور کوئی جرح نہیں ، اور غیرمقلدین کے نزدیک یہ امام بخاری ؒ کی طرف  راوی کی توثیق ہوتی ہے ۔ (میزان مناظرہ  ۲/۱۱۱)، امام الحافظ ابن حجرؒ (م۸۵۲؁ھ) نے فتح الباری میں ان کی حدیث کو نقل کیا ہے اور اس پر سکوت کیا ہے۔(ج۹ : ص ۱۴۸) یعنی اس کوصحیح یا ضعیف نہیں کہا ہے ، اور خود کفایت اللہ صاحب ابن حجر ؒ کے سکوت کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حافظ ابن حجر ؒ کے نزدیک بھی یہ حدیث صحیح یا کم از کم حسن ہے ۔(انوار البدر /۱۴۵) اسی طرح عبد المنان نور پوری نے بھی یہ بات کہی ہے ۔ (تعداد تراویح ۲۲۷) اورجب کسی حدیث کو  کوئی محدث صحیح قرار دے ، تو ان کا صحیح کہنا  اہل حدیثوں کے نزدیک اس حدیث کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے جیسا کہ گزرچکا۔ لہذا یہ راوی خود اہل حدیث حضرات کے اپنے اصول کی روشنی میں معتبر ہے ۔

[8] خالد بن معدان (م۱۰۳؁؁؁ھ) بھی ثقہ عابد ہے۔(تقریب : رقم ۱۶۷۸)

[9] مزید تفصیل کے لئے دیکھئے : ص  ۔

[10] حافظ ؒ کے الفاظ یہ ہیں : کہ ’’ وَرَوَاهُ الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ مِنْ طَرِيقِ بِشْرِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ ثَوْرٍ عَنْ خَالِدٍ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ وبشر منهم بِالْوَضْعِ ‘‘۔اس کو نقل کرنے کے بعد حافظ ابن حجر ؒ نے کہا ہے کہ اس حدیث کی سند میں بِشْر نامی راوی ہے ، جس پر حدیثیں گڑھنے کا الزام ہے ، مگر یہاں ابن حجر ؒ سے بھول ہوگئی ہے ، خود انہوں نے جرح وتعدیل کی اپنی ایک اور کتاب میں اس راوی کو صرف ضعیف کہا ہے ، حدیثیں گڑھنے والا نہیں کہا ہے ۔ (دیکھئے تقریب التہذیب ، رقم:۶۸۵)

بشر بن رافع نامی اس راوی سے امام بخاری ؒ نے بھی اپنی کتاب الادب المفرد میں حدیث نقل کی ہے ۔ معلوم ہوا اس سند سے یہ حدیث ضعیف تو ہے ، لیکن سخت ضعیف نہیں ۔

[11] امام دارقطنی ؒکے الفاظ یہ ہیں   : وسئل عن حديث مكحول، عن أبي أمامة، قال: من أحيا ليلة الفطر، أو ليلة الأضحى؛ لم يمت قلبه إذا ماتت القلوب.

فَقَالَ: يَرْوِيهِ ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، وَاخْتُلِفَ عَنْهُ؛

فرواه جرير بن عبد الحميد، عن ثور، عن مكحول، عن أبي أمامة.

قاله ابن قدامة وغيره، عن جرير.

ورواه عمر بن هارون، عن جرير، عن ثور، عن مكحول، وأسنده عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

وَالْمَحْفُوظُ أنه موقوف عن مكحول.

[12] الفاظ یہ ہیں  : حدثنا الحسين بن الحسن قال: سمعت ابن المبارك، يقول: بلغني أنه  من أحيا ليلة العيد أو العيدين لم يمت قلبه حين تموت القلوب

[13] ان کے الفاظ یہ ہیں  : هَذَا إِسْنَاد ضَعِيف لتدليس بَقِيَّة وَرُوَاته ثِقَات لَكِن لم ينْفَرد بِهِ بَقِيَّة عَن ثَوْر بن يزِيد فقد رَوَاهُ الْأَصْبَهَانِيّ فِي كتاب التَّرْغِيب من طَرِيق عمر بن هَارُون الْبَلْخِي وَهُوَ ضَعِيف عَن ثَوْر بِهِ وَله شَاهد من حَدِيث عبَادَة بن الصَّامِت رَوَاهُ الطَّبَرَانِيّ فِي الْأَوْسَط وَالْكَبِير والأصبهاني من حَدِيث معَاذ بن جبل فيقوى بِمَجْمُوع طرقه۔

[14]   الفاظ یہ ہیں  : وقد ذھب العلماء إلی أنہ یستحب إحیاء لیلتی العیدین بذکر اللہ تعالیٰ وغیرہ من الطاعات لہذا الحدیث الضعیف لأنہ یعمل بہ فی فضائل الاعمال کما قرر النووی ، ونحن ونعلم أن قیام اللیل والتعبد فیہ ورد الحض علیہ فی القرآن والسنۃ المتواترۃ ، والتقرب إلی اللہ تعالیٰ بالذکر والدعاء ونحوھما مرغب فیہ کل الاوقات والاحوال ، وکل ذلک یشمل بعمومہ لیلتی العیدین اللتین لہما من الفضل ما لھما ۔

وھذا یوضح تماماً أن الحدیث لم یشرع شیئا جدیداً،إنما جاء بجزئیۃ موافقۃ لأصول الشریعۃ ونصوصھا العامۃ ، مما لا یدع أی مجال للتردد فی استحباب العمل بہ والأخذ بمقتضاہ ۔  (منہج النقد فی علوم الحدیث : ص ۲۹۶)

[15] أننی أفھم من قولہم ۔۔۔۔ فی فضائل الاعمال أی الاعمال التی ثبتت مشروعیتھا بما تقوم الحجۃ بہ شرعاً ویکون معہ حدیث ضعیف یسمی أجرا خاصاً لمن عمل بہ ففی مثل ھذا یعمل بہ فی فضائل الاعمال لانہ لیس فیہ تشریع ذلک العمل وإنما فیہ بیان فضل خاص یرجیٰ أن ینالہ العامل بہ ، وعلی ھذا المعنی حمل القول المذکور بعض العلماء کالشیخ علی القاریؒ ، فقال فی المرقاۃ ۲/۳۸۱                                    :’’ قولہ: إن الحدیث الضعیف یعمل بہ فی الفضائل وإن لم یعتضد إجماعاًکما قالہ النووی محلہ الفضائل الثابت من کتاب أو سنۃ ‘‘۔ وعلیٰ ھذا فالعمل بہ جائز إن ثبت مشروعیۃ العمل الذی فیہ بغیرہ مماتقوم بہ الحجۃ ۔ (تمام المنۃ فی /۳۵)

[16] ان کے الفاظ یہ ہیں : ومن اعتكف العشر الأواخر من رمضان، استحب أن يبيت ليلة العيد في معتكفه. نص عليه أحمد. وروي عن النخعي، وأبي مجلز، وأبي بكر بن عبد الرحمن، والمطلب بن حنطب، وأبي قلابة، أنهم كانوا يستحبون ذلك. وروى الأثرم، بإسناده عن أيوب، عن أبي قلابة، أنه كان يبيت في المسجد ليلة الفطر، ثم يغدو كما هو إلى العيد، وكان - يعني في اعتكافه - لا يلقى له حصير ولا مصلى يجلس عليه، كان يجلس كأنه بعض القوم. قال: فأتيته في يوم الفطر، فإذا في حجره جويرية مزينة ما ظننتها إلا بعض بناته، فإذا هي أمة له، فأعتقها، وغدا كما هو إلى العيد. وقال إبراهيم: كانوا يحبون لمن اعتكف العشر الأواخر من رمضان، أن يبيت ليلة الفطر في المسجد، ثم يغدو إلى المصلى من المسجد.

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...