نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کیا الامام الحافظ ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی (م۳۴۰؁ھ) کذاب اور حدیث گھڑنے والے راوی ہیں ؟ ( زبیر علی زئی کے مضمون کا جواب )

 

کیا الامام الحافظ ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی (م۳۴۰؁ھ) کذاب اور حدیث گھڑنے والے راوی ہیں ؟

( زبیر علی زئی کے مضمون کا جواب )

مولانا نذیر الدین قاسمی

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

 سکین کیلئے 
الاجماع (PDF ) دیکھیں 

علی زئی صاحب ، امام بیہقیؒ (م ۴۸۵؁ھ )سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابو عبد اللہ الحاکم(م ۴۰۵؁ھ) (صاحب مستدرک ) نے فرمایا کہ :

فَسَمِعْتُ أَبَا أَحْمَدَ الْحَافِظُ يَقُولُ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَعْقُوبَ الْأُسْتَاذُ "ینسج الْحَدِيثَ" قَالَ: وَلَسْتُ أَرْتَابُ فِيمَا ذَكَرَهُ أَبُو أَحْمَدَ مِنْ حَالِهِ فَقَدْ رَأَيْتُ فِي حَدِيثِهِ عَنِ الثِّقَاتِ مِنَ الْأَحَادِيثِ الْمَوْضُوعَةِ مَا يَطُولُ بِذِكْرِهِ الْكِتَابُ وَلَيْسَ يَخْفَى حَالُهُ عَلَى أَهْلِ الصَّنْعَةِ۔

پس میں نے ابو احمد الحافظ (حاکم الکبیر(م۳۷۸ ؁ھ) ، صاحب الاسماء والکنی ) کو فرماتے ہوئے سنا : ’’ استاد عبد اللہ بن محمد بن یعقوب حدیث بناتا تھا‘‘۔  (حاکم نیشاپوری نے ) کہا : ابواحمد نے اس کا جو حال بیان کیا ہے ، مجھے اس میں کوئی شک نہیں ، کیونکہ میں نے اس کی حدیثوں میں موضوعات ( من گھڑت ،جھوٹی روایتیں ) دیکھی ہیں ، جن کے ذکر سے کتاب لمبی ہوجائے گی اور اس کا حال حدیث ورجال کے ماہرین پر مخفی نہیں ہے ۔ (کتاب القراءۃ للامام البیہقی ، طبعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت ، لبنان : صفحہ ۱۷۸، حدیث : ۳۸۸ )

الجواب :

زبیر علی زئی صاحب نے اس عبارت میں۲ علماء کی جرح نقل کی ہے ۔پہلی امام ابو احمد الحاکم الکبیرؒ (م ۳۷۸ ؁ھ) کی اور دوسری  امام ابو عبد اللہ الحاکم (صاحب مستدرک) (م ۴۰۵ ؁ھ)کی۔

امام ابو احمد الحاکم الکبیرؒ (م ۳۷۸ ؁ھ)کی جرح کا جواب :

زبیر علی زئی صاحب نے امام ابو احمد الحاکم الکبیرؒ (م۳۷۸؁ھ) سے ینسج الحدیثکے الفاظ نقل کئے ہیں ۔  اول تو امام ابو احمد الحاکم ؒ سے’ینسخ الحدیث‘ مروی ہے نہ کہ ینسج الحدیث۔ خود علی زئی نے اقرار کیا ہے کہ ان کے پاس موجود کتاب القراءۃ للبیہقی کے دونوں مخطوطے میں ینسخ ہے ۔ (مقالات: جلد ۵: صفحہ ۲۳۶)

اسکین :

بلکہ جس مطبوعہ نسخہ کا  زبیر علی زئی صاحب نے حوالہ دیا ہے(یعنی نسخہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت ، لبنان) اس کے محقق نے بھی حاشیہ میں واضح کیا ہے کہ اصل مخطوطہ میں ’ینسخ الحدیث‘ ہے نہ کہ ’ینسج الحدیث‘ ۔

اسکین :

اسی طرح کتاب القراءۃ کا ایک اور نسخہ ہے ، جس کی تحقیق ڈاکٹر ابو بسطام محمد بن مصطفیٰ نے کی ہے ۔ اس میں موصوف نے صفحہ : ۵۱۱ پر ’ینسخ الحدیث‘ ہی نقل کیا ہے ۔ اسکین ملاحظہ فرمائے

لہذا جب ’ینسج الحدیث‘ لفظ ہی ثابت نہیں ہے ، تو علی زئی صاحب کا اسی کو صحیح قرار دینا مردود ہے ۔

نوٹ:     علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ مکتبہ شاملہ کے نسخہ میں (ینسج کے بجائے ) ‘یثبج الحدیث’ ہے ، اور ‘یثبج الحدیث’ کے بارے میں زبیر علی زئی نے ایک اصول ذکر کیا ہے، کہ ‘جس راوی پر جمہور محدثین کی جرح ثابت ہو، تو اس کے بارے میں ’یثبج الحدیث‘ کا مطلب ’یضع الحدیث‘ ہوتا ہےاور اگر اس کے بارے جمہور کی توثیق ثابت ہو، تو اس سے ‘یضطرب فی حدیثہ’ مراد ہوتا ہے ۔ (ص : ۲۳۷)

الجواب :

اول:       تو  یثبج الحدیث کے بارے میں یہ اصول بے دلیل ہونے کی وجہ سے باطل ہے ۔

دوم:       صرف مکتبہ شاملہ کی عبارت کی اندھی تقلید اور اصل کتاب کی طرف رجوع نا کرکے علی زئی صاحب نے ناقص تحقیق کا ثبوت دیا ہے ۔ کیونکہ جس نسخہ کو سامنے رکھ کر مکتبہ شاملہ میں کتاب القراءۃ للبیہقی کو ٹائپ کیا گیا ہے ، وہ وہی بیروت کا نسخہ ہے جس کا حوالہ علی زئی صاحب دے رہے ہیں ، اور جسکے اصل مخطوطہ میں ’ینسخ الحدیث‘کے الفاظ ہیں ، جس کی تفصیل ہم نے اوپر ذکر کردی ہے ۔ معلوم ہوا کہ مکتبہ شاملہ میں ٹائپنگ کی غلطی کی وجہ سے ’ینسخ الحدیث‘کے بجائے ’یثبج الحدیث‘ ہوگیا ہے ۔

لہذا یہ علی زئی صاحب کی اندھی تقلید کا نتیجہ ہے ۔

نیز موصوف پر اس وجہ سے بھی بڑی حیرت ہے کہ جو الفاظ کتاب القراءۃ میں موجود  ہی نہیں ہیں (یثبج الحدیث) ویسے الفاظ تک کی تشریح کرنے چلےہیں، اور وہ بھی بے دلیل ۔

اہل حدیث حضرات کی ضد اور ہٹ دھرمی کی ایک مثال :

شاید زبیر علی زئی صاحب کو کسی بھی حالت میں ابو محمد الحارثیؒ  کو کذاب اور حدیث گھڑنے والا ثابت کرنا تھا، اس لئے انہوں نے ’ینسخ الحدیث‘ کو غلط اور تصحیف ثابت کرنے کیلئے یہ لکھا کہ ‘ممکن ہے کہ یہ تصحیف ہے ، جیسا کہ سیاق وسباق سے ظاہر ہے ، ورنہ ابو محمد الحارثی کے پاس احادیث کو منسوخ کرنے کا اختیار کہاں سے آگیا تھا؟؟

الجواب :

اگر علی زئی صاحب کو ’ینسخ الحدیث‘  کا صرف ایک معنی معلوم تھا یا ان کو عبارت کا ترجمہ سمجھ نہیں آرہا تھا تو کسی جاننے والے سے پوچھ لیتے ۔ الغرض کہنا یہ ہے کہ ’ینسخ الحدیث‘  کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ حدیث نقل کرنا۔  حوالہ کیلئے دیکھئے لسان العرب : جلد ۳ : صفحہ ۶۱۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی ؒ (م ۷۴۸؁ھ)نے ابو محمد الحارثی ؒ کو ’کثیر الحدیث‘  کہا ہے ۔ (تاریخ الاسلام : جلد ۷ : ۷۳۷)  لہذا علی زئی صاحب کی یہ ہٹ دھرمی بھی مردود ہے۔ یہ ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ابو احمد الحاکم الکبیرؒ نے امام حارثی ؒ پر کوئی جرح نہیں کی ۔ اور علی زئی صاحب کا ان کو جارحین میں ذکر کرنا باطل ہے ۔

امام ابو عبد اللہ الحاکم (صاحب مستدرک) (م ۴۰۵ ؁ھ)کی جرح کا جواب :

امام حاکم ؒ (م ۴۰۵ ؁ھ)کے الفاظ پر غور کریں ، آپ ؒ فرماتے ہیں کہ :

قَالَ: وَلَسْتُ أَرْتَابُ فِيمَا ذَكَرَهُ أَبُو أَحْمَدَ مِنْ حَالِهِ فَقَدْ رَأَيْتُ فِي حَدِيثِهِ عَنِ الثِّقَاتِ مِنَ الْأَحَادِيثِ الْمَوْضُوعَةِ

ابو احمد الحاکم ؒ (م۳۸۷ ؁ھ)نے ان کا جو حال بیان کیا (یعنی ابو محمد الحارثی کا کثیر الحدیث ہونا) مجھے اس میں کوئی شک نہیں ۔  پھر ( بھی ) میں نے اس کی حدیثوں میں ثقات سے موضوعات (من گھڑت ،جھوٹی روایتیں ) دیکھی ہیں ۔

اس میں امام حاکم ؒ نے اس بات کی بالکل بھی صراحت نہیں کی ، کہ امام ابو محمد الحارثی ؒ نے وہ حدیثیں گھڑی ہیں ، کیونکہ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ میں نے ان کی حدیثوں میں موضوع حدیثیں دیکھی ہیں ۔

             اور رہی بات کہ ان کا موضوع احادیث روایت کرنا ، تو اہل حدیث مسلک کے کفایت اللہ سنابلی لکھتے ہیں کہ منکر روایت نقل کرنے سے راوی کی تضعیف ثابت نہیں ہوتی ۔ (مسنون رکعات تراویح : صفحہ ۲۳)  اسی طرح نذیر احمد رحمانی غیر مقلد بھی یہی کہتے ہیں ۔ (انوار المصابیح : صفحہ ۱۳۱)  بلکہ اہل حدیث محقق ارشاد الحق اثری صاحب علامہ لکھنوی ؒ سے باحتجاج نقل کرتے ہیں کہ ایسے الفاظ (یعنی روی المناکیر یا یروی المناکیروغیرہ )قابل اعتبار جرح ہی نہیں ہے ۔ (توضیح الکلام : صفحہ ۴۵۴)  اس کی وجہ کفایت اللہ صاحب سے سن لیجئے ، وہ کہتے ہیں کہ ‘مناکیر روایت کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ روایت کرنے والا اس کا ذمہ دار ہے ۔ (انوار البدر : صفحہ ۱۷۲)

الغرض جب اہل حدیث مسلک میں منکر روایت نقل کرنے سے ، یہ لازم نہیں آتا کہ روایت کرنے والا ہی اس کا ذمہ دار ہو،  تو موضوع روایت نقل کرنے سے یہ کہاں لازم آئے گا کہ نقل کرنے والا ہی اس کا ذمہ دار ہو۔ یعنی خود اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں اگر کوئی راوی موضوع حدیث نقل کرے ، تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اسی نے اس حدیث کو گڑھا ہو۔

اور یہاں بھی امام حاکم ؒ کے قول کا خلاصہ یہ ہے کہ امام محمد الحارثی ؒ نے موضوع حدیث نقل کی ہے ، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انہوں نے خود وہ حدیثیں گھڑی ہوں، جیسا کہ اہل حدیث کے نزدیک کسی راوی کا منکر روایت نقل کرنے سے لازم نہیں آتا کہ روایت کرنے والا ہی اس کا ذمہ دار ہو۔

لہذا خود غیر مقلدین کے اپنے اصول کی روشنی میں ثابت ہوا کہ کسی راوی کا کوئی موضوع حدیث نقل کرنا یہ کوئی جرح نہیں ہے ۔ اس کی مزید وضاحت امام ذہبی ؒ کی طرف منسوب جرح کے جواب کے تحت آرہی ہے ۔

امام ابن جوزی ؒ (م ۵۹۷ ؁ھ) کی جرح یا علی زئی کی دوغلی پالیسی :

زبیر علی زئی صاحب نے لکھا ہے کہ حافظ ابن جوزی ؒ نے اسے اپنی مشہور کتاب ’کتاب الضعفاءوالمتروکین‘میں ذکر کیا ہے اور (بغیر سند کے کسی ) ابو سعید رواس سے نقل کیا ہے کہ وہ حدیث گھڑنے کے ساتھ متہم تھے ۔ ابن جوزی ؒ کی اپنی جرح تو ثابت ہوگئی اور ابوسعید الرواس کی جرح باسند متصل ثابت نہیں ہے ۔

الجواب :

مسلکی تعصب کی حد ہوگئی ، خود زبیر علی زئی صاحب اسی کتاب  مقالات: جلد ۵ صفحہ۵۵۳ پر اپنے پسند کے ایک راوی ‘عمرو بن یحیٰ’ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ حافظ ابن جوزی ؒ نے امام یحیٰ بن معین وغیرہ کی طرف منسوب غیر ثابت جرح کی بنیاد پر عمرو بن یحیٰ کو کتاب الضعفاء والمتروکین (جلد ۲: صفحہ ۲۳۳، رقم ۲۶۰۱) میں ذکر کیا ہے اور اصل کے کالعدم ہونے کی وجہ سے،       یہ جرح بھی کالعدم ہے ۔  

اسکین :

غور فرمائیے ، زبیر علی زئی نے ابن معین ؒ کی جرح غیر ثابت ہونے کی وجہ سے ، ابن جوزی ؒ کی جرح کو کالعدم کہہ کر رد کردیا ۔  لہذا یہاں بھی ابو محمد الحارثی ؒ پر ابو سعید الرواس کی جرح بھی کالعدم ہونے کی وجہ سے، خود علی زئی کے اصول کی روشنی میں ابن جوزی ؒ کی جرح بھی کالعدم ہونی تھی ۔

لیکن خود اپنا ہی اصول کہ ‘اصل کے کالعدم ہونے کی وجہ سے یہ (ابن الجوزی ؒ کی ) جرح بھی کالعدم ہے’  موصوف نے خوشی خوشی بھلا دیا اور ابو محمد الحارثیؒ کے بارے میں کہہ دیا ابن الجوزی ؒ کی اپنی جرح ثابت ہوگئی ہے ۔

حالانکہ ابن جوزی ؒ نے بقول زبیر علی زئی کے’کسی ابو سعید الرواس‘ سے بغیر کسی سند کے جرح نقل کی ہے ، اور علی زئی صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ جرح ابو سعید الرواس سے ثابت نہیں ہے ، لیکن پھر بھی موصوف نے ابو محمد ؒ کے بارے میں کہہ دیا کہ : ’ابن الجوزی ؒ کی اپنی جرح ثابت ہوگئی‘۔

اسماء الرجال میں علی زئی کی اسی طرح کی من مانیوں اور دوغلی پالیسیوں کی وجہ ، خود فرقہ اہل حدیث کے محقق ،کفایت اللہ صاحب ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ

 ’زبیر علی زئی صاحب اپنے اندر بہت ساری خامیاں رکھتے ہیں، مثلاً خود ساختہ اصولوں کو بلا جھجھک محدثین کا اصول بتاتے ہیں، بہت سارے مقامات پر محدثین کی باتیں اور عربی عبارتیں صحیح طرح سے سمجھ ہی نہیں پاتے  (جیسا امام ابو احمد الحاکم ؒ کا قول ) اور کہیں محدثین کے موقف کی غلط ترجمانی کرتے ہیں (مثال کے طور پر امام حاکمؒ اور امام ذہبی ؒ کی عبارت ) یا بعض محدثین واہل علم کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں،

 جن سے وہ بری ہوتے ہیں اور کسی سے بحث کے دوران مغالطہ بازی کی حد کردیتے ہیں اور فریق مخالف کے حوالہ سے ایسی باتیں نقل کرتے ہیں یا اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کردیتے ہیں،جو اس کے خواب وخیال میں بھی نہیں ہوتی ۔‘ (کیا یزید بن معاویہ سنت کو بدلنے والے تھے : تحریر نمبر ۲ : صفحہ ۲)

اسکین :

پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ غیر مقلدین، اہل حدیث کے نزدیک ابن الجوزی ؒ (م۵۹۷؁ھ)کثیر الوھم ہیں ۔  چنانچہ غیر مقلدین کے ذہبی العصر اور امیر المؤمنین فی اسماء الرجال علامہ معلمی ؒ  (م۱۳۸۶؁ھ) ایک جگہ فرماتے ’لأنہ کثیر الوھم‘ ابن الجوزی ؒ کثیر الوھم ہیں ۔ ( التنکیل : جلد ۱: صفحہ ۴۳۰)

نیز اسی صفحہ پر موصوف  (معلمی ؒ) نے حافظ ذہبی ؒ سے ان   کا کثیر الغلط ہونا بھی نقل کیا ہے ۔ اور  علی زئی صاحب کے نزدیک کثیر الغلط راوی کی منفرد روایت معتبر نہیں ہے ، اور ابن الجوزی ؒ سے پہلے کسی نے ابو سعید الرواس ؒ کی یہ جرح نقل نہیں کی۔

لہذا خود اہل حدیثوں کے نزدیک ابن الجوزی ؒ کے کثیر الوھم ہونے کی وجہ سے ان کی یہ نقل کرد جرح ،انہیں کے اصول میں معتبر نہیں ہے ۔

اور کفایت اللہ سنابلی صاحب لکھتے ہیں کہ امام عقیلی ؒ اور ابن الجوزی ؒ نے انہیں ضعفاء والی کتاب میں ذکر کیا ہے، لیکن ضعفاء والی کتابوں میں کسی راوی کا ذکر ہونا اس بات کو مستلزم نہیں (یعنی لازم نہیں کرتا) کہ وہ راوی ضعفاء والے مؤلفین کے نزدیک ضعیف ہے ۔ (انوار البدر : صفحہ ۱۲۸، ۱۲۹)

اسکین :

             تقریباً یہی بات امام اہل حدیث ابوالقاسم بنارسی اور حافظ شاہد محمود نے بھی بیان کی ہے ۔ (دفاع بخاری : صفحہ ۱۱۲، ۱۱۳) الغرض اس لحاظ سے بھی زبیر علی زئی کا اعتراض باطل ومردود ہے ۔

امام ذہبی ؒ (م۷۴۸؁ھ) کی طرف منسوب جرح کا جواب:

زئی صاحب لکھتے ہیں کہ حافظ ذہبی ؒ نے فرمایا ‘اس نے امام ابوحنیفہ کیلئے (روایت جمع کرکے ) ایک مسند لکھی اور اس میں اپنے آپ کو مشقت میں ڈالا، لیکن اس (کتاب ) میں ایسی عجیب وغریب چیزیں ہیں، جنہیں امام (ابو حنیفہ ) نے اپنی زبان سے (کبھی ) نہیں نکالا، یہ ابو محمد (الحارثی کی زبان ) پر جاری ہوگئی تھی ۔

اس بیان میں حافظ ذہبی ؒ نے حارثی کو کذاب قرار دیا ہے ۔ (مقالات : جلد ۵ : صفحہ ۲۴۰)

الجواب :

امام ذہبی ؒ کی اس عبارت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک امام ابومحمد الحارثی(م۳۴۰؁ھ) نے اپنی مسند میں انتہائی کمزور اور موضوع حدیث نقل کی ہے ، جس کو امام ابو حنیفہ ؒ نے بیان نہیں کیا ۔

یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی ؒ نے ابو محمد ؒ کو ‘دیوان الضعفاء’ میں ذکر کیا، لیکن بجائے کذاب اور حدیثیں گڑھنے والا کہنے کے، ان کے بارے میں صاف فرمایا کہ ’یأتی بعجائب واھیۃ‘ وہ عجیب اور کمزور روایتیں لاتے تھے ۔ (دیوان الضعفاء : رقم ۲۲۹۷) اسکین ملاحظہ فرمائے

بات بالکل واضح ہوگئی کہ امام ذہبی ؒ نے انہیں کمزور اور موضوع حدیثیں نقل کرنے والا بتایا ہے، نہ کہ انہیں کذاب اور حدیثیں گھڑنے والا قرار دیا ہے ۔

لیکن افسوس کہ بیچاری عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے، زبیر علی زئی صاحب نے لکھ دیا کہ ‘اس بیان میں حافظ ذہبی ؒ نے حارثی مذکور کو کذاب قرار دیا ہے ’، جو کہ باطل اور مردود ہے ۔

نیز یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ کسی محدث یا کسی راوی کا کسی کمزور یا موضوع حدیثیں نقل کرنا اس راوی یا محدث پر جرح نہیں ہے،  مگر یہ کہ کسی دلیل سے ثابت ہوجائے کہ اس نے خود وہ حدیث گھڑی ہو ۔

چنانچہ ، امام ترمذی ؒ (م۲۷۹؁ھ)مشہور ثقہ ، حافظ ، اور صاحب السنن ہیں ، ان کی کتاب ’سنن الترمذی‘  صحاح ستہ میں داخل ہے ،   لیکن غیر مقلدین کے محدث، البانی صاحب کی تحقیق میں ترمذی میں ’۱۶‘ موضوع اور من گھڑت حدیثیں ہیں ، دیکھئے :       (سنن ترمذی بتحقیق البانی : حدیث : ۱۷۲،۸۰۱، ۱۸۵۹، ۲۴۹۴، ۲۵۰۵، ۲۶۴۸، ۲۶۸۱، ۲۷۱۴، ۲۷۶۲، ۲۸۸۸، ۳۵۷۰، ۳۶۸۴، ۳۷۰۹، ۳۹۲۳، ۳۹۲۸، ۳۹۳۹)

اور زبیر علی زئی کے نزدیک بھی سنن ترمذی میں’۴‘ حدیثیں موضوع ہیں۔ (انوار الصحیفہ : ضعیف سنن ترمذی : حدیث نمبر ۱۷۲، ۳۰۵۹، ۳۵۴۹، ۳۷۰۹)

ثابت ہوا کہ اہل حدیثوں کے نزدیک امام ترمذی ؒ نے موضوع حدیثیں اپنی کتاب میں نقل کی ہیں ، لیکن موضوع حدیثیں نقل کرنے کے باجود، کوئی ایک غیر مقلد، اہل حدیث بھی امام ترمذیؒ پر جرح نہیں کرتا۔

اسی طرح امام ابن ماجہؒ (م۲۷۳؁ھ)مشہور حافظ الحدیث، ثقہ، اور صاحب السنن ہیں ، ان کی کتاب ’سنن ابن ماجہ‘ بھی صحاح ستہ میں داخل ہے ۔

لیکن البانی صاحب نےابن ماجہ کی ’۴۲‘ حدیثوں کو موضوع قرار دیا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ بتحقیق البانی :  حدیث نمبر ۴۹، ۵۵، ۶۵، ۱۴۱، ۲۲۲، ۲۴۸، ۴۲۴، ۷۱۲، ۸۹۶، ۱۲۴۲، ۱۳۱۶، ۱۳۷۳، ۱۳۸۸، ۱۴۳۷، ۱۴۶۱، ۱۴۸۱، ۱۷۴۹، ۱۷۷۷، ۱۷۸۲، ۱۷۹۷، ۲۱۵۲، ۲۳۰۷، ۲۳۷۳، ۲۵۱۴، ۲۶۱۳، ۲۷۳۶، ۲۷۶۸، ۲۷۷۰، ۲۷۸۰، ۳۱۱۷، ۳۲۲۱، ۳۳۱۸، ۳۳۳۰، ۳۳۵۲، ۳۳۵۸، ۳۵۶۸، ۴۰۵۴، ۴۰۵۷، ۴۰۸۷، ۴۰۹۴، ۴۲۹۷، ۴۳۱۳)

جبکہ زبیر علی زئی نے ،ابن ماجہ کی ‘۲۷‘روایت کو موضوع و من گھڑت بتایا ہے ۔  (انوار الصحیفہ : ضعیف ابن ماجہ : حدیث نمبر : ۴۹، ۵۵، ۶۵، ۱۴۱، ۲۴۸، ۲۶۳، ۴۲۴، ۶۵۷، ۷۵۰، ۱۱۲۹، ۱۲۴۲، ۱۳۱۶، ۱۳۸۸، ۱۴۶۱، ۱۴۶۲، ۱۴۸۵، ۱۷۹۷، ۲۰۳۷، ۲۲۲۵، ۲۳۰۷، ۲۷۶۸، ۲۷۷۰، ۲۷۸۰، ۳۳۵۸، ۳۵۶۸، ۴۰۵۴، ۴۳۱۳)

اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اہل حدیثوں کے نزدیک ابن ماجہ ؒ نے اپنی سنن میں کئی موضوع حدیثیں نقل کی ہیں ، جس کو رسول اللہ ﷺ نے بیان نہیں کیا ہے ۔ لیکن اہل حدیث حضرت ابن ماجہ ؒ پر موضوع حدیثیں نقل کرنے کی وجہ سے کوئی جرح یا لب کشائی کریں گے ؟

پس،جو جواب اہل حدیث حضرات امام ابن ماجہ(م۲۷۳؁ھ) اور امام ترمذی(م۲۷۹؁ھ)کے بارے میں دیں گے ، وہی جواب ہمارا    امام ابو محمد الحارثی(م۳۴۰؁ھ)کے بارے میں ہوگا۔                لہذا یہ اعتراض بھی مردود ہے ۔

امام سلیمانی ؒ ، امام ابن العجمی ؒ ، امام سیوطی ؒ ، اور محدث محمد طاہر پٹنی ؒ وغیرہ کی طرف منسوب جروحات کی حقیقت:

امام ابو الفضل احمد بن علی السلیمانی(م۴۰۴؁ھ) کی جرح کی سند ہی نہیں ہے ، اور زبیر علی زئی نے بھی اسے بے سند تسلیم کیا ہے ، جو کہ خود اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں بے سند ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ہے۔

اسی طرح کی بے سند روایتوں پر اعتماد کرتے ہوئے، امام ابن العجمیؒ(م۸۴۱؁ھ)نے ابو محمد الحارثیؒ کو  ’الکشف الحثیث عمن رمي بوضع الحدیث‘  میں شمار کیا ہے ، اور حدیث گھڑنے والا بتایا ہے ، جو کہ خود اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں صحیح نہیں ہے ۔

امام ابن العجمیؒ  (م۸۴۱؁ھ)کے الفاظ یہ ہیں :  ’عبد اللہ بن محمد بن یعقوب الْحَارِثِيّ الْفَقِيه قَالَ بن الْجَوْزِيّ قَالَ أَبُو سعيد الرواس يتهم بِوَضْع الحَدِيث وَقَالَ أَحْمد السُّلَيْمَانِي كَانَ يضع هَذَا الْإِسْنَاد على هَذَا الْمَتْن وَهَذَا الْمَتْن على هَذَا الْإِسْنَاد انْتهى وَهَذَا ضرب من الْوَضع‘۔ (الکشف الحثیث : صفحہ ۱۵۹)

یعنی ابن العجمی ؒ کی جرح کی بنیاد ابو سعید الرواسؒ اور احمد سلیمانی ؒ کے بے سند اقول پر ہے ۔ علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ ’بے سند کتابوں کے جتنے بھی حوالے ہوں، تحقیقی میدان میں مردود ہوتے ہیں‘۔(مقالات  ۳ : ۳۸۲)  بلکہ موصوف بے سند باتوں کو موضوع من گھڑت کہتے ہیں ۔ (نور العینین  : صفحہ ۳۰۸)ارشاد الحق اثری صاحب نے بھی بے سند روایتوں کو موضوع قرار دیا ہے ۔ (مقالات ارشاد الحق اثری  : صفحہ ۴۸)

اور بقول غیر مقلدین کے ان ہی بے سند موضوع اقوال اور روایات کی بنیاد پر ابن العجمی ؒ نے حارثی ؒ پر جرح کی ہے ، اور غیر مقلدین کے نزدیک اصل جرح پہلے لوگوں کی ہوتی ہے ، جبکہ بعد کے لوگ تو صرف ناقل ہی ہوتے ہیں ، جیسا کہ غیر مقلد محقق، ابو خرم شہزاد کہتے ہیں۔ (کتاب الضعفاء والمتروکین : صفحہ ۹۱)

لہذا خود اہل حدیث حضرات کے اصول میں جب پہلے لوگوں کی جرح ہی ثابت نہیں ہے ، تو بعد والے لوگوں کی جرح کا کیا اعتبار ہوگا۔                         لہذا یہ جرح بھی مقبول نہیں ہے ۔

اسی طرح ، اہل حدیث محقق کفایت اللہ صاحب مؤمل بن اسماعیل ؒ پر ابن حجرؒ کی جرح کا رد کرتے ہوئے، کہتے ہیں کہ :  ’عرض ہے کہ غالباً ابن حجرؒ نے ابن معینؒ کی طرف منسوب ایک قول کی بنیاد پر کہی ہے ، چنانچہ ابن حجر ؒ سے پہلے اس طرح بات    امام ابن معین ؒ سے اب محرز نے نقل کی ہے، لیکن ابن محرز مجہول ہیں ، ان کے ثقہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں‘۔ (انوار البدر  : ۱۷۵)

الغرض جب اہلحدیث کے نزدیک ابن حجر ؒ (م۸۵۲؁ھ) کی جرح اسلئے قبول نہیں ، کیونکہ انکی جرح کی بنیاد ابن معین ؒ (م۲۳۳؁ھ)کے ایک غیر ثابت قول پر ہے ، تو پھر اس طرح خود انہیں کے اصول کی روشنی میں ابن العجمیؒ کی جرح جس کی بنیاد غیر ثابت اقوال پر ہے ، وہ بھی مقبول نہیں ہوگی ۔

اور خود علی زئی  نے بھی ابن الجوزی ؒ کی جرح کو کالعدم قرار دیا ہے ، محض اس وجہ سے کہ ان کے پیش  کردہ اقوال بھی کالعدم ہیں ۔ لہذا علی زئی کے اصول کی روشنی میں بھی ابن العجمی ؒ کی جرح بھی کالعدم ہوگی ، ان (یعنی ابن العجمی ؒ )کے پیش کردہ اقوال کے کالعدم ہونے کی وجہ سے ۔

امام سیوطی ؒ (م ۹۱۱ ؁ھ)کا بھی حوالہ علی زئی نے پیش کیا ہے، حالانکہ امام سیوطیؒ نے صرف اقوال نقل کئے ہیں ، ان کے الفاظ یہ ہیں :

عبد الله بن محمد بن يعقوب البخاري قال في(الميزان): متّهم بوضع الحديث وقال في(المغني) يأتي بعجائب واهية، وقال الخليلي: حدّثونا عنه بعجائب‘۔ ( ذیل اللآلی المصنوعۃ : جلد ۱ : صفحہ ۳۸۶)

اسکین :

اور امام اہل حدیث ابو القاسم بنارسی صاحب کہتے ہیں کہ ‘ نقل امر اس بات کو مستلزم نہیں ، کہ ناقل کا بھی وہی مذہب ہو’۔   (دفاع بخاری : صفحہ ۱۴۴) یعنی اہل حدیثوں کے امام کے نزدیک اگر کوئی محدث کسی بات کو نقل کرے ، تو اس نقل کرنے والے محدث کا اس بات سے متفق ہونا ضروری نہیں ، جس کو اس نے نقل کیا ہے ۔ لہذا علی زئی صاحب کا امام سیوطیؒ کو جارحین میں شمار کرنا خود اپنے امام کے اصول کی روشنی میں مردود ہے ۔

پھر امام سیوطی ؒ کی جرح کی بنیاد بھی بے سند اقوال پر ہیں ہے ۔ بے سند اقوال کے بارے میں، اہل حدیث ‘علامہ’ رئیس ندوی سلفی کہتے ہیں کہ وہ جھوٹے قرار دینے کے لائق ہیں ۔(سلفی تحقیقی جائزہ : صفحہ ۷۷) اسی طرح کی بات علی زئی، اثری صاحب نے بھی کہی ہے ، جیسے کہ حوالے اوپر گذرچکے ۔  لہذا خود اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں بے سند جروحات کالعدم ہیں ، جس کی وجہ سے امام سیوطی ؒ کی جرح بھی کالعدم ہوگی ۔

نیز، اہل حدیث حضرات کے نزدیک امام سیوطی ؒ (م ۹۱۱ ؁ھ) کذاب ہیں ۔ (اللمعات : جلد ۲ : صفحہ ۸۶، احسن الجدال : صفحہ ۵۸۔۵۹) لہذا ان کی جرح کا،  ان کے اصول کی روشنی میں کوئی اعتبار نہیں ۔

اور علی زئی صاحب نے محدث محمد طاہر پٹنی ؒ (م۹۸۵؁ھ) کا حوالہ دیا کہ انہوں نے بھی ابو محمد الحارثی ؒ پر حدیث گھڑنے کی جرح کی ہے ، یہ زبیر علی زئی صاحب کی خیانت ہے ، کیونکہ علامہ پٹنی ؒ  نے اس کی وضاحت نہیں کی ، جرح ابو محمد الحارثی ؒ پر ہے یا کسی اور راوی پر؟

ان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے : ’ كَانَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَاكَ قَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ سِوَاكِي رِضَاكَ عَنِّي وَاجْعَلْهُ طَهُورًا وَتَمْحِيصًا وَبَيِّضْ وَجْهِي مَا تُبَيِّضُ بِهِ أسناني» فِيهِ مُتَّهم بِالْوَضْعِ‘۔ (تذکرۃ الموضوعات : صفحہ ۳۲) اسکین ملاحظہ فرمائے

پس، مجروح کے متعین ( یعنی جس پر جرح کی ہے، اس کا تعین ) نا ہونے کی وجہ سے جرح مقبول نہیں ہے ۔ نیز بقول غیر مقلدین اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ محدث پٹنیؒ کی یہ جرح ابو محمد ؒ پر ہے تو بھی جرح غیر مقبول ہے ، کیونکہ ان کی جرح غیر ثابت اقوال پر مبنی ہے ، جیسا کہ اہل حدیث حضرات کا اصول ہے ۔

لہذا خود اہل حدیث حضرات کے اپنے اصول کی روشنی میں امام ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن یعقوب الحارثیؒ (م۳۴۰؁ھ) پر کذاب اور حدیثیں گھڑنے کی کوئی جرح ثابت نہیں ہے، لہذا انہیں کذاب اور حدیثیں گھڑنے والا قرار دینا باطل ومردود ہے۔

دیگر علماء کی جرح :

حافظ خلیلی ؒ کی جرح :

علی زئی صاحب نے حافظ خلیلی(م۴۴۶؁ھ) سے نقل کیا ہے کہ : ’یعرف لہ بالاستاذ، لہ معرفۃ بھذا الشأن ، وھو لین ، ضعفوہ‘ وہ استاد کے لقب سے معروف ہیں ، انہیں علم کی معرفت تھی اور وہ کمزور ہیں ، انہیں (محدثین نے ) ضعیف قرار دیا ہے ، وہ ایسے حدیث بیان کرتے تھے، جس میں ان کی مخالفت کی جاتی تھی ۔ (مقالات : جلد ۵ :ص۲۳۷)

الجواب :

’لین‘ کے بارے میں کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں کہ یہ بہت ہلکی جرح ہے ، جس سے تضعیف لازم نہیں آتی ہے ۔ (مسنون رکعات تراویح : صفحہ ۲۴)                    لہذا یہ جرح کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔

علی زئی کی دوغلی پالیسی :

خود علی زئی صاحب اپنی کتاب  (مقالات : جلد ۱ : ۴۵۳ ) پر اپنے من پسند راوی پر ایک جرح  ’قالوا: کان یضع الحدیث‘ کو مردود قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں’قالوا‘  کا فاعل نامعلوم اور مجہول ہے ۔

اسکین :

صفحہ : ۴۷۶ پر لکھتے ہیں کہ ’یقال‘کا فاعل نا معلوم ہے اور پھر جرح کو مردود قرار دیا ہے ۔

اسی طرح صفحہ ۴۸۰ پر ایک جرح کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس جرح میں ’کان یقال‘ کا فاعل نامعلوم ہے ، لہذا یہ جرح بھی ساقط ہے ‘۔ صفحہ : ۴۲۹ پر’یقولون أنہ کان یغلط ویختلفون فی حدیثہ‘کی جرح میں کہتے ہیں کہ ’یقولون‘ کا فاعل نامعلوم ہے ۔ الغرض جب زبیر علی زئی کے اپنے من پسند راوی کو ثقہ ثابت کرنا ہوتا ہے، تو اپنے یہ سب اصول پیش کرکے، وہ اپنے راوی کا دفاع اور اس کی جرح کا جواب دے کر اسے ثقہ ثابت کرتے ہیں ۔

لیکن جب ان کو کسی راوی کو ضعیف ثابت کرنا ہوتا ہے یا اپنے مسلک کی خلاف آنے والی روایت کے راوی کو کمزور بتانا ہوتا ہے،  تو موصوف اپنا یہ اصول بھول کراس راوی کو ضعیف قرار دیتے ہیں ۔ بالکل یہی حرکت انہوں نے ابو محمد الحارثی ؒ پر امام خلیلی ؒ کی جرح کے سلسلہ میں کی ہے ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح انہوں نے ’قالوا‘، ’یقال‘ اور ’یقولون‘ کے فاعل نا معلوم ہونے کی وجہ سے جرح کو  رد کردیا، بالکل اسی طرح ’ضعفوہ‘کی جرح بھی اس کا فاعل نامعلوم ہونے کی وجہ سے رد کردینا چاہیے تھا۔

لیکن موصوف نے اپنی دوغلی پالیسی اور احناف سے ان کے تعصب کا ثبوت دیتے ہوئے ‘ضعفوہ’ کا فاعل محدثین کو بتایا ہے۔ (مقالات : جلد ۵ :ص۲۳۷) اسکین ملاحظہ فرمائے

الغرض اس طرح دھوکے اکثر غیر مقلدین علماء بے چاری عوام کو دیتے رہتے ہیں۔

خطیب بغدادی ؒ اور دیگر علماء کی جرح :

علی زئی  نے خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حارثی  ؒ  کو’صاحب عجائب ومناکیر وغرائب‘ اور’لیس بموضع الحجۃ‘ کہا ہے۔ (مقالات : جلد ۵ : صفحہ ۲۳۷، ۲۳۸)

الجواب :

کسی راوی کا منکر، غریب، عجیب، وغیرہ روایت کرنا یہ خود غیر مقلدین کے نزدیک نا جرح ہے اور نا ہی اس سے راوی کا ضعیف ہونا لازم آتا ہے ، جس کے حوالے امام حاکم(م۴۰۵؁ھ)کی طرف منسوب جرح کے جواب میں گزر چکے۔

اور’لیس بموضع الحجۃ‘یا ’لیس بحجۃ‘یا ’لیس بثقۃ‘ یا’غیر ثقۃ‘وغیرہ اسی طرح کی جروحات کے بارے میں  غیر مقلد ریسرچر ڈاکٹر سہل حسن صاحب کہتے ہیں کہ ‘یہ تمام عبارتیں راوی کی جرح کے لئے استعمال ہوتی ہیں اور ان سب کا تعلق ، مراتب جرح میں پہلے مرتبہ سے ہے، جو سب سے ہلکا مرتبہ ہے ۔ نیز، ایسے راویوں کی روایت کو قابل اعتبار بھی بتایا ہے ۔ (معجم اصطلاحات الحدیث : صفحہ ۲۹۰، ۲۹۱) اور یہی جواب حافظ سمعانی ؒ (م۵۶۲ ؁ھ) اور امام ابن الاثیر جزریؒ (م۶۳۰ ؁ھ) کی جرح  ‘لم یکن ثقۃ‘  کا بھی ہے ۔

اسی طرح امام ابن ناصر الدین ؒ (م۸۴۲؁ھ)نے صرف امام سمعانیؒ کا قول’لم یکن ثقۃ‘ نقل کیا ہے، لیکن خود اہل حدیثوں کے اصول ’نقل امراس بات کو مستلزم نہیں ، کہ ناقل کا بھی وہی مذھب ہو‘، سے یہ لازم نہیں آتا کہ ابن ناصر الدین کے نزدیک راوی ضعیف ہو۔ پھر ہم نے حافظ سمعانیؒ کا جواب بھی دے دیا ہے۔

             لہذا یہ عبارت بھی اہل حدیث حضرات کے نزدیک ان کے اصول کی روشنی میں کچھ کام کی نہیں ہے۔  اور علی زئی امام ابو زرعہ احمد بن الحسین الرازی الصغیر ؒ(م۳۷۵؁ھ)سےنقل کیا ہے کہ انہوں حارثیؒ کو ضعیف کہا ہے ، حالانکہ ‘ضعیف’ کو امام اہل حدیث ابو القاسم بنارسی صاحب بے ثبوت اور غیر مفسر جرح قرار دیتے ہیں ۔ (دفاع بخاری : صفحہ ۵۰۰) لہذا خود اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں حارثی ؒ پر کوئی ٹھوس جرح نہیں ہے ۔

نوٹ: اگر بقول غیر مقلدین کے حافظ خلیلیؒ حافظ سمعانیؒ ، امام ابن الاثیرؒ اور حافظ ابو زرعہ الرازی الصغیرؒ کی جروحات کو تسلیم بھی کرلیا جائے ، تو اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوگا کہ امام حارثیؒ میں ضعف اور کمزوری ہے ۔  لیکن اگر ان کا کوئی متابع یا شاہد مل جائے ، تو ان پر یہ ضعیف اور کمزوری والی جرح بھی مردود ہوجائے گی۔

اب امام حارثیؒ (م۳۴۰؁ھ)کی توثیق ملاحظہ فرمائیے :

(۱)       حافظ ابوبکر محمد بن ابی اسحاق البخاریؒ (م۳۸۴؁ھ)امام حارثی ؒ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : الشیخ ، الإمام ، الفقیہ۔     (بحر الفوائد المشہور بمغانی الأخبار : ص ۶۰، ۲۸۶)    

امام اور فقیہ کہنا خود زبیر علی زئی کے نزدیک توثیق ہے ۔ چنانچہ نور العینین : صفحہ ۵۵ پر عثمان بن الحکم المصریؒ کو ثقہ ثابت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ابن یونس مؤرخ مصری نے کہا ہے کہ وہ فقیہ اور متدین تھا۔ ‘اسکین ملاحظہ فرمائے

صفحہ : ۹۴ پر ’الامام الحافظ شیخ الاسلام‘ کے الفاظ کو توثیق میں ذکر کیا ہے ۔

اسی طرح صفحہ : ۵۵ پر ’وکان إماما حافظا رأسا فی الفقہ والحدیث ومجتھدا من أفراد العالم فی الدین والورع والتألہ‘ کے الفاظ کو توثیق بتایا ہے ۔

مقالات: جلد ۵ : صفحہ ۵۵۵ پر ’امام فی القرأۃ ، فقیہ زاھد‘ کے الفاظ کو توثیق میں شمار کیا ہے ۔

مقالات : جلد ۶: صفحہ ۱۲۲ پر علی زئی صاحب احمد بن مسلم ؒ کی توثیق ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حافظ ابن عبد الھادیؒ نے فرمایا کہ ’الامام الحافظ محدث بغداد‘ ۔

مقالات : جلد ۶ : صفحہ ۱۳۴ اور ۱۳۵ پر ’الامام العلامۃ المحدث المسند قاضی الجماعۃ وکان فقیھا عالما‘کے الفاظ کو توثیق میں ذکر کیا ہے ۔

مقالات: جلد ۶: صفحہ ۱۴۵ پر’الامام المحدث المفسر‘ کو بھی توثیقی الفاظ میں شمار کیا ہے ۔  لہذا ثابت ہوا کہ خود ان کے نزدیک بھی کسی راوی کو امام یا فقیہ کہنا توثیق ہے ، مگر موصوف ہمارے راوی کے بارے میں یہ سب باتیں بھول گئے ۔

اسی طرح شیخ کہنا بھی غیر مقلدین کے نزدیک راوی کی توثیق ہے ۔  چنانچہ، غیر مقلدین کے شیخ الحدیث مولانا سلطان محمود صاحب ‘شیخ’ تعدیل کے الفاظ میں شمار کرتے ہیں ۔ (اصطلاحات المحدثین : صفحہ ۱۷) امام ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ)نے بھی ‘شیخ’ کو تعدیل کے الفاظ قرار دیا ہے۔ (میزان الاعتدال : جلد ۱ : صفحہ ۳،۴)

بلکہ اہل حدیث عالم ڈاکٹر سہل حسن صاحب لفظِ تعدیل ‘شیخ’ کو ‘صدوق’ اور ‘لابأس بہ’کے درجہ کی تعدیل قرار دیتے ہیں، نیز کہتے ہیں کہ ان کی (یعنی جس راوی کو شیخ کہا جائے، اس کی ) احادیث قابل قبول ہے ۔ (معجم الاصطلاحات: صفحہ ۳۲۴)  اور غیر مقلد عالم ، اقبال احمد ‘بسکوہری’ صاحب بھی جس راوی کو شیخ کہا جائے، اس کی روایت کو قابل اعتبار کہتے ہیں ۔ (علوم الحدیث : صفحہ ۲۸۷، ۲۸۸)

معلوم ہوا کہ امام ابوبکر محمد بن ابی اسحاق البخاریؒ کے نزدیک امام ابو محمد الحارثیؒ کی روایت قابل اعتبار اور قابل قبول ہے ۔

(۲)       امام  محمد بن الفضل أبو بكر،البُخارِي (م۳۸۱؁ھ)نے آپؒ کو ’الشیخ الفقیہ الحافظ‘  قرار دیا ہے ۔ (بغیۃ الطلب : جلد ۱۰ : صفحہ ۴۳۴۹)

اسکین :

کسی کو فقیہ، شیخ کہنا یہ غیر مقلدین کے نزدیک توثیق ہے، جس کے حوالہ گذرچکے۔

اسی طرح ، غیر مقلدین علماء کے نزدیک اگر کسی راوی کو ‘حافظ’  کہا جائے ، تو یہ ان کے نزدیک اعلیٰ درجہ کی توثیق ہے ، بلکہ’ثقہ‘ اور ’حافظ‘ دونوں ایک درجہ کی توثیق ہیں بلکہ بعض یہاں تک لکھتے ہیں کہ ’حافظ کا درجہ ثقہ سے زیادہ ہے‘۔

ا  ۔ اہل حدیث محقق کفایت اللہ سنابلی صاحب کے نزدیک ’کسی راوی کو حافظ کہنا ، اس کو ثقہ کہنے سے زیادہ بہتر ہے‘  ۔ چنانچہ ابوعبید  الآجری ؒ کو ،

ب ۔ امام ذہبیؒ نے حافظ کہا ہے، تو ان کو ثقہ ثابت کرتے ہوئے سنابلی صاحب لکھتے ہیں کہ امام ذہبیؒ نے ’حافظ‘  کا درجہ ثقہ سے بھی بڑھ کر بتایا ہے ۔ (انوار البدر :  ۶۸)  اسکین ملاحظہ فرمائے

ج ۔ غیر مقلد ریسرچر ڈاکٹر سہل حسن صاحب نے ذکر کیا ہے کہ ابن حجر ؒ نے ’حافظ‘ کو اور اسی طرح ’امام‘ کو ’ثقہ‘،’ثبت‘، ’حجۃ‘ کے درجہ کی تعدیل قرار دیا ہے، جو کہ تعدیل کا تیسرا درجہ ہے ۔ خود سہل صاحب لکھتے ہیں کہ ابن حجرؒ کے نزدیک تعدیل کے تیسرے درجہ کے راویوں کی روایت قابل قبول اور قابل حجت ہے۔ (معجم اصطلاحات الحدیث : ۴۱۴۔۴۱۵)

د ۔ بقول شیخ بدیع الدین شاہ راشدی کے ،(التنقید الشدید : صفحہ ۳۲، تذکرۃ الحفاظ : جلد ۴ : صفحہ ۱۴۹ ) اہل حدیث محدث وحافظ ابن صلاحؒ(م۶۴۳؁ھ)’حافظ کو ثقہ کے درجہ کی تعدیل قرار دیتے ہیں ‘۔ (مقدمہ ابن الصلاح : صفحہ ۱۲۲)[1]

ھ ۔ امام نووی(م۶۷۶؁ھ)[2] نے بھی حافظ کو ثقہ کے درجہ کی تعدیل قرار دی ہے ۔ (التقریب للنووی : صفحہ ۵۲)

و ۔ اسی طرح اہل حدیث عالم مولانا اقبال احمد ‘بسکوہری’ صاحب نے بھی تعدیل کے تیسرے درجہ میں ثقہ، ثبت، کے ساتھ لفظِ ’حافظ‘  کو بھی شمار کیا ہے ۔ اور اخیر میں لکھتے ہیں پہلے تین مراتب کی روایتیں قابل قبول وحجت ہوتی ہیں ۔  (علوم الحدیث مطالعہ وتعارف : صفحہ ۲۸۷)                                                                                                   الغرض ان تمام حوالوں سے ثابت ہوا کہ ‘حافظ’ کہنا خود غیر مقلدین اہل حدیث حضرات کے نزدیک ثقہ کہنے کے برار یا اس سے بڑھ کر ہے۔ معلوم ہوا کہ اہل حدیث حضرات کے اصول کی روشنی میں امام ابن عدیم ؒ نے امام حارثیؒ کو امام، فقیہ کے ساتھ ساتھ حافظ کہہ کر ثقہ قرار دیا ہے ۔

(۳)        امام ذہبی ؒ (م۷۴۸؁ھ)کے نزدیک بھی امام حارثیؒ ثقہ ہیں :

انہوں نے امام حارثی ؒ کو’تذکرۃ الحفاظ‘ میں شمار کیا ہے ، دیکھئے  (جلد ۳ :صفحہ ۴۹) یعنی امام ذہبیؒ کے نزدیک امام حارثیؒ حافظ ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اہل حدیث عالم ارشاد الحق اثری صاحب نے بھی تسلیم کیا ہے کہ حافظ ذہبیؒ نے امام حارثیؒ کو ’حافظ‘ کہا ہے ۔ (الاعتصام : ۲۰۱۱ : شمارہ نمبر ۴۲ : اکتوبر ۔ نومبر : صفحہ : ۲۱ ) اور علماء غیر مقلدین کے حوالے اوپر گذرچکے ، جن میں کفایت اللہ صاحب نے خود لکھا ہے کہ حافظ ذہبیؒ کے نزدیک حافظ کا درجہ ثقہ سے زیادہ ہے ۔ معلوم ہوا کہ امام ذہبیؒ کے نزدیک امام حارثیؒ ثقہ ہیں ۔

پھر امام ذہبیؒ نے حارثیؒ کے بارے میں درجِ ذیل باتیں بیان فرمائی ہیں:

الفقيه،  عالم ما وراء النهر ومحدثه، الإمام العلامة، صنّف التصانيف۔الشَّيْخُ الإِمَامُ الفَقِيْه العلَّامة المُحَدِّث, عَالِمُ مَا وَرَاء النَّهْر۔ كَانَ كبير الشّأن كثير الحديث، إمامًا فِي الفقه۔  وكان محدثاً جوّالاً، رأسا في الفقه۔ (تذكرة الحفاظ:ج2 : ص 135, ج 3 : ص 49، سير:ج 15 : ص 425، تاريخ الإسلام : ج 7 : ص 737، العبر : ج 2 : ص 60)

ذہن میں رہے کہ فقیہ، محدث، رأسا فی الفقہ، اور امام ہونا غیر مقلدین کے نزدیک توثیق ہے، بلکہ امام کہنا ثقہ کہنے کے برابر ہے ، جیسا کہ غیر مقلد ریسرچر ڈاکٹر سہل حسن صاحب نے ابن حجرؒ نے نقل کیا ہے ، جن کے حوالے اوپر گزر چکے۔  

انکے علاوہ  ذہبی ؒ نے ’عالم ما وراء النہر‘ کہا ہے، اور عالم ہونا بھی غیر مقلدین کے نزدیک توثیق ہے ۔ (دین الحق :۱: ۳۶۹) یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ عالم سے مراد قرآن اور حدیث کی معرفت اور اس کا ماہر ہونا مراد ہے ، جیسا کہ امام خلیلیؒ نے حارثیؒ کے بارے میں کہا ہے لہ معرفۃ بھذا الشأن‘ انہیں (قرآن اور حدیث کی) معرفت حاصل تھی۔ (الارشاد : جلد ۳ : صفحہ۹۷۱)

یہاں پر زبیر علی زئی صاحب کی ایک اور دوغلی پالیسی ملاحظہ فرمائیے:  موصوف نے جب حارثی ؒ کے بارے میں امام خلیلیؒ کی یہ عبارت ’لہ معرفۃ بھذا الشأن‘ نقل کی ، چونکہ ان کو حارثی پر جرح کرنی تھی، تو ترجمہ یہ کیا کہ’اسے اس علم کی معرفت حاصل تھی‘ ۔ (مقالات : جلد ۵ : صفحہ ۲۳۷) اسکین ملاحظہ فرمائے

 لیکن یہی’معرفۃ‘ والی بات جب انہوں نے حارثیؒ کو ضعیف کہنے والے امام ، امام ابوزرعہ الصغیرؒ(م۳۷۵؁ھ) کے بارے میں نقل کی، ’جید المعرفۃ‘ تو ترجمہ کرنا چاہئے تھا کہ آپ کو علم کی اچھی معرفت حاصل تھی ۔

لیکن موصوف نے ترجمہ کیا کہ ‘ آپ کو (حدیث ورجال) کی اچھی معرفت حاصل تھی۔ (مقالات : جلد ۵ : صفحہ ۲۳۵، ۲۳۶) تاکہ وہ عوام کو بتاسکیں کہ امام حارثی ؒ پر جرح کرنے والے یہ امام حدیث اور رجال میں معرفت والے اور اس کے ماہر ہیں ، پر موصوف نے یہی بات چاہتے تو حارثی کے بارے میں نقل کرسکتے تھے ، لیکن چونکہ ان کو حارثی ؒ کو ضعیف ثابت کرنا تھا، تو انہوں نے علم کہنے پر ہی اکتفاء کیا۔ اللہ ایسے تعصب سے بچائے ۔ آمین ۔

مقالات : جلد ۵ : صفحہ ۲۳۵، ۲۳۶ کا اسکین ملاحظہ فرمائے

الغرض امام ذہبی ؒ نے امام حارثی ؒ کو کثیر الحدیث، کتاب وسنت کی معرفت والا، اور کبیر الشأن قرار دیا ہے ۔ نیز یہ بھی ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کتاب لکھی ہے۔

اور خود زبیر علی زئی نے محمد بن عثمان بن ابی شیبہ ؒ کی توثیق ثابت کرتے ہوئے، خطیب البغدادی ؒ  کا قول نقل کیا ہے کہ  ’وكان كثير الحديث واسع الرواية ذا معرفة وفهم، وله تاريخ كبير‘ وہ کثیر الحدیث وسیع روایت بیان کرنے والے تھے، معرفت اور فہم رکھتے تھے، اور آپ نے تاریخ کبیر لکھی ہے، اور موصوف نے اس قول سے محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کی توثیق ثابت کی ہے۔ (مقالات : جلد ۱ : صفحہ ۴۸۱)

دیکھئے ، جب علی زئی صاحب کے نزدیک راوی کثیر الحدیث ہونا ، معرفت اور فہم والا ہونا اور اس کا کتاب لکھنا توثیق ہے۔

تو پھر امام ابو محمد الحارثیؒ کے بارے میں بھی قریب قریب یہی الفاظ امام ذہبیؒ نے بھی کہے ہیں، لیکن موصوف نے یہاں بھی اپنی بات کو خوشی خوشی بھلا دیا اور عوام کو دھوکہ دے کر ذہبی ؒ کو جرح کرنے والوں میں شمار کیا ہے ۔ اور جس قول کی وجہ سے موصوف نے انہیں جارحین میں شمار کیا ہے ، اس سے ان کی تضعیف قطعاً ثابت نہیں ہوتی ، جس کی تفصیل ہم بیان کر آئے ہیں ۔

الغرض ثابت ہوا کہ خود ان کے اصول کی روشنی میں امام ذہبیؒ کے نزدیک حارثیؒ ثقہ ہے۔

)۴ (      امام صلاح الدین الصفدیؒ(م۷۶۴؁ھ) نے بھی حارثیؒ کے بارے میں کہا ہے کہ :

عبد الله بن مُحَمَّد بن يَعْقُوب بن الْحَارِث بن خَلِيل أَبُو مُحَمَّد الكلاباذي البُخَارِيّ الْفَقِيه شيخ الْفَقِيه الْحَنَفِيَّة بِمَا وَرَاء النَّهر يعرف بِعَبْد الله الْأُسْتَاذ كَانَ كَبِير الشَّأْن كثير الحَدِيث إِمَامًا فِي الْفِقْه۔ (الوافي بالوفيات : ج 17 : ص 261)

)۵(       امام ابن العمادؒ (م۱۰۸۴؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

العلّامة، أبو محمد، عبد الله بن محمد بن يعقوب بن الحارث البخاري الفقيه، شيخ الحنفية بما وراء النهر، ويعرف بعبد الله الأستاذ، وكان محدّثا، جوّالا، رأسا في الفقه۔ (شذرات الذهب : ج 4 : ص 219)

اور تفصیل گزر چکی کہ یہ سب الفاظ، غیر مقلدین کے نزدیک راوی کی توثیق کرتے ہیں ۔

)۶(        امام الحافظ ابن مندہ ؒ(م۳۹۵؁ھ) ’وکان حسن الرأی فیہ‘ امام حارثیؒ کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے۔ (تاریخ الاسلام : جلد ۷ : صفحہ ۷۳۷)

اس کی تائید اس قول سے بھی ہوتی ہے ، جس میں امام ابن مندہؒ نے امام حارثیؒ کو’الامام الحافظ الفقیہ‘ کہا ہے ۔ (مسند امام اعظم للحارثی : جلد ۱ صفحہ ۱۲۰، ۱۱۲) اور ان الفاظ سے غیر مقلدین کے نزدیک راوی کی توثیق اور اس کا ثقہ ہونا ثابت ہوتا ہے، جیسا کہ تفصیل گزر چکی ۔

اسکین :

(۷)      بقول غیر مقلدین کے، امیر المؤمنین فی الحدیث ، امام حافظ ابن حجر العسقلانی(م۸۵۲؁ھ)نے اابو محمد عبد اللہ الحارثیؒ کی روایت کے بارے میں فرمایا ’لیس فی الاسناد من ینظر فی حالہ‘

کہ اسکی سند میں کوئی ایسا راوی نہیں ہے، جس کا حال قابلِ نظر ہو، یعنی اس کی سند کے تمام راوی ثقہ اور معتبر ہیں ۔(موافقاۃ  الخبر لابن حجر : جلد ۲ : صفحہ ۱۱۱)  ثابت ہوا کہ ابن حجرؒ کے نزدیک امام حارثی ؒ ثقہ ہیں ۔

اسکین :

اسی طرح حافظ ؒ نے ایک اور مقام پر امام حارثیؒ کو ’الفقیہ، شیخ الحنفیۃ، الحافظ‘ قرار دیا ہے ۔  (تبصیر المنتبہ : ج ۳ : ص ۱۲۲۳، لسان المیزان : ج ۹ : ص۱۵۹ ) یہ غیر مقلدین کے نزدیک الفاظِ توثیق ہیں ، بلکہ ‘حافظ’ تو ثقہ کہنے کے برابر ہے، جس کی تفصیل گزر چکی ۔

(۸)      علامہ حاجی خلیفہؒ (م۱۰۶۷؁ھ) کہتے ہیں :’ كان إمامًا كبيرًافي الفقه والحديث، من أعلام الأئمة بما وراء النَّهر، وكان مكثرًا‘۔(سلم الوصول : ج 2 : ص 229)

(۹)       نیز حافظ عبد القادر قریشیؒ (۷۷۵؁ھ)نے بھی امام حارثیؒ کو حافظ فقیہ کہنے کے ساتھ ساتھ ان پر موجود جرح کا بھی جواب دیا ہے ۔ (الجواھر المضیۃ : ج ۱ : ص ۲۴۹، ۳۲۶)

الغرض معلوم ہوا کہ امام ابن مندہؒ، امام ذہبیؒ، حافظ ابن حجرؒ، ابن عدیمؒ ، حافظ ابو بکر محمد بن ابی اسحاق البخاریؒ، ابن العمادؒ، حافظ عبد القادر قرشیؒ وغیرہ ائمہ اور محدثین کے نزدیک امام حارثی ؒ ثقہ اور مقبول راوی ہیں۔

اور یاد رہے کہ خود اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں امام حارثیؒ پر کسی بھی محدث سے صحیح سند سے کذاب اور حدیثیں گھڑنے کی جرح ثابت نہیں ہے، لہذا جمہور کی توثیق ہی راجح ہے، جیسا کہ علی زئی صاحب کا اصول ہے ۔  (مقالات : جلد ۶ : صفحہ ۱۴۳)



[1]  ان کے الفاظ یہ ہیں : قَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ: " إِذَا قِيلَ لِلْوَاحِدِ إِنَّهُ " ثِقَةٌ أَوْ مُتْقِنٌ " فَهُوَ مِمَّنْ يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ ".قُلْتُ: وَكَذَا إِذَا قِيلَ " ثَبْتٌ أَوْ حُجَّةٌ "، وَكَذَا إِذَا قِيلَ فِي الْعَدْلِ إِنَّهُ " حَافِظٌ أَوْ ضَابِطٌ "، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

[2]  جن کو غیر مقلد محمد زبیر صادقہ آبادی اور شیخ بدیع الدین شاہ راشدی نے اہل حدیث قرار دیا ہے ۔  (الحدیث : شمارہ نمبر ۱۱۶ : صفحہ ۴۳ ، ۴۴، التنقید الشدید : صفحہ ۳۲، تذکرہ الحفاظ : جلد ۴ صفحہ : ۱۷۴)

 

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

 سکین کیلئے 
الاجماع (PDF ) دیکھیں 

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...