نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

استقر الامر علی عشرین رکعۃ (مسنون تراویح احادیث وسلف صالحین کے ارشادات کی روشنی میں) تحقيق ركعات التراويح في عهد الفاروق۔(کفایت اللہ کو جواب)

 استقر الامر علی عشرین رکعۃ

(مسنون تراویح احادیث وسلف صالحین کے ارشادات کی روشنی میں)

مولانا نذیر الدین قاسمی

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

روایت نمبر ۳ : (حسن بصری ؒ کی روایت پر اعتراض کا جواب)

امام ابو داؤدؒ  (المتوفی۲۷۵؁ھ )  فرماتے ہیں :

                حدثنا شجاع بن مخلد ،حدثنا ھشیم ،أخبرنا یونس بن عبید ،عن الحسن أن عمر بن الخطاب ؓ جمع الناس علی أبی بن کعب فکان یصلی لہم عشرین رکعۃ۔

                حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے رمضان میں نماز تراویح پڑھانے کے لئے حضرت أبی بن کعب ؓ کی امامت پر لوگوں کو جمع کیا تو أبی بن کعب ؓ ان کو بیس رکعت پڑھاتے تھے ۔(سنن أبو دائود بحوالہ سیرأعلام النبلاء :جلدنمبر:۱ صفحہ نمبر:۴۰۰،۴۰۱)

                اس روایت کے روات کی تفصیل یہ ہے :

                ۱:امام ابو داؤد ؒ (المتوفی  ۲۷۵؁ھ) مشہور، ثقہ ،اور امام ہیں۔(التقریب)

                ۲:شجاع بن مخلد ؒ (المتوفی  ۲۳۵؁ھ) صحیح مسلم کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں (اکمال تہذیب الکمال جلد ۶ صفحہ ۲۱۹)

                ۳: ہشیم بن بشیر ؒ (المتوفی  ۱۸۳؁ھ )صحیحیین کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں(التقریب:رقم :۷۳۱۲)

                ۴:یونس بن عبید ؒ (المتوفی   ۱۳۹؁ھ) صحیحیین کے راوی ہیں ثقہ، مضبوط ،فاضل اور تقوی والے ہیں ۔ (التقریب:رقم نمبر ۷۹۰۹)

                ۵:امام حسن البصری ؒ (المتوفی    ۱۱۰؁ھ) صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے مرکزی راوی ہیں،ثقہ ،فقیہ اور مشہور ہیں ۔(التقریب رقم نمبر :۱۲۲۷) لہذا یہ سند صحیح ہے۔

 اعتراض نمبر: ۱  فرقہ اہل حدیث کے عالم کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ اس روایت میں بیس رات ذکر ہے کسی نے تحریف اسے بیس رکعت بنا دیا ۔(مسنون تراویح ص:۹۶)

الجواب : احناف سے پہلے اس روایت کو

                ۱:امام ذہبی ؒ (المتوفی۷۴۸؁ھ)نے ۲۰ رکعت کے لفظ کے ساتھ نقل کیا ہے ،فرماتے ہیں :

                                فی سنن أبی داؤود یونس بن عبید عن الحسن أن عمر بن الخطاب ؓ جمع الناس علی أبی بن کعب فی قیام رمضان فکان یصلی بھم عشرین رکعۃ۔(سیرأعلام النبلاء للذہبی جلد :۱ صفحہ :۴۰۱)

اسکین :

                اگر امام ذہبی ؒ ابو داؤد کی روایت میں بیس رکعت تراویح نقل کریں تو فرقہ اھل حدیث کے ابو زید ضمیر اپنے آڈیوبیان میں اسے غلطی کہتے ہیں[1] لیکن جب یہی روایت احناف بیان کریں تو فرقہ اہل حدیث کے کفایت اللہ صاحب اسے تحریف کہتے ہیں ۔ (مسنون رکعات تراویح : ص۹۶)

یہ دوغلی پالیسی کیوں ؟

کیا یہ فرقہ اہل حدیث کی احناف سے کھلی دشمنی اور بغض کا ثبوت نہیں ہے ؟

 

                ۲:امام  موفق الدین بن قدامہ حنبلی (المتوفی  ۶۲۰؁ھ ) نے بھی اس روایت کو بیس رکعت کے لفظ کے ساتھ نقل کیا ہے ،ان کے الفاظ یہ ہیں ۔۔۔۔وقد روی الحسن أن عمر ؓجمع الناس علی أبی بن کعب فکان یصلی لہم عشرین رکعۃ۔(المغنی جلد :۲ صفحہ :۵۸۰)

