نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

استقر الامر علی عشرین رکعۃ (مسنون تراویح احادیث وسلف صالحین کے ارشادات کی روشنی میں) تحقيق ركعات التراويح في عهد الفاروق۔(کفایت اللہ کو جواب)

 

استقر الامر علی عشرین رکعۃ

(مسنون تراویح احادیث وسلف صالحین کے ارشادات کی روشنی میں)

مولانا نذیر الدین قاسمی

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

تراویح وہ نماز ہے جو ماہ رمضان کی راتوں میں عشاء کے بعد با جماعت پڑھی جائے جیسا کہ فتاوی علماء حدیث ۶/ ۲۴۱ پر موجود ہے۔اور   حافظ ابن حجر عسقلا نیؒ فر ماتے ہیں کہ ’’ التَّرَاوِيحُ جَمْعُ تَرْوِيحَةٍ وَهِيَ الْمَرَّةُ الْوَاحِدَةُ مِنَ الرَّاحَةِ كَتَسْلِيمَةٍ مِنَ السَّلَامِ ‘‘    تراویح ترویحہ کی جمع ہے اورترویحہ ایک دفعہ آرام کرنے کو کہتے ہیں۔ (فتح الباری، ۴/۲۵۰)

 لفظ تراویح کا ثبوت: حضرت سوید بن غفلہؒ،[1] علی بن ربیعہؒ،[2] شتیر بن شکلؒ  [3]سے صحیح اسناد کے ساتھ تراویح کا  لفظ ثابت ہے۔

سوید بن غفلہؒ کی روایت   کے الفاِظ یہ ہیں : كَانَ يَؤُمُّنَا سُوَيْدُ بْنُ غَفَلَةَ فِي رَمَضَانَ فَيُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ عِشْرِينَ رَكْعَةً۔

علی بن ربیعہؒ  کی روایت    یہ ہیں : عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ ؛ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ رَبِيعَةَ كَانَ يُصَلِّي بِهِمْ فِي رَمَضَانَ خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ وَيُوتِرُ بِثَلاَثٍ۔

شتیر بن شکلؒ  کی روایت   :  عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ : أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي خَمْسَ تَرْوِيحَاتٍ فِي رَمَضَانَ وَيُوتِرُ بِثَلاَثٍ۔ (السنن الکبری للبیہقی، ۲/۶۹۹، مصنف ابن ابی شیبہ،۵/۲۲۰۔۲۲۵)

تحقيق ركعات التراويح في عهد الفاروق۔(کفایت اللہ کو جواب)

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز


روایت نمبر ۱  :  (الاحادیث المختارہ کی روایت)

(۱)           حضرت ابی بن کعبؓ  فرماتے ہیں کہ ’’ أَنَّ عُمَرَ أَمَرَ أُبَيًّا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ ۔۔۔۔۔۔۔فَصَلَّى بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَة ‘‘ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے حکم دیا کہ میں رمضان شریف کی رات میں نماز (تراویح) پڑھاؤں ۔۔۔۔تو ابی بن کعبؓ نے لوگوں کو ۲۰ رکعات (تراویح )پڑھائی۔ (الاحادیث المختارہ:۱۱۶۱ ، امام ضیاء الدین مقدسی ؒ نے اس کو صحیح کہا ہے جیساکہ غیر مقلد عالم حافظ زبیر علی زئی اصول ہے ، تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ،ص:۲۳ )[4]

اعتراض :  کفایت اللہ سنابلی صاحب لکھتے ہیں : ابو جعفر الرازی  برے حافظہ والا ہے۔امام زرعہ رازی ؒ نے کہا ہے کہ یہ شیخ ہیں ، بہت زیادہ وہم کا شکار ہوتے ہیں ، ابن حبان ؒ نے کہا کہ مشہور لوگوں سے منکر روایت کے بیان میں منفرد ہونے تھے ، ان کی حدیث سے حجت پکڑنا مجھے پسند نہیں ، مگر یہ کہ ثقہ رواۃ سے ان کی تائید مل جائے ۔ اگے کہتے ہیں کہ بعض نے اس کی مجمل توثیق کی ہے۔جو  جرح مفسر مقابلہ میں مقبول نہیں ہے۔ (مسنون  رکعات التراویح : ص ۹۵-۹۶)،غیر مقلد عالم حافظ زبیر علی زئی کہتے ہیں  کہ  ابو جعفر الرازی کی الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ سے  روایت میں بہت زیادہ اضطراب ہوتا ہے۔( تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ،ص:۷۴)

الجواب :

اولاً : خود زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’ ہمارے نزدیک  یہ کوئی مسئلہ نہیں کہ فلاں امام نے فلاں راوی کو کذاب (جو کہ جرح مفسر ہے ) یا ضعیف کہا ہے ، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جمہور کس طرف ہیں ؟ جب جمہور محدثین سے ایک قول (مثلاً توثیق یا تضعیف ) ثابت ہوجائے ، تو اس کے مقابلہ میں ہر شخص یا بعض اشخاص کی بات مردود ہے ، اور جرح وتعدیل میں تعارض کی صورت میں ہمیشہ جمہور محدثین کو ہی ترجیح حاصل ہے ۔ (مقالات ۶/۱۴۳)‘‘  لہذ  جب ابو جعفر الرازی ؒ ( م ۱۷۰؁ھ) جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ۔تو خود علی زئی کے اصول کی روشنی میں ان کا  یہ اعتراض باطل ومردود ہے ۔

دوم: جہاں تک کفایت صاحب کا ابن حبان ؒ کا یہ قول نقل کرنا کہ ابو جعفر مشہور لوگوں سے منکر روایت نقل کرنے میں منفرد ہوتا تھا ،  تو خود کفایت اللہ صاحب نے اسی کتاب مسنون رکعات تراویح کے صفحہ /۲۳پر لکھا ہے کہ امام ابو داؤد نے اس راوی میں منکر الحدیث صرف اس معنیٰ میں کہا ہے کہ انہوں نے منکر روایت نقل کی ہے ، اور صرف اتنی سی بات سے کسی راوی کی تضعیف ثابت نہیں ہوتی ، اسی طرح ایک اور کتاب میں کفایت صاحب لکھتے ہیں کہ مناکیر روایت کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ روایت کرنے والا ہی اس کا ذمہ دار ہے ۔ (انوار البدر /۱۷۲)

                لیجئے جب اپنے پسندیدہ راوی پر منکر روایت کرنے کا الزام آیا ، تو اس کا دفاع کردیا ، لیکن اپنے مسلک کے خلاف میں آنے والی روایت کے راوی ابو جعفر الرازی پر کفایت صاحب نے یہی کلام نقل کرکے جرح کردی ، کیا یہی انصاف کا نام ہے ۔  الغرض خود کفایت صاحب کے اصول کی روشنی میں ابن حبان ؒ کی جرح صحیح نہیں ہے ۔

پھر خود کفایت صاحب بھی یہ اقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابن حبان ؒ جرح میں متشدد ہیں ، اس لئے ثابت شدہ صریح توثیق کے مقابلہ میں ان کی جرح کا کوئی اعتبار نہیں ۔ (انوار البدر /۱۲۷) لہذا انہیں کے اصول کی روشنی میں یہاں بھی متشدد ہونے کی وجہ سے ابن حبان ؒ کی جرح مردود ہے ۔

سوم :  خود ابن حبان ؒ نے وضاحت کی ہے کہ جب ابو جعفر الرازی ؒ ثقہ کی موافقت کریں ، تو وہ قابل احتجاج ہے ، جیسا کہ کفایت صاحب نے نقل کیا ہے اور یہاں بھی بیس رکعات تراویح کی روایت میں ابوجعفر الرازی ؒ نے ثقات کی موافقت کی ہے ، مثلاً یزید بن خصیفہ ؒ (ثقہ ، ثبت ، مامون ) امام مالک بن انس ؒ (ثقۃ ، امام ) یحییی بن سعید الأنصارى ؒ (ثقہ ، امام ، ثبت) ہشیم بن بشیر ؒ (ثقہ ، ثبت ) کی موافقت ابو جعفر الرازی ؒ نے کی ہے ، لہذا ان کی جرح کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔

اور رہا ابن حبان ؒ کی جرح کہ ابوجعفر ؒ کا ربیع بن انس ؓ کی روایت میں مضطرب ہونا ، تو ’’ابوجعفر الرازی عن الربیع بن أنس‘‘ کی سند کو امام حاکم  ؒ (م  ۴۰۵؁ھ ) امام ذہبی ؒ ( م  ۷۴۸ ؁ھ ) امام بغوی ؒ (م  ۵۱۶  ؁ھ )امام ضیاء الدین مقدسی ؒ (م ۶۴۳  ؁ھ ) امام دارقطنی ؒ (م ۳۸۵؁ھ) امام بیہقی  ؒ (م ۴۵؁ھ) امام نووی ؒ (م  ۶۷۶ ؁ھ ) امام ابو عبد اللہ محمد بن علی البلخی (م  ۲۹۸؁ھ ) حافظ زین الدین عراقی  ؒ (م ۸۰۶  ؁ھ ) حافظ ابن الصلاح ؒ (م  ۶۴۳ ؁ھ ) حافظ ابو العباس قرطبی ؒ (م  ۶۵۶ ؁ھ ) امام ابن الملقن ؒ (م۸۰۴ ؁ھ) امام ابو عبد اللہ القرطبی ؒ(م۶۷۱  ؁ھ ) امام سیوطی ؒ (م   ۹۱۱  ؁ھ) امام حازمی ؒ  (م ۵۸۴؁ھ ) اور امام ابن حجر عسقلانی  ؒ (م ۸۵۲  ؁ھ ) وغیرہ محدثین نے صحیح کہا ہے ، جن کے حوالجات ابو جعفر الرازی ؒ کی توثیق کے سلسلے میں گزرچکے ۔  لہذا ن تمام محدثین کی تحقیق ابن حبان ؒ کے قول پر مقدم ہے ، الغرض راجح قول میں یہ ۲۰ رکعات تراویح کی سند صحیح ہے ۔

چہارم :  خود زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں کہ جو راوی (جمہور کے نزدیک ) کثیر الغلط ، کثیر الخطاء اور سیء الحفظ (برے حافظے والا ) وغیرہ ہو ، اس کی منفرد حدیث ضعیف ہوتی ہے، (نور العینین : ص ۶۳) اور ابوجعفر الرازی ؒ   جمہور کے نزدیک نہ کثیر الغلط، نہ کثیر الخطاء ، اور نہ ہی  وہ سیء الحفظ (برے حافظہ والے ) ہیں ، پھر وہ منفرد بھی نہیں ، تو ان کی یہ روایت کیوں کر ضعیف ہوسکتی ہے ۔  پھر ابو جعفر الرازی ؒ کے ۶،۶ متصل اور مرسل متابعات موجود ہیں ، جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔  لہذا ان پر ہر طرح کی جرح مردود ہے ۔

روایت نمبر ۲  :  ( بیہقی کی روایت پر بحث)

(۲)           حضرت سائب بن یزید ؓ فرماتے ہیں  کہ’’ کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب بعشرین رکعۃ والوتر ‘‘ہم حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ۲۰ رکعات (تراویح ) اور وتر پڑھتے تھے۔ (معرفة السنن والآثار للبیہقی،: حدیث نمبر  ۵۴۰۹) اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں اور اس کی سند صحیح ہے ۔[5]

دوسری  سند :

حضرت سائب بن یزید  ؓ فرماتے ہیں ’’ كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً " قَالَ: " وَكَانُوا يَقْرَءُونَ بِالْمَئِينِ، وَكَانُوا يَتَوَكَّئُونَ عَلَى عِصِيِّهِمْ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ ‘‘ کہ لوگ حضرت عمر ؓ کے دور میں ۲۰؍رکعات تراویح پابندی سے پڑھتے تھے ۔ سائب بن یزید ؓ فرماتے ہیں کہ وہ قرآن مجید کی دو سو آیات تلاوت کرتے تھے ، اور حضرت عثمان بن عفان ؓ کے دور میں لوگ (قیام کے لمبا ہونے کی وجہ سے ) اپنی (لاٹھیوں پر ) ٹیک لگاتے تھے ۔ (سنن کبری للبیہقی ۲/۶۹۸ ، حدیث /۴۲۸۸) 

اس روایت کے بھی سارے راوی ثقہ ہیں اور اس کی سند صحیح ہے ۔[6]

نوٹ: (۱) یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ امام علی بن الجعد ؒ (م ۲۳۰  ؁ھ ) کی اپنی کتاب مسند علی بن الجعد میں بھی موجود ہے۔ دیکھئے (مسند علی بن الجعد ،صفحہ ۴۱۳، حدیث ۲۸۲۵، واسنادہ صحیح )

نوٹ: (۲) اس روایت میں امام علی بن الجعد ؒ (م ۲۳۰  ؁ھ ) کی متابعت امام یزید بن ہارون ؒ (م  ۲۰۶  ؁ھ ) نے بھی کر رکھی ہے ۔ (کتاب الصیام للفریابی ، صفحہ/ ۱۳۱ ، حدیث /۱۷۶۔ واسنادہ صحیح ) لہذا اس روایت میں علی بن الجعد ؒ اعتراض کرنا بھی بے کار ہے ۔

کیا بیس رکعت تراویح کی روایت کو کسی محدث نے صحیح کہا ہے ؟

درج ذیل محدثین نے بیس رکعات تراویح کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔

۱  -  امام نووی ؒ    ۶۷۶ ؁ھ) ۔(خلاصۃ الاحکام للنووی  ۱/۵۷۶ )

۲  -  امام فخر الدین الزیلعی ؒ  ۷۴۳ ؁ھ) ۔ (تبیین الحقائق  ۱/۱۷۸)

۳  -  امام تقی الدین سبکی ؒ     ۷۵۶ ؁ھ ) ۔ ( شرح المنہاج للسبکی  بحوالہ المصابیح ، صفحہ /۴۱)

۴  -  امام ابن الملقن ؒ    ۸۰۴ ؁ھ ) ۔ (البدر المنیر لابن الملقن  ۴/۳۵۰)

۵  -  امام ولی الدین العراقی ؒ (م ۸۲۶ ؁ھ) ۔ (طرح التثریب للعراقی  ۳/۹۷ )

۶  -  امام بدر الدین العینی ؒ  ۸۵۵ ؁ھ) ۔ ( العنایہ للعینی  ۲/۵۵۱)

۷  -  امام جلال الدین سیوطی ؒ     ۹۱۱  ؁ھ) ۔ (المصابیح للسیوطی ، صفحہ /۲۸، ۳۰)

۸  -  امام قسطلانی ؒ     ۹۲۳  ؁ھ) ۔ (ارشاد الساری  ۳/۴۲۶)

۹  -  امام ، شیخ الاسلام زکریا الانصاری ؒ ؒ  ( م  ۹۲۶  ؁ھ ) ۔ (فتح الوھاب ، للامام زکریا الانصاری  ۱/۵۸)

۱۰  -  محدث ملاعلی قاری ؒؒ  ۱۰۱۴  ؁ھ) ۔ (شرح النقایہ للامام ملا علی قاری  ۱/۳۴۱)

۱۱  -  حافظ محمد مرتضیٰ زبیدی ؒ  ۱۲۰۵  ؁ھ ) ۔ (اتحاف سادات المتقین  للزبیدی  ۳/۴۱۵ )

۱۲  -  امام نیموی ؒ   ۱۳۲۲  ؁ھ) ۔ (آثار السنن /۲۵۱)

معلوم ہوا کہ محدثین کی ایک جماعت نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔  

اور ہمارے علم کے مطابق عبد الرحمن مبارکپوری سے پہلے  کسی ایک محدث نے بھی اس روایت کو ضعیف نہیں کہا ہے۔ لیکن پھر بھی کفایت صاحب اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔

اب کچھ غیر مقلد اہل حدیث ، سلفی علماء کے حوالے ملاحظہ فرمائیے ، جنہوں نے اس روایت کو صحیح کہا یا اس کی تحسین کی ہے :

                ۱  -  عبد الرحمن المعلمی الیمانی  ؒ ، جس کو کفایت صاحب امیر المومنین فی اسماء الرجال ، فقیہ اسماء الرجال ، علامہ ، محدث کہتے ہیں ۔ (انوار البدر /۳۴۳) انہوں نے ہماری بیہقی والی روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔ (کتاب قیام رمضان /۵۷)

اسکین :

                ۲  -  شیخ عبد القادر الارنؤوطؒ ۔ (جامع الاصول بتحقیق عبد القادر الارنؤوط  ۲/۱۲۳،۱۲۴)

اسکین :

                ۳  -  شیخ حمید التویجری ؒ ۔  (الرد علی الکاتب المفتون للتویجری /۱۳۲)

اسکین :

                ۴  -  شیخ عبد اللہ الدویش ؒ ۔  (تنبیہ القاری لعبد اللہ الدویش / ۴۷۔ ۴۸)

اسکین :

                ۵  -  شیخ مصطفی العدوی ۔  (عدد رکعات قیام اللیل /۳۶)

اسکین :

                ۶  -  مولانا غلام رسول قلع والی ؒ ۔(رسالہ تراویح /۳۸)

اسکین :

                ۷  -  شیخ محب اللہ شاہ راشدی ؒ ۔ (مقالات راشدیہ /۱۸۴) وغیرہ حضرات نے اس روایت کی تصحیح یا تحسین کی اور صحیح قرار دیا ہے ۔

اسکین :

                                                       ۸-  نیز بیہقی کی اس حدیث کے بارے میں اہل حدیث شیخ اسماعیل الانصاری ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث کو امام نووی ؒ نے خلاصۃ الاحکام اور المجموع میں ، امام زیلعی ؒ نے نصب الرایہ میں ، امام سبکی ؒ نے شرح منہاج میں ، امام ابن عراقی  ؒ طرح التثریب میں ، امام عینی ؒ نے عمدۃ القاریؒ میں ، امام سیوطی ؒ نے المصابیح میں ، محدث ملا علی قاری ؒ نے شرح مؤطا میں ، امام نیموی ؒ نے آثار السنن میں ، وغیرہ لوگوں نے صحیح کہا ہے اور آگے انہوں نے شیخ البانی  ؒ کا رد کیا اور کہا (جس کا خلاصہ ہے کہ ) البانی  ؒ نے ۲۰  رکعات تراویح کا انکار عبد الرحمن مبارکپوریؒ کی تقلید میں کیا ہے ۔ (تصحیح حدیث صلاۃ التراویح /۷)

اس اہل حدیث سلفی عالم کے حوالے سے تین باتیں معلوم ہوئیں :

                ۱  -  البانی اور مبارکپوری صاحب کا اس روایت کا انکار کرنا خود انہیں کے فرقہ کے عالم کی نظر میں مردود ہے ۔

                ۲  -  البانی نے بیہقی کی بیس رکعات تراویح کی رویت کا انکار عبد الرحمن مبارکپوری کی تقلید میں کیا ہے ۔

                ۳  -  البانی صاحب تقلید بھی کرتے تھے ۔

یاد رہے ، یزید بن خصیفہ ؒ کی روایت کی مطابعت موجود ہے۔ لہذا یہ روایت (صحیح ) اور مضبوط حجت ہے ، الحمد للہ ۔

کفایت صاحب سے سوال :

ہمارا اہل حدیثوں سے عموماً اور کفایت صاحب سے خصوصاً سوال ہے کہ

وہ کم سے کم امام نووی ؒ سے پہلے کا کسی ایک محدث   کا  حوالہ پیش کریں جنہوں نے ابن خصیفہ ؒ کی ۲۰؍ رکعات تراویح والی روایت کو ضعیف کہا ہو۔  کیوں کہ خود اہل حدیثوں کا اصول ہے کہ پہلے لوگوں کے مقابلہ میں بعد والوں کی بات حجت نہیں ہے ۔ (نور العینین /۱۳۷) لہذا کفایت صاحب سے گزارش ہے کہ وہ امام نووی ؒ ( م   ۶۷۶؁ھ ) سے پہلے کا کوئی محدث یا فقیہ بتائیں جنہوں نے اس روایت ضعیف قرار دیا ہو۔

نوٹ: فرقہ اہل حدیث عموماً یہ کہتے ہیں کہ ہم اہل حدیث صحابہ کرام ؓ کے دور سے آج تک موجود ہیں ۔ (تحفہ حنفیہ : ص ۲۵۴)

لہذا ہم کہتے ہیں کہ فرقہ اہل حدیث جب صحابہ کرام ؓ کے دور سے آج تک موجود تھا ، تو صحابہ کرام ؓ کا دور ۱۱۰ ہجری میں ختم ہوا، اور امام نووی ؒ ۶۳۱ ہجری میں پیدا ہوئے ۔تو فرقہ اہل حدیث کو امام نووی ؒ (م  ۶۷۶؁ھ ) سے پہلے کا کوئی محدث کا حوالہ ضرور مل جانا چاہیے ، جنہوں نے ۲۰ رکعات تراویح کی یہ روایت کو میں ضعیف قرار دیا ہو۔

                نیز ، امام نووی ؒ کے بعد ہر ہر صدی میں فقہاء اور محدثین نے ۲۰؍ رکعات تراویح کی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ، جیسا کہ تفصیل اوپر گزر چکی ۔

                تو کیا ہر اس صدی میں ’اہل حدیث‘ علماء کے حوالجات مل سکتے ، جنہوں نے ان فقہاء اورمحدثین کا رد کیا ہو ، جنہوں نے ۲۰ رکعات تراویح کی روایت کو صحیح قرار دیا ہو؟ تاکہ امت کو معلوم ہو، کہ ۲۰ ؍ رکعات تراویح کی روایت ضعیف کہنے والے انگریز سے پہلے بھی موجود تھے ۔

                پس ، اللہ تعالیٰ ہمیں حق اور سچ کو قبول کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے ۔ آمین ۔

 

 

 

یزید  بن خصیفہ ؒائمہ جرح وتعدیل کی نظرمیں

                   یزید بن عبداللہ بن خصیفہ کی ثقاہت پر تحقیق درج ذیل ہے :

(۱)        امام ابن سعد ؒ(المتوفی  ۲۳۰؁ھ)فرماتے ہیں کہ یزید بن خصیفہ ؒ عابد ،ناسک ، کثیر الحدیث اور مضبوط ہیں ۔(طبقات ابن سعد جلد :۵صفحہ :۳۹۶)

نوٹ:کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں کہ ابن خصیفہ ؒ کے بارے میں صرف اورصرف ایک محدث ابن سعد ؒ ہی سے اعلی توثیق منقول ہے ۔(مسنون رکعات تر اویح صفحہ :۷۶) یہاں پر کفایت صاحب نے جھوٹ بولا ہے ،کیونکہ

اسکین :  

(۲)       حافظ المغرب امام ابوعمر بن عبدالبر ؒ (المتوفی  ۴۶۳؁ھ )فرماتے ہیں کہ وکان ثقۃ مامونا (ابن خصیفہ ؒ ثقہ ،مامون ہیں )۔(التمہید لابن عبدالبر جلد :۲۳صفحہ ؛۲۵)

اسکین :  

اور غیر مقلدین کے ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر ثقۃ مامونا اور ثبت کو ایک ہی درجہ کی تعدیل بتائی ہے (التحدیث فی علوم الحدیث صفحہ :۲۸۲)۔ اسکین  ملاحظہ فرمائے :

معلوم ہواکہ یہاں پر کفایت صاحب نے جھوٹ بولا ہے کہ ابن خصیفہ ؒکی اعلی درجہ کی تعدیل صرف اور صرف امام ابن سعد ؒسے ملتی ہے ۔

(۳)        امام یحیی بن معین ؒ (المتوفی ۲۳۳؁ھ ) کا  قول :

 1 : امام اسحق بن منصور ؒ (المتوفی ۲۵۱؁ھ)فرماتے ہیں کہ’’ قال اسحق بن منصور عن یحیی بن معین :یزید بن خصیفہ ثقۃ ‘‘ امام یحیی بن معین ؒالمتوفی ۲۳۳؁ھ )فرماتے ہیں کہاابن خصیفہ ؒ ثقہ ہیں۔ (کتاب الجرح والتعدیل جلد :۹ صفحہ :۲۷۴)

                2:ابن طہمان ؒ (المتوفی ۲۸۴؁ھ) بھی یہی کہتے ہیں کہ’’ قال ابن طہمان عن یحیی بن معین :یزید بن خصیفہ ثقۃ ‘‘ابن معین ؒ نے ابن خصیفہ کو ثقہ کہا ہے۔ (سوالات ِابن طہمان رقم ۹۳۷۴)

اسی طرح حافظ مزی ؒ (المتوفی ۷۴۲؁ھ)فرماتے ہیں کہ ۔۔قال احمد بن سعد بن ابی مریم عن یحیی بن معین ثقۃ حجۃ ۔

                3 : امام احمد بن سعد بن مریم (المتوفی ۲۵۳؁ھ )کہتے ہیں کہ ابن معین ؒنے ابن خصیفہ ؒ کو ثقہ اور حجت قرار دیا ہے۔ (تہذیب الکمال جلد:۳۲صفحہ :۱۷۳)

اعتراض :کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ قول بے سند ہے ۔

الجواب نمبر ۱ :اہل حدیث مسلک کے محدث مولانا ارشاد الحق اثری صاحب خود کفایت اللہ صاحب کے مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں کہ ۔۔البتہ یہ ناکارہ یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ علامہ مزی ؒ  ہوں یا علامہ ابن الجوزیؒ ہوں یا  علامہ ذہبی ؒہوں  وہ اگر ائمہ محدثین (جن میں ابن معین ؒ بھی شامل ہیں ان )سے کوئی نقد وجرح نقل کرے یا کسی کی توثیق نقل کرے اور ان کے یہ نقل کردہ اقوال اگر متداول کتابوں میں نہیں ملتے (یعنی ان کی اپنی کتابوں میں نہیں ملتے ہوں)تو بلا وجہ ان سے انکاردرست نہیں ۔اس انکا ر کا منطقی نتیجہ ہے کہ ہم علامہ مزیؒ سے زیادہ محطاط ہیں  اور انہوں نے بلا ثبوت ان اقوال کا انتساب ائمہ کرام کی طرف کرکے جرم کا اعتراف کیا ہے،یہ بے اعتمادی بلکہ قرآنی زبان میں ’’ان بعض الظن اثم‘‘  کا مصداق ہے ۔ (انوار البدر صفحہ :۳۳)

معلوم ہوا کہ ان ائمہ رجال ،امام مزیؒ امام ذہبی ؒ کا کسی کی جرح نقل کرنے پر اصل کتاب میں نہ ہونے کی وجہ سے اس کا انکار کردینا محض ائمہ رجال امام مزیؒ اور امام ذہبیؒ پر بے اعتمادی اور بد ظنی ہے ۔لہذا کفایت صاحب سے گذارش ہے کہ وہ ان ائمہ کرام پر بے اعتمادی کو کم سے کم عوام کے سامنے ظاہر نہ کریں ۔

نیز ابن معین ؒ کا کوئی قول ابن خصیفہ ؒکی تضعیف میں نہیں ہے ،تو پھر اہل حدیث مسلک کے اصول کی روشنی میں ہی کفایت اللہ صاحب کو یہ اعتراض کرنے کا حق ہی نہیں ہے ،الغرض یہ اعتراض باطل و مردود ہے ۔

نوٹ : امام مزیؒ کے پہلے اور بعد بھی ائمہ جرح وتعدیل نے ابن معین ؒ کا یہ قول نہ صرف یہ کہ نقل کیا ہے بلکہ اسے یحیی بن معین ؒ سے ثابت مانا ہے ،چنانچہ:

                ۱:امام عبد الغنی بن عبد الواحد المقدسیؒ(المتوفی ۶۰۰؁ھ)

                ۲:امام ابن کثیر ؒ (المتوفی ۷۷۴؁ھ)

                ۳:امام ابن حجر عسقلانی ؒ (المتوفی ۸۵۲؁ھ)

                ۴ : امام عینی  ؒ  (المتوفی ۸۵۵؁ھ)

(الکمال فی اسماء الرجال للمقدسی جلد :۲ صفحہ :۲۴۳مخطوطہ ،التکمیل فی الجرح والتعدیل لابن کثیر ؒجلد :۲صفحہ :۳۴۷،ہد ی الساری مقدمہ فتح الباری صفحہ : ۴۵۱، مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار : جلد : ۳ : صفحہ ۲۳۷)

اسکین :  الکمال فی اسماء الرجال للمقدسی جلد :۲ صفحہ :۲۴۳مخطوطہ

معلوم ہوا کہ اس قول کی کوئی نہ کوئی سند موجود ہے۔

الجواب نمبر ۲: ابن معین ؒ کے اس قول کی تائید ان کے ایک  اور قول سے ہوتی ہے چنانچہ حافظ ابن محرز ؒ فرما تے ہیں کہ سمعت یحیی وقیل لہ ایما احب الیک یزید بن عبداللہ بن خصیفہہ او محمد بن عمر بن علقمہ فقال یزید وزید اعلا ہما  میں نے یحیی ؒ سے سنا ؛کہ ان سے کہا گیا کہ آپ کو یزید بن خصیفہ ؒ اور محمد بن عمر بن علقمہ ؒمیں سے کون زیادہ محبوب ہے ؟تو انہو ں نے فرمایا یزید ۔اور یزید ان دونوں اعلی ہیں ۔(معرفۃالرجال بروایت ابن محرز ؒ جلد ؛۱ صفحہ : ۱۱۶)

غور فرمائیے ! ابن معین ؒکا یزید بن خصیفہ ؒ کا نا م لینا اور کہنا کہ وہ محمد بن عمر بن علقمہ سے اعلی ہیں یہ صاف بتلا رہا ہے کہ یزید بن خصیفہ ؒ ثقہ ہی نہیں بلکہ حجت اور مضبوط ہیں ۔کیونکہ محمد بن عمر بن علقمہ ؒ(المتوفی ۱۴۵؁ھ )صحیحیین کے راوی ہیں اور خود امام الجرح والتعدیل یحیی بن معین ؒ فرماتے ہیں کہ آپ ثقہ ہیں،اور ابن معین ؒکے چار چار شاگردوں نے ان سے یہ بات نقل کی ہے  (سوالاتِ ابن طہمان رقم :۲۴،معرفۃ الرجا ل بروایت ابن محرزؒ جلد :۱صفحہ:۱۰۷،تاریخ ابن ابی خثیمہ جلد :۲صفحہ :۱۲۳،الکامل لابن عدی ؒجلد :۷ صفحہ ج۴۵۶)

الغرض جب محمد بن عمر بن علقمہ ؒثقہ ہیں تو پھر امام ابن معین ؒ کا سوالا ت کے جواب میں یزید کہنا اور پھر یزید بن خصیفہ ؒکو محمد بن عمر سے اعلی بتانا یہ صاف طور سے دلالت کر رہا ہے کہ ان کے نزدیک یزید بن خصیفہ ؒ ثقہ ہی نہیں  بلکہ اس سے اعلی حجت اور مضبوط ہیں ۔ معلوم ہو ا کہ اس سے اس قول کی بھی تائید ہوتی ہے جسے احمد بن سعد بن مریم ؒ نے روایت کیا ہے ۔

نوٹ : نیز ابن خصیفہ ؒ کے ثقہ ، مضبوط اور حجت ہونے کی تائیدامام ابن معینؒ کے ایک تیسرے قول سے بھی ہوتی ہے ،چنانچہ امام ابن معین ؒ سے پوچھا گیا کہ :وقیل لہ ایما اکثر محمد بن اسحاق او محمد بن عمر و ؟محمد بن عمر احب الی منہ کسی نے ان سے پوچھاکہ آپ کومحمد بن اسحاق ؒ اور محمد بن عمر ؒو میں سے کون زیادہ محبوب ہے ؟تو ابن معین ؒ فرماتے ہیں کہ مجھے محمد بن عمر ان سے زیادہ محمود ہیں ۔(تاریخ یحیی بن معین ؒبروایت الدوری رقم:۱۰۵۶،معرفۃ الرجال بروایت ابن محرز ؒ جلد :۱ صفحہ :۵۷۸ ولفظہ )

اور محمد بن اسحقؒ المتوفی ۱۵۰؁ھ کے بارے میں خود ابن معین ؒ فرماتے ہیں کہ :ابن اسحق ثبت فی الحدیث(ابن اسحقؒ حدیث میں مضبوط ہیں) ۔ (تاریخ بغداد جلد :۱ صفحہ :۲۴۶)

الغرض جب محمد بن اسحق ؒ ابن معین ؒکے نزدیک حدیث میں مضبوط ہیں تو ابن معین ؒ ہی کے نزدیک محمد بن عمر وبن علقمہ ؒان سے زیادہ محبوب ہیں یعنی مضبوط ہیں اور پھر امام ابن معین ؒ ہی کے نزدیک محمد بن عمرو بن علقمہ سے زیادہ محبوب یزید بن خصیفہ ؒ ہیں یعنی ابن معین ؒ کے نزدیک ابن خصیفہ  محمد بن عمرو بن علقمہ  سے زیادہ  حدیث  میں  ثبت  اور مضبوط ہیں ۔

تو یہ قول بھی صاف طور سے بتا رہا ہے کہ یزید بن خصیفہ ؒ ابن معینؒ کے نزدیک ثقہ ہی نہیں بلکہ حجت اور مضبوط ہیں ۔لہذا کفایت صاحب کا اعتراض ہی مردود ہے ۔

نوٹ :کفایت صاحب کہتے ہیں کہ ابن محرز ؒ مجہول ہیں ،لیکن صحیح بات یہ ہے کہ محدثین کے اصول کے مطابق وہ مجہول نہیں بلکہ مقبول ہیں ۔[7]

ٍ(۴)     امام احمد بن حنبل ؒ کا قول :امام اثرم ؒ نے امام احمد بن حنبل ؒ کا قول نقل کیا ہے کہ (امام احمد بن حنبل ؒ نے کہا کہ )یزید بن خصیفہ ؒ ثقہ ہیں ثقہ ۔(کتاب الجرح والتعدیل جلد :۹صفحہ :۲۷۴)

اعتراض :کفایت صاحب نے محض تعصب کی وجہ سے یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ مکرر لفظ کی زیادتی صرف ایک مخطوطے میں ہے دیگر میں ایسا نہیں ہے ۔

الجواب : خود مسلک اہل حدیث کے ڈاکٹر وصی اللہ عباسی صاحب کہتے ہیں کہ امام اثرم ؒنے امام احمد بن حنبل ؒ(المتوفی ۲۴۱؁ھ)سے نقل کیا ہے کہ (امام احمد بن حنبل ؒنے کہا کہ )یزید بن خصیفہ ؒثقہ ہیں ثقہ ۔( حاشیہ معرفۃ الرجال للامام احمدبن حنبل ؒبروایت عبداللہ تحقیق وصی اللہ عباس جلد :۲صفحہ :۴۹۰)

معلوم ہوا کہ خود اہل حدیث عالم نے اس زیا دتی کو قبول کیا ہے ،لیکن کفایت صاحب محض اپنے مسلک کی بیجا تائید میں اس کا انکا ر کر رہے ہیں۔

کفایت صاحب کی دوغلی پالیسی :

                مختصر طور پر کفایت صاحب کی دوغلی پالیسی ملاحظہ فرمائیں :کفایت صاحب نے امام اثرم ؒ کے نقل کردہ قول پر اعتراض کیا ہے کہ ثقہ کے مکرر لفط کی زیادتی صرف ایک ہی مخطوطے میں ہے اور اس کو قبو ل نہیں کیا ،حالانکہ امام اثرم ؒ کا قول مطبوعہ اور مخطوطہ دونوں کتابوں میں موجود ہے ۔لیکن کفایت صاحب بڑے زور وشور سے کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل ؒ نے یزید بن خصیفہ ؒکو منکر الحدیث کہا ہے ۔اور لکھتے ہیں کہ اس قو ل کو امام احمد سے امام ابوداؤد ؒنے روایت کیا ہے اور ان سے ابوعبید الآجری ؒ نے ،پھر انہی کی کتاب سے امام مزیؒ نے نقل کیا ہے ۔ (مسنون رکعات تراویح صفحہ ۷۴)

                جبکہ سوالات ِابو عبید الآجری میں یہ قول ہے ہی نہیں ،نہ مطبوعہ میں اور نہ ہی مخطوطہ میں ،لیکن پھر بھی اس سے دلیل پکڑرہے ہیں ’’اپنامن پسند قول آیا تو اسے قبول کیا حالانکہ وہ نہ کتاب میں ہے نہ مخطوطے میں ،لیکن جب ہمارا قول آیا جوکہ کتاب میں بھی ہے اور ایک مخطوطے میں بھی اس کو قبول نہیں کیا‘‘ ۔یہ دوغلی پالیسی نہیں تو اور کیا ہے ؟؟

                پھر منکر الحدیث کے خلا ف امام عبد اللہ بن احمد ؒکہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل ؒنے فرمایا کہ میں یزید بن خصیفہ ؒکے بارے میں خیر ہی جانتا ہوں (اچھا ہی جانتا ہوں )(علل امام احمد بروایت عبداللہ رقم:۳۲۳۲)یہ قو ل بتارہا ہے کہ امام احمد بن حنبل ؒ سے ابن خصیفہ ؒکے بارے میں صرف توثیق ہی ثابت ہے ۔کیونکہ جب امام احمد ؒ یزید بن خصیفہ ؒ کے بارے میں خیر ہی جانتے ہیں تو پھر وہ منکر الحدیث کیسے ہو سکتے ہیں؟؟ 

شبہہ :ممکن ہے کہ کفایت صاحب اپنے مسلک کے تعصب میں کہیں کہ ہو سکتا ہے کہ امام مزیؒ کے پاس جو سوالات ِ ابوعبید الآجری ؒکا نسخہ تھا اس میں یہ قول موجود ہو جیسا کہ موصوف نے یزید ابن معاویۃ کے مسئلة میں امام بخاری ؒ کی جرح کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ہماراقول جو کہ امام اثرم ؒ نے روایت کیا ہے امام ابن ابی حاتم ؒ نے نقل بھی کیا ہے اور الجرح و تعدیل کے ایک مخطوطے میں بھی موجود ہے ،لیکن پھر بھی کفایت صاحب اس کا انکار محض اس لیے کررہے ہیں کہ ان کے مسلک کے خلاف ہے۔یہ کھلا مسلکی تعصب نہیں تو اور کیا ہے ؟؟

 اور مخطوطے کے اضافے کے سلسلے میں خود کفایت اللہ صاحب زبیرعلی زئی کو امام بخاریؒ کی ایک جرح کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر کوئی یہ کہے کہ ’’امام ابن کثیر ؒ کاقول امام بخاریؒ کی تاریخ الاوسط میں ہے لیکن اصل کتاب میں والحدیث معلول ‘‘(حدیث  کے معلول ہونے کے )الفاظ نہیں ہیں تو عرض ہے کہ اس کا زیادہ سے زیا دہ مطلب یہ ہو اکہ ’’تاریخ الاوسط ‘‘کے بعض نسخوں میں یہ عبارت  ناقص ہے ،اور امام ابن کثیر ؒکے سامنے جوتاریخ الاوسط کا نسخہ تھا اس میں یہ عبارت مکمل تھی اور نسخوں میں اختلاف عام بات ہے ۔آج بھی مخطوطات کی تصدیق کے وقت کے دیگرنسخوں سے ناقص  عبارتوں کو مکمل کیا جاتاہے ،بلکہ دیگر اہل علم کے منقولات سے بھی نسخو ں کی ناقص عبارتیں درست کی جاتی ہیں ۔لہذا ابن کثیرؒ کے سامنے جو نسخہ تھا اس نسخے میں یہ قول مکمل تھا اور بعض دیگر نسخوں میں یہ قول نا قص ہے ۔لہذا تمام نسخوں کو دیکھتے ہوئے یہ عبارت مکمل ہو گی اور حجت ہوگی ۔(حدیث یزید محدثین کی نظر میں صفحہ :۲۸)[8]

 جب کفایت صاحب کے نزدیک ابن کثیر ؒ کی یہ عبارت تمام نسخوں کو دیکھتے ہوئے مکمل اور حجت ہے تو انہیں کے اصول میں امام احمد بن حنبل ؒ کی عبارت (ثقہ ہیں ثقہ )بھی حجت ہوگی ۔ لہذا کفایت صاحب کا اعتراض ان کے اپنے ہی اصول کی روشنی میں باطل ہے ۔اور کفایت صاحب کا امام احمد بن حنبل ؒکے قول کا انکار محض مسلکی تعصب ہے ۔

الجواب:۲  مزید اگر بقول غیر مقلدین منکر الحدیث کی جرح مان لیں تو خود اہل حدیث علماء نے صراحت کی ہے کہ ’’امام احمد بن حنبل ؒ راوی کے تفرد کے اعتبار سے منکر کا اطلاق کرتے ہیں‘ ‘جس کی تفصیل آگے آرہی ہیں۔ اور حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ المتوفی ۸۵۲؁ھ امام خصیفہ ؒپر امام احمد ؒکی اسی جرح کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ قلت ھذہ اللفظۃ یطلقھا احمد علی من یغرب علی اقرانہ بالحدیث عرف ذلک بالاستقراء من حالہ وقداحتج بابن خصیفہۃ مالک والائمۃکلھم  ‘‘ میں کہتا ہوں کہ یہ لفظ جس کو امام احمد بن حنبلؒ نے نقل کیا ہے ایسے شخص پر جو اپنے زمانے میں غریب الحدیث ہو ۔(بشرطیکہ اس کے غریب ہو نے کا حال برقرار رہے۔بے شک ابن خصیفہ ؒ سے امام مالک ؒ اور تمام ائمہ نے احتجاج کیا ہے) ۔ (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری صفحہ :۴۵۳)  لہذا جب امام احمد ؒ راوی کے تفرد پر منکر کا اطلاق کرتے ہیں تو یہاں بیس رکعت تراویح کے سلسلے میں ابن خصیفہؒ منفرد ہی نہیں بلکہ ان کے چھ چھ متابعات بھی موجود ہیں ۔ اس لحاظ سے بھی امام احمد بن حنبلؒ کی جرح سے ابن خصیفہ ؒ کی روایت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

                اس کے برعکس محمد بن یوسف ؒ گیارہ رکعت کی روایت میں اکیلے ہیں اور ان  کا کوئی متابع بھی نہیں ہے ۔الغرض ان ساری تفصیلات سے معلوم ہوا کہ امام احمد ؒ نے یزید بن خصیفہ ؒ کی زبردست توثیق کی ہے اور ان کے قول منکر الحدیث سے ان کا کمزور ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔واللہ اعلم

اعتراض :کفایت صاحب امام احمد ؒ کے منکرالحدیث کے بارے میں بحوالہ الکامل لابن عدی کہتے ہیں کہ ’’بعض اہل  علم کا یہ کہنا کہ امام احمد ؒنے یہاں منکر سے منفرد حدیث بیان کرنے والا مراد لیا ہے  یہ بے دلیل اور بے قرینہ ہے۔‘‘ (مسنون رکعات تراویح : ص۷۲ )

الجواب : اول تو کفایت صاحب سے گزارش ہے کہ وہ الکامل کے حوالے کو مع سند و متن نقل کریں۔

دوم یہ اعتراض ہی باطل و مردود ہے جس کی تفصیل کے لیے دیکھیے  ص : ۲۹۔

(۵)       امام ابوحاتم  ؒ المتوفی ۲۷۷؁ھ فرماتے ہیں کہ یزید بن خصیفہ ؒثقہ ہیں۔ (کتاب الجرح والتعدیل جلد:۹ صفحہ : ۲۷۴)

(۶)       امام ابن حبان ؒ المتوفی ۳۵۴؁ھ نے یزید بن خصیفہ ؒ کو کتاب الثقات میں شمار کیا ہے۔ (کتاب الثقات جلد:۷ صفحہ ؛۶۱۶)

(۷)       امام ابن حجر عسقلانی ؒ المتوفی ۸۵۲؁ھ نے بھی ابن خصیفہ ؒ کو ثقہ کہا ہے۔ (تقریب التہذیب رقم ؛۷۷۳۸)

یزید بن خصیفہؒ پر کفایت صاحب کے اعتراضات کے جوابات :

اعتراض نمبر ۱ :کفایت صاحب کہتے ہیں امام احمد ؒنے یزید بن خصیفہ کو منکر الحدیث کہا ہے ۔

الجواب : امام احمد ؒ منکر کا اطلاق راوی کے منفرد ہونے پر کرتے ہیں اور بیس رکعات تراویح کی روایت میں یزید بن خصیفہ ؒ منفرد نہیں ہیں لہذا یہاں پر امام احمد ؒکی جرح  سے یزید بن خصیفہ پر کوئی فرق نہیں پڑتاؒ اور امام احمد ؒ سے ہی ابن خصیفہ ؒ کی زبردست تو ثیق ثابت ہے جس کی تفصیل اوپر گزر چکی۔

اعتراض نمبر۲:کفایت صاحب لکھتے ہیں کہ امام ابن حبان ؒفرماتے ہیں کہ یزید جب اپنے حافظے سے بیان کرتے ہیں تو بہت وہم کا شکار ہوتے ہیں ۔(مسنون تراویح صفحہ :۷۴)

الجواب نمبر ۱  :امام ابن حبان ؒ نے ابن خصیفہ ؒ کو اپنی کتاب الثقات میں شمار کیا ہے دیکھیے (کتاب الثقات جلد ؛۷صفحہ ؛۶۱۶) معلوم ہوا کہ امام ابن حبانؒ سے جرح وتعدیل دونوں مروی ہے۔ مگر اہل حدیث مسلک کے ابو خرّم شھزاد صاحب کہتے ہیں کہ  ’اگر کسی محدث کے ایک ہی راوی کےبارے میں دو مختلف قول ہیں تو اس محدث کے دونوں قول آپس میں ساقط ہوجائیں گے یا جمہور کے موافق جو قول ہوگا وہ لےلیاجائےگا اور دوسرا قول کو چھوڑدیاجائےگا ۔ (کتاب الضعفاءوالمتروکین: ج۱ : ص ۹۰) لہذا خد  اہل حدیث مسلک کے اصول کی روشنی میں یا تو ابن حبان ؒ کے دونوں باتیں ساقط ہوجائیں گے یا ان کی توثیق کو ہی لیاجائےگا،کیونکہ جمہور نے یزید بن خصیفہ ؒ کی توثیق کی ہے۔الغرض اب کفایت صاحب کے پاس سوائے ہاتھ ملنے کے کچھ نہیں بچتا کیونکہ وہ اب ابن حبان ؒکی جرح پیش نہیں کر سکتے ۔

الجواب  نمبر ۲: خود کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں کہ ابن حبان ؒ جرح میں متعصب ہیں لہذا ثابت شدہ صریح توثیق کے مقابلے میں ان کی جرح کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔(انوار البدر صفحہ : ۱۲۷) الغرض کفایت صاحب کے اصول کے مطابق یہاں ابن حبان ؒ کی جرح کا کوئی اعتبار نہیں ہے،اور یہی وجہ ہے کہ امام ابن قطان ؒ المتوفی ۶۲۸؁ھ فرماتے ہیں کہ یزید بن خصیفہ ؒ  بغیر کسی اختلاف کے ثقہ ہیں (بیان الوہم ؛جلد ؛ ۵صفحہ ؛۲۹۸)معلوم ہوا کہ امام ابن قطان ؒ کے نز دیک بھی امام احمد ؒ اور امام ابن حبان ؒکی جرح صحیح نہیں ہے ۔

آخری سہارا : کفایت صاحب کہتے ہیں کہ امام ذہبی ؒ نے ابن خصیفہؒ کو اپنی ضعفاء کی  کتاب میزان میں نقل کیا  اور امام احمد سے منکرالحدیث ہونے نقل کرنے کے ساتھ ساتھ  ان کے قول پر کوئی تعاقب نہیں کیا ہے ۔معلوم ہوا کہ امام ذہبی ؒ انہیں ثقہ ثقہ کہنے ساتھ ساتھ ان کے حافظے پر کلام کو تسلیم کرتے ہیں ۔

الجواب :اگر کفایت صاحب اپنے  اصول کے پابند ہیں تو صحیح بخاری کے ایک راوی ابو الیسع البصریؒ ہیں،ان کو حافظ ذہبیؒ نے میزان الاعتدال میں  ذکر کیاہے اور ایک توثیقی کلمہ بھی انھوں نے نقل نہیں کیا ہے ۔(میزان الاعتدال ؛جلد ؛۱،صفحہ :۱۷۶)

اب کفایت صاحب کیا یہ کہ سکتے ہیں کہ یہ راوی امام ذہبیؒ کے نزدیک ضعیف ہے ۔جو جواب اسکے متعلق آپ دیں گے وہی  جواب ہمارا بھی ابن خصیفہؒ کے بارے میں ہوگا ۔

خلاصہ کلام ۔۔۔یہ ہے کہ یزید بن خصیفہ ؒ ثقہ ہی نہیں بلکہ اعلی درجے کے ثقہ ہیں ۔جیسا کہ محدثین کی نے فرمایا ہے۔ 

امام احمد ؒ کے نزدیک منکر الحدیث کا مطلب

        امام احمد بن حنبل ؒ المتوفی ( ۴۱ ۲ ؁ھ) جب ثقہ راوی کو منکر الحدیث یا اس کی روایت کو منکر کہیں تو ان کے نزدیک راوی کا تفرد مراد ہوتا ہے ،لیکن اپنے مسلک کی بے جا تائید میں کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں کہ بعض اہل علم کا یہ کہنا کہ امام احمد ؒ نے یہا ں منکر سے منفرد حدیث بیان کرنے والا مرادلیا ہے،بے دلیل اور بے قرینہ ہے ۔(مسنون تراویح )

الزامی جواب :کفایت صاحب کے فتوی کی روشنی میں معلوم ہوا کہ خود غیر مقلدین علما ء بے دلیل بات کرتے ہیں ۔کیونکہ ۔۔۔۔

                ۱۔اہل حدیث محدث ارشاد الحق اثری صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حافظ ابن حجر ؒ نے بھی تصریح کی ہے کہ امام احمد ؒ تفرد راوی (راوی کے اکیلے ہونے )پر منکر کا اطلاق کرتے ہیں ،جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے ۔(توضیح الکلام صفحہ ؛۴۷۳)

                ۲:اہل حدیث محقق حافظ شاہد محمود صاحب لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ کیونکہ امام احمدؒ  عمومامنکر کا اطلاق راوی تفرد پر کرتے ہیں ۔(دوام حدیث صفحہ ؛۵۵۴)

                ۳: کفایت اللہ صاحب کے ’امیر المومنین فی اسماء الرجال‘ اور ذہبی زماں شیخ یحییٰ المعلمیؒ اور

                ۴ : شیخ البانی ؒنے بھی یزید بن خصیفہ کے بارے میں امام احمد ؒ کے قول’’ منکر الحدیث ‘‘ کا مطلب تفرد لیا ہے (تفرد یعنی اس روایت کو بیان کرنے میں وہ تنہاء ہیں)۔دیکھئے (آثار الشیخ المعلمی ج /۱۳، ص۲۶، ممن تکلم فیہ لخطئہ فی حدیث،صلاۃ التراویح للالبانی ؒ)

 لہذا کفایت صاحب کے فتوے  سے تو ان کے اپنے محدث اورمحقق بھی نہیں بچتے اور بے دلیل بات کرنے والے ثابت ہوتے ہیں ۔

                تحقیقی جواب : کفایت صاحب کا یہ اعتراض دلائل کی روشنی میں مردود ہے ،پہلے سلف کے کچھ حوالے ملاحظہ فرمائیں ،کہ جب امام احمد بن حنبل ؒ  منکر الحدیث کا اطلاق کرتے ہیں تو کیا مراد ہوتا ہے ؟

                امام ابن رجب ؒ المتوفی ۷۹۵؁ھ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔قال الامام احمد ؒ  ’’لیس بالمنکر ؛لانہ قد وافقہ علی بعضہ غیرہ ‘‘لان قاعدتہ :أن  ما انفرد بہ ثقۃ فانہ یتوقف فیہ حتی یتابع علیہ فان توبع علیہ زالت نکارتہ خصوصا ان کان الثقۃ لیس بمشتہر فی الحفظ والاتقان وہذہ قاعدۃیحیی القطان وابن المدینی وغیرہما ۔

                امام احمد ؒ کا قاعدہ یہ ہے کہ جس حدیث میں ثقہ منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جائیگا  متابع کے ملنے تک ۔اگر متابع مل جاتا ہے تو اس کا منکر ہونا ختم ہوجاتا ہے خاص طور سے اگر ثقہ حافظ اور مضبوط ہونے میں مشہور نہ ہو ،اوریہی ابن قطان ؒاور ابن المدینی ؒوغیرہ کا قاعدہ ہے ۔ (فتح الباری لابن رجب ؒ جلد :۴ صفحہ :۱۷۴)

                ۲:امام بقائی ؒ المتوفی ۸۸۵؁ھ (جوکہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒکے شاگرد ہیں )فرماتے ہیں کہ ۔۔۔مااطلقہ البردیجی موجود فی کلام احمد ؒفانہ یصف بعض ما تفرد بہ بعض الثقات بالمنکر ،ویحکم علی بعض رجال الصحیحیین ان لہم مناکیر ،لکن یعلم من استقراء کلامہ انہ لابد مع التفرد من ان ینقدح فی النفس ان لہ علۃ ۔

امام بردیجی ؒ المتوفی ۳۰۱؁ھ نے جو حکم لگایا ہے وہ امام احمد ؒکے کلام میں موجود ہے اس لئے کہ وہ بعض ایسی حدیثوں پر منکر ہونے کا حکم لگا تے ہیں جن کے روایت کرنے میں کوئی ثقہ راوی منفرد ہو ،صحیحیین کے بعض راویوں کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان کی کچھ  حدیثیں منکر ہیں لیکن ان کی تمام باتوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تفرد کے ساتھ  ساتھ  کوئی ایسی علت بھی ہوتی ہے جو دل میں کھٹکتی ہے مگر اس پر کوئی دلیل نہیں ہوتی ،جیساکہ شاذ کے بارے میں امام احمد ؒ کا قول گذرا۔(النکت الوافیہ جلد :۱صفحہ ؛۴۶۷)

                ۳:امام ابن حجرعسقلانیؒ المتوفی ۸۵۲؁ھ یزید بن خصیف ؒ امام احمد بن حنبل ؒ کی جرح  ’’منکر الحدیث ‘‘کا جواب دیتے  ہوئے فرماتے ہیں کہ ۔قلت ہذہ اللفظۃیطلقہا احمد علی من یغرب علی اقرانہ بالحدیث عرف ذلک بالاستقراء من حالہ ۔

                امام احمد ؒ نے ان کے بارے میں کہا کہ وہ منکرالحدیث ہیں ،میں کہتا ہوں کہ وہ اس لفظ ’’منکرالحدیث ‘‘کا استعمال اس راوی کے لئے کرتے ہیں جو اپنے ساتھیوں سے الگ حدیث بیان کرتا ہو  یہ چیز اس کی تمام روایتوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتی ہے۔(ہدی الساری مقدمہ فتح الباری صفحہ۴۵۳)

                اسی طرح حافظ ؒایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں ۔۔قلت المنکر اطلقہ احمد بن حنبل وجماعۃ علی الحدیث الفرد الذی لا متابع لہ ۔ میں کہتا ہوں کہ امام احمد ؒ اور اصحاب حدیث کی جماعت منکر کا اطلاق ایسی منفرد حدیث پر کرتے ہیں جسکا کوئی متابع نہ ہو۔ (ہدی الساری مقدمہ فتح الباری صفحہ ؛۴۳۷)

                معلوم ہو ا کہ جب ثقہ اپنی روایت میں منفرد ہو تو سلف کے نزدیک امام احمد ؒ اس پر منفرد ہونے کا اطلاق کرتے ہیں ،کم سے کم یہ بات ان لوگوں کو ماننا تھا جو اپنے آپ کو سلفی کہتے ہیں اور سلف کے منہج کو ماننے کا دعوی کرتے ہیں ۔

                کچھ دلائل بھی ملاحظہ فرمائیں ۔۔

                ۱:امام ابو بکر المروزی المتو فی ۲۷۵؁ھ فرماتے ہیں کہ ۔۔قلت لابی عبد اللہ :فعبد الرحمن بن اسحق کیف ہو ؟قال أما ما کتبنا من حدیثہ فقد حدث عن الزہری بأحادیث کأنہ أراد تفرد بہا ،ثم ذکر حدیث محمد بن جبیر فی الحلف ۔حلف المطیبین ۔فأنکرہ أبوعبداللہ وقال :ما رواہ غیرہ  ۔ میں نے امام ابو بکر ؒ سے پوچھا کہ عبدالرحمن بن اسحق ؒ کیسے ہیں ؟تو امام احمد ؒ نے فرمایا کہ جہاں تک ان کی ان حدیثوں کی بات ہے جو ہم نے ان سے لکھی ہیں تو انہوں نے کئی حدیثیں امام زہری ؒ کے حوالے سے بیان کی ہیں،گویا امام احمد ؒ نے ان حدیثوں میں ان کے متفرد ہونے کو بیان کیا ہے (یعنی امام احمد ؒ نے جو کچھ حدیثیں ان سے لی ہیں ان میں ان کے تفرد کو بتلانا چاہا ہے )پھر امام مروزی ؒ نے محمد بن جبیر ؒ کی حدیث باب حلف میں بیا ن کی تو امام احمد ؒ نے اسے منکر کہا اور فرمایا کہ عبدالرحمن کے علاوہ کسی نے اسکو روایت نہیں کیا ۔(علل و معرفۃ الرجال بہ روایت المروزی رقم:۶۱)

                غور فرمائیے!عبد الرحمن بن اسحق المدنی ؒامام زہری ؒکی روایت میں منفردہونے کی وجہ سے امام احمد ؒ نے یہاں پر ان کی روایت پر۔منکر ہونے کا اطلاق کیا ہے ،اور یہی وجہ ہے کہ شیخ بشیر علی عمر لکھتے ہیں کہ ہذا الحدیث مما تفرد بہ عبدالرحمن بن اسحق عن الزہری ،فأنکرہ الامام احمد لأنہ کما قال :ما رواہ غیرہ ،وہذا من اطلاق المنکر علی مفردات الرواۃ۔

                یہ حدیث اس میں سے  ہے جس میں عبدالرحمن بن اسحق ؒ زہریؒ سے روایت کرنے میں منفرد ہیں اس لیے امام احمد ؒ نے اسے منکر کہا کیونکہ امام احمد ؒنے فرمایا ہے کہ عبدالرحمن بن اسحق ؒ کے علاوہ کسی نے اس کو روایت نہیں کیا ہے ۔اور یہ مثال ان میں سے ہے جن میں امام احمد ؒنے منکر کا اطلاق راوی کے اکیلے ہونے پر کیا ہے۔(منہج الامام احمد فی اعلال الاحادیث جلد:۲صفحہ ۷۸۸)

                اور یاد رہے کہ امام احمد بن حنبلؒ عبدالرحمن بن اسحق المدنی ؒ کو صالح الحدیث بھی کہتے ہیں (میزان الاعتدال جلد؛۲صفحہ؛۵۴۶)امام احمد ؒ ایک طرف توثیق بھی کر رہے ہیں دوسری طرف ان کی منفرد روایت کو منکر بھی کہہ رہے ہیں ،معلوم ہوا کہ جب ثقہ راوی اپنی روایت میں منفرد ہو تب امام احمد ؒ اس پر منکر کا اطلاق کرتے ہیں ۔

                دلیل۔۲:حضرت علی ؓ جب نمازکو شروع کرتے تب رفع الیدین کرتے بعد میں نہیں کرتے تھے  اس روایت کے بارے میں امام عبداللہ بن احمد ؒ المتوفی ۲۹۰؁ھ کہتے ہیں کہ میرے والد امام احمد ؒ فرماتے ہیں کہ ‘‘ قال عبداللہ قال أبی ولم یروہ عن عاصم غیر أبی بکر’’ النہشلی ‘‘أعلمہ کأنہ أنکرہ  ‘‘۔جہاں تک میں جانتا ہوں کہ  اس روایت کو عاصم سے ابو بکر النہشلی کے علاوہ کسی نے روایت  نہیں کیا ہے ۔گویا انہوں نے(امام احمدؒ نے) اس روایت کو منکر قرار دیا ۔(مسائل احمد بہ روایت عبداللہ رقم :۲۶۹)

                یہ قول واضح طور پر بتارہا ہے کہ  امام احمد ؒ نے أبو بکر النہشلی ؒ کی اس روایت کو اس لئے منکر کہا  کیونکہ ان کے نزدیک ابوبکر النہشلی اس روایت میں اکیلے ہیں ۔یہاں پر ابو بکر النہشلی کو خودامام احمد  ؒ نے     ثقہ کہا ہے  ۔(کتاب العلل ومعرفۃ الرجال للامام احمد بہ روایت عبداللہ رقم ۴۳۷۱)

                نوٹ :  یہ اور بات ہے کہ امام ابوبکر النہشلی ؒ اس روایت میں منفرد نہیں ہیں  ،اور حضرت علی ؓ کی یہ روایت بلا شک و شبہہ صحیح ہے. الغرض ان ساری تفصیلا ت سے معلوم ہو اکہ امام احمد بن حنبل ؒ جب ثقہ  راوی کی روایت پر منکر کا اطلاق کرتے ہیں تو اس سے راوی کا تفرد مراد ہوتا ہے ۔پس کفایت صاحب کا اعتراض ہی باطل و مردود ہے ۔

                سوال : کفایت صاحب محض مسلکی تعصب کی وجہ سے یہ جو کہتے ہیں کہ امام احمد ؒ روایت پر تفرد کے اعتبار سے منکر کا اطلاق کرتے ہیں نہ کہ راوی پر ۔تو آ پ کے فرقہ کے محقق شاہد محمود صاحب لکھتے ہیں کہ ’’بلکہ امام احمد ؒ تو محمد بن ابراہیم التمیمی ؒ کے بارے میں  فرماتے ہیں کہ انہوں نے منکر حدیث نقل کی ہے اور یہ ( محمد بن ابراہیم ؒ) بخاری اور مسلم کے اور حدیث’’ انما الاعمال بالنیات ‘‘  کے بنیادی راوی ہیں ۔ (دوام حدیث صفحہ ؛۵۵۴)

                جب کفایت صاحب کے نزدیک امام احمد ؒ صرف روایت پر تفرد کے اعتبار سے منکر کا اطلاق کرتے ہیں ۔توسوال یہ ہے کہ کیا کفایت صاحب آ پ کے نزدیک یہ  روایت منکر ہے۔(نعوذ باللہ )جواب ضرور عنایت فرمائیے !

                پس اللہ تعالی ہم سب کو حق سمجھنے اور اس کو قبول کرنے کی توفیق عطافرمائے !آمین




[1] جو کہ حضرات خلفاء راشدینؓ کے ساتھ ساتھ، ابن مسعودؓ، ابی ذر غفاریؓ ،ابو دردائؓ،سلیمان بن ربیعہؓ ، بلالؓ، حسن بن علی ؓ، ابی بن کعب ؓ، عوف بن مالکؓ،وغیرہ کے شاگرد رشید ہیں۔

[2]  جو کہ سلمان فارسیؓ ، سمرہ بن جندبؓ، ابن عمرؓ، حضرت علی ؓ، مغیرہ بن شعبہؓ، وغیرہ کے شاگرد ہیں۔

[3] جو کہ حضرت علی ؓ ، ابن مسعودؓ، ام المؤمنین حضرت حفصہؓ و ام حبیبہؓ اور حضرت شکل بن حمید ؓ وغیرہ کے شاگرد ہیں۔

[4] اس  حدیث کی سند میں  ابو جعفر الرازی ؒ  ( م ۱۷۰؁ھ) ہے جن کو امام  یحیی ابن معینؒ ، علی ابن المدینیؒ، محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصولیؒ ، ابو حاتمؒ ، الحاکمؒ ، ابن عبد البرؒ، محمد بن سعدؒ، ابن شاہینؒ وغیرہ ائمہ محدیثین نے ثقۃ قرار دیا ہے۔حافظ ابن عدی ؒ کہتے ہیں :  له أحاديث صالحة ، و قد روى عنه الناس ، و أحاديثه عامتها مستقيمة ، و أرجو أنه لا بأس به ، ایک روایت میں امام    احمد بن حنبل  ؒ نےصالح الحديث قرار دیا ہے ۔ امام  زکریابن یحیی الساجی ؒ صدوق ليس بمتقن کہتے ہے۔ جن روایات میں ابو جعفر الرازی ؒ  ثقات کی موافقت کرے،تو اس وقت امام ابن حبان ؒ انہی قابل احتجاج بتایا ہے۔ان کے  الفاِظ یہ ہیں : كان ينفرد عن المشاهير بالمناكير ، لا يعجبنى الاحتجاج بحديثه إلا فيما وافق الثقات اور ان کی ۲۰ رکعات تراویح  والی یہ روایت بھی  ثقات کے موافق ہیں۔( تہذیب التہذیب، ۱۲/۵۶، تاریخ الاسلام للذھبی،۴/۲۵۹ ، الثقات لابن شاہین،۱/۱۷۷)۔

اسی طرح امام ترمذی ؒ ، امام ابن خزیمہ ؒ ، امام ابو عوانہ ؒ ، امام ذہبی ؒ ، امام حاکم ؒ ، امام بغوی ؒ ، امام ضیاء الدین مقدسی ؒ ، امام دارقطنی ؒ ،امام بیہقی  ؒ ، امام نووی ؒ، امام ابو عبد اللہ محمد بن علی البلخی ؒ ، حافظ زین الدین عراقی ،ؒ حافظ ابن الصلاح ؒ ،حافظ ابو العبا س قرطبی ؒ ، امام ابن ملقن ؒ ، امام ابو عبد اللہ القرطبی ؒ ، امام سیوطی ؒ ، امام ابن حجر عسقلانی  ؒ وغیرہ نے ان کی حدیث کو صحیح کہا ہے ۔  (سنن ترمذی حدیث /۳۳۶۵،صحیح ابن خزیمہ /۱۴۷۹،صحیح ابی عوانہ /۱۵۴۹،مستدرک الحاکم مع التلخیص  ۲/۳۰۳ ، حدیث /۳۰۹۱،شرح السنۃ للبغوی ۸/۲۲۸، حدیث ۲۱۶۴،طرح التثریب ۲/۲۸۹،انوار الطریق، از علی زئی  : ص ۸،البدر المنیر ۳/۶۲۲ -۶۲۵،تفسیر قرطبی ۴/۲۰۱،الاتقان للسیوطی ۴/۴۴۸، نتائج الافکار۲/۱۲۹)

جب کسی حدیث کو کوئی محدث صحیح قرار دے ، تو ان کا صحیح کہنا کفایت صاحب ، علی زئی او ر دوسرے اہل حدیث کے نزدیک اس حدیث کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے ۔ (نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں /۱۷، انوار البدر /۲۷) اس لحاظ سے بھی ابو جعفر الرازی ؒ ثقہ ہیں : امام ذہبی ؒ انہیں صالح الحدیث کہتے ہیں ۔ (میزان الاعتدال ۳/۳۱۹)  امام ابو الفضل محمد بن طاہر بابن القیسرانی ؒ (م  ۵۰۷؁ھ) کہتے ہیں کہ ابو جعفر أرجو أنہ لابأس بہ ۔ (ذخیرۃ الحفاظ ۳/۱۷۷۴) امام حازمی ؒ ثقہ کہتے ہیں ، ابن دقیق العید ؒ کہتے ہیں کہ ان کولوگوں نے ثقہ کہا ہے۔( البدر المنیر ۳/۶۲۲-۶۲۴) امام عبد الحق اشبیلی ؒ کے نزدیک بھی وہ ثقہ ہیں ۔ (الاحکام الکبریٰ ۱/۳۸۴)  اہل حدیث عالم شیخ احمد شاکر بھی ابو جعفر الرازی کو ثقہ کہتے ہیں ۔ (مسند احمد ، بتحقیق احمد شاکر ، حدیث /۶۶۰) حافظ ہیثمی ؒ کہتے ہیں :وفی ابی جعفر کلام لایضر وھو ثقۃ ۔ (مجمع الزوائد ، حدیث/۱۱۹۴۶) حافظ بوصیری ؒ بھی ابوجعفر ؒ کو ثقہ کہتے ہیں ۔ (اتحاف الخیرۃ المہرۃ ۶/۱۶۴) امام شعبہ ؒ نے ابوجعفر ؒ سے روایت کیا ہے اور کفایت اللہ اور علی زئی کے نزدیک وہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں ۔ (انوار البدر /۱۳۲) (نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام /۴۴)  لہذا ابو جعفر الرازی ؒ ( م ۱۷۰؁ھ) جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ۔

[5] اس سند کے رواۃ کی تفصیل یہ ہے :

                ۱- امام بیہقی  ؒ (م ۴۵۸  ؁ھ ) مشہور ثقہ محدث ہیں ۔ (تاریخ الاسلام)

                ۲-ابو طاہر الفقیہ ؒ (م  ۴۱۰  ؁ ھ ) کا نام محمد بن محمد بن محمش ابو طاھر الفقیہ الزیادی ؒ ہے ۔  امام ذہبی ؒ ( م ۷۴۸ ؁ھ ) نے آپ ؒ کو فقیہ ، علامہ ، القدوۃ اور شیخ خراسان ، اور نیساپور کے اصحاب الحدیث کے امام قرار دیا ہے ۔ (تاریخ الاسلام ۹/۱۵۷، سیر اعلام النبلاء  ۱۷/۲۷۶) امام سبکی ؒ (م ۷۷۱  ؁ھ) فرماتے ہیں کہ شیخ ابو الطاھر زیادی ؒ اپنے زمانہ میں نیساپور کے امام المحدثین والفقہاء تھے ۔ (طبقات الشافعیۃ ۴/۱۹۸)  امام خلیلی ؒ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ آپ متفق طور پر ثقہ ہیں ۔ (الارشاد للخلیلی  ۳/۸۶۲)  لہذا آپ ثقہ ہیں ۔

                ۳- ابو عثمان البصری ؒ جن کا عمرو بن عبد اللہ بن درہم ابو عثمان البصری ؒ ہے ۔  امام ذہبی ؒ آپ ؒ کو امام ، القدوۃ ،زاہد ، صالح اور مسند نیساپورقرار دیتے ہیں ۔ (سیر اعلام النبلاء ۱۵/۳۶۴-۳۶۵، تذکرۃ الحفاظ ۳/۴۵) نیز امام بیہقی  ؒ ، امام ضیاء الدین المقدسی ، امام ابن حجر عسقلانی  ؒ نے ان کی روایت کو صحیح اور حسن قرار دیا ہے ۔ (معرفۃ السنن والآثار ۳/۱۵، حدیث /۳۸۴۵، المختارۃ  ۶/۴۷، حدیث /۲۰۱۸، الامالی المطلقہ /۷۷-۷۸) اور محدثین کا کسی روایت کو صحیح یا حسن کہنا غیر مقلدین کے نزدیک اس روایت کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے ۔ (نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں /۱۷، انوار البدر /۲۷) ۔معلوم ہوا کہ ابوعثمان البصری ؒ ثقہ ہیں ۔

                ۴- امام ابو احمد محمد بن عبد الوھابؒ ، سنن نسائی  ؒ کے راوی ہیں اور ثقہ عارف۔ (تقریب ، رقم :۶۱۰۴)

                ۵-خالد بن مخلد ؒ (م  ۲۱۳ ؁ھ ) صحیحین کے راوی اور صدوق ہیں ۔ (تقریب ، رقم : ۱۶۷۷)

                ۶- محمد بن جعفر الانصاری بھی صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں ۔ (تقریب ، رقم : ۵۷۸۴)

                ۷-یزید بن خصیفہ ؒ بھی ثقہ ہیں ۔ (تقریب ، رقم :۷۷۳۸)  مزید دیکھئے ص : ۲۱۔

                ۸- سائب بن یزید ؓ (م  ۹۱   ؁ھ) صحابی رسول ہیں ۔ (تقریب )

 

[6] اس روایت کے راویوں کا تعارف یہ ہے :

۱-امام بیہقی  ؒ (م  ۴۵۸؁ھ ) ثقہ محدث ہیں ۔ (تاریخ الاسلام )

                ۲- ابو عبد اللہ حسین بن عبد اللہ الدینوری ؒ (م  ۴۱۴  ؁ھ ) بھی ثقہ ہیں ۔ (المنتخب من کتاب السیاق لتاریخ نیسابور /۱۹۳)

                ۳- امام احمد بن محمد بن اسحق السنی ؒ (م ۳۶۴؁ھ ) بھی معتبر ہیں ۔ (کتاب الثقات للقاسم  ۱/۴۸۴)

                ۴-امام ابو القاسم البغوی (م ۳۱۷  ؁ھ ) مشہور امام اور ثقہ ہیں ۔ (کتاب الثقات للقاسم  ۶/۱۱۶)

                ۵-امام علی الجعد ؒ (م ۲۳۰  ؁ھ ) صحیح بخاری کے راوی اور ثقہ ومضبوط ۔ (تقریب ، رقم : ۴۶۹۸)

                ۶- محمد بن عبد الرحمن بن ابی ذئب ؒ (م  ۱۵۹؁ھ ) صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ ، فقیہ اور فاضل ہیں ۔ (تقریب ، رقم : ۶۰۸۲)

                ۷-یزید بن خصیفہ ؒ ۔

                ۸-سائب بن یزید ؓ کی توثیق اوپر گذرچکی ۔  الغرض اس روایت کے سبھی راوی ثقہ ہیں ۔

 

[7]  دیکھئے ص ۳۳

[8] اس کا اسکین ص :  ۵۲ پر موجود ہے۔


ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

 سکین کیلئے 
الاجماع (pdf )
 دیکھیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...