نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

موجودہ دور میں کیا عورتوں کا مسجد جاکر نماز پرھنا افضل ہے ؟

 

موجودہ  دور میں کیا عورتوں کا مسجد  جاکر نماز پرھنا افضل ہیں ؟

مولانا نذیر الدین قاسمی

خواتین کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں جاکر نماز پڑھنے سے ۲۵؍ گنا افضل ہے

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

 سکین کیلئے 
الاجماع (PDF ) دیکھیں

امام ابو نعیم اصفہانی ؒ ۴۳۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

              ’’حدثنا أحمد بن ابراھیم بن یوسف، ثنا عبد اللہ بن محمد بن سلام، ثنا اسحٰق بن راھویہ، أنا بقیۃ بن الولید، حد ثنی أبو عبد السلام، حدثنی نافع، عن ابن عمرؓ عن رسول اللہ ﷺقال: صلاۃ المرأۃ وحدھا تفضل صلاتھا فی الجمیع خمس وعشرین درجۃ۔ ‘‘

              حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ : عورت کی (اپنے گھرمیں) تنہا نماز مردوں کے ساتھ جماعت کی نماز سے ۲۵؍ گنا فضیلت رکھتی ہے۔  (تاریخ ابونعیم : ص۱۹ج۲)

اس روایت کے راویوں کی تحقیق یہ ہے :

  (۱)        امام ابو نعیمؒ ۴۳۰؁ھ) مشہور، ثقہ، محدث اور حافظ ہیں۔ (کتاب الثقات للقاسم: ص۳۶۵؍۳۶۶ج۱)

 (۲)         امام احمد بن ابراہیم بن یوسفؒ ۳۵۳؁ھ) بھی محدث اور امام ہیں۔  (سیراعلام النبلاء : ص۲۸ج۱۶) امام ضیا ء الدین المقدسیؒ نے ان سے روایت لی ہے ، اور ان کی روایت کو صحیح کہا ہے۔  (الاحادیث المختارۃ: ص۲۷۷ج ۸) اور کفایت اللہ سنابلی صاحب کہتے ہیں کہ امام ضیاء الدین المقدسیؒ صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے۔   (انوار البدر:ص۲۲۳) لہٰذا آپؒ بھی ثقہ ہیں۔

              (۳)        عبداللہ بن محمد بن سلامؒ ۲۸۱؁ھ) بھی حسن درجہ کے راوی ہیں۔ امام ابو نعیمؒ  اور امام ابو شیخؒ ۳۶۹؁ھ) عبد اللہ ؒ کو ’’شیخ‘‘ کہتے ہیں۔ (لسان المیزان ص۵۸۹ج ۴) اور غیر مقلدین کے نزدیک کسی راوی کو شیخ کہنا ’’توثیق‘‘ ہے ، چنانچہ غیر مقلدین کے شیخ الحدیث مولانا سلطان محمود صاحب ’’شیخ‘‘ تعدیل کے الفا ظ میں شمار کرتے ہیں۔  (اصطلاحات المحدثین: ص۱۷) ’’اور سب سے کمتر تعدیل وہ ہے جو ادنیٰ مراتبِ جرح کے قریب ہو جیسے: شیخ، ہروی، حدیثہ وغیرہ۔‘‘  (اصطلاحات المحدثین: ص۱۷) بلکہ اہل حدیث عالم ڈاکٹر سہیل حسن لفظ ’’تعدیل‘‘ شیخ کو ’’صدوق‘‘ اور ’’لا بأس بہ ‘‘ کے درجے کی تعدیل قرار دیتے ہیں، نیز کہتے ہیں کہ ان کی (یعنی جس راوی کو شیخ کہا جائے اس کی ) احادیث قابلِ قبول ہے۔ (معجم اصطلاحات الحدیث: ص۳۲۴) اور غیر مقلدعالم اقبال صاحب جس راوی کو شیخ کہا جائے اس کی روایت کو قابلِ اعتبار کہتے ہیں۔  (علوم الحدیث: ص ۲۸۷؍۲۸۸) لہٰذااس روایت کی بھی روایت قابلِ قبول ہے ،معلوم ہوا کہ آپ ؒ بھی مقبول راوی ہیں۔

نوٹ:      امام ابو نعیمؒ اور امام ابو شیخؒ نے ابن سلامؒ کے بارے میں کہا ہے کہ ’’فیہ لین‘‘ ان میں کمزوری ہے۔لیکن غیر مقلدین کے نزدیک ان الفاظ سے راوی کا ضعف ثابت نہیں ہوتا۔کفایت اللہ سنابلی صاحب ’’فیہ لین‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ بہت ہلکی جرح ہے جس سے تضعیف لازم نہیں آتی۔ (مسنون رکعاتِ تراویح: ص۲۴) غیر مقلد عالم اقبال صاحب کہتے ہیں کہ ’’فیہ لین‘‘ والے راوی کی روایت قابلِ استیناس (دلیل پکڑنے کے لائق) و اعتبار ہوتی ہے۔   (علوم الحدیث: ص ۲۸۸) لہٰذا جب غیر مقلدین کے نزدیک ’’فیہ لین‘‘ کی جرح سے راوی کا ضعف لازم نہیں آتا اور تو پھر یہ جرح ہی مردود ہے۔

              (۴)        امام اسحق بن راہویہؒ ۲۳۸؁ھ) صحیحین کے راوی ہیں ، اور ثقہ ، حافظ ، مجتہد ہیں۔  (تقریب التہذیب:رقم ۳۳۲)

              (۵)        بقیہ ابن الولید الشامیؒ( م۱۹۷؁ھ)صحیحین ے راوی ہیں، اور جب وہ ’’سماع‘‘ کی تصریح کرے تو وہ ’’ثقہ‘‘ ہے۔  (الکاشف:رقم ۶۱۹) یہاں پر  بھی  انہوں نے سننے کی صراحت کی ہے ، لہٰذا ہماری روایت میں وہ ثقہ ہیں۔

              (۶)         ابو عبدالسلامؒ کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

              (۷)        امام نافعؒ (م۱۱۷؁ھ) صحیحین کے راوی ہیں، مشہور ہیں، ثقہ، فقیہ مضبوط راوی ہیں۔ (تقریب: رقم ۷۰۸۶)

              (۸)        عبداللہ بن عمرؓ (م۷۴؁ھ) مشہور صحابیٔ رسول ہیں۔  (تقریب)

              معلوم ہوا کہ اس حدیث کے سارے رجال ثقہ ہیں، اور ابو عبدالسلام کی تفصیل یہ ہے کہ حافظ بن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) آپ کے ترجمے میں بیان کرتے ہیں کہ :

                ابو عبدالسلام، الوحاظی، من مشیخۃ بقیۃ العوام المجاھیل والخیر منکر۔  (انتھی) وقد ذکرہٗ ابن أبی حاتم، عن أبیہ فقال: مجھول ، فعزوہ الیہ أولیٰ۔(لسان المیزان:ص۱۱۵،۱۱۶،ج۹)

              لیکن ابن ابی حاتمؒ ۳۲۷؁ھ) کی کتاب دیکھنے سے معلوم ہوا کہ آپ ؒ کا پورا نام ’صالح بن رستم ابو عبدالسلام الدمشقیؒ ہے۔  (الجرح والتعدیل: ص۴۰۳ج۴)

              معلوم ہوا کہ ابو عبدالسلام سے مراد ’’صالح بن رستم ابو عبدالسلام الدمشقیؒ ‘‘ ہیں، اور وہ جمہور کے نزدیک ’’ثقہ‘‘ ہیں۔ انہیں ابن حبانؒ(م۳۵۴؁ھ)، امام ہیتمیؒ (م۸۰۷؁ھ) اور ابن شاہینؒ (م۳۸۵؁ھ) نے ’’ثقہ ‘‘ کہا ہے۔  (تہذیب التہذیب: ص۳۹۱ج۴، مجمع الزوائد رقم الحدیث:۱۶۶۴۴)

              الغرض یہ روایت ’’حسن‘‘ درجہ کی ہے۔

حضور ﷺ کی حدیث کے مطابق نماز کے لئے مسجد جانے والی عورت کو روکنا جائز ہے۔

امام ابو بکر بن ابی شیبہؒ ۲۸۷؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

              ’’حدثنا أبوبکر بن ابی شیبۃ، ثنازید بن الحباب، عن ابن لھیعۃ، ثنا عبدالحمید بن المنذر الساعدی، عن ابیہ، عن جدتہ أم حمید، قالت: قلت یارسول اللہ ﷺ:یمنعنا أزواجنا أن نصلی معک ونحب  الصلاۃ معک، فقال رسول اللہ ﷺ : صلاتکن فی حجرکن أفضل من صلاتکن فی دورکن أفضل من صلاتکن فی الجماعۃ۔‘‘

              ام حمیدؓ نے حضورﷺ سے فرمایا کہ: ہمیں ہمارے شوہر آپ کے ساتھ نماز پڑھنے سے منع کرتے ہیں ، حالانکہ ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کی بہت چاہت رکھتے ہیں۔

              رسول اللہ ﷺ نے جواب میں فرمایا : تمہاری اندرونی کوٹھری کی نماز تمہارے بڑے کمرے کی نماز سے بہتر ہے، اور تمہارے بڑے کمرے کی نماز تمہارے جماعت کے ساتھ نماز سے افضل ہے۔  (الآحاد والمثانی: رقم الحدیث،۳۳۷۹، واسنادہٗ حسن)

رواۃ کے بارے میں تفصیل :

              (۱)         امام ابوبکر بن ابی عاصم ۲۸۷؁ھ) ثقہ، حافظ ہیں۔  (تاریخ الاسلام: ص۶۸۴ج۶)

              (۲)         امام ابو بکر بن ابی شیبہؒ ۲۳۵؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔  (تقریب: رقم،۳۳۷۵)

              (۳)        زید بن الحبابؒ ۲۳۰؁ھ) بھی صدوق راوی ہیں۔  (تقریب ، رقم: ۲۱۲۴)

              (۴)        عبد اللہ بن لہیعہؒ ۱۷۴؁ھ) جن پر کلام ہے۔

              لیکن غیر مقلدین کے نزدیک یہ راوی حسن درجے کے ہیں، چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحبؒ کہتے ہیں کہ ابن لہیعہ حسن درجہ کے رایوں میں سے ہے۔  (نزل الابرار: ص۲۴۱)

              پھر ابن لہیعہؒ کی دو دو متابعات موجود ہیں جس کے حوالے آگے آرہے ہیں لہٰذا ان پر اس روایت میں’’جرح‘‘ بیکار ہے۔

              (۵)        اس روایت میں عبدالحمید بن المنذرؒ الساعدی اور ان کے والد

              (۶)         منذرؒ موجود ہیں۔

              امام بیہقیؒ نے ان کی روایت کو باستدلال صحیح کہا ہے، جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

              اور غیر مقلدین کے نزدیک یہ اصول ہے کہ جب کوئی مجتہد و محدث کسی حدیث سے استدلال کرتا ہے تو وہ حدیث اس مجتہد کے نزدیک صحیح ہوتی ہے۔ (فتاویٰ نذیریہ: ص۳۱۶ج۳)

              اور جب کوئی مجتہد و محدث کسی حدیث کو صحیح کہتا ہے تو اہل حدیثوں کے نزدیک اس محدث کا اس روایت کو صحیح کہنا، اس روایت کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے۔   (نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام :ص۱۷، انوار البدر : ص۲۷)

              الغرض اس طرح یہ دونوں راوی بھی خود اہل حدیث کے اصول سے ہی ’’ثقہ ‘‘ ہیں۔

              (۷)        اُمّ حمیدؒ مشہورصحابی ابو حمید الساعدیؒ کی اہلیہ ہیں ۔  (الاصابہ)

              لہٰذا یہ حدیث حسن ہے اور اس روایت کی دوسری سندیں بھی متابعات میں موجود ہیں۔

              متابع نمبر(۱)            مثلاً الاحاد والمثانی میں ہی امام ابو بکر ابن ابی عاصمؒ نے اس کی ایک اور سند بیان کی ہے جو کہ یہ ہے:

              ’’حدثنا عقبۃ بن مکرم، ثنا عبد اللہ بن حرب اللیثی، ثنا محمد بن النعمان، ثنا یحیی بن العلائ، ثنا أسید الساعدی، عن سعید بن المنذر،عن ام حمید، عن النبیﷺ‘‘۔  (الآحاد والمثانی، رقم الحدیث:۳۳۸۰، واسنادہٗ ضعیف)

              متابع نمبر (۲)           امام بیہقیؒ۴۵۸؁ھ)فرماتے ہیں کہ:

              ’’اخبرنا ابو الحسن علی بن محمد بن عبد اللہ بن بشران العدل ببغداد، أنبا ابو الحسن علی بن محمد بن احمد المصری، ثنا یحییٰ بن عثمان بن صالح، ثنا ابراھیم بن مروان ابو بکر، ثنا عبد المؤمن بن عبد اللہ الکنانی، عن عبد الحمید بن المنذر بن ابی حمید الساعدی عن أبیہ، عن جدتہ ام حمید، أنھا قالت: یارسول اللہ، انا نحب الصلاۃ تعنی معک فیمنعنا ازواجنا، فقال رسول اللہ ﷺ: صلاتکن فی حجرکن أفضل من صلاتکن فی دورکن أفضل من صلاتکن فی الجماعۃ۔‘‘

              اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام بیہقیؒ فرماتے ہیں کہ :

              قال الشیخ: تابعہ ایضا ابن لھیعۃ، عن عبد الحمید، وفیہ دلالۃ علی ان الامر بأن لا یمنعن امر ندب واستحباب، لا امرفرض وایجاب، وھو قول العامۃ من اھل العلم۔

              اس روایت میں عبد اللہ بن لہیعہؒ عبد المومن بن عبداللہؒ کے متابع ہیں اور یہ روایت دلالت کر تی ہے کہ حضور ﷺکا حکم عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکو (جو کہ غیر مقلدین کی دلیل ہے ، وہ)ایک جائز اور مستحب درجہ کا حکم ہے نہ فرض اور واجب کے درجہ کا، یہی عام اہلِ علم کا قول ہے۔  (السنن الکبریٰ: ص۱۹۰، رقم الحدیث:۵۳۷۱)

              غورفرمائیے  !   امام بیہقیؒ نہ صرف اس سے استدلال کرتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ اس روایت کی وجہ ہے کہ حضور ﷺ نے یہ جو فرمایا ہے کہ عورتوں کو مسجد میں آنے سے نہ روکو، یہ حکم صرف جائز اور مستحب کے درجہ کا ہے، کوئی فرض اور واجب حکم نہیں ہے ، کیونکہ خود آپ ﷺ کے سامنے جب یہ بات آئی کہ صحابہ کرامؓ اپنی عورتوں کو مسجد آنے سے روکتے تھے، تو اس پر آپ ﷺ نے انہیں کچھ نہیں فرمایا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز کے لئے عورتوں کا مسجد نہ جانا حضور ﷺکے منشاء کے مطابق ہے۔ 

حضورﷺ نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ زینت کے سا تھ آنے والی عورتوں کو مسجد سے روکو

امام ابن ماجہؒ ۲۷۳؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

              حدثنا ابوبکر بن أبی شیبۃ،وعلی بن محمد قالا: حدثنا عبید اللہ ابن موسیٰ، عن موسی بن عبیدۃ، عن داود بن مدرک، عن عروۃ بن الزبیر عن عائشۃؓ قالت:بینما رسول اللہ ﷺجالس فی المسجد، اذ دخلت امرأۃ من مزینۃترفل فی زینۃ لھا فی المسجد، فقال النبیﷺ: ’’یا أیھاالناس ! انھوا نساء کم عن لبس الزینۃ، والتبختر فی المسجد، فان بنی اسرائیل لم یلعنوا حتی لبس نساؤھم الزینۃ، وتبخترن فی المساجد۔

              حضرت عائشہؓ ۵۸؁ھ) فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ قبیلۂ مزینہ کی ایک عورت خوبصورت کپڑوں میں مزین ناز و نخرے کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئی، (اس کی یہ ناپسندیدہ کیفیت دیکھ کر )رسول اللہﷺ نے فرمایا:

              ’’اے لوگو ! اپنی عورتوں کو زینت سے آراستہ ہوکراور خوش رفتاری کے ساتھ مسجد میں آنے سے روکو، بنی اسرائیل اسی وقت ملعون کئے گئے جب ان کی عورتیں سج دھج کر ناز ونخرے سے مسجدوں میں آنے لگیں۔(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث:۴۰۰۱، واسنادہٗ حسن)

اس روایت کے راویوں کا تعارف درج ذیل ہے:

              (۱)         امام ابن ماجہؒ ۲۷۳ھ؁) مشہور امام، ثقہ، حافظ ہیں۔  (تاریخ الاسلام:ص۶۲۵؍۶۲۶ج۶)

              (۲)         امام ابو بکر ابن ابی شیبہؒ ۲۳۵؁ھ)مشہور امام، ثقہ،حافظ اور صاحبِ تصنیفات ہیں۔ (تقریب:رقم،۳۵۷۵)

اسی طرح امام ابن ماجہؒ کے ایک اور استاد امام علی بن محمدالطنافسیؒ(م۲۳۵؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔  (تقریب: رقم:۴۷۹۱)

              (۳)        موسی بن عبید اللہ بن ابی مختارؒ (م۲۱۳؁ھ) صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔ (تقریب ، رقم:۴۳۴۵)

              (۴)        موسیٰ بن عبیدؒ کے بارے میں ائمہ ٔ محدثین کا اختلاف ہے۔

              امام عجلیؒ، امام وکیع ؒ ، امام ابن سعدؒ، فرماتے ہیں کہ ا ٓپ ثقہ ہیں۔امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ آپ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔امام بزارؒفرماتے ہیں کہ آپ ؒمعتبر آدمی ہیں۔امام ابو داؤدؒ فرماتے ہیں کہ ان کی احادیث درست ہیں ، لیکن جب وہ عبید اللہ بن دینار سے روایت کریں(یعنی ان کی عبید اللہ بن دینار سے مروی احادیث درست نہیں ہیں، اس روایت میں عبید اللہ بن دینار نہیں ہیں۔)  (اکمال تہذیب الکمال: ص۲۸ج۱۲، تہذیب التہذیب: ص ۳۵۸؍۳۶۰)

              پر بعض محدثین نے ان پر جرح بھی کی ہے، لیکن اس روایت میں ان پر جرح مردود ہے، کیونکہ اسی حدیث کی دوسری سند میں زید ابن الحبابؒ نے ان کی متابعت کر رکھی ہے۔

              نیز اس روایت کے سپورٹ میں ایک مرسل روایت بھی موجود ہے ، جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ لہٰذا موسیٰ بن عبیدؒ پر جرح بے کار ہے ، اور اس روایت میں وہ متابع و شاہد کی وجہ سے ’’حسن الحدیث‘‘ ہے۔

              (۵)        داؤد بن مدرکؒ بھی مقبول راوی ہیں، کیونکہ ان سے دو دو راوی نے روایت کیا ہے۔[1]

              (الف)    امام ابو بکر ابن ابی شیبہؒ(م۲۵۳؁ھ)جو کہ ثقہ محدث اور حافظ الحدیث ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ص۳۳۷ج۷، رقم الحدث:۱۱۸۳۹)

              (ب)      زید بن الحبابؒ ۲۳۰؁ھ) (جو کہ صحیح مسلم کے راوی ہیں) ۔   (الکامل: ص۱۶۶ج۴)

              اور جیسا کہ پہلے بات آچکی ہے کہ جس سے دو راوی روایت کریں تو مجہول نہیں ہوتا، پس داؤد بن مدرک ؒ بھی مقبول ہیں۔

              (۶)         امام عروہ بن الزبیرؒ ۹۴؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔  (تقریب:رقم:۴۵۶۱)

              (۷)        حضرت عائشہؓ مشہور صحابیہ آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات میں سے ہیں۔  (تقریب) لہٰذا یہ سند حسن ہے۔

متابع نمبر(۱)              امام ابن عدیؒ۳۶۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

              حدثنااسحاق بن احمد بن جعفر الکاغدی، حدثنا ابو سعید الاشج، حدثنا زید بن الحباب عن داؤد بن مدرک عن عروۃ عن عائشۃ أن رسول اللہ ﷺمرّ بامرأۃ من مزینۃ تر تفل فی زینۃ لھا فی المسجد فقال: انما لعن بنو اسرائیل حیث زینوا نساء ھم و تبخترن فی المساجد۔  (الکامل لابن عدی: ص۱۶۶ج۴)

              اس روایت میں زید بن الحباب ؒ موسیٰ بن عبیدؒ کی متابعت کر رہے ہیں،جس کی وجہ سے ان پر اس روایت میں ’’جرح‘‘ مردود ہے۔

متابع نمبر(۲)           یہی روایت مرسلاً امام اوزاعیؒ (م۱۵۷؁ھ) سے ثابت ہے، امام ابو شعیب الحرانیؒ ۲۹۵؁ھ) فرماتے ہیں:

              حدثنا ابوشعیب، قال:حدثنی یحییٰ، ثنا الاوزاعی، قال: بصر رسول اللہ ﷺ بامرأۃمتزینۃ، قد لبست زینتھا، وھی تبختر فی المسجد، فقال رسول اللہ ﷺ: یا ایھا الناس ! انھوا نساء کم عن الزینۃ والتبختر فی المساجد، انما لعنت بنو اسرائیل حیث لبست نساء ھم الزینۃ و تبخترن فی المساجد۔

سند کے رواۃ کی تفصیل یہ ہے کہ:

              (۱)         امام ابو شعیب الحرانیؒ(م۲۹۵؁ھ) ثقہ محدث اور امام ہیں۔   (لسان المیزان: ص۴۵۴ج۴)

              (۲)          اس کی سند میں یحییٰ سے مراد یحییٰ ابن عبداللہ بن الضحاک البابلتیؒ (م۲۱۸؁ھ) ہیں۔

              ان کے بارے میں امام ابن عدیؒ فرماتے ہیں کہ : ’’یحییٰ البابلتی عن الاوزاعی احادیث صالحۃ‘‘ یحییٰ البابلتیؒ کی امام اوزاعیؒ سے مروی احادیث درست ہیں۔  (الکامل لابن عدی: ص۱۲۰ج۹)

              زئی صاحب کے اصول کے مطابق معلوم ہواکہ امام اوزاعیؒ سے مروی احادیث میں یحییٰ البابلتیؒ ثقہ ہیں ۔  (نور العینین: ص۶۱) اور ہماری روایت میں بھی یحییٰؒ نے امام اوزاعیؒ سے ہی روایت کی ہے۔ لہٰذا ان پر ’’جرح‘‘ مردود ہے اور یہ راوی امام اوزاعیؒ کی روایت  میں ’’ثقہ‘‘ ہے۔

              (۳)        امام اوزاعیؒ ۱۵۷؁ھ) مشہور ، ثقہ، فقیہ، اور بڑی شان والے ہیں۔  (تقریب: رقم: ۳۹۶۷) لہٰذا یہ سند صحیح مرسل ہے۔

نوٹ :      غیر مقلدین کا اصول ہے کہ مرسل کی تائید جب کسی متصل روایت سے ہو جائے ، اگرچہ وہ متصل روایت ضعیف ہی کیوں نہ ہو تو غیر مقلدین کے نزدیک بھی مرسل روایت مقبول ہوتی ہے۔ 

              وکیل سلفیت رئیس احمد ندوی سلفی لکھتے ہیں کہ’’یہ معلوم ہے کہ مرسل حدیث احناف و مالکیہ کے نزدیک مطلقاً حجت ہے، اور دوسرے اہلِ علم کے نزدیک بعض شرائط کے ساتھ حجت ہے ، جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دوسری متصل سند سے خود ضعیف ہو ، مروی ہو، اور یہ معلوم ہے کہ معنوی طور پر یہ حدیث دوسری بہت ہی متصل سندوں کے ساتھ مروی ہے۔‘‘  (نمازِ جنازہ اور اس کے مسائل: ص۴۶)

              اس لحاظ سے بھی یہ روایت اپنے متابع وشاہد کے ساتھ مل کر مقبول ہوجاتی ہے۔ اور یہی وجہ امام منذریؒ ۶۵۶؁ھ) نے اس روایت پر سکوت اختیار فرمایا ہے۔  (الترغیب والترھیب: ص۲۵ج۳) جوکہ غیر مقلدین کے اصول کے مطابق روایت کو معتبر ہونے کی دلیل ہے۔دیکھئے  الاجماع شمارہ نمبر ۱ : ص ۵۳

              وضاحت: متابع و شاہد کے ساتھ مل کر یہ روایت مزید قوی اور مضبوط ہوجاتی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہؓ کو حکم دیا تھا کہ عورتیں اگر زینت اور آرائش کے ساتھ مسجدوں میں آنے لگیں تو ان کو روک دو۔

خواتین کے لئے مسجد میں آنے کے نبوی شرائط

              عورتوں کو مسجد میں آنا چاہئے یا نہیں؟  اس مسئلہ میں غیر مقلدین لاعلمی اور جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج کے زمانے میں عورتوں کو مسجد میں آنا چاہئے اور ان کو مسجد میں آنے سے نہیں روکنا چاہئے۔دلیل کے طور پر یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایاکہ : تمہاری عورتیں جب مسجد میں آنے کی اجازت مانگیں تو انہیں منع مت کرو۔  (صحیح بخاری)

              یہ حدیث سنا کر ہر جاہل غیرمقلد یہ کہتے ہیں کہ عورتوں کو مسجد آنا چاہئے اور کوئی انہیں مسجد آنے سے نہ روکے۔ 

الجواب :

              افسوس غیر مقلدین صرف آدھی ادھوری بات نقل کرتے ہیں، حالانکہ جہاں پر حضور ﷺ نے مسجد میں عورتوں کو آنے کی جو اجازت دی ہے ، وہاں پر حضور ﷺ نے چند شرائط بھی بتائے ہیں کہ خواتین جب مسجد میں آئیں تو ان شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے آئیں،حالانکہ ان شرائط کو کوئی غیر مقلد اہلِ حدیث جاہل یہ مولوی بیان نہیں کرتا، اور یہ بھی یاد رکھیں کہ شرائط خلافتِ ارضی پر خود آپ ﷺ نے صحابہؓ کو حکم دیا ہے کہ وہ خواتین کو مسجد میں آنے سے روک دیں۔        وہ شرائط یہ ہیں:

پہلی شرط:   پردہ

امام بخاری ؒؒ ۲۵۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

              حدثنا یحییٰ بن بکیر، قال: اخبرنا اللیث ، عن عقیل، عن ابن شھاب، قال: اخبرنی عروۃ بن الزبیر، ان عائشۃؓ اخبرتہ، قالت: کن نساء المؤمنات یشھدن مع رسول اللہ ﷺصلاۃ الفجر متلفعات بمروطھن، ثم ینقلبن الیٰ بیوتھن حین یقضین الصلاۃ لا یعرفھن احد من الغلس۔‘‘

              ’’حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ: مؤمن عورتیں آنحضورﷺ  کے ساتھ فجر کی نماز میں اس حال میں حاضر ہوتی کہ وہ اپنے رنگین موٹی چادروں میں سر سے پیر تک لِپٹی ہوتی تھیں، پھر نماز سے فراغت کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ جاتی تھیں ، صبح کی تاریکی کی وجہ سے انہیں کوئی پہچان نہیں پاتا تھا۔  (صحیح بخاری: رقم الحدیث:۵۷۸)

              معلوم ہوا کہ عورتیں جب مسجد میں آتی تھیں تو مکمل پردے کا اہتمام کرتی تھیں۔

دوسری شرط:    خوشبو سے پرہیز

امام مسلمؒ  ۲۶۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ:          

’’حدثنا ابو بکر بن ابی شیبۃ، حدثنا یحییٰ بن سعید القطان ، عن محمد بن عجلان، حدثنی بکیر بن عبد اللہ بن الاشج، عن بسر بن سعید، عن زینب امرأۃ عبداللہ ، قالت: قال لنارسول اللہ ﷺ: اذا شھدت احداکن المسجد فلا تمس طیباً‘‘

              حضرت ابن مسعودؓ کی اہلیہؓ  فرماتی ہیں کہ ہم عورتوں سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ : جب تم میں سے کوئی مسجد آنے کا اراداہ کرے تو خوشبو کا استعمال نہ کرے۔

اور حدیث میں یہ امام مسلمؒ  ۲۶۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

              ’’حدثنا یحییٰ بن یحییٰ، واسحاق بن ابراھیم، قال یحییٰ: اخبرنا عبداللہ بن محمد بن عبداللہ بن ابی فروۃ، عن یزید بن خصیفۃ، عن بسر بن سعید، عن ابی ھریرۃؓ قال: قال رسول اللہ ﷺ:ایما امرأۃ اصابت بخوراً فلا تشھد معنا العشاء الآخرۃ‘‘

              حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس عورت نے بھی خوشبو کی دھونی لی ہو تو وہ ہمارے ساتھ عشاء کی جماعت میں حاضر نہ ہو۔  (صحیح مسلم:۱۸۸ج۱)

لیجئے   !   خود آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت خوشبو لگائے ہوئے ہو تو مسجد میں نہ آئے۔

بلکہ موسیٰ بن یسارؒ کی روایت میں ہے کہ:

              ’’ مرت بابی ھریرۃ امرأۃ وریحھا تعصف، فقال لھا: الیٰ این تریدین یا امۃالجبار ؟ قالت: الی المسجد، قال: تطیبت ؟ قالت: نعم ، قال فارجع فاعتسلی، فانی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول:لا یقبل اللہ من امراۃ صلاۃ خرجت الیٰ المسجد وریحھا تعصف حتی ترجع فتغتسل ‘‘

              حضرت ابوہریرہؓ کے قریب سے ایک عورت گذری اور خوشبو اس کے کپڑوں سے مہک رہی تھی، حضرت ابو ہریرہؓ نے پوچھا کہ : اے خدائے جبار کی بندی ! کہاں کا ارادہ ہے؟  اس نے کہا : مسجد کا، ابو ہریرہؓ نے پوچھا تونے خوشبو لگار کھی ہے؟ اس نے کہا : ہاں، حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا: لوٹ جا اور اسے دھو ڈال، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی عورت کی نماز قبول نہیں کرتاجو اس حالت میں مسجد کے لئے نکلے کہ خوشبو اس کے کپڑوں سے مہک رہی ہو۔ (صحیح ابن خزیمہ: رقم الحدیث: ۱۶۸۲)

              امام ابن خزیمہؒ نے صحیح اور امام منذریؒ نے اس کی سند کو متصل[2] اور اس کے رجال کو ’’ثقہ‘‘ قرار دیا ہے۔  (الترغیب  والترھیب:ص۹۴ج۳)

              نیز یہ روایت مختلف الفاظ اور صحیح سند کے ساتھ سنن ابو داؤد حدیث نمبر۴۱۷۴ ، اورمسند الحمیدی حدیث نمبر۱۰۰۱، پر بھی موجود ہے، اہل حدیث شیخ ارشاد الحق اثری صاحب نے بھی اس حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔  (مسند السراج:رقم الحدیث:۸۱۷)

              الغرض یہ روایت اپنے متابعات کے ساتھ مل کر اور بھی صحیح ہو جاتی ہے، اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو عورت نماز کے لئے مسجد میں خوشبو لگا کر آئے تو اس کی نماز اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا۔

تیسری شرط:           خراب حالت میں آنا

امام ابو داودؒ ۲۷۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

’’حدثنا موسی بن اسماعیل، حدثنا حماد، عن محمد بن عمرو، عن ابی سلمۃ، عن ابی ھریرۃ، ان رسول اللہ ﷺ قال : لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ ولکن لیخرجن وھن تفلات ‘‘

              حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ: اللہ کے بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو، لیکن وہ غیروں سے اس حالت میں نکلے کہ ان کے کپڑوں سے بو آتی ہو۔  (سنن ابو داؤد: رقم الحدیث:۵۶۵)

              اس روایت کو امام ابن الجارودؒ ۳۰۷؁ھ) ، امام ابن خزیمہؒ ۳۱۱؁ھ)، امام ابن حبان ۳۵۴؁ھ)، امام  بغویؒ ۵۱۶؁ھ)،امام نوویؒ ۶۷۶؁ھ) امام ابن الملقنؒ ۸۰۴؁ھ) وغیرہ نے صحیح کہا ہے۔  (المنتقیٰ لابن الجارود: حدیث نمبر:۳۳۲، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث:۲۲۱۱،شرح السنہ للبغوی:ص۲۳۱ ج۱)

              اس روایت سے معلوم ہوا ہے کہ عورتیں جب مسجد میں آئیں تو ایسی حالت میں آئیں کہ ان کے کپڑوں سے خراب بو آرہی ہو، بلکہ صحیح ابن خزیمہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:

’’ لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ ولیخرجن اذا خرجن تفلات ‘‘   نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد سے نہ روکو، اور ان کو نکلنے دو جب ان کے کپڑوں سے خراب بو آتی ہو۔

              معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے عورتوں کو مسجد آنے کی اجازت میں یہ شرط بھی رکھی ہے کہ وہ خراب کپڑوں میں مسجد آئیں۔  (صحیح ابن خزیمہ، رقم الحدیث: ۱۶۷۹)

اسی طرح یہ روایت مختلف الفا ظ کے ساتھ درج ذیل صحابہ ؓ سے مروی ہے:

              (۱)         حضرت ابن عمرؓ   (حدیث السراج: رقم الحدیث: ۲۵۱، واسنادہٗ حسن، مسنداحمد بتحقیق احمد شاکر:ص ۲۱۶ج۵ رقم الحدیث:۵۷۲۵)،غیر مقلد علامہ شیخ احمد شاکرؒ کہتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے۔

              (۲)         حضرت زید بن خالد الجھنیؒ (صحیح ابن حبان حدیث نمبر۲۲۱۱، امام ابن حبانؒ نے صحیح، امام ہیثمیؒ نے حسن کہا ہے،مجمع الزوائد: رقم الحدیث: ۲۰۹۸)

              (۳)        حضرت عائشہؓ (مسند احمدحدیث نمبر:۲۴۴۰۶، و اسنادہٗ صحیح ، ورجالہ کلھم ثقات)

              معلوم ہوا کہ جب عورتیں مسجد میں حاضر ہو تو حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق خراب کپڑوں کے ساتھ حاضر ہوں، جس سے بو آرہی ہو۔[3]

چوتھی شرط:            مردوں سے عدمِ اختلاط

حضرت ام المؤمنین ام سلمہؓ ۶۲ھ؁)فرماتی ہیں:

              ’’ قالت: کان رسول اللہ ﷺ اذا سلم قام النساء حین یقضی تسلیمہ ویمکث ھو فی مقامہ یسیراً قبل ان یقوم، قال: نری - واللہ اعلم- ان ذلک کان لکی ینصرف النساء قبل ان یدرکھن احد من الرجال ‘‘ حضورﷺ جب نمازپوری فرماکر سلام پھیرتے تو حضور ﷺ کا سلام پورا ہوتے ہی بغیر کسی تاخیر کے عورتیں صف سے اٹھ کر چلی جاتیں اور آنخصرت ﷺ کھڑے ہونے سے پہلے تھوڑی دیر اپنی جگہ پر تشریف فرماتے رہتے ۔(اور آپ صحابہ کرامؓ بھی آپ کے اتباع میں بیٹھے رہتے)

              اپنے دور کے امام المحد ثین امام زہریؒ (م۱۲۵ھ؁) کہتے ہیں کہ : ہم سمجھتے ہیں کہ حضور ﷺ کا نماز کے بعد مصلے پر کچھ دیر تشریف فرمانا،اس مصلحت کی بناء پر تھا کہ عورتیں پہلے مسجد سے نکل جائیں تاکہ مردوں  اور عورتوں کا باہم اختلاط نہ ہو۔   (صحیح بخاری حدیث نمبر: ۸۷۰، ۸۴۹)

              معلوم ہوا کہ ایک شرط یہ بھی ہے کہ مسجد میں عورتوں کا مردوں سے اختلاط بھی نہ ہوا چاہئے، یعنی عورتوں کی نظر نہ مردوں پر پڑنی چاہئے اور نہ ہی مردوں کی نظر عورتوں پر۔

پانچویں شرط:           ترکِ زینت

ام المؤمنین حضرت عائشہؓ ۵۸؁ھ) بیان کرتی ہیں کہ:

              ’’ قالت: بینما رسول اللہ ﷺ جالس فی المسجد، اذ دخلت امرأۃ من مزینۃ ترفل فی زینۃ لھا فی المسجد فقال النبی ﷺ: یا ایھا الناس ! انھوا نساؤکم عن لبس الزینۃ والتبختر فی المسجد، فان بنی اسرائیل لم یلعنوا حتی لبس نساؤھم الزینۃ وتبخترن فی المساجد۔‘‘

              حضور ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ قبیلہ مزینہ کی ایک عورت خوبصورت کپڑوں میں مزین ناز ونخرے کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئی (اس کی یہ ناپسند یدہ کیفیت دیکھ کر) رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:

              اے لوگو !   اپنی عورتوں کو زینت سے آراستہ ہوکر اور خوش رفتاری کے ساتھ مسجد میں آنے سے روکو، بنی اسرائیل اسی وقت ملعون کئے گئے جب ان کی عورتیں سج دھج کر ناز ونخرے سے مسجدوں میں آنے لگیں۔  (سنن ابن ماجہ: رقم الحدیث:۴۰۰۱، واسنادہ حسن)[4]

وضاحت:

              الغرض !  یہ وہ شرائط ہیں جن کو نبی کریم ﷺ نے خود طے فرمایا ہے ، اور ان شرائط کے ساتھ ہی عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت دی ہے، جیسا کہ تفصیل اوپر گزر چکی۔

              اب ہر سمجھدار اور عقل رکھنے والا آدمی یہ دیکھ لے ، غور کرلے کہ کیا ان کے گھر کی خواتین ہر نماز کے لئے ان شرائط کا لحاظ رکھ کر مسجد جا سکتی ہیں؟

              مزید تبصرے سے پہلے غیر مقلدین حضرات کی پیش کردہ روایت (تمہاری عورتیں جب مسجد میں آنے کی اجازت مانگیں تو انہیں منع مت کرو) کے متعلق سلف صالحین اور ائمہ ٔ مجتہدین کے ارشادات بھی ملاحظہ فرمائیں:

(۱)         امام نوویؒ ۶۷۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

              ’’ ھذا وشبھہ من احادیث الباب ظاھر فی انھا لا تمنع المسجد لکن بشروط ذکرھا العلماء مأخوذۃ من الاحادیث وھو ان لا تکون متطیبۃ ولا متزینۃ ولا ذات خلاخل یسمع صوتھا ولا ثیاب فاخرۃ ولا مختلطۃ بالرجال ولا شابۃ ونحوھا، ممن یفتن بھا وان لا یکون فی الطریق ما یخاف بہ مفسدۃ ونحوھا وھذا النھی عن منعھن من الخروج محمول علی کراھۃ التنزیہ۔‘‘

              یہ حدیث اور اس باب سے متعلق اسی معنی کی دوسری حدیثوں کا ظاہری مطلب یہی ہے کہ عورتوں کو مطلقاً مسجد آنے سے روکا نہ جائے، لیکن علماء دین (سلف صالحین) نے ان کے نکلنے کے لئے کچھ شرائط بیان کئے ہیں، جو احادیث سے اخذ کی گئی ہیں۔

              وہ شرائط یہ ہیں کہ خواتین (گھر سے نکلنے کے وقت) خوشبو لگائے ہوئے نہ ہوں، بناؤ سنگار کی ہوئی نہ ہوں، بجنے ہوئے پازیب پہنے ہوئی نہ ہوں،دلکش و جاذب نظر کو بہانے والی زینت اختیار کی ہوئی نہ ہوں، (راستے میں) مردوں کے ساتھ ان کا اختلاط نہ ہو، جوان نہ ہوں، اور نہ ایسی ہوں کہ جوانوں کی طرح اس سے فتنے کا اندیشہ ہو اور (مسجد آنے کا راستہ بھی ) فتنہ و فساد وغیرہ سے پاک ہو، اور عورتوں کو مسجد آنے سے روکنے کے متعلق حدیث میں وارد ’’نہی‘‘ کراہیتِ تنزیہی پر محمول کی گئی ہے۔

              یعنی ان تمام شرائط کی پابندی کرتے ہوئے اگر کوئی عورت مسجد آئے تو اس صورت میں اسے روکنا شرعاً مکروہِ تنزیہی ہے۔ (شرح صحیح مسلم للنووی: ص۱۶۲؍۱۶۱ج۴)

(۲)         امام عبدالرحمن السیوطیؒ ۹۱۱؁ھ) نے بھی امام نوویؒ کا یہی قول نقل فرمایا ہے،[5] اور زئی صاحب کے اصول کے مطابق سکوت کے ذریعہ اس کی تائید کی ہے۔  (انوار الطریق فی رد ظلمات فیصل الحلیق: ص۸)

(۳)        امام ابن کثیرؒ ۷۷۴؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

              ’’وقرن فی بیوتکن: أی الزمن فلاتخرجن لغیر حاجۃ، ومن الحوائج الشرعیۃ الصلاۃ فی المسجد بشرطہ کما قال رسول اللہ ﷺ : لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ ولیخرجن وھن تفلات، وفی روایۃ وبیو تھن خیر لھن۔‘‘

              اللہ تعالیٰ نے ازواجِ مطہرات اور خواتینِ اسلام کو حکم دیا کہ : اپنے گھروں سے چمٹی رہو اور بلا ضرورت باہر نہ نکلو، اور شرعی ضروریات میں سے ایک شرائطِ مقررہ کی پابندی کے ساتھ مسجد میں نمازادا کرنا بھی ہے، جیسا کہ حضور ﷺفرمایا کہ: اللہ تعالیٰ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو اور (جب ) وہ مسجدوں کے لئے نکلیں تو ان کے کپڑے میلے ہوں۔

              اور ایک روایت میں ہے کہ نماز پڑھنے کے لئے ان کے گھر ہی بہتر ہیں۔   (تفسیرِ ابن کثیر: ص۳۶۳ج۶)

 دیکھئے امام ابن کثیرؒ بھی عورتوں کو مسجد آنے میں شرائط کا ذکر کرتے ہیں۔

(۴)        امام عراقیؒ ۸۰۷؁ھ) فرماتے ہیں :

              ’’فیہ ان الزوج مأمور ان لا یمنعھا من المساجد اذا استأذنتہ ولکن بالشروط۔‘‘

              شوہروں کو حکم ہے کہ وہ عورتوں کو مسجد آنے سے نہ روکیں، جب وہ ان سے اجازت لیں،لیکن آنے والی شرطوں (کی پابندی )کے ساتھ۔     (طرح التثریب فی شرح التقریب:ص۳۱۵ج۲) پھر امام عراقیؒ نے وہی شرائط بیان کئے ہیں جس کا ذکر اوپر گزر چکا۔ معلوم ہوا کہ امام عراقیؒ کے نزدیک عورتوں کو شرائط کے ساتھ ہی مسجد میں آنے کا حکم دیا گیا ہے۔

 (۵)        امام قاضی عیاض المالکیؒ (م ۵۳۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

              ’’ان خروج النساء للمساجد مباح لھن، ولکن علی شروط کماجاء الحدیث، وقالہ العلمائ: الا یخرجن متطیبات، ولا متزینات، ولا مزاحمات للرجال، وان یکون (ذلک )باللیل، ومنع من ذلک الشابۃ منھن التی تخشی فتنتھا۔‘‘

              اور عورتوں کا مسجد کے لئے نکلنا تو یہ عورتوں کے لئے جائز ہے، لیکن چند شرطوں کے ساتھ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے ،اور علماء نے کہاہے کہ عورتیں مسجد کے لئے نہ نکلیں، اس حالت میں کہ وہ خوشبو سے معطر ہوں، بناؤ سنگار سے مزین ہوں، ان کا مردوں سے اختلاط ہوتا ہو، عورتوں کا مسجد کو نکلنا رات کو ہوگا ،اور اس سے روکا جائے گا (یعنی مسجد جانے سے روکا جائے گا)ان جوان لڑکیوں کو جن سے فتنے کا خوف ہو۔ (الاکمال : للقاضی عیاض: ص۳۵۳ج۲)

 (۶)         حافظ ابو فتح ابن دقیق العیدؒ (م۷۰۲؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

              ’’الحدیث عام فی النساء ولکن الفقھاء قد خصوہ بشروط۔‘‘

              یہ حدیث تمام عورتوں کے حق میں (بظاہر) عام ہے، لیکن فقہاء کرام نے اس عموم کو شرطوں کے ساتھ خاص کیا ہے۔  (احکام الاحکام: ص۱۷۹ج۱)

              پھر حافظؒ نے تفصیل سے شرطیں بتائیں ہیں اور انہیں احادیث سے ثابت کیا ہے۔

 (۷)        حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) نے حافظ ابن دقیق العیدؒ کے قول سے استدلال کیا ہے اور پھر ان کی بات کی بھر پور تائید فرمائی ہے، حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کے الفاظ یہ ہیں:

              ’’ قال بن دقیق العیدؒ: ھذا الحدیث عام فی النساء الا ان الفقھاء خصوہ بشروط:منھا: ان لا تتطیب وھو فی بعض الروایات ، ولیخرجن تفلات…… قال ویلحق بالطیب مافی معناہ لان سبب المنع منہ ما فیہ من تحریک داعیۃ الشھوۃ، کحسن الملبس والحلی الذی یظھر والزینۃ الفاخرۃ وکذا الاختلاط بالرجال…… وقدورد فی بعض طرق ھذا الحدیث وغیرہ مایدل علی ان صلاۃ المرأۃ فی بیتھا افضل من صلاتھا فی المسجد وذلک فی روایۃ حبیب بن ابی ثابت عن بن عمر بلفظ: لا تمنعوا نساؤکم المساجد وبیوتھن خیر لھن۔  (اخرجہ داؤد وصححہ بن خزیمۃ)…… ووجہ کون صلاتھا فی الاخفاء افضل تحقق الامن فیہ من الفتنۃ ویتأکد ذلک بعد وجود ما احدث النساء من التبرج والزینۃ ومن ثم قالت عائشۃؓماقالت۔‘‘

              حافظ ابو الفتح ابن دقیق العیدؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تمام عورتوں کے حق  (بظاہر) عام ہے، مگر فقہاء اسلام نے اس عموم کو شرطوں کے ساتھ خاص کیا ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ (مسجد میں حاضر ہونے والی عورت) خوشبو سے معطر نہ ، یہ شرط بعض احادیث میں (خراب کپڑوں کے ساتھ نکلنے کے ) الفاظ کے ساتھ مروی ہے، اور یہ حکم ہر اس چیز کا ہوگا جس کے اندر خوشبو کی طرح شہوت کو پیدا کرنے کی صفت پائی جائے، کیونکہ (گھر سے نکلنے کے وقت) خوشبو استعمال کرنے کی ممانعت کا راز یہی ہے کہ اس سے شہوت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں، (لہٰذا ہر وہ چیز جو خوشبو کی طرح شہوت کو بیدار کرنے والی ہو ممنوع اور منع ہے)جیسا خوبصورت کپڑے، نمایاں زیورات، قابلِ ذکر آرائش اور اسی طرح مردو کے ساتھ خلط ملط ہونا۔

              آگے حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ پھر اس حدیث کی بعض سندوں میں اور اس حدیث کے علاوہ دیگر احادیث میں وہ الفاظ آتے ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت کا اپنے گھر میں نماز ادا کرنا مسجد میں ادا کرنے سے افصل و بہتر ہے۔

              جیسا ابن عمرؓ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ : اپنی عورتوں کو مساجد میں آنے سے نہ روکو، حالانکہ (نمازکے لئے )ان کے گھر ان کے لئے بہت بہتر ہیں، اس حدیث کو امام ابو داؤد نے نقل کیا ہے، اور امام ابن خزیمہؒ نے صحیح کہا ہے۔

              زیادہ سے زیادہ پوشیدگی اور پردے کی حالت میں عورتوں کی نماز افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس حالت میں اس کی فتنے سے پوری طرح راحت اور حفاظت ہوتی ہے۔

              حافظ ابن حجرؒ مزید فرماتے ہیں کہ (شرائط کا لحاظ نہ رکھنے کی وجہ سے ) عورتوں میں آرائش و جمال اور مردوں کے سامنے جلوہ آرائی کی بری رسم کے پیدا ہونے کے بعد ان کے لئے مساجد کے بجائے گھر میں نماز ادا کرنے کا حکم مزید مؤکد(زیادہ تاکید کے ساتھ)ہوجاتا ہے، (اس لئے کہ انہوں نے حضور ﷺ کے شرائط کی پابندی نہیں کی، جس کی وجہ سے ان کی مسجد میں حاضر ہونے کی اجازت باقی نہیں رہی۔)

              حضرت عائشہؓ نے اپنے ارشاد (کہ اگر حضورﷺ کے عہد مبارک میں عورتوں کی اس بری رسم کا ظہور ہوگیا ہوتا تو آپ ﷺ انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے، اس حدیث)میں اسی حالت کے بدلنے کی وجہ سے حکم کے بدلنے کی بات کہی ہے۔

              یعنی حافظؒ کہنا چاہتے ہیں کہ عورتوں کا شرائط کی پابندی کے سلسلے میں کوتاہیوں کی بری رسم کی وجہ سے ان کا مسجد جانے کا حکم بدل گیا ، اس بات کی خبر حضرت عائشہؓ نے دی۔  (فتح الباری: ص۳۴۹ج۲)

وضاحت:

              اتنے صاف اور صریح ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے عورتوں کو مسجد میں آنے اجازت شرائط کی بناء پر دی تھی، جس کو کوئی غیر مقلد بیان نہیں کرتا ہے۔

              حضور ﷺ کے زمانے میں عورتیں مکمل پردے کے ساتھ بغیر خوشبو کے  میلے کپڑوں کے ساتھ جس سے بو آتی تھی، بغیر زینت کے اور مردوں سے بچتے ہوئے آتی تھیں۔

              اب ہر عقل رکھنے والا آدمی انصاف کے ساتھ غور کرے کہ کیا اس کے گھر کی عورتیں ہر نماز کے لئے میلے کپڑوں کے ساتھ جس سے بو آتی ہو،بغیرزیب وزینت کئے، جس میں وہ اچھے کپڑے، اچھے برقعے اور زیورات وغیرہ کا استعمال نہ کریں، بغیر کسی خوشبو یا عطر کے، مردوں کی نظروں سے پوری طرح بچتے ہوئے خصوصاً آج کے فتنے کے ماحول میں مکمل پردے کے ساتھ آنے کی پابندی کر سکتی ہے؟

              اور صحابہؓ کے ہی زمانے میں جس کو حضور ﷺ نے خیرالقرون (بہترین زمانہ) قرار دیا ہے، اسی زمانے سے عورتوں نے ان شرائط میں کوتاہی کی، لہٰذا جب صحابہؓ کے دور کی خواتین نے اس معاملہ میں کوتاہی کی تو پھر آج کے انٹر نیٹ اور فیشن کے دور میں موجود عورتیں ان شرائط کی پابندی کر سکیں گی۔                          اپنے دل سے پوچھئے ؟؟؟

حضرت عمرؓ اور حضرت زبیر بن العوامؓ  کو عورتوں کامسجد جانا پسند نہیں تھا

              معتبرروایات  سے ثابت ہے کہ حضرت عمرؓ اور حضرت زبیر ابن العوامؓ کو عورتوں کا نماز کے لئے مسجد جانا پسند نہیں تھا۔

امام بخاریؒ ۲۵۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

              ’’حدثنا یوسف بن موسیٰ، حدثنا ابو الاسامہ، حدثنا عبید اللہ بن عمرعن نافع عن ابن عمرؓ قال: کانت امرأۃ لعمر تشھد صلاۃ الصبح والعشاء فی الجماعۃ فی المسجد، فقیل لھا: لم تخرجین وقد تعلمین ان عمر یکرہ ذلک ویغار؟  قالت: وما یمنعہ قول رسول اللہ ﷺ: لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ۔‘‘

              حضرت عبدا للہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہاکہ حضرت عمرؓ کی ایک بیوی عشاء اور فجر کے وقت مسجد جاکر جماعت میں شریک ہوتی تھی، ان سے کہا گیا: آپ (نماز کے لئے ) مسجد کیوں جاتی ہیں؟ جب کہ آپ کے باہر نکلنے پر حضرت عمرؓ کو غیرت آتی ہے، انہوں (یعنی حضرت عمرؓ کی اہلیہ نے )جواب دیا کہ اگر میرا مسجد میں جانا حضرت عمر ؓ کو ناپسند ہے) تو مجھے روک دینے سے انہیں کون سی چیز مانع ہے؟ ان سے گفتگو کرنے والے نے کہا کہ :حضور ﷺ کا ارشاد: اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو۔  (صحیح بخاری، رقم الحدیث: ۹۰۰)

نوٹ:      مصنف عبد الرزاق میں موجود امام زہریؒ کی (مرسل) روایت میں ذکر ہے کہ وہ حضرت عاتکہ بنت زید تھیں۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:

              ’’عبد الرزاق عن معمر، عن الزھری، ان عاتکۃ بنت زید بن عمرو بن نفیل وکانت تحت عمربن الخطاب وکانت تشھد الصلا فی المسجد، وکان عمرؓ یقول لھا: واللہ انک لتعلمین ما أحب ھذا؟ فقالت: واللہ لا انتھی حتی تنھانی، قال: انی لا أنھاک، قالت: فلقد طعن عمر یوم طعن، وانھا لفی المسجد۔‘‘ (مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث: ۵۱۱۱، واسنادہٗ صحیح، مرسل)

وضاحت:

              حضرت عمربن الخطابؓ حالات کے بدلنے اور فتنے کے خوف سے رات میں بھی عورتوں کے مسجد جانے کو پسند نہیں کرتے تھے، جیسا کہ ان روایات سے ظاہر ہے ، لیکن حضرت عمرؓ کی اہلیہ عاتکہ بنت زیدؓ کا خیال تھا کہ ابھی حالات اس درجہ نہیں بگڑے ہیں کہ مسجد جانے میں فتنے کا اندیشہ ہو۔

              اس لئے وہ اپنی ذات اور رائے پر اعتماد کرتے ہوئے جماعت میں شریک ہوتی رہتی تھیں، لیکن بعد میں انہیں بھی احساس ہوا کہ اب مسجد جاکر نماز پڑھنے کا زمانہ نہیں رہا تو انہوں نے مسجد جانا ترک کردیا۔

              ائمہ حدیث نے ان کا واقعہ تفصیل سے یوں بیان فرمایا ہے کہ:

              ’’حضرت فاروقِ اعظمؓ کی یہ اہلیہ جن کا ذکر اس روایت میں ہے وہ مشہور صحابی سعید بن زیدؓ جو کہ عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں ان کی بہن حضرت عاتکہ بنت زیدؓ ہیں،یہ پہلے حضرت صدیقِ اکبرؓ کے بیٹے عبداللہؓ کے نکاح میں تھیں،حضرت عبداللہؓ کی شہادت کے بعد حضرت عمرؓ نے ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا، حضرت عاتکہؓ نے تین شرطوں پر اپنی رضامندی ظاہر کی:

              (۱)         مجھے زدوکوب نہیں کروگے۔  (یعنی مجھے نہیں ماروگے)

              (۲)         حق بات سے منع نہیں کروگے۔

              (۳)        مسجدِ نبویﷺ میں جاکر عشاء (اور فجر) کی نماز ادا کرنے سے نہیں روکو گے۔

              حضرت عمرؓ نے ان شرطوں کو منظور کر لیا اور انہوں نے حضرت عاتکہؓ سے نکاح کر لیا۔اور حضرت عاتکہؓ حضرت عمرؓ کی شہادت تک ان کے نکاح میں رہی۔

              حضرت فاروقِ اعظمؓ کی شہادت کے بعد حضرت زبیر ابن العوامؓ جو کہ عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں انہوں نے حضرت عاتکہؓ کے پاس پیغامِ نکاح بھیجا، حضرت عاتکہؓ نے ان کو بھی وہی تین شرطوں کے ساتھ اپنی رضامندی ظاہر کی، حضرت زبیر ابن العوامؓ نے بھی ان شرطوں کو قبول کر لیا اور ان سے نکاح کر لیا۔

              حضرت عاتکہؓ معمول کے مطابق مسجد جاکر نماز باجماعت ادا کرنے کا ارادہ کیا تو یہ بات حضرت زبیر ابن العوامؓ پر شاق گزری(یعنی ان کو برا لگا)جس پر حضرت عاتکہؓ نے کہا:

              کیا ارادہ ہے؟

              (یعنی شرط کی خلاف ورزی کرکے) کیا آپ مجھے مسجد جانے سے روکنا چاہتے ہیں۔

              (حضرت زبیرؓ خاموش ہوگئے اور وہ مسجد جاتی رہیں) پھر جب حضرت زبیر ؓ پر صبر دشوار ہوگیا(اور برداشت کی قوت جواب دینے لگی، اس لئے کہ وہ فتنے اور فساد کو دیکھ رہے تھے)تو شرط کا لحاظ رکھتے ہوئے (صراحتاً تو انہیں مسجد جانے سے منع نہیں کیا، البتہ ایک لطیف تدبیر کے ذریعہ حضرت عاتکہؓ کو اس بات کا احساس دلایا کہ اب زمانہ مسجد جاکر نماز ادا کرنے کا نہیں رہا، چنانچہ) ایک شب (رات) حضرت عاتکہؓ کے گھر سے نکلنے سے پہلے حضرت زبیرؓ جاکر راستے میں ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گئے، اور جب حضرت عاتکہؓ وہاں سے گزریں تو پیچھے سے ان کی کمر کے نیچے ہاتھ مارکر نکل گئے،اس انجان حرکت سے حضرت عاتکہؓ کو گھبراہٹ ہوئی اور تیزی کے ساتھ وہاں سے بھاگ نکلیں۔

              اس واقعہ کی اگلی شب میں اذان کی آواز ان کے کانوں تک پہنچی مگر وہ اپنے معمول کے خلاف مسجد جانے کی تیاری کرنے کے بجائے بیٹھی رہیں تو حضرت زیبرؓ نے پوچھا:

              خیریت تو ہے؟                         اذان ہوگئی اور تم بیٹھی ہو؟

              حضرت عاتکہؓ نے جواب میں کہا کہ :  لوگوں میں بگاڑ آگیا ہے۔(اب زمانہ مسجد جاکر نماز ادا کرنے کا نہیں رہا) پھر کبھی مسجد جانے کے لئے گھر سے نہیں نکلیں۔ اس واقعہ کو تفصیل سے امام ابن عبدالبر۴۶۳؁ھ) نے اپنی کتاب’’التمہید‘‘ میں بیان فرمایا ہے:

جس کی سند یوں ہے:

              ’’اخبرنا احمدبن عبداللہ بن محمد و احمد بن سعید بن بشر قالا: حدثنا مسلمۃ بن القاسم قال، حدثنا احمد بن عیسی المقری المعروف بابن الوشا، قال حدثنا محمد بن ابراھیم بن زیاد مولی بن ھاشم قال: حدثنا ابراھیم بن عبداللہ الھروی، قال حدثنا رجل من اھل المدینۃ یقال لہ محمد بن مجبر عن زید بن اسلم وعبد الرحمن بن القاسم عن ابیہ۔‘‘ (التمھید:ص۴۰۴،۴۰۷ج۲۳)

سند کے راویوں کی تحقیق درج ذیل ہے:

              (۱)         حافظ امام ابن عبدالبرؒ ۴۶۳؁ھ) مشہور امام، ثقہ اور حافظ المغرب ہیں۔ ( سیر اعلام النبلاء:ص۱۵۳ج۱۸، تاریخ الاسلام)

              (۲)         امام ابو عمر احمد بن عبداللہ بن محمد ابن الباجیؒ (م۳۹۶؁ھ) ثقہ ہیں، امام قاسم بن قطلوبغاؒ نے ’’کتاب الثقات‘‘ میں شمار کیا ہے۔  (کتاب الثقات للقاسم:ص۳۸۲ج۱)

              اسی طرح امام ابن عبد البرؒ نے امام ابن الباجیؒ کا متابع ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں اسی روایت کو محدث احمد بن سعید بن بشرؒ (م۳۹۲؁ھ) سے بھی سنا ہے، اور محدث احمد بن سعید بن بشرؒ بھی حسن درجے کے راوی ہیں ، جس کی تفصیل تاریخ الاسلام ص۷۱۰ ج۸ پر موجود ہے۔

              لہٰذا دونوں راوی ثقہ ہیں۔

              (۳)        امام مسلمہ بن قاسم ؒ(م۳۵۳؁ھ) بھی ثقہ راوی ہیں۔

              اگرچہ امام ذہبیؒ نے آپ کو ضعیف کہاہے : لیکن امام ابن حجر عسقلانیؒ امام ذہبیؒ کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام مسلمہؒ بڑے مقام والے (امام ) ہیں ، ان کو صرف ان کے دشمنوں نے ہی تشبیہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ امام ابن حزمؒ ۴۵۶؁ھ) نے ان کو کثیر السماع کثیر الحدیث کثیر الروایۃ اور علم کے بہت زیادہ جامع قرار دیا ہے۔ (لسان المیزان:ص ۴۳ج۲) امام ابو عبداللہ بن ابی نصر الحمیدی ۴۸۸؁ھ) نے آپ کو ’’اندلس کا محدث‘‘ قرار دیا ہے،  اور ابو جعفر الظبیؒ (۵۹۹؁ھ) بھی فرماتے ہیں کہ آپؒ ’’اندلس کے محدث ہیں۔‘‘  (جذوۃ المقتبس: ص۳۴۶، بغیۃ الملتمس:ص۴۶۳)

              لہٰذا آپؒ بھی ثقہ ہیں۔

(۴)        احمد بن عیسیٰ المقری جو کہ ابن الوساؒ کے نام سے مشہور ہیں ان سے دو راویوں نے روایت کیا ہے۔

              i -           امام ابن عدیؒ ۳۶۵؁ھ) جو کہ مشہور ثقہ امام اور ائمہ جرح وتعدیل میں سے ہیں۔[6]

              ii -          حافظ محمد بن عبداللہ ابو الحسین الرازی ؒ ۳۴۷ھ؁) بھی ثقہ ہیں۔   (تاریخ الاسلام : ج۷ص ۸۵۷)

              معلوم ہواکہ احمد بن عیسیٰ المقریؒ سے دو ثقہ راویوں نے روایت کی ہے اور آپ کا ترجمہ لسان المیزان:ج۱ص۵۷۲ پر موجود ہے۔

              معلوم ہوا کہ ان سے دوثقہ راویوں نے روایت کیاہے،اور اصول گزچکا کہ جس راوی سے دو یا دو سے زیادہ راوی روایت کریں تو وہ مجہول نہیں بلکہ مقبول ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ راوی مقبول ہوئے۔نیزامام ابن حبانؒ نے ان سے روایت لے کر انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔  (المجروحین:ص۱۸۲ج۲) کیونکہ غیر مقلدین کے نزدیک اصول ہے کہ ابن حبانؓ صرف ثقہ ہی سے روایت کرتے تھے۔  (اتحاف النبیل: ص۱۱۷ج۲) ثابت ہوا کہ غیر مقلدین کے اصول میں امام ابن حبانؒ کے نزدیک احمد بن عیسیٰ المقریؒ  ثقہ ہیں۔

پھر امام مسلمہ ابن القاسمؒ فرماتے ہیں:

              ’’کتبت عنہ حدیثا کثیراً وکان جامعا للعلم وکان اصحاب الحدیث یختلفون فیہ فبعضھم یوثقہ وبعضھم یضعفہْ‘‘

              میں نے ان سے بہت سی احادیث لکھی ہے، اور وہ علم میں جامع (پختہ) تھے اور اصحاب المحدثین یعنی محدثین ان کے بارے میں اختلاف کر تے تھے، بعض ان کو ثقہ قرار دیتے تھے اور بعض انہیں ضعیف قرار دیتے تھے۔  (کتاب الصلہ للمسلمہ، بحوالہ لسان المیزان:ج۱ص۵۷۱)[7]

وضاحت:

یہ قول بتا رہا ہے کہ امام مسلمہ بن قاسمؒ کے نزدیک احمد بن عیسیٰؒ  مختلف فیہ راوی ہے اور  مختلف فیہ راوی کی روایت غیر مقلدین کے نزدیک حسن درجہ کی ہوتی ہے۔(خیر الکلام : ص ۲۳۸)[8]

              (۵)        امام محمد بن ابراھیم بن زیادؒ بھی ثقہ راوی ہیں۔  (کتاب الثقات للقاسم:ص۱۰۱ج۸)

              (۶)         ابراہیم ابن عبداللہ الھرویؒ (م۲۴۴؁ھ)بھی ثقہ راوی ہیں۔  (اکمال تہذیب الکمال: ج۱ص۲۲۹)

              (۷)        حسین بن بشیرؒ (م۱۸۳ھ؁) بھی صحیحین کے راوی ہیں ، اور ثقہ مضبوط ہیں۔ (تقریب ، رقم:۷۳۱۲)

              (۸)        محمد بن عبدالرحمن ابن المجبرؒ بھی ثقہ ہیں۔

              آپ کی توثیق درج ذیل ہے:

              (الف)                   امام احمدبن حنبلؒ (م۲۴۱؁ھ)نے آپ کو ثقہ قرار دیا ہے،  (المنتخب من العلل للخلال: ص۸۶)

              (ب)      امام حاکمؒ ۴۰۵ھ؁) فرماتے ہیں کہ محمدبن عبدالرحمن بن المجبر ثقہ ہیں ، نیز ان کی روایت کو صحیح بھی قرار دیا ہے۔

              (ج)        امام ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) نے بھی ان کی روایت کو شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے۔ (المستدرک: ص۳۲۳ج۱، رقم الحدیث:۷۴۱)

              (د)         امام ہشیم بن بشیرؒ نے آپ سے روایت کی ہے، غیر مقلدین کے نزدیک امام ہشیمؒ صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے۔   (اتحاف النبیل:ص۸۴، ۱۲۲ج۲)

              ثابت ہوا کہ امام ہشیمؒ کے نزدیک بھی آپؒ ثقہ ہیں۔ [9]

              (۸)        امام زید بن اسلمؒ ۱۳۶؁ھ) صحیح کے راوی ہیں اور ثقہ، عالم ہیں۔  (تقریب، رقم: ۲۱۱۷)

              اسی طرح امام زید بن اسلمؒ کے متابع میں ایک اور راوی امام عبد الرحمن بن القاسمؒ ۱۲۶؁ھ) ہیں اور وہ بھی صحیحین کے راوی ہیں ، اور ثقہ ، جلیل ہیں ۔  (تقریب، رقم:۳۹۸۱)

              (۹)         اسلمؒ (م۶۰ھ؁)مشہور مخضرم، ثقہ راوی ہیں۔ (تقریب، رقم:۴۰۶)

              معلوم ہوا کہ اس کے سارے راوی صدوق ہیں اور اس کی سند حسن ہے۔  واللہ اعلم

وضاحت:

              ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضرت عمربن الخطابؓ اور حضرت زبیر ابن العوامؓ کو عورتوں کا مسجد جانا پسند نہیں تھا، کیونکہ انہوں حضورﷺ کے بعد عورتوں میں جو خرابیاں اور فساد آیا گیا تھا اس کو پہلے سے ہی محسوس کر لیا تھا، اسی وجہ سے ان دونوں حضرات نے عورتوں کا مسجد جانا پسند نہ کیا۔

حضورﷺ کے ارشاد کی وجہ سے ہی صحابہ کرامؓ نے عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکا تھا

حضورﷺ کے ارشاد کی وجہ سے ہی صحابہ کرامؓ نے عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیاتھا، کیونکہ حضورﷺ نے عورتوں کو جہاں مسجد آنے کی اجازت دی وہاں ان کے لئے کچھ شرائط بھی بتائے ہیں کہ جب وہ مسجد میں آئیں تو ان شرائط کا لحاظ رکھیں، ان شرائط کی تفصیل ص : ۱۶۲ موجود ہے۔

حضورﷺ کی مقرر کی ہوئی شرائط کی خلاف ورزی پر خود آپ ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا تھا کہ وہ خواتین کو مسجد میں آنے سے روکیں۔

لہٰذا اب وہ احادیث ملاحظہ فرمائیں جن میں حضور ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ عورتیں اگر مسجدشرائط کی پابندی نہ کریں تو انہیں مسجد میں آنے نہ دیں۔

روایت نمبر ۱ :

ام المؤمنین حضرت عائشہؓ ۵۸؁ھ) بیان کرتی ہیں کہ:

              قالت: بینما رسول اللہ ﷺجالس فی المسجد، اذ دخلت امرأۃ من مزینۃ ترفل فی زینۃ لھا فی المسجد فقال النبی ﷺ: یاایھا الناس! انھوا نساء کم عن لبس الزینۃ والتبختر فی المسجد، فان بنی اسرائیل لم یلعنوا حتی لبس نساء ھم الزینۃ، وتبخترن فی المساجد۔‘‘

حضورﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ قبیلہ مزینہ کی ایک عورت خوبصورت کپڑوں میں مزین ناز ونخرے کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئی(اس کی یہ ناپسندیدہ کیفیت دیکھ کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اے لوگو! اپنی عورتوں کو زینت سے آراستہ ہوکر اور خوش رفتاری کے ساتھ مسجد میں آنے سے روکو، بنی اسرائیل اسی وقت ملعون کئے گئے جب ان کی عورتیں سج دھج کر ناز ونخرے سے مسجدوں میں آنے لگیں۔   (سنن بن ماجہ، رقم الحدیث:۴۰۰۱،واسنادہٗ حسن)[10]               

وضاحت:

غور فرمائیں !  حضور ﷺ اس روایت کوصحابہ کرامؓ کو حکم دے رہے ہیں کہ عورتوں کوزینت کے ساتھ آنے سے روکو۔

آگے حضرت عائشہؓ کی روایت سلف صالحین کی تفسیر کے ساتھ آرہی ہے کہ عورتوں نے حضور ﷺ کی وفات کے بعدحضور ﷺ کی شرائط کی مخالفت کی تھی اور زینت کے ساتھ مسجد کو آنے لگیں تھیں، جس کی وجہ سے صحابہ کرامؓ نے حضور ﷺ کے ارشاد ہی کی وجہ سے عورتوں کو مسجد مٰں آنے سے روک دیاتھا۔

روایت نمبر ۲ :

              حضرت ابو ہریرہؓ ۵۹؁ھ) سے روایت ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ایماامرأۃ اصابت بخوراً فلاتشھد معنا العشاء الآخرۃ۔‘‘ جس عورت نے بھی خوشبو کی دھونی لی ہوتو وہ ہمارے ساتھ عشاء کی جماعت میں حاضر نہ ہو۔   (صحیح مسلم:ج۱ص۳۲۸)

لیجئے  ! خود آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت خوشبو لگائے ہوئے ہوتو وہ مسجد کو ہی نہ آئے۔

اور موسیٰ بن یسار کی روایت ہے کہ:

              ’’ مرت بأبی امرأۃ وریحھا تعصف، فقال لھا: الیٰ این تریدین یا امۃ الجبار؟ قالت: الی المسجد،قال تطیبت؟ قالت: نعم،قال: فارجعی فاغتسلی، فانی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: لا یقبل اللہ من امراۃصلاۃ خرجت الی المسجد وریحھا تعصف حتی ترجع فتغتسل۔‘‘

حضرت ابو ہریرہؓ کے قریب سے ایک عورت گزری اور خوشبو اس کے کپڑوں سے مہک رہی تھی، حضرت ابو ہریرہؓ نے پوچھا کہ اے خدائے جبارکی بندی ! کہاں کا ارادہ ہے؟

اس نے کہا : مسجد کا۔

ابوہریرہؓ نے پوچھا : تونے خوشبو لگارکھی ہے؟

اس نے کہا:  ہاں۔

حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا: لوٹ جا، اور اسے دھو ڈال، کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی عورت کی نماز قبول نہیں کرتا جو اس حالت میں مسجد کے لئے نکلے، کہ خوشبو اس کے کپڑوں سے مہک رہی ہو۔  (صحیح بن خزیمۃ، رقم الحدیث:۱۶۸۲،والحدیث  صحیح)

اس حدیث میں بھی حضرت ابو ہریرہ نے اس خاتون کو مسجد آنے سے روک دیا، کیونکہ اس نے حضورﷺ کی شرائط کی مخالفت کی تھی۔ اور پھر حضرت ابو ہریرہؓ نے حضور ﷺ کی تنبیہ نقل فرمائی۔

روایت نمبر ۳ :

              حضرت عائشہؓ ۵۸؁ھ) کا ارشاد :

ام المؤمنین حضرت عائشہؓ ۵۸؁ھ) بیان کرتی ہیں کہ:

              ’’ لو ادرک رسول اللہ ﷺ ما احدث النساء لمنعھن کما منعت نساء بنی اسرائیل۔‘‘

عورتوں نے زیب وزینت اور خوبصورتی کی نمائش کا جو طریقہ ایجاد کر لیا ہے، اگر رسول اللہ ﷺاسے ملاحظہ کر لیتے تو انہیں مسجدوںسے ضرور روک دیتے ، جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔ (صحیح بخاری:رقم الحدیث: ۸۶۹)

اعتراض:

رئیس احمد سلفی اس قول کو حضرت عائشہؓ کا ذاتی قول قرار دیتے ہیں اور محض ادھر اُدھر کی بکواس کی ہیں۔   (سلفی تحقیقی جائزہ:۷۹۴)

الجواب:

اگر کوئی اپنے مسلک کا اندھی تقلید میں حضرت عائشہؓ کا قول سمجھ نہیں پارہا ہے تو ہم سلف صالحین کی تفسیر کو پیش کرتے ہیں تاکہ وہ حضرت عائشہؓ کے ارشاد کا مفہوم سمجھ جائے۔

(۱)         امام ابن رجبؒ۷۹۵؁ھ)فرماتے ہیں: کہ

         ’’تشیر عائشۃؓ الی النبی ﷺ کان یرخص فی بعض مایرخص فیہ حیث لم یکن فی زمنہ فساد، ثم یطرأ الفساد ویحدث بعدہ، فلو أدرک ما حدث بعدہ لما استمر علی الرخصۃ بل نھی عنہ، فانہ انما یامر بالصلاح، وینھی عن الفساد۔‘‘

حضرت عائشہؓ اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بعض چیزوں کی اجازت دی تھی، اس حیثیت سے کہ آپ ﷺ کے زمانے میں (عمومی اعتبار سے) فساد نہیں تھا۔ پھر آپ ﷺ (کی وفات) کے بعد فساد عام ہورہاہے، اور (مزید فساد) پیدا ہورہا ہے۔

لہٰذا اگر آپ ﷺ وہ چیزیں جو آپ کے بعد پیدا ہوئی ہیں پا لیتے (یعنی حضورﷺ کی شرائط کے معاملہ میں کوتاہی کرنا، جس سے فساد ہورہا تھا)تو آپ اجازت پر قائم نہ رہتے، بلکہ اس سے (یعنی عورتوں کو مسجد آنے سے)روک دیتے، کیونکہ آپ ﷺ اچھی بات کا حکم دیتے اور بری بات سے روکتے تھے۔ (فتح الباری لابن رجب:ص۴۱ج۸)

معلو م ہوا کہ حضرت عائشہؓ حضور کے وفات کے بعد عورتوںکو مسجد آنے کے لئے جو شرائط حضور ﷺ نے متعین کی تھی، ان میں عورتوں کی کوتاہیوں اور لاپرواہیوں کی طرف اشارہ فرما رہی ہیں، جس سے فساد برپا ہور ہا تھا۔

اور جب عورتیں حضور ﷺ کی مقرر کی ہوئی شرطوں میں کوتاہی کیں تو آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا تھا کہ وہ عورتوں کو مسجد آنے سے روک دیں، یہی وجہ ہے کہ عورتوں کی اس حالت کو دیکھ کر حضرت عائشہؓ بھی فرماتی ہیں کہ عورتوں نے زیب و زینت اور خوبصورتی کی نمائش کا جو طریقہ ایجاد کر لیا ہے اگر رسول اللہ ﷺاسے ملاحظہ کر لیتے توانہیں مسجدوں سے ضرور روک دیتے۔

(۲)         حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ)فرماتے ہیں:

              ویتاکد ذلک بعد وجود ما احدث النساء من التبرج والزینۃ ومن ثم قالت عائشۃ ماقالت۔‘‘

(شرائط کا لحاظ نہ کرنے کی وجہ سے) عورتوں میں آرائش وجمال اور مردوں کے سامنے جلوہ آرائی کی بری رسم کے پیداہونے کے بعد ان کے لئے مسجد کے بجائے گھروں میں نماز ادا کرنے کا حکم مزید مؤکد ہوجاتا ہے، (اس لئے کہ انہوں نے حضور ﷺ کے شرائط کی پابندی نہیں کی جس کی وجہ سے ان کی مسجد میں حاضرہونے کی اجازت باقی نہیں رہی)۔

حضرت عائشہؓ نے اپنے ارشاد (کہ اگر حضور ﷺ کے عہد مبارک میں عورتوں کی اس بری رسم کا ظہور ہوگیا ہوتا تو آپ ﷺ انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے، اس)میں اس حالت کے بدلنے کی وجہ سے حکم کے بدلنے کی بات کہی ہے۔

یعنی حافظؒ کہنا چاہتے ہیں کہ عورتوں شرائط کی پابندی کے سلسلے میں کوتاہی کی بری رسم کی وجہ سے ان کا مسجد جانے کا حکم بدل گیا، اسی بات کی خبر حضرت عائشہؓ نے دی تھی۔   (فتح الباری لابن حجر:ص۳۴۹ج۲)

اس سے بھی معلوم ہورہا ہے کہ حضور ﷺ کے بعد عورتوں سے شرائط کی خلاف ورزی ہوئی تھی، اسی بات کا ذکر حضرت عائشہؓ نے دیا ہے۔

(۳)        امام ابن الجوزیؒ ۵۹۷؁ھ) فرماتے ہیں: کہ

              ’’انما اشارت عائشۃ بما احدث النساء من الزینۃ واللباس والطیب ونحو ذلک مما یخاف منہ الفتنۃ۔‘‘

حضرت عائشہؓ نے اپنے فرمان سے ان چیزوں کی طرف اشارہ کیا جنہیں عورتوں نے (حضورﷺکی وفات کے )بعدمیں ایجاد کر لیا۔ مثلاً زینت، لباس، خوشبو اور (اسی طرح) ان چیزوں کو جن سے فتنے کا خوف ہے۔  (کشف المشکل لابن الجوزی:ص۳۶۷ج۴)

(۴)        حافظ ابن دقیق العیدؒ ۷۰۹؁ھ)نے بھی حضرت عائشہؓ کے قول سے زینت کے وہ نئے نئے طریقے جو عورتوں نے ایجاد کر لئے تھی اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے، اوراس سے منع بھی کیا ہے۔  (احکام الاحکام:ص:۱۹۷ج۱)

(۵)        امام بدرالدین العینیؒ ۸۵۵؁ھ) فرماتے ہیں:

              ’’قولہ: ما احدث النساء فی محل النصب علی انہ مفعول ادرک أی ما احدثت من الزینۃ والطیب وحسن الثیاب ونحوہ۔‘‘

حضرت عائشہؓ نے (حضور ﷺ کے دور کے بعد) اپنے زمانے میں عورتوں کے جن نئے پیدا شدہ حالات کا ذکر کیا ہے، اس سے (مراد)زیب وزینت، خوشبو اور خوبصورت لباس کا باہراستعمال کرنا ہے۔  (عمدۃ القاری:ص۱۵۸ج۶)

یہی وجہ ہے کہ بعض محدثین نے حضرت عائشہؓ کے فرمان کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا کہ عورتوں میں جب خرابی پیدا ہوجائے یعنی جب ان سے حضورﷺ کی مقرر کی ہوئی شرائط کی خلاف ورزی ہو تو ان کا مسجد جانا درست نہیں ہے۔

(۶)         امام ابن بطالؒ ۴۴۹؁ھ) فرماتے ہیں:

              ’’اما حدیث عائشۃ ففیہ دلیل لا ینبغی ان یخرجن الی المساجد اذا حدث فی الناس الفساد۔‘‘

جہاں تک حضرت عائشہؓ کا ارشاد ہے تو اس میں دلیل ہے کہ جب عورتوں میں بگاڑ پیدا ہوجائے (یعنی شرائط میں کوتاہی کی وجہ سے اس میں فتنہ اور بگاڑ پیدا ہوجائے) تو پھر ان کا مسجدوں میں جانا درست نہیں ہے۔  (شرح بخاری لابن بطال: ص۴۷۱ج۲)

(۷)        امام عراقیؒ نے بھی امام ابن بطالؒ کا ارشاد نقل کیاہے، اور علی زئی صاحب کے اصول کے مطابق امام عراقیؒ نے ابن بطالؒ  کی تائید فرمائی ہے۔  (طرح التثریب فی شرح التقریب:ص۳۱۵ج۲، انوار الطریق:ص:۸)

(۸)        امام کرمانیؒ ۷۸۶؁ھ) نے بھی یہی بات فرمائی ہے کہ:

’’فیہ دلیل انہ لا ینبغی للنساء  أن یخرجن الی المساجد اذا حدث فی الناس الفساد۔‘‘

 حضرت عائشہؓ کے ارشاد میں دلیل ہے کہ عورتوں میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو پھر ان کا مسجدوں میں جانا درست نہیں ہے۔  (الکواکب الدراری:ص۲۰۹ج۵)

نوٹ:      بعض ائمہ محدثین نے حضرت عائشہؓ کے قول سے خصوصاً جوان اور خوبصورت عورتوں کو مسجد نہ جانے پر استدلال فرمایا ہے، کیونکہ اکثر جوان اور خوبصورت عورتیں لباس اور خوشبو اور زینت کی طرح طرح کی چیزیں استعمال کرتی ہیں، جن سے اکثر حضور ﷺ کی مقرر کی ہوئی شرائط ٹوٹتی اور پامال ہوتی ہیں، اورانہی سے فتنہ برپا ہوتاہیں۔

چنانچہ

(۹)          امام ابن الملقنؒ ۸۰۴؁ھ) فرماتے ہیں:

              ’’أما الیوم فلاتخر الشابۃ ذات الھیئۃ، ولھذا قالت عائشۃؓ: لو رأی رسول اللہ ﷺماأحدث النساء بعدہ لمنعھن المساجد کما منعت بنی اسرائیل۔‘‘

(لیکن) بہرحال توخوبصورت اور جوان لڑکیاں (مسجد کے لئے) نہیں نکلیں گی، اس لئے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ عورتوں نے زیب وزینت اور خوبصورتی کی نمائش کا جو طریقہ ایجاد کر لیا ہے، اگر رسول اللہ ﷺاس ملاحظہ کرلیتے تو انہیں مسجدوں سے ضرور روک دیتے، جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔  (التوضیح لابن الملقن: ص۵۱ج۵)

(۱۰)       امام نوویؒ ۶۷۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

              ’’اجابوا عن اخراج ذوات الخدور والمخبأۃ بان المفسدۃ فی ذلک الزمن کانت مامونۃ بخلاف الیوم ولھذاصح عائشۃؓ لورأی رسول اللہ ﷺمااحدث النساء لمنعھن المساجد کما منعت نساء بنی اسرائیل۔‘‘

ہمارے اصحاب نے جوان اور پردہ نشین عورتوں کو مسجد جانے کے تعلق سے جو روایت آئی ہے ان کا جواب دیا ہے، کہ اس زمانے میں (یعنی حضور ﷺ کے) زمانے میں فساد سے (عموماً) امن تھا ، برخلاف آج کے (یعنی آج کا دور فساد کا دور ہے) ، اس لئے حضرت عائشہؓ سے صحیح ثابت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ:

عورتوں نے زیب وزینت اور خوبصورتی کی نمائش کا جو طریقہ ایجاد کر لیا ہے اگر رسول اللہ ﷺ اسے ملاحظہ کر لیتے تو انہیں مسجدوں سے ضرور روک دیتے، جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔  (شرح صحیح مسلم للنووی:ص۱۷۸ج۶)

الغرض ان تمام ارشادات سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہؓ حضورﷺ کے وفات کے بعد عورتوں کے مسجد آنے کے معاملہ میں جو شرائط حضورﷺ نے متعین کی تھی ان میں کوتاہیوں اور لاپرواہیوں کی طرف اشارہ فرما رہی ہیں، جس سے فساد برپا ہو رہا تھا۔

اور جب عورتیں حضورﷺ کی مقرر کی ہوئی شرائط میں کوتاہی کریں تو خود آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا تھا کہ وہ عورتوں کو مسجد آنے سے روک دیں، جیسا کہ احادیث اوپر گذر چکی۔ تو صحابہؓ نے حضور ﷺ کے ارشاد  کے مطابق عورتوں کو مسجد آنے سے روک دیا۔

معلوم ہوا کہ ائمہ محدثین  نے حضرت عائشہؓ کا جو معنی و مفہوم لیاہے اسے چھوڑ کر غیر مقلدین نے محض اپنے مسلک کی اندھی تقلید میں حضرت عائشہؓ کے قول کا رد کر تے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ان کا ذاتی قول ہے، جو کہ باطل و مردود ہے۔

حضرت عائشہؓ کا ایک اور ارشاد:

امام احمد ؒ  ۲۴۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

              ’’حدثنا الحکم، حدثنا عبد الرحمن بن ابی الرجال، فقال ابی: یذکرہ عن أمہ، عن عائشۃ ، عن النبیﷺ قال: لاتمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ، ولیخرجن تفلات: قالت عائشۃ: ولو رأی حالھن الیوم منعھن۔‘‘

حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو، اور وہ گھروں سے اس حالت میں نکلیں کہ ان کے کپڑوں سے بو آتی ہو۔حضرت عائشہؓ آگے بیان کرتی ہیں کہ اگر حضورﷺ آج کے حالت دیکھ لیتے تو آپ ﷺ عورتوں مسجد آنے سے روک دیتے۔  (مسند احمد: رقم الحدیث:۲۴۴۰۶، واسنادہ صحیح، ورجالہ کلھم ثقات)

اس حدیث سے بھی معلوم ہورہا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے حضورﷺ کے وفات کے بعد عورتوں نے حضور ﷺ کی مقرر کی ہوئی شرطوں کی جو خلاف ورزی کی ہے، اس کا ذکر کر رہی ہیں۔

الغرض ہر لحاظ سے اہل حدیثوں کا اعتراض مردود ہے۔

اور ہم اس مسئلہ پر اور کیا کہیں، خود اہلِ حدیث عالم شیخ محمد فاروق رفیع صاحب لکھتے ہیں کہ:

’’اگر عورتیں زیب وزینت کا استعمال کا معمول بنالیں اور انہیں ڈانٹنے سے وہ ترک نہ کریں، تو ان کے مسجد میں داخلے پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ ‘‘ (صحیح بن خزیمہ مترجم :ص۲۱۴ج۳، طبع انصار السنہ لاہور)

یہی بات واقعی ہوئی کہ حضورﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرامؓ کے زمانے میں عورتوں نے حضورﷺ  کی مقرر کی ہوئی شرائط کی خلاف ورزی کا ماحول بنایا تھا، تو صحابہ کرام ؓ نے ان شرائط کی خلاف ورزی پر تنبیہ کی ، پھر ایک حد تک برداشت کرنے کے بعد انہیں مسجد کے بجائے گھر ہی میں نماز پڑھنے کا حکم دے دیا۔

اور صحابہ کرامؓ کا حضورﷺ کی شرائط کی خلاف ورزی کو ایک حد تک برداشت کرنے کا اشارہ حضرت عائشہؓ کی روایت (جو کہ نمبر(۳) کے تحت گذر چکی ، اس) سے بھی ملتا ہے۔

کیونکہ حضرت عائشہؓ مستقل طور پر عورتوں کی کیفیت کو دیکھ رہی تھیں، کہ وہ حضور کی مقرر کی ہوئی شرائط کی کیسی خلاف ورزی کر رہی ہیں، ایک حد تک برداشت کرنے کے بعد حضرت عائشہؓ کو بھی کہنا پڑا کہ اگر حضور ﷺ ہوتے تو عورتوں کی بدلی ہوئی حالت کی وجہ سے انہیں مسجد آنے سے روک دیتے۔

معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ کا یہ عمل تو خود اہل حدیث حضرات کے علماء کے نزدیک بھی صحیح اور درست ہے۔لیکن ضد کا کوئی علاج نہیں ہے۔

عورتوں کے مسجد نہ جانے کے سلسلہ میں صحابہ کرام ؓ اور سلف صالحین کے ارشادات

صحابہ کرام  ؓ نے حضور ﷺ کے حکم سے عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکا تھا، جس کی تفصیل ہم نے پہلے بیان کردی ہے ،  اب عورتوں کے مسجد نہ جانے کے سلسلہ میں صحابہ کرام ؓ اور سلف صالحین کے ارشادات ملاحظہ فرمائیے :

۱۔ حضرت عائشہ ؓ (م ۵۸؁ھ) کا ارشاد:

ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ طاہرہ صدیقہ ؓ   ۵۸؁ھ) بیان کرتی ہیں کہ :

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ

 عورتوں نے زیب وزینت اور خوبصورتی کی نمائش کا جو طریقہ ایجاد کرلیا ہے ، اگر رسول اللہ ﷺ اسے ملاحظہ کرلیتے ، تو انہیں مسجدوں سے ضرور روک دیتے ، جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئیں تھیں۔

حضرت عائشہ ؓ کا ایک اور ارشاد :

حضرت عائشہؒ سے روایت ہے کہ :

حَدَّثَنَا الْحَكَمُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الرِّجَالِ، فَقَالَ أَبِي: يَذْكُرُهُ عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ‘‘لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللهِ مَسَاجِدَ اللهِ، وَلْيَخْرُجْنَ تَفِلَاتٍ ” قَالَتْ عَائِشَةُ: وَلَوْ رَأَى حَالَهُنَّ الْيَوْمَ مَنَعَهُنَّ۔

حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکواور وہ گھروں سے اس حالت میں نکلیں کہ ان کے کپڑوں سے بو آتی ہو۔

حضرت عائشہؓ آگے بیان کرتی ہیں کہ اگر حضور ﷺ آج کے حالات دیکھ لیتے (کہ عورتیں خراب کپڑوں کو چھوڑ کر ، کیسے زیب وزینت والے لباس اور زینت والی چیزیں استعمال کر رہی ہیں )، تو آپ ﷺ عورتوں کو مسجد آنے سے روک دیتے۔  (مسند احمد : حدیث نمبر ۲۴۴۰۶، واسنادہ صحیح ورجالہ کلہم ثقات)

اس قول سے بھی معلوم ہو رہا ہے کہ حضورﷺ کی وفات کے بعد ، عورتوں نے حضور ﷺ کی مقرر کی ہوئی شرطوں کی جو خلاف ورزی کی ہے، حضرت عائشہ ؓ اس کا ذکر رہی ہیں اور یہ بتا رہی ہیں کہ اب اس زمانے میں عورتوں کا نماز کیلئے مسجد آنا  درست نہیں ہیں۔

حضرت عائشہؓ کے ارشاد پر غیر مقلدین کے وسوسہ واعتراض کا جواب  ص : ۱۸۳  پر موجود ہے ۔

۲۔ حضرت عمر بن الخطاب ؓ (م ۲۲؁ھ) اور حضرت زبیر بن العوام ؓ (م ۳۶؁ھ) نے بھی اس بات کو ناپسند کیا کہ عورتیں مسجد میں جاکر نماز پڑھیں ، تفصیل یہاں ص : ۱۷۲  پر موجود ہے :

 

۳۔ فقیہ الصحابہ ، ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن مسعود ؓ (م ۳۲؁ھ) کا فرمان :

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ :

’’  قَالَ: ” كَانَ الرِّجَالُ، وَالنِّسَاءُ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ يُصَلُّونَ جَمِيعًا، فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا كَانَ لَهَا الْخَلِيلُ تَلْبَسُ الْقَالَبَيْنِ تَطَوَّلُ بِهِمَا لِخَلِيلِهَا، فَأَلْقَى الله عَلَيْهِنَّ الْحَيْضَ، فَكَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَقُولُ: أَخِّرُوهُنَّ حَيْثُ أَخَّرَهُنَّ اللهُ

               بنی اسرائیل کے مردوعورت اکٹھا نماز پڑھا کرتے تھے، جب کسی عورت کا کوئی آشنا(محبوب) ہوتا، تو کھڑاؤں پہن لیتی تھی، جس سے وہ لمبی ہوجاتی اپنے آشنا کو دیکھنے کیلئے (تو ان کی نازیبا حرکت پر بطور سزا کے ) ان پر حیض مسلط کردیا گیا، (یعنی حیض کی مدت دراز کردی گئی) اور اس حالت میں مسجد میں آنا حرام قرار دیا گیا ۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اس کو بیان کرنے کے بعد فرماتے تھے کہ ان عورتوں کو نکالو جہاں سے اللہ نے ان کو نکالا ہے ۔  (صحیح ابن خزیمہ : حدیث نمبر ۱۷۰۰، امام ابن خزیمہ ؒ نے صحیح اور موقوف ، امام ابن حجر عسقلانی ؒ نے صحیح اور امام ہیثمی ؒ نے اس کے رجال کو صحیحین کے رجال قرار دیا ہے ، فتح الباری : جلد ۲ : صفحہ ۳۵۰، مجمع الزوائد : حدیث نمبر ۲۱۲۰، واللفظ لہ )

حضرت ابن مسعود ؓ نے نہایت واضح اور صاف طور پر بیان کیا کہ جس جگہ (یعنی مسجد) سے اللہ نے ان عورتوں نکال دیا (اللہ کے حکم کی اتباع میں ، اے لوگو) تم بھی وہاں سے (یعنی مسجدوں سے ) عورتوں کو نکال دو۔

صرف اتنا ہی نہیں ، بلکہ ایک روایت میں حضرت ابو عمرو الشیبانی ؒ (م ۹۶؁ھ)فرماتے ہیں کہ : ’’ رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يُخْرِجُ النِّسَاءَ مِنَ الْمَسْجِدِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ‘‘ میں نے ابن مسعود ؓ کو دیکھا کہ آپ ؓ عورتوں کو کنکریاں مار کر مسجد سے باہر نکال رہے تھے ۔ ( مسند ابن الجعد : حدیث نمبر ۴۲۷، واللفظ لہ، امام ہیثمی ؒاور امام بوصیریؒ نے اس کے رجال کو ثقہ فرمایا ہے، امام ابن حجرؒ نے صحیح اور امام منذری ؒ نے اس کی سند کے بارے میں فرمایا کہ اس میں خرابی نہیں ہے، مجمع الزوائد :حدیث نمبر ۲۱۱۹، اتحاف الخیرۃ المہرۃ للبوصیری : حدیث نمبر ۱۵۱۵، المطالب العالیۃ : جلد ۴ : صفحہ ۶۵۳، حدیث نمبر ۶۸۵، الترغیب والترہیب : جلد ۱: صفحہ ۱۴۲، حدیث نمبر ۵۱۶)

۴۔ حضرت ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن عمرؓ(م ۷۴؁ھ)کا عمل:

امام عینی ؒ (م ۸۵۵؁ھ)فرماتے ہیں کہ :

’’كَانَ ابْن عمر، رَضِي الله تَعَالَى عَنْهُمَا، يقوم يحصب النِّسَاء يَوْم الْجُمُعَة يخرجهن من الْمَسْجِد۔‘‘ ابن عمرؓ جمعہ کے دن ،کھڑے ہوکر ، عورتوں کو کنکریاں مار کر، انہیں مسجد سے  باہر نکالتے تھے ۔ (عمدۃ القاری : جلد ۶ : صفحہ ۱۵۷) اس روایت کی سند نہیں ملی، لیکن اس کی تائید دوسری صحیح روایت سے ہوتی ہے ، مثلا:

امام نافعؒ  (م ۱۷۷؁ھ) فرماتے ہیں :

’’ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ لَا يُخْرِجُ نِسَاءَهُ فِي الْعِيدَيْنِ‘‘ ابن عمرؓ اپنی عورتوں کو عیدین میں نہیں لے جاتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر : ۵۸۴۵،  واللفظ لہ ، صحیح )

ابن عمرؓ سے ایک اور روایت ہے کہ :  ’’ كَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ يُخْرِجُ إِلَى الْعِيدَيْنِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْ أَهْلِهِ.‘‘ آپ ؓ اپنی عورتوں میں جن کو باہر نکالنے کی گنجائش دیکھتے، اس کو نکالتے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ :حدیث نمبر ۵۸۳۷، واللفظ لہ ، صحیح )

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عورتوں میں جن کو باہر نکالنے کی گنجائش ہوتی، یعنی اس سے مراد بوڑھی عورتیں ہیں ، کیو نکہ ان سے فتنہ کا اندیشہ کم ہوتا ہے ۔  معلوم ہوا کہ ابن عمرؓ کے نزدیک بھی جوان اور خوبصورت عورتوں کا مسجد جانا درست نہیں ہے ۔

۵۔ امام المفسرین ، عبد اللہ بن عباس ؓ (م ۶۸؁ھ ) کا فتویٰ :

حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ :

’’ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْهُ عَنِ الصَّلاَة فِي الْمَسْجِدِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ؟ فَقَالَ : صَلاَتُكِ فِي مَخْدَعِكِ أَفْضَلُ مِنْ صَلاَتِكِ فِي بَيْتِكِ ، وَصَلاَتُكِ فِي بَيْتِكِ أفْضَلُ مِنْ صَلاَتِكِ فِي حُجْرَتِكِ ، وَصَلاَتُكِ فِي حُجْرَتِكِ أَفْضَلُ مِنْ صَلاَتِكَ فِي مَسْجِدِ قَوْمِك‘‘ ایک عورت نے جمعہ کی نماز مسجد میں پڑھنے کے بارے میں ان سے پوچھا، حضرت ابن عباس ؓ جواب میں انہیں اجازت دینے کے بجائے یہ فرمایا:

تیری کوٹھری کی نماز ، تنگ کمرے کی نماز سے بہتر ہے ، تیرے تنگ کمرے کی نماز ، کھلے کمرے کی نماز سے بہتر ہے، تیری کھلے کمرے کی نماز مسجد کی نماز سے بہتر ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۷۶۹۷،  واسنادہ حسن )

غور فرمائیے ! ابن عباس ؓ بجائے اجازت دینے کی اس خاتون کو فرمارہے ہیں کہ تیرا گھر میں ظہر کی نماز پڑھ لینا زیادہ بہتر ہے ۔  اس سے معلوم ہورہا ہے کہ ابن عباسؓ کے نزدیک بھی پسندیدہ یہی ہے کہ عورت بجائے مسجد کے اپنے گھر ہی میں نماز پڑھے۔

۶۔ امام عبد الرحمن بن القاسم ؒ (م ۱۲۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

’’ قَالَ : كَانَ الْقَاسِمُ أَشَدَّ شَيْءٍ عَلَى الْعَوَاتِقِ ، لاَ يَدَعُهُنَّ يَخْرُجْنَ فِي الْفِطْرِ وَالأَضْحَى ‘‘ امام قاسم بن محمد بن ابو بکر صدیقؒ (۱۰۶؁ھ) جوان عورتوں کے بارے میں سخت تھے ، وہ ان کو عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے لئے نہیں نکلنے دیتے تھے ۔( مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۵۸۴۷،  واسنادہ صحیح )

۷۔ امام حسن البصری ؒ (م ۱۱۰؁ھ)سے پوچھا گیا:

’’ سُئِلَ الْحَسَنُ عَنِ امْرَأَةٍ جَعَلَتْ عَلَيْهَا إِنْ أُخْرِجَ زَوْجُهَا مِنَ السِّجْنِ أَنْ تُصَلِّيَ فِي كُلِّ مَسْجِدٍ تُجَمَّعُ فِيهِ الصَّلاَة بِالْبَصْرَةِ رَكْعَتَيْنِ ، فَقَالَ الْحَسَنُ : تُصَلِّي فِي مَسْجِدِ قَوْمِهَا فَإِنَّهَا لاَ تُطِيقُ ذَلِكَ لَوْ أَدْرَكَهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لأَوْجَعَ رَأْسَهَا۔‘‘ ایک عورت کے بارے میں جس نے یہ نذر مان رکھی تھی کہ اگر اس کے شوہر کو جیل سے رہائی مل جائے، تو وہ بصرہ کی ہر اس مسجد میں دو نفل پڑھے گی ، جس میں باجماعت نماز ہوتی ہے ۔

حضرت حسن البصری ؒ نے فرمایا کہ وہ اپنے محلہ کی مسجد میں دو رکعت ادا کرکے اپنی نذر پوری کرے ، کیونکہ بصرہ کی ہر مسجد میں جاکر نماز پڑھنے کی (شرعاً) طاقت نہیں ، نیز حسن البصری ؒ فرماتے ہیں کہ اگر عمر بن الخطاب ؓ اس (نذرماننے والی ) عورت کو پالیتے ، تو ضرور اس کو سزا دیتے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: حدیث نمبر ۷۷۰۰،  اسنادہ صحیح )     اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ عورت کو مسجد جانا درست نہیں ہے ۔

۸۔ امام ، الحافظ ، المجتہد، ابراہیم النخعیؒ (م ۹۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

’’ قَالَ : كُرِهَ لِلشَّابَّةِ أَنْ تَخْرُجَ إلَى الْعِيدَيْنِ۔‘‘ جوان لڑکیوں اور عورتوں کا عیدین کیلئے نکلنا مکروہ ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۵۸۴۸،  واسنادہ صحیح)

اسی طرح ایک اور روایت میں امام اعمش ؒ (م ۱۴۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ :  ’’عَنْ إبْرَاهِيمَ ، قَالَ : كَانَ لإِبْرَاهِيمَ ثَلاَثُ نِسْوَةٍ فَلَمْ يَكُنْ يَدَعُهُنَّ يَخْرُجْنَ إلَى جُمُعَةٍ ، وَلاَ جَمَاعَةٍ.‘‘ امام ابراہیم النخعیؒ کی تین بیویاں تھیں اور ان میں سے کسی ایک نے بھی محلہ کی مسجد نماز نہیں پڑھی۔  (مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث ۷۷۰۳، واسنادہ صحیح)

۹۔ امام ابن جریجؒ(م۱۵۰  ؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

’’عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: أَيَحِقُّ عَلَى النِّسَاءِ إِذَا سَمِعْنَ الْأَذَانَ أَنْ يُجِبْنَ كَمَا هُوَ حَقٌّ عَلَى الرِّجَالِ؟ قَالَ: لَا لَعَمْرِي‘‘ میں نے امام عطاء بن ابی رباح ؒ (م۱۱۴؁ھ) سے پوچھا  ہے کہ جیسے مردوں کیلئے یہ حق ثابت ہے کہ جب وہ اذان سنیں ، تو مسجد میں حاضر ہوں، کیا عورتوں کیلئے بھی یہ ثابت ہے ؟ امام عطاء ؒ نے قسم کھاکر فرمایا کے ان کیلئے ثابت نہیں ۔  (مصنف عبد الرزاق : حدیث نمبر ۵۱۰۶،  واسنادہ صحیح)

۱۰۔امام سفیان الثوریؒ (م ۱۶۱؁ھ) فرماتے ہیں :

 ’’عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ: أَنَّهُ كَرِهَ اليَوْمَ الخُرُوجَ لِلنِّسَاءِ إِلَى العِيدِ‘‘ کہ اس زمانہ میں عورتوں کا عید کیلئے نکلنا مکروہ ہے ۔ (سنن ترمذی : حدیث نمبر ۵۴۰)

۱۱۔ امام ہشام بن عروۃ ) م ۱۴۶؁ھ)  فرماتے ہیں کہ :

 ’’ عَنْ أَبِيهِ ؛ أَنَّهُ كَانَ لاَ يَدَعُ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِهِ تَخْرُجُ إِلَى فِطْرٍ ، وَلاَ إِلَى أَضْحَى.‘‘ امام عروہ ؒ (م۹۴؁ھ) اپنی کسی عورت کو عید الفطر اور عید الاضحیٰ کیلئے نکلنے کا موقع نہیں دیتے تھے ۔  (مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۵۸۴۶،  واسنادہ صحیح )

۱۲۔ امام ابراہیم النخعی (م ۹۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

’’قَالَ : كَانَ لِعَلْقَمَةَ امْرَأَةٌ قَدْ خَلَتْ فِي السِّنِّ تَخْرُجُ إِلَى الْعِيدَيْنِ.‘‘ امام علقمہ ؒ (م۷۰؁ھ) کی اہلیہ جو بوڑھی ہوچکی تھیں ، عیدین کیلئے نکلتی تھیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۵۸۴۰، واسنادہ صحیح )  معلوم ہوا کہ امام علقمہ ؒ کے نزدیک بھی جوان عورتوں کو نماز کیلئے نکلنے کی اجازت نہیں ہے ۔

اور یاد رہے کہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد کسی ایک صحابی سے بھی یہ صحیح سند سے ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے جوان عورتوں کو نماز کیلئے مسجد یا عیدین آنے کی اجازت دی ہو۔

وضاحت:

             جو حضرات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اہل حدیث فرقہ صحابہ کے زمانہ سے ہے، ان کو کم سے کم یہ تو ثابت کرنا چاہیے تھا کہ حضور ﷺ کے بعد حضرت عائشہ ؓ ، ابن مسعودؓ ، ابن عمرؓ اور ابن عباسؓ وغیرہ صحابہ کرام ؓ کے حکم ، ارشادات اور عمل کے بعد ، کیا ایک صحابی نے بھی اپنے گھر کی عورتو ں کو خصوصاً ،جوان عورتوں کو مسجد میں جاکر نماز پڑھنے کی اجازت دی  ؟؟

             لیکن جیسا کہ تفصیل اوپر گزر چکی کہ کسی ایک صحابی سے بھی ثابت نہیں کہ انہوں نے اپنی عورتوں کو مسجد جاکر نماز پڑھنے کی اجازت دی ہو۔

              معلوم ہوا کہ صحابہ کے زمانہ سے فرقہ اہل حدیث کے وجود کا دعویٰ باطل ومردود  ہے اور صحابہ کرام ؓ اس پر متفق تھے کہ عورتیں خصوصاً جوان عورتیں نماز کیلئے مسجد نہ جائیں ۔                                                                                                                                         واللہ اعلم ۔

عورتوں کا (مسجد کے مقابلے میں )اپنے گھر کے اندر نماز پڑھنا افضل اور زیادہ ثواب کاذریعہ ہے۔

              عورت کا مسجد کے مقابلے  میں گھر کے اندر نماز پڑھنا افضل اور  زیادہ باعث ثواب ہے ۔

(۱)              حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : صلا ۃ المرأۃ فی بیتہا افضل من صلاتہا فی حجرتہا ،وصلاتہا فی مخدعہا افضل من صلاتہا فی بیتہا ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :عورت کی گھر کے اندر کی نماز گھر کے صحن کی نماز سے افضل ہے ،اور اس کی گھر کی اندرونی کوٹھری کی نماز گھر کی نماز سے بہتر ہے ۔(مستدرک الحاکم مع تلخیص للذہبی ،جلد ۱ص ۳۲۸،رقم الحدیث ۷۵۷، امام حاکمؒ اور امام ذہبی ؒ نے اس روایت کو شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے ،معجم الکبیر للطبرانی ج۹ص۲۹۵)

              مطلب یہ ہے کہ عورت جس قدر پو شیدہ ہو کر (چھپ کر)نماز پڑھے گی اسی اعتبار سے زیادہ ثواب ملے گا ۔

 (۲)              ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ’’ قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ المرأۃ فی بیتہا خیر من صلا تہا فی حجرتہا وصلاتہا فی حجرتہا خیر من صلاتہا فی دارہا وصلاتہا فی دارہا خیر من صلاتہا فی مسجد قومہا‘‘ حضورﷺ نے فرمایا کہ عورت کی اپنی کوٹھری کی نماز بہتر ہے اس کے بڑے کمرے کی نماز سے ،اور اس کے بڑے کمرے کی نماز بہتر ہے گھر کے صحن کی نماز سے ،اور اس کے صحن کی نما ز بہتر ہے مسجد کی  نماز سے۔ (معجم الاوسط للطبرانی بحوالہ الترغیب والترہیب للمنذری ج ۱ص۱۳۵، امام منذری ؒ اس کی سند کو مضبوط کہتے ہیں)

 (۳)              یہی روایت مختلف الفاظ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ،ان کی روایت کے الفاظ یہ ہیں         ’’ عن عائشۃ قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ المرأۃ فی بیتہا خیر من صلاتہا فی حجرتہا وصلاتہا فی حجرتہا خیر من صلاتہا فی دارہا وصلاتہا فی دارہا خیرمن صلاتہا فی ماوراء ذلک ‘‘۔(التمہید لابن عبدالبر ج۲۳ص۴۰۱واسنادہ حسن بالشواہد )

(۴)              حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’قال رسول اللہ ﷺ :لاتمنعو ا نساء کم المساجد ،وبیوتہن خیر لہن ‘‘ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنی عورتوں کو مسجد میں آنے سے نہ روکو البتہ ان کے گھر ان کے لئے زیادہ بہتر ہیں۔(یعنی مسجدوں میں نماز پڑھنے کے مقابلے میں ان کے لئے گھر میں نماز پڑھنا زیادہ باعث ثواب ہے۔ (مستدرک الحاکم مع تلخیص للذہبی ؒج ۱ص۳۲۷رقم الحدیث ۷۵۵،امام حاکم ؒ اور امام ذہبی ؒ نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے)

 (۵)              اسی طرح ایک اور روایت میں ذکر ہے کہ’’ انہا لاتکون أقرب الی  اللہ منہا فی قعر بیتہا  ‘‘ آپﷺ نے فرمایا کہ عورت اللہ سے سب سے زیادہ اس وقت قریب ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر کے بالکل اندر ہوتی ہے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی ؒ،امام منذری ؒ اور امام ہیثمی ؒ فرماتے ہیں کہ اس کے رجال صحیحین کے رجال ہیں،الترغیب والترہیب ج۱ص۱۴۱،معجم الزوائد رقم الحدیث ۷۶۷۱ولفظہ )

 (۶)              ایک جگہ ارشاد ہے کہ ’’عن النبی ﷺ قال ان احب صلاۃ  تصلیہا المرأۃ الی اللہ فی اشد مکان فی بیتہا ظلمۃ ‘‘ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عورت کی  وہ نماز ہے جو تاریک تر کوٹھری میں ہو۔ (یعنی سب سے زیادہ پوشیدہ جگہ پر ہو۔  (صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث ۱۶۹۱، امام ابن خزیمہ ؒ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے،یہی روایت موقوفاً بھی مروی ہے۔ جس کے رجال کو امام ہیثمیؒ نے ثقہ کہا ہے۔امام زین الدین مناوی  ؒاس روایت کو حسن کہتے ہیں اور امام منذری ؒنے اس روایت پر سکوت اختیار کیا ہے۔جو کہ غیر مقلدین کے نزدیک روایت کے معتبر ہونے کی دلیل ہے۔ (معجم الزوائد رقم الحدیث ۲۱۱۵ ،التیسیر للمناوی ج ۲ص۳۵۲،،الترغیب والترہیب ج۱ص۱۳۶)

کچھ وضاحت :

              حضور پاک ْﷺ کے ارشادات عالیہ آپ کے سامنے ہیں جس سے صاف طور سے معلوم ہوتاہے کہ حضورﷺنے عورتوں کو اگرچہ مسجد میں آنے کی اجازت دی ہے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے گھر کے اندرونی حصے میں نماز اداکیا کریں کیونکہ  عورت کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے کہیں زیادہ افضل ہے ۔

              اسی بات کی حضور ﷺ نے عورتوں کے لئے مختلف مواقع پر ترغیب دی ہے۔ نیز کچھ اور صحیح حدیث آگے آرہی ہے جس سے عورتوں  کیلئے گھر میں  نماز پڑھنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ۔

              غرض حضور پاک ﷺ کی اس ترغیب کے خلاف آج فرقہ اہل حدیث غیرمقلدین عورتوں کو مسجد میں آنے کی ترغیب دے رہے ہیں،[11] جبکہ حضور ﷺ نے عام دنوں میں عورتوں کو خطاب کرکے کبھی یہ ترغیب نہیں دی کہ ’’تم لوگ مسجد میں آیا کرو‘‘۔

              اور یہ بھی جان لیا جائے کہ عورتوں کا مسجد میں آنا نہ تو فرض ہے نہ واجب اور نہ ہی سنت ،بلکہ اس کا حکم یہ ہے کہ وہ جائز ہے اور شرائط کے ساتھ۔جبکہ عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل اور پسندیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے کے مقابلے میں زیادہ ثواب کا ذریعہ ہے ،اور اسی بات کی ترغیب حضور پاک ﷺ نے دی ہے۔پر جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ غیر مقلدین فرقہ اہل حدیث حضور ﷺ کے منشاء کے خلاف عورتوں کو مسجد آنے کی ترغیب دے رہے ہیں اور اسے سنت بھی کہتے ہیں ۔

              ذرا غور فرمائیے ! اگر عورتوں کا جماعت میں حاضر ہونا سنت ہوتا تو حضور ﷺ کیوں فرماتے ہیں کہ عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا زیادہ افضل اور پسندیدہ ہے ،اور پھر غیر مقلدین کی یہ ترغیب سلف صالحین کے منہج کے بھی خلاف ہے ۔کیونکہ عورتوں کو مسجد میں نماز پڑنے کی ترغیب تو دور کی بات ہے ۔سلف نے تو عورتوںکو حضور ﷺ کی شریعت کی خلاف ورزی کی وجہ سے اپنے گھر ہی میں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔پھر غیر مقلدین کس منھ سے کہتے ہیں کہ ’’ہم سلف کے منہج کی اتباع کرتے ہیں ‘‘۔

              اب کچھ مزید احادیث ملاحظہ فرمائیے :

(۷)              حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’عن رسول اللہﷺ قال :صلاۃ المرأۃ وحدہا تفضل صلاتہا فی الجمیع خمساًوعشرین درجۃ‘‘ نبی ﷺ نے فرمایا کہ عورت کی (گھر میں ) اکیلے نماز مردوں کے ساتھ جماعت  کی نماز سے پچیس ۲۵ گنا فضیلت رکھتی ہے ۔(تاریخ ابونعیم ج۲ص۱۹)

              اس روایت کی سند حسن ہے ، جس کی تفصیل ص : ۱۵۴ موجود ہے ۔

              معلوم ہوا کہ جو خواتین مسجد کے بجائے گھر ہی میں نماز پڑھتی ہیں وہ مسجد میں جاکر نماز پڑھنے والی عورتوں سے ۲۵ گنا زیادہ فضیلت حاصل کررہی ہیں ۔

               اب ہر امتی سوچ لے کہ اس کے گھر والوں کو گھر میں نماز پڑھنے سے زیادہ ثواب ملتا ہے ؟یا مسجد میں جا  کر نماز پڑھنے سے ؟ حضور پاک ﷺ کی  حدیث کے مطابق  عورت کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا مسجد نبوی میں نماز پڑھنے سے افضل  ہے :

(۸)              حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ’’ انہا جاء ت النبی ﷺ فقالت :یا رسول اللہ انی أحب الصلا ۃ معک ،قال :’’قد علمت انک تحبین الصلاۃ معی ،وصلاتک فی بیتک خیر لک من صلاتک فی حجرتک وصلا تک فی حجرتک خیر من صلاتک فی دارک ،وصلاتک فی دارک خیر من صلاتک فی مسجد قومک ،وصلاتک فی مسجد قومک خیر من صلاتک فی مسجدی ‘‘لقیت اللہ عزوجل ‘‘ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا ،اے اللہ کے رسول !میں آپ کی اقتدا ء میں نماز پڑھنے خواہش رکھتی ہوں ،آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں جانتاہوں کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہو ،لیکن تمہارے گھر کی (اندرونی )کوٹھری کی نما زبڑے کمرے کی نماز سے بہتر ہے۔اور تیری بڑے کمرے کی نماز صحن کی نماز سے بہتر ہے ۔اور تیری صحن کی نماز محلے کی مسجد کی نماز سے بہتر ہے ۔اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد کی نماز سے بہتر ہے ۔

               اور سنیئے اسی حدیث میں موجود ہے کہ حدیث بیان لرنے والے راوی کا بیان ہے’’ قال فأمرت فبنی لہا مسجد فی اقصی شیء من بیتہا واظلمہ ،فکانت تصلی فیہ حتی ‘‘ کہ ام حمید رضی اللہ عنہا نے حضور ﷺ کے منشاء کو سمجھ کر انہوں نے اپنے گھر والوں کو گھر کے اندر مسجد بنانے کا حکم دیا ، چنانچہ گھر  کی تاریک تر کوٹھری میں ان کیلئے مسجد بنائی گئی اور وہ اسی میں نماز پڑھتی رہیں یہاں تک  کہ اللہ سے جاملیں ۔(مسند احمد رقم الحدیث ۲۷۰۹۰، امام ابن حجر ؒ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ،امام ہیثمی ؒ نے بھی اس روایت کی تصحیح کی ہے ،فتح الباری ج۲ص۳۴۹،،مجمع الزوائد رقم الحدیث ۲۱۰۶،امام ابن خزیمہ ؒ اور امام ابن حبان ؒ  نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے،صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث ۱۶۸۹،،صحیح ابن حبان رقم الحدیث ۲۲۱۷)

               مناسب معلوم ہوتاکہ ہم اپنی طرف سے کچھ کہے بغیر سلف کا فتوی نقل کردیں ۔

امام الائمہ امام ابن خزیمہ ؒ  ۳۱۱؁ھ) کا فتوی :

               امام ابن خزیمہ ؒ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ ’’ صلاتہا فی مسجد قومہا علی صلاتہا فی مسجد النبی ﷺ ‘‘ عورت کی محلے کی مسجد میں پڑھی گئی نماز مسجد نبوی میں پڑھی گئی نماز سے افضل ہے۔

               یہاں پر ایک علمی اشکا ل ہوتاہے کہ : دوسری احادیث میں آیا ہے کہ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں پڑھی جانے والی نماز تو عام مسجدوں کی نماز سے افضل ہے ۔تو اس سلسلے میں کون سی بات صحیح ہے ؟

               اللہ تعالی امام ابن خزیمہ ؒ کو جزائے خیر دے کہ خود امام صاحب ؒ نے اس کا جواب دیدیا ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ’’قول النبی ﷺ صلاۃ فی مسجدی ہذا افضل من الف صلاۃ فیما سواہ من المساجد ،اراد بہ صلاۃ الرجال دون صلاۃ النساء ‘‘ حضور ﷺ کا فرمان :’کہ میری مسجد (مسجد نبوی ) میں اداکی گئی نماز دیگر مساجد میں ادا کی گئی ہزاروں نمازوں سے افضل ہے ،اس فرمان سے آپ ﷺ کی مراد مردوں کی نماز ہے عورتوں کی نماز مراد نہیں ہے ۔(صحیح ابن خزیمہ ج۳ص۹۴)

غیر مقلد عالم شیخ محمد فاروق رفیع صاحب کا فتوی بھی ملاحظہ فرمائیں :

               اہل حدیث شیخ محمد فاروق رفیع صاحب فرماتے ہیں کہ عورت کیلئے گھر کے کسی بھی گوشے میں نماز پرھنا محلے کی مسجد اور مسجد نبوی  میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔اگرچہ مسجد نبوی نماز پڑھنے کا ثواب ۱۰۰۰ نماز کے برابر ہے ، لیکن عورت کا گھر پر نماز پڑھنا اس سے (مسجد نبوی سے ) زیادہ اجروثواب کا باعث ہے ،اس لئے عورتوں کو گھر پر نماز پڑھنی چاہیئے ۔(صحیح ابن خزیمہ مترجم ج ۳ص ۲۰۸)

وضاحت :

               یہ بات واضح ہوگئی کہ عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا مسجد نبوی میں نماز پرھنے سے افضل ہے ۔لہذا جب عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل  ہے اور زیادہ ثواب کا ذریعہ ہے تو خصوصاً آج کے پر فتن دور میں بغیر کسی شرعی ضرورت کے نماز کے لئے عورتیں مسجد میں کیوں جائیں ؟ جبکہ اس کا گھر ہی نما ز پڑھنا زیادہ افضل اور زیادہ ثواب کا ذریعہ ہے ۔

               اور یہ بھی یاد رہے کہ حضور ﷺ نے عیدین کے علاوہ عورتوں کو خطاب کرکے کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ وہ مسجد میں آکر نماز پڑھیں۔اور جو عیدین کے موقع پر آپ ﷺ نے حکم دیا ہے  اس کی تفصیل  اور آ پ ﷺ کے حکم  کا مقصد سلف صالحین کے ارشادات کی روشنی میں آئندہ مضامین میں آئیگا ان شاء اللہ۔

 معلوم ہوا کہ حضورﷺ نے عورتوں کو مخاطب کرکے کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ وہ مسجد آکرنماز پڑھیں ۔

               ان سب کے برعکس حضورﷺ نے ہمیشہ عورتوں کوخطاب کرکے فرمایا کہ تم اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھو، کیونکہ تمہارا اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے زیادہ افضل اور زیادہ ثواب کا ذریعہ ہے۔یہاں تک کہ حضورﷺ نے عورتوں کی گھر کی نماز  مسجد نبوی میں پڑھی جانے والی نماز سے افضل بتایا ہے ،جیساکہ احادیث اوپر گذر چکی ہیں ۔

               نیز مشہور سلفی عالم شیخ صالح بن عثیمین ؒنے یہاں تک فرما دیا  کہ عورت کی گھر کی نماز مسجد الحرام کی نماز سے بھی افضل ہے ۔

               ان کے الفاظ یہ ہیں : ’’سئل فضیلۃ الشیخ :عن امرأۃ تود حضور الصلاۃ  فی  المسجد الحرام ما دامت فی  مکۃ ،ولکنہا سمعت  ان صلاۃ المرأۃ فی بیتہا أفضل حتی فی المسجد الحرام  ،فہل یحصل لہا  عندماتصلی فی بیتہا من المضاعفۃ ما ٰیحصل عند ما تصلی  فی المسجد الحرام ؟ فأجاب فضیلتہ بقولہ :صلاۃ المرأۃ فی بیتہا افضل من صلاتہا فی المسجد الحرام ‘‘ ۔(مجموع الفتاوی لابن عثیمین ج۱۵ ص۱۲۴)

               لیجئے خود غیر مقلدین کے عالم فتوی دے رہے ہیں کہ عورت کی گھر کی نماز مسجد الحرام کی  نماز سے افضل ہے ۔

آخری روایت :

               ام حمید رضی اللہ عنہا کی ہی بعض روایت میں یہ الفاظ کی زیادتی ہے کہ آپ ؓنے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ’’عن أم حمید قالت : قلت یا رسول اللہ یمنعنا ازواجنا ان نصلی معک ونحب الصلاۃ معک فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :  صلا تکن فی حجرکن افضل من صلاتکن فی دورکن وصلاتکن فی دورکن افضل من صلا تکن فی الجماعۃ‘‘ اے اللہ کے رسول !ہمیں ہمارے شوہر آپ کے ساتھ نماز پڑھنے سے روکتے ہیں ،حالانکہ ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کی بہت چاہت رکھتے ہیں۔ رسول اللہ  ﷺ نے جواب میں فرمایا : تمہاری  اندرونی کوٹھری کی نما ز تمہارے کمرے کی نماز سے بہتر ہے اور تمہارے بڑے کمرے کی نماز تمہاری جماعت کی نماز سے افضل ہے۔(الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم رقم الحدیث، ۳۳۷۹)

               اس کی سند حسن ہے جس کی تفصیل ص : ۱۵۶ موجود ہے ۔

               غور فرمایئے !حضور ﷺ کے سامنے جب ام حمید رضی اللہ عنہا نے خواتین کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے شوہر ہمیں آپ کے ساتھ نماز پڑھنے روکتے ہیں ،تو آپ ﷺ نے بجائے ان کے شوہروں کو تنبیہ کرنے کے الٹا خواتین ہی سے خطاب کرکے فرماتے ہیں کہ تمہارا اپنے اپنے گھروں ہی میں نماز پڑھنا مسجد میں جما عت کے ساتھ نماز پڑھنے سے افضل اور بہتر ہے ۔اور پہلی روایت ہے کہ میرے ساتھ نماز پڑھنے سے افضل ہے۔

               اس حدیث سے معلوم ہواکہ صحابہ کرام رضی ا للہ عنہم کا خواتین کو مسجد میں آنے سے منع کرنا درست تھا ۔ کیونکہ حضور ﷺکے سامنے جب معاملہ آیا تو آپ ﷺ نے اس پر سکوت اختیا ر فرمایا جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام کا اپنی عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکنا درست تھا ۔

اہل حدیث علماء کا فتویٰ کہ عورتوں کا گھر میں نماز ادا کرنا  مسجد  میں ادا کرنے  سے بہتر ہے۔

 (۱)        اہل حدیث عالم شیخ محمد فاروق رفیع صاحب فرماتے ہیں کہ ’’عورت کا گھر میں رہنا اس کی عزت وناموس کیلئے بہتر ہے ۔کیونکہ عورت پردے دار چیز ہے ۔اور اس کے باہر نکلننے سے فتنہ و فساد کا اندیشہ ہے ۔اس لئے نماز کیلئے بھی مسجد نہ جا نا افضل ہے ‘‘۔(صحیح ابن خزیمہ مترجم ج ۳؍ص۲۰۶)

(۲)        اہل حدیث مفتی شیخ عبدالستار حماد صاحب کہتے ہیں کہ اگر انہیں باجماعت نماز پڑھنے کا شوق ہے تو معقول انتظام کے ساتھ میں حاضر ہوں اور وہاں جماعت میں شامل ہوسکتی ہیں ‘‘حدیث میں ہے کہ اللہ کی بندیوں کو مسجد سے نہ روکو ۔لیکن ان کا (عورتوں)کا گھر میں نماز ادا کرنا (مسجد ) سے بہتر ہے ۔(فتاوی اصحاب الحدیث ج ۲ص۱۳۵)

(۳)        شیخ صالح بن العثیمین بھی لکھتے ہیں کہ :مسجد میں نماز اداکرنے سے ان کا (عورتوں  کا)اپنے گھروں میں نماز ادا کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ گھر میں رہنے سے وہ کئی فتنوں سے محفوظ رہے گی۔ (فقہی احکام کتاب وسنت کی روشنی میں ج ۱ ص ۱۸۳)

(۴)        صادق سیالکوٹی صاحب اہل حدیث عالم بھی یہی کہتے ہیں کہ عورتوں کے لئے گھر کی نماز بہتر ہے ۔(صلا ۃ الرسول بتحقیق سندھی ص ۵۱۷)

(۵)        غیر مقلد مولانا محمود امان  میرپوری صاحب بھی لکھتے ہیں کہ ’’ویسے عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے ۔ (فتاوی صراط مستقیم ص۱۶۲ )

(۶)        اہل حدیث محقق عبد القادر حصاری صاحب تحریر کرتے ہیں کہ  : عورتوں کے لئے گھروں میں نماز پڑھنا ان تمام مسجدوں سے (مسجد الحرام ،مسجد نبوی ، مسجد اقصی ،جامع مسجد اور مسجد محلہ سے)افضل ہے اور اس کی علت یہ ہے کہ عورتوں کے لئے ستر اور مردوں سے اخفاء ضروری ہے ۔(فتاوی حصاریہ ج۳ص۶۵۴)

             اتنے صاف اور صریح ارشادات کے ہوتے ہوئے ۔آج کے فتنوں کے دور میں بلا کسی شرعی ضرورت کے ،صحابہ کرام کے منع کرنے باوجود بھی ، اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ عورتوں کو مسجد میں جا کر نما زپڑھنا چاہیئے تو اپنے دل سے پوچھئے کہ سلف صالحین کے منہج اور حضورﷺ کے منشاء کے مطابق کر رہا ہے یا مخالف ؟

 نوٹ:

             نماز میں رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع الیدین کو افضل واعلی ثابت کرنے کے لئے کئی کتابیں اہل حدیث حضرات نے تصنیف کی ہیں ،لیکن اگر نماز میں رفع الیدین نہ کیا جائے تو بھی غیر مقلدین کے نزدیک نماز کی صحت میں کوئی فرق نہیں آتا ۔(فتاوی علمائے حدیث ج ۳ص ۱۵۴) لیکن غیر مقلدین دن رات کہتے ہیں کہ رفع الیدین کرنا افضل ہے ،اس میں ثواب بھی ہے اور سنت بھی ہے ،لہذا رفع الیدین کرنا چاہیئے ۔ یہاں  یہ فرقہ فرع الیدین میں ثواب  کی بات کرتاہے ۔حالانکہ نہ کرنا بھی ان کے نزدیک  مروی  ہے۔  (فتاوی نذیریہ ج۱  ص ۴۴۴) اور نہ کرنے سے ان کے نزدیک نما زکی صحت میں کوئی فرق نہیں آتا ،جیسا کہ حوالہ گذر چکا ۔

             لیکن اہل حدیث حضرات عورتوں کے مسجد آنے کے مسئلے میں خوشی خوشی اپنے اصول بھول جاتے ہیں اور بیچاری عوام کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ عورتوں کو مسجد میں آکر نماز پڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں(دیکھئے ایڈوکیٹ فیض کا ویڈیو :عورت کے مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کے آداب )جبکہ خود ان کے نزدیک بھی گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل اور زیادہ ثواب کا ذریعہ ہے ۔

             یہاں اپنے افضل اور ثواب والی بات جو وہ رفع الیدین وغیرہ مسائل میں کہتے تھے بھول جاتے ہیں ۔یہ دوغلی پالیسی آخر کیوں ؟

             اسی طرح اگر نماز میں آمین آہستہ کہی جائے تو اہل حدیث حضرات کے نزدیک نماز جائز ہوجاتی ہے۔اور اس طرح کے مسائل میں محدثین کا اول اور غیراولی کا اختلاف ہے ۔ (فتاوی نذیریہ ج ۱ص۴۴۸،حدیث اور اہل حدیث ج ۲ص۶۳۵) لیکن پھر بھی اہل حدیث حضرات نماز میں زور سے آمین کہتے ہیں اور اسی کا اپنی مسجدوں میں بھی اہتمام کرتے ہیں،کیونکہ ان کے نزدیک افضل زور سے آمین کہنا ہے ۔پر یہی زیاد ہ ثواب اور افضل والی  با ت فرقہ اہل حدیث کے لوگ کیوں عورت کے مسجد میں آنے کے مسئلے میں بھول جاتے ہیں؟اس مسئلے میں کیوں ترغیب دیتے ہیں کہ عورت مسجد میں آکر نماز پڑھے ؟                                                                                                                                       

             کم سے کم اپنے دعوے کے مطابق سلف کی طرح وہ بھی عورتوں کو گھر میں نماز پڑھنے کو کہہ سکتے ؟یا کم از کم مسجد میں آکر نماز پڑھنے سے روکے بغیر عورتوں کو اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی تاکید اور اس کی ترغیب اہل حدیث حضرات دے سکتے تھے ۔

             لیکن ان کے ایسا نہ کرنے کی وجہ سے کبھی خیال آتا ہے کہ کیا  اہلحدیث حضرات احناف کی مخالفت میں عورتوں کو مسجد میں آنے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔۔۔۔اللہ ہماری غلطیوں کو معاف فرمائے !آمین!!

ایک اعتراض اور اس کا جواب :

             بعض نادان کم علم اور کم سمجھ والے اہل حدیث یہ اعتراض کرتے ہیں کہ عورتیں مال (mall) ،بازار ،مدرسہ، اسکول  (جہاں پر co education بھی ہوتے ہیں ) درگاہ وغیرہ جاتی ہیں تو وہاں کوئی اعتراض نہیں کرتا ،کوئی انہیں نہیں روکتا کوئی ان پرفتوی نہیں لگاتا  کہ یہ ناجائز ہے ،وہاں ان کوئی فتنہ نظر نہیں آتا ۔

             لیکن سب کو فتنہ مسجد میں کیوں نظر آتا ہے ؟کیا سارے غنڈے موالی فتنہ پرور لوگ مسجد ہی میں موجود ہیں ؟ بازار میں نہیں ہیں کیوں لوگ عورتوں کو صرف مسجد میں آنے سے منع کرتے ہیں ؟

الجواب :

             عورتوں کو مسجد میں آکر نماز پڑھنے سے اس لئے منع  بھی کیا جاتا ہے ،کیونکہ وہ  گھر میں بھی نماز پڑھ سکتی ہیں ان کے لئے گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل بھی ہے ۔

             لیکن عورت کو مدرسہ، اسکول وغیرہ میں جانے کی اجازت اس لئے ہے کہ گھر میں بیٹھ کر دینی یا دنیاوی علم حاصل نہیں کر سکتی  اس ضرورت کی بنا ء پر اسے مدرسے یا اسکول جانے کی اجازت ہے ۔لیکن شرط یہ ہے کہ لڑکیوں کے لئے تعلیم کا نظم الگ ہو ۔

             ہمیشہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ  ،جو کا م عورت اپنے گھر میں  کر سکتی ہے مثلاً نماز ،گھریلو کام ،کھانا پکانا ،کپڑے دھونا ،وغیرہ وغیرہ ،تو ایسے کام جن کووہ  گھر میں کرسکتی ہے ،گھر میں انجام دے سکتی ہے ویسے کا م کے لئے اس کا باہر جانا منع ہے ۔لیکن کوئی ایسا کام یا  ایسی ضرورت ہے جسکو وہ گھر میں نہیں کر سکتی تو ان کاموں میں اس کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہے ،جیسا کہ میڈکل چیک اپ ہو یا بازار یا مال یا سپر مارکیٹ میں گھر کی ضروریات ہو اور اس وقت میں کوئی مرد گھر پر نہ ہو تو ایسے وقت میں عورت کو گھر سے باہر جانے کی اجازت ہے ۔رہا درگاہ یا مزار  پر عورتوں کا جانا ،تو اس سے علماء صاف طور سے منع کرتے ہیں ۔[12]

             لہذا ایسا اعتراض کرنے والے حضرات سے گزارش ہے کہ اس طرح کے اعتراضات کرکے آپ اپنی کم علمی اور جہالت کا ثبوت نہ دیں ۔  



[1]  جس راوی سے دو یا دو سے زیادہ راوی روایت کریں تو راوی وہ مجہول نہیں بلکہ مقبول ہوتا ہے۔ دیکھئے الاجماع شمارہ نمبر ۱ : ص ۴۴

[2]  نوٹ:    امام ابو حاتمؒ کہتے ہیں کہ موسیٰ بن یسارؒ نے ابوہریرہ کو نہیں پایا، یعنی روایت مرسل ہے۔لیکن امام علائیؒ ۷۶۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ : ’’ذاک سمع من ابی ھریرۃؓ‘‘ انہوں نے ابوہریرہؓ سے سنا ہے۔   (جامع التحصیل فی احکام المراسیل: ص۲۸۹) امام منذریؒ بھی ان کی  ابو ہریرہ ؓ سے روایت کو متصل کہتے ہیں۔  (الترغیب و الترھیب: ص۶۰ج۳)  لہٰذا صحیح یہ ہے کہ یہ روایت متصل ہے۔

[3] واضح رہے کہ  روایت میں ’تفلات‘ کا  لفظ   ہیں جو کہ ت-ف-ل سے  ہے۔اور جس کے معنی علماء نے کپڑوں سے بری بُوآنا  بتایا ہیں۔دیکھئے  (الفائق فی غریب الحدیث : ج۱: ص ۱۵۱، مجمع بحار الانوار:ج۱: ص ۲۶۵) مشہور اہل حدیث عالم مولانا وحید الزماں صاحب نے بھی یہی معنی بتایا ہے۔(لغات الحدیث عربی اردو: ص ۱۶) بعض علماء نے اس حدیث میں موجودلفظ ’تفلات‘ کے معنی یہ بیان فرمائے ہیں کہ اس سے مراد عورت کا بغیر خوشبو لگائی ہوئی حالت ہے، لیکن زیادہ راجح بات یہی ہے کہ اس سے مراد عورت کی وہ حالت ہے ، جس میں اس کے کپڑوں سے بُو آرہی ہو، کیونکہ ایک دوسری حدیث میں الفاظ ہیں کہ ’لیخرجن تفلات علیھن خلقان شعثات بغیر دھن‘  کے عورتیں نکلیں (جبکہ ) ان کے کپڑوں سے بو آرہی ہو، ان پر ان کے پرانے کپڑے ہوں، اور انہوں نے بالوں کو تیل بھی نہ لگایا ہو۔(مصنف عبد الرزاق : حدیث نمبر ۵۱۰۸)،اس کی سند میں لیث بن ابی سلیم ؒ (م۱۴۸؁ھ) ہیں، جن کے بارے میں وکیل سلفیت ، رئیس احمد ندوی سلفی صاحب لکھتے ہیں کہ لیث بن ابی سلیم کی متعدد ائمہ کرام نے توثیق کی ہے اور متعدد نے تجریح کی ہے، اس لئے وہ حسن ہے ۔ (سلفی تحقیقی جائزہ : صفحہ ۲۳۶)

 

[4] اس روایت کے حسن ہونے کی تفصیل ص : ۱۵۸ پر موجود ہے۔

[5]  امام سیوطیؒ کے الفاظ یہ ہیں:

                  ’’قال النووی: ھذا نھی تنزیہ اذا کانت المرأۃ ذات زوج، او سید بشروط ذکرھا العلماء مأخوذۃ من الاحادیث وھی ان لا تکون متطیبۃ، ولا متزینۃ، ولا ذات خلاخل یسمع صوتھا ، ولا ثیاب فاخرۃ ولا مختلطۃ بالرجال ولا شابۃ ونحوھا ممن یفتن بھا۔‘‘  (شرح مسلم للسیوطی:ص۱۵۶ج۲)

[6] امام ابن عدیؒ نے ان سے روایت کی ہے اور ان  کی تضعیف نہیں کی ۔جو کہ غیر مقلدین کے نزدیک اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابن عدیؒ کی نظر میں یہ راوی ثقہ ہیں۔ (انوار البدر : ص ۲۲۵) معلوم ہوا  کہ یہ راوی ابن عدی ؒ کے نزدیک بھی ثقہ ہیں

[7] امام مسلمہ ؒ فرماتے ہیں کہ : ’’انفرد باحادیث انکرت علیہ لم یأت بھا غیرہ۔‘‘ احمد بن عیسیٰ المقری بعض احادیث میں منفرد ہےجس کی وجہ سے ان احادیث کو منکر قرار دیا گیا (کیوں کہ) دوسرے لوگوں نے اسن جیسی روایت کو ذکر نہیں کیا ہے۔یہ جرح خود اہل حدیث حضرات کے اصول کی روشنی میں مردود ہے۔کیونکہ

اول تو اس کا جارح نا معلوم ہے۔ (مقالات علی زئی)

دوم محض روایت میں اکیلے ہونے سے راوی کا ضعف ثابت نہیں ہوتا۔

سوم اہل حدیثوں کے نزدیک  منکر روایت نقل کرنے سے کسی راوی کا ضعف ثابت نہیں ہوتا ، جیسا کہ کفایت اللہ سنابلیؒ کہتے ہیں:  (مسنون تراویح: ص۲۳؍۲۴)          لہٰذا یہ عبارت ’’جرح‘‘ ہی نہیں۔

[8] یہ بھی یاد رہے کہ غیر مقلدین کے نزدیک ’’جرح‘‘ غیر مفسر مردود ہے، اس کے مقابلہ میں تعدیل مقدم ہے۔ چنانچہ اہلِ حدیث عالم ابو شعیب داؤد ارشاد صاحب لکھتے ہیں ہیں کہ ’’جرح غیر مفسر‘‘ کی بالمقابل بالمشابہ (یعنی جرح غیر مفسرکے مقابلے میں) تعدیل معتبر ہے۔  (دین الحق:ج ۱ص۶۷) جلال الدین قاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ جرح مبہم کے مقابلے میں تعدیل مقبول ہے۔  (احسن الجدال: ص۹۲)

              اور صرف کسی راوی کوضعیف کہنا، یہ خود اہل حدیثوں کے نزدیک ’’جرح غیر مفسر‘‘ ہے، دیکھئے (تعدادِ قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ: ص۴۳، انوار المصابیح: ص۱۰۷)

              لہٰذا اگر کسی غیر مقلد نے احمد بن عیسیٰ المقریؒ کو ضعیف کہا بھی ہے تو وہ جرح مبہم ہونے کی وجہ سے خود اہل حدیثوں کے نزدیک مردود ہے، اور گزارش ہے کہ احمد بن عیسیٰ کے تعلق سے جرح مفسر پیش کی جائے، ورنہ تسلیم کریں کہ یہ راوی حسن درجے کے ہیں، جیسا کہ تفصیل اوپر گذر چکی۔

[9]  محمد بن المجبرؒ پر ’’جرح‘‘ کا جواب:

محمد بن عبدالرحمن بن المجبرؒ پر جتنے جرح موجود ہیں، وہ سب کے سب جرح غیر مفسر اور مبہم ہیں۔

ابن معینؒ کی طرف منسوب حرح:

ابن معینؒ فرماتے ہیں کہ : ’’لیس بشئی‘‘ ان کا کوئی مقام نہیں۔ الجواب: ابن معینؒ کا کسی راوی کو لیس بشئی کہنا یہ غیر مقلدین کے نزدیک حرح ہی نہیں ہے، جیسا کہ کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں۔  (مسنون تراویح:ص ۲۲)  جب یہ جرح ہی نہیں تو پھر اس سے راوی کا ضعیف ہونا کیسے ثابت ہوگا؟

امام نسائیؒ امام فلاسؒ وغیر ہ کی جرح:

امام نسائیؒ فرماتے ہیں کہ ابن مجبرؒ متروک ہیں۔ امام فلاسؒ کہتے ہیں کہ ضعیف ہیں۔

الجواب: پہلے بات آچکی ہے کہ خود غیر مقلدین کے نزدیک جرح غیر مفسر مردود ہے۔ اور کسی راوی کو صرف متروک یا ضعیف کہنا اہل حدیثوں کے نزدیک ہی جرح مباح ہے۔ زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ صرف ضعیف متروک یا منکر الحدیث کہہ دینا جرح مفسر نہیں ہے۔  (تعداد رکعات قیامِ رمضان:ص۴۳) اور جرح غیر مفسر کے بارے میں غیر مقلدوں کے شیخ الاسلام ابوالقاسم بنارسی صاحب لکھتے ہیں کہ جو جرح غیر مفسرہو وہ مقبول نہیں، اس پر تعدیل مقدم ہوگی۔ (دفاعِ صحیح بخاری:ص۱۵۱) اہل حدیث عالم ابو شعیب داؤد ارشد صاحب بھی یہی کہتے ہیں کہ جرح مفسر پر تعدیل مقدم ہے۔  (دین الحق:ص۶۷ج۱) جلال الدین قاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ جرح مبہم کے مقابلے میں تعدیل مقبول ہوگی۔  (احسن الجدال :ص۹۲)

              تو پھر یہ سب جرح بھی توثیق کے مقابلے میں خود اہلِ حدیثوں کے اصول کے مطابق مردود ہے۔

امام بخاریؒ کی جرح کا جواب:

امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی۔

الجواب: یہ جرح بھی اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں مردود ہے۔ رفع الیدین کی روایت کے ایک راوی پر امام ابن ابی حاتمؒ نے جرح کی جس کا جواب دیتے ہوئے  زبیر علی زئی صاحب نے کہا کہ ابو حاتم کا قول ’’اس میں کلام کیا گیا ‘‘ کئی لحاظ سے مردود ہے۔

اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

              (۱)         یہ جرح غیر مفسر ہے۔

              (۲)         اس کا جارح نا معلوم ہے، (یعنی کسنے کلام کیا ہے، اس کا ذکر نہیں ہے) ۔     (نور العینین :ص۱۲۱)

زبیر علی زئی صاحب کے جواب کی روشنی میں امام بخاریؒ کی یہ جرح کہ: ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے‘‘ کا جواب بھی سن لیں:

              (۱)         یہ جرح غیر مفسر ہے، کیونکہ کس وجہ سے خاموشی اختیار کی گئی ، اس کا ذکر نہیں ہے۔

              (۲)         اس کا جارح نامعلوم ہے  ( یعنی کس نے خاموشی اختیار کی اس کا بھی اتا پتہ نہیں۔)

              الغرض یہ جرح بھی غیر مقلدوں کے اپنے اصولوں کی روشنی میں مردود ہے۔

              اور ثابت ہوا( خصوصاً اہل حدیث حضرات کے اصول کی روشنی میں ) کہ محمد بن المجبرؒ ثقہ ہیں ، اور ان پر کوئی جرح غیر مفسر نہیں ہے ، جن سے ان کا ضعیف ہونا ثابت ہوتا ہو۔

 

[10]  اس روایت کے حسن ہونے کی تفصیل ص : ۱۵۸  پر موجود ہے۔

[11] دیکھئے  فیض سید کا  ویڈیو : عورت باجماعت مسجد جاکر نماز پڑسکتی ہے یا نہیں ؟

https://www.youtube.com/watch?v=F2M05O__XRk&feature=youtu.be

[12] تفصیل کے لئے دیکھئے : آپ کے مسائل اور ان کا حل : ج ۸ : ص۳۵،۹۲، فتاوی دار العلوم دیوبند : ج ۱۳ : ص ۲۸۳۔نیز  انٹرنیٹ پر دار الافتاء دیوبند : ارود: فتاوی نمبر ۳۶۴۹۷ بھی دیکھ سکتے ہے۔


ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

 سکین کیلئے 
الاجماع (PDF ) دیکھیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...