نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

صرف پگڑی یا عمامے پر مسح کرنا صحیح نہیں ہے۔

 

صرف پگڑی یا عمامے پر مسح کرنا صحیح نہیں ہے۔

مولانا نذیر الدین قاسمی

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

احناف کہتے ہیں کہ صرف پگڑی یا عمامے پر مسح کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ احادیث میں جہاں عمامے پر مسح کرنے کا ذکر ہے ،وہیں اسی حدیث میں پہلے سر پر مسح کرنے کا ذکر ہے پھر عمامے پر ۔

دلائل ملاحظہ فرمائیے !

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث :

غیر مقلد ڈاکٹر شفیق الرحمن صاحب اپنی کتاب ـ’’نماز نبوی ‘‘میں عمامے پر مسح کے مسئلے پر سب سے پہلے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت ذکر کرتے ہیں کہ ’آپ ﷺ نے پیشانی ،پگڑی اور موزوں پر مسح فرمایا‘ ۶۰ مطبوعہ دار البلاغ ) جبکہ اس حدیث کے بارے میں الامام الحافظ ابو محمد الزیلعی ؒ(م ۷۶۲؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’ہذا حدیث مرکب من حدیثین ‘ یہ حدیث دو حدیثوں کا مجموعہ ہے معلوم ہو ا کہ شفیق الرحمن کی نقل کردہ یہ حدیث مختصر ہے۔ اور پوری حدیث کے الفاظ یہ ہیں :’’توضأ فمسح بناصیتہ ،وعلی العمامۃ وعلی الخفین ‘‘آپ ﷺ نے وضو کیا پھراپنی  پیشانی اور عمامہ اور خفین پر مسح کیا ۔(صحیح مسلم ص: ۷۲۵،رقم الحدیث :۶۳۳)اور پھر غیر مقلدین کا اصول بھی ہے کہ حدیث خود حدیث کی وضا حت کرتی ہے ۔ (نور العینین ص: ۱۲۵،دین الحق ج:۱ص:۶۶۹) یہ سا ری تفصیل بتا رہی ہے کہ آپ  ﷺ نے پہلے پیشانی پر مسح کیا ،پھر عمامے پر مسح فرمایا ۔

 بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث :

شفیق الرحمن صاحب نے دوسری حدیث حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ذکر کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے موزوں اور پگڑی پر مسح کیا ۔(نماز نبوی ص:۶۰) حالانکہ یہ حدیث بھی مختصر ہے ،پوری حدیث سنن صغیر للبیہقی میں موجود ہے جس میں عمامہ پر مسح سے پہلے پیشانی پر مسح کا ذکر ہے ،

الفاظ یہ ہیں :امام بیہقی  ؒ ۴۵۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ  :

                أخبرنا أبو النصر بن قتادۃ ،أنا أبوبکر بن محمد المؤمل ،نا الفضل بن محمد ،نا عمر و وہو ابن عون ،ناخالد ،وہو  ابن عبداللہ الواسطی ،عن حمید ،عن ابی رجائ،مولی أبی قلابۃ عن ابی قلابۃ ،عن ابی ادریس ،عن بلال ان النبی ﷺ مسح علی الخفین وناصیتہ والعمامۃ ۔ہذا اسناد حسن ۔(سنن صغیر للبیہقی ج:۱ص:۵۵،رقم الحدیث ۱۲۰)[1]

نوٹ :     احناف نے پیشانی سے مراد سر کا چوتھائی حصہ لیا ہے ،جس کی تفصیل ص:۷۴ پر موجود ہے ۔ لہذا اس روایت سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ پہلے سر پر مسح کرنا چاہیئے اور پھر عمامے پر ۔ اور غیر مقلدین کا اصول بھی گزر چکا کہ حدیث خود حدیث کی وضاحت کرتی ہے،تو جتنی بھی ا حادیث میں عمامے کا ذکر ہوگا ،اس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ یہ عمامے پر مسح سر کے مسح کے بعد ہے ۔

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی حدیث :

ابو صہیب داؤد ارشد صاحب نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث نقل کی ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کو پگڑی اور موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔لیکن خود سلمان فارسی ؓ نے ایک آدمی کو عما مے کے ساتھ پیشانی کا بھی مسح کرنے کا حکم دیا اور دلیل میں ابو صہیب صاحب کی نقل کردہ مرفوع حدیث کو ہی بیان کیا ہے۔ حدیث یہ ہے:

امام ابو بکر الاثرم ؒ ۲۷۲؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

              حدثنا عفان حدثنا داؤد بن ابی الفرات حدثنا محمد بن زید عن ابی شریح عن ابی مسلم مولی زید بن صوحان قال کنت مع سلمان فرأی رجلا قد احدث وہو یرید أن ینزع خفیہ للوضوء فأمرہ سلمان أن یمسح علی خفیہ وعمامتہ ویمسح بناصیتہ قال سلمان قد رأیت رسول اللہ ﷺ یمسح علی خفیہ وعمامتہ ۔(سنن اثرم ص :۲۳۱،رقم الحدیث ۱۴)[2]

حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث :

امام ابو داؤد ؒ۲۷۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

                  حدثنا احمد بن صالح ،حدثنا ابن وہب ،حدثنی معاویۃ بن صالح ،عن عبد العزیز بن مسلم ،عن ابی معقل ،عن أنس بن مالک قال :رأیت رسول اللہ ﷺ یتوضأ وعلیہ عمامۃ قطریۃ ،فأدخل یدہ من تحت العمامۃ فمسح مقدم رأسہ ولم ینقض العمامۃ ۔

حضر ت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا :آپ ﷺ کے سر مبارک پر قطری پگڑی تھی ،آپ ﷺ نے پگڑی کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر سر کے اگلے حصے پر مسح کیا اور پگڑی نہیں کھولی ۔(سنن ابو داؤد رقم الحدیث ۱۴۷واسنادہ حسن )[3]

یہ حدیث بھی بتاتی ہے کہ صرف عمامے کے مسح پر اکتفا ء کرنا صحیح نہیں ہے ،بلکہ سر پر مسح کرنا ضروری اورلازمی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ  ﷺ نے بھی عمامے کے ساتھ سر کا بھی مسح فرمایا ۔

اسلاف ،فقہاء اور محدثین وغیرہ کے ارشادات درج ذیل ہیں :

امام ترمذی ؒ ۲۷۹؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

             ’’ وقال غیر واحد من اہل العلم من اصحاب النبی ﷺ والتابعین :لا یمسح علی العما مۃ الا ان یمسح برأسہ مع العمامۃ ،وہو قول سفیان الثوری ،ومالک بن أنس ،وابن المبارک ،والشافعی  ‘‘ صحابہ او رتابعین میں سے کئی اہل علم نے کہا ہے کہ عمامہ پر مسح جائز نہیں ہے مگر سر کے مسح کے ساتھ اور یہی قول

(۱)  امام سفیان ثوری ؒ ۱۶۱؁ھ)

(۲) امام مالک بن انس ؒ ۱۷۹؁ھ)

(۳) امام عبداللہ بن المبارک ؒ(م ۱۸۱؁ھ)

(۴)  امام شافعی ؒ(م۲۰۴؁ھ) کا ہے۔

(۵) مشہور مفسر ابوحیان اندلسی ؒ ۷۴۵؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’’الظاہر ان المسح علی العمامۃ لا یجزیٔ لانہ لیس مسحاً للرأس‘‘  ظاہر ہے کہ صرف عمامے پر مسح جائز نہیں ہے ،اس لئے کہ وہ سر کا مسح نہیں ہے ۔(بحر المحیط ج:۴ص:۱۹۱)

(۶) امام فخرالدین الرازی ؒ ۶۰۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ : ’’لا یجوز الاکتفاء بالمسح علی العمامۃ ‘‘ صرف عمامے پر مسح کرنے پر اکتفاء کرنا جائز نہیں ہے۔ (تفسیر کبیر :ج ۱۱ص:۳۰۵)

(۷) امام بغویؒ ۵۱۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

              ولم یجوز اکثر اہل العلم المسح علی العمامۃ بدلا من مسح الرأس ،وقال فی حدیث المغیرۃ ان فرض المسح سقط عنہ بمسح الناصیۃ وفیہ دلیل علی ان مسح جمیع الرأس غیر واجب ۔

اکثر اہل علم نے سر کے مسح کے بدلے میں عمامے کے مسح کو نا جائز قرار دیاہے اور مغیرہ ؓ کی حدیث کے تحت میں فرمایا کہ یقینا مسح کی فرضیت پیشانی کے مسح سے ساقط ہو جاتی ہے ۔اور امام بغوی ؒ کہتے ہیں کہ مغیرہ ؓ کی حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ پورے سر کا مسح واجب نہیں ہے ۔(تفسیر بغوی ج:۲ص:۲۲،۲۳)  نیز اپنی ایک اور کتاب میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ولو مسح علی العمامۃ ،ولم یمسح شیأ من الرأس لا یجوز‘‘  اگر کوئی مسح کرے عمامے پر اس حال میں کہ اس نے سر کا کچھ بھی مسح نہیں کیا ،تو مسح جائز نہیں ہے۔(التہذیب للبغوی ج:۱ص: ۲۵۵)

(۸) نظام الدین القمی النیساپوری ؒ(م ۸۵۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’لا یجوز الاکتفاء بالمسح علی العمامۃ لان ذلک لیس مسحاً للرأس ‘‘ صرف عمامے کے مسح پر اکتفاء کرنا جائز نہیں ،اس لئے کہ وہ سر کا مسح نہیں ہے۔(تفسیر النیساپوری ج:۲ص:۵۵۷)

(۹) امام علی بن محمد عماد الدین ابوالحسن حراسیؒ (م۵۰۴؁ھ) فرماتے ہیں (جس کا خلاصہ یہ ہے ) کہ سر کے مسح کے بعد عماے پر مسح کرنا ہمارے نزدیک جائز ہے ۔(احکام القرآن للحراسی ج:۳ص:۴۳)

(۱۰) امام ابوعبدالرحمن النسائی ؒ (م۳۰۳؁ھ) نے باب باندھا ہے کہ’’باب المسح علی العمامۃ مع الناصیۃ‘‘  پیشانی کے ساتھ عمامے پر مسح کا بیان۔(سنن نسائی رقم الحدیث :۱۰۷)  معلوم ہواکہ امام نسائی  ؒ کے نزدیک بھی عمامے کے ساتھ پیشانی پر بھی مسح کرنا ہے ۔

(۱۱) امام ابو عوانہ ؒ ۳۱۶؁ھ) نے بھی باب باندھا ہے کہ ’’اباحۃ المسح علی العمامۃ اذا مسحہا مع الناصیۃ ‘‘ عمامے پر مسح کے مباح ہونے کا بیان ،جبکہ سر کے مسح کے ساتھ اس پر مسح کیا جائے ۔(مستخرج ابو عوانہ ج:۱ص: ۲۱۷)

(۱۲) امام عروہ بن زبیر ؒ ۹۴؁ھ) کے بارے میں ہے کہ ’’انہ کا ن ینزع العمامۃ ثم یمسح برأسہ ‘‘ اپنے عمامے کو اتار کر پھر اپنے سر کا مسح فرماتے تھے ۔(مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث :۷۴۴)

(۱۳) حضرت ابو عبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر ؒ [ثقہ][4]نے جابر بن عبداللہ ؓ سے عما مے پر مسح کے بارے میں سوال کیا ،تو انہوں نے فرما یا کہ ’امس الماء الشعر ‘بالوں کو پانی لگاؤ۔(مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث :۲۳۲)[5]

(۱۴) حضرت علی رضی اللہ عنہ ۴۰؁ھ)سے بھی ثابت ہے کہ آپ نے عمامے کو اتار کر سر کا مسح کیا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث ۲۳۳)[6]

(۱۵) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ۷۲؁ھ) بھی عمامے پر مسح نہیں کیاکرتے تھے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث :۲۳۴،واسنادہ صحیح )

(۱۶) امام مغیرہ ؒ کہتے ہیں کہ:

                      کان اذا کانت علی ابراہیم عمامۃ ،او قلنسوۃ رفعہا ثم مسح علی یافوخہ۔

       گر امام ابراہیم نخعی ؒ ۹۶؁ھ) ٹوپی یا پگڑی پہنے ہوئے ہوتے تھے تو اس کو اتار دیتے اور پھر مسح کیا کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث ۲۳۵،واسنادہ حسن)

(۱۷) حضرت ابو البختری ؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام شعبی ؒ ۱۱۰؁ھ)کو وضو کرتے ہوئے دیکھا ،تو آپ نے عمامہ اتارا اور سر کا مسح کیا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث ۲۳۶واسنادہ صحیح )[7]

(۱۸) امام قاسم بن محمد ؒ ۱۰۶؁ھ)  بھی القاسم ’’لا یمسح علی العمامۃ یحسر عن رأسہ فیمسح علیہ ‘‘ عمامے پر مسح نہیں کیا کرتے تھے،بلکہ عمامہ اتار کر سر کا مسح فرماتے تھے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث :۲۳۹،واسنادہ صحیح )

(۱۹) امام حسن البصری ؒ (م ۱۱۰؁ھ) نے بھی اجازت دی ہے کہ ’’الرجل یمسح علی ناصیتۃ وعلی عمامتہ ‘‘ آدمی پہلے اپنی پیشانی اور (پھر)اپنے عمامے پر مسح کرسکتا ہے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث :۲۴۰،واسنادہ صحیح )

(۲۰) امام خطابی ؒ ۳۸۸؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’’ ابی المسح علی العمامۃ أکثر الفقہاء وتأولوا الخبر فی المسح علی العمامۃ علی معنی انہ کان یقتصر علی مسح بعض الرأس ‘‘ اکثر فقہاء نے عمامے پر مسح کا انکار کیا اور انہوں نے عمامے پر مسح کی حدیث اس معنی میں تاویل فرمائی ہے کہ مسح علی العمامہ کو سر کے بعض حصے کے مسح کا اختصار کرنا ہے ۔(یعنی مسح علی العمامہ میں پہلے سر کے بعض حصے پر مسح کرنا ہے پھر بعد میں عمامے پر )۔(معالم السنن ج:۱ص:۵۷) 

(۲۱) امام برہان الدین العینی ؒ(م۸۵۵؁ھ)نے بھی یہی بات کہی ہے ۔(شرح ابو داؤد للعینی ج:۱ص:۳۴۵)

(۲۲) حافظ ابن الجوزیؒ ۵۹۷؁ھ)نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک صرف عمامے پر مسح جائز نہیں ہے۔ (کشف المشکل ج:۴ص:۸۴)

(۲۳) حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ ۸۵۲؁ھ)نے بھی ثابت کیا ہے کہ عمامے سے پہلے سر کا مسح کرنا ہے ۔(فتح الباری ج: ۱ص:۲۹۳) بلکہ کہتے ہیں کہ :

                 قد اختلف السلف فی معنی المسح علی العمامۃ فقیل انہ کمل علیہا بعد مسح الناصیۃ وقد تقدمت روایۃ مسلم بمایدل علی ذلک والی عدم الاقتصار علی المسح علیہا ذہب الجمہور  ۔

سلف نے عمامے پر مسح کے معنی میں اختلاف کیا ہے ،چنانچہ کہا گیا کہ آ پ ﷺ نے پیشانی پر مسح کے بعد عمامے پر مسح کو مکمل کیا اور مسلم کی روایت اس پر دلالت کرتی ہے اور صرف عمامے کے مسح پر اکتفاء نہ کرنے کی طرف جمہور گئے ہیں۔(فتح الباری ج:۱ص:۳۰۹) لہذا اسلاف کے عمل اور ارشادات سے معلوم ہو اکہ عمامے پر مسح اس وقت جائز ہے ،جب کہ اس سے پہلے سر پر مسح کیا جائے۔

آخری روایت : (امام عطاء ؒ ۱۱۷؁ھ) اور امام قتادہ ؒ ۱۱۸؁ھ) کی مرسل روایت )

امام شافعی ۲۰۴؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’اخبرنا مسلم عن ابن جریج عن عطاء ان رسول اللہ ﷺ  توضأ فحسر العمامۃ ومسح علی مقدم رأسہ اوقال ناصیتہ بالماء ‘‘ امام عطاء بن ابی رباح ؒ سے مروی ہے کہ رسول اللہ    نے وضو کیا تو اپنی پگڑی کو سر سے ہٹایا اور سر کے اگلے حصے کا مسح کیا ،یا(روایت کے الفاظ ی ہیں کہ) پانی سے اپنی پیشانی پر مسح فرمایا ۔(مسند الشافعی ج:۱ص:۳۲ ،رقم الحدیث :۷۸واسنادہ حسن مرسل )[8]

اسی طرح امام قتادہ ؒ ۱۱۸؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ ان النبی ﷺ کان یمسح علی عمامتہ قال  یضع یدہ علی ناصیتہ ثم یمر علی یدہ علی العمامۃ ‘‘  نبی ﷺ  اپنے عمامے پر مسح فرماتے تھے ۔پھرتفصیل ذکر کرتے ہیں کہ آپﷺ اپنا دست مبارک پیشانی پر رکھتے (یعنی پیشانی پر مسح فرماتے ) اور پھر اپنے ہاتھ کو عمامے پر پھیر لیتے تھے ۔(یعنی عمامے پر بھی مسح فرماتے تھے)۔(مصنف  عبدالرزاق رقم الحدیث :۷۴۱،واسنادہ حسن مرسل )

معلوم ہوا کہ حضور    پہلے پیشانی پر (جو کہ سر کا چوتھائی حصہ ہوتا ہے ،اس پر ) مسح فرماتے پھر بعد میں عمامے پر۔

احناف بھی یہی کہتے ہیں کہ سر کے مسح کے بعداگرکوئی عمامے پر مسح کر لے تو جائز ہے ۔لہذا غیر مقلدین اہل حدیث حضرات کا یہ کہنا کہ علی الاطلاق صرف عمامے پر مسح بھی جائز ہے ،دلیل کی روشنی میں باطل ومردود ہی نہیں بلکہ اصول کے لحاظ سے کتاب اللہ کے خلاف بھی ہے ۔[9]

ایک جاہلانہ اعتراض اور اس کا جواب :

ابو صہیب داؤد ارشد صاحب نے ایک جاہلانہ اعتراض یہ بھی کیا ہے کہ ’’سر کیلئے عربی زبان میں ’رأس ‘کا لفظ آتا ہے ،(جمع رؤس)اور اس کا اطلاق پورے عضو پر ہوتا ہے ۔سر کے چوتھا ئی حصے یا کچھ کو ’رأس ‘ نہیں کہتے ۔مگر حنفیہ کے نزدیک سر کے چوتھا ئی حصے پر مسح کرنا ہی فرض ہے اس سے زیادہ نہیں ،مزید ظلم یہ کیا کہ فقہائے احناف نے قرآن کی اس آیت کو مجمل قرار دیتے ہوئے اس آیت کے حکم کا مذاق اڑایا ہے ۔

صاحب ہدایہ لکھتے ہیں کہ سر پر پیشانی کی مقدار میں مسح کرنا فرض ہے اور وہ چوتھا ئی سر ہے ۔کیونکہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ  ایک قوم کے کوڑے دان کی جگہ پر آئے ،وہاں پیشاب کیا پھر وضو فرمایا اور اپنے سر کی پیشانی پر مسح کیا اور موزوں پر بھی ،اور قرآن مجید کی آیت میں مسح کی مقدار مجمل ہے اور یہ حدیث اس کا بیان ہے ۔(ہدایہ اولین :۴،۵)۔۔۔۔۔پھر آگے لکھتے ہیں کہ خلاصہ یہ نکلا کہ قرآن وسنت میں مسح کی مقدار ثابت نہیں مگر ان بڑے لوگوں کے دماغ میں یہ چھوٹی بات کون ڈالے کہ اللہ تعالی نے سر کے مسح کے لئے ’’رأس ‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے جو پورے کو کہتے ہیں ،چوتھائی یا کچھ حصے کو رأس نہیں کہتے ۔(حدیث اور اہل تقلید ج:۱ص۲۲۲)

الجواب :

اول       تو یہ اعتراض ہی مردود ہے ،کیونکہ قرآن پاک کی سورہ مائدہ کی آیت نمبر :۶  میں ’’وامسحو ابوؤسکم  ‘‘ہے۔ (ب کے ساتھ ہے ) نہ کہ  وامسحوا رؤسکم ۔(بغیر ب کے ) اگر آیت میں ب نہ ہوتا،یعنی وامسحو ارؤسکم  ہوتا۔ تو ابو صہیب داؤد ارشد صاحب کی بات قابل غور ہوتی ،لیکن آیت میں تو وامسحوابرؤسکم ہے ۔اس میں ب تبعیض یعنی بعض کے معنی پر دلالت کرنے کے لئے آیا ہے ،اور یہی با ت ابو المحاسن الرویانی ؒ ۵۰۲؁ھ) ،فقیہ ابو الحسین یحی العمرانی  ؒ ۵۵۸؁ھ)،امام ماوردی ؒ ۴۵۰؁ھ)،اور امام ابو بکر الجصاص ؒ ۳۷۰؁ھ)[10]وغیرہ کہی ہے ۔ (بحر المذہب للرویا نی ج:۱ص:۹۳،البیان للعمرانی ج:۱ص:۱۲۵،الحاوی الکبیر ج:۱ص:۱۱۵،شرح مختصر الطحاوی للجصاص ج:۱ص:۳۱۷)  معلوم ہوا کہ کلام پاک میں پورے سر کا نہیں ،’’بائے تبعیض ‘‘ آنے کی وجہ سے سر کا بعض حصہ مراد ہے ۔لیکن چونکہ بعض سے مراد کتنا حصہ ہے ،یہ ذکر قرآن میں نہیں ،اس لئے فقہائے کرام نے اس آیت کو سر کے مسح کی فرض مقدار کے تعلق سے مجمل قرار دیا ہے ۔

دوم         داؤد ارشد صاحب نے فقہاء احناف سے تعصب میں آکر یہ تو لکھ دیا کہ انہوں نے قرآنی آیت کے ساتھ ظلم کیا ہے ۔اور سر کے مسح میں صرف پیشانی برابر حصے کو فرض قرار دے کر قرآنی آیت کا مذاق بھی اڑایا ہے ۔لیکن یہی بات دوسرے فقہاء ومحدثین نے بھی فرمائی ہے،

مثلاً:

امام عبداللہ بن موسی بن قتیبہ ؒ ۲۷۹؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’المسح بالناصیۃ فرض فی الکتاب ‘‘ پیشانی پر مسح کرنا قرآن میں فرض (قرار دیاگیا)ہے ۔(تاویل مختلف الاحادیث رقم الحدیث :۳۸۲)حافظ ابن رجب ؒ (م ۷۹۵؁ھ) کہتے ہیں کہ’قلنا الفرض منہ قدر الناصیۃ ‘ ہم کہتے ہیں کہ سر کے مسح میں فرض پیشانی کی مقدار ہے (قواعد لابن رجب ص: ۵) امام ابن بطال ؒ ۴۴۹؁ھ) ،اور امام رویانی ؒ ۵۰۲؁ھ) نے بھی سر کے مسح میں پیشانی کی مقدار کو فرض قرار دیا ہے ۔(شرح ابن بطال ج:۱ص:۲۸۳،بحر المذہب ج:۱ص: ۹۷)

لہذا سوال یہ ہے کہ ابو صہیب صاحب اور اہل حدیث حضرات بتائیں کہ یہ تمام فقہاء ومحدثین قرآنی حکم کا مذاق اڑانے والے اور ظلم کرنے والے ہوگئے ؟ اللہ تعالی حق بات کو سمجھنے اور اس کو قبول کرنے کی توفیق عطافرمائے !آمین


[1]  اس حدیث کو ذکرکرنے کے بعد امام بیہقی ؒ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ۔یہ روایت سنن کبری للبیہقی ج:۱ص ۱۰۲،حدیث نمبر: ۲۸۹ میں بھی موجود ہے اس کی سند میں حمید الطویل ؒ ۱۴۳؁ھ) اگرچہ مدلس ہیں ،لیکن چونکہ شاہد میں مغیرہ بن شعبہ ؓ کی قوی روایت موجود ہے ۔لہذا ان پر تدلیس کا الزام باطل ومردود ہے ۔

نوٹ : اس کی سند میں عبدا لعزیز بن مسلم المدنی ؒ ہیں جن کو امام ابن حبان ؒ نے ثقات میں شمار کیا ہے (کتاب الثقات لابن حبان ج: ۵ص: ۱۲۳) اور پھر امام ابو داؤد ؒ اور امام عبدالحق اشبیلی ؒ اور امام ضیاء الدین المقدسی ؒ نے بھی ان کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ،جیسا کہ گزر چکا  لہذا وہ بھی ثقہ راوی ہیں اور یہ روایت حسن ہے ۔

[2]  اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں ،سوائے ابومسلم کے ان کے بارے میں ابن حجر ؒ نے کہا ہے کہ وہ مقبول ہیں۔ (تقریب رقم :۸۳۶۸) یعنی متابع یا شاہد کی صورت میں ان کی روایت مقبول ہوگی ۔چونکہ مغیرہ بن شعبہ ؓ کی روایت سے ان کی معنوی تائید ہو رہی ہے۔لہذا اس روایت میں ان پر جرح بیکا ر ہے اور یہ روایت مقبول ہے ۔

[3]  اعتراض :

      ابو صہیب داؤد ارشد صاحب کہتے ہیں کہ اس کی سند میں ابو معقل ہیں جو مجہول ہیں ۔(حدیث او راہل تقلید ج:۱ ص:۲۲۲،۲۲۳)

الجواب :

        اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد امام ابو داؤدؒ نے سکوت فرمایا ہے اور الامام العلامہ المجتہدکمال الدین ابن الہمامؒ ۸۶۲؁ھ) اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:’’ سکت علیہ داؤد فہو حجۃ ‘‘امام ابوداؤد ؒ نے اس روایت پر سکوت اختیا رکیا ہے۔ لہذا یہ حجت ہے ۔(فتح القدیر ج:۱ص:۱۸) غیر مقلدین کے نزدیک بھی امام ابو داؤد ؒ کا سکوت حجت ہوتا ہے دیکھئے (دوماہی مجلہ الاجماع :شمارہ نمبر :۱ ص:۵۳) پھر اس حدیث کو امام ضیاء الدین مقدسی ؒ (م۶۴۳؁ھ) نے بھی صحیح کہا ہے (احادیث المختارہ ج:۶ص: ۲۳۹)،امام عبد الحق اشبیلی ؒ (م ۵۸۱ھ) نے یہ شرط رکھی ہے کہ وہ اپنی کتاب ’’احکام الوسطی ‘‘ میں صرف صحیح حدیث نقل کریں گے ،ایسا غیر مقلدین حضرات کا کہنا ہے ۔(مقالات زبیر علی زئی ج:۳ص:۳۳۴،رسالہ اہل السنہ ممبئی ج:۶ص :۱۶،شمارہ نمبر:۷۰) لہذا ان کے اس اصول کی وجہ سے امام عبدالحق اشبیلی ؒ نے بھی اس روایت کو صحیح کہا ہے ۔(احکام الوسطی ج:۱ص: ۱۷۷) معلوم ہوا کہ اس حدیث کو تین تین محدثین نے صحیح کہا ہے او ر غیر مقلدین کے نزدیک کسی محدث کا کسی حدیث کی تصحیح وتحسین کرنا اس حدیث کے ہرہر راوی کی توثیق ہوتی ہے ۔جیسا کہ گزرچکا ۔ (ص: ۹۶) معلوم ہواکہ ابومعقل ؒ ان تینوں محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں ،لہذا ابو صہیب ؒ کا انہیں مجہول کہنا مردود ہے ۔

[4] امام ابن معین ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ نے آپ کو ثقہ کہا ہے ،امام ابو حاتم  ؒ نے آپ کو صحیح الحدیث کہا ہے ۔اور امام ذہبی ؒ نے صدوق ان شاء اللہ کہا ہے ۔(تہذیب التہذیب ج:۱۲ص: ۱۶۱،میزان الاعتدال ج:۴ص: ۵۴۹)

[5] اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور سند صحیح ہے ،نیز سند میں عباد بن اسحق سے مراد عبدالرحمن بن اسحق المدنی ہیں، جو کہ صحیح مسلم کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔(تقریب رقم: ۳۸۰۰)

[6] الفاظ یہ ہیں :حدثنا وکیع بن الجراح عن الربیع بن سلیم عن ابی لبید قال رأیت علیا أتی الغیط علی بغلۃ لہ وعلیہ ازار ورداء وعمامۃ وخفان ،فرأیتہ بال ثم توضأ فحسر العمامۃ فرأیت رأسہ مثل راحتی علیہ مثل خط الاصابع من الشعر فمسح برأسہ ثم مسح علی خفیہ ۔(مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر:۲۳۲)

              اس حدیث کی سند حسن ہے ،امام ابوبکر بن ابی شیبہ ؒ اور امام وکیعؒ  (م۱۹۸؁ھ) کی تعارف کی ضرورت نہیں ہے ۔ ربیع بن سلیم الخلقانی  ؒ کو امام ابن حبان ؒ اور امام قاسم بن قطلوبغا ؒ نے آپ کو ثقات میں شمار کیا ہے ،امام ابو حاتم  ؒ نے شیخ قرار دیا ہے۔ (کتاب الثقات لابن حبان ج:۶ص: ۲۹۹،کتاب الثقات للقاسم ج:۴ص: ۲۳۸)  لہذا آپ ؒ ثقہ ہیں ۔ابو لبید ؒ بھی صدوق راوی ہیں ۔(تقریب رقم :۵۶۸۱)خلاصہ یہ ہے کہ یہ سند حسن درجہ کی ہے ۔

[7] اس کی سند میں ابوالبختریؒ سے مراد بختری بن ابی البختری ؒ ۱۴۸؁ھ) ہیں جوکہ صحیح مسلم کے راوی ہیں اور صدوق ہیں۔ (تقریب رقم : ۶۴۱)

[8] اس روایت کی سند میں امام مسلم بن خالد ؒ ہیں جو کہ جمہور کے نزدیک حسن الحدیث ہیں ،(دیکھئے،ص:۱۱۲) پھر مصنف عبدالرزاق کی روایت میں امام عبدالرزاق ؒ (م ۲۱۱؁ھ) ان کے متابع ہیں ۔(مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر :۷۳۹،واسنادہ صحیح )

اعتراض نمبر۱:  

ابو صہیب داؤد ارشد صاحب کہتے ہیں کہ یہ روایت مرسل ہے ۔(حدیث اور اہل تقلید ج:۱ص:۲۲۳)

الجواب :

               مرسل روایت جمہور کے نزدیک حجت ہے دیکھئے ’’مجلہ الاجماع :شمارہ نمبر:۱ص:۶۵‘‘۔پھر غیر مقلدین کے نزدیک اگر مرسل کی تائید کسی مرسل یا ضعیف متصل سے ہوجا ئے تو وہ قابل حجت ہوجاتی ہے ۔دیکھئے’’ مجلہ الاجماع شمارہ نمبر :۱ص: ۶۵‘‘۔اور پہلے تفصیل گذر چکی کہ اس مسئلے میں کئی صحیح او ر حسن  درجے کی متصل روایا ت موجود ہیں ۔پھر قتادہ ؒ کی مرسل روایت بھی موجود ہے ،لہذا ابو صہیب صاحب کا اعتراض ان کے ہی اصول کی روشنی میں باطل ومردود ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر ؒ ۸۵۲؁ھ) اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’وہو مرسل لکنہ اعتضد بمجیئہ من وجہ آخر موصولا أخرجہ أبو داؤد من حدیث أ نس وفی اسنادہ ابو معقل لا یعرف حالہ فقد اعتضد کل من المرسل والموصول بالآخر وحصلت القوۃ من الصورۃ المجموعۃ ‘‘ عطاء ؒ کی روایت مرسل ہے ۔لیکن اس میں قوت پید ا ہو گئی ہے دوسری متصل سند سے آنے کی وجہ سے جسکو امام ابو داؤد ؒ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اسی سند میں ابو معقل ؒ ہیں جن کا حال معلوم نہیں ہے ۔لیکن مجموعی اعتبار سے مرسل نے اور دوسری متصل کے ملنے سے تقویت اور قوت حاصل کرلی ہے۔ (فتح الباری ج:۱ص: ۲۹۳) جب حافظ ابن حجر ؒ نے خود تصریح فرمادی کہ یہ عطاء ؒ کی روایت مقبول ہے تو  یہ  اعتراض باطل ہے ۔

اعتراض نمبر۲:

           ابو صہیب صاحب کہتے ہیں کہ اس میں ابن جریج  ؒمدلس ہیں۔ (حدیث اور اہل تقلید ج:۱ص: ۲۲۳)

الجواب :

              مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر: ۷۳۹میں انہوں نے سماع کی صراحت کردی ہے ،الفاظ یہ ہیں                        عبدالرزاق عن ابن جریج قال أخبرنی عطاء قال :بلغنی أن النبی ﷺ کا یتوض وعلیہ العمامۃ یؤخرہا عن رأسہ ولایحلہا ثم مسح برأسہ فأشار الماء بکف واحد علی الیافوخ قط ثم یعید العمامۃ ۔

              لہذا یہ اعتراض ہی مردود ہے ۔

[9]  قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ’’یا أیہا الذین آمنوا اذا قمتم الی الصلاۃ فاغسلوا وجوہکم وأیدیکم الی المرافق وامسحو ا برؤسکم  وارجلکم الی الکعبین ‘‘۔(سورہ مائدہ :۶)

              اس آیت میں چونکہ سر کے مسح کا ذکر ہے اس لئے اسلاف میں سے کئی فقہاء نے اس آیت کیوجہ سے صرف عمامے پر مسح کرنے سے منع کیا ہے چنانچہ امام ابن بطال ؒ ۴۴۹؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ ممن کان لا یری المسح علیہا علی وابن عمر وجابر ومن التابعین عروۃ والنخعی الشعبی والقاسم وبہ قال مالک وأبو حنیفۃ والشافعی واحتجو ابقولہ تعالی ’’وامسحو ا برؤوسکم ‘‘ جو لوگ عمامے پر مسح کے جواز کے قائل نہیں ہیں ان میں علی ؓ ،ابن عمر ؓ اور جابر ؓ اور تابعین میں عروہ ،نخعی، شعبی اور قاسم رحمہم اللہ ہیں اور امام مالک ؒ ،امام ابوحنیفہ ؒ اور امام شافعی ؒ کا بھی یہی کہنا ہے ۔ان لوگوں نے اللہ تعالی کے ارشاد ’’وامسحوا برؤوسکم ‘‘(اپنے سروں کا مسح کرو )سے استدلال کیاہے دلیل پکڑی ہے ۔(شرح بخاری لابن بطال ج:۱ص: ۳۰۷) حافظ المغرب امام ابن عبدالبر ؒ ۴۶۳؁ھ) بھی فرماتے ہیں کہ (جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ) امام مالک ؒ نے فرمایا کہ مناسب نہیں ہے کہ آدمی عمامے پر مسح کرے اور عورت اوڑھنی پر ،بلکہ وہ دونوں اپنے سروں پر مسح کرینگے ۔اور یہی قول امام عروہ ؒ،امام ابراہیم نخعی ؒ ،امام حماد بن ابی سلیمان ؒ امام شعبی اور ؒ امام قاسم بن محمد بن ابی بکر ؒ  کا ہے اور امام ابو حنیفہ ؒ امام شافعی ؒ امام مالک ؒ اور ان ائمہ کے اصحاب کابھی یہی قول ہے ۔امام مالک ؒ کی دلیل ’’وامسحو ا برؤسکم ‘‘ہے ۔(الاستذکار ج:۱ص :۲۱۱)، امام ابو بکر ابن العربی ؒ (م ۵۴۳؁ھ) کہتے ہیں کہ امام عروہ ؒ امام نخعی ؒ ،امام قاسم بن محمد ،امام شعبی ؒ ،امام ابوحنیفہ ؒ ،امام مالک ؒ اور امام شافعی ؒ عمامے پر مسح کے قائل نہیں ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ’والحجۃ لہم ظاہرۃ قولہ تعالی ’وامسحوا برؤوسکم ‘‘ ان سب کی دلیل ظاہر ہے کہ اللہ تعالی کا قول’’ وامسحوا برؤسکم ‘‘ہے ۔(المسالک شرح موطا ج:۲ص:۱۳۷) امام شمس الدین الکرمانی ؒ ۷۸۶؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’احتج المانعون بقولہ تعالی وامسحو ابرؤوسکم ‘‘ عمامے پر مسح کرنے سے منع کرنے والوں نے ’’وامسحوا برؤوسکم ‘‘سے دلیل پکڑی ہے ۔(شرح کرمانی علی البخاری ج:۳ص:۵۴)امام عینی ؒ نے بھی یہی بات کہی ہے ۔(عمدۃ القاری ج:۳ص: ۱۰۱) لہذا معلوم ہوا کہ ائمہ سلف نے عمامے مسح کے عدم جواز کے سلسلے میں ’’وامسحوا برؤوسکم ‘‘سے احتجاج کیا ہے ۔

ایک اعتراض اور اس کا جواب :

              عرض ہے کہ اسی آیت میں پاؤں کے دھونے کا حکم بھی موجود ہے ۔حالانکہ حنفیہ کے نزدیک موزوں پر مسح جائز ہے ۔۔۔۔حالانکہ ظاہر ہے کہ پاؤں کو موزہ نہیں کہتے ۔مگر حنفیہ موزوں پر مسح کو پاؤں کو دھونے کے برابر قرار دیتے ہیں وجہ بیان کریں کہ پگڑی پر مسح کیوں ناجائز ہے اور موزوں پر مسح کیوں جائز ؟(حدیث اور اہل تقلید ج:۱ص: ۲۲۱)

الجواب :

              یہ اعتراض لا علمی اور جہالت کی وجہ سے کیا گیا ہے ۔فقہاء کا اصول ہے کہ قرآن پاک کی تخصیص صرف احادیث متواترہ سے ہی ہو سکتی ہے اور موزے پر مسح کی حدیث متواتر ہے ،دیکھئے نظم المتناصر ص: ۶۰۔جبکہ عمامے پر مسح کی حدیث متواتر نہیں ہے ۔ چنانچہ امام عینی ؒ ۸۵۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’لو عملنا بکل الحدیث یلزم بہ الزیادۃ علی النص لان ہذا خبرالواحد والزیادۃ بہ علی الکتاب نسخ فلا یجوز ‘‘

              اگر ہم عمامے پر مسح کی ہر حدیث پر عمل کرلیں تو نص (قرآن پاک کی آیت ) پر زیادتی ہوگی ،اس لئے کہ یہ حدیث خبر واحد ہے اور قرآن پر خبر واحد کی وجہ زیادتی کرنا یہ نسخ ہے ،(اور خبر واحد سے قرآن کا نسخ جا ئز نہیں ) لہذا عمامے پر مسح والی حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں ۔(عمدۃ القاری ج:۳ص: ۷۱)اس کا ایک اور جواب امام خطابی ؒ  (م۳۸۸؁ھ) نے اس طرح بھی دیا ہے کہ ’’ فرض ا للہ مسح الرأس ،والحدیث فی مسح العمامۃ محتمل للتأویل فلا یترک المتیقن للمحتمل‘‘ اللہ تعالی نے  سر کے مسح کو فرض کیا ہے اور حدیث میں عمامے پر مسح کے حکم میں تاویل کا احتمال ہے ،اور محتمل کی وجہ سے متیقن (قرآن )کو نہیں چھوڑا جائیگا ۔(فتح الباری ج:۱ص:۳۰۹،عمدۃ القاری ج:۳ص:۱۰۱،واللفظ لہ ،معالم السنن ج:۱ص:۵۷) تاویل یہ ہے کہ پہلے سرپر مسح کرنا ہے اور پھر بعدمیں عمامے پر مسح ہے ،جیسا کہ تفصیل گزر چکی ۔لہذا ابو شعیب صاحب کا یہ اعتراض بھی مردود ہے ۔

              آخر میں ایک بات پراطلاع ضروری ہے کہ احناف کے نزدیک سر کے مسح کے بعد عمامے پر مسح کرنا جائز ہے، لیکن اس سے سنت ادا نہیں ہوگی ۔اگرچہ شیخ الہند ؒ اور علامہ انور شا ہ کشمیریؒ کا کہنا ہے کہ سنت اد ا ہوگی ،لیکن امام ابوبکر الرازی ؒ نے اسے مباح لکھا ہے ۔(انوار الباری ج:۷ص: ۵۴۷)اسی طرح جمہور احناف کے نزدیک بھی سنت ادا نہیں ہوگی۔ کیونکہ یہ جواز پر دلالت کرتا ہے ،سنت پر نہیں ،امام ابو حنیفہ ؒ اور امام  محمد ؒ کے قول سے بھی جواز ثابت ہوتا ہے ۔(موطا امام محمد ص: ۴۵) امام علی بن محمد عمادالدین ابو الحسن حراسی ؒ ۵۰۴؁ھ) اور امام حسن بصری ؒ ۱۱۰؁ھ) بھی جائز مانتے ہیں ۔امام ابو عوانہ ؒ ۳۱۶؁ھ) نے پیشانی پر مسح کے بعد عمامے پر مسح کو مباح کہا ہے،جس کا حوالہ پہلے آچکا ہے ۔(دیکھئے ،ص:۱۲۲)  لہذا رئیس صاحب کا یہ کہنا کہ ’’اگر صرف مقدم مسح کافی ہے تو عمامے پر مسح فعل عبث ہوا ،خصوصا اس صورت میں کہ مفتی نذیری (حنفی) عمامے پر مسح ناجائزمانتے ہیں‘‘ ۔(صحیح طریقہ نماز ص: ۱۰۱) مردود ہے ۔

[10]  یاد رہے کہ غیر مقلدین کے نزدیک امام ابو بکر جصاص الرازی ؒ ۳۷۰؁ھ) مجتہد ہیں نہ کہ مقلد ہیں ۔(دیکھئے :حرفے چند)

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...