تقلید پر غیرمقلدین کے ایک سوال کا جواب:
اکثر غیرمقلدین کو جب تقلید پر قرآن و حدیث سے کوئی دلیل پیش کی جائے تو آگے سے جواب آتا ہے کے آپ چونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد ہیں تو ان سے ثابت کریں کے انہوں نے آپکو تقلید کرنے کا حکم دیا ہو۔۔۔۔۔
اسکا پہلا جواب تو یہ ہے کہ ہم نے کبھی یہ دعوی ہی نہیں کیا کہ ہم امام ابو حنیفہ رحمہ اللّٰہ کی تقلید اس لیے کرتے ہیں کے انہوں نے ہمیں حکم دیا ہے۔ لہذا جس چیز کے ہم مدعی ہی نہیں اس پر دلیل کا مطالبہ کرنا چہ معنی دارد ؟
دوسرا جواب: کیا غیرمقلدین کے لیے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول حجت ہے ؟ اگر ان سے قول پیش کیا جائے تو کیا یہ قبول کر لیں گے ؟ ہرگز نہیں جنکے ہاں صحابہ کا قول حجت نہیں وہ امام صاحب کی کیونکر ماننے لگے تو مطلب ظاہر ہے کے اس مطالبے کا مقصد صرف شرارت کرنا ہے۔
تیسرا جواب حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ کے قلم سے۔
فرماتے ہیں:
مقلد احکام میں تو اپنے امام کا مقلد ہے مگر نفس تقلید میں محقق ہے کیونکہ عامی کے لئے تقلید کا حکم خود نص میں منصوص ہے تو نفس تقلید میں وہ نص پر عمل کر رہا ہے اس لیے محقق ہے۔
(اجتہاد و تقلید کا آخری فیصلہ ص 157)
لہذا جب نفس تقلید منصوص مسئلہ ہے تو اس میں امام صاحب سے دلیل کا مطالبہ کرنا فضول ہے کیونکہ امام صاحب کی تقلید صرف اجتہادی مسائل میں کی جاتی ہے۔
اور چوتھا جواب غیرمقلدین کے گھر سے ۔۔
فتاوی علمائے حدیث جلد نہم کے صفحہ 140 پر غیرمقلد مولوی لکھتے ہیں:
"اماموں نے اپنے قول کی تقلید کی اجازت دی ہے"
اسکے بعد بھی اگر غیرمقلد بضد ہے تو فقہ حنفی کی معتبر ترین کتاب الھدایہ مع شرح الکفایہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا فرمان موجود ہے۔
" عامی شخص (غیرمجتہد) پر مفتی (مجتہد) کی تقلید واجب ہے اگر چہ مفتی سے خطاء ہو جاے اسے ایک اجر ملے گا۔۔
ضرار خان الحنفی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں