امام اعظم ابوحنیفہ ؒ امام ذہبی ؒ کی نظر میں(مناقب ، میزان الاعتدال اور دیوان الضعفاء کی عبارتوں کا جواب)
امام اعظم ابوحنیفہ ؒ امام ذہبی ؒ کی نظر میں
(مناقب
، میزان الاعتدال اور دیوان الضعفاء کی عبارتوں کا جواب)
ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین کیلئے الاجماع (PDF ) دیکھیں
مناقب الامام ابی
حنیفہ و صاحبیہ کی عبارت :
اس بارے میں مخالف نے مناقب الإمام ابی حنیفہ سے یہ نقل
کرکے اعتراض کیا کہ مناقب الامام ابی
حنیفہ و صاحبیہ میں امام ذہبی نے آپ کے ضبط پر جرح کی
ہے ۔ اور مخالف ٹولا اس بات پر اڑا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ سیئ الحفظ تھے اور ضبط و إتقان نہیں رکھتے تھے۔
آئیے ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں :
یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ امام ذہبیؒ (م۷۴۸ھ)نے
یہ مانا ہے کہ آپ کی حدیث کو مطلقا رد نہیں
کیا گیا بلکہ حجت سمجھ کر قبول بھی کیا گیا ہے۔چنانچہ آپ لکھتے ہیں:’’ﻓﺼﻞ ﻓﻲ اﻻﺣﺘﺠﺎﺝ
ﺑﺤﺪﻳﺜﻪ اﺧﺘﻠﻔﻮا ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻋﻠﻰ ﻗﻮﻟﻴﻦ، ﻓﻤﻨﻬﻢ ﻣﻦ ﻗﺒﻠﻪ ﻭﺭﺁﻩ
ﺣﺠﺔ‘‘ یعنی
آپ کی حدیث کے بارے میں اختلاف ہے پس بعض نے اسے قبول کرلیا ہے اور اسے حجت مانا ہے۔
(مناقب الإمام ابی حنیفہ و صاحبیہ: ص ۴۴)
اسکین :
دوسرا قول آپ کی حدیث کو کثرت غلطی کی بناء پر بعض کی
جانب سے رد کیا جانے کا ذکر کیا۔اس
قول کی وجہ جو امام ذہبی ؒ (م۷۴۸ھ)نے لکھی ہے وہ یہ ہے : ’’ ﻗﻠﺖ:
ﻟﻢ ﻳﺼﺮﻑ اﻹﻣﺎﻡ
ﻫﻤﺘﻪ ﻟﻀﺒﻂ اﻷﻟﻔﺎﻅ
ﻭاﻹﺳﻨﺎﺩ،
ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻛﺎﻧﺖ ﻫﻤﺘﻪ اﻟﻘﺮﺁﻥ
ﻭاﻟﻔﻘﻪ‘‘
میں کہتا ہوں کہ امام صاحب کی توجہ ضبط الفاظ حدیث و اسناد کی طرف نہیں تھی بلکہ آپ کی زیادہ توجہ قرآن اور فقہ کی
جانب تھی۔(مناقب ایضا : ص ۴۵) اسی عبارت کی وجہ سے مخالف ٹولا اس بات پر اڑا
ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ سیئ الحفظ تھے اور
ضبط و إتقان نہیں رکھتے تھے۔
لیکن اس قول کے فوراً بعد امام ذہبی ؒنے امام یحیی بن معینؒ (م۲۳۳ھ)
سے آپؒ کا ’’ ثقة و لا بأس بہ
‘‘ہونا ہی نقل کیا ۔(ص ۴۵-۴۶)
اسکین :
لہذا یہاں صاف
واضح ہوتا ہے کہ امام ذہبی ؒ (م۷۴۸ھ)آپ
ؒپر سیئ الحفظ کی کوئی جرح نہیں کرتے بلکہ ’’صرف الفاظ حدیث و اسناد کے ضبط
کرنے کی طرف توجہ نہ کرنے پر ‘‘معلل کررہے ہیں۔
یاد رہے یہ امام ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) کا ’منسوخ قول‘ ہے۔ ’’ناسخ اقوال
‘‘ آرہےہیں۔
ظاہر ہے جس کی توجہ ان کی طرف نہ ہو وہ محدثین میں شمار
نہیں ہوتا جس طرح جس شخص کی توجہ اور ہمت فقہ کی طرف نہ ہو اسے فقہاء میں شمار
نہیں کیا جاسکتا اور جس طرح کسی کی صرف ہمت علم نحو کی طرف نہ ہو اسے نحوی قرار
نہیں دیا جا سکتا ۔ وھلم جرا
دلیل نمبر ۱ :
لیکن اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ خود امام
ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) نے ’’ سیر اعلام النبلاء‘‘
میں فرمایا :
’’قال الشافعي : العلم يدور على ثلاثة : مالك
، والليث ، وابن عيينة . قلت
: بل وعلى سبعة معهم ، وهم : الأوزاعي ، والثوري ، ومعمر ، وأبو حنيفة ، وشعبة ،
والحمادان‘‘
یعنی امام
شافعی ؒنے فرمایا :علم کا مدار تین لوگوں پر ہے ، امام مالک ؒ،امام لیثؒ اور امام
ابن عیینہ ؒ۔امام ذہبی ؒ (م۷۴۸ھ)فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ بلکہ 7 اور
بھی ان کے ساتھ ہیں جن پر علم کا دار و مدار ہے ان میں امام ابوحنیفہ کو بھی ذکر
فرمایاہے۔ (سیر اعلام النبلاء : ج ۸ : ص ۹۴)
اسکین :
ظاہر ہے جس کی صرف ہمت ہی
الفاظ حدیث و اسناد کی طرف نہ ہو اس پر اس علم کا مدار کیسے ہوگا ؟ تو معلوم ہوا کہ امام ذہبی ؒ کے نزدیک امام ابو
حنیفہؒ الفاظ حدیث و اسناد کے ضبط میں بھی ثقہ اور ثبت ہیں۔ اور یہی حافظ ذہبیؒ کا
’’ناسخ
قول ‘‘ قول ہے۔[1]
دلیل نمبر ۲ :
پھر خد امام ذہبی ؒ نے امام صاحب کو ’’طبقات
المحدثین ‘‘ میں
ذکر کیا ۔(المعين في طبقات المحدثين : ص ۵۷،رقم ۵۴۶)
اسکین :
اسی کتاب کے
اخیر میں امام ذہبی نے یہ فرمایا ’’ﻭﺇﻟﻰ
ﻫﻨﺎ اﻧﺘﻬﻰ اﻟﺘﻌﺮﻳﻒ ﺑﺄﺳﻤﺎء ﻛﺒﺎﺭ
اﻟﻤﺤﺪﺛﻴﻦ ﻭاﻟﻤﺴﻨﺪﻳﻦ‘‘ یعنی یہیں تک ’’کبار
محدثین اور مسندین‘‘کے ناموں کا تعارف ختم ہوجاتا ہے۔(المعين: ص ۲۳۸)
اسکین :
معلوم ہوا امام صاحب امام
ذہبی ؒکے مطابق کبار محدثین و مسندین میں سے ہیں۔ اور ظاہر ہے جس کی صرف
ہمت الفاظ و اسناد حدیث کی ضبط کی طرف نہ ہو وہ ’’محدث کبیر و مسند‘‘ کیسے بن سکتا
ہے۔معلوم ہوا کہ مناقب والا قول منسوخ ہے۔
اور یہ
حوالہ غیر مقلدین اہل حدیثوں کے شیخ
الاسلام ابو القاسم بنارسی کے دعوی ٰ ’’کہ ان کو (یعنی امام ابو حنیفہ ؒ کو) کسی
نے طبقات المحدثین میں شمار نہیں کیا ہے۔(دفاع صحیح بخاری : ص ۱۹۰) ‘‘ کو
باطل اور مکذوب قرار دینے کے لئے کافی ہے۔
دلیل نمبر ۳ :
نیز امام ذہبی ؒ نے امام ابوحنیفہ ؒ کو’’
تذکرۃالحفاظ ‘‘ [2] میں بھی شمار کیاہے۔دیکھئے (ج۱ : ص ۱۲۶)
اسکین :
یہاں
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب امام ذہبی ؒ کے امام
صاحب ؒ الفاظ حدیث و اسناد کے ضبط
کرنے کی طرف توجہ نہیں کی، تو ان کو حفاظ ِحدیث میں کیوں شمار کیا ؟ معلوم ہوا کہ حافظ ذہبیؒ نے اپنے مناقب والے
قول سے رجوع کرلیا ہے۔الحمد للہ
نوٹ : اس حوالہ سے ثابت
ہوا کہ امام ابوحنیفہ ؒ امام ذہبی ؒ کے نزدیک ’’حافظ‘‘ ہے۔ جس کا درجہ بقول کفایت اللہ سنابلی صا حب کے حافظ ذہبیؒ کے نزدیک’’ ثقہ سےبھی بڑا ہوہے‘‘۔(انوار البدر : ص ۶۸)
دلیل نمبر ۴ :
بلکہ
امام ذہبی ؒ نے امام ابو حنیفہ ؒ کو ’’ ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل ‘‘
میں شمار کیا ہے۔یعنی امام صاحب ؒ کو ’’
ان لوگوں میں شمار کیا جن کا قول ’جرح و
تعدیل‘ میں معتبر ہے ‘‘۔(ص ۱۷۵)
اسکین :
سبحان اللہ جس نے ’’ الفاظ حدیث و اسناد کے ضبط کرنے
کی طرف توجہ نہ کی ہو‘‘ اسے ان لوگوں
میں شمار کیا جارہا ہےجن کا قول ’جرح و تعدیل‘
میں معتبر ہوتا ہے‘۔
الغرض امام ذہبیؒ ہی کے متعدد اقوال اور منھج
کے مد نظر آپؒ کے مناقب والے قول کا جواب
ہوجاتا ہے اور جس سبب سے امام ابو حنیفہؒ
کی حدیث پر امام ذہبیؒ نے جرح بیان کی تھی تو خود
امام ذہبیؒ ہی کے متعدد اقوال اور مناھج
اس سبب کو ختم کر دیتے ہیں۔ والحمد للہ
علی ذلك
دلیل نمبر ۵ : امام
ذہبیؒ کےنزدیک امام ابو حنیفہ ؒ کا حدیث
میں ثقہ ،ثبت اور الفاظ حدیث و اسناد کے ضبط میں مضبوط ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے
کہ ذہبیؒ نے’ تذہیب تہذیب الکمال ‘،’ تذکرة الحفاظ ‘،’ سیر
اعلام النبلاء ‘،’ تاریخ الإسلام‘،’الکاشف‘
وغیرہ اپنی کتابوںمیں امام صاحب ؒ کے خلاف میں کوئی
حرف تضعیف کا ذکر نہیں کیا۔بلکہ صرف آپ ؒ کی تعریف،ثقاہت،مناقب و فضائل ہی بیان
کئے ہیں۔ (تذہیب
تہذیب الکمال : ج ۹ : ص ۲۱۹-۲۲۵،تذکرة الحفاظ : ج۱ : ص ۱۲۶-۱۲۷،سیر اعلام النبلاء :
ج۸:ص۳۹۰-۴۰۳،تاریخ الإسلام :ج۳: ص ۹۹۰-۹۹۶، الکاشف : رقم ۵۸۴۵)
تذہیب تہذیب الکمال کے الفاظ :
النعمان بن ثابت بن زوطاالامام،ابوحنیفۃالکوفی فقیہ العراق
وامام اہل الرأی ۔قیل انہ من ابناء فارس ،وولاؤہ لبنی تیم اللہ بن ثعلبۃ ،رأی انساً
رضی اللہ عنہ ۔ وروی عن :عطاء بن أبی رباح،ونافع
،وعدی بن ثابت ،وعبدالرحمن بن ہرمز الأعوج ،وعکرمۃ ،ومحارب بن دثار ،وعلقمۃ بن مرثد
،وسلمۃ بن کہیل ،وحماد بن أبی سلیمان ،والحکم بن عتیبۃ ،وأبی جعفر الباقر ،وقتادۃ
،وعمروبن دینار ،وخلق سواھم ،وقیل انہ روی عن الشعبی ،وطاؤس ۔
وعنہ :ابنہ حماد ،وحمزۃ الزیات ،وداؤد الطائی ،وزفر بن
الہذیل ،ونوح بن أبی مریم ،وأبویوسف القاضی ،ومحمد بن الحسن ،وابن المبارک ،وأ بو
یحی الحمانی ،ووکیع ،وحفص بن عبد الرحمن البلخی ،وسعد بن الصلت ،وأبونعیم ،وأبوعبدالرحمن
المقری ،والحسن بن زیاد اللؤلؤی ،وابوعاصم النبیل ،وعبدالرزاق ،وعبیداللہ بن موسی
،وخلق کثیر ۔
قال أحمد العجلی :ہو من رہط حمزۃ الزیات ،وکان خزازاًیبیع
الخز ،وقال محمد بن اسحاق البکائی ،عن عمر بن حماد بن أبی حنیفۃ قال :زوطی من اہل
کابل ،وولد ثابت علی الاسلام ،وکان ابوحنیفۃ خزازاً ودکانہ معروف فی دار عمر بن حریث ،وقیل :اصلہ من
نسا،وقیل من ترمذ ،عن اسمعیل بن حماد بن ابی حنیفۃ قال :أنا اسماعیل بن حماد بن النعمان
(بن ثابت بن النعمان بن المرزبان من أبناء فارس الاحرار،واللّہ ماوقع علینا رق قط ،ولد جدی فی سنۃ ثمانین وذھب
ثابت الی علی رضی اللّہ عنہ وھو صغیر فدعا لہ بالبرکۃ فیہ وفی ذریتہ ،وأبوہ النعمان
)ھو الذی أھدی لعلی یوم النیروزالفالوذج فقال نوروزنا کل یوم ۔
قال صالح بن محمد جزرۃوغیرہ :سمعنا یحی بن معین یقول :أبوحنیفۃ ثقۃ
فی الحدیث ۔وروی أحمد بن محمد بن محرز عن ابن معین :لابأس بہ ،لقد ضربہ ابن ھبیرۃ
علی ان یکون قاضیاً فأبی ۔
قال ابن کأس النخعی :حد ثنا جعفر بن محمد بن خارم حد
ثنا الولید بن حماد ،وعن الحسن بن زیاد ،عن زفر بن الہذیل :سمعت ابا حنیفۃ قال :کنت
انظر فی الکلا م حتی بلغت فیہ ،وکنا نجلس بالقرب
من حلقۃ حماد بن ابی سلیمان ،فجائتنی امرأۃ فقالت :رجل لہ امرأۃ اراد ان یطلقہا للسنۃ
،کم یطلقہا ؟فلم ادر مااقول فأمرتہا ان تسأل حماد اً ثم ترجع فتخبرنی ،فسألتہ فقال
:یطلقہا وھی طاھرۃ من الحیض والجماع تطلیقہ
،ثم یترکہا حتی تحیض حیضتین ،فاذا اغتسلت فقد حلت للازواج ،فرجعت فاخبرتنی فقلت :لاحاجۃ
لی فی الکلام ،واخذت نعلی فجلست الی حماد فکنت اسمع مسائلہ واحفظ قولہ ،ثم یعیدھا من الغد
فأحفظہا ویخطئی أصحابہ ،فقال :لایجلس فی صدر الحلقۃ بحذائی الا ابو حنیفۃ
،فصحبتہ عشر سنین ،ثم نازعتنی نفسی الطلب للرئا سۃ ،فأحببت أن أعتزلہ وأجلس فی
حلقۃ لنفسی ،فخرجت یوماً بالعشی وعزمی أن أفعل
،فلما دخلت المسجد فرأیتہ لم تطب نفسی أن أعتزلہ ،فجئت فجلست معہ ،فجاء ہ فی تلک اللیلۃ نعی لقرابتہ بالبصرۃ وترک مالا ولیس لہ وارث غیرہ
،فأمرنی أن أجلس مکانہ ،فما ھو الا أن
خرج حتی وردت علی مسائل لم اسمعہا منہ ،فکنت أجیب وأکتب جوابی ،فغاب شہرین ثم قدم
فعرضت علیہ المسائل وکانت نحواً من ستین مسئلۃ فخالفنی فی عشرین منہا ،فآلیت أن لا
أفارقہ حتی یموت ۔
وقال محمد بن المزاحم : سمعت ابن المبارک یقول :لولا أن
اللہ اغاثنی بأبی حنیفۃ وسفیان کنت کسائر
الناس ۔وقال سلیمان بن أبی شیخ : حدثنی حجر
بن عبدالجبار قال :قیل للقاسم بن معن المسعودی :ترضی ان تکون من غلمان ابی حنیفۃ ؟قال :ما جلس الناس الی احد أنفع من مجالسۃ ابی
حنیفۃ۔وقال أحمد بن الصباح ؛سمعت الشافعی یقول : قیل لمالک :ھل رأیت اباحنیفۃ ؟قال :نعم رأیت رجلا لو کلمک فی ھذہ الساریۃ
أن یجعلہا ذھباً لقام بحجتہ ۔
وعن روح قال : کنت عند ابن جریج سنۃ خمسین ومائۃ ،فأتاہ
نعی ابی حنیفۃ جاسترجع وتوجع وقال :أی علم ذھب !
وقال ضرار بن صرد : سئل یزید بن ھارون :أیما افقہ أبوحنیفۃ
أو سفیان ؟قال :سفیان احفظ للحدیث وابوحنیفۃ افقہ ۔وعن ابن المبارک (قال مارأیت فی
الفقہ مثل أبی حنیفۃ ،وعنہ قال اذا اجتمع
سفیان وابو حنیفۃفمن یقوم لہما علی الفتیا؟! ۔وقال ابوعروبۃ ؛سمعت سلمۃ بن شبیب ، سمعت
عبدالرزاق ،سمعت ابن المبارک )یقول :ان کان احد ینبغی ان یقول برأیہ فأبوحنیفۃ ۔
روی جندل بن والق ،حد ثنی محمد بن بشر قال : کنت اختلف
الی ابی حنیفۃ والی سفیان فآتی ابا حنیفۃ فیقول لی :من أین جئت ؟ فأقول :من عند
سفیان ،فیقول : لقد جئت من عند رجل لو أن علقمۃ والأسود حضرا لاحتاجا الی مثلہ ۔فآتی
سفیان فیقول :من این جئت ؟فأقول من عند أبی حنیفۃ ۔فیقول لقد جئت من عند افقہ اھل الارض ۔وروی بکر بن یحی بن زبان عن ابیہ
:قال لی ابوحنیفۃ :یا أھل البصرۃ ،انتم اورع منا ونحن افقہ منکم ،وعن شداد بن حکیم قال :مارأیت اعلم من ابی حنیفۃ ۔
وقال ابو الفضل عباس بن عزیر القطان :ثنا حرملۃ ،سمعت
الشافعی یقول : الناس عیال علی ھؤلاء فمن أراد ان یتبحر فی الفقہ فھو عیال علی ابی
حنیفۃ ،ومن اراد ان یتبحر فی المغازی فھو عیال علی ابن اسحق ،ومن اراد أن یتبحر فی
التفسیر فھو عیال علی مقاتل بن سلیمان ،ومن اراد ان یتبحر فی الشعر فھو عیال علی زھیر
بن ابی سلمی ،ومن اراد ان یتبحر فی النحو فھو عیال علی الکسائی ۔
وروی حماد بن قریش عن أسد بن عمرو قال :صلی ابوحنیفۃ فیما حفظ علیہ صلاۃ الفجر بوضوء العشاء اربعین
سنۃ ۔فکان عامۃ اللیل یقرأ جمیع القرآن فی لیلۃ واحدۃ ،وکان یسمع بکائہ باللیل حتی
یرحمہ جیرانہ ،وحفظ علیہ أنہ ختم القرآن فی الموضع الذی توفی فیہ سبعین الف مرۃ ۔
قلت : ھذہ حکایۃ منکرۃ ،وفی رواتہا من لا یعرف رواھا عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی البخاری الفقیہ
،حد ثنا أحمد بن الحسین البلخی ،حد ثنا حماد۔۔۔فذکرھا
۔قال الحارثی أیضاً:فحد ثنا قیس بن ابی قیس ،حدثنا محمد بن حرب المروزی ،حد ثنا اسماعیل
بن حماد بن ابی حنیفۃ ،عن ابیہ قال :لما مات ابی سألنا الحسن بن عمارۃ أن یتولی غسلہ ففعل ،فلما غسلہ قال :رحمک اللہ
وغفر لک ،لم تفطر منذ ثلاثین سنۃ ،ولم تتوسد یمینک باللیل منذ اربعین سنۃ ،وقد أتعبت
من بعدک ،وفضحت القراء ۔
روی بشر بن الولید عن أبی یوسف قال : بینا أنا أمشی
مع أبی حنیفۃ اذ سمعت رجلا یقول لرجل :ھذا أبو حنیفۃ لا ینام اللیل ۔فقال :واللہ
لا یتحدث عنی بما لم أفعل ۔فکان یحی اللیل صلاۃ ودعاء وتضرعاً ،وقال محمد بن علی بن
عفان : حد ثنا علی بن حفص البزار،سمعت حفص بن عبدالرحمن ،سمعت مسعراً یقول :دخلت المسجد لیلۃ فرأیت رجلا یصلی فقرأ سبعاً فقلت :یرکع
۔ثم قرأ الثلث ،ثم النصف ،فلم یزل یقرأ حتی ختم فی الرکعۃ فنظرت فاذا ھو ابو حنیفۃ
۔ وعن خارجۃ بن مصعب قال :ختم القرآن فی رکعۃ اربعۃ :عثمان ،وتمیم الداری ،وسعید بن
جبیر ،وأبوحنیفۃ ۔وعن یحی بن نصر قال :ربما ختم ابوحنیفۃ القرآن فی رمضان ستین ختمۃ۔
قال سلیمان بن الربیع :حد ثنا حبان بن موسی ،سمعت ابن
المبارک یقول : (قدمت الکوفۃ فسألت عن اورع اھلہا فقالو ا: ابوحنیفۃ۔ قال سلیمان :فسمعت مکی بن ابراہیم یقول : جالست الکوفیین فما
رأیت اورع من ابی حنیفۃ ۔وقال حامد بن آدم :سمعت ابن المبارک) [یقول : مارأیت أحدا اورع من ابی حنیفۃ ] قد جرب بالسیاط والاموال ۔ وعن عبید اللہ بن عمرو
الرقی قال : کلم ابن ھبیرۃ أباحنیفۃ أن یلی قضاء الکوفۃ فأبی ،فضربہ مائۃ سوط وعشرۃ اسواط فی کل یوم عشرۃ اسواط ثم خلاہ ۔وقال
سلیمان بن أبی شیخ : حدثنی الربیع بن عاصم قال : أرسلنی یزید بن عمر بن ھبیرۃ فأتیتہ
بأبی حنیفۃ فأرادہ علی بیت المال فأبی ،فضربہ اسواطاً ۔وعن مغیث بن بدیل قال : قال
خارجۃ بن مصعب : أجاز المنصور أباحنیفۃ بعشرۃ آلاف درہم فدعی لیقبضھا فشاورنی وقال
: ھذا رجل ان رددتھا علیہ غضب ۔فقلت :ان ھذا المال عظیم فی عینہ فاذادعیت لتقبضھا فقل
: لم یکن ھذا املی من أمیر المؤمنین ۔فدعی لیقبضھا فقال ذلک فرفع الیہ خبرہ فحبس
الجائزۃ ۔
قال محمد الملک الدقیقی :سمعت یزید بن ھارون یقول : أدرکت
الناس فما رأیت أحد ا أعقل ولا أفضل ولا أورع من أبی حنیفۃ ۔ وقال محمد بن عبداللہ
الانصاری : کان أبوحنیفۃ یتبین عقلہ فی منطقہ
ومشیہ ومدخلہ ومخرجہ ۔وقال سہل بن عثمان : حد ثنا اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفۃ قال
: کان لنا جار طحان رافضی لہ بغلان یسمی أحدھما أبابکر ،والآخر عمر ،فرمحہ ذات لیلۃ
أحدھما فقتلہ ،فقال أبوحنیفۃ : انظروا الذی رمحہ الذی سماہ عمر ،فنظروا فکان کذلک
۔وقال یعقوب بن شیبۃ : أملی علی بعض اصحابنا أبیاتاً لابن المبارک :
رأیت أبا حنیفۃ
کل یوم یزید نبالۃ ویزید خیراً
وینطق بالصواب ویصطفیہ اذا ما قال اھل الجور جوراً
یقاس من تقایسہ بلب فمن
ذا تجعلون لہ نظیراً
کفانا فقد حماد وکانت مصیبتنا بہ أمراًکبیراً
فرد شماتۃ الاعداء عنا وأبدی بعدہ علما کثیراً
رأیت أباحنیفۃ حین یؤتی ویطلب علمہ بحرا غزیراً
اذا ما المشکلات تدافعتھا رجال العلم کان بھا بصیراً
روی نصر بن علی عن الخریبی قال : کان الناس فی أبی حنیفۃ
۔رحمہ اللہ ۔حا سد وجاھل ،وأحسنہم عندی حالا
الجاھل ،وقال یحی بن أیوب : سمعت یزید بن ھارون یقول : أبوحنیفۃ رجل من الناس خطؤہ کخطأ الناس ،وصوابہ کصواب
الناس ۔توفی أبوحنیفۃ ببغداد ۔قال سعید بن عفیر وغیرہ : فی رجب سنۃ خمسین ومائۃ ۔ومن
قال :سنۃ احدی وخمسین أو سنۃ ثلاث فقد وھم ۔وعن الحسن بن یوسف قال: صلی علی أبی حنیفۃ
ست مراۃ من کثرۃ الزحام ،روی لہ الترمذی فی’’ العلل‘‘قولہ : مارأیت أفضل من عطاء
۔ قلت : قد أحسن شیخنا أبوالحجاج حیث لم یورد شیئاًیلزم
منہ التضعیف ۔
تذکرة الحفاظ کے الفاظ :
أبو حنيفة الإمام الأعظم فقيه العراق النعمان بن ثابت بن زوطا التيمي مولاهم الكوفي: مولده سنة ثمانين
رأى أنس بن مالك غير مرة لما قدم عليهم الكوفة رواه ابن سعد عن سيف بن جابر أنه
سمع أبا حنيفة يقوله. وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الأعرج وعدي بن ثابت
وسلمة بن كهيل وأبي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وأبي إسحاق وخلق كثير.
تفقه به زفر بن الهذيل وداود الطائي والقاضي أبو يوسف ومحمد بن الحسن وأسد بن عمرو
والحسن بن زياد اللؤلؤي ونوح الجامع وأبو مطيع البلخي وعدة. وكان قد تفقه بحماد بن
أبي سليمان وغيره وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وأبو عاصم وعبد
الرزاق وعبيد الله بن موسى وأبو نعيم وأبو عبد الرحمن المقري وبشر كثير وكان إماما ورعا عالما عاملا متعبدا كبير الشأن لا يقبل جوائز السلطان بل يتجر ويتكسب. قال ضرار بن صرد: سئل يزيد بن هارون أيما أفقه: الثوري أم أبو
حنيفة؟ فقال: أبو حنيفة أفقه وسفيان أحفظ للحديث. وقال ابن المبارك: أبو حنيفة
أفقه الناس. وقال الشاقعي: الناس في الفقه عيال على أبي حنيفة. وقال يزيد: ما رأيت
أحدًا أورع ولا أعقل من أبي حنيفة. وروى أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز عن يحيى
بن معين قال: لا بأس به لم يكن يتهم ولقد ضربه يزيد بن عمر بن هبيرة على القضاء
فأبى أن يكون قاضيا. قال أبو داود رحمه الله: أن أبا حنيفة كان إماما. وروى بشر بن
الوليد عن أبي يوسف قال: كنت أمشي مع أبي حنيفة فقال رجل لآخر: هذا أبو حنيفة لا
ينام الليل, فقال: والله لا يتحدث الناس عني بما لم أفعل, فكان يحيي الليل صلاة
ودعاء وتضرعا. قلت: مناقب هذا الإمام قد أفردتها في جزء. كان موته في رجب سنة
خمسين ومائة رضي الله عنه. أنبأنا ابن قدامة أخبرنا بن طبرزد أنا أبو غالب بن
البناء أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو بكر القطيعي نا بشر بن موسى أنا أبو عبد
الرحمن المقرئ عن أبي حنيفة عن عطاء عن جابر أنه رآه يصلي في قميص خفيف ليس عليه
إزار ولا رداء قال: ولا أظنه صلى فيه إلا ليرينا أنه لا بأس بالصلاة في الثوب
الواحد.
سیر اعلام النبلاء کے الفاظ :
الإِمَامُ، فَقِيْهُ المِلَّةِ،
عَالِمُ العِرَاقِ، أَبُو حَنِيْفَةَ النُّعْمَانُ بنُ ثَابِتِ بنِ زُوْطَى
التَّيْمِيُّ، الكُوْفِيُّ، مَوْلَى بَنِي تَيْمِ
اللهِ بنِ ثَعْلَبَةَ. يُقَالُ: إِنَّهُ مِنْ أَبْنَاءِ الفُرسِ. وُلدَ: سَنَةَ
ثَمَانِيْنَ، فِي حَيَاةِ صِغَارِ الصَّحَابَةِ.وَرَأَى: أَنَسَ بنَ مَالِكٍ
لَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِمُ الكُوْفَةَ، وَلَمْ يَثبُتْ لَهُ حَرفٌ عَنْ أَحَدٍ
مِنْهُم.
وَرَوَى عَنْ: عَطَاءِ بنِ أَبِي رَبَاحٍ، وَهُوَ أَكْبَرُ شَيْخٍ
لَهُ، وَأَفْضَلُهُم - عَلَى مَا قَالَ -.وَعَنِ: الشَّعْبِيِّ، وَعَنْ: طَاوُوْسٍ
- وَلَمْ يَصِحَّ -.وَعَنْ: جَبَلَةَ بنِ سُحَيْمٍ، وَعَدِيِّ بنِ ثَابِتٍ،
وَعِكْرِمَةَ - وَفِي لُقِيِّهِ لَهُ نَظَرٌ - وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ هُرْمُزَ
الأَعْرَجِ، وَعَمْرِو بنِ دِيْنَارٍ، وَأَبِي سُفْيَانَ طَلْحَةَ بنِ نَافِعٍ،
وَنَافِعٍ مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ، وَقَتَادَةَ، وَقَيْسِ بنِ مُسْلِمٍ، وَعَوْنِ
بنِ عَبْدِ اللهِ بنِ عُتْبَةَ، وَالقَاسِمِ بنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ عَبْدِ
اللهِ بنِ مَسْعُوْدٍ، وَمُحَارِبِ بنِ دِثَارٍ، وَعَبْدِ اللهِ بنِ دِيْنَارٍ،
وَالحَكَمِ بنِ عُتَيْبَةَ، وَعَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ، وَعَلِيِّ بنِ الأَقْمَرِ،
وَعَبْدِ العَزِيْزِ بنِ رُفَيْعٍ، وَعَطِيَّةَ العَوْفِيِّ، وَحَمَّادِ بنِ أَبِي
سُلَيْمَانَ - وَبِهِ تَفَقَّهَ – وَزِيَادِبنِ عِلاَقَةَ، وَسَلَمَةَ بنِ
كُهَيْلٍ، وَعَاصِمِ بنِ كُلَيْبٍ، وَسِمَاكِ بنِ حَرْبٍ، وَعَاصِمِ بنِ
بَهْدَلَةَ، وَسَعِيْدِ بنِ مَسْرُوْقٍ، وَعَبْدِ المَلِكِ بنِ عُمَيْرٍ، وَأَبِي
جَعْفَرٍ البَاقِرِ، وَابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ، وَمُحَمَّدِ بنِ المُنْكَدِرِ،
وَأَبِي إِسْحَاقَ السَّبِيْعِيِّ، وَمَنْصُوْرِ بنِ المُعْتَمِرِ، وَمُسْلِمٍ
البَطِيْنِ، وَيَزِيْدَ بنِ صُهَيْبٍ الفَقِيْرِ، وَأَبِي الزُّبَيْرِ، وَأَبِي
حَصِيْنٍ الأَسَدِيِّ، وَعَطَاءِ بنِ السَّائِبِ، وَنَاصِحٍ المُحَلِّمِيِّ،
وَهِشَامِ بنِ عُرْوَةَ، وَخَلْقٍ سِوَاهُم.حَتَّى إِنَّهُ رَوَى عَنْ: شَيْبَانَ
النَّحْوِيِّ - وَهُوَ أَصْغَرُ مِنْهُ - وَعَنْ: مَالِكِ بنِ أَنَسٍ - وَهُوَ
كَذَلِكَ -. وَعُنِيَ بِطَلَبِ الآثَارِ، وَارْتَحَلَ فِي ذَلِكَ، وَأَمَّا
الفِقْهُ وَالتَّدْقِيْقُ فِي الرَّأْيِ وَغوَامِضِهِ، فَإِلَيْهِ المُنْتَهَى،
وَالنَّاسُ عَلَيْهِ عِيَالٌ فِي ذَلِكَ.
حَدَّثَ عَنْهُ: خَلْقٌ كَثِيْرٌ، ذَكَرَ مِنْهُم شَيْخُنَا أَبُو
الحَجَّاجِ فِي (تَهْذِيْبِهِ) هَؤُلاَءِ عَلَى المُعْجَمِ:إِبْرَاهِيْمُ بنُ
طَهْمَانَ - عَالِمُ خُرَاسَانَ - وَأَبْيَضُ بنُ الأَغَرِّ بنِ الصَّبَّاحِ
المِنْقَرِيُّ، وَأَسْبَاطُ بنُ مُحَمَّدٍ، وَإِسْحَاقُ الأَزْرَقُ، وَأَسَدُ بنُ
عَمْرٍو البَجَلِيُّ، وَإِسْمَاعِيْلُ بنُ يَحْيَى الصَّيْرَفِيُّ، وَأَيُّوْبُ
بنُ هَانِئ.وَالجَارُوْدُ بنُ يَزِيْدَ النَّيْسَابُوْرِيُّ، وَجَعْفَرُ بنُ
عَوْنٍ.وَالحَارِثُ بنُ نَبْهَانَ، وَحَيَّانُ بنُ عَلِيٍّ العَنَزِيُّ،
وَالحَسَنُ بنُ زِيَادٍ اللُّؤْلُؤِيُّ، وَالحَسَنُ بنُ فُرَاتٍ القَزَّازُ،
وَالحُسَيْنُ بنُ الحَسَنِ بنِ عَطِيَّةَ العَوْفِيُّ، وَحَفْصُ بنُ عَبْدِ
الرَّحْمَنِ القَاضِي، وَحَكَّامُ بنُ سَلْمٍ، وَأَبُو مُطِيْعٍ الحَكَمُ بنُ
عَبْدِ اللهِ، وَابْنُهُ؛ حَمَّادُ بنُ أَبِي حَنِيْفَةَ، وَحَمْزَةُ الزَّيَّاتُ
- وَهُوَ مِنْ أَقْرَانِهِ -.وَخَارِجَةُ بنُ مُصْعَبٍ، وَدَاوُدُ الطَّائِيُّ.وَزُفَرُ
بنُ الهُذَيْلِ التَّمِيْمِيُّ الفَقِيْهُ، وَزَيْدُ بنُ الحُبَابِ.وَسَابِقٌ
الرَّقِّيُّ، وَسَعْدُ بنُ الصَّلْتِ القَاضِي، وَسَعِيْدُ بنُ أَبِي الجَهْمِ
القَابُوْسِيُّ، وَسَعِيْدُ بنُ سَلاَّمٍ العَطَّارُ، وَسَلْمُ بنُ سَالِمٍ
البَلْخِيُّ، وَسُلَيْمَانُ بنُ عَمْرٍو النَّخَعِيُّ، وَسَهْلُ بنُ مُزَاحِمٍ.وَشُعَيْبُ
بنُ إِسْحَاقَ، وَالصَّبَّاحُ بنُ مُحَارِبٍ، وَالصَّلْتُ بنُ الحَجَّاجِ.وَأَبُو
عَاصِمٍ النَّبِيْلُ، وَعَامِرُ بنُ الفُرَاتِ، وَعَائِذُ بنُ حَبِيْبٍ،
وَعَبَّادُ بنُ العَوَّامِ، وَعَبْدُ اللهِ بنُ المُبَارَكِ، وَعَبْدُ اللهِ بنُ
يَزِيْدَ المُقْرِئُ، وَأَبُو يَحْيَى عَبْدُ الحَمِيْدِ الحِمَّانِيُّ، وَعَبْدُ
الرَّزَّاقِ، وَعَبْدُ العَزِيْزِ بنُ خَالِدٍ - تِرْمِذِيٌّ - وَعَبْدُ
الكَرِيْمِ بنُ مُحَمَّدٍ الجُرْجَانِيُّ، وَعَبْدُ المَجِيْدِ بنُ أَبِي
رَوَّادٍ، وَعَبْدُ الوَارِثِ التَّنُّوْرِيُّ، وَعُبَيْدُ اللهِ بنُ الزُّبَيْرِ
القُرَشِيُّ، وَعُبَيْدُ اللهِ بنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ، وَعُبَيْدُ اللهِ بنُ
مُوْسَى، وَعَتَّابُ بنُ مُحَمَّدٍ، وَعَلِيُّ بنُ ظَبْيَانَ القَاضِي، وَعَلِيُّ
بنُ عَاصِمٍ، وَعَلِيُّ بنُ مُسْهِرٍ القَاضِي، وَعَمْرُو بنُ مُحَمَّدٍ
العَنْقَزِيُّ، وَأَبُو قُطْنٍ عَمْرُو بنُ الهَيْثَمِ، وَعِيْسَى بنُ يُوْنُسَ،
وَأَبُو نُعَيْمٍ.وَالفَضْلُ بنُ مُوْسَى، وَالقَاسِمُ بنُ الحَكَمِ العُرَنِيُّ،
وَالقَاسِمُ بنُ مَعْنٍ، وَقَيْسُ بنُ الرَّبِيْعِ.وَمُحَمَّدُ بنُ أَبَانٍ
العَنْبَرِيُّ - كُوْفِيٌّ - وَمُحَمَّدُ بنُ بِشْرٍ، وَمُحَمَّدُ بنُ الحَسَنِ
بنِ أَتَشَ، وَمُحَمَّدُ بنُ الحَسَنِ الشَّيْبَانِيُّ، وَمُحَمَّدُ بنُ خَالِدٍ
الوَهْبِيُّ، وَمُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ اللهِ الأَنْصَارِيُّ، وَمُحَمَّدُ بنُ
الفَضْلِ بنِ عَطِيَّةَ، وَمُحَمَّدُ بنُ القَاسِمِ الأَسَدِيُّ، وَمُحَمَّدُ بنُ
مَسْرُوْقٍ الكُوْفِيُّ، وَمُحَمَّدُ بنُ يَزِيْدَ الوَاسِطِيُّ، وَمَرْوَانُ بنُ
سَالِمٍ، وَمُصْعَبُ بنُ المِقْدَامِ، وَالمُعَافَى بنُ عِمْرَانَ، وَمَكِّيُّ بنُ
إِبْرَاهِيْمَ.وَنَصْرُ بنُ عَبْدِ الكَرِيْمِ البَلْخِيُّ الصَّيْقَلُ، وَنَصْرُ
بنُ عَبْدِ المَلِكِ العَتَكِيُّ، وَأَبُو غَالِبٍ النَّضْرُ بنُ عَبْدِ اللهِ
الأَزْدِيُّ، وَالنَّضْرُ بنُ مُحَمَّدٍ المَرْوَزِيُّ، وَالنُّعْمَانُ بنُ عَبْدِ
السَّلاَمِ الأَصْبَهَانِيُّ، وَنُوْحُ بنُ دَرَّاجٍ القَاضِي، وَنُوْحُ بنُ أَبِي
مَرْيَمَ الجَامِعُ، وَهُشَيْمٌ، وَهَوْذَةُ، وَهَيَّاجُ بنُ بِسْطَامَ،
وَوَكِيْعٌ، وَيَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ المِصْرِيُّ، وَيَحْيَى بنُ نَصْرِ بنِ
حَاجِبٍ، وَيَحْيَى بنُ يَمَانٍ، وَيَزِيْدُ بنُ زُرَيْعٍ، وَيَزِيْدُ بنُ
هَارُوْنَ، وَيُوْنُسُ بنُ بُكَيْرٍ، وَأَبُو إِسْحَاقَ الفَزَارِيُّ، وَأَبُو
حَمْزَةَ السُّكَّرِيُّ، وَأَبُو سَعْدٍ الصَّاغَانِيُّ، وَأَبُو شِهَابٍ
الحَنَّاطُ، وَأَبُو مُقَاتِلٍ السَّمَرْقَنْدِيُّ، وَالقَاضِي أَبُو يُوْسُفَ.
قَالَ أَحْمَدُ العِجْلِيُّ: أَبُو
حَنِيْفَةَ: تَيْمِيٌّ، مِنْ رَهطِ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ، كَانَ خَزَّازاً
يَبِيْعُ الخَزَّ. وَقَالَ عُمَرُ بنُ حَمَّادِ بنِ أَبِي حَنِيْفَةَ: أَمَّا
زُوْطَى: فَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ كَابُلَ، وَوُلِدَ ثَابِتٌ عَلَى الإِسْلاَمِ.وَكَانَ
زُوْطَى مَمْلُوْكاً لِبَنِي تَيْمِ اللهِ بنِ ثَعْلَبَةَ، فَأُعتِقَ، فَوَلاَؤُهُ
لَهُم، ثُمَّ لِبَنِي قَفْلٍ.قَالَ: وَكَانَ أَبُوحَنِيْفَةَ خَزَّازاً،
وَدُكَّانُه مَعْرُوْفٌ فِي دَارِ عَمْرِو بنِ حُرَيْثٍ.وَقَالَ النَّضْرُ بنُ
مُحَمَّدٍ المَرْوَزِيُّ: عَنْ يَحْيَى بنِ النَّضْرِ، قَالَ: كَانَ وَالِدُ أَبِي
حَنِيْفَةَ مِنْ نَسَا.وَرَوَى: سُلَيْمَانُ بنُ الرَّبِيْعِ، عَنِ الحَارِثِ بنِ
إِدْرِيْسَ، قَالَ: أَبُو حَنِيْفَةَ أَصلُهُ مِنْ تِرْمِذَ.وَقَالَ أَبُو عَبْدِ
الرَّحْمَنِ المُقْرِي: أَبُو حَنِيْفَةَ مِنْ أَهْلِ بَابِلَ. وَرَوَى: أَبُو
جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بنُ إِسْحَاقَ بنِ البُهْلُوْلِ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَدِّهِ،
قَالَ: ثَابِتٌ وَالِدُ أَبِي حَنِيْفَةَ مِنْ أَهْلِ الأَنْبَارِ.
مُكْرَمُ
بنُ أَحْمَدَ القَاضِي: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ شَاذَانَ
المَرْوَزِيُّ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَدِّهِ، سَمِعْتُ إِسْمَاعِيْلَ يَقُوْلُ: أَنْبَأَنَا
إِسْمَاعِيْلُ بنُ حَمَّادِ بنِ أَبِي حَنِيْفَةَ النُّعْمَانِ بنِ ثَابِتِ بنِ
المَرْزُبَانِ مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسٍ الأَحرَارِ، وَاللهِ مَا وَقَعَ عَلَيْنَا
رِقٌّ قَطُّ.وُلدَ جَدِّي فِي سَنَةِ ثَمَانِيْنَ، وَذَهَبَ ثَابِتٌ إِلَى عَلِيٍّ
وَهُوَ صَغِيْرٌ، فَدَعَا لَهُ بِالبَرَكَةِ فِيْهِ وَفِي ذُرِّيَتِه، وَنَحْنُ
نَرْجُو مِنَ اللهِ أَنْ يَكُوْنَ اسْتَجَابَ ذَلِكَ لِعَلِيٍّ -رَضِيَ اللهُ
عَنْهُ- فِيْنَا.
قَالَ: وَالنُّعْمَانُ بنُ المَرْزُبَانِ وَالِدُ ثَابِتٍ هُوَ
الَّذِي أَهْدَى لِعَلِيٍّ الفَالُوْذَجَ فِي يَوْمِ النَّيْرُوْزِ.فَقَالَ عَلِيٌّ:
نَوْرِزُوْنَا كُلَّ يَوْمٍ.وَقِيْلَ: كَانَ ذَلِكَ فِي المَهرجَانِ، فَقَالَ:
مَهْرِجُوْنَا كُلَّ يَوْمٍ.
قَالَ مُحَمَّدُ بنُ سَعْدٍ العَوْفِيُّ: سَمِعْتُ يَحْيَى بنَ
مَعِيْنٍ يَقُوْلُ:كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ ثِقَةً، لاَ
يُحَدِّثُ بِالحَدِيْثِ إِلاَّ بِمَا يَحْفَظُه، وَلاَ يُحَدِّثُ بِمَا لاَ
يَحْفَظُ.وَقَالَ صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ: سَمِعْتُ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ
يَقُوْلُ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ ثِقَةً فِي الحَدِيْثِ. وَرَوَى: أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ القَاسِمِ بن مُحْرِزٍ، عَنِ
ابْنِ مَعِيْنٍ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ لاَ بَأْسَ
بِهِ. وَقَالَ مَرَّةً: هُوَ عِنْدَنَا مِنْ
أَهْلِ الصِّدْقِ، وَلَمْ يُتَّهَمْ بِالكَذِبِ،
وَلَقَدْ ضَرَبَه ابْنُ هُبَيْرَةَ عَلَى القَضَاءِ، فَأَبَى أَنْ يَكُوْنَ
قَاضِياً.
أَخْبَرَنَا ابْنُ عَلاَّنَ كِتَابَةً، أَنْبَأَنَا الكِنْدِيُّ،
أَنْبَأَنَا القَزَّازُ، أَنْبَأَنَا الخَطِيْبُ، أَنْبَأَنَا الخَلاَّلُ،
أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بنُ عَمْرٍو الحَرِيْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بنُ مُحَمَّدِ
بنِ كَاسٍ النَّخَعِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ مَحْمُوْدٍ الصَّيْدَنَانِيُّ،
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ شُجَاعِ بنِ الثَّلْجِيِّ، حَدَّثَنَا الحَسَنُ بنُ
أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِي يُوْسُفَ، قَالَ:قَالَ أَبُو حَنِيْفَةَ: لَمَّا
أَرَدْتُ طَلَبَ العِلْمِ، جَعَلتُ أَتَخَيَّرُ العُلُوْمَ، وَأَسْأَلُ عَنْ
عَوَاقِبِهَا. فَقِيْلَ: تَعَلَّمِ القُرْآنَ.فَقُلْتُ: إِذَا حَفِظتُه فَمَا
يَكُوْنَ آخِرُهُ؟ قَالُوا: تَجْلِسُ فِي المَسْجِدِ، فَيَقرَأُ عَلَيْكَ
الصِّبْيَانُ وَالأَحدَاثُ، ثُمَّ لاَ يَلْبَثُ أَنْ يَخْرُجَ فِيْهِم مَنْ هُوَ
أَحْفَظُ مِنْكَ، أَوْ مُسَاوِيكَ، فَتَذهَبُ رِئَاسَتُكَ. قُلْتُ: مَنْ طَلَبَ
العِلْمَ لِلرِّئَاسَةِ قَدْ يُفِكِّرُ فِي هَذَا، وَإِلاَّ فَقَدْ ثَبَتَ قَوْلُ
المُصْطَفَى - صَلَوَاتُ اللهُ عَلَيْهِ -: (أَفْضَلُكُم مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ
وَعَلَّمَهُ) . يَا سُبْحَانَ اللهِ! وَهَلْ مَحَلٌّ أَفْضَلُ مِنَ المَسْجِدِ؟
وَهَلْ نَشْرٌ لِعِلمٍ يُقَارِبُ تَعْلِيْمَ القُرْآنِ؟ كَلاَّ وَاللهِ، وَهَلْ
طَلَبَةٌ خَيْرٌ مِنَ الصِّبْيَانِ الَّذِيْنَ لَمْ يَعْمَلُوا الذُّنُوبَ؟!وَأَحسِبُ
هَذِهِ الحِكَايَةَ مَوْضُوْعَةً، فَفِي إِسْنَادِهَا مَنْ لَيْسَ بِثِقَةٍ.
تَتِمَّةُ الحِكَايَةِ: قَالَ: قُلْتُ:
فَإِنَّ سَمِعْتُ الحَدِيْثَ وَكَتَبتُه حَتَّى لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا
أَحْفَظُ مِنِّي؟ قَالُوا: إِذَا كَبِرتَ وَضَعُفْتَ، حَدَّثتَ، وَاجْتَمَعَ
عَلَيْكَ هَؤُلاَءِ الأَحْدَاثُ وَالصِّبْيَانُ، ثُمَّ لَمْ تَأمَنْ أَنْ تَغلَطَ،
فَيَرمُوكَ بِالكَذِبِ، فَيَصِيْرُ عَاراً عَلَيْكَ فِي عَقِبِكَ.فَقُلْتُ: لاَ
حَاجَةَ لِي فِي هَذَا.
قُلْتُ: الآنَ كَمَا جَزَمتُ بِأَنَّهَا
حِكَايَةٌ مُختَلَقَةٌ، فَإِنَّ الإِمَامَ أَبَا حَنِيْفَةَ طَلَبَ الحَدِيْثَ،
وَأَكْثَرَ مِنْهُ فِي سَنَةِ مائَةٍ وَبَعدَهَا، وَلَمْ يَكُنْ إِذْ ذَاكَ
يَسْمَعُ الحَدِيْثَ الصِّبْيَانُ، هَذَا اصْطِلاَحٌ وُجِدَ بَعْدَ ثَلاَثِ مائَةِ
سَنَةٍ، بَلْ كَانَ يَطْلُبُه كِبَارُ العُلَمَاءِ، بَلْ لَمْ يَكُنْ
لِلْفُقَهَاءِ عِلْمٌ بَعْدَ القُرْآنِ سِوَاهُ، وَلاَ كَانَتْ قَدْ دُوِّنَتْ
كُتُبُ الفِقْهِ أَصلاً.ثُمَّ قَالَ: قُلْتُ: أَتَعَلَّمُ النَّحْوَ.فَقُلْتُ:
إِذَا حَفِظتُ النَّحْوَ وَالعَرَبِيَّةَ، مَا يَكُوْنَ آخِرُ أَمْرِي؟قَالُوا:
تَقعُدُ مُعَلِّماً، فَأَكْثَرُ رِزْقِكَ دِيْنَارَانِ إِلَى ثَلاَثَةٍ.قُلْتُ:
وَهَذَا لاَ عَاقِبَةَ لَهُ.قُلْتُ: فَإِنْ نَظَرتُ فِي الشِّعرِ، فَلَمْ يَكُنْ
أَحَدٌ أَشعَرُ مِنِّي؟قَالُوا: تَمدَحُ هَذَا فَيَهَبُ لَكَ، أَوْ يَخلَعُ عَلَيْكَ،
وَإِنْ حَرَمَكَ هَجَوتَه.قُلْتُ: لاَ حَاجَةَ فِيْهِ.قُلْتُ: فَإِنْ نَظَرتُ فِي
الكَلاَمِ، مَا يَكُوْنُ آخِرُ أَمرِهِ؟ قَالُوا: لاَ يَسْلَمُ مَنْ نَظَرَ فِي
الكَلاَمِ مِنْ مُشَنَّعَاتِ الكَلاَمِ، فَيُرمَى بِالزَّنْدَقَةِ، فَيُقتَلُ،
أَوْ يَسلَمُ مَذْمُوْماً. قُلْتُ: قَاتَلَ اللهُ مَنْ وَضَعَ هَذِهِ الخُرَافَةَ،
وَهَلْ كَانَ فِي ذَلِكَ الوَقْتِ وُجِدَ عِلْمُ الكَلاَمِ؟!! قَالَ: قُلْتُ:
فَإِنَّ تَعَلَّمتُ الفِقْهَ؟قَالُوا: تُسْأَلُ، وَتُفتِي النَّاسَ، وَتُطلَبُ
لِلْقَضَاءِ، وَإِنْ كُنْتَ شَابّاً.
قُلْتُ: لَيْسَ فِي العُلُوْمِ شَيْءٌ أَنفَعُ مِنْ هَذَا، فَلَزِمتُ
الفِقْهَ، وَتَعَلَّمْتُهُ.
وَبِهِ: إِلَى ابْنِ كَاسٍ، حَدَّثَنِي
جَعْفَرُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ خَازِمٍ، حَدَّثَنَا الوَلِيْدُ بنُ حَمَّادٍ، عَنِ
الحَسَنِ بنِ زِيَادٍ، عَنْ زُفَرَ بنِ الهُذَيْلِ، سَمِعْتُ أَبَا حَنِيْفَةَ يَقُوْلُ:كُنْتُ
أَنظُرُ فِي الكَلاَمِ حَتَّى بَلَغتُ فِيْهِ مَبْلَغاً يُشَارُ إِلَيَّ فِيْهِ
بِالأَصَابِعِ، وَكُنَّا نَجلِسُ بِالقُرْبِ مِنْ حَلْقَةِ حَمَّادِ بنِ أَبِي
سُلَيْمَانَ، فَجَاءتْنِي امْرَأَةٌ يَوْماً، فَقَالَتْ لِي: رَجُلٌ لَهُ
امْرَأَةٌ أَمَةٌ، أَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا لِلسُّنَّةِ، كَمْ يُطَلَّقُهَا؟ فَلَمْ
أَدرِ مَا أَقُوْلُ، فَأَمَرتُهَا أَنْ تَسْأَلَ حَمَّاداً، ثُمَّ تَرْجِعَ
تُخْبِرَنِي.
فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: يُطَلِّقُهَا
وَهِيَ طَاهِرٌ مِنَ الحَيْضِ وَالجِمَاعِ تَطْلِيقَةً، ثُمَّ يَترُكُهَا حَتَّى
تَحِيضَ حَيْضَتَيْنِ، فَإِذَا اغْتَسَلتْ، فَقَدْ حَلَّتْ لِلأَزْوَاجِ.
فَرَجَعَتْ، فَأَخْبَرَتْنِي.فَقُلْتُ:
لاَ حَاجَةَ لِي فِي الكَلاَمِ، وَأَخَذتُ نَعْلِي، فَجَلَستُ إِلَى حَمَّادٍ،
فَكُنْتُ أَسْمَعُ مَسَائِلَه، فَأَحْفَظُ قَوْلَه، ثُمَّ يُعِيْدُهَا مِنَ
الغَدِ، فَأَحْفَظُهَا، وَيُخْطِئُ أَصْحَابُه.فَقَالَ: لاَ يَجْلِسْ فِي صَدْرِ
الحَلْقَةِ بِحِذَائِي غَيْرُ أَبِي حَنِيْفَةَ.
فَصَحِبتُه عَشْرَ سِنِيْنَ،
ثُمَّ نَازَعَتنِي نَفْسِي الطَّلَبَ لِلرِّئَاسَةِ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَعتَزِلَه
وَأَجلِسَ فِي حَلْقَةٍ لِنَفْسِي، فَخَرَجتُ يَوْماً بِالعَشِيِّ وَعَزمِي أَنْ
أَفْعَلَ، فَلَمَّا رَأَيْتُه، لَمْ تَطِبْ نَفْسِي أَنْ أَعتَزِلَه. فَجَاءهُ
تِلْكَ اللَّيلَةَ نَعْيُ قَرَابَةٍ لَهُ قَدْ مَاتَ بِالبَصْرَةِ، وَتَرَكَ
مَالاً، وَلَيْسَ لَهُ وَارِثٌ غَيْرُهُ، فَأَمَرَنِي أَنْ أَجلِسَ مَكَانَه.فَمَا
هُوَ إِلاَّ أَنْ خَرَجَ حَتَّى وَرَدَتْ عَلَيَّ مَسَائِلُ لَمْ أَسْمَعْهَا
مِنْهُ، فَكُنْتُ أُجِيْبُ وَأَكتُبُ جَوَابِي، فَغَابَ شَهْرَيْنِ، ثُمَّ قَدِمَ.
فَعَرَضتُ عَلَيْهِ المَسَائِلَ، وَكَانَتْ نَحْواً مِنْ سِتِّيْنَ مَسْأَلَةً،
فَوَافَقَنِي فِي أَرْبَعِيْنَ، وَخَالَفَنِي فِي عِشْرِيْنَ، فَآلَيْتُ عَلَى
نَفْسِي أَلاَّ أُفَارِقَه حَتَّى يَمُوْتَ.وَهَذِهِ أَيْضاً اللهُ أَعْلَمُ
بِصِحَّتِهَا، وَمَا عَلِمْنَا أَنَّ الكَلاَمَ فِي ذَلِكَ الوَقْتِ كَانَ لَهُ
وَجُوْدٌ - وَاللهُ أَعْلَمُ -.
قَالَ أَحْمَدُ بنُ عَبْدِ اللهِ العِجْلِيُّ:
حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ:قَالَ أَبُو حَنِيْفَةَ: قَدِمْتُ البَصْرَةَ، فَظَنَنْتُ
أَنِّي لاَ أُسْأَلُ عَنْ شَيْءٍ إِلاَّ أَجَبتُ فِيْهِ، فَسَأَلُونِي عَنْ
أَشْيَاءَ لَمْ يَكُنْ عِنْدِي فِيْهَا جَوَابٌ، فَجَعَلتُ عَلَى نَفْسِي أَلاَّ
أُفَارِقَ حَمَّاداً حَتَّى يَمُوْتَ، فَصَحِبتُه ثَمَانِيَ عَشْرَةَ سَنَةً.
شُعَيْبُ بنُ أَيُّوْبَ
الصَّرِيْفِيْنِيُّ: حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الحِمَّانِيُّ، سَمِعْتُ أَبَا
حَنِيْفَةَ يَقُوْلُ: رَأَيْتُ رُؤْيَا أَفزَعَتْنِي، رَأَيْتُ كَأَنِّي أَنبُشُ
قَبْرَ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَأَتَيْتُ البَصْرَةَ،
فَأَمَرتُ رَجُلاً يَسْأَلُ مُحَمَّدَ بنَ سِيْرِيْنَ. فَسَأَلَه، فَقَالَ: هَذَا
رَجُلٌ يَنبُشُ أَخْبَارَ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-.المُحَدِّثُ
مَحْمُوْدُ بنُ مُحَمَّدٍ المَرْوَزِيُّ: حَدَّثَنَا حَامِدُ بنُ آدَمَ،
حَدَّثَنَا أَبُو وَهْبٍ مُحَمَّدُ بنُ مُزَاحِمٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بنَ
المُبَارَكِ يَقُوْلُ:لَوْلاَ أَنَّ اللهَ أَعَانَنِي بِأَبِي حَنِيْفَةَ
وَسُفْيَانَ، كُنْتُ كَسَائِرِ النَّاسِ.أَحْمَدُ بنُ زُهَيْرٍ: حَدَّثَنَا
سُلَيْمَانُ بنُ أَبِي شَيْخٍ، حَدَّثَنِي حُجْرُ بنُ عَبْدِ الجَبَّارِ، قَالَ:قِيْلَ
لِلْقَاسِمِ بنِ مَعْنٍ: تَرضَى أَنْ تَكُوْنَ مِنْ غِلمَانِ أَبِي حَنِيْفَةَ؟
قَالَ: مَا جَلَسَ النَّاسُ إِلَى أَحَدٍ
أَنْفَعَ مِنْ مُجَالَسَةِ أَبِي حَنِيْفَةَ.
وَقَالَ لَهُ القَاسِمُ: تَعَالَ مَعِي إِلَيْهِ.فَلَمَّا
جَاءَ إِلَيْهِ، لَزِمَه، وَقَالَ: مَا رَأَيْتُ مِثْلَ هَذَا.
مُحَمَّدُ بنُ أَيُّوْبَ بنِ
الضَّرِيْسِ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بنُ الصَّبَّاحِ، سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ قَالَ:قِيْلَ
لِمَالِكٍ: هَلْ رَأَيْتَ أَبَا حَنِيْفَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ،
رَأَيْتُ رَجُلاً لَوْ كُلَّمَكَ فِي هَذِهِ السَّارِيَةِ أَنْ يَجْعَلَهَا
ذَهَباً، لَقَامَ بِحُجَّتِه.
وَعَنْ أَسَدِ بنِ عَمْرٍو: أَنَّ أَبَا
حَنِيْفَةَ -رَحِمَهُ اللهُ- صَلَّى العِشَاءَ وَالصُّبْحَ بِوُضُوْءِ
أَرْبَعِيْنَ سَنَةً.
وَرَوَى: بِشْرُ بنُ الوَلِيْدِ، عَنِ القَاضِي
أَبِي يُوْسُفَ، قَالَ:بَيْنَمَا أَنَا أَمشِي مَعَ أَبِي حَنِيْفَةَ، إِذْ
سَمِعْتُ رَجُلاً يَقُوْلُ لآخَرَ: هَذَا أَبُو حَنِيْفَةَ لاَ يَنَامُ اللَّيلَ.فَقَالَ
أَبُو حَنِيْفَةَ: وَاللهِ لاَ يُتَحَدَّثُ عَنِّي بِمَا لَمْ أَفْعَلْ، فَكَانَ
يُحْيِي اللَّيْلَ صَلاَةً، وَتَضَرُّعاً، وَدُعَاءً.
وَقَدْ رُوِيَ مِنْ وَجْهَيْنِ: أَنَّ
أَبَا حَنِيْفَةَ قَرَأَ القُرْآنَ كُلَّهُ فِي رَكْعَةٍ.
قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مُحَمَّدِ
بنِ المُغِيْرَةِ: رَأَيْتُ أَبَا حَنِيْفَةَ شَيْخاً يُفْتِي النَّاسَ بِمَسْجِدِ
الكُوْفَةِ، عَلَى رَأْسِهِ قَلَنْسُوَةٌ سَوْدَاءُ طَوِيْلَةٌ.
وَعَنِ النَّضْرِ بنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ:كَانَ
أَبُو حَنِيْفَةَ جَمِيْلَ الوَجْهِ، سَرِيَّ الثَّوْبِ، عَطِرَ الرِّيحِ،
أَتَيْتُهُ فِي حَاجَةٍ، وَعَلَيَّ كِسَاءٌ قرمسِيٌّ، فَأَمَرَ بِإِسرَاجِ بَغلِه،
وَقَالَ: أَعْطِنِي كِسَاءكَ، وَخُذْ كِسَائِي.فَفَعَلتُ، فَلَمَّا رَجَعَ، قَالَ:
يَا نَضْرُ! خَجلْتَنِي بِكِسَائِكَ، هُوَ غَلِيْظٌ. قَالَ: وَكُنْتُ أَخَذْتُهُ
بِخَمْسَةِ دَنَانِيْرَ، ثُمَّ إِنِّي رَأَيْتُه وَعَلَيْهِ كِسَاءٌ قَوَّمْتُهُ
ثَلاَثِيْنَ دِيْنَاراً.
وَعَنْ أَبِي يُوْسُفَ، قَالَ: كَانَ
أَبُو حَنِيْفَةَ رَبْعَةً، مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ صُوْرَةً، وَأَبلَغِهِم
نُطْقاً، وَأَعذَبِهِم نَغمَةً، وَأَبْيَنِهِم عَمَّا فِي نَفْسِهِ.
وَعَنْ حَمَّادِ بنِ أَبِي حَنِيْفَةَ،
قَالَ:كَانَ أَبِي جَمِيْلاً، تَعلُوْهُ سُمْرَةٌ، حَسَنَ الهَيْئَةِ، كَثِيْرَ
التَّعَطُّرِ، هَيُوْباً، لاَ يَتَكَلَّمُ إِلاَّ جَوَاباً، وَلاَ يَخُوضُ
-رَحِمَهُ اللهُ- فِيْمَا لاَ يَعْنِيْهِ.
وَعَنِ ابْنِ المُبَارَكِ، قَالَ: مَا
رَأَيْتُ رَجُلاً أَوقَرَ فِي مَجْلِسِهِ، وَلاَ أَحْسَنَ سَمتاً وَحِلماً مِنْ
أَبِي حَنِيْفَةَ.
إِبْرَاهِيْمُ بنُ سَعِيْدٍ
الجَوْهَرِيُّ: عَنِ المُثَنَّى بنِ رَجَاءٍ، قَالَ:جَعَلَ أَبُو حَنِيْفَةَ عَلَى
نَفْسِهِ إِنْ حَلَفَ بِاللهِ صَادِقاً أَنْ يَتَصَدَّقَ بِدِيْنَارٍ، وَكَانَ
إِذَا أَنفَقَ عَلَى عِيَالِهِ نَفَقَةً، تَصَدَّقَ بِمِثْلِهَا.
وَرَوَى: جُبَارَةُ بنُ المُغَلِّسِ،
عَنْ قَيْسِ بنِ الرَّبِيْعِ، قَالَ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ وَرِعاً، تَقِيّاً،
مُفْضِلاً عَلَى إِخْوَانِه.
قَالَ الخُرَيْبِيُّ: كُنَّا عِنْدَ
أَبِي حَنِيْفَةَ، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنِّي وَضَعتُ كِتَاباً عَلَى خَطِّكَ إِلَى
فُلاَنٍ، فَوَهَبَ لِي أَرْبَعَةَ آلاَفِ دِرْهَمٍ. فَقَالَ أَبُو حَنِيْفَةَ:
إِنْ كُنْتُم تَنْتَفِعُوْنَ بِهَذَا، فَافْعَلُوْهُ.
وَعَنْ شَرِيْكٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو
حَنِيْفَةَ طَوِيْلَ الصَّمْتِ، كَثِيْرَ العَقْلِ.
وَقَالَ أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيْلُ:
كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ يُسَمَّى الوَتِدَ؛ لِكَثْرَةِ صَلاَتِه.
وَرَوَى: ابْنُ إِسْحَاقَ
السَّمَرْقَنْدِيُّ، عَنِ القَاضِي أَبِي يُوْسُفَ، قَالَ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ
يَخْتِمُ القُرْآنَ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَكْعَةٍ.
يَحْيَى بنُ عَبْدِ الحَمِيْدِ
الحِمَّانِيُّ: عَنْ أَبِيْهِ: أَنَّهُ صَحِبَ أَبَا حَنِيْفَةَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ.
قَالَ: فَمَا رَأَيْتُه صَلَّى الغَدَاةَ إِلاَّ بِوُضُوْءِ عِشَاءِ الآخِرَةِ،
وَكَانَ يَخْتِمُ كُلَّ لَيْلَةٍ عِنْدَ السَّحَرِ.
وَعَنْ زَيْدِ بنِ كُمَيْتٍ، سَمِعَ
رَجُلاً يَقُوْلُ لأَبِي حَنِيْفَةَ: اتَّقِ اللهَ. فَانْتَفَضَ، وَاصفَرَّ،
وَأَطرَقَ، وَقَالَ: جَزَاكَ اللهَ خَيْراً، مَا أَحوَجَ النَّاسَ كُلَّ وَقْتٍ
إِلَى مَنْ يَقُوْلُ لَهُم مِثْلَ هَذَا.وَيُرْوَى: أَنَّ أَبَا حَنِيْفَةَ خَتَمَ
القُرْآنَ سَبْعَةَ آلاَفِ مَرَّةٍ.
قَالَ مِسْعَرُ بنُ كِدَامٍ: رَأَيْتُ
أَبَا حَنِيْفَةَ قَرَأَ القُرْآنَ فِي رَكْعَةٍ.
ابْنُ سَمَاعَةَ: عَنْ مُحَمَّدِ بنِ
الحَسَنِ، عَنِ القَاسِمِ بنِ مَعْنٍ: أَنَّ أَبَا حَنِيْفَةَ قَامَ لَيْلَةً
يُرَدِّدُ قَوْلَه تَعَالَى: {بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ، وَالسَّاعَةُ أَدْهَى
وَأَمَرُّ} ، وَيَبْكِي، وَيَتَضَرَّعُ
إِلَى الفَجْرِ.
وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ: أَنَّ
الإِمَامَ أَبَا حَنِيْفَةَ ضُرِبَ غَيْرَ مَرَّةٍ عَلَى أَنْ يَلِيَ القَضَاءَ،
فَلَمْ يُجِبْ.
قَالَ يَزِيْدُ بنُ هَارُوْنَ: مَا
رَأَيْتُ أَحَداً أَحلَمَ مِنْ أَبِي حَنِيْفَةَ.
وَعَنِ الحَسَنِ بنِ زِيَادٍ
اللُّؤْلُؤِيِّ، قَالَ: قَالَ أَبُو حَنِيْفَةَ: إِذَا ارْتَشَى القَاضِي، فَهُوَ
مَعْزُوْلٌ، وَإِنْ لَمْ يُعْزَلْ.
وَرَوَى: نُوْحٌ الجَامِعُ، عَنْ أَبِي
حَنِيْفَةَ، أَنَّهُ قَالَ:مَا جَاءَ عَنِ الرَّسُوْلِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ- فَعَلَى الرَّأْسِ وَالعَيْنِ، وَمَا جَاءَ عَنِ الصَّحَابَةِ،
اخْتَرْنَا، وَمَا كَانَ مِنْ غَيْرِ ذَلِكَ، فَهُم رِجَالٌ وَنَحْنُ رِجَالٌ.
قَالَ وَكِيْعٌ: سَمِعْتُ أَبَا
حَنِيْفَةَ يَقُوْلُ: البَوْلُ فِي المَسْجِدِ أَحْسَنُ مِنْ بَعْضِ القِيَاسِ.
وَقَالَ أَبُو يُوْسُفَ: قَالَ أَبُو
حَنِيْفَةَ:لاَ يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُحَدِّثَ إِلاَّ بِمَا يَحْفَظُه مِنْ وَقْتِ
مَا سَمِعَهُ.
وَعَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ الضَّرِيْرِ،
قَالَ: حُبُّ أَبِي حَنِيْفَةَ مِنَ السُّنَّةِ.
قَالَ إِسْحَاقُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ
الزُّهْرِيُّ: عَنْ بِشْرِ بنِ الوَلِيْدِ، قَالَ:
طَلَبَ المَنْصُوْرُ أَبَا حَنِيْفَةَ،
فَأَرَادَه عَلَى القَضَاءِ، وَحَلَفَ لَيَلِيَنَّ، فَأَبَى، وَحَلَفَ: إِنِّي لاَ
أَفْعَلُ.
فَقَالَ الرَّبِيْعُ الحَاجِبُ: تَرَى
أَمِيْرَ المُؤْمِنِيْنَ يَحلِفُ وَأَنْتَ تَحلِفُ؟
قَالَ: أَمِيْرُ المُؤْمِنِيْنَ عَلَى
كَفَّارَةِ يَمِيْنِه أَقْدَرُ مِنِّي.فَأَمَرَ بِهِ إِلَى السِّجْنِ، فَمَاتَ
فِيْهِ بِبَغْدَادَ.
وَقِيْلَ:
دَفَعَهُ أَبُو جَعْفَرٍ إِلَى صَاحِبِ شُرطَتِه حُمَيْدٍ الطُّوْسِيِّ، فَقَالَ:
يَا شَيْخُ! إِنَّ أَمِيْرَ المُؤْمِنِيْنَ يَدفَعُ إِلَيَّ الرَّجُلَ، فَيَقُوْلُ
لِي: اقْتُلْه، أَوِ اقْطَعْه، أَوِ اضْرِبْه، وَلاَ أَعْلَمُ بِقِصَّتِه، فَمَاذَا
أَفْعَلُ؟ فَقَالَ: هَلْ يَأمُرُكُ أَمِيْرُ المُؤْمِنِيْنَ بِأَمرٍ قَدْ وَجَبَ،
أَوْ بِأَمرٍ لَمْ يَجِبْ؟قَالَ: بَلْ بِمَا قَدْ وَجَبَ. قَالَ: فَبَادِرْ إِلَى
الوَاجِبِ.وَعَنْ مُغِيْثِ بنِ بُدَيْلٍ، قَالَ: دَعَا المَنْصُوْرُ أَبَا
حَنِيْفَةَ إِلَى القَضَاءِ، فَامْتَنَعَ، فَقَالَ: أَتَرغَبُ عَمَّا نَحْنُ
فِيْهِ؟ فَقَالَ: لاَ أَصْلُحُ. قَالَ: كَذَبتَ. قَالَ: فَقَدْ حَكَمَ أَمِيْرُ
المُؤْمِنِيْنَ عَلَيَّ أَنِّي لاَ أَصْلُحُ، فَإِنْ كُنْتُ كَاذِباً، فَلاَ
أَصلُحُ، وَإِنْ كُنْتُ صَادِقاً، فَقَدْ أَخْبَرتُكُم أَنِّي لاَ
أَصلُحُ.فَحَبَسَهُ. وَرَوَى نَحْوَهَا: إِسْمَاعِيْلُ بنُ أَبِي أُوَيْسٍ، عَنِ
الرَّبِيْعِ الحَاجِبِ، وَفِيْهَا: قَالَ أَبُو حَنِيْفَةَ: وَاللهِ مَا أَنَا
بِمَأْمُوْنِ الرِّضَى، فَكَيْفَ أَكُوْنُ مَأْمُوْنَ الغَضَبِ، فَلاَ أَصلُحُ
لِذَلِكَ.قَالَ المَنْصُوْرُ: كَذَبتَ، بَلْ تَصلُحُ.فَقَالَ: كَيْفَ يَحِلُّ أَنْ
تُوَلِّيَ مَنْ يَكْذِبُ؟وَقِيْلَ: إِنَّ أَبَا حَنِيْفَةَ وَلِيَ لَهُ، فَقَضَى
قَضِيَّةً وَاحِدَةً، وَبَقِيَ يَوْمَيْنِ، ثُمَّ اشْتَكَى سِتَّةَ أَيَّامٍ،
وَتُوُفِّيَ.وَقَالَ الفَقِيْهُ أَبُو عَبْدِ اللهِ الصَّيْمَرِيُّ: لَمْ يَقْبَلِ
العَهْدَ بِالقَضَاءِ، فَضُرِبَ، وَحُبِسَ، وَمَاتَ فِي السِّجْنِ.
وَرَوَى: حَيَّانُ بنُ مُوْسَى
المَرْوَزِيُّ، قَالَ:سُئِلَ ابْنُ المُبَارَكِ: مَالِكٌ أَفْقَهُ، أَوْ أَبُو
حَنِيْفَةَ؟قَالَ: أَبُو حَنِيْفَةَ.
وَقَالَ الخُرَيْبِيُّ: مَا يَقَعُ فِي
أَبِي حَنِيْفَةَ إِلاَّ حَاسِدٌ ، أَوْ جَاهِلٌ.
وَقَالَ
يَحْيَى بنُ سَعِيْدٍ القَطَّانُ: لاَ نَكذِبُ اللهَ، مَا سَمِعنَا أَحْسَنَ مِنْ
رَأْيِ أَبِي حَنِيْفَةَ، وَقَدْ أَخَذنَا بِأَكْثَرِ أَقْوَالِه.
وَقَالَ
عَلِيُّ بنُ عَاصِمٍ: لَوْ وُزِنَ عِلْمُ الإِمَامِ أَبِي حَنِيْفَةَ بِعِلْمِ
أَهْلِ زَمَانِهِ، لَرَجَحَ عَلَيْهِم.
وَقَالَ حَفْصُ بنُ غِيَاثٍ: كَلاَمُ
أَبِي حَنِيْفَةَ فِي الفِقْهِ، أَدَقُّ مِنَ الشَّعْرِ، لاَ يَعِيبُه إِلاَّ
جَاهِلٌ.
وَرُوِيَ عَنِ الأَعْمَشُ: أَنَّهُ سُئِلَ
عَنْ مَسْأَلَةٍ، فَقَالَ:إِنَّمَا يُحسِنُ هَذَا النُّعْمَانُ بنُ ثَابِتٍ
الخَزَّازُ، وَأَظُنُّه بُورِكَ لَهُ فِي عِلْمِهِ.
وَقَالَ جَرِيْرٌ: قَالَ لِي مُغِيْرَةُ:
جَالِسْ أَبَا حَنِيْفَةَ، تَفْقَهْ، فَإِنَّ إِبْرَاهِيْمَ النَّخَعِيَّ لَوْ
كَانَ حَيّاً، لَجَالَسَه.
وَقَالَ ابْنُ المُبَارَكِ: أَبُو
حَنِيْفَةَ أَفْقَهُ النَّاسِ.
وَقَالَ الشَّافِعِيُّ: النَّاسُ فِي
الفِقْهِ عِيَالٌ عَلَى أَبِي حَنِيْفَةَ.
قُلْتُ: الإِمَامَةُ
فِي الفِقْهِ وَدَقَائِقِه مُسَلَّمَةٌ إِلَى هَذَا الإِمَامِ، وَهَذَا أَمرٌ لاَ
شَكَّ فِيْهِ.
وَلَيْسَ يَصِحُّ فِي الأَذْهَانِ شَيْءٌ
... إِذَا احْتَاجَ النَّهَارُ إِلَى دَلِيْلِ
وَسِيْرَتُه تَحْتَمِلُ أَنْ تُفرَدَ فِي
مُجَلَّدَيْنِ - رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَرَحِمَهُ -.
تُوُفِّيَ:
شَهِيْداً، مَسْقِيّاً، فِي سَنَةِ خَمْسِيْنَ وَمائَةٍ، وَلَهُ سَبْعُوْنَ
سَنَةً، وَعَلَيْهِ قُبَّةٌ عَظِيْمَةٌ، وَمَشْهَدٌ فَاخِرٌ بِبَغْدَادَ - وَاللهُ
أَعْلَمُ -.وَابْنُهُ الفَقِيْهُ حَمَّادُ بنُ أَبِي حَنِيْفَةَ، كَانَ ذَا
عِلْمٍ، وَدِيْنٍ، وَصَلاَحٍ، وَوَرَعٍ تَامٍّ.
لَمَّا تُوُفِّيَ وَالِدُه، كَانَ عِنْدَه وَدَائِعُ كَثِيْرَةٌ،
وَأَهْلُهَا غَائِبُوْنَ، فَنَقَلَهَا حَمَّادٌ إِلَى الحَاكِمِ لِيَتَسَلَّمَهَا،
فَقَالَ: بَلْ دَعْهَا عِنْدَك، فَإِنَّكَ أَهْلٌ. فَقَالَ: زِنْهَا، وَاقْبِضْهَا
حَتَّى تَبرَأَ مِنْهَا ذِمَّةُ الوَالِدِ، ثُمَّ افعَلْ مَا تَرَى. فَفَعَلَ
القَاضِي ذَلِكَ، وَبَقِيَ فِي وَزْنِهَا وَحِسَابِهَا أَيَّاماً، وَاسْتَتَرَ
حَمَّادٌ، فَمَا ظَهَرَ حَتَّى أَوْدَعَهَا القَاضِي عِنْدَ أَمِيْنٍ.تُوُفِّيَ
حَمَّادٌ: سَنَةَ سِتٍّ وَسَبْعِيْنَ وَمائَةٍ، كَهْلاً. لَهُ رِوَايَةٌ عَنْ:
أَبِيْهِ، وَغَيْرِه.حَدَّثَ عَنْهُ: وَلَدُهُ؛ الإِمَامُ إِسْمَاعِيْلُ بنُ
حَمَّادٍ، قَاضِي البَصْرَةِ.
تاریخ الإسلام کے الفاظ :
مَوْلَى بَنِي تَيْمِ اللَّهِ بْنِ
ثَعْلَبَةَ وُلِدَ سَنَةَ ثَمَانِينَ، وَرَأَى أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ غَيْرَ مَرَّةٍ
بِالْكُوفَةِ إِذْ قَدِمَهَا أَنَسٌ. قَالَهُ ابْنُ سَعْدٍ فقال: حدثنا سَيْفُ
بْنُ جَابِرٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُهُ.وَرَوَى أَبُو حَنِيفَةَ
عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ وَقَالَ: مَا رَأَيْتُ أَفْضَلَ مِنْهُ. وَعَنْ
عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، وَنَافِعٍ، وَسَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، وَأَبِي جَعْفَرٍ
الْبَاقِرِ، وَعَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، وَقَتَادَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ
هُرْمُزٍ الأَعْرَجِ، وَعَمْرِو بْنِ دينار، ومنصور، وأبي الزبير، وحماد بن أبي
سُلَيْمَانَ، وَعَدَدٍ كَثِيرٍ.
وَتَفَقَّهَ بِحَمَّادٍ، وَغَيْرِهِ،
فَبَرَعَ فِي الرَّأْيِ، وَسَادَ أَهْلَ زَمَانِهِ فِي التَّفَقُّهِ وَتَفْرِيعِ
الْمَسَائِلِ، وَتَصَدَّرَ لِلإِشْغَالِ وَتَخَرَّجَ بِهِ الأَصْحَابُ. فَمِنْ
تَلامِذَتِهِ: زُفَرُ بْنُ الْهُذَيْلِ الْعَنْبَرِيُّ، والقاضي أَبُو يوسف يعقوب
بْن إِبْرَاهِيم الأنصاري قاضي القضاة، ونوح بْن أَبِي مريم الْمَرْوَزِيُّ، وأبو
مطيع الحكم بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَلْخِيُّ، وَالْحَسَنُ بْنُ زِيَادٍ
اللُّؤْلُؤِيُّ، وَأَسَدُ بْنُ عَمْرٍو، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، وَحَمَّادُ
بْنُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَخَلْقٌ.
وَرَوَى عَنْهُ مُغِيرَةُ بْنُ مِقْسَمٍ،
وَمِسْعَرٌ، وَسُفْيَانُ، وَزَائِدَةُ، وَشَرِيكٌ، وَالْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ،
وَعَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ، وَحَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ،
وَوَكِيعٌ، وَإِسْحَاقُ الأَزْرَقُ، وَسَعْدُ بْنُ الصَّلْتِ، وَأَبُو عَاصِمٍ،
وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، وَالأَنْصَارِيُّ، وَأَبُو
نُعَيْمٍ، وَهَوْذَةُ بْنُ خَلِيفَةَ، وَجَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، وَأَبُو عَبْدِ
الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، وَخَلْقٌ كَثِيرٌ.
وَكَانَ خَزَّازًا يُنْفِقُ مِنْ كَسْبِهِ
وَلا يَقْبَلُ جَوَائِزَ السُّلْطَانِ تَوَرُّعًا، وَلَهُ دَارٌ وَصُنَّاعٌ
وَمَعَاشٌ مُتَّسِعٌ، وَكَانَ معدوداً في الأجواد الأسخياء والألباء
الأَذْكِيَاءِ، مَعَ الدِّينِ وَالْعِبَادَةِ وَالتَّهَجُّدِ وَكَثْرَةِ
التِّلاوَةِ وَقِيَامِ اللَّيْلِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
قَالَ ضِرَارُ بن صرد: سئل يزيد بن
هارون: أيما أفقه: أبو حنيفة أو الثَّوْرِيُّ؟ فَقَالَ: أَبُو حَنِيفَةَ أَفْقَهُ،
وَسُفْيَانُ أَحْفَظُ لِلْحَدِيثِ.
وَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: أَبُو
حَنِيفَةَ أَفْقَهُ النَّاسِ.
وَقَالَ الشَّافِعِيُّ: النَّاسُ فِي
الْفِقْهِ عِيَالٌ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ.
وَقَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ: مَا
رَأَيْتُ أَحَدًا أَوْرَعَ وَلا أَعْقَلَ مِنْ أَبِي حَنِيفَةَ.
وَقَالَ صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدٍ
جَزَرَةُ، وَغَيْرُهُ: سَمِعْنَا ابْنَ مَعِينٍ يَقُولُ: أَبُو حَنِيفَةَ ثِقَةٌ.
وَرَوَى أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ
الْقَاسِمِ بْنِ مُحْرِزٍ عَنِ ابْنِ مَعِينٍ قَالَ: لا بَأْسَ بِهِ، لَمْ
يُتَّهَمْ بِالْكَذِبِ، لَقَدْ ضَرَبَهُ يَزِيدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ هُبَيْرَةَ
عَلَى الْقَضَاءِ فَأَبَى أَنْ يَكُونَ قَاضِيًا.
وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ: رَحِمَ اللَّهُ
مَالِكًا، كَانَ إِمَامًا، رَحِمَ اللَّهُ الشَّافِعِيَّ، كَانَ إِمَامًا، رَحِمَ
اللَّهُ أَبَا حَنِيفَةَ، كَانَ إِمَامًا، سَمِعَ هَذَا ابْنُ دَاسَةٍ مِنْهُ.
وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ: قَالَ أَبُو
حَنِيفَةَ: عِلْمُنَا هَذَا رَأْيٌ، وَهُوَ أَحْسَنُ مَا قَدِرْنَا عَلَيْهِ
فَمَنْ جَاءَنَا بِأَحْسَنِ مِنْهُ قَبِلْنَاهُ.
وَعَنْ أَسَدِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ أَبَا
حَنِيفَةَ صَلَّى الْعِشَاءَ وَالصُّبْحَ بِوُضُوءِ أَرْبَعِينَ سَنَةً.
وَرَوَى بِشْرُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ
أَبِي يُوسُفَ قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي مَعَ أَبِي حَنِيفَةَ إِذْ سَمِعْتُ
رَجُلا يَقُولُ لِآخَرَ: هَذَا أَبُو حَنِيفَةَ لا يَنَامُ اللَّيْلَ، فَقَالَ
أَبُو حَنِيفَةَ: وَاللَّهِ لا يَتَحَدَّثُ عَنِّي بِمَا لَمْ أَفْعَلْ فَكَانَ
يُحْيِي اللَّيْلَ صَلاةً وَدُعَاءً وَتَضَرُّعًا.
وَقَدْ رُوِيَ مِنْ وَجْهَيْنِ أَنَّهُ
خَتَمَ الْقُرْآنَ فِي رَكْعَةٍ.
وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ
مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ: رَأَيْتُ أَبَا حَنِيفَةَ شَيْخًا يُفْتِي النَّاسَ
بِمَسْجِدِ الكوفة عليه قلنسوة سوداء طويلة.
وعن النَّضْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ:
كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ جَمِيلَ الْوَجْهِ، سَرِيُّ الثَّوْبِ، عَطِرًا، أَتَيْتُهُ
فِي حاجة وعلي كساء قرمسي، فأمر بإسراج بغلة وَقَالَ: أَعْطِنِي كِسَاءَكَ وَخُذْ
كِسَائِي، فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ لِي: يَا نَضْرُ، أَخْجَلْتَنِي
بِكِسَائِكَ، قُلْتُ: وَمَا أَنْكَرْتَ مِنْهُ؟ قَالَ: هُوَ غَلِيظٌ. قَالَ
النَّضْرُ: وَكُنْتُ اشْتَرَيْتُهُ بِخَمْسَةِ دَنَانِيرَ وَأَنَا بِهِ مُعْجَبٌ،
ثُمَّ رَأَيْتُهُ مَرَّةً وَعَلَيْهِ كِسَاءٌ قومته ثلاثين دِينَارًا.
وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ قَالَ: كَانَ أَبُو
حَنِيفَةَ رَبْعَةً، مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ صُورَةً، وَأَبْلَغَهُمْ نُطْقًا،
وَأَعْذَبَهُمْ نَغَمَةً، وَأَبْيَنَهُمْ عَمَّا فِي نَفْسِهِ.
وَعَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حَنِيفَةَ
قَالَ: كَانَ أَبِي جَمِيلا تَعْلُوهُ سُمْرَةً، حَسَنَ الْهَيْئَةِ، كَثِيرَ
الْعِطْرِ، هَيُوبًا، لا يَتَكَلَّمُ إِلا جَوَابًا، وَلا يَخُوضُ فِيمَا لا
يَعْنِيهِ.
وَعَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ: مَا
رَأَيْتُ رَجُلا أَوْقَرَ فِي مَجْلِسِهِ وَلا أَحْسَنَ سَمْتًا وَحِلْمًا مِنْ
أَبِي حَنِيفَةَ.
وَرَوَى إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ
الْجَوْهَرِيُّ عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ رَجَاءٍ قَالَ: جَعَلَ أَبُو حَنِيفَةَ
عَلَى نَفْسِهِ إِنْ حَلَفَ بِاللَّهِ صَادِقًا أَنْ يَتَصَدَّقَ بِدِينَارٍ،
وَكَانَ إِذَا أَنْفَقَ عَلَى عِيَالِهِ نَفَقَةً تصدق بمثلها.
وَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ:
لَقِيَ أَبُو حَنِيفَةَ مِنَ النَّاسِ عَنَتًا لِقَلَّةِ مُخَالَطَتِهِ، فَكَانُوا
يَرَوْنَهُ مِنْ زَهْوٍ فِيهِ وَإِنَّمَا كَانَ غَرِيزَةً.
وَقَالَ جَبَّارَةُ بْنُ مُغَلِّسٍ:
سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ الرَّبِيعِ يَقُولُ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ وَرِعًا تَقِيًّا
مُفَضَّلا عَلَى إِخْوَانِهِ.
وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ: حدثنا
الْخُرَيْبِيُّ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ فَقَالَ رَجُلٌ لَهُ: إِنِّي
وَضَعْتُ كِتَابًا عَلَى خَطِّكَ إِلَى فُلانٍ فَوَهَبَ لِي أَرْبَعَةَ آلافِ
دِرْهَمٍ. فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: إِنْ كُنْتُمْ تَنْتَفِعُونَ بِهَذَا فَافْعَلُوهُ.
وَعَنْ شَرِيكٍ قَالَ: كَانَ أَبُو
حَنِيفَةَ طَوِيلَ الصَّمْتِ كَثِيرَ الْعَقْلِ.
قَالَ يَعْقُوبُ بْنُ شيبة: حدثني بكر،
قال: أخبرنا أبو عاصم النبيل قال: كان حَنِيفَةَ يُسَمَّى الْوَتَدُ لِكَثْرَةِ
صَلاتِهِ. وَرَوَاهَا يُوسُفُ الْقَطَّانُ عَنْ أَبِي عَاصِمٍ.
وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ
السَّمَرْقَنْدِيُّ عَنْ أَبِي يُوسُفَ قَالَ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَخْتِمُ
الْقُرْآنَ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَكْعَةٍ.
وَرَوَى يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ
الْحِمَّانِيُّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ صَحِبَ أَبَا حَنِيفَةَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ
فَمَا رَآهُ صَلَّى الْغَدَاةَ إِلا بِوُضُوءِ عِشَاءِ الآخِرَةِ، وَكَانَ
يَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ ليلة عند السَّحَرِ.
وَعَنْ يَزِيدَ بْنِ كُمَيْتٍ قَالَ:
سَمِعْتُ رَجُلا يَقُولُ لِأَبِي حَنِيفَةَ: اتَّقِ اللَّهَ، فَانْتَفَضَ وَاصْفَرَّ
وَأَطْرَقَ وَقَالَ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا مَا أَحْوَجُ النَّاسِ كُلَّ وَقْتٍ
إِلَى مَنْ يَقُولُ لَهُمْ مِثْلَ هَذَا.
وَيُرْوَى أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ خَتَمَ
الْقُرْآنَ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ سَبْعَةَ آلافِ مَرَّةٍ.
قَالَ مِسْعَرٌ: رَأَيْتُ أَبَا
حَنِيفَةَ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي رَكْعَةٍ.
وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ سَمَّاعَةٍ، عَنْ
مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مَعْنٍ، أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ
قَامَ لَيْلَةً يُرَدِّدُ قَوْلَهُ - تَعَالَى - {بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ
وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ} وَيَبْكِي وَيَتَضَرَّعُ إِلَى الْفَجْرِ.
وَيُرْوَى أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ ضُرِبَ
غَيْرَ مَرَّةٍ عَلَى أَنْ يَلِيَ الْقَضَاءَ فَلَمْ يَفْعَلْ.
وَقِيلَ: إِنَّ إِنْسَانًا اسْتَطَالَ
عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَقَالَ لَهُ: يَا زِنْدِيقُ،
فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: غَفَرَ اللَّهُ لَكَ هُوَ يَعْلَمُ مِنِّي خِلافَ مَا
تَقُولُ.
قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ: مَا
رَأَيْتُ أَحَدًا أَحْلَمَ مِنْ أَبِي حَنِيفَةَ.
وَعَنِ الْحَسَنِ بْنِ زِيَادٍ قَالَ:
قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: إِذَا ارْتَشَى القاضي فَهُوَ مَعْزُولٌ وَإِنْ لَمْ
يُعْزَلْ.
وَرَوَى نُوحٌ الْجَامِعُ أَنَّهُ سَمِعَ
أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ: مَا جَاءَ عَنِ الرَّسُولِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ - فَعَلَى الرَّأْسِ وَالْعَيْنِ، وَمَا جَاءَ عَنِ الصَّحَابَةِ
اخْتَرْنَا، وَمَا كَانَ مِنْ غَيْرِ ذَلِكَ فَهُمْ رِجَالٌ وَنَحْنُ رِجَالٌ.
وَقَال وَكِيعٌ: سَمِعْتُ أَبَا
حَنِيفَةَ يَقُولُ: الْبَوْلُ فِي الْمَسْجِدِ أَحْسَنُ مِنْ بَعْضِ الْقِيَاسِ.
قَالَ أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَزْمٍ:
جَمِيعُ الْحَنَفِيَّةِ مُجْمِعُونَ عَلَى أَنَّ مَذْهَبِ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّ
ضَعِيفَ الْحَدِيثِ أَوْلَى عِنْدَهُ مِنَ الْقِيَاسِ وَالرَّأْيِ.
قَالَ أبو نعيم: كان أبو حنيفة يَجْهَرُ
فِي أَمْرِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَسَنٍ جَهْرًا شَدِيدًا
فَقُلْتُ: وَاللَّهِ مَا أَنْتَ بِمُنْتَهٍ حَتَّى تُوضَعَ فِي أَعْنَاقِنَا
الْحِبَالُ.
وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: لا يَنْبَغِي
لِلرَّجُلِ أَنْ يُحَدِّثُ إِلا بِمَا يَحْفَظُهُ مِنْ وَقْتِ مَا سَمِعَهُ.
وَرَوَاهَا أَبُو يُوسُفَ عَنْهُ.
وَعَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ قَالَ: حُبُّ
أَبِي حَنِيفَةَ مِنَ السُّنَّةِ، وَهُوَ مِنَ الْعُلَمَاءِ الَّذِينَ امتُحِنُوا
فِي اللَّهِ.
جَاءَ مَنْ طُرُقٍ مُتَعَدِّدَةٍ أَنَّهُ
ضُرِبَ أَيَّامًا لِيَلِيَ الْقَضَاءَ فَأَبَى.
قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ
الزُّهْرِيُّ عَنْ بِشْرِ بْنِ الْوَلِيدِ الْكِنْدِيِّ قَالَ: طَلَبَ
الْمَنْصُورُ أَبَا حَنِيفَةَ فَأَرَادَهُ عَلَى الْقَضَاءِ وحلف ليلين فَأَبَى،
وَحَلَفَ أَنْ لا يَفْعَلَ، فَقَالَ الرَّبِيعُ حَاجِبُ الْمَنْصُورِ: تَرَى
أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ يَحْلِفُ وَأَنْتَ تَحْلِفُ! قَالَ: أَمِيرُ
الْمُؤْمِنِينَ عَلَى كَفَّارَةِ يَمِينِهِ أَقْدَرُ مِنِّي. فَأُمِرَ بِهِ إِلَى
السَّجْنِ فَمَاتَ فِيهِ بِبَغْدَادَ.
وَقِيلَ: دَفَعَهُ إِلَى صَاحِبِ
الشُّرْطَةِ حُمَيْدٌ الطُّوسِيُّ فَقَالَ لَهُ: يَا شَيْخُ إِنَّ أَمِيرَ
الْمُؤْمِنِينَ يَدْفَعُ إِلَيَّ الرَّجُلَ فَيَقُولُ لِي: اقْتُلْهُ أَوْ
قَطِّعْهُ أَوِ اضْرِبْهُ، وَلا عِلْمَ لِي بِقِصَّتِهِ، فَمَا أَفْعَلُ؟ فَقَالَ
أَبُو حَنِيفَةَ: هَلْ يَأْمُرُكَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ بِأَمْرٍ قَدْ وَجَبَ
أَوْ بِأَمْرٍ لَمْ يَجِبُ؟ قَالَ: بَلْ بِمَا قَدْ وَجَبَ، قَالَ: فَبَادِرْ
إِلَى الْوَاجِبِ.
وَعَنْ مُغِيثِ بْنِ بُدَيْلٍ، قَالَ:
دَعَا الْمَنْصُورُ أَبَا حَنِيفَةَ إِلَى الْقَضَاءِ فَامْتَنَعَ، فَقَالَ: أَتَرْغَبُ عَمَّا نَحْنُ
فِيهِ! فَقَالَ: لا أَصْلُحُ، قَالَ: كَذَبْتَ، قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: فَقَدْ
حَكَمَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيَّ أَنِّي لا أَصْلُحُ، فَإِنْ كُنْتُ
كَاذِبًا فَلا أَصْلُحُ، وَإِنْ كُنْتُ صَادِقًا فَقَدْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنِّي لا
أَصْلُحُ، فَحَبَسَهُ.
قَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ:
سَمِعْتُ الرَّبِيعَ بْنَ يُونُسَ الْحَاجِبَ يَقُولُ: رَأَيْتُ الْمَنْصُورَ تَنَاوَلَ
أَبَا حَنِيفَةَ فِي أَمْرِ الْقَضَاءِ فَقَالَ: والله ما أنا بمأمون الرضى،
فَكَيْفَ أَكُونُ مَأْمُونَ الْغَضَبِ، فَلا أَصْلُحُ لِذَلِكَ، فَقَالَ: كَذَبْتَ
بَلْ تَصْلُحُ، فَقَالَ: كَيْفَ يَحِلُّ لَكَ أَنْ تُوَلِّي مَنْ يَكْذِبُ؟.
وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الْخَطِيبُ: قِيلَ:
إِنَّهُ وَلِيَ الْقَضَاءَ، وَقَضَى قَضِيَّةً وَاحِدَةً وَبَقِيَ يَوْمَيْنِ،
ثُمَّ اشْتَكَى سِتَّةَ أَيَّامٍ وَمَاتَ.
وَقَالَ الْفَقِيهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ
الصُّيَمْرِيُّ: لَمْ يَقْبَلِ الْعَهْدَ بِالْقَضَاءِ فَضُرِبَ وَحُبِسَ وَمَاتَ
فِي السَّجْنِ.
قَالَ أَحْمَدُ بْنُ الصَّبَّاحِ:
سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: قِيلَ لِمَالِكٍ: هَلْ رَأَيْتَ أَبَا حَنِيفَةَ؟
قَالَ: نَعَمْ رَأَيْتُ رَجُلا لَوْ كَلَّمَكَ فِي هَذِهِ السَّارِيَةِ أَنْ
يَجْعَلَهَا ذَهَبًا لقام بحجته.
وَقَالَ حِبَّانُ بْنُ مُوسَى: سُئِلَ
ابْنُ الْمُبَارَكِ: أَمَالِكٌ أَفْقَهُ أَمْ أَبُو حَنِيفَةَ؟ قَالَ: أَبُو
حَنِيفَةَ.
وَقَالَ الْخُرَيْبِيُّ: مَا يَقَعُ فِي
أَبِي حَنِيفَةَ إِلا حَاسِدٌ أَوْ جَاهِلٌ.
وَقَالَ يَحْيَى الْقَطَّانُ: لا
نَكْذِبُ اللَّهَ، مَا سَمِعْنَا أَحْسَنَ مِنْ رَأْيِ أَبِي حَنِيفَةَ، وَقَدْ
أَخَذْنَا بِأَكْثَرِ أَقْوَالِهِ.
وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ: لَوْ
وُزِنَ عِلْمُ أَبِي حَنِيفَةَ بِعِلْمِ أَهْلِ زَمَانِهِ لَرَجَحَ عَلَيْهِمْ.
وَقَالَ حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ: كَلامُ
أَبِي حَنِيفَةَ فِي الْفِقْهِ أَدَقُّ مِنَ الشِّعْرِ لا يَعِيبُهُ إِلا جَاهِلٌ.
وَقَالَ الْحُمَيْدِيُّ: سَمِعْتُ ابْنَ
عُيَيْنَةَ يَقُولُ: شَيْئَانِ مَا ظَنَنْتُهُمَا يُجَاوِزَانِ قَنْطَرَةَ
الْكُوفَةِ: قِرَاءَةُ حَمْزَةَ، وَفِقْهُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَقَدْ بَلَغَا
الآفَاقَ.
وَعَنِ الأَعْمَشِ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ
مَسْأَلَةٍ فَقَالَ: إِنَّمَا يُحْسِنُ هَذَا النُّعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ
الْخَزَّازُ، وَأَظُنُّهُ بُورِكَ لَهُ فِي عِلْمِهِ.
وَقَالَ جَرِيرٌ: قَالَ لِي مِغَيِرَةُ:
جَالِسْ أَبَا حَنِيفَةَ تَفْقَهُ، فَإِنَّ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيَّ لَوْ كَانَ
حَيًّا لَجَالَسَهُ.
وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعٍ:
سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ عَاصِمٍ يَقُولُ: لَوْ وُزِنَ عَقْلُ أَبِي حَنِيفَةَ
بِعَقْلِ نِصْفِ النَّاسِ لَرَجَحَ بِهِمْ.
قُلْتُ: وَأَخْبَارُ
أَبِي حَنِيفَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَمَنَاقِبُهُ لا يَحْتَمِلُهَا هَذَا
التَّارِيخُ فَإِنِّي قَدْ أفردت أخباره في جزأين.
وَقِيلَ: إِنَّ الْمَنْصُورَ سَقَاهُ
السُّمَّ لقيامه مَعَ إِبْرَاهِيمَ، فَعَلَى هَذَا يَكُونُ قَدْ حَصَّلَ
الشَّهَادَةَ وَفَازَ بِالسَّعَادَةِ.
قَالَ أَبُو يُوسُفَ الْقَاضِي: كَانَتْ
وفاته في نصف شَوَّالٍ سَنَةَ خَمْسِينَ وَمِائَةٍ.
وَقَالَ الْوَاقِدِيُّ، وَأَبُو حَسَّانٍ
الزِّيَادِيُّ، وَيَعْقُوبُ بْنُ شَيْبَةَ: مَاتَ فِي رَجَبٍ سَنَةَ خَمْسِينَ،
وَيُقَالُ: مَاتَ فِي شَعْبَانَ.
وَحَدِيثُهُ يَقَعُ عَالِيًا لابْنِ طَبَرْزَدَ.
’ الکاشف کے
الفاظ :
النعمان بن ثابت بن زوطا الامام أبو
حنيفة فقيه العراق مولى بني تيم الله بن ثعلبة رأى أنسا وسمع عطاء ونافعا وعكرمة
وعنه أبو يوسف ومحمد وأبو نعيم والمقرئ أفردت سيرته في مؤلف عاش سبعين عاما مات في
رجب 150 ت س۔
یہ ہم نے ’
تذہیب تہذیب الکمال ‘،’ تذکرة الحفاظ ‘،’ سیر اعلام النبلاء ‘،’ تاریخ الإسلام ‘،’
الکاشف ‘ وغیرہ
کے تمام الفاظ نقل کردئے ہیں۔ اہل حدیث
حضرات اس میں سے کوئی حرف تضعیف
بتائے ۔ورنہ تسلیم کریں کہ امام ذہبی
ؒ امام ابو حنیفہ ؒ کی توثیق اور ثناء کے
ہی قائل ہیں۔
نیز ذہبیؒ نے ’ تذہیب
تہذیب الکمال ‘ میں امام صاحبؒ کے ترجمہ کے آخر میں
فرمایا ’’قد احسن شیخنا ابو الحجاج حیث لم یورد
شيئا یلزم منہ التضعیف‘‘ یعنی
ہمارے شیخ الحافظ ابوالحجاج المزی ؒ (م۷۴۲ھ) نے بہت اچھا کیا ہے جو
ایسی کسی قسم کی بات نہیں لائے جس سے امام صاحب کی کوئی تضعیف لازم آتی ہو۔ (ج۹
: ص ۲۲۵)[3]
اسکین :
کیا اس کا مطلب یہ تھوڑی ہوگا کہ اچھا کیا جو حق کو چھپا
لیا اور تضعیف ذکر نہیں کی ؟ اس سے صاف،ستری
عبارت اور کون سی ہوسکتی جس سے ذہبیؒ کے نزدیک امام صاحب ؒ کی توثیق ثابت ہو تی ہو۔
میزان الاعتدال کی عبارت اور امام صاحب ؒ کا ترجمہ :
میزان میں امام ابو حنیفہ ؒ کے ترجمے کے اضافہ کے جواب میں محدث عبد الفتاح ابو غدۃ ؒ نے بڑی طویل، عمدہ اور علمی بحث فرمائی ہیں ۔
ان کی عبارات کا خلاصہ ملاحظہ
فرمائیں :
(شیخ ) عبد الفتاح (رحمہ اللہ ) کہتے ہیں :
ہذا علی ما فی بعض النسخ ، فإنہ توجد فیہ فی حرف النون
ترجمۃ الامام ابی حنیفۃ ، وتوجد فیہ ھذہ اللفظۃ ، وفی بعض النسخ لا أثر لترجمتہ فی
المیزان ، ویؤیدہ قول العراقیؒ: إنہ لم یذکر الذھبیؒ أحداً من الائمۃ المتبوعین ، منہ رحمہ اللہ
۔
یہ عبارت میزان الاعتدال کے اس نسخہ کے مطابق ہے ، جس میں
حرف نون کے تحت امام ابو حنیفہ ؒ کے حالات بیان کئے گئے ہیں ، اوراس میں یہ عبارت
بھی درج ہے، جبکہ میزان کے دوسرے نسخہ میں سرے سے امام صاحب ؒ کا تذکرہ ہی موجود
نہیں ۔
اورامام عراقی ؒ کے
قول : ’’یقیناً امام ذہبی ؒ نے (میزان
الاعتدال میں )ائمہ متبوعین میں سے کسی کا تذکرہ نہیں کیا‘‘ سے، (میزان کے )اُس (نسخہ کے درست ہونے ) کی تائید
ہوتی ہے(جس میں امام صاحب ؒ کا ترجمہ نہیں ہے )۔
قال عبد الفتاح :
وقد أوسع المؤلف اللکنوی القول جداً فی التدلیل علی دس
ترجمۃ أبی حنیفۃ فی بعض نسخ المیزان فی کتابہ ‘غیث الغمام علی حواشی إمام الکلام’
: (ص۱۴۶) ، وذکروجوھا کثیرۃ فی تعزیز نفیھا عن ‘المیزان’ ، أقتصر علی نقل الوجہ الأول
منھا، وأحیل القاری ء إلی ما عداہ لطولہ ۔
(شیخ ) عبد الفتاح (رحمہ اللہ ) کہتے ہیں :
میزان کے بعض نسخوں میں کتربیونت کرتے ہوئے، امام ابوحنیفہ
ؒ کے حالات بڑھائے جانے پر ،اس کتاب کے
مؤلف ، (علامہ) لکھنویؒ نے، اپنی (دوسری ) کتاب’غیث الغمام علی حواشی إمام الکلام‘ میں
بہت تفصیل سے ، مدلل گفتگو کی ہے ۔ اور
میزان الاعتدال (کی اصل کتاب )میں آپ ؒ کا ذکر نہ ہونے پر بہت سےدلائل دئیے ہیں
،تفصیل بڑی طویل ہے، اس لئے یہاں صرف ایک دلیل کے ذکرپر اکتفاء کرتا ہوں ، باقی
کیلئے اصل کتاب (غیث الغمام ) کی طرف رجوع کیا جائے ۔
قال ؒ :’’ إن ھذہ العبارۃ لیست لھا أثر فی بعض النسخ
المعتبرۃ علی مارأیتہ بعینی۔ ویؤیدہ:
قول العراقی فی ’ شرح ألفیتہ‘ : (۳ : ۲۶۰) :’’لکنہ أی ابن
عدی ذکر فی کتاب ‘ الکامل ’ کل من تکلم فیہ وإن کان ثقۃ ، وتبعہ علی ذلک الذھبی فی
’المیزان‘ ، إلا أنہ لم یذکر أحداً من الصحابۃ والأیمۃ المتبوعین۔‘‘ انتھی۔
وقول السخاوی فی’شر ح الالفیۃ ‘(ص۴۷۷) مع أنہ أی الذھبی تبع
ابن عدی فی إیراد کل من تکلم فیہ ولو کان ثقۃ، لکنہ التزم أن لا یذکر أحدا من
الصحابۃ ولا الأیمۃ المتبوعین ۔
وقول السیوطی فی ’ تدریب الراوی شرح تقریب النواوی‘(ص ۵۱۹)
: إلا أنہ أی الذھبی لم یذکر أحداً من
الصحابۃ ولا الأیمۃ المتبوعین۔ انتھیٰ
فھذہ العبارات من ھؤلاء الثقات الذین قد مرت أنظارھم علی
نسخ ’المیزان‘ الصحیحۃ مرات: تنادی بأعلیٰ النداء علی أنہ لیس فی حرف النون من
‘المیزان’ أثر لترجمۃ أبی حنیفۃ النعمان، فلعلھا من زیادات بعض الناسخین والناقلین
فی بعض نسخ’المیزان‘۔
علامہ لکھنویؒ(م۱۳۰۴ھ) )فرماتےہیں :
’’بعض معتبر نسخوں
میں ،جیسا کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے،اس عبارت کا نام ونشان تک نہیں
اور اس (عبارت کے نہ ہونے ) کی تائید درج ذیل (عبارتوں )سے بھی ہوتی ہے : حافظ عراقیؒ (م۸۰۶ھ) ، ’الفیۃ‘ کی شرح
میں (جلد۳ : صفحہ ۲۶۰ پر)فرماتے ہیں :
لیکن انہوں نے یعنی ابن عدی ؒ نے (اپنی کتاب)‘الکامل’ میں،
‘ ہر اس (راوی حدیث )کا ذکر کیا ہے ، جس پر جرح کی گئی ہے ، اگرچہ وہ ثقہ ہو’، اور امام ذہبی ؒ نے
بھی ‘میزان ’ میں انہیں کا طرز اپنایا ہے ،البتہ انہوں نے صحابہ کرام اور ائمہ
متبوعین کا تذکرہ نہیں کیا۔
حافظ سخاوی ؒ (م۹۰۲ھ)، بھی الفیۃ (العراقی )کی شرح میں (ص :۴۷۷ پر)
فرماتے ہیں :
’’اگرچہ ذہبیؒ نے
(بھی اپنی کتاب میزان الاعتدال میں)امام ابن عدیؒ کا ہی طرز اختیار کیا ہے کہ ‘ہر
متکلم فیہ راوی کو ذکر کریں گے ، چاہے (حقیقت میں ) وہ ثقہ ہو، لیکن انہوں نے اس
بات کا التزام کیا ہے کہ وہ کسی صحابی کانہ ہی
ائمہ متبوعین میں سے کسی امام کا ، تذکرہ
کریں گے۔ ‘‘
امام سیوطی ؒ (م۹۱۱ھ)
(اپنی کتاب) ’تدریب الراوی شرح تقریب النواوی‘ میں (صفحہ ۵۱۹ پر) فرماتے ہیں :
’’ مگر ذہبی ؒ نے ،نہ صحابہ کرام
میں سے کسی کا تذکرہ کیا ہے ، نہ ہی ائمہ متبوعین کا‘‘۔ پس،یہ معتبر علماء، جن کی نظروں سےمیزان کی
صحیح نسخے متعدد مرتبہ گذرے ہیں، ان کی عبارتیں ببانگِ دہل کہہ رہی ہیں کہ میزان
میں حرف النون کے ذیل میں امام ابوحنیفہ ؒ کے تذکرہ کا کوئی وجود ہی نہیں، یہ یقیناً، میزان کے کسی ناقل کی کرم فرمائی ہے۔ ‘‘
قال عبد الفتاح : بل قد صرح الذھبی فی مقدمۃ ’ المیزان‘ فقال (۱ : ۳) :
’’ وکذا لا أذکر فی کتابی من الأئمۃ المتبوعین فی الفروع
أحداً ، لجلالتہم فی الاسلام ، وعظمتہم فی النفوس ، مثل أبی حنیفۃ والشافعی
والبخاری، فإن ذکرت أحداً منہم فأذکرہ علی الانصاف ، ومایضرہ ذلک عند اللہ ولا عند
الناس‘‘۔ انتھیٰ
وجاءت فی المطبوعۃ من ’المیزان ‘ ترجمۃ أبی حنیفۃ : (۳ :
۲۳۷) فی سطرین، لیس فیھا دفاع عن أبی حنیفۃ إطلاقاً، وإنما تحط علی جرحہ وتضعیفہ،
وکلام الذھبی فی المقدمۃ ینفی وجودھا علی تلک الصفۃ ، لأنھا تحمل القدح لا
الانصاف۔
(شیخ ) عبد الفتاح ؒ کہتے ہیں :
بلکہ خود امام ذہبیؒ نے میزان الاعتدال کے مقدمہ میں
صراحتاً کہا ہے : ’’ اسی طرح ،میں
اپنی (اس) کتاب میں، ان ائمہ میں سے ،جن کی فروعات میں اتباع کی جاتی ہے، کسی کا تذکرہ
نہیں کروں گا،چونکہ اسلام میں ان کا بڑا مقام ہے، اورلوگوں کے دلوں میں انکی عظمت راسخ
ہوچکی ہے، جیسے کہ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام بخاری، اور اگر کسی کا ذکر کیا
بھی تو انصاف کے ساتھ کروں گا، اور یہ (جرح) عند اللہ وعند الناس ،انکے (مرتبہ
)لئے مضر نہیں ہے‘‘۔اھ
جبکہ میزان کے مطبوعہ نسخہ میں امام ابوحنیفہ ؒ کا
ترجمہ،صرف دو سطروں میں ہے، جس میں امام صاحب کےدفاع کی بجائےصرف جرح اور تضعیف ہی ہے، حالانکہ مقدمہ میں امام
ذہبی ؒ کا کلام ،اس اندازمیں امام ابوحنیفہ ؒ کے تذکرہ کے منافی ہے ، کیونکہ
وہ صرف جرح پر مشتمل ہے، انصاف پرنہیں۔
قال عبد الفتاح : والطبعۃ الہندیۃ من ‘ المیزان’ المطبوعۃ
فی مدینۃ لکنو سنۃ ۱۳۰۱ بالمطبع المعروف بأنوار محمدی ، لم تذکر فیہا ترجمۃ للامام
ابی حنیفۃ فی أصل الکتاب وإنما ذکر علی الحاشیۃ کلمات فی سطرین ، قال مثبتھا، :’’
لما لم تکن ھذہ فی نسخۃ ، وکانت فی أخریٰ أوردتھا علی الحاشیۃ‘‘ انتھیٰ ۔ فلما طبع الکتاب بمصر سنۃ ۱۳۲۵، طبعت
تلک الکلمات التی علی الحاشیۃ فی صلب الکتاب ، دون تنبیہ !
(شیخ ) عبد الفتاح ؒ کہتے ہیں :
ہندوستان میں، شہر لکھنؤ کے، مطبع انوار محمد ی سے، ۱۳۰۱ھ میں چھپی میزان کے،متن
میں تو امام صاحب ؒ کا ترجمہ موجود نہیں ، البتہ حاشیہ میں دوسطروں میں کچھ کلمات ہیں ، جن
کے لکھنے والے نے یہ نوٹ بھی تحریر کیا ہے کہ : ’’ چونکہ یہ عبارت کسی نسخہ میں ہے ، اورکسی میں
نہیں، اس لئے میں نے اسے حاشیہ میں بڑھادیا‘‘۔ اھ
مگر جب کتاب مصر سے ۱۳۲۵ھ میں چھپی ، تو وہ کلمات ،جو حاشیہ
میں تھے، کتاب کے متن میں، بغیر کسی نوٹ
کے،بڑھا دئیے گئے ۔
قال عبد الفتاح : وقد رجعت إلی المجلد الثالث من ‘میزان
الاعتدال ’ المحفوظ فی ظاھریۃ دمشق تحت الرقم (۸۶۳حدیث) ، وھو جزء نفیس جداً ،
یبتدیء بحرف المیم ، وینتھی بآخر الکتاب ، کلہ بخط العلامۃ الحافظ شرف الدین عبد
اللہ بن محمد الوانی الدمشقی ، المتوفیٰ سنۃ ۷۴۹ ، تلمیذ الذھبی رحمہما للہ تعالیٰ
، وقد قرأہ علیہ ثلاث مرات مع المقابلۃ بأصل الذھبی، کما صرح بذلک فی ظھر
الورقۃ۱۰۹، وظھر الورقۃ ۱۵۹، وفی غیر موطن منہ تصریحات کثیرۃ لہ بالقرأۃ والمقابلۃ
أیضاً ، فلم أجد فیہ ترجمۃ للامام أبی حنیفۃ النعمان فی حرف النون ولا فی الکنیٰ۔
(پہلا نسخہ ) دمشق
کے مکتبہ ظاہریہ میں ،میں نےمیزان الاعتدال کا
ایک بہت ہی نفیس نسخہ دیکھا۔جو حرف
میم سے کتاب کے اخیر تک تھا۔
(یہ نسخہ ) مؤلف
کتاب امام ذہبی ؒ کے تلمیذ حافظ عبد اللہ الوانی الدمشقی کے ہاتھوں لکھا
ہوا،اورامام ذہبیؒ کے( ہاتھوں لکھے ہوئے) اصل نسخہ سے ملانے کے ساتھ ساتھ ،خودمؤلف
کے سامنے تین مرتبہ پڑھابھی گیا تھا، متعدد جگہ اس کی تصریح موجود ہے۔مگر اس میں بھی
مجھے امام ابوحنیفہ کا ترجمہ نظر نہیں آیا ، نہ اسماء میں نہ کنٰی میں ۔
قال عبد الفتاح : وکذلک لم أجد لہ ترجمۃ فی النسخۃ المحفوظۃ
فی المکتبۃ الاحمدیۃ بحلب تحت الرقم ۳۳۷، وھی نسخۃ جیدۃ کتبت سنۃ ۱۱۶۰ بخط علی بن
محمد الشھیر بابن مشمشان ، فی مجلد واحد کبیر۔ وقد کتبھا عن نسخۃ کتبت سنۃ ۷۷۷،
یوجد بخط الشیخ ابن مشمشان ھذا فی المکتبۃ الاحمدیۃ بحلب ، الجزء الاول والثالث
والرابع والخامس من کتاب ‘نصب الرایہ’ للحافظ الزیلعی، وذلک مما یدل علی أنہ من
أھل العلم المشتغلین بالحدیث، وھو علی بن محمد بن الشیخ کامل ، الشھیر بابن
مشمشان۔
(دوسرا
نسخہ ) اسی طرح آپ کے حالات کا تذکرہ مجھے اس نسخہ میں بھی نہیں ملا ،جو حلب کے مکتبہ الاحمدیہ میں محفوظ
ہے ۔ جس کےلکھنے والے علی بن محمد بن شیخ کامل المعروف بابن مشمشان
ہیں ۔یہ نسخہ( ۱۱۶۰ ھ) میں لکھا گیا،ایک ایسے نسخہ کے مطابق، جو(
۷۷۷ھ) میں لکھا گیا تھا۔ ابن مشمشان ؒ
کے ہاتھوں لکھی ہوئی ، نصب الرایہ للزیلعی کی بھی چند جلدیں ، مکتبہ احمدیہ میں
موجود ہیں ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علم حدیث سے اشتغال رکھنے والے علماء میں
سے تھے۔
قال عبد الفتاح : وقد سنحت لی فی أوائل رمضان المبارک من
سنۃ ۱۳۸۲ زیارۃ ‘المغرب’ فزرت مدینۃ الرباط ، ورأیت فی ( الخزانۃ العامۃ ) فیھا
نسخۃ من ‘میزان الاعتدال ’ فی مجلد واحد ، رقمھا (۱۲۹ق) ناقصۃ یبتدئ القسم الموجود
منھا من أوائل ترجمۃ (عثمان بن مقسم البری ) وھو یوافق أواخر الصفحۃ ۱۹۰ من الجزء
الثانی المطبوع بمصر سنہ ۱۳۲۵وینتھی بآخر الکتاب ، وفی حواشی ھذہ النسخۃ کتبت
إلحاقات کثیرۃ جدا فی کل صفحۃ ، حتی فی بعض الصفحات أخذت الالحاقات الحواشی الثلاث
وتارۃ الحواشی الاربع الصفحۃ، وھی بخط واحد دون الحواشی الملحقۃ علی جوانب الصفحات
والاوراق المدرجۃ فیھا، وقد کتب علی الورقۃ الأخیرۃ من أصل النسخۃ قرا ءات کثیرۃ
وتواریخ لھا ولنسخھا ، فکان من ذلک أن النسخۃ قرئت علی مؤلفھا اکثر من ست مرات ،
وھذا نص ما کتب فی حواشی الورقۃ الاخیرۃ بحسب تواریخہ لا بحسب ترتیب کتابتھا:
۱ ۔ أنھاہ
کتابۃ ومعارضۃ داعیا لمؤلفہ عبد اللہ
المقریزی فی سنۃ تسع وعشرین وسبعمائۃ۔
۲۔ أنھاہ کتابۃ
ومعارضۃ ابو بکر بن السرّاج داعیا لمؤلفہ فی سنۃ ثلاث وثلاثین وسبعمائۃ ۔
۳۔ فرغہ نسخاً
مرۃ ثانیۃ داعیا لمؤلفہ ابو بکر بن السرّاج عفا اللہ عنہ فی سنۃ تسع وثلاثین
وسبعمائۃ ۔
۴۔ قرأت جمیع
ھذا ‘ المیزان ’ وھوسفران علی جامعہ سیدنا شیخ الاسلام ۔۔۔۔۔ الذھبی أبقاہ اللہ
تعالی فی مجالس آخر ھا یوم السبت ثانی عشر شھر رمضان سنۃ ثلاث وأربعین وسبعمائۃ
بالمدرسۃ الصدریۃ بدمشق وکتب سعید بن عبد الدھلی عفا اللہ عنہ ۔
۵۔ قرأت جمیع
ھذا الکتاب علی جامعہ شیخنا شیخ الاسلام ۔۔۔ الذھبی فسح اللہ فی مدتہ فی مجالس
آخرھا یوم الجمعۃ ثانی عشر رجب الفرد سنۃ خمس وأربعین وسبعمائۃ بمنزلہ فی الصدریۃ
، رحم اللہ واقفھا بدمشق المحروسۃ، وکتبہ علی بن عبد المؤمن بن علی الشافعی
البعلبکی حامداً للہ ومصلیا ً علی النبی وآلہ ومسلماً۔
۶۔ فرغہ نسخاً
لنفسہ داعیا لمؤلفہ احمد بن عمر بن علی القوصی(؟) فی العشر الآخر من ربیع الآخر
سنۃ ست وأربعین وسبعمائۃ ۔
۷ ۔ فرغہ ابو
القاسم بن الفارقی عفا اللہ عنہ داعیاً لمؤلفہ۔
۸ ۔ قرأت جمیع
کتاب’میزان الاعتدال فی نقد الرجال‘ وما علی الھوامش من التخاریج والحواشی
والملحقات بحسب التحریر والطاقۃ والتؤدۃ علی مصنفہ شیخنا الامام العلامۃ الذھبی فسح
اللہ فی مدتہ فی مواعید طویلۃ کثیرۃ ، وافق آخرھا یوم الاربعاء العشرین من شھر
رمضان المعظم فی سنۃ سبع وأربعین وسبعمائۃ فی الصدریۃ بدمشق ،وأجاز جمیع مایرویہ ،
وکتب محمد (بن علی الحنفی؟) بن عبد اللہ ۔۔۔،
وقد کانت وفاۃ الذھبی رحمہ اللہ تعالیٰ فی لیلۃ الثالث من
ذی القعدۃ سنۃ ۷۴۸کما فی الدرر الکامنۃ لابن حجر(۳ : ۳۳۸)
قلت قد رجعت أیضاً إلی ھذہ النسخۃ العظیمۃ النادرۃ المثال
فی عالم المخطوطات فلم أجد فیھا ترجمۃ للإمام أبی حنیفۃ رضی اللہ عنہ ، وھذا مما
یقطع معہ المرء بأن الترجمۃ المذکورۃ فی بعض نسخ ‘المیزان’ لیست من قلم الذھبی ،
وإنما ھی دخیلۃ علی الکتاب بید بعض الحانقین علی الامام أبی حنیفۃ ، وذلک أنھا جاء
ت فی سطرین لا تلیق بمقام الامام الاعظم ، ولا تحاکی تراجم الائمۃ الذین ذکرھم
الذھبی لدفع الطعن عنھم ، وھم دون أبی حنیفۃ إمامۃ ومنزلۃ ، فقد أطال النفس فی
تراجمھم طویلاً وجلی مکانتھم وإمامتھم أفضل تجلیۃ ۔
(تیسرا نسخہ ) (م۱۳۸۲ ھ)
میں ،مجھے (افریقی ملک ) ‘مغرب ’ جانے کا
موقعہ ملا، جہاں میں نے رباط شہر کے ، الخزانۃ العامۃ (نامی ) مکتبہ کی زیارت کی ،
اور میزان کا ایک نسخہ دیکھا، جو ‘عثمان البری کے ترجمہ سے کتاب کے اخیر تک تھا۔جس
کے حاشیوں میں بہت کچھ اضافہ کیا گیا تھا، بلکہ بعض جگہ مزید صفحات لگا کر ان پر
لکھا گیا تھا، اور اخیر صفحہ پر ، اس کے لکھنے،
اور مؤلف کے سامنے متعدد مرتبہ
پڑھے جانے کی تاریخیں درج تھیں ،جن سے معلوم ہوتا ہے یہ نسخہ مؤلف کے سامنے چھ سے
زیادہ مرتبہ پڑھاگیا ہے ۔
۱) (م۷۲۹ھ)
کو عبداللہ بن المقريزي ؒ نے اس کی کتابت
اور معارضہ(پیش کرنا ،چیک کرنا) سے فارغ
ہوئے ۔ اس کے مصنف کے لیے دعا گو ہوکر۔
۲) (م۷۳۳ھ)
کو ابوبکر بن السراج ؒ فارغ ہوئے کتابت و معارضہ سے یعنی اپنے لیے اس
سے نسخہ لکھنے اور پھر دوبارہ اس پر پیش کرکے چیک کرنے یا بالفاظ دیگر نظر ثانی
کرنے سے فارغ ہوئے۔
۳) (م۷۳۹ھ)
کو ابوبکر بن السراج ؒ دوبارہ اس سے ایک نسخہ لکھنے اور چیک کرنے سے فارغ ہوئے۔
۴) (م۷۴۳ھ)
کومیں نے یہ میزان پوری کی پوری ہمارے شیخ
۔ شیخ الاسلام امام ذہبی پر کئی مجالس میں
پڑھی جس کی آخری مجلس ۱۲ رمضان بروز ہفتہم۷۴۳
ھکو ان کے مکان پر اختتام پذیر ہوا اس کو سعید بن عبداللہ الذھلیؒ نے لکھا
۵) (م۷۴۵ھ)
کو علی بن عبد المؤمن بن علی الشافعي ؒنے اس پوری کتاب کو مصنف امام ذہبی پر پڑھا
جس کی آخری مجلس بروز جمعہ 12 رجب م۷۴۵ھہے
۶) (م۷۴۶ھ)
احمد بن عمر بن علی القوصی ؒ نے اس سے اپنے لیے نسخہ لکھا اور اس سے فراغت م۷۴۶ھ
کو ہوئی ربیع الثانی کے آخری عشرے میں ہوئی۔
۷) (م۷۴۷ھ)
کو محمد بن علی بن عبداللہ الحنفیؒ نے اس کا پورا نسخہ مع الحواشي و ملحقات کے
مصنف پر پڑھا ۔ آخری مجلس بروز بدھ 20 رمضان م۷۴۷ھ ہے۔ جبکہ امام ذہبی کی وفات (م۷۴۸ھ)
کی ہے۔
جن
میں سے اخیری مرتبہ مؤلف کی وفات (۳؍ذی القعدۃ ۷۴۸ھ) سے ایک سال پہلے (بدھ،
۲۰؍رمضان المعظم ۷۴۷ھ)کو پڑھا گیا ہے۔
میں نے اس عظیم اور نادر المثال نسخہ کی
بھی مراجعت کی ، لیکن اس
عظیم نسخے میں بھی امام ابوحنیفہ ؒ کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
اس سے اتنی بات تو یقینی
ہوجاتی ہے کہ میزان کے بعض نسخوں میں جو امام ابو حنیفہ ؒ کا تذکرہ ہے، وہ
امام ذہبیؒ کے قلم سے نہیں ، بلکہ امام صاحب ؒ کے کسی مخالف کا بڑھایا ہوا
ہے۔ نیز، آپ ؒ کا
تذکرہ بھی صرف دو سطروں میں کیا گیا ہے ، جو نہ آپکے مقام کے لائق ہے ، اور نہ ان
ائمہ کے تذکرہ سے میل کھاتا ہے ، جن کا دفاع کرنے کیلئے امام ذہبی ؒ نے میزان الاعتدال
میں ان کا تذکرہ کیا ہے ، اور طویل بحثوں کے ذریعہ ان کا بھر پور دفاع کیا ہے ،
جبکہ وہ ائمہ مرتبہ میں امام ابوحنیفہ ؒ
سے کم ہیں۔
وکتاب ’میزان ‘ ھذا مرتع واسع لالحاق تراجم فیہ للنیل من
أصحابھا ، وقد امتد الیہ قلم غیر الذھبی فی مواطن ، فیجب طبعہ عن أصلی مقروء علی
المؤلف کالجزء المحفوظ بظاھریۃ دمشق ، وھو یبتدئ بحرف المیم، وینتہی بآخر الکتاب
، وکالقسم الموجود فی خزانۃ الرباط ۔
کسی عالم کو مجروح کرنے کے لئے ،میزان الاعتدال کتاب ،بڑی بہترین جگہ ہے، بس ان کا تذکرہ ، اس کتاب
میں بڑھا دیا جائے، (یہی وجہ ہےکہ ) امام
ذہبی ؒ کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں کا قلم اس کتاب میں چلا ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ
یہ کتاب، مؤلف کے سامنے پڑھے گئے اصل نسخوں کے مطابق طبع کی جائے، جیسے کہ مکتبہ
ظاہریہ کا نسخہ ، الخزانۃ العامۃ کا نسخہ ،وغیرہ۔
وإنما أطلت فی ھذہ التعلیقۃ کثیراً : تنزیھا لمقام الامام
أبی حنیفۃ ، وتبرئۃ لساحۃ الحافظ الذھبیؒ ، وتعریفاً بالمخطوطات الموثوقۃ من ‘میزا
ن الاعتدال ’ لیصار إلی طبعہ عنھا ممن یوفقہ اللہ تعالیٰ ۔
میں نے یہ طویل حاشیہ
امام ابوحنیفہ ؒ اور امام ذہبیؒ کی جانب منسوب کی جانے والی غلط باتوں سے
ان کے دامن کو بچانے کے لئے ، اور میزان کے معتبر نسخوں کی نشاندہی کے لئے لگایا
ہے ، تاکہ ان کے مطابق اسے طبع کیا جائے۔
وبعد مدۃ من کتابتی ھذہ رأیت لصدیقنا العلامۃ الشیخ محمد
عبد الرشید النعمانی الھندی حفظہ اللہ تعالیٰ کلمۃ حسنۃ فی کتابہ النافع ‘ما تمس
إلیہ الحاجۃ لمن یطالع سنن ابن ماجۃ’ (ص ۴۷)، حقق فیھا علی نحو آخر دس ترجمۃ أبی
حنیفۃ علی المیزان ’۔ فانظر۔
ان سطروں کے لکھنے کے ایک زمانہ بعد ، میرے دوست شیخ محمد
عبد الرشید النعمانی کی ایک اچھی تحریر ، ان کی کتاب ’ما تمس الیہ الحاجۃ لمن یطالع سنن ابن ماجہ ‘میں دیکھی ، جس میں انہوں نے ، میزان میں امام ابوحنیفہ ؒ
کے ترجمہ کی دسیسہ کاری کو الگ انداز سے
ثابت کیا ہے ، جو لائق دید ہے۔
وقد سبقہ إلی ذلک العلامۃ المحقق البارع ظھیر احسن النیموی
تلمیذ المؤلف اللکنوی، فی کتابہ ‘التعلیق الحسن علی آثار السنن ۱ :۸۸۔
ان سے پہلے ، علامہ لکھنویؒ کے شاگرد رشید محقق جلیل علامہ ظہیر احسن نیموی ؒ نے (بھی اسے) التعلیق
الحسن میں ذکر کیا ہے ۔
ثم رأیت شیخنا العلامۃ الکبیر مولانا ظفر احمد العثمانی
التھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نقل فی کتابہ قواعد فی علوم الحدیث ص۲۱۱کلمۃ الحافظ
الذھبی فی مقدمۃ ‘المیزان’ (وقد نقلتھا فی سابق کلامی ) ثم علق علیھا بقولہ:
‘وبھذا یعلم أن ما وجد فی بعض نسخ ‘المیزان’ من ذکر ابی
حنیفۃ فیہ وتضعیفہ من جھۃ الحفظ فھو إلحاق، لأن المؤلف نص بلفظہ علی عدم ذکرہ فیہ
أحداً من الائمۃ المتبوعین فی الفروع، کیف وقد ذکر الذھبیؒ أباحنیفۃ فی الحفاظ فی
‘تذکرتہ’ ونص فی أول کتابہ ھذا بقولہ : ھذہ تذکرۃ بأسماء معدلی حملۃ العلم النبوی
ومن یرجع إلیٰ اجتھادھم فی التوثیق والتصحیح والتزییف ۔۔۔ اھ ۔ فھذا یدل علی أن
أباحنیفۃ عندہ حافظ إمام مجتھد فی الحدیث ، معدل حامل للعلم النبوی ’۔ انتھیٰ
پھرعلامہ ظفر احمد تھانویؒ کی عبارت نظر پڑی ، انہوں امام
ذھبی ؒ کا کلام (جو پہلے ذکر کیا جاچکا ہے ) میزان کے مقدمہ سے نقل کرنے کے بعد اس
پر یہ تعلیق لگائی ہے کہ :
اس سے معلوم ہوا کہ میزان کے بعض نسخوں میں جو امام صاحب ؒ
کا تذکرہ ہے اور آپ کے حافظہ پر کلام کیا گیا ہے ، یہ کسی کا بڑھایا ہوا ہے،
کیونکہ خود مصنف نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ وہ ائمہ متبوعین کا تذکرہ نہیں کریں
گے، ( نیز امام صاحب کا ترجمہ میزان میں
ہو بھی کیسے سکتا ہے ) جبکہ خود امام ذہبی ؒ نے تذکرۃ الحفاظ میں آپ کا تذکرہ کیا
ہے ، اور ( تذکرۃ الحفاظ کے ) شروع میں لکھا ہے کہ یہ ان علماء کے اسماء گرامی ہیں
جو علم نبوی کے حاملین پر کلام کرنے والے ہیں ، اور جرح وتعدیل کے باب میں جن طرف
رجوع کیا جاتا ہے ۔ اھ
اس سے معلوم ہوا کہ امام ذہبی ؒ کے نزدیک امام ابو حنیفۃ ؒ
علم حدیث میں بھی امامت اور اجتھاد کے درجہ پر فائز تھے، نیزعلم نبوی کے حاملین پر
بھی جرح وتعدیل کے اعتبار سے کلام فرماتے تھے۔
ثم رأیت الامیر الصنعانی فی ‘توضیح الافکار’ ۲ : ۲۷۷ یقول: لم یترجم لأبی حنیفۃ فی المیزان ’ انتھیٰ
۔۔ وقد سبقہ إلیٰ ھذا الحافظ السیوطی فی تدریب الراوی ص۵۱۹ ، فی (النوع الحادی والستین ) ، فقال : ‘
الذھبی فی المیزان لم یذکر احداً من الصحابۃ والائمۃ المتبوعین۔ انتھیٰ
پھر میں نے دیکھا امیر صنعانی ؒ نے بھی توضیح الافکار میں
لکھا ہے کہ میزان میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔ یہی بات آپ سے پہلے
امام سیوطی ؒ نے بھی کہی تھی۔
وکذلک لا وجود لترجمۃ أبی حنیفۃ فی المیزان فی نسخۃ الحافظ
الضابط المتقن محدث حلب فی عصرہ سبط ابن العجمی (إبراھیم بن محمد ) وھو قد فرغ من
نسخھا سنۃ ۷۸۹، عن نسخۃ قوبلت وعلیھا خط المؤلف ۔
(چوتھا
نسخہ ) اسی طرح بہت بڑے محدث ،سبط ابن العجمیؒ کے نسخہ میں بھی
امام ابو حنیفہ ؒ کا تذکرہ موجود نہیں ہے ۔ آپ نے یہ نسخہ ۷۸۹ ھ میں لکھا تھا
،ایسے نسخہ کو سامنے رکھ کر جو مؤلف کے نسخہ سے ملایا ہوا تھا، اور اس پر مؤلف کی تحریر بھی تھی۔
فصح الجزم بأنھا مقحمۃ فی بعض النسخ من المیزان بغیر قلم
مؤلفہ الحافظ الذھبی ؒ وتتابعت الادلۃ السابقۃ الناطقۃ علی أنھا مدسوسۃ فی المیزان
۔
اس سے یہ یقین اور پختہ ہوگیا کہ امام صاحب کا ترجمہ ،مؤلف
کے قلم سے نہیں ہے ، اور دلائل کے انبار صاف
بتارہے ہیں کہ میزان میں دسیسہ
کاری کی گئی ہے۔
استطرادۃ حول تحدید سنۃ تألیف الذھبی لکتابہ ‘ المیزان ’۔
ھذا، وتقدم فیما سبق من الحدیث عن نصف نسخۃ المؤلف من
المیزان التی بخطہ، المحفوظۃ فی (الخزانۃ العامۃ ) بالرباط ، أنھا نسخ عنھا نسخ
کثیرۃ ، منھا بتاریخ سنۃ ۷۲۹، وآخرھا بتاریخ سنۃ ۷۴۶، وأنھا قرئت علی المؤلف مرات
کثیرۃ ، وفرغ من قراء تھا آخر مرۃ فی ۲۰من رمضان سنۃ ۷۴۷۔
تالیف میزان کی تاریخ: رباط شہر کے مخطوطہ پر گفتگو سے پتہ چلا کہ اس نسخہ کو
سامنے رکھ کر کئی اور نسخے لکھے گئے ہیں ،
جن میں سے ایک(م ۷۲۹ھ) میں اور
اخیری(م۷۴۶ ھ) میں لکھا گیا۔ اور یہ نسخہ مؤلف کے سامنے ، ۲۰؍
رمضان ،(م۷۴۷ھ) کو آخری مرتبہ پڑھا گیا۔
وقد خلت تلک
النسخۃ العظیمۃ النادرۃ النفیسۃ من تأریخ الحافظ الذھبی فیھا لفراغہ من تألیف
المیزان ۔ وجاء فی آخر نسخۃ الحافظ سبط ابن العجمی محدث حلب فی عصرہ، التی طبعت
عنھا طبعۃ عیسیٰ البابی الحلبی بالقاھرۃ سنۃ ۱۳۸۲، ما یلی : بخط الحافظ علم الدین
البرزالی ، فی آخر نسخۃ قابلھا ھو، علیھا خط المؤلف ، ما لفظہ : قال مؤلفہ :
ألفتہ فی أربعۃ أشھر إلا یومین ، من سنۃ أربع وعشرین وسبع مئۃ ، ثم مررت علیہ غیر
مرۃ ، وزدت حواشی ، فی أربع سنین ۔ انتھیٰ
یہ عظیم ، نادر اور نفیسہ نسخہ مؤلف کے زمانہ سے آج تک
رکھا ہوا ہے ، اور محدث حلب سبط ابن العجمی (کا نسخہ جو قاہرہ سے ۱۳۸۲ھ میں چھپا
ہے، اس ) کے اخیر میں مؤلف کی یہ عبارت درج ہے کہ : میں نے اسے چار ماہ میں دو دن
کم میں لکھا ہے ، ۷۲۴ ھ میں ، پھر چار سال تک اس پر نظر ثانی ، اور حاشیوں کا
اضافہ کرتا رہا۔
وجاء فی المیزان فی ترجمۃ ( عبد اللہ بن محمد بن ابی القاسم
البغوی) ۲ : ۴۹۳، ما یلی مات البغوی لیلۃ
الفطر سنۃ ۳۱۷، فلہ منذ مات : أربع مئۃ وثمانی سنین ’ انتھیٰ ۔ وھذا التاریخ موافق
للتاریخ المذکور فی الفراغ من تألیف الکتاب بزیادۃ یسیرۃ ۔
اسی طرح میزان میں عبد اللہ بن محمد بن ابی القاسم البغویؒ
کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی وفات(م ۳۱۷ھ) میں عید کی رات کو ہوئی، جس کو
۴۰۸ سال گزر گئے ۔ اس کے حساب سے (بھی )
میزان کی تالیف کی تاریخ قریب قریب وہی
بنتی ہے جو مؤلف نے ذکر کی ہے۔
وفات العلامۃ المحقق الدکتور بشار عواد معروف: الانتباہ
والتنبیہ إلی ھذا الجانب، فی کتابہ الجلیل : ‘الذھبی ومنھجہ فی کتابہ تاریخ
الاسلام ’ ص ۱۹۳ ، حین تحدث عن کتاب ‘میزان الاعتدال ’ ووقع منہ أن اعتبر الموجود
من نسخۃ المؤلف فی خزانۃ الرباط : (نسخۃ) ،
فقال : نسخۃ من المیزان بخط المؤلف، فی الخزانۃ العامۃ
بالرباط، برقم۱۲۹ق،تقع فی ۲۵۰ ورقۃ ، وفی آخر النسخۃ قراء تان ۔ کذا۔ علی المؤلف،
الاولیٰ سنۃ ۷۴۳، والثانیۃ سنۃ ۷۵۴، فی حین أن الموجود فی الخزانۃ المذکورۃ نصف
نسخۃ المؤلف ، وفی آخرھا قرا ءات علی المؤلف لا قراء تان ۔
علامہ بشار عواد صاحب سے سہو ہو گیا کہ انہوں نے کہا کہ
رباط کے مکتبہ میں مؤلف کا نسخہ (مکمل ) موجود ہے، اور اسے دو مرتبہ مصنف کے سامنے
پڑھا گیا ہے ۔ اس لئے کہ وہ مکمل نہیں بلکہ آدھا نسخہ ہے، اور دو مرتبہ نہیں کئی
مرتبہ مؤلف کے سامنے پڑھا گیا ہے ۔( عبد الفتاح ؒ کی عبارت ختم ہوئی)۔ (الرفع التکمیل :
ص ۱۲۱-۱۲۷)
معلوم ہوا کہ میزان کے اصل نسخوں میں نہ امام صاحب ؒ کاترجمہ ہے اور نہ یہ ترجمہ
حافظ ذہبیؒ کے شرائط کے مطابق ہے۔
نیز ہم دیکھتے ہیں کہ
عملا بھی امام ذہبیؒ اسی پر گامزن رہے کہ
آپؒ امام صاحب ؒ کو ثقہ و ثبت سمجھتے ہے۔اس لئےآپؒ نے ’
تذہیب تہذیب الکمال ‘،’ تذکرة الحفاظ ‘،’ سیر اعلام النبلاء ‘،’ تاریخ الإسلام ‘،’
الکاشف ‘ وغیرہ
اپنی مشاہیر کتابوںمیں امام صاحب ؒ کے خلاف میں کوئی حرف تضعیف کا ذکر نہیں
کیا۔بلکہ صرف آپ ؒ کی تعریف،ثقاہت،مناقب و فضائل ہی بیان کئے ہیں۔
اور پھرامام صاحب ؒکا تذکرہ میزان الاعتدال کے صحیح نسخوںمیں
بھی نہیں کیا۔ اور
جس نسخے میں تذکرہ ملتا ہے ان میں سے کوئی بھی معتبر نسخہ نہیں چنانچہ مخالف ٹولے
نے جو نسخہ دیا اس میں کہیں بھی اس نسخے
کا ’’ڈائرکٹ‘‘ (Direct)
مصنف کے نسخے سے لیا جانا مذکور نہیں۔
بعض لوگ علامہ
ابن الوزير ؒ (م۸۴۰ھ) کی یہ عبارت
پیش کرتے ہیں :
’’ أنّ الذّهبي صنّف كتاب ((ميزان الاعتدال)) وشرط فيه أن يذكر
كلّ من تكلّم عليه من أهل الرّواية للحديث بحقّ أو باطل, قال: ((لئلا يستدرك على
كتابه)) , فلم يذكر فيه زيد بن علي -رضي الله عنهما- مع أنّه من رجال الكتب
السّتّة, على أنّه قلّ ما سلم أحد من ذكره في هذا الكتاب, حتّى إنّه ذكر سفيان
الثّوري, وأويساً القرني, وجعفر الصّادق, ويحيى بن معين, وأبا حنيفة , وعليّ بن المديني۔۔۔ ‘‘
حالانکہ علامہ ابن الوزير ؒ بہت بعد کے ہیں اور بعید نہیں کہ ان کو ایسا
الحاقی ترجمے والا نسخہ ملا ہو جس میں امام صاحب کا تذکرہ ہو ۔
پھر الروض الباسم کےمحقق نے بھی اعتراف کرگیا ہے کہ میزان کے صحیح نسخوں
میں امام صاحب ؒ کا ذکر نہیں ہے۔ چنانچہ محقق نے علامہ ابن الوزير ؒکا رد کرتے ہوئے لکھا :
’’ ﺗﺮﺟﻤﺘﻪ ﺗﻮﺟﺪ ﻓﻲ ﺑﻌﺾ
ﻧﺴﺦ ((اﻟﻤﻴﺰاﻥ)) اﻟﻤﺘﺄﺧﺮﺓ,
ﻭﻟﻴﺲ ﻫﻮ ﻓﻲ ﻧﺴﺨﺔ ﺻﺤﻴﺤﺔ
ﻣﻦ ((اﻟﻤﻴﺰاﻥ)) ﺑﺨﻂ اﻟﺬﻫﺒﻲ,
ﻣﻘﺮﻭءﺓ
ﻋﻠﻴﻪ ﺳﻨﺔ (م۷۴۵ﻫـ) , ﻣﺤﻔﻮﻇﺔ ﻓﻲ اﻟﺨﺰاﻧﺔ اﻟﻌﺎﻣﺔ ﻓﻲ اﻟﺮﺑﺎﻁ,
ﺭاﺟﻌﺘﻬﺎ ﺑﻨﻔﺴﻲ۔‘‘
یعنی امام ابوحنیفہ ؒکا
ترجمہ میزان الاعتدال کے بعض متاخر نسخوں میں
تو ملتا ہے لیکن میزان کے صحیح نسخے میں جو خود مصنف امام ذہبی کے خط سے ہے
اور وہ ان پر (م۷۴۵ھ) میں پڑھی گئی اس میں موجود نہیں اور اس نسخے کو میں
نے خود دیکھا ہے جو رباط میں ’’ اﻟﺨﺰاﻧﺔ اﻟﻌﺎﻣﺔ ‘‘
میں محفوظ ہیں۔ (الروض الباسم : ج ۲ : ص ۳۸۱)
اسکین :
نوٹ : الحمد للہ یہ رباط کےاﻟﺨﺰاﻧﺔ
اﻟﻌﺎﻣﺔ کا
(م۷۴۵ھ) والا مخطوطہ آپ حضرات ملاحظہ فرمائیں جس میں امام صاحب ؒ کا ترجمہ نہیں ہے :
نوٹ
:
یہ رباط
کےالخزانۃ العامۃ والا نسخہ خود امام ذہبی ؒ کے ہاتھ کا لکھا
ہوا ہے۔
اس کی
دلیل یہ ہے کہ مکتبہ فیض اللہ اِفندی ،مخطوطہ
نمبر ۵۱۱ پرامام ذہبی ؒ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ’التلخیص ‘
موجود ہے۔جس کا اسکین آپ حضرات ملاحظہ
فرمائے :
غور فرمائیں ! دونوں کی لکھائی ایک ہی ہے۔معلوم
ہوا کہ یہ نسخہ امام ذہبیؒ کا لکھا ہوا ہے،جس میں امام صاحب ؒ کا ترجمہ نہیں ہے۔
اہل حدیث حضرات کا ایک
اصول :
حافظ زبیر
علی زئی غیر مقلد لکھتے ہیں کہ ابن الصلاح نے کہا :ہر دو حدیثوں کے درمیان گول دائرہ
بنا دینا چاہیئے ۔ یہ بات ہمیں ابو الزناد ،،احمد بن حنبل ،ابراہیم الحربی اور ابن
جریر رحمہم اللہ سے پہونچی ہے ۔
میں (ابن
کثیر ) نے کہا : میں نے یہ بات (گول دائرہ کی)امام احمد بن حنبل ؒ کے خط میں دیکھی
ہے ،خطیب بغدادی ؒ نے کہا :دائرے کو خالی چھوڑ دینا چاہیئے پھر جب اس کی مراجعت کریں
تو اس پر نقطہ لگا دیں۔
اس اصول
سے زبیر علی زئی صاحب استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : میرے پاس مسند حمیدی کے جس قلمی
نسخے کی فوٹو اسٹیٹ ہے ،اس میں ہر حدیث کے آخر میں گول دائرہ موجود ہے اور ان دائروں
میں نقطے لگے ہوئے ہیں یعنی یہ صحیح ترین اور مراجعت والا نسخہ ہے ۔الحمد للہ(اختصا
ر فی علوم الحدیث مراجعت زبیر علی زئی ص ۸۶)
اسکین
:
معلوم ہوا
کہ اہل حدیث حضرات کے نزدیک جس نسخے میں گول
دائرہ ہو اور اس میں نقطہ بھی ہو ،وہ صحیح ترین نسخہ ہوتا ہے ۔اور الحمد للہ میزان
الاعتدال کا یہ رباط والا نسخہ بھی ایساہے جس میں گول دائرہ ہے اور نقطہ موجود ہے ،تو
خود اہل حدیث حضرات کے اصول سے ثابت ہوا کہ یہ میزان الاعتدال کا صحیح ترین نسخہ ہے
جس میں امام صاحب ؒ کا ترجمہ نہیں ہے۔
میزان
الاعتدال میں امام صاحب ؒ کا ترجمہ نہ ہونے کی ایک اور عظیم الشان دلیل :
نیز حافظ ابن حجر ؒ (م۸۵۲ھ)
جن کو غیر مقلدین حضرات ’’امیر المو منین فی
الحدیث‘‘ قرار
دیتے ہیں۔ انہوں نے بھی میزان الاعتدال پر تعلیقات تحریر فرمائی جو کہ’’ لسان المیزان‘‘ کے نام سے
مشہور ہے۔ اس میں بھی امام صاحب ؒ کے ترجمہ کا نام نشان تک نہیں ہے۔
میزان
الاعتدال کے دیگر نسخے :
دار
الکتب المصریہ کا مخطوطہ :
دار الکتب المصریہ میں موجود میزان
الاعتدال کے مخطوطے میں بھی امام صاحب ؒ
کے ترجمے کا نام و نشان نہیں ہے۔
اسکین
:
یہ دار
الکتب المصریہ نسخہ (م۷۴۲ھ) کا ہے۔
ولی الدین
اِفندی کا نسخہ :
ترکی کا دار الخلافہ استانبول کے مکتبہ سلیمانی میں ولی
الدین اِفندی کا میزان الاعتدال کا نسخہ ۳
جلدوں میں موجود ہیں۔اس میں بھی امام ابو حنیفہ ؒ کا ترجمہ میں
موجود نہیں ہے۔یہ نسخہ (م۷۷۷ھ) کا
ہے۔
اسکین
:
قارئین
! نعمان کے ترجمے پر غور فرمائے،
اس
میں آپ کو نعمان بن ثابت ابو حنیفہ ؒ کا نام نہیں ملے گا۔
فیض اللہ اِفندی
کا نسخہ :
ترکی کے ہی ایک اور نسخے میں بھی امام صاحب کا ترجمہ
نہیں ہے۔
مکتبہ فیض اللہ اِفندی جو ترکی کا سب سے مشہور کتب خانہ ہیں
اس میں میزان الاعتدال کا مخطوطہ موجود ہیں۔ اس میں بھی امام اعظم ؒ کا ترجمہ نہیں
ہے۔(رقم نمبر ۵۵۸،جلد ۳)
اسکین
:
مکتبہ ظاہریہ کا نسخہ : میزان کا ایک اور
نسخہ دمشق کے مکتبہ ظاہریہ میں بھی موجود ہیں لیکن اس میں بھی امام صاحب ؒ کا
ترجمہ نہیں ہے۔
اسکین
:
نوٹ : گول دائرہ اس نسخہ میں بھی موجود ہے۔ تو خود اہل حدیث حضرات
کے اصول سے ثابت ہوا کہ میزان الاعتدال کا یہ نسخہ بھی صحیح ترین نسخہ ہے جس میں امام
صاحب ؒ کا ترجمہ نہیں ہے۔
پھرمیزان الاعتدال کا ایک مطبوعہ نسخہ جس کی تحقیق شیخ محمد رضوان عرقسوسی، شیخ عمار یحاوی، شیخ غیاث
الحاج احمد اور شیخ فادی المغربی وغیرہ
علماءنے کی ہیں۔ جو کہ الرسالہ العالمیہ سے چھپا ہے۔اس میں بھی امام صاحب ؒ
کا ترجمہ نہیں ہے۔ اِن محققیں حضرات نے
حاشیے میں واہی بات کہی ہیں جو ہم محدث عبد الفتاح ؒکے حوالے سے نقل کر آئے ہیں۔
اسکین
:
تو
ان سب سے ثابت ہوتا ہے کہ امام ذہبی کی یہ کتاب جو(م۷۲۹ھ) سے لیکر (م۷۴۷ھ)
تک ان پر پڑھی کی گئی ہے اس کی روشنی
میں آپؒ اپنی زندگی کی آخری مدت میں
امام صاحبؒ کو ضعفاء کی فہرست میں ماننے کے بجائے آپ کی شان یہی سمجھتے
تھےکہ
ان کی جلالت و
عظمت فی النفوس اتنی طے شدہ ہے کہ ان کو ضعفاء کی کتاب میں ذکر نہیں کرنا چاہئے۔یہی
تحقیق کی روشنی درست ہے ۔ واللہ اعلم
نوٹ :
میزان
الاعتدال کے جس تحریف شدہ مخطوطہ میں امام
صاحب کا ترجمہ ملتا ہے۔ ہمارے علم کے مطابق وہ محمد بن سعود یونیورسٹی کی
لائبریری (رقم ۲۴۸۰)، کا نسخہ
ہے۔اور یہ نسخہ میں کئی جگہ تحریف کی کئی ہے۔ مثلاً امام ذہبی ؒ (م۷۴۸ھ) میزان
الاعتدال کے مقدمہ میں فرماتے ہیں : کہ’’ وکذا لا أذکر فی کتابی من
الأئمۃ المتبوعین فی الفروع أحداً ، لجلالتہم فی الاسلام ، وعظمتہم فی النفوس ، مثل أبی حنیفۃ والشافعی والبخاری، فإن ذکرت أحداً منہم
فأذکرہ علی الانصاف ‘‘
اسی طرح ،میں اپنی (اس) کتاب میں،
ان ائمہ میں سے ،جن کی فروعات میں اتباع کی جاتی ہے، کسی کا تذکرہ نہیں کروں گا،چونکہ
اسلام میں ان کا بڑا مقام ہے، اورلوگوں کے دلوں میں انکی عظمت راسخ ہوچکی ہے، جیسے
کہ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام بخاری، اور
اگر کسی کا ذکر کیا بھی تو انصاف کے ساتھ کروں گا۔(میزان کے عام مطبوعہ نسخے)
لیکن
اس محمد بن سود
یونیورسٹی والا نسخہ میں یہ اس طرح ہیں :’’ وکذا لا أذکر فی کتابی من
الأئمۃ المتبوعین فی الفروع أحداً ، لجلالتہم فی الاسلام ، وعظمتہم فی النفوس ،
فإن ذکرت أحداً منہم فأذکرہ علی الانصاف ‘‘
اسکین :
غور فرمائے ! ’’ مثل
أبی حنیفۃ والشافعی والبخاری ‘‘ والے عبارت ہی حذف
کردی گئی ہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نسخے میں کئی جگہ تحریف کی کئی
ہیں۔لہذا یہ نسخہ معتبر نہیں ہے۔
دیوان الضعفاء والی عبارت اور اس کا جواب :
غیرمقلدین امام ذہبی ؒ کے حوالہ سے امام ابو حنیفہ
ؒکو ضعیف ثابت کرنے کےلئے ایک حوالہ یہ بھی
دیتے ہیں کہ امام ذہبی ؒ نےامام صاحب ؒ کو
’دیوان الضعفاء ‘ میں شمار کیا ہے۔(رقم ۴۳۸۶)
الجواب
:
خود
اہل حدیث مسلک کے کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ
نیز امام ذہبی رحمہ اللہ کی یہ کتاب’’دیوان الضعفاء
‘‘ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کی کتاب ’’الضعفاء والمتروكين‘‘
کا اختصار ہے۔ امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’وابن
الجوزي واختصره الذهبي بل وذيل عليه في تصنيفين‘‘ ۔(الإعلان بالتوبيخ لمن ذم التاريخ
ص: 221) خود امام ذھبی بھی لکھتے ہیں: ’’أبو الفرج بن الجوزى كتابا كبيرا في ذلك كنت
اختصرته أولا، ثم ذيلت عليه ذيلا بعد ذيل‘‘۔(ميزان الاعتدال موافق رقم 1/ 2)[4]
معلوم ہوا کہ اہل حدیث حضرات کے نزدیک امام ذہبی ؒ کی کتاب دیوان
دراصل ابن الجوزی ؒ کی کتاب کا اختصارہے۔
تو امام
ذہبی ؒ نے امام صاحب ؒ کا ترجمہ صرف اس وجہ سے ذکر کیا ہے کہ وہ جس کتاب کا اختصار
کر رہے ہیں (کتاب الضعفاء لابن الجوزی )اس میں امام صاحب ؒ کا ترجمہ پہلے سے ہی موجود
تھا ۔صرف اس وجہ سے امام ذہبی ؒ نے امام صاحب ؒ کاترجمہ ذکر کیا ہے۔ نہ کہ اس وجہ سے
کہ وہ ان کے نزدیک ضعیف ہیں۔
نیز خود
اہل حدیث حضرات کے محقق کفایت صاحب لکھتے ہیں کہ ضعفاء والی کتابوں میں کسی راوی کا
ذکر ہونا ،اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ راوی ضعیف کے مؤلفین کے نزدیک ضعیف ہے
۔کیونکہ ضعفاء کے مؤلفین ثقہ روات کاتذکرہ بھی ضعفاء میں یہ بتانے کے لئے کردیتے ہیں
کہ ان پر جرح ہوئی ہے ۔(انوار البدر ص ۱۲۸-۱۲۹)
لہذا اہل
حدیث حضرات سے گذارش ہے کہ وہ اپنے ہی اصول کی روشنی میں دیوان ضعفاء والی روایت کا
جواب سن لیں :
کہ امام
ذہبی ؒ کا دیوان الضعفاء میں امام ابو حنیفہ ؒ کوذکر کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ
وہ ان کے نزدیک ضعیف ہیں ، کیونکہ ضعفاء کے مؤلفین ثقہ روات کا تذکرہ اپنی کتاب میں
یہ بتانے کے لئے کرتے ہیں کہ ان پر جرح ہوئی ہے ۔
امید ہے
کہ اہل حدیث حضرات اس اعتراض سے باز رہیں گے ۔
اگر کسی
کو اطمینان نہیں ہو رہا ہے اور وہ امام صاحب کا دیوان الضعفاء میں ذکر ہونے سے یہ کہہ
رہا ہے کہ امام صاحب ؒ امام ذہبی ؒ کے نزدیک ضعیف ہیں تو اسی دیوان الضعفاء میں عیسی
بن جاریہ ؒ یعقوب القمی ؒ وغیرہ راویوں کو شمار کیا گیا ہے ،جن کو غیر مقلدین دن رات
ثقہ ثابت کرتے ہیں ۔(دیوان الضعفاء رقم :۳۲۷۰،،۴۷۷۴)
کیا ان
کے بارے میں بھی غیر مقلدین یہ کہیں گے کہ یہ دونوں راوی امام ذہبی ؒ کے نزدیک ضعیف
ہیں ؟ جو جواب اس کے متعلق آپ دیں گے وہی جواب ہمارا امام صاحبؒ کے بارے میں ہوگا۔
پس اللہ
تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی حق سمجھنے اور اس کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین!
[1] امام ذہبی ؒ
’’الکاشف‘‘ میں امام صاحب ؒ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : ’’ الإمام ،
فقيه العراق ، أفردت سيرته فى مؤَلف ‘‘ امام ابو حنیفہؒ
امام ہے،عراق کے فقیہ ہے،میں نے ان کی سیرت کو ایک کتاب میں جمع کردیا۔ (یعنی میں
نے ان کے حالات کو ایک کتاب’’ مناقب الإمام
ابی حنیفہ و صاحبیہ ‘‘ میں جمع کردیا ہے)۔(رقم
۵۸۴۵) معلوم ہوا کہ ’’الکاشف‘‘ کو لکھتے وقت امام
ذہبیؒ ’مناقب الإمام ابی حنیفہ
وصاحبیہ‘ تحریر فرماچکے تھے۔ اور ’’الکاشف‘‘ کو امام ذہبیؒ نے تقریباً (م۷۲۰ھ) میں رمضان کے مہینے میں مکمل
کیا۔( الکاشف مع حاشیہ ابن العجمی ؒ :
ج ۱ : ص ۸،طبع دار القبلہ جدہ) نیز تاریخ الاسلام میں بھی امام ذہبیؒ
نے لکھا ہے کہ’’ أخبار
أبي حنيفة رضي الله عنه ومناقبه لا يحتملها هذا التاريخ فإني قد أفردت
أخباره في جزأين ‘‘ ۔ (تاریخ الاسلام : ج ۳ : ص ۹۹۷) اور امام ذہبیؒ نے تاریخ الاسلامکو (م۷۱۴ھ) میں مکمل کیا ہے۔ پھر
(م۷۲۶ھ) میں آپؒ نے اس
میں اضافہ فرمایا۔ (تاریخ الاسلام
تحقیق بشار عواد معروف : مقدمہ ص ۲۱۵،
الحافظ الذہبی مؤرخ الاسلام،ناقد المحدثین ،تالیف عبد الستار شیخ :
ص ۴۵۴) لیکن (م۷۲۰ھ) میں ’’الکاشف‘‘ کو لکھتے
وقت آپ ؒ نے مناقب کا ذکر کیا ہے ، اس سے یہی معلوم
ہوتا ہے کہ امام ذہبیؒ نے (م۷۱۴ھ) سے پہلے ہی مناقب سے
فارغ ہوچکے تھے۔ جبکہ
سیر اعلام النبلاء کو
آپ ؒ نے م۷۳۹ھ تا م۷۴۳ھ میں تحریر فرمایا ہے اور بعض نے کہا
کہ آپؒ نے م۷۳۲ھ میں اس کی
ابتداء فرمائی ہے۔ (الحافظ
الذہبی مؤرخ الاسلام،ناقد
المحدثین ،تالیف عبد الستار شیخ : ص ۴۶۹،نیز
دیکھئے سیر اعلام النبلاء : مقدمہ: ص ۹۲،طبع مؤسسہ الرسالہ) الغرض یہ ساری
تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ذہبی ؒ نے ’مناقب الإمام ابی حنیفہ وصاحبیہ‘ کو
پہلے تصنیف فرمایا اور بعد میں ’سیر
اعلام النبلاء‘ کو۔لہذا سیر اعلام
النبلاء کا قول ناسخ ہوگا۔
[2] تذکرۃ الحفاظ کو امام ذہبی ؒ
نےتقریباً م۷۴۴ھ کے آس پاس مکمل کیا ہے۔ (الحافظ
الذہبی مؤرخ الاسلام،ناقد المحدثین ،تالیف عبد الستار شیخ : ص
۴۶۱)
[3] یاد رہے کہ امام ذہبی ؒ نے
مناقب کو (م۷۱۴ھ) سے پہلے تحریر فرمادیا تھا۔جیسا کہ تفصیل پہلے
گزرچکی۔جبکہ تذہیب تہذیب الکمال کو آپ ؒ نے (م۷۱۶ھ) میں مکمل کیا ۔ اس سے
بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام ذہبی ؒ کا
مناقب والا قول منسوخ ہے۔ اور آپ ؒ کے ناسخ قول کے
مطابق امام اعظم ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰ھ) حدیث میں ثقہ ہیں۔
[4] حوالے کے لئے دیکھئے :
http://forum.mohaddis.com/threads/امام-ابوحنیفہ-رضی-اللہ-عنہ-کا-مقام-ومرتبہ-حافظ-ذہبی-کی-نگاہ-میں.1508/
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں