ذکر کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
مولانا نذیر الدین قاسمی
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
ذکر (شرم گاہ ،آلہ تناسل)
اور فرج کو چھونے سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں
؟اس میں سلف صالحین کا اختلاف ہے ۔ لیکن
راجح قول یہ ہے کہ ذکر کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
دلا ئل درج ذیل ہیں :
۱) امام
ابو عیسی محمد بن عیسی الترمذی ؒ (م ۲۷۵ھ)فرماتے
ہیں کہ :
حدثنا ہناد قال : حدثنا ملازم بن عمر
و،عن عبداللہ بن بدر عن قیس بن طلق بن علی الحنفی ،عن أبیہ عن النبی ﷺ قال : وہل
ہو الا مضغۃ منہ أو بضعۃ منہ ۔
ایک صحابی
نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! وضو کے بعد شرمگاہ کو ہاتھ لگانے کے بارے میں آپ کیا
کہتے ہیں ؟تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تو جسم کاہی ایک حصہ ہے ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث
۸۵)[1]
اسی طرح بلوغ المرام میں ہے کہ :
عن
طلق بن علی رضی اللہ عنہ قال قال رجل : مسست ذکری أوقال : الرجل یمس ذکرہ فی
الصلاۃ ،أعلیہ وضوء ؟فقال النبی ﷺ ’’لا انما ہو بضعۃ منک ‘‘ أخرجہ الخمسۃ وصححہ
ابن حبان ،وقال ابن المدینی : ہو احسن من حدیث بسرۃ۔
طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے (حضور
ﷺسے)کہا کہ میں نے اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگایا یا (کسی )آدمی نے نماز میں اپنی شرمگاہ
کو ہاتھ لگایا ،تو کیا اس پر وضو ہے ؟ تو حضور ﷺ
نے فرما یا: نہیں وہ تو تمہارے جسم کا ہی ایک حصہ ہے ۔
اسے ابو داؤد ،ترمذی ،ابن
ماجہ ،نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے اورامام ابن المدینی
ؒ (م ۲۳۴ھ)کہتے
ہیں کہ یہ حدیث بسرہؓ کی حدیث (جس میں شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو کرنے کا ذکر ہے
،اس)سے اچھی ہے ۔(بلوغ المرام للحافظ،حدیث نمبر :۷۲)
اس حدیث کو امام ترمذی ؒ(۲۷۵ھ)
،امام ابن حبان ؒ (م ۳۵۴ھ)
،امام ضیاء الدین المقدسی ؒ(م ۶۴۳ھ)
،امام ابن الجارود ؒ (م ۳۰۷ھ)،
امام طحاوی ؒ (م ۳۲۱ھ)،امام
طبرانی ؒ(م ۳۶۰ھ)
وغیرہ نے صحیح کہا ہے ۔(صحیح ابن حبان رقم
الحدیث : ۱۱۲۰،احادیث
المختارہ ج:۸ص:۱۵۲،المنتقی لابن جارود رقم الحدیث
: ۲۱،شرح
معانی الآثار ج۱ص:
۷۶،حدیث
نمبر: ۴۶۱،المجمع
الکبیرللطبرانی ج:۸ص:
۳۳۴،رقم
الحدیث :۸۲۵۲)
امام ابن حزم ؒ (م ۴۵۶ھ)
نے بھی اپنی کتاب میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔حافظ ابن مندہ ؒ(م ۳۹۵ھ)
نے اس حدیث کو بسرہ ؓ کی حدیث سے بہتر قرار دیا ہے۔یہی بات الامام الحافظ عمر بن علی
الفلاس ؒ (م ۲۴۹ھ)
اور امام علی بن المدینی ؒ(م ۲۳۴ھ)
سے بھی مروی ہے ۔ نیز امام عمر بن علی الفلاس
ؒ نے صحیح بھی کہا ہے ۔امام محمد بن یحی الزہلی ؒ (م ۲۵۸ھ)
نے بھی اسے بسرہ ؓ کی حدیث سے بہتر کہا ہے ۔امام ابن قطان ؒ (م ۶۲۸ھ)
نے اسے حسن کہا ہے ۔ ابن عبد البر ؒ (م ۴۶۳ھ) بھی کہا ہے کہ ’’أحسن
اسانیدہ من جہۃ ملازم ‘‘اور یہ بھی ملازم کی سند سے
ہی ہے ۔امام ابن عبدالحق اشبیلی ؒ(م ۵۸۱ھ)نے
بھی صحیح کہا ہے ،امام ابن عبدالہادی ؒ(م ۷۴۴ھ) بھی اسے حسن یا صحیح کہتے ہیں ۔(شرح ابن
ماجہ للمغطائی ج:۱ ص:۴۳۸،۴۳۹،نصب الرایہ ج:۱ص:۶۲،تلخیص الحبیر ج:۱ص:۳۴۶،تعلیقات علل ابن ابی حاتم
ص:۸۶) معلوم
ہوا کہ اس حدیث کو کئی ائمہ نے صحیح وحسن کہا ہے ۔[2]
صحابہ رضی اللہ عنہم کے آثار :
حضرت علی ؓ ،ابن مسعود ؓ ،حذیفہ
بن الیمان ؓ ،عمران بن حصین ؓ اور ابو ہریرہ ؓ کے فتاوٰیٰ :
- الامام
الحافظ الکبیر عبدالرزاق الصنعانی ؒ (م ۲۱۱ھ)
فرماتے ہیں کہ :
عن
سلمان بن مہران الاعمش عن المنہال بن عمرو عن قیس بن السکن أن علیا وعبداللہ بن
مسعود وحذیفۃ بن الیمان وأباہریرۃ لا یرون من مس الذکر وضوء ا وقالو ا: لا بأس
بہ ۔
قیس بن سکن ؒ سے روایت ہے
کہ حضرت علی ؓ ،عبداللہ بن مسعود ؓ ،حذیفہ بن الیمان ؓ اور ابو ہریرہ ؓ شرمگاہ کے چھونے
سے وضو کے قائل نہیں تھے ۔اور وہ سب کہتے تھے کہ شرمگاہ کو ہاتھ لگانے میں کوئی حرج
نہیں ہے ۔(مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر : ۴۳۶،واسنادہ صحیح )[3]
- امام
ابو بکر ابن ابی شیبہ ؒ (م ۲۳۵ھ)کہتے
ہیں کہ :
حدثنا جریر عن قابوس عن
أبیہ قال : سئل علی عن الرجل یمس ذکرہ قال لا بأس بہ ۔
ابو ضبیان ؒ کہتے ہیں کہ حضرت
علی ؓ سے پوچھا گیا کہ کہ ایک آدمی اپنی شرمگاہ چھوتا ہے (تو اس کا کیا حکم ہے کیا
اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟)تو آپ نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(مصنف ابن
ابی شیبہ حدیث نمبر : ۱۷۵۷،واسنادہ
حسن )[4]
- امام
سفیان ثوری ؒ (م۱۶۱ھ)فرماتے
ہیں کہ :
عن ابی اسحا ق عن
الحارث عن علی رضی اللہ عنہ قال فی مس الذکر قال لا بأس بہ مالم یعمد ذلک ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے
شرمگا ہ کو ہاتھ لگانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج
نہیں ہے جبکہ اس نے جان بوجھ کر ہاتھ نہ لگایاہو (کیونکہ بغیر کسی عذر کے شرمگاہ کو
جان بوجھ کر ہاتھ لگانا ناپسندیدہ ہے) ۔(من حدیث الامام سفیان بن سعیدالثوری حدیث نمبر: ۳۲،واسنادہ
حسن ،الاوسط لابن المنذری ج:۱ص:۲۰۰)[5]
- امام
محمد بن حسن الشیبانی ؒ (م ۱۸۹ھ)
فرماتے ہیں کہ :
اخبرنا
أبوحنیفۃ رحمہ اللہ عن حماد عن ابراہیم النخعی عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
فی مس الذکر قال : ما أبالی مسستہ أو طرف انفی ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے
مس ذکر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں اپنی ناک اور شرمگاہ کو چھونے
میں کوئی پرواہ نہیں کرتا ۔(موطا امام محمد حدیث نمبر: ۱۸،واسنادہ
صحیح مرسل )[6]
- امام
طحاوی ؒ (م ۳۲۱ھ)
فرماتے ہیں کہ :
حدثنا
ابن مرزوق قال : ثنا عمرو بن ابی رزین قال ثنا ہشام بن حسان عن الحسن عن خمسۃ من
اصحاب رسول اللہ ﷺ منہم علی بن ابی طالب وعبداللہ بن مسعود وحذیفۃ
بن الیمان وعمران بن حصین ورجل آخر أنہم
کانو ا لا یرون فی مس الذکر وضوء ا۔
امام حسن بصری ؒ کہتے ہیں کہ پانچ صحابہ جن میں حضرت علی ؓ،ابن مسعود
ؓ ،حذیفہ ؓ ،عمران بن حصین ؓ اورایک دوسرے صحابی ہیں ،وہ سب شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے
وضو کے قائل نہیں تھے۔(شرح معانی الآثار ج:۱ص: ۷۸،حدیث نمبر : ۴۸۷)
نوٹ :
اس سند کے تمام روات ثقہ ہیں اور امام ہشام بن حسان ؒ (م ۱۴۸ھ)
کا امام حسن بصری ؒ سے سماع ثابت ہے ،جس کی بحث ص: ۲۷۲ پر موجود ہے ۔
اسی طرح امام حسن بصری ؒ کا
سما ع حضرت علی ؓ اور عمران بن حصین ؓ سے بھی ثابت ہے ۔جس کی تفصیل ص:۲۷۴ پر
موجود ہے ۔ لہذا
ان دونوں حضرات سے حسن بصر یؒ کی یہ روایت متصل ہے ۔
البتہ حضرت ابن مسعود ؓ اور
حضرت حذیفہ ؓ سے ان کے سماع کی صراحت نہیں ملی ۔لیکن چونکہ حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت
حذیفہ ؓ دونوں سے دوسری صحیح سندوں سے یہی روایت آئی ہے،جن میں ایک روایت کی تفصیل
گزر چکی ۔اور باقی آگے آرہی ہے ۔لہذا یہ روایت بھی مقبول اور صحیح ہے۔
نیز اگر امام حسن البصری
ؒ کی حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کو مرسل تسلیم کرلیا جائے تو بھی
مراسیل حسن بصری جمہور ائمہ نقاد کے نزدیک صحیح ہیں ،دیکھئے دوماہی الاجماع مجلہ
شمارہ نمبر:۱ص:
۵۰۔
- اسی
طرح اس روایت کے متصلا ًبعد امام طحاوی ؒ فرماتے ہیں کہ :
حدثنا
سلیمان بن شعیب قال : ثنا عبدالرحمن قال :ثنا شعبۃ عن قتادۃ عن الحسن عن عمران بن حصین نحوہ ۔
یعنی عمران بن حصین ؓ کے نزدیک
بھی ذکر کو ہاتھ لگا نے سے وضو نہیں ٹوٹتا
۔(شرح معانی الآثار ج:۱ص:
۷۸،حدیث
نمبر ۴۸۸،واسنادہ
حسن )[7]
’’الحسن
عن عمران بن حصین ‘‘کی سند متصل ہے ،تفصیل ص:۲۷۴پر
موجود ہے ۔
- امام محمد ؒ (م ۱۸۹ھ)
فرماتے ہیں کہ :
أخبرنا سلام بن سلیم الحنفی عن
منصوربن المعتمر عن أبی قیس عن أرقم بن شرحبیل قال : قلت لعبداللہ بن مسعود :
انی احک جسدی وأنا فی الصلاۃ فأمس ذکری فقال : انما ہو بضعۃ منک ۔
ارقم ؒ کہتے ہیں کہ میں نے
ابن مسعود ؓ سے کہا کہ میں نماز میں اپنے جسم کو کھجلا تا ہوں اور اپنی شرمگا ہ کو
چھولیتا ہوں ،تو ابن مسعود ؓ نے کہا کہ وہ جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔(یعنی جس طرح جسم کے
دوسرے حصوں کو چھونے میں کوئی حرج نہیں ،اسی طرح شرمگاہ کو بھی چھونے میں کوئی حرج
نہیں)۔(موطا امام محمد ص:۳۷،حدیث
نمبر: ۲۱،واسنادہ
صحیح )
- ایک
اور جگہ بھی امام محمد ؒ (م ۱۸۹ھ)
کہتے ہیں کہ :
أخبرنا
أبوحنیفۃ عن حماد عن ابراہیم أن ابن
مسعود رضی اللہ عنہ سئل عن الوضو ء من مس الذکر فقال : ان کا ن نجسا فاقطعہ یعنی أنہ لا بأس بہ ۔
ابن مسعود ؓ سے شرمگا ہ کو
ہاتھ لگا نے سے وضو کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر وہ نجس ہے تو
اسے کاٹ دو یعنی (وہ نجس نہیں ہے لہذا ) اس (کو چھونے )میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(کتاب
الآثار ج:۱ص:
۳۶،حدیث
نمبر: ۲۳،واسنادہ
صحیح مرسل )
نوٹ : امام ابراہیم النخعی ؒ کی مراسیل خصوصاً ابن مسعود ؓ سے جمہور محدثین کے
نزدیک حجت ،صحیح اور مسند سے زیادہ قوی ہے۔تفصیل ص : ۲۵۱ پر موجود ہے ۔
نیز یہی روایت مختلف الفاظ
کے ساتھ معجم الکبیر للطبرانی ج:۹ص:۲۴۷،حدیث نمبر:۹۲۱۵،مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر
:۱۷۶۳،وغیرہ
کتابوں میں حسن سند کے ساتھ موجود ہے ۔
- امام
محمد ؒ (م۱۸۹ھ)
فرماتے ہیں کہ :
أخبرنا
مسعر بن کدام عن ایاد بن لقیط عن البراء بن قیس قال قال حذیفۃ بن الیمان فی مس
الذکر :مثل انفک ۔
حضرت حذیفہ ابن الیمان ؓ نے
فرمایا کہ شرکگاہ کو چھونا ناک کو چھونے کی طرح ہے ۔(یعنی جس طرح ناک کو چھونے سے وضو
نہیں ٹوٹتا اسی طرح شرمگا ہ کو چھونے سے بھی وضونہیں ٹوٹتا)۔(موطا امام محمد ص:۲۷حدیث نمبر: ۲۴،واسنادہ
صحیح واللفظ لہ،مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر : ۱۷۶۰،شرح معانی الآثار ج:۱ص:۷۸)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کا فتوی :
- امام
محمد ؒ (م ۱۸۹ھ)
فرماتے ہیں کہ :
أخبرنا اسماعیل بن
عیاش قال : حدثنی جریر بن عثمان عن حبیب بن عبید عن ابی الدرداء أنہ سئل عن مس
الذکر فقال انما ہو بضعۃ منک ۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ
عنہ سے شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ تو تمہارے جسم کا ایک ٹکڑا ہے ۔(موطا
امام محمد ص:۳۸
،حدیث نمبر :۲۸،واسنادہ
صحیح مرسل واللفظ لہ،الاوسط لابن المنذری ج:۱ص:۲۰۱،حدیث نمبر :۹۸)
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا فتوی :
- امام
احمد ؒ (م ۱۸۹ھ)
فرماتے ہیں کہ :
أخبرنا مسعر بن کدام
عن عمیر بن سعید النخعی قال : کنت فی مجلس فیہ عمار بن یاسر فذکر مس الذکر فقال : انما ہو بضعۃ منک وان
لکفک لموضعا غیرہ ۔
عمیر بن سعید ؒ النخعی کہتے
ہیں کہ میں ایک مجلس میں تھ جس میں حضرت عمار بن یاسر ؓ بھی تشریف فرما تھے تو شرمگاہ
کو چھونے کے مسئلے کا ذکر آیا تو عمار بن
یاسر ؓ نے فرما یا کہ وہ تو تمہارے جسم کا ایک حصہ ہے ،اور یقیناتمہاری ہتھیلی کیلئے
جسم کی دوسری جگہ بھی ہیں ۔(موطاامام محمد ص: ۳۷حدیث نمبر : ۲۳،اسنادہ صحیح ،مصنف ابن ابی
شیبہ حدیث نمبر :۱۷۵۴)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا فتوی :
- امام
طحاوی ؒ (م ۳۲۱ھ)
فرماتے ہیں کہ :
حدثنا
محمد بن خزیمۃ قال ثنا عبداللہ بن رجاء قال
أنا زائدۃ عن اسماعیل بن أبی خالد عن قیس بن ابی حازم قال :سئل سعد عن مس
الذکر فقال :ان کا ن نجسا فاقطعہ لا بأس بہ ۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے
شرمگا ہ ہاتھ لگانے سے وضو کے بارے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر وہ حصہ نجس
ہے تو اسے کا ٹ ڈالو ،(حالانکہ ) شرمگاہ کو ہاتھ لگا نے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(شرح
معانی الآثار ج: ۱ص:
۷۷،حدیث
نمبر: ۴۷۰،واسنادہ
حسن)
- اسی
طرح ایک اور جگہ امام طحاوی ؒ (م ۳۲۱ھ)
فرماتے ہیں کہ :
حدثنا
ابراہیم بن مرزوق قال ثنا أبو عامر قال
ثنا عبد اللہ بن جعفر عن اسما عیل بن محمد عن مصعب بن سعد قال : کنت آخذا ًعلی
ابی المصحف فاحتککت فأصبت فرجی فقال أصبت فرجک ؟قلت نعم :احتککت فقال : اغمس یدک
فی التراب ولم یأمرنی أن اتوضأ ۔
مصعب بن سعد ؒ کہتے ہیں کہ
میں اپنے والد کے اس مصحف (قرآن ) اٹھا ئے ہوئے تھا ،مجھے کھجلی ہوئی کھجلاتے ہوئے
میرا ہاتھ شرمگاہ تک پہنچ گیا ،والد صاحب (حضرت سعد ؓ ) نے فرمایا :تیرا ہاتھ شرمگاہ
کو بھی پہنچاہے ؟میں نے جواب دیا :ہاں !تو آپ نے فرمایا کہ مٹی میں اپنا ہاتھ مارو
اور مجھے وضوکرنے کو نہیں کہا ۔
- اس
کی تیسری سند بھی امام طحاوی ؒ نے یہ ذکر فرمائی ہے کہ :
حدثنا محمد بن خزیمۃ قال ثنا
عبداللہ بن رجاء قال :وحدثنا زائدۃ عن اسماعیل بن ابی خالد عن الزبیر بن عدی عن
مصعب بن سعد مثلہ غیر انہ قال قم فاغسل یدک ۔
اور اس میں ہاتھوں کو دھونے
کا ذکر ہے ۔(شرح معانی الآثار ج:۱ص: ۷۷،حدیث نمبر : ۴۶۸،۴۶۹،واسنادہ صحیح )
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی :
- امام
طحاوی ؒ فرماتے ہیں کہ :
حدثنا
صالح بن عبدالرحمن قال : ثنا سعید بن منصور قال ثنا ہشیم قال أنا الاعمش عن حبیب
بن ابی ثابت عن سعید بن جبیر عن ابن عباس رضی اللہ عنہ أنہ کا ن لا یری فی مس
الذکر وضوء ا ۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے
بارے میں مروی ہے کہ وہ شرمگا ہ کو ہاتھ لگانے سے وضو کے قائل نہیں ہیں ۔
- اسی
طرح ایک اور روایت امام طحاوی ؒ نے نقل کی ہے کہ عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا : مجھے
اس بات کی پرواہ نہیں کہ میں شرمگا ہ کو چھوؤں یا ناک کو ،(دونوں کا حکم برابر ہے
)۔(شرح معانی الآثار ج:۱ص:
۷۷،۷۸،واسنادہ
حسن ) یہ
روایت امام طحاوی ؒ نے اس سند سے بھی ذکر فرمائی ہے :
حدثنا أبوبکرۃ قال
:ثنا أبوعامر قال :ثنا ابن ابی ذئب عن شعبۃ مولی ابن عباس عن ابن عباس رضی اللہ
عنہ مثلہ ۔ (شرح
معانی الآثار ج:۱ص:
۷۷،حدیث نمبر: ۴۷۳)
- امام
محمد ؒ (م ۱۸۹ھ)
فرماتے ہیں کہ :
أخبرنا طلحۃ بن عمر و
المکی أخبرنا عطاء بن ابی رباح عن ابن عباس قال فی مس الذکر وأنت فی الصلاۃ قال
: ماأبالی مسستہ اومسست انفی ۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے
حالت نماز میں شرمگاہ کو ہاتھ لگ جانے کے بارے میںکہا کہ میں اپنی شرمگاہ یا ناک کو چھونے میں کوئی پرواہ نہیں
کرتا ۔(موطا امام محمد ص:۳۶،حدیث
نمبر ۱۴)[8]
- امام
عبدالرزاق الصنعانی ؒ (م۲۱۱ھ)
فرماتے ہیں کہ :
عن
ابن جریج قال أخبرنی محمد بن یوسف عن کثیر من أہل المدینۃ أن ابن عباس قال لابن
عمر : لو أعلم أن ما تقول فی الذکر حقا لقطعتہ ثم اذا لو أعلمہ نجسالقطعتہ وما
أبالی ایاہ مسست او مسست أنفی ۔
حضرت ابن عباس ؓ نے ابن عمر ؓ سے فرمایا کہ :اگر میں یہ
سمجھتا کہ شرمگاہ (کو ہاتھ لگانے سے وضو )کے بارے میں آپ جو بات کہہ رہے ہیں ،وہ درست
ہے تو اس کو کاٹ دیتا اور اگر مجھے یہ علم ہوتا کہ یہ نجس ہے ،تو میں اسے کاٹ دیتا
(حالانکہ) میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ میں نے اس کو چھویا ہے یا اپنی ناک کو
چھویا ہے ۔(مصنف عبد الرزاق حدیث :۴۳۵)[9]
الغرض ان ساری تفصیلا ت سے معلوم ہواکہ نو صحابہ کرام شرمگاہ
کو ہاتھ لگانے سے وضو کے قائل نہیں تھے ۔
۱) حضرت
علی رضی اللہ عنہ
۲) حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
۳) حضرت
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ
۴) حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
۵) حضرت
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ
۶) حضرت
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
۷) حضرت
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ
۸) حضرت
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ
۹) حضرت
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
یعنی جمہور صحابہ کرام کا
عمل بھی طلق بن علی ؓ کی روایت پر ہے ۔ پھر حضور
ﷺ کی حدیث ہے کہ ’’الوضوء
مما یخرج ولیس مما یدخل ‘‘وضو ان چیزوں سے ٹوٹتا ہے
جو نکلتی ہیں ،نا کہ ان چیزوں سے جو داخل ہوتی ہیں۔ [10]
اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہیں کہ شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹے
گا ۔اور یہی امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵۰ھ)
کا قول ہے ۔(الحجۃ علی اہل المدینہ ج:۱ص: ۵۹)
[1] رواۃ کی تحقیق یہ ہیں :
امام ترمذی ؒ (م ۲۷۵ھ)کی
ذات تعار ف کی محتاج نہیں ہے ،ان کے استاد ہناد الکوفی ؒ (م ۲۴۳ھ)
صحیح مسلم کے راوی ہیں اور ثقہ ،حافظ ہیں ( تقریب رقم :۷۳۲۰الکاشف )،تیسرے
راوی ملازم بن عمر الیمامی ؒ سنن اربعہ کے
راوی ہیں اور ثقہ صدوق ہیں ۔(تقریب رقم:۷۰۳۵،الکاشف ) ،قیس
بن طلق ؒ بھی سنن اربعہ کے راوی ہیں اور جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ۔امام ابن معین ؒ ،امام
عجلی ؒ نے ان کو ثقہ کہا ہے ۔امام احمد بن حنبل ؒ کہتے ہیں کہ میں ان میں کوئی حرج
نہیں جانتا۔(تہذیب التہذیب ج:۸ ص:
۳۹۸،سوالات
ابو داؤد رقم : ۵۵۱) امام
ابن عبدالہادی ؒ نے ان کی ثقاہت کو ثابت کیا ہے۔ (تعلیقات علی علل ابن ابی حاتم
ص: ۸۶) ابن
حبان ؒ نے بھی ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔(کتاب الثقات ج:۵ص: ۳۱۳) پھر کئی محدثین نے ان کی حدیث
کو صحیح بھی کہا ہے ۔اور غیر مقلدین کا اصول گزرچکا ہے کہ حدیث کی تصحیح وتحسین اس
حدیث کے ہر ہر راوی توثیق ہوتی ہے۔(ص:۹۶) لہذا ثابت ہوا کہ جمہور کے نزدیک وہ ثقہ ہیں
۔ اور ان کے والد طلق بن علی رضی اللہ عنہ صحابی رسول ہیں۔
[2] اعتراض
نمبر ۱:
ابو صہیب داؤد ارشد صاحب کہتے ہیں
کہ طلق ؓ کی روایت میں منسوخ ہونے کا احتمال ہے ۔کیونکہ حضرت طلق بن علی ؓ کی حدیث
پہلے کی ہے ۔اور سیدنا ابو ہریرہ ؓ کی بعد کی ہے ،اور حنفیہ کے نزدیک دو متعارض احادیث
میں جو پہلے کی ہوگی وہ منسوخ ہوتی ہے ۔اور پھر موصوف نے امام ابن حبان ؒ کا قول نقل
کیا ہے ،کہ حضرت طلق بن علی ؓ کی روایت منسوخ ہے ،کیونکہ طلق ؓ حضور ﷺ کے پاس ہجرت
کے پہلے سال کے اوائل میں آئے، جب مسلمان مسجد نبوی کی تعمیر کررہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور
ابو ہریرہ ؓ(۷ھ) میں اسلام قبول کیا تھا ۔تو یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ ابو ہریرہ
ؓ کی حدیث طلق بن علی ؓ کی روایت کے سات سال بعد کی ہے۔
پھر اسی ضمن میں ابو صہیب صاحب نے عبد الحی لکھنوی ؒ وغیرہ کے اقوال
نقل کئے ہیں۔(حدیث او راہل تحقیق ج:۱ص
:۲۶۶) طلق
ؓ کی حدیث کو امام طبرانی ؒ ،امام بغوی ؒ وغیرہ دوسرے ائمہ نے بھی منسوخ کہا ہے ۔
الجواب :
یہ بات ذہن میں رکھیں کہ طلق ؓ کی حدیث کے بارے میں امام ابن حبان ؒ نے منسوخ
ہونے کا دعوی اس بنیاد پر کیا ہے کہ حضرت طلق ؓ جب آپ ﷺ کے پاس تشری لائے تھے تو ان
کے آنے کے بعد مسجد نبوی کی تعمیر ہوئی تھی ،چونکہ مشہور یہ ہے کہ مسجد نبوی کی تعمیر
آپ ﷺ کے مدینہ پہنچنے کے بعد پہلی ہجری میں ہوئی تھی ۔اس سے ابن حبان ؒ نے استدلال
کرتے ہوئے کہا کہ طلق ؓ کی حدیث منسوخ ہے اور ابو ہریرہ ؓ کی حدیث ناسخ ،کیونکہ وہ
( ۷ھ )میں
اسلا م لائے تھے ۔
لیکن صرف مسجد نبوی کی تعمیر
کی بنیاد پر طلق ؓ کی حدیث کو مسوخ کہنا صحیح نہیں ہے ،وجہ یہ ہے کہ آپﷺ کی حیات مبارکہ
ہی میں مسجد نبوی دو مرتبہ تعمیر ہوئی تھی ۔ایک
( ۱ھ)
میں جو کی مشہور ومعروف ہے ۔اور دوسری مرتبہ
حضرت ابو ہریرہ ؓ کے اسلام لانے کے بعد ۔چنانچہ خود ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ
:
أنہم کانو ا یحملون
اللبن الی بناء المسجد ،ورسول اللہ ﷺ معہم قال :فاستقبلت رسول اللہ ﷺ وہو عارض
لبنۃ علی بطنہ ،فظننت انہا قد شقت علیہ قلت ناطلنیہا یا رسول اللہ قال خذ غیرہا یا
أبا ہریرۃ فانہ لا عیش الا عیش الآخرۃ ۔
صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم مسجد نبوی کی تعمیر کیلئے اینٹیں اٹھا کر لا رہے تھے اور رسول اللہ
ﷺ بھی ان کے ساتھ (اینٹیں اٹھا رہے )تھے ۔اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں
سامنے سے آیا تو دیکھا کہ آپ ﷺ ایک بڑی اینٹ اپنے پیٹ پر (سہارا لگا )کر اٹھا رہے
تھے ،تو میں نے سمجھا کہ آپ کے لئے اس کا اٹھا نا مشکل ہورہا ہے ،تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ یہ
مجھے دے دیجئے ۔آپ ﷺ نے جواباً فرمایا کہ اے ابو ہریرہ !تم دوسرا لے لو ! اس لئے کہ اصل زندگی تو آخرت
کی زندگی ہے ۔(مسند احمد ج: ۱۴ ص
: ۵۱۲،رقم
الحدیث ۸۹۵۱،مجمع
الزوائد رقم الحدیث :۱۹۵۰،حافظ
ہیثمی ؒ نے اس کے رجال کو صحیحین کے رجال کہا ہے۔)
نوٹ :
بعض علماء کا کہنا ہے کہ اسکی سند میں مطلب بن عبد
اللہ بن حنطب ؒ ہیں،جن کا سماع ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے ،لیکن صحیح یہ
ہے کہ ان کا سماع ابو ہریرہ ؓ سے ثابت ہے ۔چنانچہ مسند احمد ج: ۱۵ص:۶۵حدیث نمبر :۸۳۱۴میں حسن درجے کی روایت موجودہے،جس
میں مطلب بن عبداللہ ؒ نے سماع کی صراحت کی ہے فرماتے ہیں کہ :قال
المطلب بن عبداللہ بن حنطب سمعت ابا ہریرۃ
۔
اسی طرح صحیح ابن خزیمہ
:حدیث نمبر: ۶۲۳۰،مستدرک
للحاکم ج:۱ص:۶۲۰،حدیث نمبر: ۱۶۵۴،سنن کبری للبیہقی ج:۵ص:۶۵،حدیث نمبر: ۹۰۱۳میں بھی ’’المطلب
بن عبداللہ بن حنطب ،قال :سمعت اباہریرۃ ‘‘کی
وضاحت موجود ہے ۔
لہذا صحیح اور راجح بات یہی
ہے کہ مطلب بن عبد اللہ بن حنطب ؒ کا سماع ابو ہریرہ ؓ سے ثابت ہے۔
الغرض یہ حدیث بالکل صحیح
ہے،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو ہریرہ ؓ دوسری مرتبہ کی تعمیر میں موجودتھے ۔الاما م
العلامہ السمہودی ؒ (م ۹۱۱ھ)
کہتے ہیں کہ’’ وہذا فی البنا ء الثانی ‘‘ ابو
ہریرہ ؓ کی یہ شرکت تعمیر ثانی میں ہے ۔(وفاء الوفاء للسمہودی ج:۱ص:۲۶۰) اور
دوسری روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عمر بن العاص ؓ (م ۴۳ھ)
مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت حاضر تھے ۔ (امجمع الکبیر للطبرانی ج:۱۹ص: ۳۳۰،مجع الزوائد :حدیث نمبر:
۱۵۶۲۱،حافظ
ہیثمی ؒ نے اس کے رجال ک ثقہ کہا ہے ،نیز دیکھئے مسند ابی یعلی الموصلی ج:ص: ۳۳۳،حدیث نمبر: ۷۳۵۱،المستدرک للحاکم ج:۳: ۴۳۶،حدیث نمبر : ۵۶۵۹،مسند احمدحدیث نمبر : ۱۱۰۱۱)
اور یاد رہے کہ عبداللہ بن
عمر بن العاص ؓ اور ان کے والد عمر بن العاص ؓ دونوں نے آٹھ ہجری میں اسلام قبول کیا
تھا۔(معجم الصحابہ للبغوی ج:۳ص:۴۹۵،اکمال تہذیب الکمال ج:۱۰ص: ۱۹۴،الاصابہ لابن حجر ج:۴ص:۵۳۷)،
پھر اس روایت کو ذکر کرنے
کے بعد حافظ ابن رجب ؒ (م ۷۹۵ھ)
کہتے ہیں کہ ’’وہو
ایضا ً مما یدل علی تأخیر بناء المسجد حتی شہدہ عمر وبن العاص وابنہ عبداللہ ‘‘
(ابو ہریرہ ؓ کی حدیث کی طرح)یہ حدیث بھی مسجد نبوی کی تعمیر ثانی پر دلالت کرتی ہے
،یہاں تک کہ اس تعمیر میں عمر وبن عاص اور ان کے بیٹے عبداللہ شریک تھے ۔ (فتح الباری لابن رجب : ج:۳ص: ۳۰۷) نیز اس روایت میں مسجد سے
مراد مسجد نبوی ہے ،جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے صراحت کی ہے۔ (فتح الباری ج:۱ص:۵۴۲)
لہذا یہ ساری تفصیلات سے معلوم
ہوا کہ مسجد نبوی کی تعمیر دو مرتبہ ہوئی تھی ،اور دوسری مرتبہ کی تعمیر میں ابو ہریرہ ؓ ،عمر وبن العاص ؓاور ان کے بیٹے
عبد اللہ ؓشامل تھے۔
دوسر ی مرتبہ کہ تعمیر میں ہی طلق بن علی ؓ آئے تھے :
اما م ابن حبان ؒ (م ۳۵۴ھ)
نے جن روایات کو پیش فرماکر طلق بن عدی ؓ کی روایت کو منسوخ کہا ہے ،ان میں ایک میں
ذکر ہے کہ
’’وأخبرناہ أن
بأرضنا بیعۃ لنا ،واستوہبناہ من فضل طہورہ ،فدعا بماء فتوضأ منہ وتمضمض ،وصب لنا
فی اداوۃ ‘‘
طلق بن علی ؓ کہتے ہیں کہ
ہم نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں ایک گرجا گھر
ہے ہم نے آ سے یہ درخواست کی کہ آپ ﷺ اپنے وضو کے بچا ہوا پانی ہمیں عنایت فرمائیں
! تو آپنے وضو کا پانی منگوایا ،اس سے وضو کیا
اور کلی کی ،پھر آپ ﷺ نے ہمارے لئے
اس کو ایک برتن میں انڈیل لیا اور آگے اسی روایت میں ہے کہ آپﷺ نے اس گرجا گھر کو
توڑ کر اسے اس پانی سے دھو کر ،اسے مسجد بنا نے کا حکم دیا۔الفاظ یہ ہیں، ’’اذہبو
ا بہذا الماء فاذا قدمتم
بلدکم فاکسروا بیعتکم ،ثم انضحو ا مکانہا من ہذا الماء ،واتخذوا مکانہا
مسجدا‘‘ ۔ (صحیح ابن حبان حدیث نمبر :۱۱۲۳،واسنادہ
صحیح)
حالانکہ یہ روایت مختصر ہے
،جبکہ تفصیلی اور مکمل روایت طبقات ابن سعد میں موجود ہے۔امام ابن سعدؒ (م۲۳۰ھ) فرماتے
ہیں کہ :
قال : أخبرنا محمد بن
عمر الاسلمی قال : حدثنی الضحاک بن عثمان عن یزید بن رومان ،قال محمد بن سعد :
وأخبرنا علی بن محمد القرشی عم من سمی من رجا لہ
قالوا :قدم وفد بنی حنیفۃ علی رسول اللہ ﷺ بضعۃ عشر رجلا فیہم رحال بن
عنفوۃ وسلمی بن حنظلۃ السحیمی ،وطلق بن علی بن قیس،وحمران بن جار من بنی شمر ،وعلی
بن سنا ن ،والأفعس بن مسلمۃ ،وزیدبن عبد عمرو ،ومسیلمۃ بن حبیب ،وعلی الوفد سلمی
بن حنظلۃ ،فأنزلوا دار رملۃ بنت الحارث ۔فأجریت علیہم ضیافۃ ،فکانو ا یؤتون
بغداء وعشاء مرۃ خبزا ولحما ومرۃ خبزا ولبنا ومرۃ خبزا خبزا وسمنا وتمرا نثر لہم
۔فأتو ا رسول اللہ ﷺ فی المسجد فسلموا
علیہ وشہدو ا شہادۃ الحق ۔وخلفوا مسیلمۃ فی رحلہم ،وأقاموا أیاماً یختلفون الی
رسول اللہ ﷺ وکان رحال بن عنفوۃ یتعلم القرآن من أبی بن کعب ،فلما أرادوا
الرجوع الی بلادہم أمر لہم رسول اللہ ﷺ بجوئزہم خمس أواق لکل رجل ،فقالو ا یا
رسول اللہ انا خلفنا صاحبا لنا فی رحالنا
یبصرہا لنا ،وفی ر کابنا یحفظہا علینا ،فأمر لہ رسول اللہ ﷺ [بمثل ما أمر بہ
لاصحابہ وقال : لیس بشرکم مکانا لحفظہ رکابکم ورحالکم ]،فقیل ذلک لمسیلمۃ فقال :
عرف أن الامر الی من بعدہ ۔ورجعوا الی الیمامۃ وأعطاہم رسول اللہ ﷺ اداوۃ من ماء
فیہا فضل طہور ،فقال : اذا قدمتم بلدکم فاکسروا بیعتکم وانضحوا مکانہا بہذاا لماء
واتخذوا مکانہا مسجدا ،ففعلوا ۔وصارت الاداوۃ عند الافعس بن مسلمۃ ،وصار المؤذن
طلق بن علی ۔فأذن فسمعہ راہب البیعۃ فقال : کلمۃ حق ودعوۃ حق ۔وہرب ۔فکان آخر
العہد بہ ۔
(خلاصہ یہ ہے کہ)یزید بن رومان ؒ کہتے ہیں کہ
بنو حنیفہ کے دس سے کچھ زیادہ آدمیوں کا ایک وفد حضور ﷺ کے پاس آیا ،جن میں رحال
بن عنفوہ ،سلمہ بن حنظلہ السہیمی ،طلق بن علی بن قیس ،اور بنی شمر میں سے صرف حمران
بن جابر ،علی بن سنا ن ،افعس بن مسلمہ ،زید
بن عبد عمر و اور ،مسیلمہ بن حبیب الکذاب تھا ،اس وفد کے رئیس سلمی بن حنظلہ تھے ۔یہ
لوگ رملہ بنت حارث کے مکان پر ٹھہرائے گئے ،اور مہمان نوازی کی گئی ،ان لوگوں کو دونوں
وقت کا کھانا دیا جاتا تھا۔یہ لوگ مسجد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،سلام
کی اور حق کی شہادت دی ،(حضور ﷺ کے پاس) آتے ہوئے مسیلمہ کو اپنے کجاوے میں چھوڑ گئے
تھے ،چند روز مقیم رہ کر نبی ﷺ کی خدمت میں آمد ورفت کرتے رہے ،رحال ابی بن کعب ؓ
سے قرآن کا درس لیتے رہے ، واپسی کا اردہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے ہر شخص کو ۵،۵اوقیہ انعام دینے کا حکم دیا
۔پھر یہ لوگ یمامہ واپس گئے رسول اللہ ﷺ نے ان کو پانی کا ایک برتن عطا فرمایا ،جس
میں آپ ﷺ کے وضو کا بچا ہوا پانی تھا اور
فرمایا کہ جب اپنے وطن جانا تو گرجا گھر توڑ ڈالنا ،اس جگہ پراس پانی کو چھڑکنا ،اور
پھر وہاں اس جگہ پر مسجد بنا دینا ۔ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور برتن افعس بن مسلمہ
کے پاس رہا ،طلق بن علی مؤذن ہوئے اور انہوں نے اذان دی ،اس گجا گھر کے راہب نے اذان سنی اور کہا کہ حق کی دعوت ہے اور بھاگ
کھڑا ہوا اور یہ اس کا آخری زمانہ تھا ۔(طبقات ابن سعد ج:۱ص: ۲۴۰)
تنبیہ :
اس روایت میں اگرچہ محمد بن
عمر الاسلمی ؒ (م۲۰۷ھ)
ضعیف ہیں ،جوکہ مؤرخ واقدی ؒ کے نام سے مشہور ہیں ،لیکن ابن سعد ؒ نے ان کے متابع
میں امام علی بن محمد ابو الحسن المدائنی ؒ(م۲۲۵ھ،ثقہ
) کو ذکر کیا ہے۔لہذا ثقہ متابع ہونے کی وجہ سے اس روایت میں مؤرخ واقدی ؒ پر جرح
بیکا ر ہے اور واقدی کی سند کے باقی رواۃ بھی ثقہ ہیں ،لہذا یہ سند حسن درجے کی ہے
،اور اس کی مزید تائید ابن حبان کی صحیح روایت سے بھی ہوتی ہے ،جسکا ذکر پہلے گزر چکا
،لہذا یہ روایت اپنے شاہد کے ساتھ مل کر اور بھی قوی ہوجاتی ہے ۔
اس روایت میں موجود ہے کہ
طلق بن علی ؓ کے وفد میں مسیلمہ کذاب بھی موجود تھا ۔اور امام ابن ہشام ؒ کی تحقیق
یہ ہے کہ مسیلمہ ( ۹ھ )
میں حضور ﷺ کے پاس آیا تھا ۔(سیرت ابن ہشام ج:۲ص: ۵۷۶) لہذا اس پوری تفصیل سے تین
باتیں معلوم ہوئیں :
۱) امام
ابن حبان ؒ کا قول کہ طلق بن علی ؓ ہجرت کے پہلے سال میں آئے تھے یہ قول صحیح نہیں
ہے ۔
۲) مسجد
نبوی کی دو مرتبہ تعمیر ہوئی تھی اور تعمیر ثانی میں طلق بن علی ؓ آئے تھے ۔
۳) اس
حدیث سے الٹا یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابو ہریرہ
ؓ پہلے کی ہے اور طلق بن علی ؓ بعد کی ہے
۔یعنی پوری روایت سامنے آنے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث
(جس میں شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو کرنے کا ذکر ہے ) وہ منسوخ ہے اور طلق بن علی
ؓ کی حدیث ناسخ ہے۔کیونکہ طلق بن علی ؓ کا وفد حضرت ابو ہریرہ ؓ کے اسلام لانے کے بعد
آیاتھا ،جیساکہ تفصیل سے وضح ہوتا ہے ۔
حضرت طلق بن علی ؓ کی حدیث کے ناسخ ہونے پر مزید بحث :
درج ذیل وجوہات کی وجہ سے
بھی طلق بن علی ؓ کی حدیث کو ترجیح حاصل ہے ،جن سے ان کی حدیث کا ناسخ ہونا معلوم ہوتاہے
۔
- ’’الوضوء
مما یخرج ولیس ممایدخل ‘‘ والی حدیث سے طلق بن علی ؓ کی تائید ہوتی ہے ۔(دیکھئے
ص :۱۸۲ )
- خود
ابو ہریرہ ؓ سے بھی شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو کا نہ ٹوٹنا
ثابت ہے ۔
- جمہور
صحابہ ؓ اسی کے قائل ہیں کہ شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوتتا جسکی تفصیل آگے آرہی ہے ۔
اعتراض نمبر۲:
ابو صہیب داؤد ارشد صاحب
کہتے ہیں کہ اسکی سند میں بھی جرح ہے ،اور پھر موصوف نے طلق بن علی ؓ کے بیٹے قیس بن
طلق ؓ پر جرح کی ہے ۔(حدیث اور اہل حدیث
ج:۱ص:۲۶۷)
الجواب :
ہم نے ابتداء میں ہی امام ابن معین ؒ ،اما م عجلی ؒ،امام ابن حبان ؒ ،امام احمد
بن حنبل ،اور امام ابن عبدالہادی ؒ وغیرہ کے حوالے ان سے ان کا ثقہ ہونا ثابت کیا ہے
۔ان کی حدیث کو جمہور فقہاء اور محدثین نے صحیح کہا ہے ،اور غیر مقلدین کا اصول گزر
چکا ہے کہ حدیث کی تصحیح وتوثیق اس حدیث کے تمام راویوں کی توثیق ہوتی ہے، لہذا ثابت
ہوا کہ وہ جمہور کے نزدیک وہ ثقہ ہیں ،لہذا ابو شعیب صاحب کاان پر جرح کرنا باطل ومردود
ہے ۔
اعترا ض نمبر۳ :
داؤد ارشدصاحب لکھتے ہیں کہ حدث طلق بن علی ؓ مضطرب ہے ۔امام طبرانی ؒ نے طلق بن علی ؓ کی حدیث
ان الفاظ سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو بھی اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے وہ
وضو کرے ۔سند ضعیف ہے ۔(حدیث اور اہل تقلید ج:۱ص:۲۶۷)
الجواب :
تعجب ہے کہ سند کو ضعیف بھی
کہتے ہیں اور حدیث کو مضطرب بھی مانتے ہیں ۔حالانکہ خود ان کے فرقے کے عالم کفایت اللہ
کی سنابلی صاحب مضطرب حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’اضطراب اس وقت تسلیم کیا جاتا
ہے جب ترجیح کی کوئی صورت نہ ہو ،لیکن اگر ترجیح کی صورت موجود ہو تو اضطراب کا دعوی
مردود ہے ۔نیز کفایت اللہ صاحب امام نووی
ؒ کے حولے سے لکھتے ہیں کہ مضطرب وہ حدیث ہے جو مختلف طرق سے مروی ہو ،جو آپس میں
ہم پلہ ہوں(یعنی روایت کی صحت میں برابر ہوں )اور اگر دو روایتوں میں ایک روایت راجح
قرار پائے ،اس کے راوی کے احفظ ہونے کے سبب یا مروی عنہ کے ساتھ کسی راوی کی کثرت صحبت
کے سبب یا کسی اور وجہ سے ،توحکم راجح روایت کے اعتبار سے لگے گااور ایسی صورت میں
یہ روایت مضطرب نہیں رہے گی ۔(مسنون تراویح ص: ۵۶)اور یہاں پر ترجیح یہ ہے کہ
ہماری طلق بن علی کی روایت صحیح سند سے ہے اور امام طبرانی ؒ کی نقل کردہ روایت ضعیف
ہے ،جس کا اقرار خود ابو صہیب صاحب نے کیاہے ۔
لہذا خود فرقہ اہل حدیث کے
اصول سے ابوشعیب صاحب کا اعتراض باطل ومردود ہے ۔
[3] حدیث
کے رواۃ کی تحقیق یہ ہے : امام عبدالرزاق ؒ (م ۲۱۱ھ)
صحیحین کے راوی ہیں اور مشہو ر ثقہ اور حافظ الحدیث ہیں ۔( تقریب رقم : ۴۰۶۴)،امام سلیمان بن مہران الاعمش
ؒ (م ۱۴۸ھ)بھی
صحیحین کے راوی ہیں (تقریب رقم : ۲۶۱۵)
منہال بن عمر الکوفی ؒبھی صحیح بخاری کے راوی ہیں ،اور جمہور
کے نزدیک ثقہ ،صدوق راوی ہیں ،(تقریب رقم : ۶۹۱۸،تہذیب التہذیب ج: ۱۰ ص:
۳۲۱،الکاشف
) قیس بن سکن ؒ صحیح مسلم کے راوی ہیں اور ثقہ
ہیں ۔(تقریب رقم : ۵۵۷۸)
معلو م ہوا کہ اس کی سند بالکل صحیح ہے
۔
نوٹ :
اس روایت میں امام اعمش ؒ نے’ معنعن‘ کیا
ہے۔ ،لیکن ان کی ’ معنعن‘ جمہور کے نزدیک مقبول
ہے ۔ (دیکھئے ص : ۲۳۸) اور پھر ان کی متابعت بھی موجود ہے جو کہ آگے آرہی
ہے۔لہذا اس روایت میں ان پرتدلیس کا اعتراض ہی مردود ہے۔
[4] امام
ابو بکر بن ابی شیبہ ؒ (م ۲۳۵ھ)
،جریر بن عبدالحمید ؒ (م ۱۸۸ھ)
اور قابوس کے والد ابو ضبیان ؒ (م ۹۰ھ)
صحیحین کے رواۃ ہیں اور ثقہ ہیں ۔(تقریب رقم : ۱۳۶۶،۹۱۶،۳۵۷۵)اور
قابوس بن ابی ضبیان ؒ بھی جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ۔ابن ابی مریم ،ابن ابی خیثمہ ،عباس
الدوری ،یزید ابن الہیثم اور طہمان کہتے ہیں کہ ابن معین ؒ نے قابوس کو ثقہ کہا ہے۔
(موسوعۃ الاقوال امام یحی بن معین ج: ۴ص: ۳۷،المختلف
فیہم لابن شاہین ص: ۶۲،۶۳)،امام
ابن عدی ؒ کہتے ہیں کہ ان کی طرف رجوع کرو کہ ان میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔امام یعقوب
بن سفیان ؒ انہیں ثقہ کہتے ہیں ۔،امام عجلی ؒ نے بھی انہیں ثقات میں شما ر کیا ہے اور
کہا کہ ان میں کوئی خرابی نہیں ہے ،امام حاکم ؒ نے بھی انہیں ثقات میں شمار کیا ہے
۔(تہذیب التہذیب ج : ۸ص:
۳۰۶،معرفۃ
العلوم للحاکم ص: ۲۴۰)،امام
ہیثمی ؒ (م ۸۰۷ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’ثقۃ وفیہ ضعف ‘‘
ثقہ ہیں اور ان میں کچھ کمزوری ہے ۔اور ایسا راوی غیر مقلدین کے نزدیک حسن الحدیث ہے۔(مجمع
الزوائد حدیث نمبر:۹۷۳۲،نماز
میں ہاتھ باندھنے حکم اور مقام ص: ۳۴)،پھر
امام ابن الجارود ؒ (م ۳۰۷ھ)،امام
ابن خزیمہ ؒ (م۳۱۱ھ)
،امام ضیاء الدین مقدسی ؒ (م۶۴۳ھ)
،امام ترمذی ؒ (م ۲۷۹ھ)
،حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (م ۸۵۲ھ)،امام
عبدالحق اشبیلی ؒ (م ۵۸۱ھ)
وغیرہ نے ان کی حدیث کو صحیح یا حسن کہا ہے ۔(المنتقی لابن الجارود رقم الحدیث
: ۱۱۰۷،صحیح
ابن خزیمہ حدیث نمبر: ۸۶۵،احادیث
المختارہ ج:۹ص:
۵۳۱،سنن
ترمذی حدیث نمبر : ۲۹۱۳،۳۱۳۹،مطالب
العالیہ ج:۲ص:
۴۳۹،موافقات
الخبر لابن حجر ج:۲ص:۲۴،احکام الوسطی ج:۳ص: ۱۱۷)،غیر
مقلد عالم زکریا بن غلام قاد ر کہتے ہیں کہ قابوس میں کوئی خرابی نہیں ہے اور اس میں
کچھ کمزوری ہے۔ (ما صح من آثار الصحابۃ فی الفقہ ج: ۳ص: ۱۱۰۲) امام
ابن شاہین ؒ (م ۳۸۵ھ)نے
بھی انہیں ثقات میں شمار کیا ہے۔ (تاریخ
اسماء الصفات ص:۱۹۲) لہذا معلوم ہواکہ قابوس ؒ
جمہور کے نزدیک ثقہ اور حسن الحدیث ہیں ۔جس
کی وجہ یہ سند حسن درجے کی ہے ۔
[5] اس
حدیث کے تمام رواۃ ثقہ ہیں ،مگر حارث الاعور ؒ ضعیف ہیں ،لیکن چونکہ ابو ضبیان ؒ ان
کے متابع میں موجود ہیں،اس لئے ان کا ضعف اس
روایت میں ختم ہوجاتا ہے ،ابو اسحٰق السبیعی ؒ کے متابع میں قابوس ؒ ہونے کی وجہ سے
ان پر تدلیس کا الزام بھی مردودہے اور امام سفیان ثوریؒ نے ان سے ان کے اختلاط سے پہلے
روایت لی ہے ۔(المختلطین للعلائی ص: ۹۴) لہذا یہ روایت بھی متابعات
کی وجہ سے حسن ہے ۔
[6] اس حدیث کے تمام رواۃ
ثقہ ہیں ،البتہ یہ روایت مرسل ہے اورمرسل روایت جمہور کے نزدیک حجت ہے ،پھر امام ابراہیم
النخعی ؒ کی مراسیل کو جمہور محدثین نے بھی صحیح اور حجت قرار دیا ہے ،جس کی تفصیل
ص:۲۵۱پر موجود ہے ۔
[7] اس
کی سند میں سلیمان بن شعیب سے مراد سلیمان بن شعیب ابو محمد المصری ؒ ہیں ،جو کہ ثقہ
ہیں (تاریخ الاسلام ج:۶ص:۵۵۵) اسی طرح عبدالرحمن سے مراد
عبدالرحمن بن محمدبن زیاد المحاربی ؒ (م۱۹۵ھ)
ہیں جوکہ صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں
۔(تقریب رقم:۳۹۹۹) لہذا
اس کی سند حسن ہے ۔
[8] اس روایت میں طلحۃ
بن عمر و المکی ؒ پر کلام ہے۔ اسی
شرح معانی الآثار ج:۱ص: ۷۷،حدیث نمبر: ۴۷۳ کی سند میں شعبۃ مولی ابن
عباس
پر بھی کلام ہے۔لیکن اس سے پہلے ۲ حسن
درجہ کی سندیں گزرچکی جس سے ان
دونوں راویوں کی روایت کی تائید ہوتی ہیں۔لہذا ان دونوں(شعبۃ مولی ابن
عباس، طلحۃ
بن عمر و المکی) کے ضعف سے روایت کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
[9] اس
کی سند میں کثیر سے مراد ابن عمر ؓکے شاگرد کثیر بن افلح المدنی ؒ ہیں جوکہ ثقہ ہیں
۔(مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر :۵۶۰۶) لہذا اس کی سند صحیح ہے ۔واللہ اعلم
[10] تفصیل
ص: ۱۸۲ پر موجود ہے ۔
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں