*محدثین اہل حدیثوں سے بیزار*
407 أنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ رِزْقٍ ، أنا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ ، نا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْأَبَّارُ ، نا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ : قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ : انْظُرْ مَنْ نُجَالِسُ ، مِنْ كُلِّ طَيْرٍ رِيشَةٌ وَمِنْ كُلِّ ثَوْبٍ خِرْقَةٌ ، سَوَاءٌ عَلَيْكُمْ إِيَّايَ اتَّبَعْتُمْ ، أَمْ هَذِهِ الْعَصَا ، إِنِّي لَأَرْغَبُ عَنْ مُجَالَسَتِكُمْ مُنْذُ أَرْبَعِينَ سَنَةً
( الجامع لأخلاق الراوي و آداب السامع ، ص 217 )
خطیب بغدادی اہلحدیثوں کے بارے میں سفیان بن عیینہ سے نقل کرتے ہیں کہ " تم پر برابر ہے کہ تم میری اتباع کرو یااس لاٹھی کی(یعنی تم لوگ بالکل کند ذہن اور نالائق قسم کے ہو)۔ میں تمہاری مجالس میں 40 سال سے زائد کے عرصہ سے بیزار ہوں۔"
درج بالا روایت میں مجاہد بن موسی ثقہ ، دعلج ، الآبار اور ابن رزق کی ثقاہت ثابت کرنے کیلئے معلمی نے التنکیل میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے ، معلوم ہوا یہ روایت غیر مقلدوں کے ہاں صحیح ہے اور ان کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔
۔۔نیز جامع بیان العلم وفضلہ ص 1028 میں صحیح سند سے سفیان بن عیینہ سے مذکور ہیکہ اگر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں اہل حدیث ہوتے تو وہ عمر ؓ سے مار کھاتے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں