نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 58 : یوسف بن اسباط نے کہا کہ ابوحنیفہ نے 400 یا اس سے زائد احادیث کی مخالفت کی اور کہا کہ دین تو صرف اچھی رائے کا نام ہے۔


 اعتراض نمبر 58 : 
یوسف بن اسباط نے کہا کہ ابوحنیفہ نے 400 یا اس سے زائد احادیث کی مخالفت کی اور کہا کہ دین تو صرف اچھی رائے کا نام ہے۔

أخبرنا القاضي أبو القاسم عبد الواحد بن محمد بن عثمان البجلي، حدثنا عمر بن محمد بن عمر بن الفياض، حدثنا أبو طلحة أحمد بن محمد بن عبد الكريم الوساوسي، حدثنا عبد الله بن خبيق، حدثنا أبو صالح الفراء قال: سمعت يوسف بن أسباط يقول: رد أبو حنيفة على رسول الله صلى الله عليه وسلم أربعمائة حديث - أو أكثر - قلت له: يا أبا محمد تعرفها؟ قال نعم. قلت: أخبرني بشئ منها: فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " للفرس سهمان، وللرجل سهم " قال أبو حنيفة: أنا لا أجعل سهم بهيمة أكثر من سهم المؤمن وأشعر رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه البدن وقال أبو حنيفة: الإشعار مثلة. وقال صلى الله عليه وسلم: " البيعان بالخيار ما لم يتفرقا " وقال أبو حنيفة: إذا وجب البيع فلا خيار. وكان النبي صلى الله عليه وسلم يقرع بين نسائه إذا أراد أن يخرج في سفر، وأقرع أصحابه. وقال أبو حنيفة القرعة قمار. وقال أبو حنيفة: لو أدركني النبي صلى الله عليه وسلم وأدركته لأخذ بكثير من قولي، وهل الدين إلا الرأي الحسن؟.

الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں عمر الفیاض بے اعتماد ہے اسی لیے اس کا فیض نہیں پھیلا۔

 اور اس کے راوی الوساوسی کے بارہ میں بھی حضرات نے کلام کیا ہے پس اس کے وسوسوں کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی۔

 اور عبد اللہ بن خبیق صالح ہے مگر اس لحاظ سے صالح نہیں کہ اس سے کوئی چیز حاصل کی جائے سوائے اس کے کہ وہ کتاب سے پڑھ کر بتائے۔

 اور ابو صالح الفراء کی حکایات کی طرف بھی بغیر کتاب کے توجہ نہیں کی جائے گی۔ 

اور یوسف بن اسباط عبادت گزار پیوند لگے لباس والا تھا اس کی کتابیں دفن کر دی گئیں اور اس کا حافظہ اچھا نہ تھا۔ اور بے فائدہ چیزوں میں ارسال کرتا تھا تو وہ ان لوگوں میں شمار ہوتا ہے جن سے دلیل پکڑنا درست نہیں۔

 یہ تو اس خبر کا سند کے لحاظ سے حال ہے[1]۔

 اور رہی بات متن کے لحاظ سے تو خدا کی پناہ کہ ابوحنیفہ نے رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا ایک کلمہ بھی رد کیا ہو۔ اور انہوں نے وہی کہا جس کو الموفق الخوارزمی نے اس سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ 

عن ابی حامد محمد بن ابی الربیع المازنی ۔ ابوالعلاء حامد بن ادریس۔ ابوالمعین میمون بن محمد النسفى - ابو طاہر المهدي بن محمد الحسینی - الحافظ ابو یعقوب بن منصور السیاری۔

 اور دوسری سند میں خطیب نے کہا کہ سمرقند سے میری طرف جو خط ابو حفص عمر النسفی نے لکھا اس میں بتلایا کہ ابو السیر البزدوی نے ابو یعقوب السياری - ابو الفضل احمد بن علی عقیلی الجوهري - الفتح ابن علوان - محمد بن یزید - الحسن بن صالح ۔ ابو مقاتل عن ابی حنیفہ کی سند نقل کر کے اور تیسری سند خطیب نے نقل کی کہ ابو المعین نے کہا اخبرنا ابی عبد الکریم بن موسیٰ البزدوی ۔ 

ابو منصور الماتریدی ۔ ابوبکر احمد بن اسحاق الجوزجانی - محمد بن مقاتل الرازی - ابو مقاتل حفص بن سلم السمرقندی جو کہ کتاب العالم والمتعلم میں ہے وہ ابو حنیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ جو شخص قرآن کریم کے سوا کوئی اور بات نبی کریم ﷺ سے بیان کرتا ہے تو اس شخص کا رد نبی کریم ﷺ کا رد نہیں ہے اور نہ ہی اس کی وجہ سے آپ کی تکذیب ہوتی ہے بلکہ اس شخص کا رد ہوتا ہے جو باطل بات نبی کریم ﷺ کی جانب منسوب کر کے بیان کرتا ہے اور تہمت اسی پر ہوتی ہے، نبی کریم ﷺ پر نہیں اور ہر وہ چیز جس کے ساتھ نبی کریم ﷺ نے تکلم فرمایا خواہ اس کو ہم نے سنا ہو یا نہ سنا ہو وہ سر آنکھوں پر ہے۔ بے شک ہم اس پر ایمان بھی لاتے ہیں اور اس بات کی گواہی بھی دیتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے جیسا فرمایا ہے، وہی حق ہے۔

اور ابو حنیفہ کا تو یہ فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس آدمی پر جو رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرتا ہے۔ انہی کی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عزت بخشی ہے اور ان ہی کی وجہ سے ہمیں گمراہی اور عذاب سے بچایا ہے۔ ابن عبد البر نے الانتقاء میں جو لکھا ہے ہم نے اس کے قریب قریب ہی نقل کر دیا ہے۔


 اور بہر حال ان ان راویوں کا رد کرنا جو ایک ہی مقصد کو بیان کرتے ہوئے اپنے اپنے ذہنوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے الفاظ مختلف نقل کرتے ہیں تو یہ بحث ہی مختلف ہے۔ جیسا کہ مذہب کی تفصیلی کتب میں اس کو ظاہر کیا گیا ہے۔

 اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اور ان کے علاوہ کسی اور پر لازم تو نہیں کہ وہ سندوں میں آنے والے راویوں کی پرکھ کیے بغیر اور روایات کا موازنہ کیے بغیر ہی ان لاکھوں راویوں کی تصدیق کریں جو روایت کرتے ہیں۔ ورنہ تو دین ضائع ہو جائے گا اور فقہ غافل لوگوں کے ہاتھ میں کھلونا بن جائے گی۔ 

اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر الزام دھرنے کے لیے اس قسم کی نرالی دلیلوں کو رسول اللہ ﷺ کی چار سو احادیث کی مخالفت پر دلیل بناتا جبکہ صرف چار کا ذکر کیا گیا ہے اور ان میں سے بھی کوئی چیز اس قابل نہیں کہ جس الزام پر مخالف دلیل بنانا چاہتا ہے، اس پر دلیل بنائی جا سکے۔ گویا کہ مخالف کی نظر میں ایک ایک حدیث ایک ایک سو کے قائم مقام ہے۔ 

پس اس کا قول 

《للفرس سهمان وللرجل سهم 》

کہ گھوڑے کے لیے دو حصے اور پیدل کے لیے ایک حصہ ہے۔

 بعض روایات میں الفاظ اسی طرح آئے ہیں اور بعض روایات میں 《للفارس سهمان والراجل سهم》 کے الفاظ ہیں کہ سوار کے لیے دو حصے اور پیدل کے لیے ایک حصہ ۔ 

اور ایسی روایات کو ابو حنیفہ نے ترجیح دی ہے۔ اور اس مفہوم کو ترجیح دی ہے جو حضرت مجمع بن جاریہ کی روایت میں ہے جو کہ سنن ابی داؤد کی روایت ہے[2]

تو حدیث میں راویوں کے اختلاف کی صورت میں مجتہد کا روایات میں سے کسی ایک روایت کو ان دلائل کی وجہ سے ترجیح دینا جو ترجیح کے لیے اس کے سامنے ظاہر ہوئے ہوں تو اس کو حدیث کی مخالفت نہیں کہتے۔ 

تو ابو حنیفہ نے جب راویوں کے الفاظ میں اختلاف دیکھا اور ان میں سے کسی نے ایک مفہوم کو اور دوسرے نے دوسرے مفہوم کو سمجھا تو انہوں نے غور و فکر کے بعد رائے قائم کی کہ بے شک شریعت نے جانور کو مالک بنانے کا نظریہ نہیں دیا تو انہوں نے فیصلہ دیا کہ للفرس سهمان والی روایت اپنے ظاہر کے اعتبار سے یہ فائدہ دیتی ہے کہ جانور کو اس حصہ سے دو گنا دیا جائے جس کا مالک آدمی کو بنایا گیا ہے۔

 تو یہ راوی کی غلطی ہے کہ اس نے الفرس میں نا کے بعد الف کو حذف کر دیا اور پرانے لوگوں کے رسم الخط میں اعلام (ناموں) کے کے علاوہ بھی بعض رسموں میں لکھنے کا طریقہ اسی طرح ہے۔ 

تو اس غلطی کرنے والے نے فرسا و رجلا پڑھا حالانکہ واجب یہ تھا کہ فارسا و راجلا پڑھا جاتا تو راوی مسلسل غلطی کرتے چلے آئے اور دونوں مذکورہ لفظوں سے گھوڑا اور انسان مراد لیتے رہے۔ 

حالانکہ اس کا امکان موجود ہے کہ الفرس سے فارس مراد لیا جائے جیسا کہ جب قرینہ موجود ہو تو الخیل سے الخیال (گھوڑ سوار) مراد ہوتا ہے۔ اور امام صاحب نے یہ مفہوم دونوں قسم کی روایتوں کو جمع کرنے کے لیے اختیار کیا ہے۔

 اور دوسرے حضرات اس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے حدیث کی روایت پر لگے رہے تو ابو حنیفہ نے ان لوگوں کو ان الفاظ کے ساتھ جواب دیا کہ بے شک میں مومن پر ایک جانور کو فضیلت نہیں دیتا تا کہ ان کو سمجھا سکیں کہ شریعت بهائم کو مالک نہیں بناتی۔ اور مجاز اصل کے خلاف ہے[3]۔

 اور رہی یہ بات کہ انہوں نے بھائم کو مومن پر فضیلت نہ دینے کی بات کی ہے حالانکہ وہ تو جانور کو کسی مومن کے برابر قرار دینے کے قائل بھی نہیں ہیں۔ 

اس لیے کہ جس حدیث میں راویوں کو غلطی لگی ہے اس میں فضیلت دینے کی بات ہے۔ 

تو انہوں نے نظر کو اس مقام پر ٹھرایا اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ جانور اور مومن میں برابری کے قائل ہیں۔ اس لیے کہ مفہوم مخالف تو ان کے مذہب میں معتبر ہی نہیں ہے۔ اور کتاب الخراج میں ابو یوسف اور ان کی پیروی کرتے ہوئے امام شافعی نے کتاب الام میں انتہائی زیادہ طعن کے ساتھ جو قول کیا ہے وہ فقیہ الملت کی کلام کے مقصد سے بعید ہے۔ جیسا کہ یہ بات ہر اس شخص کے سامنے واضح ہو جاتی ہے جو ہماری ذکر کردہ بحث میں غور و فکر کرے۔ 

اور بہر حال وہ روایات جن میں آتا ہے کہ بعض لڑائیوں میں سوار کا حصہ کئی گنا زیادہ تھا تو ابو حنیفہ اس کو تنفیل پر محمول کرتے ہیں۔ (کہ امیر لشکر کا اپنی صوابدید پر بعض لشکریوں کو انعام دینا) تا کہ اس بارہ میں تمام دلائل جمع ہو جائیں اس لیے کہ بے شک مختلف لڑائیوں میں سواروں کی ضرورت بھی مختلف ہوتی ہے۔

 کیا دلائل کو جمع کرنے کی خاطر کسی ایک روایت کو ترجیح دینے سے ابو حنیفہ رسول الله ﷺ کی مخالفت کرنے والے قرار پائیں گے؟ حاشا و کلا۔

 اور امام صاحب کے اس بارہ میں دلائل مذہب کی کتابوں میں بالخصوص ابو بکر الرازی کی احکام القرآن ص 58 ج 3 میں تفصیل سے مذکور ہیں[4]۔ 

اور اس بارہ میں ابو حنیفہ کے دلائل نقل کرنے میں الفقیہ المحدث المحقق العلامہ الشیخ ابو الوفاء الافغانی نے بہت عمدہ طویل بحث کی ہے جو کہ مدرسہ نظامیہ حیدر آباد کے مدرس تھے۔ انہوں نے الرد علی سیر الاوزاعی پر جو حاشیہ لکھا ہے اس کے ص 17 میں بہت عمدہ اور طویل بحث کی ہے[5]۔ 

لیکن انہوں نے فقہاء کے اختلاف

بیان کرتے ہوئے ابن جریر سے امام مالک کا جو یہ قول نقل کیا ہے کہ بے شک میں ہمیشہ سنتا

آرہا ہوں کہ سوار کے دو حصے ہیں اور پیدل کا ایک حصہ ہے۔ تو یہ قول امام مالک کے اس

قول کے خلاف ہے جو صراحتا ان سے منقول ہے تو ان کا صحیح قول یہ ہے کہ بے شک میں ہمیشہ سنتا آرہا ہوں کہ الفرس کے دو حصے اور پیدل کا ایک حصہ ہے۔ اور میں نے ہندوستان میں اس کتاب کو طبع کروانے والے کو اس غلطی پر آگاہ کر دیا تھا تو اس نے کتاب کے آخر میں تصحیح اغلاط کا جو نقشہ دیا اس میں اس کو بھی درج کر کے اس کی اصلاح کر دی ہے۔

 اور رہا ابوحنیفہ کا یہ قول کہ 《الاشعار مثلة 》 کہ جانور کو اشعار کرنا مثلہ ہے تو یہ صرف اس کا قول نہیں بلکہ یہ یہ قول ان کا ہے جو حماد عن ابراهيم النخعی سے اس کو روایت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی طرف امام ترمذی نے اپنی جامع میں ان میں سے بعض کے قول کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان میں سے وکیع بھی ہیں[6]۔

 اور ان کی مراد مطلقاً اشعار کا رد نہیں بلکہ ان کی مراد اپنے زمانہ کے لوگوں کا رد تھا جو اس میں مبالغہ کرتے تھے۔ 

اور الاشعار میں الف لام

محمود ہے جو ان کے زمانہ میں ہونے والے اشعار پر محمول کیا جائے گا۔ 

اور اس میں رسول اللہ ﷺ کا رد کہاں ہے؟


وكم من عائب قولا صحيحا 

و آفته من الفهم السقيم


 اور کتنے ہی صحیح بات میں عیب نکالنے والے ہوتے ہیں۔ 

اور مصیبت ان کو بیمار ذہن کی وجہ سے ہوتی ہے۔

علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ بے شک اعمش کہتے ہیں کہ ہم نے ابراہیم النخعی سے جو بھی سنا وہ روایت کر دیا گیا ہے جیسا کہ آپ اس سے ملتا جلتا قول ابو نعیم کی حلیہ میں پاٸیں گے۔ 

تو النخعی کا یہ قول اثر ہے اس کو دلیل بنایا جا سکتا ہے اور آپ کو معلوم ہی ہے کہ النخعی کے مراسیل کی قدر و قیمت ابن عبد البر وغیرہ کے ہاں کیا ہے[7]۔ 

اور بہر حال بائع اور مشتری کے جدا ہونے سے پہلے پہلے خیار والی حدیث تو پہلے اس کا معنی واضح کیا جا چکا ہے اور یہ معنی کرنے میں ابوحنیفہ اکیلے نہیں بلکہ اس کے شیخ ربیعہ اور النخعی بھی اس مسئلہ میں اس کے ساتھ ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کر دیا ہے[8]۔

 پس اس بارہ میں کلام دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

 اور رہا مسئلہ قرعہ کا تو بےشک ابو حنیفہ نے اس کو اپنے مورد پر بند رکھا ہے اور کہا کہ پختہ بات ہے کہ قرعہ اندازی صرف اس وقت ہو سکتی ہے جبکہ عورتوں میں سے کسی کو سفر میں ساتھ لے جانا ہو اور یا پھر اس تقسیم کے وقت ہے جس میں کسی ثابت شدہ حق کو باطل کرنا لازم نہ آتا ہو اس لیے کہ بے شک قرعہ اس بارہ میں خلاف القیاس ہے۔ 

(اور جو چیز خلاف القیاس ہو اس کو اپنے مورد پر بند رکھ کر اسی میں اس کے حکم کو ثابت کرتے ہیں۔کسی اور چیز کو اس پر قیاس نہیں کر سکتے) اور قرعہ کے بارہ میں ابو حنیفہ کے مذہب کی تحقیق تحریر الحصیری علی الجامع الکبیر میں مذکور ہے۔

 تو کیا جو چیز خلاف القياس ثابت ہو اس کو اپنے مورد پر بند رکھنے میں مخالفت کی ذرا بھی بو پائی جاتی ہے؟

 اور یہ وہ چار احادیث ہیں جن کو راوی نے اس دعوی پر پیش کیا ہے کہ ابو حنیفہ نے چار سو احادیث کی مخالفت کی ہے۔ اور بہر حال جو یہ بات ان کی طرف منسوب کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ اگر نبی ﷺ مجھے پالیتے یا میں ان کو پالیتا تو وہ میری بہت سی باتوں کو لے لیتے تو اس میں النبی کا لفظ بدلا البتی سے ہوا ہے۔ اور صلی اللہ علیہ وسلم کا جملہ اس تصحیف کو نقل کرنے والے کی طرف سے درج کیا گیا ہے۔

 اور حق تو یہ تھا کہ جملہ نہ لکھا جاتا یا اگر لکھا جاتا تو بین القوسین لکھا جاتا تا کہ پتہ چل سکتا کہ یہ جملہ زائد ہے اور اس قسم کی تصحیف بعض راویوں سے امام احمد کے زمانہ میں ہوئی تو انہوں نے اس پر ان کو تنبیہہ فرمائی جیسا کہ اس کا ذکر خطیب نے ص 80 ج 2 میں کیا ہے۔ اگرچہ اس (خطیب) کا خود اپنا خیال یہ ہے کہ تصحیف نہیں ہے۔

اور بعض دفعہ یوسف بن اسباط اپنے اسی کمزور حافظہ اور انتہائی تعصب کی وجہ سے وہی لا علمی میں تصحیف کرنے والا ہوتا تھا جان بوجھ کر نہ کرتا تھا۔ 

اور یہ صرف دعوئی ہی نہیں کہ النبی کا لفظ البتی سے بدلا ہوا ہے اور نہ ہی محض احتمال کے درجہ میں ہے بلکہ حالات اس کے شاہد ہیں۔ اور یہ حکایت تو اس باب میں ذرا مجال نہیں چھوڑتی کہ وہ مفہوم لیا جائے جو مخالف لے رہا ہے[9]۔ 

اس لیے کہ بے شک ابو حنیفہ کو امت کے نصف بلکہ دو تہائی حصہ نے دین میں اپنا امام بنایا ہے اور زمانہ در زمانہ گزرنے کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور یہ سب اس کے دین اور اس کی پرہیزگاری اور علم کی وجہ سے ہے تو محال ہے کہ وہ اس جیسی کلام کریں جس جیسی کلام اس زمانہ میں بدترین قسم کے زندیق اور گمراہ لوگوں میں سے بھی کوئی نہیں کرتا اور اگر ایسا ہوتا تو اس کا معاملہ حکمرانوں کی طرف لے جا کر اس کی گردن اڑا دی گئی ہوتی۔ 

اور امت کے افراد اور علماء امت اس کے اردگرد سے دور ہٹ گئے ہوتے۔ 

اسی طرح حالات اس واقعہ کے جھوٹا ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔

اور بہر حال اصل واقعہ تو وہ ہے جس کو ابو سعد بن السمعانی نے سعید بن ابی الرجاء ابو الحسین الاسكاف ابو عبد اللہ بن منده الحارثی الحافظ ابو طالب سعید بن محمد الطحاوی بکار بن قتیبہ ہلال بن یحیی۔ یوسف بن خالد السمتی کی سند سے ، روایت کیا ہے کہ بے شک اس نے ذکر کیا کہ وہ بصرہ کے عالم عثمان بن مسلم البتی کی مجلس میں کیسے آتا جاتا تھا۔ 

پھر وہ کیسے ابو حنیفہ تک جا پہنچا پھر اس نے کہا کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر البتی مجھے پالیتے تو اپنی بہت سی باتوں کو چھوڑ دیتے۔ 

جیسا کہ یہ واقعہ الموفق المکی کی کتاب مناقب ابی حنیفہ ص 102 میں ہے۔ 

اور اس بارہ میں کی گئی روایات میں بعض جگہوں میں ابو یوسف ذکر کیا گیا ہے تو وہ لکھنے والے کی بھول ہے۔ 

اور صحیح یہ ہے کہ لفظ ابو کے بغیر یوسف ذکر کیا جائے۔ اس لیے کہ بے شک راوی یوسف بن خالد ہے قاضی ابو یوسف نہیں۔ اور ابو الموید الخوارزمی نے

جامع المسانید میں پورے اعتماد سے لکھا ہے کہ یہ غلطی خود خطیب کو لگی ہے۔ واللہ اعلم۔ اور بہر حال جو یہ بات ابو حنیفہ کی طرف منسوب کی جاتی ہے کہ انہوں نے کہا کہ دین تو صرف اچھی رائے کا نام ہے تو کوئی شک نہیں کہ اس میں الدین بدلا ہوا ہے اری سے اس لیے کہ جب راء کے خط میں تھوڑا سا ٹیڑھا پن ہو تو بے دھڑک لکھنے والا اس کو لد بنا دیتا ہے اور یہ پرانے خطوط میں آسانی سے اس طرح ہو جاتا ہے اور ی کا رسم الخط ین کے ساتھ بہت ملتا جلتا ہے جبکہ نقطوں سے خالی ہو جیسا کہ پرانے خطوط میں اکثر اسی طرح پایا جاتا ہے۔

 اور یہ بحث لکھائی میں دونوں کے درمیان انتہائی قرب ظاہر کرنے کے لیے کی گئی ہے تو اس طریقہ کے ساتھ لفظ اری بدل کر الدین ہو گیا۔

 تو جب بدلے ہوئے لفظ کو اصل کی طرف لوٹائیں تو عبارت اس طرح ہو جائے گی۔ ھل اری الا الراي الحسن تو یہ اپنے قول پر ایک دلیل ہو جائے گی کہ اگر مجھے البتی پا لیتے تو وہ میری بہت سی باتوں کو اختیار کر لیتے۔"

اس سے مراد یہ ہے کہ بے شک البتی رای اور اجتہاد کے قائلین میں سے تھے تو کیسے میری باتوں کو قبول نہ کرتے جبکہ میں اچھی رائے ہی رکھتا ہوں۔ تو اس کے ساتھ کلام میں ربط بھی ہو جاتا ہے۔ اور حق بات اپنے ٹھکانے کو پہنچ جاتی ہے۔ 

اور تاریخ میں یہ بات واضح ہے

کہ البتی کے مذہب کا زوال امام زفر اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ مناظروں کی وجہ سے ہوا تھا۔ اور یہ اس وقت ہوا جب یوسف السمتی نے بصرہ کی طرف لوٹنے کے بعد حکمت عملی کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے ان کو مناظروں پر برانگیختہ کیا اور مناظروں میں کمزور رہے۔ 

اور ہم نے الدین کے لفظ کو بدلا ہوا ہونے پر اس ظاہری احتمال ہی کی وجہ سے محمول کیا ہے۔ اور ان قرائن کی وجہ سے جو اس کو ملے ہوئے ہیں جیسا کہ قدیمی رسم الخط کے ماہرین اور اس میں تصحیف کی وجوہ جاننے والوں پر مخفی نہیں ہے۔ اور بہر حال اگر یہ تبدیلی جان بوجھ کر ہو بغیر اس کے کہ لکھنے والے پر تصحیف ہوئی ہو تو یہ بہت بڑی عار ہے ان لوگوں پر جو واقعہ کی لوگوں میں ترویج چاہتے ہیں۔ اس جیسی کھلی رسوائی کی جرات کون کر سکتا ہے۔ بلکہ اس قسم کا ارادہ کرنے والا صرف منافق ہی ہو سکتا ہے جو ان کے درمیان گھس جاتا ہے۔ پس اگر یہ تصحیف کی ہوئی روایت کسی چیز پر دلالت کرتی ہے تو صرف اس پر دلالت کرتی ہے کہ ابو حنیفہ کا مخالف انتہائی گھٹیا آدمی ہے اور ابو حنیفہ تو بہت بڑے عالم اور امت کے دلوں میں بہت بڑا مقام حاصل کیے ہوئے ہیں اور زمانے گزرنے کے باوجود مسلسل امت اس کے علم اور دین اور پرہیز گاری کی وجہ سے اس کی پیروی کرتی ہے اور مخالف یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ تو یہ کلام کرتے تھے کہ اگر رسول اللہ ﷺ اس کو پالیتے تو اس کی آراء میں اس کی اتباع کرتے

یا یہ کہ الدین جو کہ حکمت والی قابل تعریف ذات کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ صرف لوگوں کی آراء کا نام ہے۔ اور وہ اس قول کے باوجود نہ ہلاک ہوا اور نہ ہی امت اس کے ارد گرد سے تتر بتر ہوئی۔ 

یہ ایسی چیز ہے جس کے وقوع کا تصور مخالفین میں سے ان لوگوں کی عقول میں ہی کیا جا سکتا ہے جو سینے کی بیماری (بغض وغیرہ) میں مبتلا ہوں۔ پس پاک ہے وہ ذات جو عقلوں کو تقسیم کرنے والی ہے۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔


[1]. اس روایت کی سند میں

عمر بن محمد بن عمر بن الفياض مجہول ہے ، عبد الله بن خبيق أبو محمد کی توثیق نہیں مل سکی ، ابو صالح الفراء کے بارے میں امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر یہ حکایت بغیر کتاب سے نقل کرے تو حجت نہیں (سوالات آجری 3/258


) اور ابن اسباط کی کتابیں دفن ہو گئی تھیں پھر یہ روایت اس طرح بیان نہ کر سکتے جس طرح کرنی چاہیے (الکامل 8/486)۔ 

(النعمان سوشل میڈیا سروسز)


[2]۔ ابو داود 2736 : وأحمد في مسنده 3/ 420 ، حديث (15508)

مزید دیکھیں الدارقطني في سننه 4/ 106

[3]۔ تفصیل کیلئے دیکھیں

▪︎بذل المجھود 9/429

▪︎الموسوعہ الحدیثیہ لمرویات الامام ابی حنیفہ 12/88

▪︎اعلاء السنن 12/163

▪︎کتاب الآثار ت خالد العواد ص 858


[4]۔ أحكام القرآن للجصاص ناشر دار احیاء التراث العربی 4/240


مزید تفصیل دیکھیں

 ▪︎ شرح مختصر الطحاوي للجصاص 7/122

▪︎ البحر الرائق لابن نجيم ٥/ ٩٥. 

▪︎ فتح القدير لابن الهمام ٥/ ٤٩٦

▪︎ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 7/501


[5]۔ دیکھیں ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں فقہ حنفی سیکشن


[6]۔ ترمذی 906

مزید دیکھیں تحفہ الالمعی 3/307

مقام ابی حنیفہ 221


[7]۔ دیکھیں الاجماع شمارہ نمبر 11


[8]۔ دیکھیں اعتراض نمبر 52 اور 54


[9]۔ دیکھیں اعتراض نمبر 49

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...