اللہ تعالی کی " صفات متشابہات " , باب:4 , سلفی خود کو اهل السنة والجماعة اور اشاعرہ و ماتریدیہ کو گمراہ اور بدعتی کہتے ہیں .
ماخوذ : اللہ تعالی کی
" صفات متشابہات "
اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد
تصنیف : ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
دیگر مضامین کیلئے دیکھیں ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" ،
اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
باب:4
[ سلفی خود کو اهل السنة والجماعة اور اشاعرہ و ماتریدیہ کو گمراہ اور بدعتی کہتے ہیں ]
اوپر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات متشابہات کے بارے میں سلفیوں کا عقیدہ درست نہیں لیکن سلفی دعویدار ہیں کہ اہل سنت صرف وہی ہیں اور ان کے برعکس اشاعرہ و ماتریدیہ (جو اصل اہل سنت ہیں ) وہ بدعتی ہیں بلکہ جو سلفی متشدد ہیں وہ اشاعرہ و ماتریدیہ کی تکفیر تک کرتے ہیں۔ اشاعرہ و ماتریدیہ میں سے متقدمین اور متاخرین صفات متشابہات میں تفویض کرتے تھے یعنی یہ کہتے تھے کہ ہم ان صفات کو مانتے ہیں لیکن ہم ان کا معنی نہیں جانتے ، اللہ تعالی ہی ان کو جانتے ہیں لہذا ہمارا ان پر ایمان ہے لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ ان کا یہ مطلب ہے بلکہ ان سے جو مراد ہے ہم اس کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر تے ہیں۔ اس کو اشاعره و ماتریدیہ تفویض یعنی اللہ کے سپرد کرنا کہتے ہیں لیکن سلفی اس کو تعطیل کہتے ہیں یعنی ظاہری معنی کو معطل کرنا اور ان کو اختیار نہ کرنا۔ پھر جب گمراہ فرقوں نے صفات متشابہات کے ذریعے سے عوام کو گمراہ کرنا شروع کیا جیسا کہ خود سلفی بھی کرتے ہیں تو اشاعرہ و ماتریدیہ کے متاخرین نے لوگوں کو گمراہ عقیدوں سے بچانے کے لیے تاویل کرنے کو اختیار کیا جس کو سلفی تحریف یعنی معنی مراد کو تبدیل کرنا کہتے ہیں۔ سلفیوں کے نزدیک تعطیل و تحریف کے درمیان جو فرق ہے اس کو بیان کرتے ہوئے علامہ عثیمین لکھتے ہیں :
تحریف دلیل میں ہوتی ہے اور تعطیل مدلول و مراد میں ہوتی ہے مثلاً جب کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول بَل يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ کا مطلب ہے اس کی دو تو تھیں، تو شخص دلیل میں تحریف کرتا ہے اور صحیح مراد کو معطل کرتا ہے کیونکہ یداہ سے مراد حقیقی ہاتھ ہیں۔ تو اس شخص نے مرادی معنی کو معطل کیا اور غیر مرادی معنی کو ثابت کیا۔ اور جب کوئی یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ بَلْ يَدَاهُ مُبْسُوطَتَانِ سے کیا مراد ہے اور میں اس کی مراد کو اللہ پر چھوڑتا ہوں ، نہ میں اس سے حقیقی ہاتھ ثابت کرتا ہوں اور نہ کوئی دوسرا معنی لیتا ہوں تو یہ تعطیل ہے تحریف نہیں کیونکہ تحریف میں لفظ کے معنی کو بدل دیا جاتا ہے اور اس کا مطلب کچھ اور بتایا جاتا ہے جبکہ تعطیل یہ ہے کہ آدمی اس کا معنی ہونے کے باوجود کوئی بھی معنی مراد نہ لے۔ اہل سنت ( یعنی سلفی ) تحریف اور تعطیل دونوں طریقوں سے بری ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ لفظ کے حقیقی معنی ومراد کو معطل کر کے کوئی دوسرا معنی مراد لیا جائے ۔ دوسرا طریقہ اہل تفویض کا ہے۔ سلفی معنی کو اللہ تعالیٰ پر نہیں چھوڑتے بلکہ کہتے ہیں کہ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ سے اللہ کے دو حقیقی ہاتھ مراد ہیں نعمت اور قوت مراد نہیں ہے۔ غرض اہل سنت (یعنی سلفی ) نہ تحریف کے قائل ہیں اور نہ تفویض کے۔ بہر حال اس میں شک نہیں کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اہل سنت کا (یعنی سلفیوں کا ) طریقہ تفویض کا ہے تو وہ غلط کہتے ہیں کیونکہ اہل سنت ( یعنی سلفیوں) کا طریقہ یہ ہے کہ وہ مرادی معنی کو ثابت مانتے ہیں البتہ اس کی کیفیت ( شکل وصورت) کو تفویض یعنی اللہ کے حوالے کرتے ہیں .. اس سے معلوم ہوا جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں، معنی مراد میں تفویض کرنا ( جیسا اشاعرہ و ماتریدیہ کے متقدمین کرتے ہیں ) سب سے برا بدعتی قول ہے“۔
(شرح عقیدہ واسطیہ : 44)
علامہ خلیل ہراس یہی بات ابن تیمیہ کی کتاب عقیدہ واسطیہ پر اپنی شرح میں لکھتے ہیں: کلام میں تحریف اس کو کہتے ہیں کہ ظاہر معنی کو چھوڑ کر ایسے کسی دوسرے معنی کو اختیار کرنا جس پر لفظ کی دلالت مرجوح درجہ میں ہو لہذا کلام میں ایسے قرینہ کا ہونا ضروری ہے جو واضح کرے کہ دوسرا معنی مراد ہے۔ کلام میں تعطیل سے یہاں مراد ہے صفات الہی کی نفی کرنا اور ذات خداوندی کے ساتھ ان کے قیام کا انکار کرنا۔ تحریف اور تعطیل میں فرق یہ ہے کہ تعطیل میں اس معنی حق کی نفی کی جاتی ہے
جس پر کتاب وسنت دلالت کرتی ہیں اور تحریف میں نصوص کی ان باطل ، معانی کے ساتھ تفسیر کی جاتی ہے جن پر کتاب وسنت دلالت نہیں کرتیں ۔ جو شخص باطل معنی کا اثبات کرے اور معنی حق کی نفی کرے اس نے تحریف و تعطیل دونوں کا ارتکاب کیا۔ اور جو کتاب وسنت میں وارد صفات کی نفی کرے بایں طور کہ دعوی کرے کہ ان کے ظاہری معنی مراد نہیں ہیں لیکن کسی دوسرے معنی کی تعین بھی نہ کرے تو یہ تعطیل ہے تحریف نہیں ہے اور لوگ اس کو تفویض کہتے ہیں۔
یہ کہنا کہ سلف کا مذہب تفویض ہے جیسا کہ ان کی طرف متاخر اشاعرہ وغیرہ نے منسوب کیا ہے یہ درست نہیں ہے کیونکہ سلف معنی کے علم کو تفویض نہیں کرتے تھے اور نہ ایسا کلام پڑھتے تھے جس کا معنی وہ سمجھتے نہ ہوں بلکہ وہ کتاب وسنت کی نصوص کے معنی کو سمجھتے تھے اور اللہ عزوجل کے لیے ان کا اثبات کرتے تھے پھر اس کے بعد صفات کی کنہ وحقیقت یا ان کی کیفیات کو تفویض کرتے تھے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ عرش پر اللہ کے استوا کی کیا کیفیت ہے تو انہوں نے فرمایا استوا کا معنی تو معلوم ہے کیونکہ بلند ہونے کو اور قرار پکڑنے کو کہتے ہیں اور کیفیت نا معلوم ہے. بلا کیفیت“ کہنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ کیفیت یعنی شکل وصورت کی سرے سے نفی کرتے تھے کیونکہ کسی نہ کسی کیفیت کا ہونا تو ناگزیر ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ کیفیت کے علم کی نفی کرتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی کیفیت کو صرف اللہ ہی جانتے ہیں کوئی اور نہیں جانتا“۔ (شرح عقیدہ واسطیہ : 22-20)
[ سلفیوں کی تصریحات جن میں اشاعرہ و ماتریدیہ کو بدعتی اور فاسق کہا گیا ہے ]
علامہ عثیمین کے استاد علامہ سعدی اشاعرہ کی تکفیر نہیں کرتے البتہ ان کو گمراہ کہتے ہیں،
وہ لکھتے ہیں:
اسی لئے خوارج معتزلہ اور قدریہ وغیرہ بدعتیوں کی مختلف قسمیں ہیں ۔ ان میں کچھ تو وہ ہیں جو یقیناً کافر ہیں جیسے عالی جہمیہ جواللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کی نفی کرتے ہیں اس کے باوجود کہ ان کو علم ہے کہ ان کی بدعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی باتوں کے خلاف ہے۔ یہ لوگ جانتے بوجھتے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں ۔ اور ان میں کچھ وہ ہیں جو گمراہ اور فاسق بدعتی ہیں جیسے وہ خارجی جو تاویل کرتے ہیں ۔ یہ رسول کی تکذیب نہیں کرتے ( کیونکہ رسول کی بتائی ہوئی باتوں کو مانتے ہیں لیکنن ان کا مطلب غلط لیتے ہیں ) اور (اس لئے ) وہ اپنی بدعت کی وجہ سے گمراہ ہیں لیکن پھر بھی اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں ۔ اسی وجہ سے خوارج کے بدعتی ہونے کا اور ان کے حق سے نکلنے کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین متفقہ حکم لگاتے ہیں جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ خارجی اسلام سے خارج نہیں ہیں اس کے باوجود کہ وہ مسلمانوں کی جان و مال کو مباح سمجھتے ہیں اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب کیلئے شفاعت کا انکار کرتے ہیں اور دین کے بہت سے اصول کا انکار کرتے ہیں لیکن چونکہ وہ تاویل کرتے تھے اس وجہ سے ان کی تکفیر نہیں کی جاتی ۔ اور جوان سے کمتر درجے کے بدعتی ہیں جیسے کہ بہت سے قدری اور کلابی اور اشاعرہ تو یہ اصول میں قرآن وسنت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے بدعتی اور گمراہ ہیں اور ان کے آپس میں چند درجے ہیں“ ۔ (شرح قصیدہ نونیہ : 296/4)
ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
و الاشعرى و امثاله برزخ بين السلف والجهمية، اخذوا من هؤلاء كلاماً صحيحاً، و من هؤلاء اصولا عقلية ظنوها صحيحة و هي فاسدة، فمن الناسمن مال اليه من الجهة السلفية، ومن الناس من مال اليه من الجهة البدعية كأبي المعالی و اتباعه (مجموع فتاوی 16/471)
ترجمہ: اشعری اور ان جیسے حضرات سلفیوں اور جہمیوں کے درمیان کا ایک طبقہ ہیں۔ سلفیوں سے انہوں نے کچھ باتیں لیں اور جہمیہ سے کچھ عقلی اصول ان کو صحیح سمجھ کر لیے حالانکہ وہ حقیقت میں فاسد تھے۔ تو کچھ لوگ اشعری کی طرف سلفیت کی جہت سے مائل ہوئے اور کچھ لوگ ان کی طرف بدعت کی جہت سےمائل ہوئے مثلاً ابوالمعالی اور ان کے پیروکار )
اما المتاخرون فانهم والوا المعتزلة وقاربوهم اكثر و قدموهم على اهل السنة والاثبات و خالفوا اولیهم
(197- فتاوی کبری 5115 )
( ترجمہ: متاخرین اشاعرہ نے معتزلہ سے تعلق بڑھایا اور ان کی فکر کے قریب ہوئے اور ان کو سلفیوں پر مقدم کیا اور اپنے متقدمین کے خلاف روش اختیار کی ) ۔
فعلم ان هولاء (يعنى متاخرى الاشاعرة) حقيقة باطنهم باطن المعتزلة والجهمية المعطلة و ان كان ظاهرهم ظاهر اهل الاثبات كما ان المعتزلة عند التحقيق حقيقة امرهم امر الملاحدة نفاة الاسماء و الصفات بالكلية وان تظاهروا بالرد عليهم ( 197 بيان تلبيس الجهمية)
(ترجمہ: اس سے معلوم ہوا کہ متاخرین اشاعرہ کی حقیقت یہ ہے کہ اندر سے وہ معتزلہ اور جہمیہ کی طرح ہیں جو صفات کی نفی کرتے ہیں اگرچہ اوپر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صفات کو مانتے ہیں جیسا کہ معتزلہ حقیقت میں اندر سے ملحدوں کی طرح ہیں
جو اسماء وصفات کی بالکلیہ نفی کرتے ہیں اگرچہ بظاہر ملحدوں پر رد کرتے ہیں)۔
فعامة ماذمه السلف والائمة وعابوه على المعتزلة من الكلام المخالف للكتاب و السنة و الاجماع القديم لكم منه اوفر نصيب بل تارة تكونون اشد مخالفة لذلك من المعتزلة و قد شاركتموه في اصول ضلالهم التي فارقوا بها سلف الامة وائمتها و نبذوا بها كتاب الله وراء ظهورهم ... وانتم شركاؤهم في هذه الاصول كلها و منهم اخذتموها و انتم فروخهم فيها (ص 197- فتاوی کبری 324)
( ترجمہ: سلف اور ائمہ نے قرآن وسنت اور اجماع کے مخالف کلام کی وجہ سے معتزلہ کی جو مذمت کی اور ان پر عیب لگایا اور ان کی تکفیر کی تو (اے متاخرین اشاعرہ) تمہارے لئے اس مذمت اور عیب کا زیادہ حصہ ہے لیکن کبھی تو تمہاری مخالفت معتزلہ کی مخالفت سے زیادہ سخت ہو جاتی ہے۔ تم ان کی گمراہی کے اصول میں ان کے شریک ہوئے جن سے امت کے اسلاف اور اس کے ائمہ ان سے جدا ہوئے اور جن کی وجہ سے معتزلہ نے کتاب اللہ کو اپنے پس پشت ڈالا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان تمام اصول میں تم معتزلہ کیساتھ ہو۔ یہ اصول تم نے ان ہی سے لئے اور تم ان ہی کے انڈےبچے ہو۔)
ماخوذ : اللہ تعالی کی
" صفات متشابہات "
اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد
تصنیف : ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
دیگر مضامین کیلئے دیکھیں ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" ،
اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں