زبان سے روزے کے نیت کرنے کا حکم
مفتی ابن اسماعیل المدنی
ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
نیت دل کے ارادہ کا نام ہے ،اورتمام عبادتوں
میں اصل اعتبار اسی کا ہے۔[1] اور
زبان دل کی ترجمان ہوتی ہے ، اس لئے اگر کسی نے زبان سے بھی نیت کے الفاظ کہہ لئے تو
اس سے دل کے ارادہ میں اور پختگی پیدا ہوتی ہے ۔زبان سے کہنا دل کے عمل کی دلیل ہوتی
ہے ۔ [2] اور
زبان سے بھی نیت کے الفاظ کہہ لینا اس شخص کیلئے خاص طور پر مستحب ہے ، جو اپنی فکروں
کی وجہ سے دل کی یکسوئی نہیں پاتا۔
اگر کسی نے زبان سے روزے کے نیت کی
تو یہ جائز ہے۔
اور اس کے جواز کی دلیل یہ ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ اپنے گھر تشریف لاتے اور سوال
فرماتے کہ کچھ کھانے کو ہے ؟ اگر یہ جواب ملتا کہ نہیں ہے تو آپ ارشاد فرماتے ’’ فإنی صائم
‘‘ پھر تو میں روزہ رکھ لیتا ہوں ، اسی طرح یہ طریقہ کئی صحابہ کرام سے صحیح بخاری
اور دوسری کتب حدیث میں منقول ہے ۔ [3]
اس
حدیث سے استدلال اس طرح کیا گیا ہے کہ : اس حدیث کو تمام محدثین نے روزہ کی نیت کرنے
کے باب میں ذکر کیا ہے ۔ یعنی محدثین بھی آپ ﷺ کے اس جملہ سے یہی معنی لے رہے ہیں
کہ آپ ﷺ فإنی
صائم کہہ کر روزہ کی نیت کر رہے ہیں۔
تو اس حدیث سے صاف طور پر یہ معلوم ہوگیا کہ اگر
کسی نے دل کے ارادہ کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی نیت کے الفاظ کہہ دئیے تو یہ جائز ہے،
بدعت نہیں ہے۔
دوسری دلیل یہ ہے
کہ غیر مقلدین کے محدث عصر شیخ البانی ؒ ’کیا احرام کی نیت زبان سے کرنی چاہئے‘ کے سوال کے
جواب میں تحریر فرماتے ہیں : نیت کی جگہ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے دل میں نیت
کرے کہ وہ فلاں آدمی یا اپنے بھائی یا فلاں بن فلاں کی طرف سے حج کرہا ہے، زبان سے
کہنا مستحب ہے۔
نیز شیخ البانی قیاس فرمارہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ
نے حج اور عمرہ کا تلبیہ زبان سے ادا کیا تھا اور صحابہ کرام ؓ نے بھی ایسا ہی کیا
تھا ، اسلئے اگر کوئی حج کی نیت دل کے ساتھ زبان سے بھی کرلے تو مستحب ہے ۔ (فتاوی
البانیہ : ج ۱ : ص
۳۳۳)
جب
غیر مقلدین کے نزدیک احرام کی نیت زبان سے کرنا مستحب ہے تو ہم دوسری عبادات کو احرام
پر قیاس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دوسری عبادت میں بھی زبان سے نیت کرلنا کم از کم جائز تو ضرور ہوگا۔ اس
لحاظ سے بھی سحری کے وقت روزے کے نیت زبان
سے کرنے کو بدعت قرار دینا مردود ہے۔
جہاں
تک نیت میں’ غداً‘
لفظ کہنا ہے ، اس کو یہاں پر کل کے معنی میں سمجھنا درست نہیں ، اور یہ کہنا کہ روزہ
آج رکھ رہے ہیں اور نیت کل کی کر رہے ہیں ، یہ جہالت ہے ۔
کیونکہ
آنے والے دن میں روزہ رکھنے کے لئے رات میں نیت کے وقت ’غدا‘ کا لفظ استعمال کرناخد
حافظ اابن تیمیہ ؒ اور فتاویٰ لجنہ دائمہ کے
نزدیک درست ہے۔(الفتاویٰ الکبریٰ لابن تیمیہ ۵/۳۷۵ ، فتاویٰ لجنہ دائمہ ۹/۲۱)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں