غیر عالم کے مطالبہ دلیل کا کیا فائدہ ؟
اگر کوئی غیر عالم کسی اجتہادی مسئلہ میں عالم سے دلیل کا مطالبہ کرتا ہے تو یہاں دو صورتحال ہو سکتی ہیں۔
1۔ سماع دلیل
2۔ معرفت دلیل
سماع دلیل کا مطلب یہ ہے کے غیر عالم نے دلیل صرف سن لی۔ اب اسکو یہ علم نہیں کے قرآن/حدیث کا ترجمہ صحیح کیا گیا یا نہیں اگر حدیث پیش کی گئی تو آیا وہ حدیث صحیح ہے، ضعیف ہے یا من گھڑت اور اگر صحیح ہے تو اسکے معارض دیگر احادیث موجود ہیں کے نہیں ناسخ منسوخ ، راجح مرجوح کا اسے کوئی پتا نہیں بس سن لی اور قبول کر لی۔
اور معرفت دلیل کا مطلب یہ ہے کے اسکو دلیل مکمل سمجھ آگئی ترجمہ اسکو آتا ہے تصحیح و تضعیف کا اسکو علم ہے ناسخ منسوخ راجح مرجوح کی اسے معرفت ہے۔
اب یہاں غیرمقلدین سے ہمارا سوال ہے کے غیر عالم کا صرف سماع دلیل کافی ہے یا اسے معرفت دلیل ہونا بھی ضروری ہے ؟
اگر آپ کہتے ہیں کے صرف سماع دلیل کافی ہے معرفت کی ضرورت نہیں تو یہی بات تو تقلید کی تعریف میں داخل ہے۔
"دلیل کی معرفت حاصل کئے بغیر کسی کے قول پر عمل پیرا ہونا"
(التعریفات 86)
لہذا اس تعریف کے تحت تو آپ بھی مقلد ہوئے۔
اور اگر آپ کہتے ہیں کے معرفت دلیل ہونا لازم ہے صرف سن لینے کا کیا فایدہ دلیل تو شیعہ اور قادیانی بھی دیتے ہیں صرف دلیل کا ہونا ضروری نہیں اسکی معرفت لازم ہے۔
تو اس لحاظ سے آپ غیر عالم تو نہ ہوئے آپ تو مجتہد ہو گئے۔ ؟
جیسا کہ بدیع الدین راشدی صاحب نے مذاہب اربعہ میں کسی ایک کو ترجیح دینے کے لیے جو شرائط لکھی ہیں فرماتے ہیں :
"اس کے لیے ضروری ہے کہ سب ائمہ کے دلائل معلوم ہوں پھر انکا وزن پھر دلالت پھر طریقہ استدلال معلوم ہو پھر اتنی استعداد ہو کے ان میں ترجیح دے سکے یہ سب کام مجتہد کے ہیں" (تنقید سدید 24)
لہذا جب آپ خود مجتہد ہوئے تو آپ کو سوال کرنے کی کیا ضرورت ؟ مجتہد کے لیے تو تقلید ہمارے ہاں بھی جائز نہیں۔۔ ؟
ہے کوئی غیرمقلد جو مجھے کوئی علمی جواب دے سکے۔۔۔ ؟
ضرار خان الحنفی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں