باب :6 , سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے حقیقی ہاتھ ، پاؤں،انگلیاں، آنکھیں اور کان وغیرہ ہیں
باب :6
ماخوذ : اللہ تعالی کی
" صفات متشابہات "
اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد
تصنیف : ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
دیگر مضامین کیلئے دیکھیں ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" ،
اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
[سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے حقیقی ہاتھ ، پاؤں،انگلیاں، آنکھیں اور کان وغیرہ ہیں]
سلفیوں کا عقیدہ ہے کہ جیسے انسان کے اعضاء و جوارح اور آلات ہیں اسی طرح اللہ تعالی کے بھی حقیقی ہاتھ ، پاؤں انگلیاں ، آنکھیں، کان اور چہرہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے یہ اعضاء ہمیشہ ہمیشہ سے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھوں سے عمل کرتے ہیں ، اپنے کان سے سنتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں البتہ ان اعضاء کی کیفیت یعنی شکل وصورت نا معلوم ہے۔ سلفی حضرات ان اعضاء کو اعضاء نہیں کہتے صفات ذاتیہ کہتے ہیں۔ علامہ عثیمین عقیدہ واسطیہ کی شرح میں یوں لکھتے ہیں:
سلفی حضرات ان صفات کو جن سے اللہ تعالیٰ ہمیشہ متصف رہے اور رہیں گے صفات ذاتیہ کہتے ہیں۔ ان کی پھر وہ دو قسمیں کرتے ہیں:
1 - معنویہ جیسے حیات علم ، قدرت اور حکمت وغیرہ
2 - خبر یہ جیسے اللہ تعالیٰ کیلئے وجہ (چہرہ) ، ید ( ہاتھ ) ، اصابع (انگلیاں)،ساق ( پنڈلی)، قدم (پاؤں) ، جنب ( پہلو ) عین ( آنکھ ) اور اذن (کان)وغیرہ۔
ذاتیہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کی ذات سے کبھی جدا نہیں ہوتیں اور اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ متصف رہتے ہیں۔
خبر یہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے خود ان کی خبر دی ہے ورنہ اپنی عقل سے ہم ان کو معلوم نہیں کر سکتے تھے۔ ان کے برخلاف صفات ذاتیہ معنویہ مثلاً علم سمع و بصر پر اگرچہ نقلی دلائل موجود ہیں لیکن ہم اپنی عقل سے بھی ان کا ادراک کر سکتے ہیں ۔
صفات ذاتیہ خبریہ سے ان کے حقیقی معنی مراد ہیں یعنی جو انسانوں میں ان کے عضاء کہلاتے ہیں۔ البتہ ان کو اللہ تعالیٰ کے اجزاء و ابعاض کہنا درست نہیں کیونکہ جزو اور بعض ایسی چیز کو کہتے ہیں جو کل سے جدا ہو سکتی ہیں جبکہ یہ صفات اللہ تعالیٰ سے کبھی جدا نہیں ہوتیں“ ۔
(شرح عقیدہ واسطیہ : 51)
غرض مذکورہ صفات ذاتی خبر یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ سے ہیں یعنی یہ نہیں کہ وہ پہلے نہ تھیں اور بعد میں کسی وقت حاصل ہوئیں اور اللہ تعالی سے یہ کبھی جدا بھی نہیں ہوتیں۔
ابن قیم اپنے قصیدہ نونیہ میں لکھتے ہیں :
يتقدس الرحمن جل جلاله
عنها وعن اعضاء ذي جثمان
(رحمن جل جلاله لوازم جسم سے اور اعضاء جسم سے پاک و منزہ ہیں )
اس کی شرح میں علامہ عثیمین لکھتے ہیں۔
” ابن قیم کے الفاظ اعضاء ذی جثمان میں وجہ (چہرہ)، ید ( ہاتھ )،عین ( آنکھ ) قدم (پاؤں) اور ساق ( پنڈلی ) شامل ہیں کیونکہ یہ جسم والے کے اعضاء ہیں۔ کیا اللہ ان سے پاک و منزہ ہیں۔ ابن قیم کے کلام سے بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعضاء سے پاک ہیں لیکن ہمیں ابن قیم کے بارے میں نصف النہار کے نکلے سورج کی طرح معلوم ہے کہ وہ چہرے، ہاتھ ، آنکھ ، پاؤں اور پنڈلی کی صفات کا اللہ تعالیٰ کیلئے یقینا اثبات کرتے ہیں۔ لہذا ان کی بات کا حاصل یہ ہے کہ وہ اعضاء کی نفی نہیں کرتے بلکہ اعضاء کے ان خصائص کی نفی کرتے ہیں جو انسان میں پائی جاتی ہیں مثلا یہ کہ وہ انسان کے جسم سے جدا ہو سکتے ہیں۔ تو کیا اللہ تعالیٰ میں یہ اعضاء ان سے جدا ہوتے ہیں یا نہیں ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ میں ان کا اللہ سے جدا ہو نا ممکن نہیں اسی لئے علماء کا قول ہے کہ اللہ کے ید وغیرہ کو اللہ کا بعض کہنا جائز نہیں کیونکہ بعض اس کو کہا جاتا ہے جو کل سے جدا ہو سکے اور اللہ سے کوئی جزو جدا ہو سکے یہ محال ہے اس لئے ہم شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی اس عبارت میں جو ان کی کتاب عقیدہ تدمریہ میں ہے دقت نظر پاتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا اللہ کی صفات کچھ وہ ہیں جو معنی ہیں اور کچھ وہ ہیں جن کا مسمی و مصداق اللہ کے اعتبار سے اعضاء ہیں جیسے ید (ہاتھ ) کہ ہمارے اعتبار سے اسکا مسمی و مصداق ایک عضو ہے۔ لیکن اللہ کے اعتبار سے ہم اس کو نہ عضو کہتے ہیں، نہ جزو کہتے ہیں اور نہ بعض کہتے ہیں۔ ہم ان کو صفات کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کیلئے حقیقی (اور ظاہری ) معنی میں ثابت ہیں اور ان کا مسمی و مصداق ہمارے اعتبار سے ابعاض اور اجزاء اور اعضاء ہیں جبکہ اللہ تعالٰی کے اعتبار سے ان کو ابعاض ، اجزاء اور اعضاء نہیں کہا جاتا )۔
(شرح قصیدہ نونیه: 345/1)
ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
فان قال هذه معان وتلك ابعاض قال له الرضا والغضب و الحب معان واليد والوجه وان كان بعضا فالسمع والبصر و الكلام اعراض لا تقوم الا بجسم فان جازلك اثباتها مع انها ليست اعراضا و محلها ليس بجسم جاز لي اثبات هذه مع انها ليست ابعاضا۔
واقعہ یہ ہے امر معنوی یا جارحہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ مخلوق میں امور معنوی بھی موجود ہیں اور جوارح بھی ۔ اگر امور معنویہ پر مشتمل نصوص سے ظاہر معنی مراد لینے سے تشبیہ لازم نہیں آسکتی تو جوارح والے نصوص کے ظاہری معانی سے کیسے تشبیہ لازم آجاتی ہے؟ پھر اگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور انسان کی ناقصہ ہے تو ید ، حب ،بغض وغیرہ اللہ تعالیٰ کے کامل نہیں اور انسان کے ناقص ۔ دونوں کی حیثیت ایک جیسی نہیں ۔ یہی امام صاحب (ابن تیمیہ ) کا کہنا ہے۔ یہ ان کی گرفت اشاعرہ پر ایسی ہے کہ اس سے وہ بھی نہیں نکل سکے۔ (ص436)
[اللہ تعالیٰ کے ہاتھ]
لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَى کے تحت علامہ عثیمین لکھتے ہیں :
" فيها اثبات اليدين لله سبحانه و تعالى اليدين اللتين بهما يفعل كالحلق هنا اليدين اللتين بهما يقبض و الارض جميعا قبضته يوم القيامة و بهما ياخذ فان الله تعالى ياخذ الصدقة فيربيها كما يربى الانسان فلوه قال اهل العلم: وكتب الله التوراة بيده و غرس جنة عدن بیده فهذه ثلاثة اشياء كلها كانت بيد الله تعالى
( 158 شرح عقيده واسطيه)
( ترجمہ: قرآن پاک کے ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کیلئے دو ہاتھوں کا ذکر ہے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ کام کرتے ہیں جیسا کہ یہاں تخلیق کے عمل کا ذکر ہے اور جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام زمینوں کو مٹھی میں لے لیں گے اور جن کے ذریعہ سے اللہ تعالٰی صدقہ کو پکڑتے ہیں اور اس کو بڑھاتے ہیں جیسا کہ انسان اپنے بچھیرے کی پرورش کرتا ہے اور اس کو بڑھاتا ہے۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو رات اپنے ہاتھ سے لکھی اور جنت عدن کے درخت بھی اپنے ہاتھ سے لگائے ۔ تو یہ کل ملا کر تین چیزیں ہوئیں جواللہ تعالی کے ہاتھوں سے وجود میں آئیں۔"
[اللہ تعالیٰ کی آنکھیں]
علامہ عثیمین لکھتے ہیں:
( قوله: عينان (ناظرتان هذا الذي اجمع عليه اهل السنة ان لله عينين ناظرتين ينظر بهما عزو جل
(شرح القصيدة النونية 325 ج 4)
( ترجمہ: اہل سنت یعنی سلفیوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ کی دو آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں ۔ )
يقول المعطلة ان اهل السنة يقولون ان الله لايرى بعيان و هذاكذب عليهم هم يقولون ان الله يرى بالعيان و من انكر الروية فهو على خطر
(شرح القصيدة النونية ص 289 ج 4)
( ترجمہ: معطلہ اہل سنت یعنی سلفیوں کی طرف اس بات کو منسوب کرتے ہیں کہ اللہ تعالی آنکھوں سے نہیں دیکھتے۔ یہ ان پر جھوٹ ہے اور وہ اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور جوکوئی اللہ تعالیٰ کے دیکھنے کاانکار کرے اس کا تو ایمان خطرے میں ہے ) ۔
علامہ خلیل ہراس اپنی شرح کے صفحہ 45 پر لکھتے ہیں:
سنن ابی داؤد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت " إِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا“ پڑھی اور اپنا انگوٹھا اپنے کان پر رکھا اور اپنی انگشت شہادت کو اپنی آنکھ پر رکھا۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کان سے سنتے ہیں اور اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ تو یہ حدیث ان بعض اشاعرہ کے خلاف حجت و دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ کے کان سے مراد مسموعات کا علم لیتے ہیں اور ان کی آنکھ سے مبصرات کا علم لیتے ہیں۔ ان اشاعرہ کی یہ تفسیر غلط ہے کیونکہ اندھا آدمی آسمان کے وجود کا علم رکھتا ہے حالانکہ اس نے آسمان کو دیکھا نہیں ہوتا اور بہرا آدمی آوازوں کے وجود کو جانتا ہے حالانکہ اس نے ان کو سنا نہیں ہوتا۔“
[اللہ تعالی کا چہرہ]
وجہ ( چہرے) کا معنی معلوم ہے لیکن اس کی کیفیت نامعلوم ہے۔ دیگر صفات کی طرح ہم اللہ کے چہرے کی کیفیت نہیں جانتے ۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کیلئے چہرے کو حقیقی معنی میں ثابت مانتے ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ کیلئے چہرے کا ثبوت اس آیت سے لیتے ہیں ويبقى وَجُهُ رَبِّكَ ( اور باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ ) اور ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا چہرہ مخلوق کے چہروں کی طرح نہیں ہے کیونکہ فرمان الہی ہے لیس کمثلہ شی ( اس کی مثل کوئی شے نہیں ہے ) اور ہم اس کے چہرے کی کیفیت سے لاعلم ہیں ۔ " چہرہ بھی اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتیہ خبریہ میں سے ہے جن کے سمی و معنی ہمارے اعتبار سے ابعاض واجزا ہیں ۔ ہم ان کو صفات ذاتیہ معنویہ نہیں کہتے کیونکہ اس صورت میں ہماری موافقت ان لوگوں کے ساتھ ہو جائے گی جو تحریفانہ تاویل کرتے ہیں اور ہم ان کو اللہ ( کی ذات ) کا بعض حصہ اور جزو بھی نہیں کہتے کیونکہ اس طرح کہنے سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بارے میں نقص و کمی کاوہم ہوتا ہے۔“
[اللہ تعالیٰ کے پاؤں اور قدم ]
علامہ عثیمین لکھتے ہیں:
و هو قوله الا تزال جهنم يلقى فيها و هي تقول هل من مزيد حتى يضع رب العزة فيها رجله وفى رواية عليها قدمه فينزوى بعضهاالى بعض فتقول قط قط
(بخاری و مسلم شرح العقيدة الواسطية ص 269)
( ترجمہ: رسول اللہ ا کا ارشاد ہے کہ جہنم میں لوگوں کو ڈالا جاتا رہے گا اور وہ کہتی رہے گی کہ اور لاؤ اور لاؤ اور جب مزید کوئی جہنم میں ڈالنے کیلئے نہ رہے گا تب بھی وہ یہی کہتی رہے گی یہاں تک کہ رب العزت اس پر اپنا پاؤں رکھیں گے تو اس کے حصے آپس میں ملنے لگیں گے اور وہ کہے گی بس بس (اے رب میرے اندر مزیدگنجائش نہیں رہی ) ۔
و الكرسى قال ابن عباس انه موضع قدمي الله عز وجلو ليس هو العرش بل العرش اكبر من الكرسى و قدورد عن النبي ان السماوات السبع بالنسبة للكرسى كحلقة القيت في فلاة من الارض وان فضل العرش على الكرسي كفضل الفلاة على هذه الحلقة (98)
( ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ کرسی اللہ کے دو پاؤں کی جگہ ہے اور کرسی بعینہ عرش نہیں ہے بلکہ عرش کرسی سے بہت بڑا ہے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا سات آسمان اور سات زمینیں کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہیں جیسے کوئی چھلا جو ریگستان میں پڑا ہو۔ اور عرش کی فضیلت کرسی پر ایسی ہے جیسے ریگستان کی چھلے پر ۔ ) فنحن نومن بان الله بائن من خلقه ......... و نومن بان الله فوق
العرش استوى عليه وان الكرسى موضع القدمين
(قصيده نونيه ص305 ج 1)
(ترجمہ: ہم ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا ہیں ... اور ہماراایمان ہے کہ اللہ تعالی عرش کے اوپر ہیں اور اس پر مستوی ہیں اور یہ کہ کرسی اللہ کےقدموں کی جگہ ہے)۔
علامہ خلیل ہراس عقیدہ واسطیہ پر اپنی شرح میں لکھتے ہیں:
ان كرسيه قد وسع السماوات و الارض جميعا والصحيح في الكرسى انه غير العرش و انه موضع القدمين و انه في العرش كحلقةملقاة في الفلاة (ص:36)
(ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی کرسی تمام آسمانوں کو اور زمین کو گھیرے ہوئے ہے صحیح بات یہ ہے کہ کرسی عرش سے علیحدہ شے ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے قدموں کی جگہ ہے۔ اور کرسی عرش کے مقابلہ میں ایسے ہے جیسے ریگستان میں پڑا ہواچھلا ) ۔“
[سلفیوں کے مذکورہ بالا عقیدے پر علامہ زاہد کوثری کا تبصرہ ]
علامہ زاہد کوثری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اسلاف میں سے جس نے عین ( آنکھ ) اور ید (ہاتھ ) کو صفت کہا تو صفت کے لفظ سے انہوں نے جارحہ یعنی ذات کا حصہ کہنے سے براءت کا اظہار کیا ہے بلکہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ عین یعنی آنکھ سے مراد ایسا معنی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہے۔ ایسے ہی ید ( ہاتھ ) کا معاملہ ہے۔ ہم اس کے معنی مراد کی تعیین نہیں کرتے کہ ہم کہیں کہ آنکھ سے مراد دیکھنا ہے یا حفاظت کرتا ہے اور ہاتھ سے مراد قدرت یا نعمت یا خاص عنایت ہے کیونکہ وہ احتمالی معنی جو تنزیہ الہیہ کے موافق ہوں ان میں سے کسی ایک کی تعیین کرنا اللہ تعالیٰ کی مراد پر زبر ہستی کرنا ہے اور ان کا ہاتھ اور آنکھ کوصفت کہنا اس بات پر واضح دلیل ہے کہ ان کو یقین تھا کہ ہاتھ اور آنکھ اللہ تعالیٰ کی ذات کے اجزاء نہیں ہیں اور( سلفیوں کی طرح ) جو کہے کہ اللہ تعالی کا ہاتھ ہے جس سے وہ پکڑتا ہے اور آنکھ ہے جس سے وہ دیکھتا ہے تو اس نے ان صفات کو آلات و جوارح کے قبیل سے بنایا اور اس نے سلف صالحین کی مخالفت کی ۔ حديث يمين الرحمن ملأى سخاء (رحمان کا دایاں ہاتھ سخاوت سے بھرا ہوا ہے) کے بارے میں کلام کرتے ہوئے امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ: اس حدیث کو ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے۔ اس کے معنی کی تفسیر و تاویل یعنی حقیقی یا مجازی معنی کی تعیین کئے بغیر ہمارا اس پر ایمان ہے۔ بہت سے ائمہ حدیث مثلاً سفیان ثوری، مالک بن انس ،سفیان بن عیینہ اور عبداللہ بن مبارک رحمہم اللہ سے منقول ہے کہ ان باتوں کو جیسی وہ ہیں (یعنی ان کے حقیقی یا مجازی معنی کی تعیین کئے بغیر ) روایت کریں گے اور ان پر ایمان رکھیں گے اور یہ ( بھی ) نہیں پوچھیں گے کہ ان کی کیفیت کیا ہے۔ ابن قیم اور ابن تیمیہ کی بات امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ کی بات سے بہت مختلف ہے۔ ( کیونکہ امام ترمذی رحمہ اللہ ان کے معنی کی تعیین نہیں کرتے خواہ حقیقی ہوں یا مجازی ہوں جب کہ ابن تیمیہ اور ابن قیم ان کے حقیقی معنی کی تعین کرتے ہیں ) ۔ ہاں کبھی کبھی یہ دونوں اپنے کلام میں چہرے، آنکھ اور ہاتھ کوصفات کہتے ہیں لیکن ان کے کلام کا سیاق وسباق ڈنکے کی چوٹ بتاتا ہے کہ ان سے ان دونوں حضرات کی مراد اجزائے ذات ہیں، وہ معانی مراد نہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہوں جیسا کہ سلف صالحین کہتے ہیں۔ اور ان دونوں نے اپنی اصطلاح بنالی ہے کہ صفت ایسے معنی کو کہا جائے جو جز وذات کو بھی شامل ہو ۔ ان کی یہ اصطلاح اہل علم کے عرف کے خلاف ہے ورنہ اہل حق کے خلاف ان کے تشدد کی کوئی وجہ نہ ہوتی۔ ابن تیمیہ اپنی کتاب اجوبہ مصریہ میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی آسمانوں کو اور زمین کو اپنے دونوں ہاتھوں سے جو کہ ہاتھ ہی ہیں پکڑ لے گا۔ اس تصریح کے بعد ابن تیمیہ کا اور ان کے پیروکاروں کو جو کہ سلفی اور غیر مقلد ہیں . ان کو صفات کہنا کیا نفع دے گا“
ماخوذ : اللہ تعالی کی
" صفات متشابہات "
اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد
تصنیف : ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
دیگر مضامین کیلئے دیکھیں ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" ،
اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں