نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ (م۸۸ھ)سے ملاقات :

 

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ (م۸۸ھ)سے ملاقات :

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

                             حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں سے ہیں جن کو خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تعلیم دین کے لئے کوفہ روانہ کیا تھا ۔ آپ کوفہ آکر یہیں سکونت پذیر ہو گئے اور اپنی زندگی کے بقیہ ایام یہیں دین کی نشرواشاعت میں صرف کر دیے۔آپ کا انتقال ۸۷یا ۸۸ہجری میں یا اس کے بعد ہوا ،اور آپ وہ صحابی ہیں جو کوفہ میں مقیم صحابہ میں سب سے آخر میں فوت ہوئے۔(معرفۃ الصحابہ ۳؍۱۰۵،الاستیعاب ۱۳۰۹، اسد الغابہ ۳؍۱۸۱،تجرید اسماء الصحابہ ۱؍۲۹۹،الاصابہ ۴۵۷۳،تاریخ الصحابہ لابن حبان   ۱۵۵)

              شیخ احمد محمد شاکر ؒ(م۱۳۷۷ھ)ارقام فرماتے ہیں ’’ھو عبداللہ بن ابی اوفی ، مات بالکوفۃسنۃ ۸۶،وقیل سنۃ ۸۷،وقیل سنۃ ۸۸‘‘  حضرت عبداللہ بن ابی اوفی بمقام کوفہ ۸۶یا ۸۷یا۸۸ہجری میں فوت ہوئے ۔(شرح الفیۃالسیوطی ص۱۱۳)

              امام اعظم ابوحنیفہؒ بھی چونکہ کوفی ہیں ،اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ  کی وفات کے وقت امام صاحب کی عمر کم از کم سات یا آٹھ سال تھی ،اس لئے آپ کو ان سے بھی ملاقات کرنے کا موقع مل گیا ۔جیساکہ آپ نے فرمایا’’ لقیت عبداللہ بن ابی اوفی ‘‘ میں نے حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی ہے۔(مناقب ابی حنیفۃللمکی ص۳۶)

              الشیخ الامام ناصر السنۃ ابوالمکارم عبد اللہ بن حسین نیشاپوری ۵۵۲ھ)نے اس قول کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔(الرسائل الثلاث الحدیثیہ ص۱۶۹)

              محدثین ومؤرخین کی ایک  بڑی تعداد نے بھی امام اعظم ابوحنیفہ ؒ اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کے درمیان ملاقات کی تصریح کی ہے ۔مثلاً

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲ھ) اپنے ایک فتوی میں تصریح کرتے ہیں  ’’ادرک الامام ابوحنیفۃ جماعۃ من الصحابۃ لانہ  ولد فی الکوفۃ سنۃ ثمانین من الہجرۃ ،وبہایو مئذ من الصحابۃ عبد اللہ بن ابی اوفی فانہ مات سنۃ ثمان وثمانین او بعدہا ‘‘ امام ابو حنیفہ ؒ  نے صحابہ کرام کی ایک جماعت سے ملاقات کی ہے،کیونکہ آپ ۸۰ہجری میں کوفہ میں پیدا ہوئے ،اور وہاں صحابہ میں سے اس وقت حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ موجود تھے ، اس لئے کہ ان کی وفات ۸۸ہجری یا اس کے بعد ہوئی ہے۔(تبییض الصحیفۃ ص۲۵،،عقود الجمان ص۵۰ ،الخیرات الحسان ص۴۸)

              امام شہاب الدین قسطلانیؒ۹۳۲ھ)اپنی شرح بخاری میں ارقام فرماتے ہیں ’’ابن ابی اوفی عبداللہ ،الصحابی ابن الصحابی،وہو آخر من مات من الصحابۃبالکوفۃ سنۃ سبع وثمانین ،وقد کف بصرہ قبل ،وقد رآہ ابو حنیفۃ رضی اللہ عنہ وعمرہ سبع سنین ‘‘ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ صحابی  ہیں ،اور ۸۷ہجری میں کوفہ میں مقیم صحابہ میں سب سے آخر میں فوت ہوئے ،آپ اپنی وفات  سے پہلے بصارت سے محروم ہوگئے تھے ،امام  ابوحنیفہ ؒ نے ان کی زیارت کی تھی ،جب امام صاحب ؒ کی عمر سات سال تھی ۔(ارشاد الباری شرح صحیح بخاری ۱؍۲۵۹)

              محدث جلیل ،مؤرخ کبیر امام بدرالدین عینیؒ ۸۵۵ھ) اپنی’’ شرح بخاری‘‘ میں رقمطراز ہیں ’’عبداللہ بن ابی اوفی واسم ابی اوفی علقمۃ الاسلمی لہ ولابیہ صحبۃ ،وہو آخر من مات بالکوفۃ من الصحابۃ ،اہو من جملۃ من رآہ ابو حنیفۃمن الصحابۃ ‘‘ حضرت  عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ خود بھی صحابی ہیں اور ان کے والد ابو اوفی رضی اللہ عنہ کہ جن کا نام علقمہ اسلمی ہے ،کو بھی شرف صحابیت حاصل ہے۔ اور آپ منجملہ ان صحابہ میں سے ہیں جن کو امام ابو حنیفہ ؒ نے دیکھا تھا ۔ (عمدۃ القاری شرح بخاری ۱۱؍۲۹۳ح۲۰۸۰)

              امام احمد بن عبدالمنہم الدمنہوری ؒ(م۱۱۹۲ھ) امام صاحب ؒ کے مناقب میں لکھتے ہیں : ’’فہو من التابعین علی الصحیح ،لانہ حین ولد بالکوفۃ کا ن من الصحابۃ عبداللہ بن ابی اوفی ‘‘ آپ صحیح قول کے مطابق تابعی ہیں ،کیونکہ جب آپ کوفہ میں پیدا ہوئے ،اس وقت وہاں صحابہ میں سے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ باحیات تھے۔ (جن سے آپ ملاقات کرنے کی وجہ سے شرف تابعیت پر فائز ہوئے)۔(اتحاف المبتدین ص۵۳)

              امام ابو نعیم اصفہانیؒ ۴۳۰ھ)مؤلف ’’حلیۃ الاولیاء‘‘اور شارح مشکوۃ امام ابن حجر مکیؒ ۹۷۳ھ)وغیرہ محدثین نے بھی تصریح کی ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کی زیارت کی تھی۔(مسند الامام ابی حنیفۃ لابی نعیم ص۲۴،الانتصار والترجیح لسبط ابن الجوزی  ص۱۹،مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح للقاری ۱؍۷۸،تنسیق النظام للسنبھلی ص۱۰)

معلوم ہوا کہ امام صاحب نے صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کی زیارت فرمائی ہے۔

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...