اعتراض نمبر 57 : کہ ابو حنیفہ نے بیع صرف کے بارہ میں ایک مسئلہ بتایا جب ان سے کہا گیا کہ حضور علیہ السلام کے صحابہ تو اس کے خلاف تھے تو انہوں نے مسئلہ پوچھنے والے سے کہا کہ جا میرے بتلائے ہوئے مسئلہ پر عمل کر ، اگر اس میں گناہ ہوا تو مجھ پر ڈال دینا۔
اعتراض نمبر 57 :
کہ ابو حنیفہ نے بیع صرف کے بارہ میں ایک مسئلہ بتایا جب ان سے کہا گیا کہ حضور علیہ السلام کے صحابہ تو اس کے خلاف تھے تو انہوں نے مسئلہ پوچھنے والے سے کہا کہ جا میرے بتلائے ہوئے مسئلہ پر عمل کر ، اگر اس میں گناہ ہوا تو مجھ پر ڈال دینا
أخبرنا ابن رزق، أخبرنا عثمان بن أحمد الدقاق، حدثنا حنبل بن إسحاق، حدثنا الحميدي قال: سمعت سفيان قال: كنت في جنازة أم خصيب بالكوفة، فسأل رجل أبا حنيفة عن مسألة من الصرف فأفتاه، فقلت: يا أبا حنيفة إن أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم قد اختلفوا في هذه. فغضب وقال للذي استفتاه: اذهب فاعمل بها، فما كان فيها من إثم فهو على
الجواب : میں کہتا ہوں کہ ابن رزق وہی بوڑھا نابینا ہے جو الرزم کی کتابوں کا راوی ہے۔
اور اس خبر کا راوی عثمان بن احمد جو ہے وہ ابو عمرو بن السماک ہے جو ذہبی کے نزدیک رسوا کن روایت کے ساتھ مطعون ہے۔
اور حنبل غلطیاں کرنے والا اور اپنے ہم مذہب بعض لوگوں کے نزدیک بھی پسندیدہ شخص نہ تھا۔
اور الحمیدی وہی ہے جس نے مصر میں شوافع کے درمیان فساد ڈالا تھا۔
اور محمد بن عبد الحکم نے لوگوں کے بارہ میں بات چیت کے متعلق اس کو جھوٹا کہا ہے۔
اگرچہ بعض حضرات نے اس کو رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے بارہ میں ثقہ کہا ہے اور یہ اس قدر متعصب تھا کہ عقلمند آدمی اس کے بارہ میں حیران رہ جاتا ہے۔
اور امام شافعی کتاب الام ص 211 ج 6 میں فرماتے ہیں کہ متعصب لوگوں کی گواہی رد کر دی جائے گی اور اس بات کو صراحت سے فرمایا کہ بے شک سارے لوگ اللہ تعالی کے بندے ہیں کوئی بھی اس کی بندگی سے خارج نہیں ہے اور ان میں سے حجت کے زیادہ لائق وہ ہے جو ان میں سے اس کا زیادہ فرماں بردار ہے اور اس کے فرمانبرداروں میں سے فضیلت کے زیادہ لائق وہ ہے جو مسلمانوں کی جماعت کو زیادہ نفع پہچانے والا ہو یعنی عادل امام مجتہد عالم یا عوام الناس اور خواص کی مدد کرنے والا ہو۔ اور بے شک اللہ تعالی نے لوگوں کو اسلام کی وجہ سے جمع کیا اور ان کی نسبت اس کی طرف فرمائی (یعنی ان کو مسلمین فرمایا) اور جتنی نسبتیں ان کی طرف کی گئی ہیں، ان میں ہی نسبت سب سے زیادہ عمدہ ہے۔ پس جو شخص کسی سے محبت کرتا ہے تو وہ اسی اسلام ہی کی وجہ سے اس سے محبت کرے۔ اور پھر آگے انہوں نے نسب میں طعن اور نسب کی وجہ سے عصبیت اور بغض کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا بے شک کسی آدمی کا دوسرے سے اس وجہ سے بغض رکھنا کہ بے شک وہ فلاں قبیلہ کا ہے تو یہ خالص عصبیت ہے جس کی وجہ سے گواہی مردود ہو جاتی ہے۔ الخ۔
اور آدمی کی شہادت کا مردود ہونا تو اس کو زندوں میں شمار کرنے کے قابل ہی نہیں رہنے دیتا۔ اور اگر ان کلمات کو جو الحمیدی نے ابوحنیفہ کے بارہ میں کہے ہیں ایک میدان میں جمع کر دیا جائے تو اس کی عصبیت کا پردہ چاک ہو جائے گا۔ ہم اللہ تعالی سے پردہ پوشی کی ہی درخواست کرتے ہیں۔
اور کتاب میں جب بھی الحمیدی کا ذکر آئے تو آپ اسی بحث کو پیش نظر رکھیں۔
اور ابو حنیفہ سے بغض رکھنے والے کا معاملہ شہادت کے رد ہونے سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا۔
اس لیے کہ بے شک وہ تو عبادت میں اور دینی فقہ کی نشر و اشاعت میں اور عوام اور خواص کو نفع دینے میں اس حیثیت کو پہنچے ہوئے ہیں کہ کوئی منصف مزاج اس کے ساتھ پوری صدی میں فقہ کے اماموں سمیت کسی کو ان عادات میں ان کے ساتھ برابر ثابت نہیں کر سکتا اور اللہ تعالی ہی تعصب کرنے والوں سے حساب لینے والا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ حضرات صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کے درمیان بیع صرف کے بارہ میں اختلاف مشہور ہے جو کہ اس میں ادہار کرنے سے متعلق حضرت ابن عباس وغیرہ کے درمیان ہے اور جمہور فقہاء نے اس بارہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول کو نہیں لیا بلکہ ان سے بھی اپنے قول سے رجوع نقل کیا گیا ہے[1]۔
اور ابو حنیفہ کا کیا جرم ہے جو اس نے اس مسئلہ میں حضرت ابن عباس کی رخصت کو نہیں لیا۔
اور مجتہد کا کیا جرم ہے جبکہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے کسی مسئلہ میں مختلف اقوال میں سے کسی ایک قول کو دلائل کے ساتھ راجح قرار دے کر اختیار کر لیتا ہے۔ لیے کہ نفی اور اثبات کو جمع کرنا تو محال ہے۔ پھر اگر ان راویوں کو اعتماد تھا کہ واضح دلائل کے ساتھ ثابت ہونے والے مسئلہ کی اس نے مخالفت کی ہے تو انہوں نے اس مسئلہ کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ اور مجتہد کے سامنے جب مسئلہ بالکل واضح ہو جائے جیسا کہ بیع صرف میں جمہور کا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے کی مخالفت کرنا تو مجتہد کے لیے جائز ہے کہ وہ کہے کہ اگر اس مسئلہ میں کوئی گناہ ہوا تو مجھ پر ڈال دینا۔
مگر یہ اس وقت ہے جبکہ فرض کر لیا جائے کہ ان سے یہ قول ثابت ہے[2]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ «فرجع عن الصرف قبل أن يموت بسبعين يوما»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیع صرف سے اپنے انتقال سے ستر 70 روز قبل رجوع فرمایا
(مصنف عبدالرزاق رقم 14548)
مزید دیکھیں
صحیح مسلم 4087
سنن ترمذی 1241
الديباج - ج 4 ص 136
[2]۔ چونکہ مسئلہ پوچھنے والے کو بیع صرف پر صحابہ کے اختلاف کا علم ہی نہیں تھا یا وہ اس اختلاف میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ صحابہ کی کس جماعت کا مسئلہ زیادہ بہتر ہے اور امام صاحب جنازہ میں موجود تھے لہذا انہوں نے اس وقت مسئلہ کی وضاحت کے بجائے صرف اتنا جواب دینا بہتر سمجھا کہ تم بیع صرف کے مسئلہ پر اس فتوی پر عمل کر لو ، اگر فتوی غلط بھی ہوا تو عذاب مجھ پر ہو گا۔
امام صاحب کا یہ فرمان کہ اگر فتوی غلط ہوا یہ بھی غیر مقلدین کو فائدہ مند نہیں کیونکہ
اول تو حدیث میں ہیکہ "جو کوئی فتویٰ بغیر علم کے دیا گیا تو اس فتویٰ کا گناہ اس مفتی پر ہو گا جس نے اس کو فتویٰ دیا"(ابو داود 3657 ) لہذا امام صاحب نے یہاں حدیث ہی بتائی ہے کوئی انوکھی چیز نہیں ، ہاں اگر غیر مقلدوں کو یہ حدیث نہ بھائے ہمارا کیا قصور۔
دوم یہ کہ اگر امام صاحب غلط فتوی بھی دیں تب بھی وہ گنہگار نہیں کیونکہ مجتہد خطا پر بھی ثواب حاصل کرتا ہے(بخاری 7352) لیکن ہمارے معتصب معترضین کی عقل اس کو سمجھنے سے عاری ہے۔
(النعمان سوشل میڈیا سروسز)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں