نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اللہ تعالی کی " صفات متشابہات " , باب:3 [سلفیوں کی تاریخ کے تین ادوار]



ماخوذ : اللہ تعالی کی
" صفات متشابہات " 
اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد

تصنیف : ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

 دیگر مضامین کیلئے دیکھیں  ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" ،  

اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں


 باب:3

[سلفیوں کی تاریخ کے تین ادوار]

سلفیوں کی تاریخ کے تین دور ہیں:

پہلا دور

یہ ابن حامد ، ابو یعلی اور ابن زاغونی کا دور ہے جن کے بارے میں ابھی علامہ ابن جوزی کا تبصرہ نقل ہوا۔

دوسرا دور

یہ ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن قیم کا دور ہے۔ ابن تیمیہ نے اپنی زبان سے اور اپنے قلم سے اپنے عقائد کو جو کہ آگے ذکر ہیں اور زیارت قبور کے لیے سفر کو یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی نیت سے سفر کرنے کی ممنوعیت کو اور ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے کو ) پوری شد و مد سے پھیلانے کی کوشش کی۔ اور سلفیت جو کہ مرور زمانہ سے کمزور پڑ چکی تھی اس کو دوبارہ زندہ کیا۔ ابن قیم رحمہ اللہ کے قصیدہ نونیہ پر علامہ عثیمین (جن کی وفات ابھی چند سال پہلے ہوئی ہے۔ ان ) کی شرح میں ہے۔

ثم جاء شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله تعالى و الذي ظهر رحمه الله في وقت قل فيه و استغرب من هو على منهج اهل السنة و الجماعة فضلا عن وجود من يجهر بذلك فالهمه الله الحق وصدع به وتصدى لمن خالف ذلك و اظهر الادلة الواضحة التي تدل على ما ذهب اليه و كتب فى ذلك مؤلفات كثيرة مختصرة و مبسوطة

( ترجمہ: پھر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا دور آیا اور وہ بھی ایسے وقت میں که سلفی قلیل تھے اور غیر معروف ہو چکے تھے ، کوئی ایسا نہ تھا جو سلفیوں کے عقائد کا بر ملا اظہار کرتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ابن تیمیہ کے دل میں حق کا الہام کیا اور انہوں نے اس کا اعلان کیا اور جو ان کے مخالف تھے ان کے درپے ہوئے ۔ ابن تیمیہ نے اپنے عقیدے پر واضح دلائل قائم کئے اور مختصر اور طویل بہت سی کتابیں لکھیں )۔

تیسرا دور

یہ موجودہ سعودی حکومت کا دور ہے۔ اس دور سے پہلے زمانہ کے بارے میں شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمن ابابطین (وفات 1282ھ ) لکھتے ہیں:

اعلم ان اكثر اهل الامصار اليوم اشعرية 

(اثبات الحد لله : 200) 

( ترجمہ: جان لو کہ موجودہ زمانے میں ملکوں میں اکثریت اشاعرہ و ماتریدیہ کی ہے)

۔ چونکہ محمد بن عبدالوہاب ابن تیمیہ کے معتقد تھے اس لیے ان کے خاندان میں ابن تیمیہ اور سلفیوں کی فکر موجود تھی۔ سعودی دور کا ڈھانچا دو بنیادوں پر ہے۔ ملک کے سیاسی و انتظامی امور آل سعود کی ذمہ داری میں ہیں اور ملک کے مذہبی امور آل شیخ محمد بن عبدالوہاب کی ذمہ داری میں ہیں۔ ملکی سطح پر مذہبی اختیار کی وجہ سے سلفیوں کو اپنے افکار اپنے ملک میں بھی اور دیگر چھوٹی عرب ریاستوں میں بھی پھیلانے کا موقع ملا اور انہوں نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ یہ ہم نے محض قیاس آرائی نہیں کی بلکہ عبد اللہ بن عبد المحسن ترکی اور شعیب ارنوط شرح العقيدة الطحاویہ کے اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

ابن تیمیہ کے زمانہ کو گذرے ہوئے تقریبا چار صدیاں گزر چکی تھیں لیکن یہ چار صدیاں حق کے ( کچھ نہ کچھ ) داعیوں سے خالی نہیں رہیں جو اہل السنۃ والجماعة (یعنی سلفیوں) کے عقائد پر قائم رہے۔ لیکن بارہویں صدی ہجری کے نصف ثانی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کا اہل سنت ( یعنی سلفیوں) کے عقائد کے پھیلنے میں اور فہم وتطبیق میں سلفیوں کے منہج کو اختیار کرنے میں بڑا اثر ہوا۔ یہ واقعہ جزیرہ عرب  میں سعود کی حکومت کے قیام کا تھا جس نے اس اصلاحی دعوت کی مدد کا عزم کیا ہوا تھا۔ اس دعوت کی پکار امام شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے لگائی۔ یہ دعوت تھی لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کی طرف پلٹنے کی اور سلف صالحین کے طریقے کو اختیار کرنے کی اور شریعت الہی کے ساتھ مطابقت کو لازم پکڑنے کی ۔ اس دعوت کو جمنے کے لیے وہ اسباب میسر آئے جو اس سے پہلے کی اور اس کے بعد کی بہت سی دعوتوں کو میسر نہیں آئے۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے۔ ان میں سے ایک بڑا سبب حکومت اور سلطنت ہے۔ اس خاص سبب سے جو اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمایا پہلی سعودی حکومت کے بانی اور امام اور مجاہد محمد بن سعود رحمہ اللہ کے عہد میں اور ان کے بعد ان کے بیٹوں اور پوتوں کے عہد میں اصلاحی دعوت نے قوت اور جماؤ حاصل کیا یہاں تک کہ چودھویں صدی کے شروع میں ملک عبدالعزیز بن عبد الرحمن آل سعود کو حکومت ملی تو ان کی حکومت نے اہل سنت ( سلفیوں) کے عقائد کی تبلیغ میں ضروری طریقہ کار کی طرف اور لوگوں کو شریعت الہی کے مطابق عمل کرنے کی طرف اور شریعت کے موافق لوگوں میں فیصلہ کرنے کی طرف توجہ کی۔

ہمارے مشائخ مثلاً محمد بن عبداللطیف، سعد بن حمد بن عتیق، عبداللہ بن عبدالعزیز عنقری، عمر بن محمد بن سلیم اور محمد بن ابراہیم بن عبداللطیف رحمہم اللہ فرماتے ہیں: پھر جب بہت سے لوگوں نے اس نعمت کی قدر نہیں کی اور اس کا لحاظ نہیں کیا تو ان میں اختلاف اور تفرقہ پیدا ہوا اور دشمنوں کو تسلط حاصل ہوا، اور بہت سے لوگ اپنے سابقہ طریقوں کی طرف لوٹ گئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے آخر میں امام عبدالعزیز بن عبد الرحمن آل فیصل کے غلبہ کی شکل میں احسان فرمایا۔ اللہ ان کی مدد فرمائے اور ان کو تو فیق عطا فرمائے اور ان کے دور میں اللہ نے احسان فرمایا کہ اس اسلامی دعوت اور ملت حنیفی کو فروغ حاصل ہوا اور اس کے مخالفوں کا قلع قمع ہوا۔ اور جب ملک عبدالعزیز نے اپنی حکومت کو توحید کو اور نجات دلانے والے عقائد کو جہاں اپنے ملک میں مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیاوہیں اپنے ملک سے باہر بھی ان کی ترویج کے لیے دو طریقے اختیار کئے۔

1۔ داعی بھیجے۔

2۔ توحید خالص اور سلفی عقیدہ پر مشتمل کتابوں کو پھیلایا ۔ (43-41)

[تنبيه]

برصغیر کے غیر مقلد حضرات پہلے اشاعرہ کے اصول پر تھے لیکن پھر انہوں نے بھی آہستہ آہستہ اپنا تعلق ابن تیمیہ سے اور سعودی حکومت سے جوڑ لیا اور یہ تک بھول گئے کہ خود ان کے بڑے مثلاً شیخ نذیرحسین دہلوی، مولانامحمد حسین آزاد شمس الحق عظیم آبادی اور مولانا عبدالرحمن مبارک پوری سلفی عقائد کے حاملین کو کیا سمجھتے تھے اور سلفی اب ان کے بڑوں میں سے مولا نا عبد الرحمن مبارک پوری کی تحفة الاحوذی کی اور مولاناشمس الحق عظیم آبادی کی عون المعبود کی کیا گت بنارہے ہیں۔ ان حضرات کے وہ عقائد جو اشاعرہ کے موافق ہیں سلفی ان کونشان زد کر کے یہ بتارہے ہیں کہ یہ گمراہی ہے۔

ان تمام کاوشوں کے باوجود سلفی اب بھی اقل قلیل ہیں اور امت کا سواد اعظم اب بھی اشاعرہ و ماتریدیہ پرمشتمل ہے۔


ماخوذ : اللہ تعالی کی
" صفات متشابہات " 
اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد

تصنیف : ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

 دیگر مضامین کیلئے دیکھیں  ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" ،  

اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...