امام اعظم امام ابو
حنیفہ ؒ تابعی ہیں ۔(معلمیؒ
،ریئس احمد سلفی اور زبیر علی زئی کو جواب)
تحقیق :
حافظ ظہور احمد الحسینی مد ظلہ
ترتیب و حاشیہ :
مفتی ابن اسماعیل
المدنی
ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
امام اعظمؒ کی تابعیت
پر خود آ پ کی اپنی تصریح
امام اعظم ؒ کے تابعی ہونے کی سب سے بڑی دلیل
یہ ہے کہ آپ نے اپنے تابعی ہونے کی تصریح خود فرمائی ہے۔چنانچہ امام حسین بن علی صیمری ؒ(م
۴۳۶ھ)،امام
خطیب بغدادی ؒ(م۴۶۳ھ)اور امام ابن عبد البر مالکی ؒ(م۴۶۳ھ)وغیرہ
محدثین نے بسند متصل خود آپ کا اپنا بیان نقل کیا ہے ،جس میں آپ نے استخراج مسائل
سے متعلق اپنا نقطہء نظر بیان کرتے ہوئے فرمایا :
’’
آخذ بکتاب اللہ فما لم اجد فبسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فان لم اجد فی
کتاب اللہ ولا سنۃ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم اخذت بقول اصحابہ آخذ بقول من شئت منہم وادع من شئت منہم ولا اخرج من
قولہم الی قول غیرہم فاذا انتہی الامر
،اوجاء الی ابراہیم والشعبی وابن سیرین
والحسن وعطاء وسعید بن المسیب وعدد رجالا فقوم اجتہدوا فاجتہد کما
اجتہدوا۔‘‘
میں (کسی
بھی شرعی مسئلے کا حل )کتاب اللہ (قرآن مجید )سے لیتا ہوں اگر اس کا حل قرآن مجید
میں نہیں پاتا تو پھر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لیتا ہوں اور اگر مجھے اس
مسئلے کا حل کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں سے نہیں ملتا تو پھر میں رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے آثار کو لیتا ہوں اور ان میں سے
)جس کا قول مجھے راجح معلوم ہوتا ہے اس کو لے لیتا ہوں اور ان
میں سے جس کا قول مرجوح معلوم ہوتا ہے اس کو چھوڑ دیتا ہوں (لیکن صحابہ کے آثار کی
موجودگی میں کسی غیر صحا بی کاقول نہیں لیتا ہوں اور جب معاملہ ابراہیم نخعی ؒ،شعبی
ؒ ،ابن سیرسن ؒ ،حسن بصری ؒ ،عطابن ابی رباح ؒ ،سعید بن المسیب ؒاور ان جیسے دیگر تابعین
تک پہنچ جائے (تو چونکہ وہ بھی میری طرح مجتہدین تھے ، لہذا
)جیسے انھوں نے اجتہاد کیا ،میں بھی اجتہاد کرتا ہوں ۔ (أخبار أبي حنيفة وأصحابه : ص ۲۴،تاريخ
بغداد : ج ۱۳ : ص ۳۶۵،الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء : ص ۱۴۳-۱۴۴)[1]
ایک اور
روایت میں آپ نے فرمایا :’’فاذا
جاء عن التابعین زاحمتہم‘‘ جب
کوئی مسئلہ تابعین سے آتا ہے تو میں ان کا مقابلہ کرتا ہوں ۔(أخبار أبي حنيفة وأصحابه : ص ۲۴،فضائل ابی حنیفہ واخبارہ
و مناقبہ: ۲۱۴)[2]
اس بیان
میں امام عالی شان صاف تصریح فرمادی ہے کہ آ پ علم واجتہاد میں ان نامور تابعین مجتہدین
کے ہم پایہ ہیں ، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ مجتہد بھی ہیں اور تابعی بھی ہیں
، کیونکہ تابعین مجتہدین کی مزاحمت وہی کرسکتا ہے جو ان ہی کی طرح اجتہاد اور مقام
تابعیت پر فائز ہو ۔
جلیل المرتبت
محدث وفقیہ امام حافظ الدین محمد کردری ؒ(م
۸۲۷ھ)[3]
نے بھی امام اعظم ؒ کے مذکورہ بالا
بیان سے یہی استدلال کیا ہے ۔(منا قب ابی حنیفہ للکردری ص ۲۵،۲۶،۳۵)
امام اعظم ؒ کی تابعیت پر دیگر محدثین
کی تصریحات :
امام اعظم
ابو حنیفہ ؒ کی اپنی تصریح کے علاوہ محدثین
کی ایک بڑی تعداد نے بھی کھلے لفظوں میں آپ کے تابعی ہونے کی تصریح کی ہے ،اور یہ
وہ محدثین ہیں کہ جو اپنی علمیت ثقاہت اور ورع وتقوی میں شہرہء آفاق ہیں،ان اجلہ ء
محدثین میں سے بعض کی تصریحات درج ذیل ہیں
:
(۱) امام مجد الدین ابوالسعادات مبارک ابن الاثیر
الجزریؒ (م۶۰۶ھ) جو
کہ جامع الاصول اور غریب الحدیث وغیرہ جیسی کتب نافعہ کے مصنف اور بتصریح ذہبی ،ؒ الرئیس
العلامہ،البارع الاوحد اور بلیغ تھے، (سیر اعلام النبلاء
: ج۲۱ :ص ۴۸۸) نے امام ابو حنیفہ ؒ کے ترجمہ میں تصریح کی ہے کہ ’’وابوحنیفۃ تابعی بلا خلاف‘‘ امام ابو حنیفہ ؒ کے تابعی ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں
ہے۔ (المختار من مناقب الاخیار :ج۳ : ص۲۹۹)
(۲) امام ابو احمد محمد بن احمد الحاکم الکبیر
ؒ (م ۳۷۸ھ) جو
کہ محدث خراسان الامام الحافظ المجتہد تھے (تذکرۃ الحفاظ للذہبیؒ :ج۳ :ص ۱۲۳)نے امام صاحب کے ترجمے میں لکھا
ہے ’’ نشأ بالکوفۃ ومات ببغداد
ویعد فی التابعین ‘‘ آپ نے کوفہ میں
پرورش پائی اور بغداد میں فوت ہوئے اور آپ کا شما ر تابعین میں ہوتاہے۔(کتاب
الاسامی والکنیٰ :ج۴ :ص ۱۷۵)
(۳) امام محمد بن اسحق المعروف بابن الندیمؒ (م
۳۸۵ھ) جو
کہ قدیم مؤرخ ہیں ،امام ابن الساعی ؒ(م۶۷۴ھ)اور
امام یاقوت الحمویؒ(م۶۲۶ھ) نے ان کی وسعت علمی کی بہت تعریف کی ہے ۔( الدر
الثمین فی اسماء المصنفین :ص۱۹۳، معجم الادباء :ج۵ :ص ۲۲۷)
نامور غیر
مقلد لکھاری مولانامحمد اسحق بھٹیؒ نے بھی ان کو وسیع النظر اور بے انتہا معلومات کا
حامل قرار دیا ہے۔ (الفہرست مترجم :ص۵) موصوف امام اعظم کے ترجمے میں ارقام
فرماتے ہیں ’’وکان من
التابعین ولقی عدۃ من الصحابۃ‘‘ امام ابوحنیفہ ؒ تابعین میں سے ہیں اور آپ نے کئی صحابہ سے
ملاقات کی ہے ۔(کتاب الفہرست:ص۲۵۵)
(۴) امام یوسف بن عبداللہ المعروف بابن عبدالبر
ؒ(م ۴۶۳ھ)جن کو
حافظ ذہبی ؒ شیخ الاسلام اور حافظ المغرب وغیرہ عظیم القاب سے یاد کرتے ہیں
،(تذکرۃ الحفاظ : ج۳ :ص ۲۱۷) انھوں
نے بھی امام اعظم ؒ کو تابعین کے زمرے میں
شمار کیا ہے ۔(کتاب الاستغناء فی معرفۃ المشہورین من حملۃ العلم بالکنیٰ : ج۱ :
۵۷۳)
(۵) امام یحیی بن
ابراہیم سلماسیؒ (م۵۵۰ھ) جو امام ابن عساکر ؒ اورامام ابن الجوزی ؒوغیرہ
جیسے نامور محدثین کے استاذ ہیں ،امام ابن الجوزی ؒ نے ان کے ترجمے میں تصریح کی ہے
کہ ان کو عوام وخواص میں قبول تام حاصل تھا،(المنتظم
: ج۱۸ :ص ۱۰۵) موصوف نے امام صاحب کے مناقب میں لکھا ہے ’’ فأبو حنیفۃ ادرک الصحابۃ رضی اللہ عنہم فہو من
التابعین‘‘ امام ابوحنیفہؒ نے صحابہ
کو پایا ہے ،لہذا آپ تابعین میں سے ہیں۔(منازل الائمۃ الاربعۃ :ص۱۲۹)
(۶)
امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی ؒ(م ۷۴۸ھ) جو علوم حدیث کی ایک عبقری شخصیت ہیں حافظ سیوطی ؒ نے ان کے
ترجمے کا آغاز ان دلنشین القاب سے کیا ہے’’الامام الحافظ محدث العصر خاتمۃ الحفا ظ مؤرخ الاسلام فرد
الدہر الفاہم باعباء ہذہ الصناعۃ ‘‘۔(طبقات الحفاظ :ص۵۱۲)
موصوف نے
امام اعظم ؒ اور آپ کے تلامذہ امام ابو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ کے مناقب میں ایک شاندار
کتاب تالیف کی ہے ، اس میں وہ امام صاحب کا سن ولادت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں ’’وذلک فی حیاۃ جماعۃ من الصحابۃ رضی اللہ عنہم وکا ن من
التابعین لہم ان شاء اللہ باحسان‘‘[4] امام ابو حنیفہ ؒ کی ولادت کے وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک
جماعت موجود تھی ،اور آپ ان شاء اللہ نیکی
میں ان کے تابعین میں سے ہیں ۔ (مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ :ص۱۰)
نیز ذہبی
ؒ نے ان کے ترجمے میں تصریح کی ہے کہ’’الامام یعد من التابعین ‘‘ اورآپ
ایسے امام ہیں جن کا شمار تابعین میں ہوتا ہے ۔(المقتنیٰ فی سرد الکنیٰ :ج۱ : ۲۲۶)
(۷) امام زین الدین عبدالرحیم
عراقی ؒ(م ۸۰۶ھ)جو حافظ ابن حجر ؒ وغیرہ محدثین کے استاد ہیں اور بہ
قول امام سیوطیؒ :الامام الحافظ اور حاٖفظ العصر تھے،(طبقات الحفاظ :ص۵۴۳) انہوں
نے مشہور راوی حدیث عمرو بن شعیبؒ (م ۱۱۸ھ) کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’انہ قد روی عنہ جماعۃ کثیرون من التابعین‘‘ (ان سے تابعین کی ایک بڑی جماعت نے حدیث روایت کی ہے )
اور پھر
حافظ موصوف نے ان تابعین کے جو اسماء گنوائے ہیں ان میں انھوں نے اما م اعظمؒ کا اسم
شریف بھی گنوایا ہے ۔ (التقیید والایضاح شرح مقدمۃ ابن الصلاح :ص۱۳۲ ، نیز دیکھئے فتح المغیث للسخاویؒ :ص۳۷۳)
(۸) امام برھا ن الدین ابراہیم ابن موسی ابناسی ؒ (م ۸۰۲ھ)بھی حافظ ابن حجرؒ وغیرہ
نامور محدثین کے استاذ اور جلیل المرتبت محدث ہیں،(ذیل الدرر الکامنۃ فی اعیان المائہ الثمانیۃ لابن حجرؒ :ص۴۳، ۴۴ ، الضوء اللامع فی اعیان القرن التاسع للسخاویؒ
:ج۱ :ص ۱۷۳) انہوں نے بھی امام ابو
حنیفہ ؒ کو عمرو بن شعیبؒ سے روایت کرنے والے تابعین کی فہرست میں ذکر کیا ہے ۔ (الشذ
الفیاح من علوم ابن الصلاح :ج۲ : ۵۴۰)
(۹) امام شمس الدین محمد بن ابوبکر دمشقی المعروف
بہ ابن ناصرالدین ؒ(م۸۴۲ھ )جو کہ نامور حافظ حدیث اور متبحر محدث ہیں، ( طبقات
الحفاظ :ص۵۵۰، القبس الحاوی لغرر ضوء السخاوی :ج۲ : ص۲۴۹۔۲۵۲، الدارس فی تاریخ
المدارس :ج۱ :ص۳۲، ۳۳) وہ بھی امام اعظم ؒ کو تابعی قرار دیتے ہیں ۔چنانچہ موصوف
امام اعظم کے تلمیذ رشید امام قاضی یوسف ؒ (م ۱۸۲ھ)کے
ترجمے میں لکھتے ہیں ’’وکتب
العلم عن طائفۃ من التابعین‘‘ (امام ابو یوسف ؒ نے تابعین کی ایک جماعت سے علم لکھا ہے ۔
اور پھر
موصوف نے امام ابو یوسف ؒ کے ان تابعین اساتذہ
میں سب سے پہلے امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا تذکرہ کیا ہے۔یہ اس بات کی واضح دلیل
ہے کہ امام ابن ناصرالدین ؒ کے نزدیک امام
ابو یوسف ؒ کے تابعی اساتذہ میں امام اعظم ؒ سرفہرست ہیں ۔ (التبیان لبدیعۃ البیان : ج۱ :ص ۴۴۹)
(۱۰) امام احمد بن علی عسقلانی المعروف بہ ابن حجرؒ
(م ۸۵۲ھ)کے محدثانہ
مقام سے کون ناواقف ہوگا ؟ حافظ سیوطیؒ نے ان کو شیخ الاسلام ،امام الحفاظ فی زمانہ
،حافظ الدیار المصریہ اور حافظ الدنیا کے القاب سے خراج تحسین پیش کیا ہے، (طبقات
الحفاظ:ص۵۵۴) موصوف اپنے ایک فتوے میں امام اعظمؒ کے بارے میں رقمطراز ہیں ’’انہ ادرک جماعۃ من الصحا بۃ کانو ا بالکوفۃ
بعد مولدہ بھا سنۃ ثمانین فہو من طبقۃ التابعین‘‘ امام ابو حنیفہ ؒ نے صحابہ کی ایک جماعت سے ملاقات کی ہے جوکہ
آپ کی سن ولادت۸۰ھ کے بعد کوفہ میں سکونت پذیر تھے ،اس لئے آپ تابعین کے طبقے میں سے ہیں ۔ (الخیرات
الحسان:ص۴۸)
(۱۱) امام ابن حجرؒ کے شاگرد رشید امام شمس الدین محمد بن عبدالرحمن
السخاوی ؒ(م ۹۰۲ھ)جن کی
بابت امام نجم الدین غزیؒ (م ۱۰۶۱ھ)نے الشیخ ، الامام ،العلامہ ، المسند ، الحافظ اور المتقن وغیرہ
القاب استعمال کیے ہیں۔(
الکواکب السائرۃ باعیان المائۃ العاشرۃ :ج۱ :ص ۵۳) انہوں نے امام صاحبؒ
کے بارے میں لکھا ہے ’’احد
من عد فی التابعین‘‘ آپ
ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو تابعین میں شمار ہوتے ہیں ۔(فتح المغیث شرح الفیۃ
الحدیث للسخاویؒ :ج۳ :ص ۲۵۷)
(۱۲) شارح بخاری امام احمد بن محمد قسطلانیؒ(م۹۲۳ھ)جو امام سخاویؒ کے شاگرد اور امام غزیؒ کی تصریح کے مطابق الامام ، العلامہ ،الحجۃ الرحلہ ،الفہامہ ، الفقیہ النبیہ ، المقی المجید
،المسند المحدث تھے،( الکواکب
السائرۃ :ج۱ :ص ۱۲۸) یہ عظیم الالقاب محدث بھی امام اعظم ؒ تابعین کے زمرے میں
شمار کرتے ہیں ،چنانچہ وہ اپنی شرح بخاری میں ایک مسئلے کے ذیل میں رقمطراز ہیں :
’’ہذا مذہب من الصحابۃ کابن عباس وعلی ومعاویۃ وانس بن مالک وخالد وابی ہریرۃ وعائشۃ وام ھانئی ومن
التابعین الحسن البصری وابن سیرین والشعبی
ابن المسیب وعطاء وابوحنیفۃ۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ جمہور
کا مذہب ہے چنانچہ صحابہ میں سے حضرت ابن عباس
،حضرت علی ، حضرت معاویہ ، حضرت انس بن مالک ، حضرت خالد بن الولید ،حضرت ابو ہریرہ ،حضرت عائشہ اور حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہم
اور تابعین میں سے امام حسن بصری ،امام محمد
بن سیرین ،امام شعبی ،امام سعید بن المسیب ،امام عطاء بن ابی رباح اور امام ابو حنیفہ
رحمھم اللہ اسی کے قائل ہیں ۔ (ارشاد الساری شرح صحیح البخاری :ج۱ :ص ۳۹۰)
اس بیان
میں امام قسطلانی ؒ نے امام ابو حنیفہ ؒ کے
تابعین میں سے ہونے کی کھلم کھلا تصریح کردی ہے ۔
(۱۳) امام جلال الدین عبدالرحمن بن ابوبکر سیوطی
ؒ (م ۹۱۱ھ)مشہور
صاحب التصانیف محدث ہیں ،امام غزی ؒ(م۱۰۶۱ھ)نے ان کے ترجمے کاآغاز الشیخ، الامام ،المحقق ، المسند، الحافظ اور شیخ الاسلام کے القاب سے کیا ہے ۔( الکواکب السائرۃ :ج۱ :ص ۲۲۷ ،
القبس الحاوی لغرر ضوء السخاوی :ج۱ : ص۳۳۰۔ ۳۳۳) امام موصوف بھی امام ابو حنیفہ
ؒ کو
تابعین میں سے قرار دیتے ہیں ،چنانچہ انہوں نے اپنی تاریخ مصر میں جب وہاں کے تابعین کا ذکر کیا تو ان کو تین طبقات میں
ذکر کیا ،اور ان میں سے تیسرے طبقے کا تعارف کراتے ہوے انہوں نے اس کا عنوان یوں قائم
کیا :طبقۃالاعمش وابی حنیفۃ (امام
اعمش اور امام ابوحنیفہ ؒ کا طبقہ)۔(حسن المحاضرۃ فی اخبار مصر والقاہرۃ : ج۱ :ص ۲۳۰)
گویا امام
سیوطیؒ کے نزدیک امام ابوحنیفہ ؒ اور آپ استاذحدیث امام اعمش ؒ کا تابعین میں سے ہونا اس قدر یقینی اور واضح ہے کہ ان کے
معاصرین تابعین کا تعارف کراتے ہوئے ان کے طبقے کو ان دو عظیم ہستیوں کے نام سے معنون
کرنا ہی منا سب ہے ۔
نیز سیوطیؒ
نے بحوالہ حافظ عراقی ؒ،امام اعظم ؒ کو عمرو بن شعیبؒ سے روایت کرنے والے تابعین کی
فہرست میں ذکر کیا ہے ۔ (تدریب الراوی : ج۲ :ص ۱۱۶)
(۱۴) امام محمد بن یوسف صالحی شافعی ؒ(م ۹۴۲ھ)وسیع العلم محدث ،مؤرخ الشام اور سیرۃ الشامیہ وغیرہ جیسی عظیم
کتب کے مصنف ہیں ،امام عبد الوہاب شعرانی ؒ(م ۹۷۳ھ)نے ان کی بڑی تعریف کی ہے ۔( شذرات الذھب :ج۸ :ص۲۵۰) موصوف
ارقام فرماتے ہیں ’’ اعلم رحمک
اللہ ان الامام ابا حنیفۃ رضی اللہ عنہ من اعیان التابعین ‘‘ جان لے ۔۔ ۔ اللہ تجھ پر رحم کرے ۔۔۔ امام ابو حنیفہ رضی اللہ
عنہ جلیل القدر تابعین میں سے ہیں۔ (عقود
الجمان :ص۴۹)
(۱۵) شارح مشکوۃ امام احمد بن محمد المعروف بہ ابن
حجر المکی ؒ(م ۹۷۳ھ) جو
بتصریح امام غزی ؒ ،، العلامہ اور شیخ الاسلام تھے ، ( الکواکب السائرۃ :ج۳ :ص
۱۰۱، ۱۰۲ ، تاریخ اہل حدیث :ص۴۳۵) نے اپنی شرح مشکوۃ میں امام صاحب کا تعارف کراتے
ہوئے لکھا ہے کہ’’ وھو الامام
الاعظم ،فقیہ اہل ا لعراق ومن اکابرالتابعین‘‘ آپ امام اعظم ،اہل عراق کے فقیہ اور اکابر تابعین میں سے ہیں
۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح للقاری ؒ
:ج۱ :ص ۷۷)
نیز امام
صالحی ؒ اور امام مکی ؒ امام صاحب کے منا قب میں لکھتے ہیں :
فابو حنیفۃ رضی اللہ عنہ من اعیان التابعین وداخل فی قولہ
تعالی : والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم
ورضوعنہ واعد لہم جنت تجری تحتہا الانہر خلدین فیہا ابدا
ذلک الفوزالعظیم ۔(سورۃ
التوبۃ :۱۰۰)
امام ابو
حنیفۃ فضلاء تابعین میں سے ہیں ،اور اللہ تعالی کے اس ارشاد میں داخل ہیں :اور جن لوگوں
نے ان (صحابہ)کی تابعداری کی نیکی میں ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے
، اللہ نے ان کیلئے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں کہ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ،
ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ (عقود الجمان:ص۵۰، ۵۱،
الخیرات الحسان :ص۴۸)
(۱۶) امام مرعی بن یوسف حنبلی مقدسی ؒ (م ۱۰۳۳ھ) بتصریح امام محمد امین المحبیؒ (م۱۱۱۱ھ)، امام
محدث فقیہ اور ذو اطلاع واسع تھے،(خلاصۃ الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر :ج۴ :ص ۴۳۸) انھوں نے امام اعظم ؒ کے ترجمے میں لکھا ہے ’’وکانت ولادتہ فی عصر الصحابۃ ، وہو من التابعین علی
الصحیح ‘‘ آپ کی ولادت صحابہ کے زمانے میں ہوئی اور صحیح قول
کے مطابق آپ تابعین میں سے ہیں ۔(
تنویر بصائر المقلدین فی مناقب الائمۃ المجتہدین :ص۵۲)
(۱۷) صاحب التصانیف محدث امام محمد علی بن محمد علان
مکی شافعی ؒ (م۱۰۵۷ھ) بتصریح
امام محمد امین المحبی واحد الدہر فی
الفضائل (فضائل میں یکتائے زمانہ )،مفسر ، محی السنہ اور علمائے مفسرین اور ائمہ محدثین میں سے تھے،(خلاصۃ
الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر :ج۴ :ص۱۸۳ ، عقد الجواھر والدرر فی اخبار القرن
الحادی عشر :ص۲۷۱۔۲۷۴) انہوں نے امام اعظم ؒکو کبار تابعین میں سے شمار کیا ہے۔(الفتوحات
الربانیۃ علی الاذکار النوویۃ :ج۱ : ص۴۲۲)
(۱۸) امام برہان الدین ابرہیم بن حسن کورانی شافعیؒ
(م۱۱۰۱ھ) جو کہ
بتصریح علامہ شوکانی :الامام الکبیر اور المجتہد تھے، (البدر الطالع بمحاسن من بعد القرن
السابع :ج۱ : ص۱۴) علامہ مرادیؒ نے بھی ان کی بہت تعریف کی ہے، (سلک الدرر
فی القرن الثانی عشر :ج۱ : ص۵) امام موصوف نے اپنی کتاب المسا لک الابرار من حدیث
نبی المختار میں امام اعظم ؒ کی بابت لکھتے
ہیں ’’ فہو من التابعین رضی اللہ عنہ‘‘ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ تابعین میں سے ہیں۔(’’ثبت ابن عابدین
‘‘المسمیٰ عقود اللآلی فی الاسانید العوالی:ص۲۵۵)
(۱۹) امام اسمعیل بن محمد عجلونی الشافعی ؒ (م ۱۱۶۲ھ) جن کو امام محمد بن خلیل مرادی ؒ (۱۲۰۶ھ)نے
الشیخ ، الامام ،العالم ،الہمام
، الحجۃ الرحلۃ ، العمدۃ بالورع، وغیرہ
جیسے عظیم القاب سے ملقب کیا ہے، (سلک
الدرر فی القرن الثانی عشر :ج۱ :ص ۲۵۹) آں موصوف امام صاحب کے بارے میں تصریح کرتے ہیں’’احد من عد فی التابعین ‘‘ آپ ان ائمہ میں سے ایک ہیں جن کا شمار تابعین میں ہوتا ہے
۔(مقدمہ اربعون
العجلونیہ :ص۲۰)
(۲۰) امام محمد بن عبدالرحمن بن الغزیؒ (م ۱۱۶۷ھ) بتصریح امام مرادی : عالم ، فاضل ، محدث ، نحریر تھے،( سلک
الدرر :ج۴ :ص ۵۴) موصوف امام اعظم ؒ کے ترجمے میں ارقام فرماتے ہیں ’’التابعی الجلیل لقی جماعۃ من الصحابۃ ‘‘ آپ جلیل القدر تابعی ہیں اور آپ نے متعدد صحابہ سے ملاقات
کی ہے ۔ (دیوان الاسلام :ج۲ :ص ۱۵۲)
(۲۱) امام احمد بن عبدالمنعم الدمنہوریؒ الشافعی (م۱۱۹۲ھ) جو کہ امام اہل العصر ،علامۃ الوقت اور عالی السند محدث تھے
۔(فہرس الفہارس والاثبات للکتانی ؒ:ج۱ :ص ۴۰۴، ۴۰۵ ، الاعلام للزرکلی :ج۱ : ۱۵۸
) انہوں نے امام اعظم ؒ کے مناقب میں لکھا
ہے ’’ فہو من التابعین علی الصحیح
‘‘ آپ صحیح قول کے مطابق تابعی ہیں
۔ (اتحاف المھتدین بمناقب ائمہ الدین :ص۵۳)
(۲۲) عصر حاضر
کے نامور محقق وادیب شیخ ابو زہرہ مصری ؒ (م ۱۳۹۴ھ) نے
امام اعظم ؒ کے مناقب میں لکھاہے ’’ان
کتاب المناقب جمیعا یذکرون انہ التقی ببعض
الصحابۃ و بعضہم یذکر انہ روی عنہم احادیث ،وانہ ارتفع بذلک الی رتبۃ التابعین ،
ویسبق بہذا الفضل الفقہاء الذین عاصروہ کسفیان الثوری والاوزاعی ومالک وغیرہ من
اقرانہ ‘‘
امام ابوحنیفہ
ؒ کے مناقب نویس سب یہی ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے ملاقات
کی ہے ، اور ان میں سے بعض تو یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے ان صحابہ سے احادیث بھی روایت کی ہیں۔چنانچہ
اسی وجہ سے آپ کو تابعین کے رتبے پر فائز مانا گیا ہے ۔اور اس شرف تابعیت کی وجہ سے
آپ کو اپنے معاصر فقہاء جیسے امام سفیان ثوری ؒ ،امام اوزاعی ؒ ،امام مالک ؒ اور آپ
کے دیگر معاصر ائمہ پر برتری حاصل ہے ۔(ابوحنیفۃ حیاتہ عصرہ، آراءہوفقہہ :ص۵۹)
[1]تاریخ
بغداد : ج ۱۳ : ص ۳۶۵ میں امام خطیب البغدادی ؒ (م۴۶۳ھ) نے اس
کی سنداس طرح بیان کی ہیں :
أخبرنا أبو سعيد محمد بن موسى بن الفضل
الصيرفي، حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب الأصم، حدثنا محمد بن إسحاق الصاغاني،
حدثنا يحيى بن معين قال: سمعت عبيد بن أبي قرة يقول: سمعت يحيى بن
ضريس يقول..
أبو سعيد محمد بن موسى بن الفضل الصيرفي
ؒ (م۴۲۱ھ) ثقہ ہیں۔( تاريخ الإسلام : ج ۹: ص ۳۶۹)،أبو
العباس محمد بن يعقوب الأصم (م۳۴۶ھ) بھیثقہ ہیں ۔ (الرّوض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم : ج ۲ : ص ۱۲۸۱)،
محمد بن إسحاق الصاغانيؒ (م۲۷۰ھ) ثقہ ثبت راوی ہیں۔(تقریب
: رقم ۵۷۲۱)، امام يحيى بن معين ؒ(م۲۳۳ھ) تو ثقة حافظ مشهور
إمام الجرح و التعديل ہیں۔(تقریب : رقم ۷۶۵۱)،عبيد
بن أبي قرة البغداديؒ بھی ثقہ اور صدوق
ہیں۔ (کتاب الثقات للقاسم : ج ۷
: ص ۵۴)، يحيى بن ضريسؒ کو امام يحيى بن معينؒ نے ثقہ قرار دیا ہے۔ (تاريخ ابن معين رواية عثمان الدارمي : رقم ۸۶۷) لہذا یہ سند صحیح
ہے۔
امام
ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶ھ) کے الفاظ یہ ہیں :
حدثنا أبو الحسن علي بن الحسن الرازي قال
ثنا أبو عبد الله الزعفراني قال ثنا أحمد بن أبي خيثمة قال سمعت يحيى بن معين يقول
حدثني عبيد بن أبي قرة قال سمعت يحيى بن الضريس قال شهدت سفيان الثوري وأتاه رجل
له مقدار في العلم والعبادة فقال له يا ابا عبد الله ما تنقم على أبي حنيفة قال
وما له قال سمعته يقول قولا فيه إنصاف وحجة أنى آخذ بكتاب الله إذا وجدته فلما لم
اجده فيه اخذت بسنة رسول الله والآثار الصحاح عنه
التي فشت في أيدي الثقات عن الثقات فإذا لم اجد في كتاب الله ولا سنة رسول
الله أخذت بقول أصحابه من شئت وأدع قول من شئت ثم لا أخرج عن قولهم إلى قول غيرهم
فإذا انتهى الأمر إلى ابراهيم والشعبي والحسن وابن سيرين وسعيد بن المسيب وعدد
رجالا قد اجتهدوا فلي أن أجتهد كما اجتهدوا ۔( أخبار أبي حنيفة وأصحابه : ص ۲۴)
ابو الحسن علی بن الحسن الرازی ؒ راجح
قول میں ثقہ ہیں۔ (لسان المیزان : ج ۴ : ص۲۱۶)، ابو عبد اللہ الزعفرانی
ؒ (م۳۳۷ھ) بھی ثقہ ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج ۸ : ص ۲۵۱)، حافظ احمد بن ابی خیثمہ ؒ (م۲۷۹ھ) بھی مشہور امام،حافظ اور ثقہ مامون ہیں۔ ( تاريخ الإسلام : ج ۶: ص ۴۸۱)،باقی رواۃ کی تفصیل گزرچکی۔یہ سند بھی صحیح ہے۔ اور الانتقاء والی سند بھی صحیح ہے۔
[2] اخبار أبي حنيفة
وأصحابه
کی سند میں دو راوی کمزور ہیں لیکن فضائل
ابی حنیفہ واخبارہ و مناقبہ کی سند
ثابت ہے۔ ابو العباس احمد بن محمد بن عبد اللہ
بن محمد بن ابی العوام ؒ (م۴۵۴ھ) فرماتے
ہیں :
حدثنی
ابی(یعنی
محمد بن عبد اللہ بن محمد بن ابی العوام ؒ
) قال : حدثنی ابی(عبد اللہ
بن محمد بن ابی العوام ؒ صاحب کتاب) : حدثنی محمد بن احمد بن حماد قال : حدثنی
یعقوب بن اسحاق قال : سمعت محمود بن غیلان قال : ثنا علی بن الحسن بن شقیق قال : سمعت ابا حمزۃ
السکری یقول : سمعت ابا حنیفۃ یقول : اذا
جاء الحدیث الصحیح الاسناد عن النبی ﷺ
اخذنا بہ ، و اذا جاء عن اصحابہ تخیرنا، ولم نخرج من قولھم، و اذا جاء عن التابعین
زاحمناھم۔
ترجمہ
: اگر
نبی کریم ﷺ سےصحیح سند کے ساتھ کوئی حدیث ہم تک پہنچتی ہے تو ہم اسے لے لیتے ہیں ،
اگر آپ کے صحابہ کرام سے منقول ہو تو ان میں سے کسی ایک کے قول کا انتخاب کرتے
ہیں ، مگر ان کے قول سے باہر نہیں نکلتے، اور جب تابعین کا قول آجاتا ہے تو
(اجتہاد کرنے میں )ہم ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔
رواۃ کی تفصیل یہ ہیں : الامام الحافظ عبد اللہ بن محمد بن ابی العوام
ؒ (م۳۳۵ھ) صاحب کتاب فضائل
ابی حنیفہ واخبارہ و مناقبہ ثقہ
اور ثبت ہیں۔
اعتراض :
رئیس احمد سلفی صاحب الامام الحافظ
عبد اللہ بن محمد بن ابی العوامؒ (م۳۳۵ھ)کو،ان بیٹے اور پوتے کو مجہول قرار دیتے ہوئے لکھتے
ہیں کہ ’ مگر یہ تینوں دادا،پوتا اور بیٹا
مجہول ہیں۔ (اللمحات : ج ۱ : ص ۱۵۰) ،زبیر
علی زئی صاحب اور معلمی صاحب نے بھی قریب قریب یہی دعوی کیا ہیں ۔(مقالات : ج ۴ : ص ۳۲۰-۳۲۲، تنکیل : ج ۱
: ص ۲۰)
الجواب : امام عبد
اللہ بن محمد بن ابی العوامؒ (م۳۳۵ھ)کے
بیٹے اور پوتے کا ذکر آگے آرہا ہیں۔ لیکن جہاں تک امام صاحب ؒ کی بات ہے
تو امام محمد بن یوسف الصالحی الدمشقی ؒ (م۹۴۲ھ)
نے آپ ؒ کو ثقہ اور ثبت قرار دیا ہے۔(عقد الجمان : ص ۴۹) حافظ عبد القادر
القرشی ؒ (م۷۷۵ھ) الامام،القاضی
الکبیر،العالم اور الفاضل کہتے ہیں۔ (الجواهر
المضية : ج۱ : ص ۱۰۸،۲۸۲،۱۰۶)
معلوم
ہوا کہ امام عبد اللہ بن محمد بن ابی
العوامؒ (م۳۳۵ھ) ثقہ اور ثبت ہیں اور
معلمی،رئیس سلفی اور علی زئی کا اعتراض مردود ہے۔
نوٹ:ممکن ہے کہ یہاں پر کوئی کہے امام عبداللہ بن ابی العوام ؒ (م۳۳۵ھ) کی توثیق معتبر نہیں ہے کیونکہ ان کی توثیق صدیوں بعد پیدا
ہونے والے امام محمد بن یوسف صالحی الدمشقی ؒ (م۹۴۲ھ) نے کی ہے،یعنی یہ راوی امام عبداللہ بن ابی العوام کئی صدیوں تک مجہول تھے ۔
تو عرض
ہے کہ :
اول تو حافظ محمد
بن یوسف الصالحی ؒ (م۹۴۲ھ) بذات
خود بہت بڑے شیخ ،عالم ،امام ،محدث ،مؤرخ ،متبع سنت ،خاتم المحدثین اور ثقہ حافظ ہیں
۔(شذرات الذہب :ج ۰ :۱ص
۳۵۳-۳۵۴،فہرس
الفہارس لعبد الحی الکتانی :ج ۲: ص۱۰۶۳،الرسالۃ المستطرفۃ: ص ۱۹۹) لہذا ان کی بات کا انکار
باطل و مردود ہے ۔
دوم
جہاں
تک صدیوں کے بعد پیدا ہونے والے عالم کی توثیق کرنے کی بات ہے ،تو خود زبیر علی زئی
صاحب جزء رفع الیدین کے راوی محمود بن اسحق الخزاعی ؒ کی توثیق ثابت کرنے کے لئے ،پہلا
نام حافظ ابن حجر ؒ (م۸۵۲ھ) کا
دیا ہے، (نورالعینین :ص۵۲۶)
حالانکہ بالاتفاق محمود الخزاعیؒ کی
وفات کے کئی صدی بعد حافظ ؒ پیداہوئے ہیں ۔
تو کیا یہاں بھی محمود الخزاعی
ؒ کے سلسلے میں (بقول غیر مقلدین )حافظ ابن حجر ؒ کی توثیق معتبر نہیں ہوگی ؟کیا یہاں
بھی غیر مقلدین کہہ سکتے ہیں کہ محمود بن اسحق الخزاعی ؒ صدیوں تک مجہول تھے؟آخر یہ
دوغلی پالیسی کب تک چلے گی ؟
مزید ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالی
کا شکر ہے کہ امام عبداللہ بن ابی العوام ؒ (م۳۳۵ھ)کی توثیق علماء نے کی ہے ،ان کو ثقہ اور مضبوط بتایا ہے ۔ مگر
جزرفع الیدین کے راوی محمود بن اسحق الخزاعی ؒ کی توثیق کسی بھی عالم نے نہیں کی ہے۔بلکہ
ابن حجر ؒ کا حوالہ بھی غیر مقلدین کے اصول کی روشنی میں بیکار ہے ۔(تفصیل کیلئے
دیکھئے الاجماع : شمارہ نمبر ۱ صفحہ ۴۱)
لہذا یہ راوی تو اہل حدیث کے اپنے
اصول کی روشنی میں مجہول ہی ہے جس کی وجہ خود ان کے اصول کی روشنی میں جزء رفع الیدین
اور جزء قراء ت امام بخاری ؒ سے ثابت نہیں ہے ۔(اس پر مزید تفصیل آگے آرہی ہے) لہذا یہ وسوسہ ہی باطل ہے اور بلا شک و شبہہ امام
عبداللہ بن ابی العوام ؒ(م۳۳۵ھ) ثقہ
اور ثبت ہیں ۔
دوسرے
راوی محمد بن احمد بن حماد
ہیں ،جو کہ امام الحافظ ابوالبشر الدولابیؒ (م۳۱۰ھ) کے نام سے مشہور ہیں۔
اعتراض
: رئیس احمد ندوی حافظ ابو البشر ؒ الدولابی کو غیر ثقہ اور کذاب
کہتے ہیں ۔(اللمحات : ج ۵: ص ۵۰۸)
زبیر علی زئی صاحب نے بھی امام دولابی
ؒ (م۳۱۰ھ) کو ضعیف کہتے ہیں ۔(مقالات : ج ۱ : ص ۴۵۳)
الجواب
: امام ابوالبشر محمد بن احمد بن حماد الدولابی ؒ (م۳۱۰ھ) جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ۔
امام دارقطنی ؒ (م ۳۸۵ھ) فرماتے ہیں کہ’’
تکلمو افیہ وماتبین من أمرہ الا خیراً‘‘ ان کے بارے میں کلام کیا گیا ہے، ان کے معاملے سے صرف خیر ہی واضح ہوا ہے ۔یعنی
وہ روایت میں معتبر ہیں ۔(سوالات سہمی رقم ۸۲) امام
ذہبی ؒ (م۷۴۸ھ)نے الامام
الحافظ البارع ،(سیر اعلام النبلاء ج۱۴ ص ۳۰۹)اور غیر مقلدین کے نزدیک کیسی راوی کو ’حافظ‘ کہنا اور ثقہ کہنے کے برابر بلکہ اس سے اعلیٰ ہے۔(علوم الحدیث
مطالعہ و تعارف : ص ۲۸۷
،انوار البدر:ص ۶۸) امام
ابن خلکان ؒ (م۶۸۱ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’ کان عالما
بالحدیث والاخبار والتواریخ اعتمد علیہ ارباب ہذا الفن فی النقل فی ہذا الشان وکان
حسن التصنیف وممن یرجع الیہ‘‘ ۔(وفات
الاعیان ج ۴ص ۶۸۱)
امام الحا فظ قاسم بن قطلوبغا ؒ (م
۸۷۹ھ) نے
آپ کو کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ امام مسلمہ بن قاسم ؒ (م۳۵۳ھ) فرماتے ہیں کہ ’’کان ابوہ من اہل العلم بالحدیث
والروایۃ مقدما فیہ وکان مسکنہ بدولاب من ا رض بغداد ،ثم خرج ابنہ محمد بن
احمد عنہا طالبا للحدیث والاثر فأکثرالروایۃ وجالس العلماء وتفقہ لابی حنیفۃ
،وجرد لہ فأکثر ،وکان مقدما فی الروایۃ والعلم بالاثار ومعرفۃ الاخبار ولہ کتب
مؤلفۃ ‘‘۔ (کتاب الثقات للقاسم
ج ۸ص۱۲۳)
امام ابو نعیم ؒ (م۴۳۰ھ) امام ابن قطان ؒ (م ۶۲۸ھ)اور امام ضیا ء الدین مقدسی ؒ (م ۶۴۳ھ)نے آپ کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔(مستخرج ابو نعیم علی
صحیح مسلم :رقم الحدیث ۸۳۵،بیان الوہم ج ۵ ص ۵۹۳،احادیث المختارہ ج ۷ ص ۱۲۰ ،ج ۱۳ص ۵۴)اور
محدثین کا کسی حدیث کو صحیح کہنا غیر مقلدین کے نزدیک اس روایت روایت کے ہر ہر راوی
کی توثیق ہوتی ہے ۔(انوار البدر : ص ۲۴۶-۲۴۷،وغیرہ) امام سیوطی ؒ (م ۹۱۱ھ)’الحافظ العالم ‘کہتے ہیں ۔اور امام ابن ابی حاتم الرازی ؒ (م ۳۲۷ھ) نے ان سے روایت کی ہے ۔اور غیر مقلدین کے نزدیک امام ابن ابی
حاتم ؒ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں ۔(طبقات الحفاظ للسیوطی ص ۳۲۱،انوار
البدر ص۱۲۴) اور غیر مقلد عالم أبو الطیب نائف بن صلاح بھی ان کو ثقہ، حسن
التصنیف کہتے ہیں ۔(ارشاد القاضی
والدانی الی تراجم شیوخ الطبرانی صفحہ:ص۴۸۸)
معلوم ہوا کہ امام ابو البشر الدولابی
ؒ (م۳۱۰ھ)
جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں اور ان پر جرح مردود ہے۔
تیسرے
راوی یعقوب بن اسحق ہیں ،جن
کا پورا نام یعقوب بن اسحق بن ابی اسرائیل ہے ،جن کے بارے میں امام دارقطنی ؒ (م۳۸۵ھ)نے کہا ہے لابأس
بہ ان میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ (سوالات
حاکم للدارقطنی ؛رقم ۲۴۴)
چوتھے
راوی محمود بن غیلان ؒ (م
۲۳۹ھ)
ہیں جو کہ صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔ (تقریب رقم :۶۵۱۶)
پانچوے
راوی علی بن حسن بن شقیق
ؒ (م۲۱۵ھ)بھی
بخاری اور مسلم کے راوی اور ثقہ ،حافظ ہیں۔(تقریب رقم :۴۷۰۱) ان کے شیخ ابو حمزہ سکری ؒ بھی ثقہ راوی ہیں۔(تقریب رقم ؛۶۳۴۸)، امام اعظم ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰ھ)کی توثیق کے لئے دیکھئے
: (امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا محدثانہ مقام : ص ۳۲۳)
معلوم ہواکہ اس سند کے سارے روی
ثقہ ہیں اوریہ روایت حسن درجہ کی ہے ۔
نوٹ:
کتاب ’’مناقب أبی حنیفہ مناقبہ واخبارہ ‘‘ میں تقریباً ہر حدیث سے پہلے ’’حدثنی ابی قال حدثنی ابی‘‘ موجود ہے یہ در اصل کتاب کے ایک راوی ابو العباس احمدبن محمد
بن عبداللہ بن محمد بن ابی العوام (م۴۵۴ھ) کا قول ہے کہ
’’حدثنی ابی ‘‘
یعنی محمدبن عبداللہ بن محمد بن ابی العوام ’’قال حدثنی ابی ‘‘ یعنی عبداللہ بن محمد بن ابی العوام (م۳۳۵ھ) صاحب کتاب فضائل ابی حنیفۃ مناقبہ واخبارہ ۔
ابوالعباس
احمد بن محمدبن عبداللہ بن محمد بن ابی العوام اور محمدبن عبداللہ بن ابی العوام کی
توثیق :
بعض لوگ انتہائی تعصب میں آکر کہتے
ہیں کہ یہ کتاب امام عبداللہ بن محمد بن ابی العوام ؒ(م۳۳۵ھ) سے ثابت نہیں ہے۔کیونکہ اسکی سند میں یہ دونوں راوی مجہول ہیں
۔حالانکہ ان حضرات کے بارے میں حافظ عبدالقادر القرشی ؒ (م۷۷۵ھ) فرماتے ہیں ’’من
بیت العلماء الفضلاء‘‘ یہ لوگ علماء وفضلاء کے گھرانے سے ہیں ۔
اس سے معلوم ہوا کہ ابوالعباس احمد بن محمد بن عبداللہ بن محمد
بن ابی العوام اور محمد بن عبداللہ بن محمد بن ابی العوام روایت میں صدوق ہیں ۔کیونکہ
(۱)ان پر
کسی امام یا محدث نے جرح نہیں کی ہے۔
(۲)حافظ
عبداللہ بن محمد بن ابی العوام ؒ(م۳۳۵ھ)کی کتاب’’
فضائل ابی حنیفۃمناقبہ واخبارہ‘‘کو امت
نے قبول کیا ہے۔ (مناقب الامام ابی حنیفۃ للذہبی
ؒ:ص۲۲،الاصابہ لابن حجرؒ:ج ۴:ص ۱۱۱،’’رفع
الاصر عن قضاۃ مصر ‘‘لابن حجرؒ :ص۷۴،کشف الظنون للامام حاجی
خلیفہ :ج :۲ص ۱۸۳۸-۱۸۳۹)
اہل
حدیث حضرات کے لئے لمحہ فکریہ :
ایک دوسری کتاب علل ترمذی کے بارے
میں زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ کتاب العلل الکبیر امام ترمذی ؒ سے ثابت ہی نہیں
ہے ،اس کا راوی ابو حامد مجہول الحال ہے (ماہنامہ الحدیث شمارہ ؛۱۰۲ص ۲۷) لیکن چونکہ اس کتاب’’علل
ترمذی ‘‘ میں اہل حدیث محقق کفایت اللہ صاحب کے مسلک کی تائید میں کچھ باتیں تھیں
،اس لئے اس کتاب کا نقل کرنے والا راوی اگرچہ (بقول زئی صاحب)مجہول الحال تھا لیکن
پھر بھی کفایت صاحب کہنے لگے :
یہ کتاب ہماری نظر میں امام ترمذی
ؒ کی یہ ثابت ہے ہمارے ناقص علم کے مطابق اہل
علم میں سے کسی نے بھی اس کتاب کا انکار نہیں کیا ہے ،نیز ابو حامد التاجر کو مجہول
کہنا بھی غلط ہے ،اور کتاب کے ثبوت اور عدم ثبوت کے متعلق علامہ البانی ؒ نے جو اصول
پیش کیا ہے وہی راجح ہے ۔(یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ :ص ۱۱۴)
البانی صاحب کا اصول یہ ہے کہ اگر
کوئی کتاب مشہور ہو اور اہل علم کے ہاتھوں میں عام ہو اور اہل علم نے اس پر اعتماد
کیا ہو ،اس طرح کی کتابوں کے سلسلے میں (کتاب کی سند مجہول ہونے کو یا سند کے راوی
کے معتبر ہونے کی ) کوئی شرط نہیں لگائی جائے گی ۔(یزید بن معاویہ پر الزامات کا
جائزہ : ص ۳۶۳)
خود کفایت صاحب نے بھی امام بلاذری ؒ (م ۲۷۹ھ)کی کتاب
’’انساب الاشراف ‘‘ جس کی سند بھی مجہول ہے اس کتاب کے بارے میں کہتے ہیں کہ مستند
محدثین نے س پر اعتماد کیا ہے اور اس سے بطور حجت روایت نقل کی ہے۔(یزید بن معاویہ
ؓ پر الزامات کا جائزہ :ص ۳۶۲)
لہذجب کتاب علل ترمذ ی اہل حدیث
حضرات کے نزدیک اس لئے معتبر ہو سکتی ہے ،کیونکہ اہل علم نے اس پر اعتماد کیا ہے اور
وہ کتاب ان کے یہاں مشہور ہے ،اگرچہ اس میں ایک راوی (بقول علی زئی )مجہول الحال ہے
،لیکن پھر بھی وہ کتاب اہل حدیثوں کے نزدک قابل قبول ہے۔
تو پھر یہ کتاب ’’فضائل ابی حنیفہ مناقبہ واخبارہ ‘‘ کیوں نہیں معتبر ہو سکتی ؟جبکہ یہ کتاب بھی اہل علم کے درمیان
مشہور ہے اور اہل علم نے اس پر اعتماد بھی
کیا ہے ۔
چنانچہ امام ذہبی ؒ (م ۷۴۸ھ)باحتجاج ’فضائل ابو حنیفہ مناقبہ واخبارہ ‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :وقال ابن ابی العوام القاضی فی فضائل ابی حنیفہ :ثنا
الطحاوی ،ثنا أحمد بن ابی عمران ،ثنا محمد بن شجاع ،عن الحسن بن زیاد ،عن أبی
حنیفۃ قال ربما قرأت فی رکعتی الفجر حزبین من القرآن ۔(مناقب امام اعظم: ص۲۲)
اسی طرح ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲ھ) ’’الاصابہ
:ج۴:ص ۱۱۱‘‘
پر عبداللہ بن شعیب ؓ کا ترجمہ بطور
دلیل نقل کرتے ہیں کہ ’’عبداللہ بن
شعیب ،قرأت بخط مغلطائی ،قال أخرج ابن ابی العوام فی مناقب ابی حنیفۃ من طریق
أبی اسامۃ عنہ ،عن رشدین ،عن طارق بن شہاب ،عن عبداللہ بن شعیب ،عن النبی ﷺ قال :
افضل الاعمال العج والثج۔‘‘
نیز دیکھئے ’رفع الاصر عن قضاۃ مصر ‘ لابن حجر عسقلانی ؒص۷۴،کشف الظنون للامام حاجی خلیفہ ج ۲ص
۱۸۳۹،۱۸۳۸۔
معلوم ہوا کہ یہ کتاب ’فضائل ابی حنیفہ مناقبہ واخبارہ ‘ خود اہل حدیث حضرات کے اصول کی روشنی میں ثابت ہے ۔والحمد للہ
علی ذلک ۔
لیکن
اگر کوئی غیر مقلد یا ایل حدیث اس کتاب کاانکار کرتاہے تو اسے چاہئیے کہ :
(۱)علل
ترمذی کا بھی انکا ر کرے ۔
(۲) سوالات
ابو عبید الآجری
(۳) الانساب
الاشراف للامام بلاذری
(۴) غنیۃ
الطالبین کا بھی انکار کرے ،کیونکہ ان ۳ کتابوں کی سند ہی موجود نہیں ہے ۔
(۵) جزء
رفع الیدین للبخاری اس کتاب کی سند میں ایک راوی محمود بن اسحق الخزاعیؒ مجہول ہے
۔
(۶) جزء
قراء ت خلف الامام کی سند میں بھی محمود بن اسحقؒ مجہول ہے۔
(۷) کتاب
’الضعفاء الصغیر للامام بخاری ‘کی سند میں ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عبداللہ بن
الحسین الفارانی،مجہول راوی ہے ۔
(۸) امام
لالکائی ؒ(م۴۱۸ھ)کی کتاب
’’شرح اعتقاد اصول اہل السنۃ ‘‘کی سند میں ایک راوی بقول زئی صاحب کے کذاب ہے ۔(مشہور
واقعات کی حقیقت :ص۴۵)
اگر غیر مقلدین ان کتابوں کا انکار
نہیں کرتے ،تو آخر کیوں ؟جو جواب وہ ان کتابوں کا دیں گے وہی جواب ہمارا کتاب ’’فضائل ابی حنیفہ مناقبہ واخبارہ ‘‘ کے بارے میں بھی ہوگا ۔
نیز تعجب ہے کہ زبیر علی زئی کتاب
الضعفاء الصغیر کی سند کی تحقیق میں تسلیم
کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عبداللہ بن الحسین الفارانی کا انہیں ترجمہ
نہیں ملا ۔پھر بھی موصوف نے ابو عبداللہ محمد
بن احمد بن عبداللہ بن الحسین الفارانی کو صدوق قرار دیا ہے۔(تحفۃ الاقویاء ص ۹)
آخر ایسا کیوں ؟؟؟؟؟
اسی طرح معلمیؒ (م۱۳۸۶ھ)ایک مجہول الحال راوی محمود بن اسحق الخزاعی کے بارے میں لکھتے
ہیں کہ ’’اذاکا ن اہل
العلم قد وثقوہماوثبتوہما ولم یتکلم احد
منہم فیہما فماذا ینفعک ان تقول لا تثق بہما؟‘‘ جب اہل علم نے ان دونوں (احمد بن محمد بن الحسین الرازی اور
محمود بن اسحق بن محمود القواس البخاری ) کو ثقہ اور ثبت قرار دیا ہے کسی ایک نے بھی
ان پر کوئی کلام نہیں کیا ہے ،تو تمہارا یہ کہنا کہ ہم ان پر اعتماد نہیں کرتے ،کیا
فائدہ دیگا ؟(التنکیل :ج ۲:ص ۷۱۱)
حالانکہ محمودبن اسحق بن محمودا
لقواس بخاری ؒ کو کسی ایک محدث نے بھی ثقہ یا ثبت نہیں کہا ہے ،یہاں پر معلمی صاحب
نے ان کو ثقہ وثبت اسلئے قرار دیا ہے کیونکہ
ان سے مروی کتاب جزء رفع الیدین اور جزء القراء ت پر اہل علم نے اعتماد کیا ہے ۔
عجیب دوغلی پالیسی ہے ؟؟کیونکہ اہل
علم نے ابو العباس احمد بن محمدبن عبداللہ بن محمد بن ابی العوام اور محمدبن عبداللہ
بن محمد بن ابی العوام ؒ سے مروی کتاب فضائل
ابی حنیفہ مناقبہ واخبارہ پر بھی اعتماد کیا ہے ، جیسا کہ حوالے گذرچکے ۔ لیکن ان دونوں
کو معلمی صاحب نے مجہول قرار دیا ہے ۔(جلد ۱ ص ۲۰)
الغرض جب جزء رفع الیدین اور جزء
القرا ء ت کا راوی صرف اس وجہ سے مقبول ہو سکتا ہے کہ اس کی مروی کتاب پر اہل علم نے
اعتماد کیا ہے اور وہ ان کے یہاں مشہور ہے ۔
تو پھر ابو العباس احمد بن محمد
بن عبداللہ بن محمد بن ابی العوامؒ (م۴۵۴ھ) اور محمد بن عبداللہ بن محمد بن ابی العوام بھی مقبول
ہیں،کیونکہ ان سے مروی کتاب پر بھی اہل علم نے اعتماد کیا ہے،اور ان سے مروی کتاب اہل
علم کے یہاں مشہور ومعروف ہے ۔
لہذا معلمی ؒ ،رئیس سلفی اور زبیر
علی زئی کا ابوالعباس احمد بن محمد بن عبداللہ بن محمد بن ابی العوام اور محمد بن عبداللہ
بن محمد بن ابی العوام پر مجہول ہونے کا اعتراض مردود ہے ،اور یہ دونوں حضرات صدوق
ہیں اور یہ کتاب بلا شک وشبہہ امام عبداللہ بن محمد بن ابی العوام (م۳۳۵ھ) کی ہے اور ابن ابی العوام بھی ثقہ ہیں ۔
پھر
اس پوری روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ کے مسلک کی بنیاد صرف
صحیح حدیثوں پر ہے ۔ الحمد للہ
[3] امام حافظ الدین محمد کردری ؒ(م ۸۲۷ھ) کا پورا نام حافظ
الدين محمد بن محمد بن شهاب بن يوسف الكردري الخوارزمي ہیں۔ اور بعض نے نام ’’ محمد بن محمد حافظ الدين بن ناصر الدين العمادي الكردري الحنفي ‘‘بتایا ہیں ۔مشہور
البزازی کے نام سے ہے۔ آپ ؒ صدوق امام ہیں۔ امام ابن تغری بردی ؒ (م۸۷۴ھ) آپ
ؒ کو ’’ العلامة البحر الزاخر ‘‘ کہتے ہیں۔(المنہل
الصافی : ج ۲ : ص ۱۴۱)، امام سخاوی ؒ (م۹۰۲ھ) نے انہی ’ العلماء والكبراء ‘ میں شمار کیا اورکہا کہ’’ بهاء الزاخر مولانا ‘‘ ۔ (الضوء اللامع: ج ۲ : ص ۱۹۵، ص ۱۲۷)، قاضی سعد
الدین ابن الدَّيْريؒ (م۸۶۷ھ) آپ کے بارے میں کہا کہ ’’أنه كان من أذكياء العالم وجامع الفتاوى‘‘۔(الضوء اللامع: ج ۱۰ : ص ۳۷)، فقیہ
شمس الدین ابن الغزی ؒ (م۱۱۶۷ھ) ’
الفقيه الجليل ‘ کہتے ہے۔ (دیوان الاسلام : ج ۱ : ص ۲۷۰)علامہ
حاجی خلیفہ ؒ (م۱۰۶۷ھ) نے آپ ؒ
کو ’
الشيخ الإمام الفقيه ‘ قرار دیا ہے۔ (سلم
الوصول : ج ۳ : ص ۲۳۶) لہذا ٓپ ؒ صدوق ہیں۔
[4] حافظ ذہبی ؒ نے یہاں إن شاء اللہ کا لفظ بطور تاکید استعمال کیا ہے ، جیسا کہ خود موصوف حافظ عبد الغنی بن سعید الازدیؒ (م ۴۰۹ھ) کے ترجمہ میں لکھا ہے ’’ إن شاء اللہ علی معنیٰ التاکید ‘‘ یعنی إن شاء اللہ تاکید کے معنی پر محمول ہے ۔(سیر اعلام النبلاء:ج ۱۷ :ص ۲۶۹) بنابریں حافظ ذہبی ؒ نے اپنے مذکورہ بالا بیان میں بھی امام صاحب ؒ کی تابیعت کو بیان کرتے ہوئے جو إن شاء اللہ کا لفظ استعمال کیا ہے ، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ آپ ضرور تابعین میں سے ہیں ، لہذا ایک جاہل متعصب غیرمقلد محمد رئیس احمد ندوی سلفی کا اس لفظ ان شاء اللہ کی وجہ سے حافظ ذہبیؒ کے اس قول کو شک پر محمول کرنا (اللمحات:ج ۲ :ص ۲۴۰- ۲۴۱) جہاں عقل وفہم سے کوسوں دور ہے ،وہاں یہ خود ذہبیؒ کی اس تصریح کے بھی خلاف ہے، اللہ تعالیٰ ان غیر مقلدین کو صحیح سمجھ نصیب فرمائے ۔ آمین ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں