ایک
اصول کی وضاحت :
ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
فقہاء و محدثین کا اصول ہے کہ ’’جس مجہول راوی سے دو
یا دو سے زیادہ راوی روایت کریں تو وہ مجہول نہیں بلکہ مقبول ہوتا ہے‘‘ ۔حوالہ
جات ملاحظہ فرمائیں :
۱:امام ابن عبدا لبر ؒ (المتوفی
۴۶۳ھ)ایک راوی کے بارے میں فرماتے
ہیں کہ ’’قد
روی عنہ ثلاثۃ وقد قیل رجلان فلیس بمجہول‘‘
اس سے تین یا دو آدمیوں نے روایت کیا ہے لہذا وہ مجہول نہیں ہے ۔(الاستذکار جلد: ۱صفحہ ۱۸۰)
۲:امام ابوجعفر النحاس ؒالمتوفی
۳۳۸ھ فرماتے ہیں کہ’’ ومن روی عنہ اثنان فلیس بمجہول‘‘
(اور جس سے دو لوگ روایت کریں وہ مجہول نہیں ہوتا )۔(کتاب الناسخ والمنسوخ جلد :۱صفحہ ؛۱۷۱)
۳:امام حاکمؒ المتوفی ۴۰۵ھ ایک راوی کے بارے میں فرماتے
ہیں کہ ’’فاما
موثر فلیس بمجہول قدروی عن عبداللہ بن مسعود والبراء بن عازب وروی عنہ جماعۃ من
التابعین ‘‘ جہاں
مؤثرؒکی بات ہے تو وہ مجہول نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے ابن مسعود اور براء بن عازب
رضی اللہ عنہما سے اور ان سے تابعین کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے ۔(المستدرک للحاکم ؒ جلد ؛۲ صفحہ
؛۳۶۶؛حدیث:۳۴۴۸)
معلوم ہوا کہ ان محدثین کے نزدیک جب کسی
راوی سے دو لوگ روایت کریں تو وہ مجہول نہیں رہتا۔
۴:امام محمد بن یحیی الزہلی
ؒ المتوفی ۲۵۸ھ
فرماتے ہیں کہ’’ قال
محمد بن یحیی الذھلی ؒلیس بمجہول قد روی عنہ الشعبی ایضا ‘‘ یہ وہب بن الاجدع مجہول نہیں ہیں ان سے شعبی
ؒنے بھی روایت کیا ہے (فتح الباری لابن رجب
ؒ: جلد:۵صفحہ
۴۹)
امام ابن حجر عسقلانی ؒفرماتے ہیں کہ قرأت بخط الذہبی فی میزانہ
لیس لیس بمجہول فقد روی عنہ اربعۃ میں
نے ذہبی کی عبارت میزان میں پڑھی کہ ۔۔۔
۵:امام ذہبیؒ المتوفی ۷۴۸ھ فرماتے ہیں کہ اسامہ بن
حفص المدنی مجہول نہیں اس لئے کہ ان سے چار لوگوں نے روایت کیا ہے ۔ (ھدی الساری مقدمہ
فتح الباری جلد :صفحہ :۳۸۹ ؛
میزان الاعتدال جلد :۱صفحہ
:۱۷۴)
نوٹ :
۶ : ابن
حجرعسقلانیؒ المتوفی ۸۵۲ھ
نے دلیل کے طور پر امام ذہبی ؒ المتوفی ۷۴۸ھ کا یہ قول نقل فرمایا ہے ، اور
زبیر علی زئی صاحب کے اصول کے مطابق ابن حجر ؒ نے سکوت کے ذریعہ اس کی تائید کی ہے۔ (انوار الطریق، از علی زئی
: ص ۸) اسی
طرح حافظ ؒ ایک ور مقام پر ایک راوی کے بارے میں
فرماتے ہیں کہ ’’قلت ولیس بمجہول فقد روی عنہ
ھؤ لاء ووثقہ ابن حبانؒ ‘‘ میں کہتا ہوں کہ زکریا بن
الحکم ؒمجہول نہیں اس لئے کہ ان سب لوگوں نے ان سے روایت کیا ہے اور ابن حبانؒنے ان
کو ثقہ کہا ہے۔ (لسان المیزان جلد :۳
صفحہ :۵۰۴)
وضاحت : ابن حبان ؒکا متساہل ہونا سب کومعلوم ہے لیکن
پھربھی ابن حجرؒ مجہول نہیں قرار دیا اور وجہ یہ بیان کی کہ ان سے چار لوگوں نے رویت
کیا ہے۔معلوم ہوا کہ ابن حجرؒ کے نزدیک بھی یہی قاعدہ ہے کہ جب کسی راوی سے دو یا دو
سے زیادہ لوگ روایت کرتے ہیں تو وہ مجہول نہیں رہتا ۔
۷:امام ماردینی ؒ المتوفی ۷۵۰ھ فرماتے ہیں کہ ’’ قلت لیس
بمجہول لان ابن ماجۃ اخرج لہ وروی عنہ الوحاظی وبقیۃ
‘‘ میں کہتاہوں کہ ابو بکر العنسی ؒ مجہول
نہیں ہیں اس لئے کہ ابن ماجہ ؒ نے ان کی تخریج کی ہے اور ان سے الوحظی ؒاور بقیہ ؒ
نے روایت کیا ہے۔ (الجوہر النقی جلد :۲
صفحہ :۳۴۵)
۸:امام
ابو عبداللہ بدرالدین الزرکشی ؒ المتوفی ۷۹۴ھ کہتے ہیں کہ ’’ لیس بمجہول فقد روی عنہ المصفی
‘‘ ابان بن حاتم
مجہول نہیں ہیں اس لئے کہ ان سے محمد
بن المصفی ؒ نے رویت کیا ہے ۔(النکت للزرکشی جلد :۳ صفحہ
:۳۸۷)
۹:امام ذکی الدین عبد العزیز
المنذری ؒ المتوفی ۶۵۶ھ
فرماتے ہیں کہ’’ فقد
روی عنہ یونس ایضا کما ذکرنا وغیرہولیس بمجہول
‘‘ ابوشداد ؒسے یونس ؒنے بھی روایت کیا ہے جیسا کہ ہم نے اس کے علاوہ ذکر کیا ہے اور
مجہول نہیں ہیں ۔(الترغیب والترہیب جلد؛ ۴ صفحہ
؛۲۹)
۱۰:امام
جمال الدین مزیؒ المتوفی ۷۴۲ھ
فرماتے ہیں کہ ’’ان
الجہنی معروف ولیس بمجہول قد روی عنہ غیر واحد کما تقدم‘‘بے
شک جہنی معروف ہیں مجہول نہیں ہیں ان سے ایک زیادہ لوگوںنے روایت کیا ہے جیسا کہ گذر
چکا ۔(تہذیب الکمال جلد :۲۷
،صفحہ :۵۶)
۱۱:امام ابن ابی حاتم ؒ المتوفی
۳۲۷ھ فرماتے ہیں کہ ’’حدثنا عبدالرحمن قال سأ لت
أبی عن روایۃ الثقات عن رجل غیر ثقۃ مما یقویہ ؟ قا ل اذا کا ن معروفا بالضعف لم
تقوہ روایتھ عنہ واذاکان مجہولا نفعہ
روایۃ الثقۃ عنہ ‘‘
میں نے اپنے والد سے ثقہ راویوں کا غیر ثقہ سے روایت کرنے کے بارے میں سوال کیا کہ
:کیا ثقات کا روایت کرنا اسے فائدہ دیگا امام ابو حاتم ؒ فرماتے ہیں کہ غیر ثقہ جب
اپنے ضعف میں معروف ہو تو وہ اس کو فائدہ نہیں دیگا ،اور جب غیر ثقہ مجہول ہو تو ثقہ
راویوں کا اس سے روایت کرنا اسے فائدہ دیگا ۔(کتاب الجرح والتعدیل جلد ؛۲ صفحہ
؛ ۳۶)
۱۲:امام ابو بکر البزار ؒ المتوفی
۲۹۲ھ فرماتے ہیں کہ ’’من روی عنہ ثقتان فقد ارتفعت
جہالتہ وثبتت عدالتہ ‘‘ جس سے دو ثقہ راوی روایت کریں تو اس
کی جہالت ختم ہو جا تی ہے اور اس کی عدالت ثابت ہو جاتی ہے ۔(کتاب الاشربہ للبزارؒ،
بہ حوالہ النکت للزرکشی ؒجلد ؛۳صفحہ
؛۳۷۸)
۱۳: امام
دارقطنیؒ المتوفی ۳۸۵ھ
بھی فرماتے ہیں کہ’’ من
روی عنہ ثقتان فقد ارتفعت جہالتہ وثبتت عدالتہ
‘‘ جس سے دو ثقہ راوی روایت کریں اس کی جہا لت ختم ہو جا تی ہے اور اس کی عدالت ثابت
ہو جاتی ہے ۔(سنن دار قطنی :کتاب الحدود والدیات بہ حوالہ النکت للزرکشی جلد ؛۳ ،صفحہ
؛ ۳۷۸
،،فتح المغیث للسخاوی
جلد ؛۲،
صفحہ ؛۵۴
ولفظہ لہ )
الغرض ان ساری تفصیلات سے معلوم ہوا کہ جس مجہول راوی سے دو یا دو سے زیادہ راوی روایت کریں تو وہ مجہول نہیں رہتا بلکہ مقبو ل ہو جاتا ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں