نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بیسں 20 تراویح عہد خلفاء راشدین میں : روایت نمبر 1


 بیسں تراویح عہد خلفاء راشدین میں 

🔹 ذیل میں وہ روایات ملاحظہ ہو جن میں خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا بیس تراویح پڑھنے کا حکم، یا ان کے عہد میں بیس تراویح پڑھے جانے کا ذکر ہے۔ اور اس کا آغاز عہد فاروقی سے متعلق روایات سے کیا جائے گا، کیوں کہ بیس تراویح کی جماعت کا با قائدہ آغاز ان ہی کے دور مسعود میں ہوا۔


🔹 بیس تراویح عہد فاروقی میں

روایت نمبر ١:

امام ابو بکر بن ابی شیبہ فرماتے ہیں:

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مَالِكٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ أَنَّ عُمَرَ بن الخطاب أمَرَ رَجُلا أَن يُصَلِّي بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً۔۔


 ہم سے وکیع بن جراح رحمتہ اللہ علیہ نے بیان کیا، وہ امام مالک سے ، اور وہ حضرت یحیی بن سعید انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی (حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ) کو حکم فرمایا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائے ۔

[مصنف ابن ابی شیبه ۲۸۵:۲]


1۔(امام ابو بکر بن ابی شیبہ: ثقہ امام ہیں، حافظ ذہبی ان کے بارے میں لکھتے ہیں: الحافظ ، عدیم النظر، الثبت التحرير (تذکرة الحفاظ ۱۶:۲)


2۔ وکیع بن الجراح کوفی (۱۹۶ھ ): 

حافظ ذہبی ان کے بارے میں فرماتے ہیں : الحافظ ، الامام المثبت محدث العراق ، احد الائمته الاعلام - تذکرة الحفاظ (۲۲۳:۱) حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ثقہ ، حافظ ، عابد، تقریب التھذیب (۲۸۴:۲) مولانا عبد الرحمن میاکپوری لکھتے ہیں: أَحَدُ الْأَئِمَّةِ الْأَعْلَامِ ثِقَةٌ حَافِظ تحفۃ الاحوذی (۲۴:۲) مولانا شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں : أحَدُ الْأَئِمَّةِ الْأَنْبَاتِ التعليق المغنی (۲۰:۲)


3۔ امام مالک بن انس (م ۱۷۹ ) : ائمہ اربعہ میں سے ایک جلیل القدر امام ہیں ان کی ثقاہت اور جلالت قدر پر پوری امت کا اتفاق ہے۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: الفقیہ امام دار الهجرةرَاسُ الْمُتَّقِنِين وَكَبِيرُ الْمُثْبِتين تقريب التهذيب (۱۵۱:۲) 


4۔ یحیی بن سعید انصاری (۱۳۴۴)

 امام احمد یحیی بن معین ابوحاتم ابن حبان ، عجلی وغیرہ سب ائمہ رجال نے ان کی توثیق کی ہے۔ امام بخاری کے استاد امام علی بن مدینی فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں کبار تابعین کے بعد یحی بن سعید اور ابن شہاب جیسا کوئی تابعی نہیں ہے ۔ دیکھئے الجرح والتعدیل (۱۴٩:۹)، تذکرة الحفاظ (۱۰۴:۱) وغیرہ امام برهان الدین حلبی لکھتے ہیں: "وَهُوَثِقَهُ بِالْاِتِّفَاقِ (نور النبراس علی سیرۃ ابن سید الناس : ۳۶۸،۳۶۶:۶) کہ یحیی بن سعید بالا تفاق ثقہ ہیں۔


▪️یہ روایت سند کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کی صحیح ہے، البتہ اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ روایت مرسل ہے، کیوں کہ اس کے راوی حضرت یحیی بن سعید تابعی (م ۱۴۴ھ) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یحیٰی بن سعید نے اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔ تو اُن لوگوں کا زمانہ تو ضرور پایا ہے، جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس حکم سے بیس تراویح پڑھا کرتے تھے، اور ایسی روایت متصل سمجھی جاتی ہے، جیسا کہ مابعد روایت کے ذیل میں نامور غیر مقلد عالم مولانا عبدالرحمن مبارکپوری (م ۱۳۵۳ھ ) کے حوالے سے آرہا ہے۔


 ثانیا : اگر یہ روایت متصل کی بجائے مرسل بھی ہو تو بھی قابل استدلال ہے، کیونکہ مرسل روایت عند الجمہور حجت ہے۔ 


 ▪️حجیت مرسل کی بحث

مرسل وہ حدیث ہے جس کو کوئی تابعی ، صحابی کا واسطہ چھوڑ کر براہ راست رسول اللہ ﷺ سے نقل کرے، یا کسی ایسے صحابی کا قول یا عمل نقل کرے جس کا زمانہ اس نے نہیں پایا، چنانچہ حجتہ الاسلام امام غزالی شافعی (م ۵۰۵ ھ ) امام ابن قدامہ مقدسی حنبلی (م ۶۲۰ ھ ) اور امام سلیمان بن عبد القوی طوفی حنبلی (م ۷۱۶ ھ ) حدیث مرسل“ کی تعریف میں لکھتے ہیں :

" كَقَوْلِ مَنْ لَّمْ يُعَاصِرِ النَّبِيِّ ﷺ: قَالَ النَّبِيُّﷺ وَمَنْ لَمْ يُعاصِرُ أبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةً 


مرسل وہ حدیث ہے کہ مثلاً وہ شخص جس نے نبی اکرمﷺ کا زمانہ نہیں پایا و و نقل کرے کہ نبی ﷺ نے ایسا فرمایا ہے، یا مثلاً وہ شخص جس نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرے کہ آپ نے یہ فرمایا ہے۔

(المستصفی (۲۸۱:۲) روضته الناظر (ص ۴۲۸) ، البلیل فی اصول الفقه (ص۵۰)


بلند پایہ محدث امام ابو عمر و عثمان بن سعید دانی مالکی (م٤٤٤ھ) نے اس موضوع پر مستقل ایک کتاب تصنیف کی ہے، جس میں انہوں نے مسند ، مرسل اور منقطع احادیث کی اصطلاحی تعریفات مع امثلہ بیان کی ہیں، اور اس میں انہوں نے بھی مرسل کی دوقسمیں بیان کی میں، ایک مرسل مرفوع ( جس میں تابعی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صحابی کا واسطہ محذوف ہو) اور دوسری مرسل موقوف (جس میں صحابی سے پہلے واسطہ محذوف ہو )

چنانچہ وہ مرسل موقوف کی تعریف میں ارقام فرماتے ہیں:

وَمِنَ الْمَوْقُوفَاتِ مَايُرْسَلُ قَبْلَ الْوُصُوْلِ إِلَى الصَّحَابِي 

موقوفات (صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال ) میں سے وہ روایت جس میں صحابی رضی اللہ عنہ تک پہنچنے سے پہلے ارسال (واسطہ مخذوف) ہو۔“

اور پھر وہ اس کی پہلی مثال حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول، جس کو ان سے ابراہیم نخعی روایت کرتے ہیں، ذکر کرنے کے بعد ارقام فرماتے ہیں:

فَهَذَا مَوْقُوفٌ عَلَى ابْنِ مَسْعُودٍ، وَمُرْسَلُ قَبْلَ التَّوْقِيْفِ لِأَنَّ إبْرَاهِيمَ لَمْ يُدْرِكُهُ 

( کتاب بیان المسند المرسل و المنقطع (ص ۷۶ ۷۷ ) طبع دار الآفاق للنشر والتوزيع)

یہ قول حضرت ابن مسعود پر موقوف ہے، اور توقیف سے پہلے مرسل ہے، کیونکہ ابراہیم نخعی نے حضرت ابن مسعودؓ کو نہیں پایا‘

بزرگ غیر مقلد عالم مولانا سلطان محمود صاحب جلال پوری (م ۱۴۱۶ھ ) حدیث مرسل کی تعریف میں ارقام فرماتے ہیں: جس حدیث میں انقطاع سند کے آخر میں ہو ۔

(اصطلاحات المحدثین ص ۱۴)

مرسل روایت ائمہ ثلاثہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام احمد ) اور جمہور فقہاء و محدثین (امام اوزاعی ، امام سفیان ثوری رحمہم اللہ وغیرہ) کے نزدیک مطلق حجت ہے۔ تمام تابعین کرام بھی اس کی حجیت کے قائل ہیں۔

چنانچہ امام ابن جریر طبری (م ۳۱۰ھ) فرماتے ہیں:

اجمَعَ التَّابِعُوْنَ بِأَسْرِهِمْ عَلَى قُبُوْلِ الْمُرْسَلِ وَلَمْ يَأْتِ مِنْهُمْ انكارُهُ وَلَا عَن أحد من الأمة إلى رأس المأْتين۔

(تدریب الراوی ۱۶۷:۱)

حضرات تابعین سب کے سب اس بات پر متفق تھے کہ مرسل قابل قبول ہے۔ اور تابعین سے لے کر دوسری صدی کے آخر تک اُمت میں سے کسی شخص نےاس کے حجت ہونے سے انکار نہیں کیا۔“

امام ابن عبدالبر مالکی رحمتہ اللہ علیہ(م ۴۶۳ ھ ) لکھتے ہیں:

"إِنَّ أَكْثَرَ الْعُلَمَاءِ مِنَ السَّلَفِ قَبِلُوا الْمُرْسَلَ مِنْ أَحَادِيثِ الْعُدُولِ 

(الاستذكار ۷: ۱۰۲)

علمائے سلف کی اکثریت نے عادل راویوں کی مرسل کو قبول کیا ہے ۔"

نواب صدیق حسن خان (م ۱۳۰۷ھ ) ارقام فرماتے ہیں:

رہی یہ حدیث تو یہ مرسل ہے، لیکن کسی روایت کا ارسال کے ساتھ معلول ہونا اس کے ترک کو واجب نہیں کرتا، کیونکہ مراسیل کو قبول کرنا فحول علمائے اصول کی ایک جماعت کا مذہب ہے ۔

(فتاوی نواب صدیق حسن خان ۱۰:۴)

مولانا بشیر سہسوانی غیر مقلد (م ۱۳۲۶ھ ) "مرسل" کے بارے میں لکھتے ہیں:

اور ائمہ اربعہ اور اہل حدیث کی ایک جماعت کثیرہ اور جمہور اصولین کے نزدیک قابل احتجاج ہے، اور شیخین وابن خزیمہ اور حاکم کامیلان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔

(فتاوی علمائے حدیث ۱۷۹:۱۳)

مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوری (م ۱۴۱۴ھ ) لکھتے ہیں:

حدیث مرسل جمہور اصولین و ائمہ کے نزدیک حجت ہے۔ 

لَا سِيمَا إِذَا اعْتَضَد بِالْمَوْصُولِ (بالخصوص جب وہ کسی موصول حدیث سے معتضد ہو ) ۔

(فتاوی مولانا عبید اللہ رحمانی ۳۶۹:۱)

نیز لکھتے ہیں:

وہ ( مرسل) عند الجمہور حجت شرعی ہے ۔

(ايضاً)

البتہ امام شافعی (م ۲۰۴ھ) اور ان کے ہم فکر محدثین اور فقہاء کے نزدیک ہر مرسل روایت حجت نہیں، بلکہ صرف مرسل معتضد حجت ہے۔ 


 ⚔️ اعتراض

 کفایت اللہ سنابلی نے احناف پر مغالطہ آمیزی کا الزام لگاتے ہوئے لکھا ہے: جس مرسل حدیث کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے وہ اصطلاحی مرسل ہے۔ جس سے مراد ایسی روایت ہے جسے کسی تابعی نے ڈائر یکٹ نبی ﷺ سےبیان کیا ہو اور تابعی تک سند صحیح ہو لیکن یہاں جو روایات (یحیی بن سعید وغیرہ کی)ہیں وہ اس معنی میں مرسل ہرگز نہیں ہیں، کیونکہ ان میں نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں ہے ابتدا یہ روایات منقطع ہیں اور منقطع روایات پر ارسال کا اطلاق لغوی معنی میں ہوتا ہے۔ اصطلاحی معنی میں نہیں۔ انوار التوضیح (ص ۳۵۶) 


🔹 جواب:

 ہم نے اوپر متن میں مرسل کی جو اصطلاحی تعریف حوالہ محدثین اور مولانا سلطان محمود غیر مقلد نقل کی ہے، وہ اس مرسل کو بھی شامل ہے، جو ڈائریکٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہو، اور اس مرسل کو بھی شامل ہے، جو ایک تابعی اپنے غیر معاصر صحابی سے روایت کر رہا ہو۔ سنابلی صاحب کی مزید تسلی کے لیے ذیل میں محدثین اور علمائے غیر مقلدین کی چند مزید تصریحات ذکر کی جاتی ہیں ، جن میں انہوں نے دوسری قسم کی روایات پر اصطلاحی مرسل کا اطلاق کیا ہے: 


▪️امام دارقطنی (م ۳۸۵ ھ ) ، امام ابراہیم نخعی کے حضرت ابن مسعودؓ سے روایت کردہ اثر کو قابل حجت قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : فَهْذِهِ الرَّوَايَةُ وَإِنْ كَانَ فِيهَا إِرْسَالُ فَإِبْرَاهِيمُ النَّعَمِيُّ هُوَ أَعْلَمُ النَّاسِ بِعَبْدِ اللهِ وَبِرَأيهِ وَبِفَتَيَاهُ من الدارشی (۲۰۶:۳) 

اس روایت میں اگرچہ (حضرت عبداللہ بن مسعود اور ابراہیم نخعی کے درمیان ) ارسال ہے، لیکن ابراہیم نخعی لوگوں میں حضرت عبد اللہ کے علم، رائے اور فتوی کے سب سے بڑے عالم میں اس لیے ان کی مرسل حجت ہے)


امام بیہقی (م۴۵٨ھ) ایک حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: هَذَا مُرْسَلُ الشَّعْبِيُّ لَم يُبْدِكَ آيَامُ عُمَرَ، غَيْرَ انَّهُ مُرْسَلٌ جَيد السنن الکبری (۲۴۷:۶) یہ روایت مرسل ہے، کیونکہ امام شعبی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا زمانہ نہیں پایا لیکن یہ ایک عمدہ مرسل ہے۔ امام ابن عبدالبر مالکی (م ۴۶۳ھ) ایک روایت کے متعلق لکھتے ہیں: وَمُوْسَى بْنُ طَلْحَةَ لَمْ يَلْقَ مُعَاذًا وَلَا آخَرَكَهُ وَلَكِنَّهُ مِنَ الشَّقَاتِ الَّذِينَ يَجُوزُ الْإِحْتِجَاجُ بِمَا يُرْسِلُونَهُ عِنْدَ مَالِكٍ وَاصْحَابِهِ، وَعِنْدَ الْكُوفِيين ايضًا - الاستذكار (۲۱۴:۳) موسی بن طلحہ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی ہے، اور نہ ان کا زمانہ) پایا ہے لیکن یہ ان ثقہ لوگوں میں سے ہیں کہ جن کی مرسل روایات امام مالک اور ان کے اصحاب ، اسی طرح اہل کوفہ کے نزدیک بھی قابل حجت ہیں۔ نیز ایک روایت کے بارے میں لکھتے ہیں: وَالْمَعْرُوفُ عَنْ عَلِي مَا رَوَاهُ ابْرَاهِيمُ وَالْحَكَمُ عَنْهُ وَاجْمَعُوا إِنَّ مَراسِيلَ ابْرَاهِيمَ صِحاح ايضا (۱۳۷:۶) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مشہور روایت وہ ہے جو ان سے ابراہیم نخعی اور حکم روایت کرتے ہیں، اور تمام محدثین کا اجماع ہے کہ ابراہیم نخعی کی مراسیل صحیح ہیں۔ نیز علامہ موصوف ، ابراہیم نخعی کی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کردہ مرسل حدیث کے متعلق لکھتے ہیں : وَمَرَاسِيلُ ابْرَاهِيمَ عِنْدَهُمْ صِفاح ايضا ( ۱۳:۸) ابراہیم نخعی کی مراسیل محدثین کے نزدیک صحیح ہیں۔ 


▪️حافظ ابن حجر (م ۸۵۲) طاوس تابعی کے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرده اثر کے متعلق لکھتے ہیں: وَهَذَا مُرْسَلٌ يُعْضِدُهُ مَارَوَى سَعِيْدُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنِ الْحَسَن .. فتح الباری (۵۱۰:۲) پر روایت مرسل ہے لیکن یہ معتضد ہے اس روایت سے جو امام سعید بن منصور نے حضرت حسن بصری سے نقل کی ہے کہ حافظ صاحب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے عکرمہ کے روایت کردہ اثر کے متعلق لکھتے ہیں: وَهَذَا مُرْسَلٌ يَتَقَوَّى بِشَوَاهِدة ايضا (۶۵۱:۱۱) 

یہ اثر مرسل ہے لیکن اپنے شواہد کی وجہ سے قوی ہے۔


اسی طرح حافظ صاحب میمون بن مہران کے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کردہ اثر کے متعلق لکھتے ہیں وَلَوِ اعْتَضَدَ لَكَانَ حَسَنًا سنتائج الافكار (۴۵۳۰۳) اگر یہ اثر معتضد ہوتا تو حسن درجہ کا ہوتا۔ 


امام حاکم نیشاپوری (م ۴۰۵ھ)، ابراہیم نخعی کے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ اثر کےبارے میں لکھتے ہیں : وَهُوَ مُرْسَلٌ وَلَهُ شَاهِدٌ۔ یہ مرسل ہے لیکن اس کا شاہد موجود ہے۔ 


امام ذہبی (م ۷۴۸ھ) امام حاکم کی تصدیق کرتے ہوئے تلخیص میں لکھتے ہیں : مرسل۔ المستدرک مع الحاشیه (۳۷۹:۴، ح ۷۹۸۷) مولانا ارشاد الحق اثری ایک روایت کے متعلق لکھتے ہیں: سیار کی بلاشبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملاقات نہیں، اس لیے راقم نے اس کو مرسل قرار دیا۔ مگر سیار تابعی ہیں، اور مرسل احناف کے ہاں حجت ہے، اور اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے . تنقیح اسلام (ص ۸٢) 


مولانا محمد گوندلوی (م ۱۴۰۵ھ ) ابراہیم نخعی کے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ اثر کے بارے لکھتے ہیں : اس کا ارسال مثل ارسال زہری ہے۔ تحقیق الراسخ (ص ۱۵۲)


مولانا بشیر سہسوانی (م۱۳۲۶ھ)، امام زہری کے صحابہ سے روایت کردہ ایک اثر کے بارے میں لکھتے ہیں ممکن ہے کہ زہری و صحابی کے درمیان میں کوئی واسطہ غیر ثقہ ہو اس وجہ سے تو محققین علماء مرسل کو حجت نہیں کہتے ہیں ۔ البرحان العجاب (ص ۲۲۱)


 مولانا ابوالحسن سیالکوٹی، زہری کے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کردہ اثر کے بارے میں لکھتے ہیں: یہ حدیث مرسل ہے كَمَا قَالَ الشَّوْكَانِي فِي النَّيْلَ: وَحَدِيثُ الزُّهْرِ مرسل .... الظفر المبین (ص۴۳۹) 


🎭 اور پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ خود سنابلی صاحب بھی اسی طرح کی روایات پر مرسل کا اطلاق کرتے ہیں، اور ان پر مرسل کے احکام منطبق کرتے ہیں۔ دیکھئے (یزید بن معاویہ ص۶۲۶) اب اس سے زیادہ ہم سنابلی صاحب کی تسلی اور کیا کر سکتے ہیں۔ اور اگر بالفرض یحیی بن سعید وغیرہ کی یہ روایات منقطع بھی ہیں تویہ متعدد طرق سے مروی ہونے اور بکثرت شواہد رکھنے کی وجہ سے باقرار علمائے غیر مقلدین حجت ہیں۔ 


چنانچہ مولانا محب اللہ راشدی (م ۱۴۱۵ھ ) لکھتے ہیں منقطع حدیث ضعیف کی اقسام میں سے ہے، پھر اگر یہ تعدد طرق کی وجہ سے حسن بنے گی تو یہ حسن لغیرہ ہوگی۔ وھو ظاہر - مقالات راشدیہ (۱۴۷:۹)۔ نیز لکھتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ مسلم شریف میں بھی کئی منقطع احادیث ہیں، ان منقطع احادیث کی تصحیح یا تحسین تعدد طرق و شواہد کے سبب ہے ، نہ کہ اصل منقطع روایت کے اعتبار سے ۔ ایضاً (۱۶۱:۹)

 مولانا عبداللہ روپڑی (م ۱۳۸۴ھ) نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ : اگر منقطع کے راوی زیادہ ہیں، یا اوثق ہیں تو یہ منقطع روایت موصول روایت پر رائج ہو جائے گی ۔ فتاویٰ اہلحدیث (۲: ۶۶۴) الغرض یہ روایات بہر صورت صحیح اور قابل حجت ہیں ۔

امام ابو داؤد (م ۲۷۵ ھ ) صاحب اسنن لکھتے ہیں:

" وَأَمَّا الْمَرَاسِيلُ فَقَدْ كَانَ يَحْتَجُ بِهَا الْعُلَمَاءُ فِيمَا مَضَى مِثْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِي، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالْأَوْزَاعِي حَتَّى جَاءَالشَّافِعِيُّ فَتَكَلَّمَ فِيهَا 

( رسالہ ابی داؤد الی اہل مکتہ (ص ۲۵) طبع المكتب الاسلامی بیروت)

رہیں مرسل احادیث، تو پہلے علماء جیسا کہ امام سفیان ثوری - امام مالک بن انس اور امام اوزاعی" رحمھم اللہ ہیں، وہ ان روایات سے حجت پکڑتے رہے ہیں، یہاں تک کہ امام شافعی آئے، اور انہوں نے اس ( کی حجیت ) میں کلام کیا ۔"

مولانا محمد اسماعیل سلفی (م ۱۳۸۷ھ ) سابق امیر جمعیت اہلحدیث پاکستان لکھتے ہیں:

امام شافعی سے پہلے جمہور اہل علم مرسل کو حجت سمجھتے رہے سب سے پہلے اس کے متعلق تنقید امام شافعی نے فرمائی۔

[مقالات حدیث (ص ۳۷۱) ناشر ام القری پبلی کیشنر گوجرانوالہ]

نیز مولانا سلفی نے نامور منکر حدیث تمنا عمادی کے ایک مضمون، جس میں اس نے امام زہری (م ۱۲۴ھ ) وغیرہ محدثین پر مرسل احادیث روایت کرنے کی وجہ سے نقد کیا ہے، کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:

(خیر القرون میں) سچائی کے عام رواج کی وجہ سے سند کی بابت پڑتال نہیں ہوتی تھی، اس کا یہ معنی نہ سمجھا جائے کہ اس وقت سند فی الوقوع نا پید تھی، بلکہ اس کی ضرورت نہ تهي محبة الصدق (سچائی کی خصلت نام ہونے کی وجہ سے)۔

ایسا کہنے اور سننے والے دونوں اصل سند کو جانتے تھے، آج کل بھی معاصر ایک دوسرے کے اساتذہ اور تلامذہ کو سمجھتے ہیں، ایک دوسرے کے تعلیمی حالات، معاصرت لقاء سماع وغیرہ کا رفقاء کو عموما علم ہوتا ہے، مثلاً میرے سب رفقاء جانتے ہیں کہ میں نے حدیث کا سماع حضرت الشیخ الامام حافظ عبدالمنان وزیر آبادی رحمتہ اللہ علیہ سے کیا ، مجھے میاں صاحب (مولانا نذیرحسین دہلوی رحمہ اللہ سے شرف تلمذ نہیں۔ اس کے باوجو د میاں صاحب کی بیسوں باتیں بلا سند مجلس میں ذکر ہو جاتی ہیں ۔ رفقاء یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ باتیں میں نے حضرت میاں صاحب سے نہیں سنی بلکہ ان کے بعض تلامذہ ہی سے سنی ہیں ۔ اس قسم کا ارسال بالکل عادتاً ہے۔

بعض ثقات ائمہ حدیث سے جو ارسال منقول ہے، وہ اسی نوعیت کا تھا، مثلاً سعید بن مسیب، ابراہیم نخعی ، سالم بن عبد الله ، ابوسلمہ بن عبد الرحمان، قاسم بن محمد (اسی طرح یحیی بن سعید انصاری " جو بالاتفاق ثقہ تابعی ہیں، جیسا کہ بحوالہ گزرا ہے۔ ناقل ) یہ لوگ ارسال کسی بری نیت، یا استاد کے نام کو چھپانے کے لیے نہیں کرتے تھے۔

(ایضاً ( ص ۳۶۷۳۶۶)

نیز مولانا سلفی لکھتے ہیں : مذاہب ائمہ کی اس مختصر تفصیل سے میرا مطلب یہ ہے کہ مرسل کوئی ہوا نہیں ، جس سے تمنا صاحب ( مشہور منکر حدیث ) اور ادار و طلوع اسلام بدحواس ہورہا ہے، بلکہ ایک عرصہ تک ائمہ اسے حجت سمجھتے رہے۔ (ایضاً ص ۳۷۵،۳۷۴)

نیز مولانا سلفی لکھتے ہیں: خود امام شافعی، جنہیں مرسل کی حجیت پر نقض کا شرف حاصل ہے، مرسل کو بالکیہ رد نہیں فرماتے، اور ائمہ حدیث جو اس فن کے مختلف گوشوں پر ناقدانہ نظر رکھنے کے عادی ہیں، وہ بھی مرسل کو علی الاطلاق رد نہیں فرماتے۔

پھر مولانا سلفی نے نزھتہ النظر (ص۵۰) کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ امام شافعی کےنزدیک مرسل معتضد حجت ہے ۔ 

(ايضا ( ص ۳۷۲،۳۷۱) 

شارح بخاری علامه ابن بطال مالکی (م۴۴۹ھ) نے امام شافعی رحمۃاللہ علیہ پر اعتراض کیا ہے کہ: وہ مرسل کی حجیت کے منکر ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے عطاء بن یسار کی مرسل سے حجت پکڑی ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی (م ۸۵۲ھ) نے ابن بطال کے اس اعتراض کے جواب میں لکھا ہے:

" أَنَّ الشَّافِعِي لَايَرُدُّ الْمَرَاسِيلَ مُطلَقًا، بَلْ يَحْتَجُ مِنْهَا بِمَايَعْتَضِدُ، وَالْأَمْرُهُنَا كَذلِكَ ]

[۲] فتح الباری (۱۵۵:۲)

امام شافعی "مراسیل کا مطلق انکار نہیں کرتے ، بلکہ ان میں سے جو معتضد ہو ،اس کو وہ قابل حجت سمجھتے ہیں، اور یہاں بھی ایسا ہی ہے ۔ ( کہ یہ مرسل معتضد ہے) نیز حافظ موصوف، امام شافعی رحمۃاللہ علیہ کی ایک اور مستدل حدیث کی تحقیق میں مرسل عطاء بن ابی رباح" سے متعلق لکھتے ہیں:

" وَهَذَا مُرْسَلُ، يَعْتَضِدُ بِالرِّوَايَةِ الَّتِي عَلَّقَهَا الشَّافِعِيُّ عَنِ النَّخَعِي

(ایضاً (۲۲۵:۲)

یہ مرسل ہے لیکن یہ اس روایت سے معتضد ہے، جو امام شافعی رحمۃاللہ علیہ نے امام نخعی رحمۃاللہ علیہ سے معلق (بلاسند ) روایت کی ہے۔

[ان دونوں مثالوں سے ان لوگوں کا دعوی کہ: امام شافعی اور شوافع صرف اس مرسل معتضد کو حجت سمجھتے ہیں، جو کبار تابعین کی روایت کردہ ہو، غلط ثابت ہو جاتا ہے، کیونکہ پہلے حوالہ میں عطاء بن یسار بتصریح حافظ ابن حجر : طبقہ ثالثہ ( اوساط تابعین) کے صغار میں سے ہیں۔ تقریب التھذیب (۶۷۶:۱) طبع قدیمی خانہ کراچی، (ص ۳۲۶) مع حاشیه تعقیب التقریب از : مولانا امیر علی غیر مقلد ۔ جب کہ دوسرے حوالے میں عطاء بن ابی رباح بھی طبقہ ثالثہ میں سے ہیں۔ ایضاً (۶۷۵:۱)]

مرسل مُعتضد “ کا مطلب یہ ہے کہ اس مرسل کی تائید کسی دوسری روایت خواہ وہ مسند ہو یا مرسل سے ہو چکی ہو ، یا اس پر صحابہ کرام یا اکثر علماء نے عمل کیا ہو۔

 (دیکھئے مقدمہ شرح مسلم للنووی (۵۴:۱) شرح نخبۃ الفکر (ص ۵۱)، زاد المعاد (۱۰۳:۱) وغیرہ۔ )

مولانا عبدالرحمن مبارکپوری صاحب (م ۱۳۵۳ھ) اور شیخ البانی " (م۱۴۲۰ھ ) نے بھی تصریح کی ہے کہ مرسل معتضد سب کے نزدیک حجت ہے۔ 

(ابکارلمنن (ص ۱۴۳- ۱۴۴) سلسلۃ الاحادیث الصحیحیه (۳۰٤:٨)


 شیخ الاسلام زکریا انصاری (م۹۲۶ھ) اور حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلویؒ (م ١۱۷۶ھ) نے تو یہ بھی تعمیم کی ہے کہ مرسل روایت کی مؤید ضعیف روایت بھی ہوتب بھی وہ حجت ہے۔ 

(حاشیہ شرح نخبته الفکر شیخ الاسلام بحواله ركعات التراویح (ص ۶۵) حجۃ اللہ البالغہ (۱۴۰۱)۔ 

حافظ ابن حجر عسقلانی " (م ۸۵۲ھ) کا مؤقف بھی یہی ہے کہ ضعیف حدیث کی وجہ سے بھی مرسل روایت قوی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ حافظ موصوف ایک مرسل کی تائید میں دو روایات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

وَسَنَدُ كُل مِنْهُمَا ضَعِيفٌ، لَكِنَّ يَتَقَوَّى بِهِمَا الْمُرْسَلُ 

(نتائج الافکار فی تخریج احادیث الاذکار (۹:۵) طبع دار ابن کثیر بیروت

 ان دونوں حدیثوں کی سند ضعیف ہے لیکن ان دونوں کی وجہ سے یہ مرسل روایت قوی ہو جاتی ہے۔“

شیخ البانی (م ۱۴۲۰ھ ) کے نزدیک بھی اگر کسی مرسل کی مؤید ضعیف روایت بھی ہو تو تب بھی وہ مرسل قوی ہو جاتی ہے ۔

ارواء الغلیل (۳۰۴:۸)

عرض مرسل معتضد سب علماء کے نزدیک حجت ہے۔ خود غیر مقلدین علماء بھی اس کی حجیت کے قائل ہیں۔ چنانچہ حدیث نمبر ١ کے ذیل میں پیشوائے غیر مقلدین علامہ ابن حزم ظاہری (م۴۵۶ ھ ) کا حوالہ گزر چکا ہے کہ اگر کوئی حدیث ضعیف یا مرسل ہی کیوں نہ ہو لیکن لوگوں کے عمل سے مؤید ( معتضد ) ہونے کی وجہ سے قابل حجت ہے۔

غیر مقلدین کے مجدد و محقق مولانا نواب صدیق حسن خان (م ۱۳۰۷ھ ) حضرت حسن بصری (م ١۱۰ ھ ) کی مرسل روایت سے استدلال کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

اس لحاظ سے حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی مذکورہ بالا مرسل حدیث ، مذکورہ دلائل کیساتھ قوی ہو جائیگی ۔

(فتاوی نواب صدیق حسن خان (۱۱۲:۱) مطبوعہ دارابی الطیب گوجرانوالہ)


مولانا عبد الرحمن صاحب مبارکپوری (م ۱۳۵۳ھ) ابوقلابہ (م ۱۰۴ھ ) کی ایک مرسل روایت کے ذیل میں لکھتے ہیں:

اگر یہ حدیث مرفوعاً غیر محفوظ اور مرسلا محفوظ ہے تو بھی حجت ہے ، کیونکہ حدیث عبادہ وغیر ہ سے اس کا اعتضاد ثابت ہے، اور مرسل معتضد کے حجت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے

(تحقیق الکلام (۹۵:۱) مطبوعہ عبد التواب اکیڈمی ملتان۔)


غیرمقلد محقق مولانا عبدالرؤف سندھو اس روایت ابوقلابہ کے بارے میں لکھتے ہیں : اگر اس بات کو نہ بھی تسلیم کیا جائے تب بھی مرسل حجت ہے، کیونکہ اس کی تائید میں مرفوع صحیح روایات ہیں ۔

(القول المقبول فی شرح صلوۃ الرسول (ص۳۷۰) طبع اول)

نیز عبد الرؤف صاحب محمد بن یحیی بن حبان (م ۱۲۱ھ ) کی ایک مرسل روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:

یہ مرسلا بھی مروی ہے، اور یہ حدیث اپنے شواہد کی بنا پر صحیح ہے ۔

(القول المقبول (ص ۶۲۱) طبع رابع)


 غیر مقلدین کے محدث اعظم مولانا عبد اللہ روپڑی ( ۱۳۸۴ ) " موسی الجہنی (م ۱۴۴ ) کی مرسل روایت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ حدیث اگرچہ مرسل ہے لیکن اس کا اعتضاد دیگر طرق سے ثابت ہے لہذا مقبول ہے۔

(فتاوی اہلحدیث (۳۱۱:۱) مطبوعه اداره احیاء السنتہ النبویہ سرگودھا)

نیز مولاناروپڑی ایک مسئلہ کی تحقیق میں لکھتے ہیں:

اس بارے میں کئی مرسل روایتیں ہیں، جن میں ذرہ کاذکر ہے، بیہقی کہتے ہیں کہ یہ ایک دوسری کو تقویت دیتی ہیں۔

(فتاوی علمائے حدیث (۱۲۹:۷)


علامہ محمد شوکانی " (م ۱۲۵۰ ) امام ابن شہاب زہری (م ۱۲۴ھ ) کی ایک مرسل روایت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

وَهَذَا وَإِنْ كَانَ مُرْسَلاً لَكِنَّهُ مُعْتَضِدُ بِمَا سَبَقَ “

(نیل الاوطار (۱: ۶۹۳)

یہ روایت اگرچہ مرسل ہے لیکن سابقہ روایات سے معتضد ہے۔"

مولانا ارشاد الحق اثری نے بھی امام زہری کی ایک مرسل سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے:

یہ روایت گو مرسل ہے، مگر دیگر روایات اس کی مؤید ہیں ۔

( مقالات (۲۶۶:۱)

نیز مولانا اثری نے خالد بن معدان (م ۱۰۳ھ ) کی مرسل سے استدلال کرتے ہوئے بحوالہ امام بیہقی (م ۴۵۸ھ ) لکھا ہے:

 یہ مرسل جب ابن لہیعہ کی روایت سے مل جاتا ہے تو قوی ہو جاتا ہے۔

(ايضاً (۲۴۸:۲)

مولانا محمد صادق سیالکوئی " " مرسل طاؤس" (م ۱۰۶ھ ) کو معرض استدلال میں پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

گو یہ حدیث مرسل ہے لیکن دوسری مستند احادیث سے مل کر قوی ہوگئی ہے ۔

(صلوة الرسول ص ۱۸۸)

 


اسی طرح شیخ ناصر الدین البانی" (م ۱۴۲۰ھ) نے بھی مرسل طاؤس سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مرسل معتضد ہے، جو بالاتفاق حجت ہے۔ 

(ارواء الغلیل ۷۱:۲)

حافظ زبیر علی زئی (م ۱۴۳۵ھ ) اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: محدث العصر امام المحدثین شیخ ناصر الدین البانی" کا مطلب یہ ہے کہ اگر مرسل کا معتبر شاہد ہو تو وہ صحیح ہوتی ہے ۔

(حاشیہ عبادات میں بدعات ص۱۲۹)

مولانا بدیع الدین راشدی (م ۱۴۱۶ھ ) بھی ” مرسل طاؤس“ کو قابل حجت قرار دیتےہوئے لکھتے ہیں: اور محدثین کے نزدیک بھی مرسل روایت دوسری احادیث کے موجودگی میں مقبول ہیں۔

(مقالات راشدیہ ۹۹:۲)

کفایت اللہ سنابلی مرسل طاوس“ سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں : چونکہ اس مرسل روایت کے بہت سارے شواہد موجود ہیں، جیسا کہ اس کتاب کے باب اول کی پہلی فصل میں مذکورہ ہے، اس لیے یہ حدیث بالکل صحیح ہے ۔

(انوار البدر ص۶۶)

ہفت روزہ الاعتصام لاہور کے مفتی مولانا ثناء اللہ مدنی (م۱۴۲۲ھ ) ایک مرسل روایت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

مشار الیہ روایت ابوقتاده اگرچه منقطع (مرسل ) ہے، پھر اس میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہے لیکن بعض نے شواہد کی بناء پر اس کو قابل عمل سمجھا ہے۔

(ہفت روزہ الاعتصام ۲۷ محرم ۱۴۲۰ھ ص) 


 ان مذکور و بالا تصریحات سے جس طرح یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مرسل معتضد بالاتفاق حجت ہے، اسی طرح اس سے یہ بات بھی اظہر من الشمس ہوگئی کہ علمائے غیر مقلدین کے نزدیک کبار تابعین کی طرح صغار اور اوساط تابعین کی مرسل معتضد بھی حجت ہے۔ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ہے کہ مولانا مبارکپوری صاحب اور مولانا عبد الرؤف نے ابو قلابہ کی مرسل معتضد کو حجت کیا ہے، حالانکہ ابوقلابہ کو حافظ ابن حجر نے تابعین کے طبقہ ثالثہ میں شمار کیا ہے ۔ 

(تقریب التهذیب ۴۹۴:۱)

جو کے ان کے نزدیک اوساط تابعین کا طبقہ ہے 

(ایضاً ۲۵:۱)

اسی طرح نواب صدیق نے حضرت حسن بصری کی مرسل معتضد کو قوی قرار دیا ہے، اور وہ بھی طبقہ ثالثہ کے ہیں۔

[۴] ايضاً (۲۰۲:۱)

نیز شیخ عبد الرؤف نے محمد بن یحیی بن حبان کی مرسل معتضد کو بھی حجت کہا ہے، اور محمد بن یحیی" کو حافظ نے طبقہ رابعہ کا راوی کہا ہے ۔ 

( ايضاً ۱۴۴:۲)

 اور حافظ کے نزدیک طبقہ رابعہ والے طبقہ ثالثہ والوں کے قریب ہیں ۔ 

 (ایضاً ۲۵:۱)

اور مولانا روپڑی" نے موسیٰ الجہنی" کی مرسل ۔ معتضد کو قابل حجت قرار دیا ہے، حالانکہ موسیٰ الجہنی" کو حافظ ابن حجر نے طبقہ سادسہ میں شمار کیا ہے۔

(ايضاً ۲۲۵:۲)

 جو کہ بقول حافظ موصوف : صغار تابعین کے ہم عصر میں لیکن ان کی کسی صحابی سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔

(ايضا ۲۵:۱)

اسی طرح قاضی شوکانی اور مولانا ارشاد الحق اثری نے امام زہری کی مرسل معتضد کو حجت کہا ہے، حالانکہ زہری کو حافظ ابن حجر نے طبقہ رابعہ میں شمار کیا ہے

 (ايضاً ۲۵:۱)

اسی طرح مولانا اثری نے خالد بن معدان کی مرسل کو قوی قرار دیا ہے، حالانکہ وہ طبقہ ثالثہ ( اوساط تابعین کے طبقہ ) کے ہیں 

(ايضاً ۱: ۲۶۳)

مولانا محمد صادق سیالکوٹی ، شیخ البانی " اور بدیع الدین راشدی وغیرہ حضرت طاؤس کی مرسل معتضد کو قوی کہہ رہے ہیں، جب کہ طاؤس طبقہ ثالثہ کے ہیں جو اوساط تابعین کا طبقہ ہے۔

(ايضاً ۴۴۹:۱)

 اسی طرح مولانا ثناء اللہ صاحب، ابوالخلیل بصری کی مرسل سے استدلال کر رہے ہیں ۔ حالانکہ وہ طبقہ سادسہ کے ہیں

(ايضاً ۱: ۴۴۳)

 طبقہ سادسہ والوں کو حافظ ابن حجر نےصغار تابعین کا ہم عصر قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ابھی گزرا ہے۔

اب جب کہ یہ علمائے کرام جن میں مولانا مبارک پوری" قاضی شوکانی " مولانا روپڑی، شیخ البانی " اور مولانا سیالکوئی ” جیسے اکابر غیر مقلدین بھی شامل ہیں، صغار اور اوساط تابعین کی مراسیل معتضدہ کی حجیت کا اقرار کر رہے ہیں، تو پھر بعض غیر مقلدین کا صغار اور اوساط تابعین کی مراسیل کو یہ کہہ کر رد کر دینا کہ صرف کبار تابعین کی مراسیل معتضدہ حجت ہیں۔ (انوار المصابیح ص ۲۸۱،۲۷۸)

 خود اپنے اکابر کی تصریحات کی روشنی میں بھی باطل ہے۔ الغرض : مرسل معتضد کے حجت اور صحیح ہونے پر پوری امت (بشمول علمائے غیر مقلدین ) کا اتفاق ہے، اور چونکہ حضرت یحیی بن سعید انصاری کی مذکورہ روایت بھی مرسل معتضد ہے، اس لیے کہ اس کی تائید دیگر کئی مسند اور مرسل روایات سے ہو رہی ہے، نیز اس پر صحابہ کرام اور علماء سلف نے عمل بھی کیا ہے۔ لہذا اس روایت کےحجت اور صحیح ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہو سکتا۔


شیخ الاسلام امام تقی الدین سبکی شافعی (م۷۵۶ ھ ) اس روایت کے بارےمیں لکھتے ہیں :

هذَا مُرْسَلٌ كَمُرْسَلِ يَزِيدَ بْنِ رُؤْمَانَ وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَالِمٌ كبير ايضًا

(ضوء المصابیح ص ۳۳۸)

یہ یزید بن رومان کی مرسل کی طرح مرسل روایت ہے، اور یحیی بن سعید بھی (یزید بن رومان کی طرح ) عالم ہیں ۔

اور اس سے پہلے مرسل یزید بن رومان کے متعلق انہوں نے لکھا ہے: " وَيَزِيدُ بْنُ رُؤْمَانَ لَمْ يُدْرِكَ زَمَانَ عُمَرَ، لَكِنَّهُ عَالِمٌ كَبِيرُ وَاعْتَضَدَ رِوَايَةَ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عُمَرَ فِي عِشْرِينَ، وَقَدُ تَقَدَّمَ أَنَّهَا صَحِيحَةٌ. وَبِعَمَلِ السَّلَفٍ “۔ (ايضاً)

یزید بن رومان نے اگر چہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا لیکن وہ ایک بڑے عالم میں (اس لیے اُن کو حضرت عمر کے اس فیصلے کا علم ہے ) نیز ان کی یہ روایت، حضرت سائب بن یزید (وغیرہ) کی حضرت عمر ( کے عہد ) سے متعلق بیسں تراویح والی صحیح روایت اور سلف صالحین کے عمل سے معتضد ہے۔


ماخوذ:

(رکعات تراویح ایک تحقیقی جائزہ 170 )

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...