ماخوذ : اللہ تعالی کی
" صفات متشابہات "
اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد
تصنیف : ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
دیگر مضامین کیلئے دیکھیں ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" ،
اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
...................................................................................
پہلے 5 باب
......................................................................
باب : 1
[ اللہ تعالیٰ کی صفات متشابہات ]
ابتداء میں مسلمان اپنے عقائد میں بھی رسول اللہ ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریقے پر تھے۔ پھر جب کچھ گمراہ اور بدعتی لوگوں نے اپنی جماعتیں بنائیں اور اپنے لیے نئے نام اختیار کیے یا دوسروں نے ان کو دیے تو اہل حق نے اپنے لیے حدیث کے مطابق اهل السنة و الجماعة کا نام اختیار کیا۔ اہل السنة میں سے عقائد کے علم میں دو حضرات نمایاں حیثیت کے گذرے۔ ایک ابو منصور ماتریدی رحمہ اللہ تھے اور دوسرے ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ تھے۔ اہل السنة اپنے آپ کو ان کی نسبت سے اشعری اور ماتریدی کہنے لگے۔ کبھی دونوں ہی کواشاعرہ کہہ دیا جاتا ہے۔
[ اللہ تعالی کی صفات ]
اہل سنت اشاعرہ و ماتریدیہ کے نزدیک اللہ تعالی کی صفات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :
1- صفات ذاتیہ:
وہ صفات جن کی ضد کے ساتھ اللہ تعالی متصف نہیں ہوتے ۔ یہ بنیادی صفات یا امہات الصفات کہلاتی ہیں۔ وہ صفات یہ ہیں:
حیات علم ، قدرت ، ارادہ،سمع ، بصر، کلام اور تکوین ، حیات کی ضد عدم یا موت ہے اور علم کی ضد جہالت ہے اور قدرت کی ضد عجز و کمزوری ہے۔ اللہ تعالیٰ حیات کے ساتھ متصف ہیں لیکن اس کی ضد جو عدم یا موت ہے اس کے ساتھ متصف نہیں ۔ اللہ تعالٰی علم کے ساتھ متصف ہیں لیکن اس کی ضد کے ساتھ جو جہالت ہے متصف نہیں۔
2- صفات فعلیہ :
وہ صفات جن کی ضد کے ساتھ بھی اللہ تعالی متصف ہوتے ہیں جیسے زندگی دینے کی ضد موت دینا ہے اور اللہ تعالیٰ دونوں کے ساتھ متصف ہیں کہ زندگی بھی دیتے ہیں اور موت بھی دیتے ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ عزت بھی دیتے ہیں اور ذلت بھی دیتے ہیں جبکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اشاعرہ صفات فعلیہ کو صفت قدرت کے تحت لیتے ہیں جبکہ ماتریدیہ ان کو صفت تکوین کے ماتحت کہتے ہیں۔
3-صفات متشابہات :
جیسے ید ( ہاتھ ) ساق ( پنڈلی ) قدم ( پاوں ) استواعلی العرش ( عرش پر قرار پکڑنا )وغیرہ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات ہیں جن کا ظاہری مطلب مراد نہیں ہے۔
[ اللہ تعالیٰ کی صفات متشابہات کے بارے میں درج ذیل اقوال ہیں: ]
1۔ اشاعرہ و ماتریدیہ کے متقدمین کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں لیکن ان کا ظاہری معنی مراد نہیں ہے اور ان کا کوئی معنی متعین کیے بغیر ہم ان کی مراد کو اللہ کے حوالے کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک ان کے جو بھی معنی ہیں وہ اللہ تعالی کی شایان شان ہیں۔ صفات متشابہات کے بارے میں اس نظریے کو تفویض کہاجاتا ہے۔
2۔ اشاعرہ و ماتریدیہ کے متاخرین کے نزدیک بھی اصل تفویض ہے لیکن چونکہ اسلاف سے بعض جگہ تاویل منقول ہے اس لیے یہ حضرات عوام کو گمراہوں کی گمراہی سے بچانے کے لیے تاویل کرنے کو جائز کہتے ہیں۔ یہاں تاویل سے مراد ہے ظاہری معنی کو چھوڑ کر اللہ تعالی کی شایان شان کوئی اور مطلب لینا۔
3۔ بدعتی فرقہ معتزلہ کے نزدیک ان صفات کی تاویل واجب ہے۔
4۔ سلفیوں کے نزدیک ان کے ظاہر ہی معنی مراد ہیں۔ اسی لیے وہ تاویل کو تحریف اور تفویض کو تعطیل کہتے ہیں۔ کیونکہ جب ان صفات کا ظاہری معنی ہی لینا مراد ہو تو
مرادی معنی کو چھوڑ کر کوئی دوسرا معنی لینا تحریف ہے اور کوئی بھی معنی مراد نہ لیں تو یہ معنی کو معطل کرتا ہے۔ غرض سلفیوں کے نزدیک یہ متشابہات نہیں ہیں بلکہ ان میں سے کچھ یا تو صفات ذاتیہ ہیں جیسے ہاتھ پاؤں چہرہ وغیرہ جو اللہ تعالی کی ذات سے کبھی جدا نہیں ہوتیں اور ان میں سے کچھ صفات فعلیہ ہیں مثلا عرش پر استواء اور آسمان دنیا پر نزول ۔ یاد رہے کہ سلفیوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی صفات فعلیہ ان کی مشیت و ارادے کے تابع ہوتی ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش کو چھوڑ کر یا اس پر قائم رہتے ہوئے آسمان دنیا کی طرف نازل ہوتی ہے تو اپنے ارادے سے نازل ہوتی ہے اور واپس عرش پر جاتی ہے تو اپنے ارادے سے جاتی ہے۔
باب :2
سلفی کون ہیں اور ان کی تاریخ کیا ہے؟
ابتداء میں یہ کچھ حنبلی تھے جنہوں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے عقیدے سے انحراف کیا اور خود اپنے بنائے ہوئے عقیدے کو امام احمد اور صحابہ و تابعین کی طرف منسوب کیا۔ علامہ ابن جوزی (597ھ ) جو خود حنبلی ہیں لکھتے ہیں:
” میں نے اپنے بعض حنبلی اصحاب کو دیکھا کہ انہوں نے عقائد کے باب میں ایسی باتیں کہی ہیں جو درست نہیں ہیں۔ یہ اصحاب ابن حامد (403ھ )، ان کے شاگرد ابو یعلی ( 458ھ ) اور ابن زاغونی (527ھ ) ہیں۔ ان کی کتابوں نے حنبلی مذہب کو عیب دار کیا ہے۔ ان لوگوں نے عوامی انداز اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو محسوسات (یعنی مخلوقات) پر قیاس کیا۔ انہوں نے یہ حدیث دیکھی کہ اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف اعضاء کی نسبت دیکھی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے ان کی ذات پر زائد صورت کا، چہرے کا، دو آنکھوں کا منہ کا، کو بے کا، داڑھوں کا، چہرے کی چمک کا ، دو ہاتھوں کا ہتھیلی کا، چھنگلی کا، انگوٹھے کا ، سینے کا، ران کا ، پنڈلیوں کا اور دو پاؤں کا اثبات کیا اور کہا کہ ہم اللہ کے لیے سر کا اثبات نہیں کرتے کیونکہ ہم نے کسی نص میں سر کا ذکرنہیں پایا۔ ان لوگوں نے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ چھوتے ہیں اور چھوئے جاسکتے ہیں اور وہ بندے کو اپنی ذات کے قریب کر لیتے ہیں اور بعض تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی سانس بھی لیتے ہیں۔
ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات میں الفاظ کے ظاہری معنی کو لیا ( مثلاًید اور قدم اور وجہ کے ظاہری و حقیقی معنی کو لیا جو ذات کے اعضاء ہیں ) اور ان کو انہوں نے صفات کہا جو خود ایک بدعت ہے اور اس پر ان کے پاس کوئی نقلی و عقلی دلیل نہیں ہے۔ اور انہوں نے ان نصوص پر توجہ نہیں کی جو تقاضا کرتی ہیں کہ ظاہری معنی کے بجائے ایسے معنی لیے جائیں جو اللہ تعالیٰ کے شایان شان ہوں اور انہوں نے اس طرف بھی توجہ نہیں کی کہ حادث ہونے کی علامتوں کی وجہ سے ظاہری معنی لغو ہیں ۔ پھر ان کو صفات مان لینے کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم ان کے ظاہری اور معروف معنی لیں گے اور لغوی توجیہ بھی نہ کریں گے۔ اور ظاہری معنی وہ ہوتے ہیں جو انسانوں میں معروف و مشہور ہیں اور لفظ کو جہاں تک ہو سکے اس کے ظاہری اور حقیقی معنی میں لیا جائے ۔ اور اگر کوئی مانع ہو تو پھر مجاز کی طرف جائیں۔ پھر وہ تشبیہ سے بچنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے سے تشبیہ کی نسبت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف ہم ( سلفی ہی ) اہل سنت ہیں حالانکہ ان کے کلام میں صریح تشبیہ پائی جاتی ہے۔
پھر عوام کی ایک تعداد ان لوگوں کی پیروی کرنے لگی۔ میں نے ان خواص و عوام دونوں کو سمجھایا کہ اے حنبلیو ! تم اہل علم اور اہل اتباع ہو اور تمہارے بڑے امام احمد بن حنبل کا یہ حال تھا کہ حکومت کے حکم پر کوڑے مارنے کے لیے جلاد ان کے سر پر ہوتا تھا پھر بھی وہ یہی کہتے تھے کہ میں وہ بات کیسے کہوں جو اسلاف نے نہیں کہی۔ لہذا تم ان کے مذہب و مسلک میں بدعتیں داخل نہ کرو ۔ پھر تم حدیثوں کے بارے میں کہتے ہو کہ ان کے بھی ظاہری معنی لیے جائیں گے ۔ تو قدم ( پاؤں) کا ظاہری معنی تو عضو ہے۔ یہ تو عیسائیوں کی طرح ہوا کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام کو روح اللہ کہا گیا تو ان ناہنجاروں نے یہ عقیدہ بنالیا کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت روح ہے جو حضرت مریم علیہا السلام میں داخل ہوئی۔ اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مقدس ذات سمیت عرش پر مستوی ہوئے تو انہوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو محسوسات کی مثل لیا حالانکہ واجب ہے کہ جس عقل سے ہم نے اللہ کو اور اس کے قدیم وازلی( ہمیشہ ہمیش سے ) ہونے کو پہچانا اسی عقل کو ہم (صفات کو سمجھنے میں ) مہمل نہ
چھوڑیں.. تو تم اس نیک اور اسلاف کے طریقے پر چلنے والے (یعنی امام احمد بن حنبل) کے مذہب ومسلک میں وہ کچھ داخل مت کرو جو اس کا حصہ نہیں ہے ۔ تم لوگوں نے اس مذہب کو بڑا گندا لباس پہنا دیا ہے جس کی وجہ سے حنبلی کو مجسم (یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے جسم ثابت کرنے والا ) سمجھا جانے لگا۔ پھر تم نے اپنے اختراعی مذہب کو یزید بن معاویہ کے لیے عصبیت ( وحمایت ) کے ساتھ مزین کیا ( اور اس کو فضیلت دار قرار دینے لگے) حالانکہ تم جانتے ہو کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس پر لعنت کرنے کو جائز کہا ہے۔ اور ابو محمد تمیمی تمہارے امام ابو یعلی کے بارے میں کہتے تھے کہ انہوں نے امام احمد کے مذہب کو ایسا برا دھبہ لگایا ہے جو قیامت تک دھل نہیں سکتا ۔“
باب:3
[سلفیوں کی تاریخ کے تین ادوار]
سلفیوں کی تاریخ کے تین دور ہیں:
پہلا دور
یہ ابن حامد ، ابو یعلی اور ابن زاغونی کا دور ہے جن کے بارے میں ابھی علامہ ابن جوزی کا تبصرہ نقل ہوا۔
دوسرا دور
یہ ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن قیم کا دور ہے۔ ابن تیمیہ نے اپنی زبان سے اور اپنے قلم سے اپنے عقائد کو جو کہ آگے ذکر ہیں اور زیارت قبور کے لیے سفر کو یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی نیت سے سفر کرنے کی ممنوعیت کو اور ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے کو ) پوری شد و مد سے پھیلانے کی کوشش کی۔ اور سلفیت جو کہ مرور زمانہ سے کمزور پڑ چکی تھی اس کو دوبارہ زندہ کیا۔ ابن قیم رحمہ اللہ کے قصیدہ نونیہ پر علامہ عثیمین (جن کی وفات ابھی چند سال پہلے ہوئی ہے۔ ان ) کی شرح میں ہے۔
ثم جاء شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله تعالى و الذي ظهر رحمه الله في وقت قل فيه و استغرب من هو على منهج اهل السنة و الجماعة فضلا عن وجود من يجهر بذلك فالهمه الله الحق وصدع به وتصدى لمن خالف ذلك و اظهر الادلة الواضحة التي تدل على ما ذهب اليه و كتب فى ذلك مؤلفات كثيرة مختصرة و مبسوطة
( ترجمہ: پھر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا دور آیا اور وہ بھی ایسے وقت میں که سلفی قلیل تھے اور غیر معروف ہو چکے تھے ، کوئی ایسا نہ تھا جو سلفیوں کے عقائد کا بر ملا اظہار کرتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ابن تیمیہ کے دل میں حق کا الہام کیا اور انہوں نے اس کا اعلان کیا اور جو ان کے مخالف تھے ان کے درپے ہوئے ۔ ابن تیمیہ نے اپنے عقیدے پر واضح دلائل قائم کئے اور مختصر اور طویل بہت سی کتابیں لکھیں )۔
تیسرا دور
یہ موجودہ سعودی حکومت کا دور ہے۔ اس دور سے پہلے زمانہ کے بارے میں شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمن ابابطین (وفات 1282ھ ) لکھتے ہیں:
اعلم ان اكثر اهل الامصار اليوم اشعرية
(اثبات الحد لله : 200)
( ترجمہ: جان لو کہ موجودہ زمانے میں ملکوں میں اکثریت اشاعرہ و ماتریدیہ کی ہے)
۔ چونکہ محمد بن عبدالوہاب ابن تیمیہ کے معتقد تھے اس لیے ان کے خاندان میں ابن تیمیہ اور سلفیوں کی فکر موجود تھی۔ سعودی دور کا ڈھانچا دو بنیادوں پر ہے۔ ملک کے سیاسی و انتظامی امور آل سعود کی ذمہ داری میں ہیں اور ملک کے مذہبی امور آل شیخ محمد بن عبدالوہاب کی ذمہ داری میں ہیں۔ ملکی سطح پر مذہبی اختیار کی وجہ سے سلفیوں کو اپنے افکار اپنے ملک میں بھی اور دیگر چھوٹی عرب ریاستوں میں بھی پھیلانے کا موقع ملا اور انہوں نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ یہ ہم نے محض قیاس آرائی نہیں کی بلکہ عبد اللہ بن عبد المحسن ترکی اور شعیب ارنوط شرح العقيدة الطحاویہ کے اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
ابن تیمیہ کے زمانہ کو گذرے ہوئے تقریبا چار صدیاں گزر چکی تھیں لیکن یہ چار صدیاں حق کے ( کچھ نہ کچھ ) داعیوں سے خالی نہیں رہیں جو اہل السنۃ والجماعة (یعنی سلفیوں) کے عقائد پر قائم رہے۔ لیکن بارہویں صدی ہجری کے نصف ثانی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کا اہل سنت ( یعنی سلفیوں) کے عقائد کے پھیلنے میں اور فہم وتطبیق میں سلفیوں کے منہج کو اختیار کرنے میں بڑا اثر ہوا۔ یہ واقعہ جزیرہ عرب میں سعود کی حکومت کے قیام کا تھا جس نے اس اصلاحی دعوت کی مدد کا عزم کیا ہوا تھا۔ اس دعوت کی پکار امام شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے لگائی۔ یہ دعوت تھی لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کی طرف پلٹنے کی اور سلف صالحین کے طریقے کو اختیار کرنے کی اور شریعت الہی کے ساتھ مطابقت کو لازم پکڑنے کی ۔ اس دعوت کو جمنے کے لیے وہ اسباب میسر آئے جو اس سے پہلے کی اور اس کے بعد کی بہت سی دعوتوں کو میسر نہیں آئے۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے۔ ان میں سے ایک بڑا سبب حکومت اور سلطنت ہے۔ اس خاص سبب سے جو اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمایا پہلی سعودی حکومت کے بانی اور امام اور مجاہد محمد بن سعود رحمہ اللہ کے عہد میں اور ان کے بعد ان کے بیٹوں اور پوتوں کے عہد میں اصلاحی دعوت نے قوت اور جماؤ حاصل کیا یہاں تک کہ چودھویں صدی کے شروع میں ملک عبدالعزیز بن عبد الرحمن آل سعود کو حکومت ملی تو ان کی حکومت نے اہل سنت ( سلفیوں) کے عقائد کی تبلیغ میں ضروری طریقہ کار کی طرف اور لوگوں کو شریعت الہی کے مطابق عمل کرنے کی طرف اور شریعت کے موافق لوگوں میں فیصلہ کرنے کی طرف توجہ کی۔
ہمارے مشائخ مثلاً محمد بن عبداللطیف، سعد بن حمد بن عتیق، عبداللہ بن عبدالعزیز عنقری، عمر بن محمد بن سلیم اور محمد بن ابراہیم بن عبداللطیف رحمہم اللہ فرماتے ہیں: پھر جب بہت سے لوگوں نے اس نعمت کی قدر نہیں کی اور اس کا لحاظ نہیں کیا تو ان میں اختلاف اور تفرقہ پیدا ہوا اور دشمنوں کو تسلط حاصل ہوا، اور بہت سے لوگ اپنے سابقہ طریقوں کی طرف لوٹ گئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے آخر میں امام عبدالعزیز بن عبد الرحمن آل فیصل کے غلبہ کی شکل میں احسان فرمایا۔ اللہ ان کی مدد فرمائے اور ان کو تو فیق عطا فرمائے اور ان کے دور میں اللہ نے احسان فرمایا کہ اس اسلامی دعوت اور ملت حنیفی کو فروغ حاصل ہوا اور اس کے مخالفوں کا قلع قمع ہوا۔ اور جب ملک عبدالعزیز نے اپنی حکومت کو توحید کو اور نجات دلانے والے عقائد کو جہاں اپنے ملک میں مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیاوہیں اپنے ملک سے باہر بھی ان کی ترویج کے لیے دو طریقے اختیار کئے۔
1۔ داعی بھیجے۔
2۔ توحید خالص اور سلفی عقیدہ پر مشتمل کتابوں کو پھیلایا ۔ (43-41)
[تنبيه]
برصغیر کے غیر مقلد حضرات پہلے اشاعرہ کے اصول پر تھے لیکن پھر انہوں نے بھی آہستہ آہستہ اپنا تعلق ابن تیمیہ سے اور سعودی حکومت سے جوڑ لیا اور یہ تک بھول گئے کہ خود ان کے بڑے مثلاً شیخ نذیرحسین دہلوی، مولانامحمد حسین آزاد شمس الحق عظیم آبادی اور مولانا عبدالرحمن مبارک پوری سلفی عقائد کے حاملین کو کیا سمجھتے تھے اور سلفی اب ان کے بڑوں میں سے مولا نا عبد الرحمن مبارک پوری کی تحفة الاحوذی کی اور مولاناشمس الحق عظیم آبادی کی عون المعبود کی کیا گت بنارہے ہیں۔ ان حضرات کے وہ عقائد جو اشاعرہ کے موافق ہیں سلفی ان کونشان زد کر کے یہ بتارہے ہیں کہ یہ گمراہی ہے۔
ان تمام کاوشوں کے باوجود سلفی اب بھی اقل قلیل ہیں اور امت کا سواد اعظم اب بھی اشاعرہ و ماتریدیہ پرمشتمل ہے۔
باب:4
[ سلفی خود کو اهل السنة والجماعة اور اشاعرہ و ماتریدیہ کو گمراہ اور بدعتی کہتے ہیں ]
اوپر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات متشابہات کے بارے میں سلفیوں کا عقیدہ درست نہیں لیکن سلفی دعویدار ہیں کہ اہل سنت صرف وہی ہیں اور ان کے برعکس اشاعرہ و ماتریدیہ (جو اصل اہل سنت ہیں ) وہ بدعتی ہیں بلکہ جو سلفی متشدد ہیں وہ اشاعرہ و ماتریدیہ کی تکفیر تک کرتے ہیں۔ اشاعرہ و ماتریدیہ میں سے متقدمین اور متاخرین صفات متشابہات میں تفویض کرتے تھے یعنی یہ کہتے تھے کہ ہم ان صفات کو مانتے ہیں لیکن ہم ان کا معنی نہیں جانتے ، اللہ تعالی ہی ان کو جانتے ہیں لہذا ہمارا ان پر ایمان ہے لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ ان کا یہ مطلب ہے بلکہ ان سے جو مراد ہے ہم اس کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر تے ہیں۔ اس کو اشاعره و ماتریدیہ تفویض یعنی اللہ کے سپرد کرنا کہتے ہیں لیکن سلفی اس کو تعطیل کہتے ہیں یعنی ظاہری معنی کو معطل کرنا اور ان کو اختیار نہ کرنا۔ پھر جب گمراہ فرقوں نے صفات متشابہات کے ذریعے سے عوام کو گمراہ کرنا شروع کیا جیسا کہ خود سلفی بھی کرتے ہیں تو اشاعرہ و ماتریدیہ کے متاخرین نے لوگوں کو گمراہ عقیدوں سے بچانے کے لیے تاویل کرنے کو اختیار کیا جس کو سلفی تحریف یعنی معنی مراد کو تبدیل کرنا کہتے ہیں۔ سلفیوں کے نزدیک تعطیل و تحریف کے درمیان جو فرق ہے اس کو بیان کرتے ہوئے علامہ عثیمین لکھتے ہیں :
تحریف دلیل میں ہوتی ہے اور تعطیل مدلول و مراد میں ہوتی ہے مثلاً جب کوئی یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول بَل يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ کا مطلب ہے اس کی دو تو تھیں، تو شخص دلیل میں تحریف کرتا ہے اور صحیح مراد کو معطل کرتا ہے کیونکہ یداہ سے مراد حقیقی ہاتھ ہیں۔ تو اس شخص نے مرادی معنی کو معطل کیا اور غیر مرادی معنی کو ثابت کیا۔ اور جب کوئی یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ بَلْ يَدَاهُ مُبْسُوطَتَانِ سے کیا مراد ہے اور میں اس کی مراد کو اللہ پر چھوڑتا ہوں ، نہ میں اس سے حقیقی ہاتھ ثابت کرتا ہوں اور نہ کوئی دوسرا معنی لیتا ہوں تو یہ تعطیل ہے تحریف نہیں کیونکہ تحریف میں لفظ کے معنی کو بدل دیا جاتا ہے اور اس کا مطلب کچھ اور بتایا جاتا ہے جبکہ تعطیل یہ ہے کہ آدمی اس کا معنی ہونے کے باوجود کوئی بھی معنی مراد نہ لے۔ اہل سنت ( یعنی سلفی ) تحریف اور تعطیل دونوں طریقوں سے بری ہیں۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ لفظ کے حقیقی معنی ومراد کو معطل کر کے کوئی دوسرا معنی مراد لیا جائے ۔ دوسرا طریقہ اہل تفویض کا ہے۔ سلفی معنی کو اللہ تعالیٰ پر نہیں چھوڑتے بلکہ کہتے ہیں کہ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ سے اللہ کے دو حقیقی ہاتھ مراد ہیں نعمت اور قوت مراد نہیں ہے۔ غرض اہل سنت (یعنی سلفی ) نہ تحریف کے قائل ہیں اور نہ تفویض کے۔ بہر حال اس میں شک نہیں کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اہل سنت کا (یعنی سلفیوں کا ) طریقہ تفویض کا ہے تو وہ غلط کہتے ہیں کیونکہ اہل سنت ( یعنی سلفیوں) کا طریقہ یہ ہے کہ وہ مرادی معنی کو ثابت مانتے ہیں البتہ اس کی کیفیت ( شکل وصورت) کو تفویض یعنی اللہ کے حوالے کرتے ہیں .. اس سے معلوم ہوا جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں، معنی مراد میں تفویض کرنا ( جیسا اشاعرہ و ماتریدیہ کے متقدمین کرتے ہیں ) سب سے برا بدعتی قول ہے“۔
(شرح عقیدہ واسطیہ : 44)
علامہ خلیل ہراس یہی بات ابن تیمیہ کی کتاب عقیدہ واسطیہ پر اپنی شرح میں لکھتے ہیں: کلام میں تحریف اس کو کہتے ہیں کہ ظاہر معنی کو چھوڑ کر ایسے کسی دوسرے معنی کو اختیار کرنا جس پر لفظ کی دلالت مرجوح درجہ میں ہو لہذا کلام میں ایسے قرینہ کا ہونا ضروری ہے جو واضح کرے کہ دوسرا معنی مراد ہے۔ کلام میں تعطیل سے یہاں مراد ہے صفات الہی کی نفی کرنا اور ذات خداوندی کے ساتھ ان کے قیام کا انکار کرنا۔ تحریف اور تعطیل میں فرق یہ ہے کہ تعطیل میں اس معنی حق کی نفی کی جاتی ہے
جس پر کتاب وسنت دلالت کرتی ہیں اور تحریف میں نصوص کی ان باطل ، معانی کے ساتھ تفسیر کی جاتی ہے جن پر کتاب وسنت دلالت نہیں کرتیں ۔ جو شخص باطل معنی کا اثبات کرے اور معنی حق کی نفی کرے اس نے تحریف و تعطیل دونوں کا ارتکاب کیا۔ اور جو کتاب وسنت میں وارد صفات کی نفی کرے بایں طور کہ دعوی کرے کہ ان کے ظاہری معنی مراد نہیں ہیں لیکن کسی دوسرے معنی کی تعین بھی نہ کرے تو یہ تعطیل ہے تحریف نہیں ہے اور لوگ اس کو تفویض کہتے ہیں۔
یہ کہنا کہ سلف کا مذہب تفویض ہے جیسا کہ ان کی طرف متاخر اشاعرہ وغیرہ نے منسوب کیا ہے یہ درست نہیں ہے کیونکہ سلف معنی کے علم کو تفویض نہیں کرتے تھے اور نہ ایسا کلام پڑھتے تھے جس کا معنی وہ سمجھتے نہ ہوں بلکہ وہ کتاب وسنت کی نصوص کے معنی کو سمجھتے تھے اور اللہ عزوجل کے لیے ان کا اثبات کرتے تھے پھر اس کے بعد صفات کی کنہ وحقیقت یا ان کی کیفیات کو تفویض کرتے تھے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ عرش پر اللہ کے استوا کی کیا کیفیت ہے تو انہوں نے فرمایا استوا کا معنی تو معلوم ہے کیونکہ بلند ہونے کو اور قرار پکڑنے کو کہتے ہیں اور کیفیت نا معلوم ہے. بلا کیفیت“ کہنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ کیفیت یعنی شکل وصورت کی سرے سے نفی کرتے تھے کیونکہ کسی نہ کسی کیفیت کا ہونا تو ناگزیر ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ کیفیت کے علم کی نفی کرتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی کیفیت کو صرف اللہ ہی جانتے ہیں کوئی اور نہیں جانتا“۔ (شرح عقیدہ واسطیہ : 22-20)
[ سلفیوں کی تصریحات جن میں اشاعرہ و ماتریدیہ کو بدعتی اور فاسق کہا گیا ہے ]
علامہ عثیمین کے استاد علامہ سعدی اشاعرہ کی تکفیر نہیں کرتے البتہ ان کو گمراہ کہتے ہیں،
وہ لکھتے ہیں:
اسی لئے خوارج معتزلہ اور قدریہ وغیرہ بدعتیوں کی مختلف قسمیں ہیں ۔ ان میں کچھ تو وہ ہیں جو یقیناً کافر ہیں جیسے عالی جہمیہ جواللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کی نفی کرتے ہیں اس کے باوجود کہ ان کو علم ہے کہ ان کی بدعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی باتوں کے خلاف ہے۔ یہ لوگ جانتے بوجھتے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے ہیں ۔ اور ان میں کچھ وہ ہیں جو گمراہ اور فاسق بدعتی ہیں جیسے وہ خارجی جو تاویل کرتے ہیں ۔ یہ رسول کی تکذیب نہیں کرتے ( کیونکہ رسول کی بتائی ہوئی باتوں کو مانتے ہیں لیکنن ان کا مطلب غلط لیتے ہیں ) اور (اس لئے ) وہ اپنی بدعت کی وجہ سے گمراہ ہیں لیکن پھر بھی اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں ۔ اسی وجہ سے خوارج کے بدعتی ہونے کا اور ان کے حق سے نکلنے کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین متفقہ حکم لگاتے ہیں جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ خارجی اسلام سے خارج نہیں ہیں اس کے باوجود کہ وہ مسلمانوں کی جان و مال کو مباح سمجھتے ہیں اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب کیلئے شفاعت کا انکار کرتے ہیں اور دین کے بہت سے اصول کا انکار کرتے ہیں لیکن چونکہ وہ تاویل کرتے تھے اس وجہ سے ان کی تکفیر نہیں کی جاتی ۔ اور جوان سے کمتر درجے کے بدعتی ہیں جیسے کہ بہت سے قدری اور کلابی اور اشاعرہ تو یہ اصول میں قرآن وسنت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے بدعتی اور گمراہ ہیں اور ان کے آپس میں چند درجے ہیں“ ۔ (شرح قصیدہ نونیہ : 296/4)
ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
و الاشعرى و امثاله برزخ بين السلف والجهمية، اخذوا من هؤلاء كلاماً صحيحاً، و من هؤلاء اصولا عقلية ظنوها صحيحة و هي فاسدة، فمن الناسمن مال اليه من الجهة السلفية، ومن الناس من مال اليه من الجهة البدعية كأبي المعالی و اتباعه (مجموع فتاوی 16/471)
ترجمہ: اشعری اور ان جیسے حضرات سلفیوں اور جہمیوں کے درمیان کا ایک طبقہ ہیں۔ سلفیوں سے انہوں نے کچھ باتیں لیں اور جہمیہ سے کچھ عقلی اصول ان کو صحیح سمجھ کر لیے حالانکہ وہ حقیقت میں فاسد تھے۔ تو کچھ لوگ اشعری کی طرف سلفیت کی جہت سے مائل ہوئے اور کچھ لوگ ان کی طرف بدعت کی جہت سےمائل ہوئے مثلاً ابوالمعالی اور ان کے پیروکار )
اما المتاخرون فانهم والوا المعتزلة وقاربوهم اكثر و قدموهم على اهل السنة والاثبات و خالفوا اولیهم
(197- فتاوی کبری 5115 )
( ترجمہ: متاخرین اشاعرہ نے معتزلہ سے تعلق بڑھایا اور ان کی فکر کے قریب ہوئے اور ان کو سلفیوں پر مقدم کیا اور اپنے متقدمین کے خلاف روش اختیار کی ) ۔
فعلم ان هولاء (يعنى متاخرى الاشاعرة) حقيقة باطنهم باطن المعتزلة والجهمية المعطلة و ان كان ظاهرهم ظاهر اهل الاثبات كما ان المعتزلة عند التحقيق حقيقة امرهم امر الملاحدة نفاة الاسماء و الصفات بالكلية وان تظاهروا بالرد عليهم ( 197 بيان تلبيس الجهمية)
(ترجمہ: اس سے معلوم ہوا کہ متاخرین اشاعرہ کی حقیقت یہ ہے کہ اندر سے وہ معتزلہ اور جہمیہ کی طرح ہیں جو صفات کی نفی کرتے ہیں اگرچہ اوپر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صفات کو مانتے ہیں جیسا کہ معتزلہ حقیقت میں اندر سے ملحدوں کی طرح ہیں
جو اسماء وصفات کی بالکلیہ نفی کرتے ہیں اگرچہ بظاہر ملحدوں پر رد کرتے ہیں)۔
فعامة ماذمه السلف والائمة وعابوه على المعتزلة من الكلام المخالف للكتاب و السنة و الاجماع القديم لكم منه اوفر نصيب بل تارة تكونون اشد مخالفة لذلك من المعتزلة و قد شاركتموه في اصول ضلالهم التي فارقوا بها سلف الامة وائمتها و نبذوا بها كتاب الله وراء ظهورهم ... وانتم شركاؤهم في هذه الاصول كلها و منهم اخذتموها و انتم فروخهم فيها (ص 197- فتاوی کبری 324)
( ترجمہ: سلف اور ائمہ نے قرآن وسنت اور اجماع کے مخالف کلام کی وجہ سے معتزلہ کی جو مذمت کی اور ان پر عیب لگایا اور ان کی تکفیر کی تو (اے متاخرین اشاعرہ) تمہارے لئے اس مذمت اور عیب کا زیادہ حصہ ہے لیکن کبھی تو تمہاری مخالفت معتزلہ کی مخالفت سے زیادہ سخت ہو جاتی ہے۔ تم ان کی گمراہی کے اصول میں ان کے شریک ہوئے جن سے امت کے اسلاف اور اس کے ائمہ ان سے جدا ہوئے اور جن کی وجہ سے معتزلہ نے کتاب اللہ کو اپنے پس پشت ڈالا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان تمام اصول میں تم معتزلہ کیساتھ ہو۔ یہ اصول تم نے ان ہی سے لئے اور تم ان ہی کے انڈےبچے ہو۔)
باب:5
[ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک سلفیوں کے مسلک سے مختلف ہے ]
[امام احمد استواء کے ساتھ ذات کی قید نہیں لگاتے]
سألوه عن الاستواء فقال استوى على العرش كيف شاء و كماشاء بلا حد وصفة يبلغها واصف ذكره الخلال في السنة (اثبات الحدلله ص 217)
( ترجمہ: امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے استواء کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے عرش پر استوا کیا جیسے چاہا بغیر حد کے اور بغیر صفت کے جس تک کوئی پہنچ سکے۔)
[ امام احمد تاویل کرتے ہیں ]
1۔ حكى حنبل عن الامام احمد انه سمعه يقول احتجوا على يوم المناظرة فقالوا تحبى يوم القيامة سورة البقرة و تحبى سورة تبارك قال فقلت لهم انما هو الثواب قال الله جل ذكره و جاء ربك و الملك صفا صفا و انما تاتى قدرته
( العقيده و علم الكلام ص 504)
(ترجمہ: امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے ذکر کیا کہ مناظرہ کے دن فریق مخالف نے میرے خلاف یہ دلیل دی کہ حدیث میں ہے کہ سورہ بقرہ اور سورہ تبارک قیامت کے دن آئیں گی۔ میں نے جواب دیا کہ اس سے مراد ان کا ثواب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ جَاءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا یعنی اس کی قدرت آئے گی )۔
2 ۔ قال ابن حزم الظاهرى روينا عن الامام احمد بن حنبل رحمه الله في قوله تعالى وجاء ربك انما معناه جاء امر ربك كقوله تعالى هل ينظرون الا ان تاتيهم الملائكة او ياتى امر ربك و القرآن يفسر بعضه بعضا هكذا نقله ابن الجوزي في تفسيره زاد المسير
(العقيده و علم الكلام ص 504)
( ترجمہ: ابن حزم ظاہری نے نقل کیا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے وجاء ربک اور تمہارا رب آیا کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے کہ تمہارے رب کا حکم آیا جیسا کہ اس آیت میں ہے : هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَاتِيَ أَمُرُ رَبِّكَ (نحل: 33)
(وہ نہیں انتظار کرتے مگر اس کا کہ آئیں ان کے پاس فرشتے یا آئے تمہارے رب کا حکم ۔ ) اور قرآن کا ایک حصہ دوسرے کی تفسیر کرتا ہے۔ اسی طرح سے ابن الجوزی نے اپنی تفسیر زاد المسیر میں نقل کیا ہے۔)
ان روایتوں کے مطابق امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے تاویل کا طریقہ اختیار کیا ہے۔
[امام احمد رحمہ اللہ تفویض کرتے ہیں]
لما كل الامام احمد عن احاديث النزول والروية و وضع القدم و نحوها قال نومن بها و نصدق بها و لا كيف و لا معنى
(اثبات الحدلله ص 219,218)
ترجمہ: امام احمد رحمتہ اللہ علیہ سے نزول، رویت اور پاؤں رکھنے کی حدیثوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: ہمارا ان پر ایمان ہے اور ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں بغیر کیفیت کے اور بغیر معنی کے۔)
3۔ وكان الامام احمد رحمه الله يقول امروا الاحاديث كماجاءت و على ما قال جرى كبار اصحابه کابراهيم الحربی و ابی داؤد والاثرم و من كبار اتباعه ابو الحسن المنادى وكان من المحققين و كذلك ابو الحسين التميمي و ابو محمد رزق الله بن عبد الوهاب و غيرهم من اساطين الائمة في مذهب الامام احمد و جروا على ما قاله في حالةالعافية و فى حالة الابتلاء......
(العقيده وعلم الكلام 285)
ترجمہ: امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ احادیث کو ایسے ہی چلاؤ جیسی کہ وہ ہیں۔۔۔ یعنی ان کے کسی بھی معنی کی تعیین کئے بغیر۔۔۔ اور جیسے انہوں نے فرمایا ان کے بڑے شاگردوں نے ویسا ہی طریقہ اختیار کیا مثلاً ابراہیم حربی ، ابو داؤد اور اثرم نے اور ان کے بڑے پیروکاروں میں سے ابوالحسین منادی نے جو کہ محقق لوگوں میں سے تھے۔ اسی طرح ابوالحسن تمیمی اور ابومحمد رزق اللہ بن عبد الوہاب وغیرہ نے جو امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کے مذہب کے ستونوں میں سے تھے انہوں نے بھی موافق و مخالف ہر قسم کے حالات میں اسی طرح عمل کیا۔ )
[ہم کہتے ہیں]
اس سے معلوم ہوا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے اصحاب جو کہ حنبلی مذہب کے بڑے ستونوں میں سے تھے وہ ابن حامد ، ابو یعلی اور ابن زاغونی کی باتوں سے متفق نہیں تھے۔ علاوہ ازیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ابن زاغونی وغیرہ کی باتیں خود امام احمد سے ثابت نہیں۔ اگر ہوتیں تو یہ حنابلہ اختلاف نہ کرتے بلکہ ان کو ضرور ذکر کرتے ۔
[امام احمد صفات متشابہات کی تفسیر میں سلفیوں سے اختلاف کرتے ہیں]
1۔ طبقات الحنابلہ میں امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کا یہ عقیدہ مذکور ہے۔
اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں ان کی صفات ہیں کام کرنے کے اعضاء نہیں ہیں اور اللہ مرکب نہیں ہیں۔ اور وہ نہ جسم ہیں اور نہ اجسام کی جنس سے ہیں اور نہ محدود دو ترکیب کی جنس سے ہیں اور نہ ابعاض ہیں اور نہ جوارح اور نہ ان پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اور نہ اللہ کی کہنی ہے اور نہ بازو ہے۔ اور نہ ہاتھ کے لفظ کا استعمال جن جن معانی کا تقاضا کرتا ہے ان میں سے ہیں سوائے ان کے جن کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہو یا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث میں ہو“۔
نیز امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولا يجوز ان يقال استوى بمماسة ولا بملاقاة تعالى الله عن ذلك علوا كبيرا ۔
(بحوالہ اہل السنتہ الاشاعرة ص: 93)
(ترجمہ: یہ کہنا جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عرش کو چھو کر یا اس کے ساتھ لگ کر استوا کیا۔ اللہ تعالیٰ تو اس سے بہت بلند و بڑے ہیں۔)
جان لو کہ اصحاب حدیث میں سے سلف نے دیکھا کہ معتزلہ علم کلام میں غلو سے کام لے رہے ہیں اور ان سنتوں کی مخالفت پر کمر بستہ ہوئے ہیں جن کو وہ ائمہ راشدین کے زمانے سے جانتے چلے آئے ہیں اور انہوں نے دیکھا کہ مسئلہ تقدیر میں بنوامیہ کے حکمران معتزلہ کی تائید کرتے رہے اور بنو عباس کے کئی حکمرانوں نے صفات الہی کی نفی میں اور قرآن کے مخلوق ہونے میں معتزلہ کی ہم نوائی کی تو وہ قرآن پاک کی متشابہ آیات اور متشابہ حدیثوں کے بارے میں اہل السنۃ والجماعة کے مذہب و طریقہ کو ثابت کرنے میں متحیر ہوئے۔
امام احمد بن حنبل، دلود بن علی اصفہانی اور سلف کے بعض ائمہ نے پچھلے سلف اور اصحاب حدیث مثلا امام مالک اور مقاتل بن سلیمان کے طریقے کو سلامتی کا طریقہ سمجھ کر اسے اختیار کیا اور کہا کہ قرآن وسنت میں جو کچھ وارد ہوا ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم صفات متشابہ کے معنی کے در پے نہیں ہوتے کیونکہ ہمیں اس بات کا قطعی علم ہے کہ اللہ عز وجل کسی بھی مخلوق کے مشابہ نہیں ہیں اور ذہن میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کے بارے میں جو تخیل پیدا ہوتا ہے وہ ذہن کی احتراع ہے جو خود مخلوق ہے۔ اور وہ حضرات تشبیہ سے اس حد تک بچتے تھے کہ کہتے تھے کہ جو کوئی یہ قرانی الفاظ خَلَقَت بِيَدَى (میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا) پڑھتے ہوئےاپنے ہاتھ کو حرکت دینے یا یہ حدیث کہ "قلب المومن بين اصبعين من اصابع الرحمن " ( مومن کا دل رحمان کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان ہے ) روایت کرتے ہوئے اپنی دوانگلیوں سے اشارہ کرے تو واجب ہے کہ اس کا ہاتھ اور اس کی دو انگلیوں کو کاٹ دیا جائے اور ان حضرات نے کہا کہ ان آیات کی تفسیراور تاویل کرنے میں وہ دو وجہ سے توقف کرتے ہیں۔
1- متشابہ کے معنی و تاویل کے در پے ہونے سے قرآن پاک میں ممانعت ہے۔
فاما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة و ابتغاء تاويله و ما يعلم تاويله الا الله والراسخون في العلم يقولون امنا به كل من عند ربنا و ما يذكر الا اولوا الالباب
تو وہ لوگ جن کے دلوں میں کمی ہے وہ متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور غلط مطلب ڈھونڈنے کی غرض سے حالانکہ ان کا مطلب سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا اور مضبوط اعلم والے کہتے ہیں ہم یقین رکھتے ہیں اس پر سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور (سمجھانے سے ) صرف وہی سمجھتے ہیں جو عقل والے ہیں ۔
2۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ تاویل ظنی ہوتی ہے اور صفات الہی میں ظن سے کچھ کہنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ہم ظن سے کس معنی کی تعیین کریں جو اللہ تعالیٰ کی مراد کے موافق نہ ہو۔ اس سے تو ہم ربیع و کجی میں پڑ جائیں گے۔ لہذا ہم راسخون فی العلم کے طریقے پر چلتے ہوئے ان ہی کی بات کرتے ہیں کہ کل من عند ربنا ( ہر بات کا علم ہمارے رب کے پاس ہے ) ہم متشابہ آیات کے ظاہر ( الفاظ ) پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کے باطن (یعنی ان کے معانی ) کی تصدیق کرتے ہیں جو اللہ کے ہاں ہیں اور ہم ان کے معنی کے علم کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتے ہیں اور ہم ان کے معنی کو جاننے کے مکلف بھی نہیں ہیں کیونکہ ان کے معنی کو جاننا نہ ایمان کی شرط ہے اور نہ اس کا رکن ہے اور ان میں سے بعض حضرات نے صفات متشابہات میں اس حد تک احتیاط کی کہ وہ قرآن وحدیث کے عربی لفظ مثلا ید ، وجہ اور استویٰ کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ تک نہیں کرتے تھے اور اس کو جیسے وہ وارد ہے اسی طرح ذکر کرتے تھے ( یعنی اردو میں بیان کرتے ہوئے ید کو ید ہی کہتے تھے ) ۔ یہ طریقہ واقعی سلامتی والا ہے اور تشبیہ سے خالی ہے۔
ماخوذ : اللہ تعالی کی
" صفات متشابہات "
اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد
تصنیف : ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
دیگر مضامین کیلئے دیکھیں ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" ،
اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں