اللہ تعالی کی " صفات متشابہات " , باب:5 , امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک سلفیوں کے مسلک سے مختلف ہے
باب:5
[ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک سلفیوں کے مسلک سے مختلف ہے ]
ماخوذ : اللہ تعالی کی
" صفات متشابہات "
اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد
تصنیف : ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
دیگر مضامین کیلئے دیکھیں ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" ،
اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
[امام احمد استواء کے ساتھ ذات کی قید نہیں لگاتے]
سألوه عن الاستواء فقال استوى على العرش كيف شاء و كماشاء بلا حد وصفة يبلغها واصف ذكره الخلال في السنة (اثبات الحدلله ص 217)
( ترجمہ: امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے استواء کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے عرش پر استوا کیا جیسے چاہا بغیر حد کے اور بغیر صفت کے جس تک کوئی پہنچ سکے۔)
[ امام احمد تاویل کرتے ہیں ]
1۔ حكى حنبل عن الامام احمد انه سمعه يقول احتجوا على يوم المناظرة فقالوا تحبى يوم القيامة سورة البقرة و تحبى سورة تبارك قال فقلت لهم انما هو الثواب قال الله جل ذكره و جاء ربك و الملك صفا صفا و انما تاتى قدرته
( العقيده و علم الكلام ص 504)
(ترجمہ: امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے ذکر کیا کہ مناظرہ کے دن فریق مخالف نے میرے خلاف یہ دلیل دی کہ حدیث میں ہے کہ سورہ بقرہ اور سورہ تبارک قیامت کے دن آئیں گی۔ میں نے جواب دیا کہ اس سے مراد ان کا ثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ جَاءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا یعنی اس کی قدرت آئے گی )۔
2 ۔ قال ابن حزم الظاهرى روينا عن الامام احمد بن حنبل رحمه الله في قوله تعالى وجاء ربك انما معناه جاء امر ربك كقوله تعالى هل ينظرون الا ان تاتيهم الملائكة او ياتى امر ربك و القرآن يفسر بعضه بعضا هكذا نقله ابن الجوزي في تفسيره زاد المسير
(العقيده و علم الكلام ص 504)
( ترجمہ: ابن حزم ظاہری نے نقل کیا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے وجاء ربک اور تمہارا رب آیا کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے کہ تمہارے رب کا حکم آیا جیسا کہ اس آیت میں ہے : هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَاتِيَ أَمُرُ رَبِّكَ (نحل: 33)
(وہ نہیں انتظار کرتے مگر اس کا کہ آئیں ان کے پاس فرشتے یا آئے تمہارے رب کا حکم ۔ ) اور قرآن کا ایک حصہ دوسرے کی تفسیر کرتا ہے۔ اسی طرح سے ابن الجوزی نے اپنی تفسیر زاد المسیر میں نقل کیا ہے۔)
ان روایتوں کے مطابق امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے تاویل کا طریقہ اختیار کیا ہے۔
[امام احمد رحمہ اللہ تفویض کرتے ہیں]
لما كل الامام احمد عن احاديث النزول والروية و وضع القدم و نحوها قال نومن بها و نصدق بها و لا كيف و لا معنى
(اثبات الحدلله ص 219,218)
ترجمہ: امام احمد رحمتہ اللہ علیہ سے نزول، رویت اور پاؤں رکھنے کی حدیثوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ہمارا ان پر ایمان ہے اور ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں بغیر کیفیت کے اور بغیر معنی کے۔)
3۔ وكان الامام احمد رحمه الله يقول امروا الاحاديث كماجاءت و على ما قال جرى كبار اصحابه کابراهيم الحربی و ابی داؤد والاثرم و من كبار اتباعه ابو الحسن المنادى وكان من المحققين و كذلك ابو الحسين التميمي و ابو محمد رزق الله بن عبد الوهاب و غيرهم من اساطين الائمة في مذهب الامام احمد و جروا على ما قاله في حالةالعافية و فى حالة الابتلاء......
(العقيده وعلم الكلام 285)
ترجمہ: امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ احادیث کو ایسے ہی چلاؤ جیسی کہ وہ ہیں۔۔۔ یعنی ان کے کسی بھی معنی کی تعیین کئے بغیر۔۔۔ اور جیسے انہوں نے فرمایا ان کے بڑے شاگردوں نے ویسا ہی طریقہ اختیار کیا مثلاً ابراہیم حربی ، ابو داؤد اور اثرم نے اور ان کے بڑے پیروکاروں میں سے ابوالحسین منادی نے جو کہ محقق لوگوں میں سے تھے۔ اسی طرح ابوالحسن تمیمی اور ابومحمد رزق اللہ بن عبد الوہاب وغیرہ نے جو امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کے مذہب کے ستونوں میں سے تھے انہوں نے بھی موافق و مخالف ہر قسم کے حالات میں اسی طرح عمل کیا۔ )
[ہم کہتے ہیں]
اس سے معلوم ہوا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے اصحاب جو کہ حنبلی مذہب کے بڑے ستونوں میں سے تھے وہ ابن حامد ، ابو یعلی اور ابن زاغونی کی باتوں سے متفق نہیں تھے۔ علاوہ ازیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ابن زاغونی وغیرہ کی باتیں خود امام احمد سے ثابت نہیں۔ اگر ہوتیں تو یہ حنابلہ اختلاف نہ کرتے بلکہ ان کو ضرور ذکر کرتے ۔
[امام احمد صفات متشابہات کی تفسیر میں سلفیوں سے اختلاف کرتے ہیں]
1۔ طبقات الحنابلہ میں امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کا یہ عقیدہ مذکور ہے۔
اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں ان کی صفات ہیں کام کرنے کے اعضاء نہیں ہیں اور اللہ مرکب نہیں ہیں۔ اور وہ نہ جسم ہیں اور نہ اجسام کی جنس سے ہیں اور نہ محدود دو ترکیب کی جنس سے ہیں اور نہ ابعاض ہیں اور نہ جوارح اور نہ ان پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اور نہ اللہ کی کہنی ہے اور نہ بازو ہے۔ اور نہ ہاتھ کے لفظ کا استعمال جن جن معانی کا تقاضا کرتا ہے ان میں سے ہیں سوائے ان کے جن کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہو یا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث میں ہو“۔
نیز امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولا يجوز ان يقال استوى بمماسة ولا بملاقاة تعالى الله عن ذلك علوا كبيرا ۔
(بحوالہ اہل السنتہ الاشاعرة ص: 93)
(ترجمہ: یہ کہنا جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عرش کو چھو کر یا اس کے ساتھ لگ کر استوا کیا۔ اللہ تعالیٰ تو اس سے بہت بلند و بڑے ہیں۔)
جان لو کہ اصحاب حدیث میں سے سلف نے دیکھا کہ معتزلہ علم کلام میں غلو سے کام لے رہے ہیں اور ان سنتوں کی مخالفت پر کمر بستہ ہوئے ہیں جن کو وہ ائمہ راشدین کے زمانے سے جانتے چلے آئے ہیں اور انہوں نے دیکھا کہ مسئلہ تقدیر میں بنوامیہ کے حکمران معتزلہ کی تائید کرتے رہے اور بنو عباس کے کئی حکمرانوں نے صفات الہی کی نفی میں اور قرآن کے مخلوق ہونے میں معتزلہ کی ہم نوائی کی تو وہ قرآن پاک کی متشابہ آیات اور متشابہ حدیثوں کے بارے میں اہل السنۃ والجماعة کے مذہب و طریقہ کو ثابت کرنے میں متحیر ہوئے۔
امام احمد بن حنبل، دلود بن علی اصفہانی اور سلف کے بعض ائمہ نے پچھلے سلف اور اصحاب حدیث مثلا امام مالک اور مقاتل بن سلیمان کے طریقے کو سلامتی کا طریقہ سمجھ کر اسے اختیار کیا اور کہا کہ قرآن وسنت میں جو کچھ وارد ہوا ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم صفات متشابہ کے معنی کے در پے نہیں ہوتے کیونکہ ہمیں اس بات کا قطعی علم ہے کہ اللہ عز وجل کسی بھی مخلوق کے مشابہ نہیں ہیں اور ذہن میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کے بارے میں جو تخیل پیدا ہوتا ہے وہ ذہن کی احتراع ہے جو خود مخلوق ہے۔ اور وہ حضرات تشبیہ سے اس حد تک بچتے تھے کہ کہتے تھے کہ جو کوئی یہ قرانی الفاظ خَلَقَت بِيَدَى (میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا) پڑھتے ہوئےاپنے ہاتھ کو حرکت دینے یا یہ حدیث کہ "قلب المومن بين اصبعين من اصابع الرحمن " ( مومن کا دل رحمان کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان ہے ) روایت کرتے ہوئے اپنی دوانگلیوں سے اشارہ کرے تو واجب ہے کہ اس کا ہاتھ اور اس کی دو انگلیوں کو کاٹ دیا جائے اور ان حضرات نے کہا کہ ان آیات کی تفسیراور تاویل کرنے میں وہ دو وجہ سے توقف کرتے ہیں۔
1- متشابہ کے معنی و تاویل کے در پے ہونے سے قرآن پاک میں ممانعت ہے۔
فاما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة و ابتغاء تاويله و ما يعلم تاويله الا الله والراسخون في العلم يقولون امنا به كل من عند ربنا و ما يذكر الا اولوا الالباب
تو وہ لوگ جن کے دلوں میں کمی ہے وہ متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور غلط مطلب ڈھونڈنے کی غرض سے حالانکہ ان کا مطلب سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا اور مضبوط اعلم والے کہتے ہیں ہم یقین رکھتے ہیں اس پر سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور (سمجھانے سے ) صرف وہی سمجھتے ہیں جو عقل والے ہیں ۔
2۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ تاویل ظنی ہوتی ہے اور صفات الہی میں ظن سے کچھ کہنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ہم ظن سے کس معنی کی تعیین کریں جو اللہ تعالیٰ کی مراد کے موافق نہ ہو۔ اس سے تو ہم ربیع و کجی میں پڑ جائیں گے۔ لہذا ہم راسخون فی العلم کے طریقے پر چلتے ہوئے ان ہی کی بات کرتے ہیں کہ کل من عند ربنا ( ہر بات کا علم ہمارے رب کے پاس ہے ) ہم متشابہ آیات کے ظاہر ( الفاظ ) پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کے باطن (یعنی ان کے معانی ) کی تصدیق کرتے ہیں جو اللہ کے ہاں ہیں اور ہم ان کے معنی کے علم کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتے ہیں اور ہم ان کے معنی کو جاننے کے مکلف بھی نہیں ہیں کیونکہ ان کے معنی کو جاننا نہ ایمان کی شرط ہے اور نہ اس کا رکن ہے اور ان میں سے بعض حضرات نے صفات متشابہات میں اس حد تک احتیاط کی کہ وہ قرآن وحدیث کے عربی لفظ مثلا ید ، وجہ اور استویٰ کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ تک نہیں کرتے تھے اور اس کو جیسے وہ وارد ہے اسی طرح ذکر کرتے تھے ( یعنی اردو میں بیان کرتے ہوئے ید کو ید ہی کہتے تھے ) ۔ یہ طریقہ واقعی سلامتی والا ہے اور تشبیہ سے خالی ہے۔
ماخوذ : اللہ تعالی کی
" صفات متشابہات "
اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد
تصنیف : ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
دیگر مضامین کیلئے دیکھیں ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" ،
اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں