مسئلہ نمبر ۱ : (وضو میں صرف چار فرائض ہیں)
مولانا نذیر الدین قاسمی
دلیل نمبر ۱:
یاأیہا الذین آمنوا
اذا قمتم الی الصلاۃ فاغسلو ا وجوہکم وأیدیکم الی المرافق وامسحوا برء وسکم
وأرجلکم الی الکعبین ۔
ترجمہ :
اے ایمان والو! جب تم نماز
کے لئے اٹھو تو( پہلے )اپنے چہرے دھو لو اور اپنے بازؤں
کوکہنیوں تک اور اپنے سروں پر مسح کرو اور پائوں کو ٹخنوں
تک دھولو ۔(سورہ مائدہ :۶)
اس
آیت میں اللہ تعالی نے چار باتیں ذکر کی ہیں ،حضور ﷺ اور فقہا ء کے ارشادات کے مطابق
یہ ہی باتیں فرض ہیں اور ان کے بغیر نہ وضوہوتا ہے نہ نماز ۔
دلیل نمبر ۲: (سورہ مائدہ کی تفسیر حضور
ﷺ سے )
امام
ابو داؤد ؒ (م ۲۷۶)
فرماتے ہیں کہ:
حدثنا الحسن بن علی ،حدثنا ھشام بن عبد الملک
،والحجاج بن منہال قالا :حدثنا ھمام ،حدثنا اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحۃ ،عن علی
بن یحی بن خلاد ،عن أبیہ عن عمہ رفاعۃ بن رافع بمعناہ قال رسول اللہ ﷺ :انہا لا
تتم صلاۃ احدکم حتی یسبغ الوضوء ،کما أمرہ اللہ عز وجل ،فیغسل وجہہ ویدیہ الی
المرفقین ویمسح برأسہ ورجلیہ الی الکعبین
حضرت
رفاعہ بن رافع سے مروی ہے کہ وہ نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔آپ ﷺ نے فرمایا : کسی
کی نماز اس وقت تک پوری نہیں ہو تی جب تک کہ وہ اچھی طرح وضو نہ کرے ،جیسا کہ اللہ
نے وضو کا حکم دیا ہے کہ اپنے چہرے کو دھوئے ،دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھوئے ،اپنے سر
کا مسح کرے اور دونوں پائوں ٹخنوں سمیت دھوئے ۔ (سننابوداؤد :حدیث نمبر ۸۵۸،امام
حاکم ؒ امام ذہبی ؒ ،امام نووی ؒ اور امام ابن الجارود ؒ نے صحیح اور امام ابو علی
الطوسی ؒ ،امام بزارؒ نے حسن کہا ہے۔مستدرک
الحاکم مع تلخیص للذہبی ج :۱ص:۳۵۷،حدیث نمبر۸۸۴،خلاصۃ الاحکام ج :۱ص:۴۰۶،المنتقی لابن الجارودی حدیث
نمبر۱۹۴،ضرب
حق شمارہ :۱۴ص
:۳۱،شمارہ
نمبر ۱۵ص
:۱۱،مسند
بزار ج:۹ص:
۱۸۰،مستخرج
الطوسی ج:۲ص:۱۷۸)
وضاحت : اس
حدیث میں وضو سے متعلق چار باتیں ذکر کی گئی ہیں ۔
۱۔چہرہ
دھونا
۲۔ہاتھوں
اور
۳۔پاؤں
کادھونا
۴۔مسح
کرنا
اہم نکتہ :
یہ چار باتیں فرائض وضو ہیں
اور حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایسے وضو کے بغیر
نماز نہیں ہوتی اور پھر سورہ مائدہ کی آیات کی طرف اشارہ فرمایا اور صرف چار ارکان وضو ذکر
کئے ہیں ۔معلوم ہوا کہ چار ہی ارکان وضو میں فرض ہیں اور انہی چار چیزوں کو اللہ نے
کلام پاک میں ذکر فرمایا ہے ۔ان کے علاوہ اللہ نے نہ پانچواں رکن ذکر کیا ہے اور نہ
اس آیت کی تفسیر میں حضور ﷺ نے کچھ اور ذکر فرمایا ہے ۔
لہذا یہ چار ہی ارکان فرض
ہیں ان کے علاوہ باقی سب سنت ،مستحب وغیرہ ہوں گے ۔
اب
فقہاء کرام اور ائمہ سلف کے استدلالت ملاحظہ فرمائیں :
(۱) مشہور
فقیہ امام ابوالحسن برہان الدین مرغینانی ؒ(م۵۹۳ھ) [صدوق،حافظ،فقیہ][1]
فرماتے ہیں کہ ’’ قال اللہ تعالی [یاأیہا الذین آمنوا
اذا قمتم الی الصلاۃ فاغسلو اوجوہکم ]الآیۃ
ففرض الطہارۃ غسل الاعضاء الثلاثۃ ومسح الرأس ‘‘
اس آ یت کی وجہ سے وضو میں تین اعضا ء کا دھونا اور سر کا مسح کرنا فرض ہے ۔(الہدایہ
: ج:۱ص
: ۹۲،۹۳، درسی
نسخہ: اولین
: ص ۱۷)
(۲) امام
ابو بکر جصاص رازی ؒ (م ۳۷۰ھ) [ثقہ،امام،مجتہد][2]
فرماتے ہیں کہ ’’قولہ
تعالی فاغسلوا وجوہکم یقتضی جواز الصلاۃ بوجود الغسل سواء قارنتہ النیۃ اولم
تقارنہ لأن الغسل اسم شرعی فہوم المعنی فی اللغۃ وہو امرار الماء علی الموضع ولیس
ہو عبارۃ عن النیۃ ‘‘یہ آ یت بغیر نیت کے صرف (اعضاء کے)دھو
نے سے نماز کے جائز ہونے کا تقاضا کرتی ہے ،اس لئے کہ دھونا لغت میں ایک شرعی مفہوم
کا نام ہے ،اور وہ پانی کا گذارنا ہے دھونے کی جگہ سے ۔اور دھونا نیت کا نام نہیں ہے۔
(احکام القرآن ج :۳ص
۳۳۵)
(۳)
امام قدوری ؒ (م ۴۲۸ھ) [ثقہ،ثبت،امام][3]
اور
(۴) امام ابو الحسن کرخی ؒ (م ۳۴۰ھ) [ثقہ،فاضل،مجتہد][4] نے بھی اسی آیت سے انہیں چار ارکان وضو کو فرض قرار دیا ہے ۔(مختصر القدوری ص: ۲،۳ [ درسی نسخہ ]،شرح مختصر الکرخی للامام قدوری ج :۱ ص : ۱۱۸)
[1] فقیہ علامہ علی بن
ابو بکر برہان الدین المرغینانی ؒ (م ۵۹۳ھ) کو امام ذہبی ؒ ’العَلاَّمَةُ، عَالِمُ مَا
وَرَاءَ النَّهْرِ، شيخ الحنفيَّة، شيخ الإِسْلَام ‘ کہتے
ہیں۔غیر مقلد کے معتمد علامہ لکھنوی ؒ صاحب ہدایہ کو’كان إماما فقيها، حافظا،
محدثا، مفسرا، جامعا للعلوم، ضابطا للفنون، متقنا، محققا، نظارا، مدققا، زاهدا،
ورعا، فاضلا، ماهرا، أصوليا، أديبا، شاعرا، لم تر العيون مثله، في العلم والأدب.
وله اليد الباسطة في الخلاف، والباع الممتد في المذهب ‘۔
دیگر
محدثین نے بھی امام برہان الدین
المرغینانی کی توثیق کی ہیں۔مثلا وصفه ألامام
صلاح الدين الصفدي بقوله " الإِمَام، شيخ الْحَنَفِيَّة۔ قال ابن الهمام :
(هو) الامَامِ ، الْعَلَّامَة ، شَيْخِ الْإِسْلَامِ, قال الحافظ عبد القادر
القرشي : (هو) شيخ الْإِسْلَام برهَان الدّين المارغياني الْعَلامَة الْمُحَقق
صَاحب الْهِدَايَة, قال ايضا في مقام اخر : (هو)
الإِمَام ، الْجَلِيل، الشيخ۔(سير
أعلام النبلاء : ج 21 : ص 232, ج 23 : ص 113, الوافي بالوفيات : ج 20 : ص 165,
الفوائد البهية : ص , فتح القدير : ج 1 :
ص 8, الجواهر المضية : ج 1 : ص 383, 4, ج 2 : ص 46)
[2] حافظ الذہبی
ؒ کہتے ہیں کہ ’’الإِمَامُ، العَلاَّمَةُ،
المُفْتِي، المُجْتَهِدُ، عَلَمُ العِرَاقِ،وكَانَ صَاحِبَ حَدِيْثٍ وَرحْلَةٍ،
وَصَنَّفَ وَجَمَعَ وَتَخَرَّجَ بِهِ الأَصحَابُ بِبَغْدَادَ، وَإِلَيْهِ
المُنْتَهَى فِي مَعْرِفَةِ المَذْهَبِ وَكَانَ مَعَ برَاعَتِهِ فِي العِلْمِ ذَا
زُهْدٍ وَتعَبُّدٍ، عُرِضَ عَلَيْهِ قَضَاءُ القُضَاةِ فَامْتَنَعَ مِنْهُ،
وَيَحْتَجُّ فِي كُتُبِهِ بِالأَحَادِيثِ المتَّصِلَةِ بأَسَانيدِهِ‘‘۔(سير
أعلام النبلاء : ج۱۶ : ص ۳۴۲،کتاب الثقات للقاسم : ج۱ : ص ۴۳۵)
[3] امام خطیب البغدادی ؒ، حافظ سمعانی ؒ اور امام قاسم بن قطلوبغاؒ نے آپؒ کو
صدوق کہا ہے ، امام قاسم بن قطلوبغاؒ نے آپ کو ثقات میں شمار فرمایا ہے ، امام
ذہبیؒ شیخ الحنفیہ ، فقیہ عراق کہتے ہیں۔ (تاریخ بغداد :جلد۵ : صفحہ
۱۴۰-۱۴۱، الانساب للسمعانی : ج ۱۰ : ص ۳۵۲، تاج التراجم:صفحہ ۹۸، کتاب الثقات للقاسم :جلد ۱
:صفحہ ۴۶۹، تذکرۃ الحفاظ :جلد ۳:صفحہ۱۹۱) ۔حافظ ابن کثیر ؒ
نے آپ کو امام ،عالم، مضبوط ،مناظر اور ماہر قرار دیاہے ۔ (البدایہ والنہایہ
ج:۱۲ص:۲۴)، حافظ ابو اسحٰق الشیرازی ؒ (م ۴۷۶ھ) نے آپ کو طبقات
الفقہاء میں شمار کیا ہے ۔(طبقات الفقہاء
: للشیرازی ص:۱۲۴) دیگر کی رائے یہ ہیں : قال الامام أبو
عبد الله الصَّيْمَرِيّ : أبو الحسين البغدادي المعروف بالقدوري إمام أصحاب أبي حنيفة في
عصرنا يعظمه ويفضله على كل أحد. قال الذهبي : (هو) الفقيه، الامام، شيخ
الحنفية, وقال الإمام ابن تغري بردي : (هو) الإمام العلّامة أحمد بن محمد أبو الحسين الحنفىّ الفقيه
البغدادى المشهور بالقدورىّ- قال أبو بكر
الخطيب: لم يحدّث إلّا شيئا يسيرا؛ كتبت عنه، وكان صدوقا، انتهت إليه
بالعراق رياسة أصحاب أبى حنيفة، وعظم [عندهم] قدره وارتفع جاهه، وكان حسن العبارة
فى النظر، جرىء اللسان مديما للتلاوة. قلت: والفضل ما شهدت به الأعداء، ولولا أنّ
شأن هذا الرجل كان قد تجاوز الحدّ فى العلم والزّهد ما سلم من لسان الخطيب، بل
مدحه مع عظم تعصّبه على السادة الحنفية وغيرهم؛ فإنّ عادته ثلم أعراض العلماء
والزّهّاد بالأقوال الواهية، والروايات المنقطعة، حتّى أشحن تاريخه من هذه
القبائح. (سير أعلام النبلاء : ج 17 : ص 574,
تاريخ الإسلام : ج 9 : ص 434, البداية والنهاية : ج 12 :ص 24, النجوم الزاهرة : ج
5 : ص 24, كتاب الثقات : ج 1 : ص 469)
[4] امام ذہبیؒ آپ کو الفَقِيْهُ الشَّيْخُ، الإِمَامُ، الزَّاهِدُ، مُفْتِي
العِرَاق، شَيْخُ الخنفيَّة کہتے ہیں۔ایک جگہ
تحریر کرتے ہیں کہ ’’ كَانَ مِنَ العُلَمَاءِ العُبَّاد ذَا تهجُّد وَأَورَاد
وَتَأَلُّه،وَصَبْرٍ عَلَى الفَقْرِ وَالحَاجَة، وَزُهدٍ تَامٍّ، وَوقْعٍ فِي
النُّفُوْس, كان علامة كبير الشأن، أديبا بارعا , وكان عظيم العبادة والصلاة
والصوم، صبورا عَلَى الفقر والحاجة‘‘۔(سیر:ج۱۵: ص ۴۲۶،تاریخ الاسلام : ج ۷ : ص ۷۴۲) حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ
أبو
الحسن الفقيه الحنفي المشهور. كان
دَيِّنا خيرا فاضلا۔(لسان المیزان : ج۵ : ص ۳۲۱)
دوسروں کی رائے درج ذیل ہیں : قال أبو الحسن الهمذاني : (هو) امام الصحاب ابي حنيفَة,و ذكره
الإمام أبي إسحاق الشيرازي في طبقات الفقهاء وقال انتهت رياسة العلم في أصحاب أبي
حنيفة، وكان ورعاً. وقال ابن تغري بردي : كان علّامة كبير الشأن فقيها أديبا بارعا
عارفا بالأصول والفروع، انتهت إليه رياسة السادة الحنفيّة في زمانه وانتشرت
تلامذته في البلاد؛ وكان عظيم العبادة كثير الصلاة والصوم صبورا على الفقر والحاجة
ورعا زاهدا صاحب جلالة۔(تكملة تاريخ الطبري: ص 165 ,
طبقات الفقهاء : ص 142 , النجوم الزاهرة : ج 3 :
ص 306)
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں