نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

شیخ ابن تیمیہ و ابن قیم اور فناء النار : "کیا جنت اور جہنم بھی ایک دن فنا ہوجائیں گی..؟"


 شیخ ابن تیمیہ و ابن قیم  اور فناء النار

  "کیا جنت اور جہنم بھی ایک دن فنا ہوجائیں گی..؟" 


پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
 دیگر مضامین کیلئے دیکھیں  ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری"  اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

 شیخ ابن تیمیہ اور ابن قیم کے اس باطل عقیدے کے بارے میں انٹرنیٹ پر ایک مفید کالم موجود ہے۔ اس تحریر کا جواب غیر مقلد سلفی محدث فورم کے متعصب اہلحدیث بھی نہیں دے سکے ، الٹا ایک متعصب متشدد اہلحدیث نے اقرار کیا کہ شیخ ابن تیمیہ کے شاگرد رشید ابن القیم سے فناء نار کے اقوال ملتے ہیں جیسا کہ غیر مقلد حضر حیات لکھتا ہے 

" (ابن القیم) بعض کتابوں میں فناء النار کی طرف مائل ہیں مثلا شفاء العلیل ، الصواعق المرسلہ وغیرہ میں ۔ "

قارئین اس بحث کو محدث فورم کے تھریڈ

  "کیا جنت اور جہنم بھی ایک دن فنا ہوجائیں گی..؟" 

المرقوم 05 جولائی 2012 میں پڑھ سکتے ہیں۔ 

قارئین کی آسانی کیلئے تحریر یہاں پیسٹ کی جا رہی ہے 

[النعمان سوشل میڈیا سروسز]

..................


ابن تیمیہ فناء نار کے قائل ہیں یعنی جہنم آخرکار ختم ہوجائے گی اور اس کو وہ رحمت الہی کا تقاضا مانتے ہیں ۔اس کی صراحت حافظ ابن قیم نے حادی الارواح فی بلاد الافراح (2/168-228) میں پوری تفصیل کے ساتھ کی ہے اوربات یہیں تک ختم نہیں ہوتی ۔اس پر مشہور اصولی اور فقیہہ محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانی نے ابن تیمیہ کی تردیدمیں ایک کتاب لکھی جس کا نام رکھا ہے۔

رفع الأستار لإبطال أدلة القائلين بفناء النار 

اس کتاب پر مقدمہ مشہور سلفی یا غیرمقلد عالم ناصرالدین البانی نے لکھاہے اس میں وہ لکھتے ہیں۔ 

فأخذت في البطاقات نظرا وتقليبا ، عما قد يكون فيها من الكنوز بحثا وتفتيشا ، حتىوقعت عيني على رسالة للأمام الصنعاني ، تحت اسم (رفع الأستار لابطال أدلة القائلينبفناء النار) . 

في مجموع رقم الرسالة فيه (2619) ، فطلبته ، فإذا فيه عدة رسائل ،هذه الثالثة منها . فدرستها دراسة دقيقة واعية ، لان مؤلفها الإمام الصنعاني رحمهالله تعالى رد فيها على شيخ الإسلام ابن تيمية وتلميذه ابن القيم ميلهما الى القولبفناء النار ، بأسلوب علمي رصين دقيق ، (من غير عصبية مذهبية . ولا متابعة اشعريةولا معتزلية) كما قال هو نفسه رحمه الله تعالى في آخرها . وقد كنت تعرضت لرد قولهماهذا منذ اكثر من عشرين سنة بإيجاز في (سلسلة الأحاديث الضعيفة) في المجلد الثانيمنه (ص 71 - 75) بمناسبة تخريجي فيه بعض الأحاديث المرفوعة ، والآثار الموقوفة التياحتجا ببعضها على ما ذهبا إليه من القول بفناء النار ، وبينت هناك وهاءها وضعفها ،وان لابن القيم قولا آخر ، وهو أن النار لا تفنى أبدا ، وان لابن بيمية قاعدة فيالرد على من قال بفناء الجنة والنار .

وكنت توهمت يومئذ انه يلتقي فيها مع ابنالقيم في قوله الأخر ، فإذا بالمؤلف الصنعاني يبين بما نقله عن ابن القيم ، ان الردالمشار إليه ، انما يعني الرد على من قال بفناء الجنة فقط من الجهمية دون من قالبفناء النار ! وانه هو نفسه - اعني ابن تيمية - يقول : بفنائها ، وليس هذا فقط بلوان أهلها يدخلون بعد ذلك جنات تجري من تحتها الأنهار !

وذلك واضح كل الوضوح فيالفصول الثلاثة التي عقدها ابن القيم لهذه المسالة الخطيرة في كتابه (حادي الأرواح إلى بلاد الأفراح) (2 / 167 - 228) ، وقد حشد فيها (من خيل الأدلة ورجلها ، وكثيرهاوقلها ، ودقها وجلها ، واجري فيها قلمه ، ونشر فيها علمه واتى بكل ما قدر عليه منقال وقيل ، واستنفر كل قبيل وجيل) كما قال المؤلف رحمه الله ، ولكنه أضفى بهذا الوصف على ابن تيمية ، وابن القيم أولي به وأحرى لأننا من طريقه عرفنا راي ابنتيمية ، في هذه المسالة ، وبعض أقواله فيها ، وأما حشد الأدلة المزعومة وتكثيرها ،فهي من ابن القيم وصياغته ، وان كان ذلك لا ينفي انه تلقى ذلك كله أو جله من شيخه

(رفع الأستار لإبطال أدلة القائلين بفناء النارص ۳)

البانی صاحب نے اس پورے پیراگراف میں جوکچھ کہاہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امیر محمد بن اسماعیل الصنعانی نے ابن تیمیہ اور ابن قیم کے رد میں یہ کتاب لکھی ہے اور اس کتاب میں ان دونوں پر علمی تنقید کی گئی ہےاوریہ کہ ابن تیمیہ کا قول صرف اس قدر نہیں ہے کہ جہنم فنا ہوجائے گی بلکہ اس کے بعد اس میں اتنا اضافہ بھی ہے کہ اس کے بعد ان کو یعنی جہنمیوں کو جنت میں میں داخل کیاجائے گا۔


ابن تیمیہ کے تمام دلائل چاہے وہ قوی ہوں یا کمزور، چھوٹے ہوں یابڑے، تھوڑا ہو یا زیادہ یعنی دلیل کے نام پر جو کچھ بھی انہیں مل سکتا تھا اس کو ابن قیم نے اپنی کتاب حادی الارواح الی بلاد الافراح میں نقل کردیاہے۔

ابن تیمیہ اور ابن قیم کے درمیان فناء نار کے سلسلے میں تھوڑا اختلاف ضرور ہے لیکن ہمیں سردست ابن تیمیہ سے بحث ہے۔


امید محمد بن اسماعیل الصنعانی لکھتے ہیں۔

اعلم أن هذه المسألة اشار إليها الإمام الرازي في مفاتيح الغيب ولم يتكلم عليها بدليل نفي ولا إثبات ولا نسبها إلى قائل معين ولكنه استوفى المقال فيها العلامة ابن القيم في كتابه حادي الأرواح إلى ديار الأفراح نقلا عن شيخه العلامة شيخ الإسلام أبي العباس ابن تيمية فإنه حامل لوائها ومشيد بنائها وحاشد خيل الأدلة منها ورجلها ودقها وجلها وكثيرها وقليلها وأقر كلامه تلميذه ابن القيم

 (رفع الأستار لإبطال أدلة القائلين بفناء النارمقدمہ امیرالصنعانی)


جان لو کہ اس مسئلہ کی جانب امام رازی نے اپنی تفسیر مفاتیح الغیب میں اشارہ کیاہے لیکن اس پر کسی قسم کا کوئی کلام نہیں کیا اورنہ ہی اس قول کو اس کے قائل کی جانب منسوب کیا۔لیکن اس بارے میں سب سے زیادہ تفصیلی بحث ابن قیم نے اپنی کتاب حادی الارواح الی دیار الافراح میں اپنے شیخ ابن تیمیہ کے فرمودات کی روشنی میں کیاہے۔اس لئے کہ اس مسئلہ میں ابن تیمیہ ہی سرخیل اور سرفہرست اوراس کے دلائل و براہین ذکر کرنے والے ہیں اورابن تیمیہ کے کلام کا ابن قیم نے اثبات کیاہے۔

ایک صاحب جن کا نام عبدالکریم صالح الحمید ہے اس نے ایک کتاب لکھی ہے

 ''القول المختار لبیان فناء النار''

جس میں البانی پرتنقید کیاہے اورابن تیمیہ کے مسلک کہ جہنم فناء ہوجائے گی اسی کی تائید کی ہے چنانچہ یہ صاحب البانی پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

''اس کتاب کے لکھنے کا باعث یہ ہوا کہ ہم نے دیکھاکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابن قیم کی کتاب میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے پھر ہم نے کتاب رفع الاستار دیکھی اور وجہ کا پتہ چل گیا۔یہ کتاب جو الالبانی کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔اس میں البانی نے ابن تیمیہ اورابن قیم پر سخت کلام کیاہے اورکہاہے کہ انہوں نے اپنے اس مسلک کیلئے آیات واحادیث میں خواہ مخواہ تکلف اورتاویل سے کام لیا بلکہ البانی نے یہاں تک کہاکہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ جن چیزوں میں عقل کو کوئی دخل نہیں ہے اس میں بھی انہوں نے عقل کی دخل اندازی سے کام لینے کی کوشش کی جیساکہ معتزلہ کرتے ہیں البانی نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ یہ تک کہا کہ معتزلہ اوراشاعرہ نے جن صفات کی تاویل کی ہے وہ بہتر ہے کہ بہ نسبت اس کے کہ اس مسئلہ میں ابن تیمیہ جن آیات واحادیث میں تاویل کی ہے

(القول المختار لبیان فناء النار صفحہ 13-14)

اس مسئلہ پر ایک اورصاحب نے کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے

''کشف الاستار لابطال ادعاء فنار النار'' 

اور اس میں کوشش کی ہے کہ کسی طرح یہ ثابت کر دیاجائے کہ فناء نار کے ابن تیمیہ قائل نہیں ہیں۔ لیکن یہ کوشش سعی لاحاصل ہے اورغیرمقلدین کی پرانی عادت ہے کہ جہاں کہیں وہ کسی ایسی بات یا کوئی ایسی کتاب دیکھتے ہیں جوان کے مزعومات کے خلاف ہو تو فوراً اس کا انکار کردیتے ہیں بغیر یہ دیکھے ہوئے کہ علمی اصول تحقیق کیی کہتاہے۔ یہی کرتب بازی انہوں نے زغل العلم میں بھی دکھائی ہے اور چونکہ حافظ ذہبی نے اس میں ابن تیمیہ پر سخت تنقید کی ہے لہذا ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ حافظ ذہبی کی تصنفیات کی فہرست سے یہ کتاب نکال دیاجائے اوراسے مشکوک ثابت کیاجائے ۔


حضرت ابن تیمیہ اور ابن قیم کے اس موقف پر کہ جہنم بالآخر فنا ہوجائے گی پر ان کے ایک معاصر مشہور فقیہہ اورمحدث تقی الدین سبکی نے بھی رد کیاہے ان کی کتاب کا نام ہے

"الاعتبار ببقاء الجنۃ والنار"

جس میں انہوں نے ان حضرات پر تردید کی ہے جو کہ جہنم کے فناہوجانے کے قائل ہیں۔

ابن تیمیہ ابن قیم کا موقف

حضرت ابن تیمیہ کی ایک تصنیف "الردعلی من قال بفناء الجنۃ والنار" کے نام سے ہے۔اس میں انہوں نے جہنم کے فناء ہونے پر دس دلیلیں بیان کی ہیں۔ ایک دودلیل کو آپ بھی دیکھیں اور پرکھیں۔

حضرت ابن تیمیہ سب سے پہلے کہتے ہیں کہ جہنم کے فناء ہونے کا قول ایسا ہے کہ اس بارے میں سلف اور خلف میں دوآراء رہی ہیں۔

واما القول بفناء النار ففیھاقولان معروفان عن السلف والخلف ، والنزاع فی ذلک معروف عن التابعین ومن بعدھم ۔(مقدمہ رفع الاستار ص9)

فناء نار کے بارے میں سلف اورخلف میں دوقول رہے ہیں اوراس بارے میں تابعین اوران کے بعد کے لوگوں میں نزاع رہاہے۔

والرابع : ان النار قیدھابقولھا (لابثین فیہا احقابا)وقولہ (خالدین فیہا الاماشاء اللہ)وقولہ (خالدین فیہا مادامت السماوات والارض الاماشاء ربک ) فھذہ ثلاث آیات تقتضی قضیۃ موقتۃ اومعلقۃ علی شرط،وذاک دائم مطلق لیس بموقت ولامعلق۔

چوتھی دلیل یہ ہے کہ قرآن کریم میں نار کو مذکورہ تین آیتوں سے مقید کیاگیاہے۔ یہ تینوں آیتیں نار کے موقت اورشرط پر معلق ہونے کا تقاضاکرتی ہیں اورجس کی صفت دوام اورمطلق کی ہوتی ہے وہ موقت اورمعلق نہیں ہوتی ہے۔

السادس:ان الجنۃ من مقتضی رحمتہ ومغفرتہ والنار من عذابہ، وقد قال: (نبیء عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ھوالعذاب الالیم) وقال تعالیٰ اعلموا ان اللہ شدید العقاب وان اللہ غفور رحیم)وقال تعالیٰ تعالی(ان ربک لسریع العقاب وانہ لغفور الرحیم۔ )

فالنعیم من موجب اسمائہ التی ھی من لوازم ذاتہ ،فیجب دوامہ بدوا معانی اسمائہ وصفاتہ واما العذاب فانما ھو من مخلوقاتہ والمخلوق قد یکون لہ انتھاء مثل الدنیا وغیرھا ، لاسیما مخلوق خلق لحکمۃ یتعلق بغیرہ۔

چھٹی دلیل یہ ہے کہ جنت اللہ کی رحمت اورمغفرت کے تقاضوں میں سے ہے اورجہنم اس کے عذاب کو مقتضی ہے۔اوراس کی اللہ تبارک وتعالیٰ نے متعدد آیتوں مین خبردی ہے۔پس نعمت اس کے ان اسماء کے موجبات میں سے ہے جواس کی ذات کو لازم ہے لہذا اس کا دوام اس کے معانی اورصفات کے دوام کے ساتھ ہی متحقق ہوسکتاہے جہاں تک عذاب کی بات ہے تو وہ اس کی مخلوقات مین سے ہے اورمخلوق کی کبھی انتہاء بھی ہوتی ہے جیسے کہ دنیا اوردیگر چیزیں خاص طورپر وہ مخلوق جسے دوسری حکمت کی وجہ سے پیداکیا گیا ہو۔

الوجہ السابع: انہ قد اخبر ان رحمتہ وسعت کل شی وانہ "کتب علی نفسہ الرحمۃ"وقال"سبقت رحمتی غضبی "و"غلبت رحمتی غضبی"وھذا عموم واطلاق فاذا قدرعذاب لاآخرلہ ،لم یکن ھناک رحمۃ البتۃ

(مقدمہ رفع الاستار ۱۳)

ساتویں دلیل یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس کی رحمت ہرچیز پر وسیع ہے اوراس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کیاہے اورفرمایاہے کہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لئے ہوئے ہے اورمیری رحمت میرے غضب پر غالب ہے اوریہ تمام عموم اوراطلاق کےساتھ وارد ہواہے پھراگرکوئی عذاب ایساہو جس کی کوئی انتہاء نہ ہوتو یہاں رحمت کا قطعی تحقق نہ ہوگا۔

" البانی کا موقف "

البانی نے ابن تیمیہ پر اس مسئلہ پر تنقید کرتے ہوئے رفع الاستار میں جوکچھ بھی لکھاہے وہ پیش خدمت ہے۔

ابن تیمیہ کی جو ساتویں دلیل تھی کہ اگر لانہایہ عذاب ہو تو رحمت کا تحقیق نہیں ہوگا۔ اس پر البانی صاحب فرماتے ہیں 

فکیف یقول ابن تیمیۃ : ولو قدر عذاب لا آخر لہ لم یکن ھناک رحمۃ البتۃ فکان الرحمۃ عندہ لا تتحقق الابشمولھا للکفار المعاندین الطاغین ! الیس ھذا من اکبر الادلۃ علی خطا ابن تیمیۃ وبعدہ ھو ومن تبعہ عن الصواب فی ھذہ المسالۃ الخطیرۃ ! فغفرانک اللھم !

کہ ابن تیمیہ کیسے اس کے قائل ہیں کہ اگر جہنم فناء نہ ہوتو رحمت الہی کا تحقق نہیں ہوگا۔گویاکہ رحمت کا ثبوت جبھی متحقق ہوگا جب اس میں کفار اورسرکشوں کو بھی شامل کیاجائے اورکیایہ ابن تیمیہ اوراس مسئلہ میں ان کی پیروی کرنے والے کی غلطی کا اثبات نہیں ہے جو اس خطرناک مسئلہ میں ان کی پیروی کررہے ہیں۔


اس کے بعد البانی صاحب نے یہ تاویل کرنی چاہی ہے کہ یہ ان کے ابتدائے حال کا اورسن شباب کا واقعہ تھا جب کہ ان مطالعہ کتاب وسنت میں وسیع نہیں تھا اورادلہ شرعیہ میں انہیں مہارت حاصل نہیں تھی (بعض لوگ اسی عمر میں انہیں مجتہد ماننے پر بضد ہیں)


ولعل ذلک کان منہ ابان طلبہ للعلم، وقبل توسعہ فی دراسۃ الکتاب والسنۃ، وتضلعہ بمعرفۃ الادلۃ الشرعیۃ ۔

(مقدمہ رفع الاستارص25)

یہ تاویل کئی وجوہ کی بناء پر باطل ہے لیکن اس کی تفصیل ہم کسی اور وقت کیلئے اٹھا کر رکھتے ہیں ۔

یہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ جہنم کے فناء کاقول جہم بن صفوان کا ہے جیساکہ لسان المیزان 2/334 میں مذکور ہے۔

...................

   《 الاعتبار ببقاء الجنة والنار》 اس زبردست کتاب کے مختلف نسخے النعمان سوشل میڈیا 

سروسز کی موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" کے عقائد سیکشن میں موجود ہیں ۔


پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
 دیگر مضامین کیلئے دیکھیں  ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری"  اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...