اسکین :

                ۳: امام ابن کثیر ؒ (المتوفی ۷۷۴؁ھ)بیس راتوں کے بجائے بیس رکعت نقل کرتے ہیں ،وہ فرماتے ہیں :

                                أن عمر جمع الناس علی أبی فکان یصلی بھم عشرین رکعۃ  الحدیث۔ورواہ أبو داؤد (جامع المسانید والسنن لابن کثیرصفحہ :۸۶جلد :۱)

                 ۴: امام شمس الدین بن قدامہ ؒ  (المتوفی  ۶۸۲؁ھ) نے بھی بیس رکعت کے الفاظ کے ساتھ یہ روایت نقل فر مائی ہے، وہ فرماتے ہیں :

                لما روی أن عمر جمع الناس علی أبی بن کعب فکان یصلی بھم عشرین رکعۃ ولا یقنت الا فی النصف الثانی ، رواہ أبو داؤد۔(الشرح الکیبیر لابن قدامہ جلد:۴ صفحہ:۱۲۵)

اسکین :

                ۵:امام احمد بن فرح اللخمی الشافعی (المتوفی  ۶۹۹؁ھ)بھی اس روایت کو بیس رکعت کے لفظ کے ساتھ نقل کرتے ہیں،چنانچہ لکھتے ہیں :

                                دلیلنا ما روی أبوداؤد عن الحسن أن عمر  جمع الناس علی أبی وکان یصلی لہم عشرین رکعۃ ولا یقنت بھم الا فی النصف الثانی۔ (مختصر خلافیات البیھقی لأحمد بن فرح جلد:۲صفحہ :۲۷۷) اسکین ملاحظہ فرمائے

                ۶:امام محمد بن موسی الدمیری ؒ (المتوفی  ۸۰۸؁ھ)بھی ابوداؤد کی اس روایت کو بیس رکعت کے لفظ کے ساتھ نقل کرتے ہیں لکھتے ہیں :

                لما روی الحسن البصری أن عمر جمع الناس علی أبی بن کعب  فکان یصلی بھم عشرین رکعۃ۔(النجم الوہاج  جلد :۲ صفحہ :۲۹۸)

اسکین :

                ۷: امام ماوردیؒ(المتوفی  ۴۵۰؁ھ)نے بھی اس روایت کو بیس رکعت کے لفظ کے ساتھ نقل کیا ہے فرماتے ہیں :

                                دلیلنا روایۃ یونس بن عبید عن الحسن البصری أن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ جمع الناس علی أبی وقال : صل بھم عشرین رکعۃولاتقنت بھم الا فی النصف  الأخیر۔(الحاوی الکبیر جلد:۲ صفحہ :۲۹۲) اسکین ملاحظہ فرمائے

                 نوٹ:۱ امام ابو داؤؒد (المتوفی۲۷۵؁ھ)اور امام ماوردیؒ(المتوفی۴۵۰؁ھ)کے درمیان صرف ۱۷۵سال کا فرق ہے ۔

                نوٹ:۲ یہ سارے فقہاء اورمحدثین شافعی اور حنبلی مسلک کے ہیں ۔ہماری غیر مقلدین  اہلحدیث  سے عموما کفایت اللہ صاحب سے خصوصا گزارش ہے کہ کیا ان سب فقہاء و محدثین نے تحریف کی ہے ؟

اعتراض:۲ کفایت اللہ صاحب نے مزید کہا ہے کہ بہر حال یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ حسن بصری کی ملاقات عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے ،

الجواب :امام ابن کثیر ؒ (المتوفی۷۷۴؁ھ)ابوداؤد کی اس روایت کی سند  بیان فرماتے ہیں کہ:

                أن عمر جمع الناس علی أبی فکان یصلی بھم عشرین رکعۃ الحدیث ورواہ أبو داؤد عن شجاع بن مخلد عن ہشیم عن یونس بن عبید عن الحسن عن أبی ۔  (جامع المسانید والسنن لابن کثیرجلد :۱ صفحہ :۸۶)

اسکین :

                معلوم ہوا کہ یہ روایت حسن بصری ؒ نے أبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے ۔

تنبیہ:کچھ محدثین کہتے ہیں کہ حسن بصری ؒ کا سماع أبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے لہذا یہ روایت مرسل ہے ،لیکن ائمہ جرح وتعدیل نے ان کی مراسیل کو  صحیح قرار دیا  ہے اور اسے قبول کیا  ہے۔ مگر ملاحظہ فرمائیں ان کے بارے میں بڑے بڑے ائمہ اور’’   امیر المومنین فی الحدیث‘‘ کیا کہتے ہیں :

(۱) علی بن المدینی ؒ فرماتے ہیں :

                حسن بصریؒ کی مرسل حدیثیں ، جنہیں ثقہ راویوں نے ان سے روایت کیا ہے ، وہ صحیح ہیں ، ان میں سے بہت کم ساقط ہیں ۔ (التاریخ وأسماء المحدثین وکناہم للمقدمی /۲۰۱)

 (۲) ابو زرعہ رازی ؒ کہتے ہیں :

  ہر حدیث جسے حسن بصریؒ نے (مرسلاً ) روایت کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ۔ تو میں نے پایا کی اس حدیث کی اصل ہے اور وہ حدیث ثابت ہے ، سوائے چار حدیثوں کے ۔ (کتاب الضعفاء لابی زرعہ ۳/۸۵۷)

 (۳) یحیی بن سعید القطان ؒ کہتے ہیں کہ :

 حسن بصری ؒ کی مرسل حدیثوں کی اصل موجود ہے ، سوائے ایک دو حدیثوں کے ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی مرسل حدیثیں اچھی ہیں ۔ (العلل الصغیر للترمذی /۷۵۴) (شرح علل الترمذی لابن رجب  ۱/۵۳۶)

 (۴) امام زرکشی ؒ کہتے ہیں کہ :

 امام الحرمین نے نقل کیا ہے کہ امام شافعی ؒ نے فرمایا : حسن بصریؒ کی مرسل حدیثیں ان کے نزدیک اچھی ہیں ۔ ابن رفعہ ؒ نے یہ بات نقل کرکے کہا ہے کہ اسی وجہ سے امام شافعی ؒ اپنی کتاب الام میں حسن بصری ؒ کی مرسل حدیثوں سے حجت پکڑتے ہیں ۔ (النکت علی ابن الصلاح للزرکشی ۱/۴۸۹)  اس سے معلوم ہوا کہ حسن بصری ؒ کی مرسل حدیثیں امام شافعی ؒ کے نزدیک حجت ہیں ۔

 (۵) حافظ سیوطی ؒ کہتے ہیں کہ :

(ابن الجوزی ؒ نے )حضرت حسن بصری ؒ کی مرسل حدیثوں کو موضوعات میں شمار کیا تو ابن حجرؒ نے ان پر رد کیا کہ ابن المدینی ؒ نے حسن بصری ؒ کی مرسل حدیثوں کی تعریف کی ہے ۔ (الدرر المنثورۃ /۱۰۵)  علامہ سیوطی ؒ دوسری جگہ کہتے ہیں : شیخ الاسلام ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سند حسن بصریؒ تک حسن ہے اور ان کی مرسل حدیثوں کی ابو زرعہ اور ابن المدینی ؒ نے تعریف کی ہے ، اس لئے اس کو موضوع کہنے کی کوئی دلیل نہیں ۔ (تدریب الراوی ۱/۳۳۹)، اس سے معلوم ہوا کہ حسن بصری ؒ کی مرسل حدیثیں ابن حجر ؒ کے نزدیک حجت ہیں ۔

               

 (۶) امام ذہبی ؒ کہتے ہیں کہ :

حسن بصری ؒ کی یہ مرسل حدیث صحیح ہے کہ صہیب ؓ ، روم میں( سب سے )پہلے( اسلام لانے والوں میں سے) ہیں ۔ (تاریخ الاسلام ۲/۳۳۸)،معلوم ہوا امام ذہبی ؒ کے نزدیک حسن بصریؒ کی مرسل حدیثیں صحیح ہیں ۔

               

 (۷) امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ :

 ابن المدینی اور ابو زرعہ رازی ؒ نے حسن بصریؒ کی مرسل حدیثوں کی تعریف کی ہے ، اور اسے رد نہیں کیا ہے ۔ (تہذیب الاسماء واللغات  ۱/۱۶۲)اور  زبیر علی زئی صاحب کے اصول کے مطابق امام نووی ؒ ؒ نے سکوت کے ذریعہ اس کی تائید کی ہے۔ (انوار الطریق، از علی زئی  : ص ۸)

(۸)امام یحییی بن معین  ؒ  فرماتے ہیں :  حسن البصری کی مراسیل میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (موسوعة أقوال يحيى بن معين : ج۱ : ص ۴۴۵)  لہذا اسے مرسل قرار دےکر ضعیف کہنا مردود ہے۔

 

نیز حضرت حسن ؒ نے حضرت أبی بن کعب ؓ سے تمام حدیثیں  حضرت عُتَیِّ بن ضمُرۃؒ کے واسطہ سے روایت کی ہیں۔ اس وجہ سے ابن ابی خیثمہ ؒ جو یحیی بن معینؒ کے شاگرد ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ :

                اگر حسن بصریؒ حضرت أبی سے روایت کریں ، تو وہ عُتَیّ بن ضمرۃ السعدی کے واسطے سے ہوگی ۔ (جامع التحصیل فی احکام المراسیل ۱۶۵/۱۳۵، تحفۃ التحصیل فی ذکر رواۃ المراسیل /۷۵) یہی بات حافظ بوصیری ؒ نے بھی کہی ہے : ( مصباح الزجاجۃ فی زوائد ابن ماجہ  ۲/۵۸/۵۹۹) لہذا حضرت حسن  ؒ جو حدیث حضرت أبی سے روایت کریں ، اس کو حضرت عتی  ؒ کے واسطہ سے متصل سمجھا جائے گا۔ الغرض معلوم ہوا کہ حسن بصری ؒ  کی أبی بن کعب ؓ سے یہ  روایت مسند ہے ، لہذا کفایت اللہ صاحب کا اعتراض باطل و مردود ہے ۔

اعتراض نمبر  ۳  :ممکن ہے کہ کفایت اللہ صاحب اپنے مسلک کے تعصب میں کہہ سکتے ہیں کہ اس روایت میں أبی بن کعب ؓ کا اضافہ تو ابن کثیر نے نقل کیا ہے وہ أبوداؤد کے اکثر نسخوں میں موجود نہیں ہے ۔

الجواب :یہ ہے کہ خود کفایت اللہ صاحب زبیر علی زئی کو امام بخاری کی ایک جرح کا جواب دیتے ہوے لکھتے ہیں کہ ــــــ,,اگر کوئی یہ کہے کہ امام کثیر ؒ کا قول امام بخاری کی تاریخ الاوسط میں ہے لیکن اصل کتاب میں والحدیث معلول( حدیث کے معلول ہونے )کے الفاظ نہیں ہیں تو عرض ہے کہ اس کا زیادہ سے زیادہ مطلب ہوا کہ تاریخ الاوسط کے بعض نسخوں میں یہ عبارت ناقص ہے اور امام ابن کثیر ؒ کے سا منے تاریخ الاوسط کا جو نسخہ تھا اس میں یہ عبارت مکمل تھی اور نسخوں میں اختلاف عام بات ہے ۔آج بھی مخطوطات کی تحقیق کے وقت کے دیگر نسخوں سے عبارت کو مکمل کیا جاتا ہے ،بلکہ دیگر اہل علم کے منقولات سے بھی نسخوںکی ناقص عبارتیں درست کی جاتی ہیں ۔

 لہذا ابن کثیر ؒ کے سامنے جو نسخہ تھا اس نسخے میں یہ قول مکمل تھا اور بعض دیگر نسخوں میں یہ قول ناقص ہے ۔لہذا تمام نسخوں کو دیکھتے ہوئے یہ عبارت مکمل ہو گی اور حجت ہوگی ۔ (حدیث یزید محدثین کی نظر میں ص:۲۸) اسکین  ملاحظہ فرمائے :

                تو فرقہ اہل حدیث سے عموما ار کفایت اللہ صاحب سے خصوصا گزرش ہے کہ اپنے ہی اصول اور اپنے ہی الفاظ میں اس اعتراض کا جواب سن لیں:    اگر کوئی یہ کہے کہ امام ابن کثیر ؒ کی حدیث امام أبوداؤد ؒ کی سنن میں ہے لیکن اصل کتاب میں أبی بن کعب ؓکے الفاظ نہیں ہیں

            تو عرض ہے کہ اس کا زیادہ سے زیادہ مطلب ہواکہ أبوداؤد کے بعض نسخوں میں یہ سند ناقص ہے اورامام ا بن کثیر کے سامنے أبوداؤد کا جو نسخہ تھا اس میں یہ سند مکمل تھی اور نسخوں میں اختلاف عام بات ہے ۔آ ج بھی مخطوطات کی تحقیق کے وقت کے دیگر نسخوں سے ناقص عبارتوں کو مکمل کیا جاتا ہے ،بلکہ دیگر اہل علم کے منقولات سے  بھی نسخوں کی ناقص عبارتیں درست کی جاتی ہیں ۔لہذا ابن کثیرؒکے سامنے ابوداؤدکاجو نسخہ تھا اس نسخے میں یہ سند مکمل تھی اور بعض دیگر نسخوں میں یہ سند ناقص ہے۔لہذا تمام نسخوں کو دیکھتے ہوے یہ روایت مکمل ہو گی اور حجت ہوگی ۔امید کہ فرقہ اہل حدیث اور کفایت صاحب اس اعتراض سے باز رہیں گے ۔

                نیزاس  روایت پر امام  ابوداؤد ؒ (المتوفی ۲۷۵؁ھ )نے سکوت اختیار کیا ہے اور ان کا  سکوت غیر مقلدین کے نزدیک روایت کے مقبول ہونے کی دلیل ہے۔ [2] اسی طر ح امام ماوردی ؒ (المتوفی ۴۵۰؁ھ )اورامام احمد بن فرحؒ (المتوفی۶۹۹؁ھ)نے اس روایت سے استدلال کیاہے ،دلیل پکڑی ہے جیسا کہ ان کے حوالہ جات گزر چکے ۔اور کسی فقیہ یا محدث کا کسی حدیث سے استدلال کرنا غیر مقلدین کے نزدیک روایت کے صحیح ہونے کی دلیل ہے ،دیکھئے( فتاوی نذیریہ جلد :۳صفحہ :۳۱۶)

لہذاغیر مقلدین کے اصول کے مطا بق یہ حدیث امام ابوداؤد ؒ،امام ماوردیؒ اور امام احمد بن فرحؒ کے نزدیک صحیح ہے۔

آخری اعتراض :غیر مقلدین یہاں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس روایت میں حسن البصریؒ مدلس ہیں۔

الجواب – ۱ :حسن بصریؒ طبقہء ثانیہ کے مدلس ہیں ۔(طبقات المدلسین صفحہ :۲۹)اورطبقہ ثانیہ کے بارے میں ائمہ نے وضاحت کی ہے کہ اس طبقہ کی تدلیس کو علماء نے برداشت کیا ہے یعنی قبول کیا ہے (طبقات المدلسین صفحہ :۱۳) لہذا ان کی تدلیس قابل قبول ہے۔

الجواب- ۲ :اس روایت کے چھ چھ متابعات موجود ہیں۔لہذا اس روایت میں ان پر تدلیس کا الزام ہی مردود ہے ۔الغرض یہ روایت صحیح اور مسند ہے  اور اس پر اعترا ض کرنا  باطل ومردود ہے۔


[1] Taraweeh ki Rakaat - Ek Tahqeeq - Part 4 of 5 | Abu Zaid Zameer (Timing 21 Min : 17 Sec)

https://youtu.be/pwytc3a5JJ0?t=21m17s

[2]  غیر مقلدین کے نزدیک امام ابو داؤد ؒ (م  ۲۷۵؁ھ ) کا سکوت حجت ہے ، اور اسی طرح امام منذری ؒ ( م  ۶۵۶ ؁ھ) کا سکوت  بھی (ان کی مختصر اور ترغیب میں) ان کے نزدیک حجت ہے ۔  حوالاجات ملاحظہ فرمائیے :

                ۱  -  غیر مقلدین کے مجتہد قاضی شوکانی  ؒ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ :

                امام ابو داؤد ؒ اور امام منذری ؒ نے اس (روایت ) پر سکوت اختیار کیا ، اور اس کی سند کے رجال امام ابوداؤد ؒ کے نزدیک ثقہ ہیں ۔

( نیل الاوطار  ۱/۱۶۱ ، دوسرا نسخہ  ۱/۴۶۶)

                معلوم ہوا کہ غیر مقلدین کے نزدیک امام ابوداؤد ؒ نے جس روایت پر سکوت اختیار کر ، وہ روایت اہل حدیث حضرات کے نزدیک صحیح اور اس روایت کے تمام رجال بھی امام ابوداؤدؒ کے نزدیک ثقہ ہوتے ہیں ۔

 

                ۲  -  غیر مقلدین کے محقق العصر مولانا عبد القادر حصاری ؒ فرماتے ہیں کہ جس حدیث پر انہوں نے (یعنی امام ابوداؤد ؒ نے ) سکوت کیا ہے تو یہ حدیث قابل استدلال بن جاتی ہے ۔ (فتاویٰ حصاریہ  ۳/۱۴)

 

                ۳  -  اسی طرح اہل حدیثوں کے ایک اور عالم مولانا ابراہیم سیالکوٹی  ؒ فرماتے ہیں کہ جس حدیث پر امام ابوداؤد ؒ نے سکوت کیا ، اسے درجہ قبولیت دیا گیا ہے ۔ (۲۲  نامور فقہاء ومحدثین /۹۸)

 

                ۴  -  مولانا شمس الحق عظیم آبادی ؒ غیر مقلد ایک حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : اس حدیث پر امام ابوداؤد ؒ اور امام منذریؒ نے (مختصر میں) سکوت کیا ہے ، اور اس کی سند حسن ہے ۔ (عون المعبود ۴/۹۱)  جبکہ البانی نے اسی روایت کو ضعیف کہا ہے ، جس کو مولانا شمس الحق عظیم آبادیؒ نے امام ابوداؤد ؒ اور امام منذری ؒ وغیرہ کے قول سے حسن کہا ہے ۔ (ضعیف ابوداؤد /۹۷)

                اس سے پتہ چلتا ہے کہ اہل حدیث عالم مولانا شمس الحق عظیم آبادی ؒ کے نزدیک بھی امام ابوداؤد ؒ اور امام منذری ؒ کا سکوت روایت کے معتبر ہونے کی دلیل ہے ۔

               

                ۵  -  اسی طرح قاضی شوکانی  ؒ ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ : امام ابو داؤد ؒ اور امام منذری ؒ اس روایت پر سکوت اختیار کیا ہے ، نیز امام ابو داؤد ؒ نے صراحت کی ہے کہ وہ اسی سند پر سکوت فرماتے ہیں جو قابل احتجاج ہو اور اس کی سند کے رجال ائمہ ثقات ہوں ۔( یعنی اس کی سند کے راوی ثقہ ہوں ) (نیل الاوطار  ۱/۱۵۸، دوسرا نسخہ  ۱/۴۵۶)

 

                ۶  -   حافظ زبیر علی زئی صاحب بھی امام منذری  ؒ  کے سکوت کو (ترغیب میں)  حجت سمجھتے ہیں ، بلکہ فرماتے ہیں کہ (ان کا سکوت) ان کے نزدیک تحسین وتصحیح ہوتی ہے ۔ (مقالات  ۶/۱۴۱)

 

                ۷  -   اہل حدیث محدث مولانا عبیداللہ مبارکپوری صاحب ایک حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حدیث مذکور پر امام ابوداؤد ؒ نے کچھ کلام نہیں کیا ہے ۔ان کا سکوت اور ولید بن عبد اللہ بن جمیع کے بارے میں ان کا اس میں جرح نہیں کہنا اس بات کی دلیل ہے یا علامت ہے کہ حضرت جابر ؓ کی یہ پوری حدیث بروایتِ ابن جمیع ان کے نزدیک حسن درجہ سے کم نہیں ہے ۔ (فتاویٰ عبیداللہ مبارکپوری  ۱/۱۴۶)

               

                ۸  -  اسی طرح قاضی شوکانی  ؒ ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ :

                اور جس حدیث پر امام ابوداؤدؒ اور امام منذری ؒ دونوں سکوت کریں ، وہ حدیث بے شک احتجاج کے لائق ہے ، سوائے چند جگہوں کے جس پر میں نے اس شرح میں تنبیہ کی ہے ۔ ( نیل الاوطار  ۱/۲۶)

 

               ۹-غیر مقلد ڈاکٹر فضل الہی صاحب  بھی امام ابو داؤدؒکے سکوت کو حجت مانتے ہے۔ (مسائل قربانی : ص ۴۱) تو معلوم ہوا کہ غیر مقلدین کے نزدیک امام ابو داؤد ؒ اور امام منذری ؒ کا سکوت حجت ہے۔


ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

 سکین کیلئے 
الاجماع (PDF )
 دیکھیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...