حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء ؓ (م۹۷ھ)سے
ملاقات :
ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
آپ کا
شمار فتح مصر میں شریک صحابہ میں ہوتاہے،آپ مصر فتح ہونے کے بعد یہیں مقیم ہو گئے
،اور ایک لمبی عمر پانے بعد کے آپ کا انتقال یہیں مصرمیں ہوا۔(حسن المحاضرۃ فی ملوک مصر والقاہرۃ ۱؍۱۷۰)
حافظ ابن
حجر عسقلانیؒ (م۸۵۲ھ) نے
آپ کے ترجمہ میں بحوالہ امام ابوزکریا یحی
بن مندہ(۵۱۱ھ)لکھا
ہے: ’’وہو آخر من مات
بمصر من الصحابۃ رضی اللہ عنہم ‘‘ حضرت
عبداللہ بن حارث بن جز ء رضی اللہ عنہ وہ صحابی
ہیں جو مصر میں رہنے والے صحابہ میں سب سے آخر میں فوت ہوئے ۔(تہذیب التہذیب ۳؍۱۱۹،،اسد
الغابہ ۳؍۲۰۵)
آپ کے
سن وفات سے متعلق مؤرخین کا اختلاف ہے ،لیکن یہ بات یقینی ہے کہ آپ کی وفات ۸۰ہجری
(امام اعظم ؒ کی ولادت )کے بعد ہوئی،جیسا کہ امام ابن عبد البر(م۴۶۳ھ)نے
تصریح کی ہے ۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ۱۳۳۸)
امام ابوبکر
جعابی ؒ (م۳۵۵ھ)جو کہ علم حدیث وتاریخ کے عظیم سپوت ہیں ،فرماتے ہیں ’’مات عبداللہ بن
الحارث بن الجزء الزبیدی سنۃ سبع وتسعین
‘‘ حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی رضی اللہ عنہ
۹۷ہجری
میں فوت ہوئے ۔ (مناقب ابی
حنیفۃ للمکی ص۲۸)
اس اعتبار
سے آپ کی وفات کے وقت امام صاحب ؒ کی عمر ۱۷ سال تھی امام صاحب ؒ نے مکہ مکرمہ میں آپ کے دیدار کاشرف حاصل
کیا تھا ،جیسا کہ امام اعظم ؒ کی حضرت عبداللہ بن جز ء رضی اللہ سے سماعت وروایت حدیث
بیان میں خود امام صاحب ؒ کے حوالے سے آرہاہے ۔ نیز متعدد محدثین نے بھی اس کی گواہی دی ہے۔مثلاً
عظیم
ونامور محدث امام ابو بکر البیہقی ؒ (م
۴۵۸ھ) نے
امام صاحب ؒ کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے ’’ویقال انہ لقی من الصحابۃ عبداللہ بن الحارث بن جزء
الزبیدی وانس بن مالک ‘‘ کہا
جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء الزبیدی رضی اللہ عنہ اور حضرت انس بن مالک
رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی تھی ۔ (المدخل الی السنن الکبری ۱؍۱۶۰)
شیخ الاسلام امام ابن عبد البر مالکیؒ (م۴۶۳ھ) ارقام فرماتے ہیں’’ذکر محمد بن سعد کاتب الواقدی ان ابا حنیفۃ رأی انس بن
مالک وعبداللہ بن الحارث بن جزء ‘‘ امام محمد بن سعد (م۲۳۰ھ) کاتب الواقدیؒ نے ذکر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے حضرت انس
بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء کی زیارت کی تھی۔(جامع بیان
العلم وفضلہ ۱؍۳۵)
امام ابونعیم
اصفہانی ؒ(م۴۳۰ھ) نے
حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کے متعلق تصریح کی ہے کہ ’’لقی بمکۃ‘‘امام ابوحنیفہ ؒ نے مکہ مکرمہ میں ان سے ملاقات کی تھی۔ (مسند الامام ابی حنیفۃ
لابی نعیم ص۲۵)[1]
امام ابن
حجر مکیؒ(م۹۷۰ھ) نے بھی
حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے امام صاحب ؒ کی ملاقات ہونے کی تصریح کی ہے
۔(مرقاۃ المفاتیح ۱؍۷۸،تنسیق
النظام ص۱۰)
نیز امام
ابو حنیفہ ؒ نے سولہ سال کی عمر میں ان سے حدیث بھی سنی تھی ،کما سیأتی تفصیلہ ان
شاء اللہ تعالی ۔
حضرت ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی
اللہ عنہ (م۱۱۰ھ) سے ملاقات :
حضرت عامربن
واثلہ رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جو کہ تمام صحابہ میں سب سے آخر میں فوت ہوئے ،جیسا
کہ پہلے بحوالہ محدثین ومؤرخین گذراہے ۔
یہ بھی
من جملہ ان صحابہ میں سے ہیں ،جن کی زیارت سے امام ابوحنیفہ ؒ مشرف ہوئے ہیں۔چنانچہ
امام حسین بن علی صیمریؒ (م۴۳۶ھ)اور
امام یحی بن ابراہیم سلماسی ؒ(م۵۵۰ھ) نے امام ابو بکر ہلال بن محمد الرأي ؒ(م۳۷۹ھ) ،جو ایک جلیل القدر فقیہ ومحدث ہیں[2] سے نقل
کیا ہے کہ’’وقد ادرک
ابوحنیفۃ من الصحابۃ ایضا عبداللہ بن ابی
اوفی وابا الطفیل عامر بن واثلۃ وہما صحابیان ‘‘ امام ابوحنیفہ ؒ نے جن صحابہ کو پایا ہے ،ان میں سے یہ دو صحابی
حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ
عنہ بھی ہیں ۔(اخبار ابی حنیفۃ ۱؍۷۸،،منازل
الائمۃ الاربعہ ص۸۰)
امام ابن
حجر مکی ؒ (م۹۷۳ھ) کی
تصریح کے مطابق بھی امام صاحب ؒ نے حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی ہے ۔(مرقاۃ
المفاتیح ۱؍۷۸،تنسیق
النظام شرح مسند الامام ص۱۰)
[1] ان حوالوں
سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن سعد ؒ (م۲۳۰ھ) ،امام الحافظ
ابو نعیم ؒ (م۴۳۰ھ)اور امام
البیہقی ؒ (م۴۵۸) وغیرہ حافظ
ابوبکر الجعابی ؒ کے قول ’’مات عبداللہ بن
الحارث بن الجزء الزبیدی سنۃ سبع وتسعین
‘‘ کو صحیح مانتے
ہیں۔والحمد للہ
[2] ریئس احمد سلفی صاحب
بحوالہ میزان الاعتدال لکھتے ہیں کہ
ابوبکر ہلال (م۳۷۹ھ)
کذاب ہے۔ (اللمحات : ج ۲ : ص ۲۵۹)
الجواب :
اول تو میزان کی عبارت اس طرح ہیں کہ ’’ قال ابن غلام الزهري: ادعى لقى شيخ لم يره ‘‘ یعنی
ابن غلام الزھری ؒ کہتے ہیں کہ وہ ایسے شیخ سے ملنے کا دعوی کرتا ہیں جس کو اس نے نہیں دیکھا ۔ (ج۲: ص ۳۱۶) اور غیر مقلدین سے ابن غلام الزھری ؒ کی توثیق مطلوب ہیں۔
دوم یہ کہ ابن غلام الزھری ؒ کی اصل عبارت اس طرح ہیں کہ
ابن غلام الزھری ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ جاءني يومًا بجزء عن محمد بن الحسين بن حميد بن الربيع بن الخراز،
فقال: هذا سماعي، قلتُ في أي سنة كتبت عنه؟ قال كتبت عنه بالبصرة قبل الثلاثمئة ‘‘ ابوبکر
ہلال ایک دن میرے پاس محمد بن الحسین بن
حمید بن الربیع سے مروی (احادیث کا)
جزء لےکر آئے پھر کہا کہ
یہ(احادیث) میں نے ان سے سنی ہیں۔ ابن غلام الزھری ؒ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آپ نے کون سے سال
میں ان سے احادیث لکھی ہیں۔تو ابوبکر ہلال ؒ نے کہا کہ میں نے ان سے بصرہ میں (م۳۰۰ھ) پہلے احادیث لکھی
۔(یہ سب سناکر) اب ابن غلام الزھریؒ حمزہ سہمی ؒ
سے کہتے ہیں کہ ’’ قال أبو
محمد قلتُ له إياك أن تنطق عنه بشيء لأنه لم يدخل البصرة أصلاً ‘‘ یعنی ابوبکر ہلال بصرہ میں سرے سے داخل ہی نہیں ہوئے۔ معلوم ہوا
کہ ابن غلام الزھریؒ نے ابوبکر
ہلال پر
جرح اس لئے کی کیونکہ ان کے نزدیک
ابوبکر ہلال ؒ کبھی بصرہ میں داخل ہی نہیں ہوئے۔
لیکن تحقیق کی روح صحیح بات یہ ہے کہ ابو
بکر ہلال بن محمد الرأي بصریؒ (م۳۷۹ھ) بصرہ گئے تھے۔ دلائل درج ذیل ہیں ۔
۱)
حافظ ابو سعد احمد بن محمد مالینی ؒ (م۴۱۲ھ) [ثقہ ،متقن] کہتے کہ ’’ أنا أَبُو بَكْرٍ هِلَالُ
بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدٍ الرَّازِيُّ بِالْبَصْرَةَ ‘‘ ابو بکر ہلال بن محمد بن
محمد الرازی ؒ نے بصرہ میں ہم
سے بیان کہا۔(مسند الشہاب القضاعی : حدیث نمبر ۷۵۶،وا
سنادہ صحیح)
۲) امام
ذہبی ؒ (م۷۴۸ھ)
حافظ ابن السماک ؒ (م۴۳۴ھ) کے
ترجمے میں لکھتے ہیں کہ ابن السماک نے ابو بکرہلال بن محمد سے بصرہ میں حدیثیں
سنی۔(تاریخ الاسلام : ج۹ :
ص ۵۴۰)
۳) محمد
بن علی بن الطیب (م۴۳۶ھ)
نے
بھی بصرہ میں ابوبکر ہلال کے موجود ہونے
کا تذکرہ کیا ہے۔(تاریخ بغداد : ج۳ : ص ۳۱۲) ان
دلائل سے ابن غلام الزھریؒ کی
بات کا غلط اور ابو بکر ہلال بن محمد کا
صدوق ہونا ثابت ہوتا ہے۔
سوم اس جرح کے ناقل امام
ذہبی ؒ (م۷۴۸ھ)
خودابوبکر ہلال بن محمد کو ’’بصری‘‘ لکھا ہے۔ پھر مزید کہتے بھی ہیں کہ ’’ لم أسمع فيه قدحا ‘‘ میں
نے ان کے بارے میں کوئی جرح نہیں سنی۔(سیر : ج۱۶: ص ۳۳۹- ۳۴۰، تاریخ الاسلام :
ج۲۶: ص
۴۹۲،طبع
التوفیقیۃ،
و طبع دار کتاب العربی ) معلوم ہوا کہ
امام ذہبی ؒ کے نزدیک
بھی ابن غلام الزھریؒ کا قول صحیح نہیں ہے۔
نوٹ : امام
ذہبی ؒ نے ابن صلاحؒ کا قول نقل کیا ہیں
کہ ’’
ضعفوه ‘‘ تو یہ جرح بھی غیر مقلدین کے اصول کے مطابق
مردود ہے۔ کیونکہ اس کا جارح (جرح کرنے والا ) مجہول و نا معلوم ہیں۔(مقالات :
ج۱ : ص ۴۵۳) پھر
یہ جرح بے سند ہے۔اور غیر مقلدین کے نزدیک
بے سند بات جھوٹی ہوتی ہے۔ (نور العینین
: ص ۳۰۸،مقالات ارشاد الحق اثری
: ص ۴۸،سلفی تحقیقی جائزہ : ص ۷۷) پھر اس جرح کے بھی ناقل امام
ذہبی ؒ (م۷۴۸ھ)
نے
کہا کہ ’’ لم أسمع
فيه قدحا ‘‘ جیسا کہ گزرچکا ۔
اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ خود غیر مقلدین کے اصولوں کی روشنی میں
ابو بکر ہلال بن محمد ؒ (م۳۷۹ھ) پر
کوئی جرح ثابت نہیں ہیں۔
امام ابو بکر ہلال بن محمد الرأي البصریؒ (م۳۷۹ھ) کی توثیق :
امام ذہبی ؒ(م۷۴۸ھ) آپ ؒ کو ’شیخ ، معمر‘ کہتے
ہیں۔(سیر : ج۱۶: ص ۳۳۹- ۳۴۰، تاریخ الاسلام :
ج۲۶: ص
۴۹۲،طبع
التوفیقیۃ،
و طبع دار کتاب العربی ) شیخ کہنا غیر
مقلدین کے نزدیک راوی کی توثیق ہے ۔
چنانچہ، غیر مقلدین کے شیخ الحدیث مولانا سلطان محمود صاحب ‘شیخ’ تعدیل کے
الفاظ میں شمار کرتے ہیں ۔ (اصطلاحات المحدثین : صفحہ ۱۷)
امام ذہبیؒ(م۷۴۸ھ)نے
بھی ‘شیخ’ کو تعدیل کے الفاظ قرار دیا ہے۔ (میزان الاعتدال : ج ۱ : ص ۳،۴)
بلکہ اہل حدیث عالم ڈاکٹر سہل حسن صاحب لفظِ تعدیل ’شیخ‘ کو ’صدوق‘ اور ’لابأس بہ‘کے درجہ کی تعدیل
قرار دیتے ہیں، نیز کہتے ہیں کہ ان کی (یعنی جس راوی کو شیخ کہا جائے، اس کی )
احادیث قابل قبول ہے ۔ (معجم الاصطلاحات: ص ۳۲۴) اور غیر مقلد عالم ، اقبال احمد ‘بسکوہری’ صاحب
بھی جس راوی کو شیخ کہا جائے، اس کی روایت کو قابل اعتبار کہتے ہیں ۔ (علوم
الحدیث : ص ۲۸۷، ۲۸۸) معلوم ہوا کہ امام ابوبکر محمد بن ابی اسحاق البخاریؒ کے
نزدیک امام امام ابو بکر
ہلال بن محمد الرأي البصریؒ کی روایت قابل اعتبار اور قابل قبول ہے ۔
پھر حافظ عبد القادر القرشی ؒ (م۷۷۵ھ)
،امام الحافظ ابن السماک (م۴۳۴ھ)
وغیرہ علماء نے کو آپ ؒ کو ’ الإِمَام ابْن أخي الإِمَام ‘،’فقیہ‘
اور کبار علماء اسلام میں شمار کیا ہیں۔(جواھر
المضیہ : ج ۲ : ص ۲۰۶،
الوجیزللسِلفی : ص ۱۲۷، الاشارہ للباجی : ص ۶۶،تحقیق محمد علي فركوس)
لہذا آپ ؒ صدوق امام ہیں اور آپ پر جرح مردود ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں