نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

عورتوں کے مسجد نہ جانے کے سلسلہ میں صحابہ کرام ؓ اور سلف صالحین کے ارشادات

 

عورتوں کے مسجد نہ جانے کے سلسلہ میں صحابہ کرام ؓ اور سلف صالحین کے ارشادات

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

 سکین کیلئے 
الاجماع (PDF ) دیکھیں

صحابہ کرام  ؓ نے حضور ﷺ کے حکم سے عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکا تھا، جس کی تفصیل ہم نے پہلے بیان کردی ہے ،  اب عورتوں کے مسجد نہ جانے کے سلسلہ میں صحابہ کرام ؓ اور سلف صالحین کے ارشادات ملاحظہ فرمائیے :

۱۔ حضرت عائشہ ؓ (م ۵۸؁ھ) کا ارشاد:

ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ طاہرہ صدیقہ ؓ   ۵۸؁ھ) بیان کرتی ہیں کہ :

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ

 عورتوں نے زیب وزینت اور خوبصورتی کی نمائش کا جو طریقہ ایجاد کرلیا ہے ، اگر رسول اللہ ﷺ اسے ملاحظہ کرلیتے ، تو انہیں مسجدوں سے ضرور روک دیتے ، جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئیں تھیں۔

حضرت عائشہ ؓ کا ایک اور ارشاد :

حضرت عائشہؒ سے روایت ہے کہ :

حَدَّثَنَا الْحَكَمُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الرِّجَالِ، فَقَالَ أَبِي: يَذْكُرُهُ عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ‘‘لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللهِ مَسَاجِدَ اللهِ، وَلْيَخْرُجْنَ تَفِلَاتٍ ” قَالَتْ عَائِشَةُ: وَلَوْ رَأَى حَالَهُنَّ الْيَوْمَ مَنَعَهُنَّ۔

حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکواور وہ گھروں سے اس حالت میں نکلیں کہ ان کے کپڑوں سے بو آتی ہو۔

حضرت عائشہؓ آگے بیان کرتی ہیں کہ اگر حضور ﷺ آج کے حالات دیکھ لیتے (کہ عورتیں خراب کپڑوں کو چھوڑ کر ، کیسے زیب وزینت والے لباس اور زینت والی چیزیں استعمال کر رہی ہیں )، تو آپ ﷺ عورتوں کو مسجد آنے سے روک دیتے۔  (مسند احمد : حدیث نمبر ۲۴۴۰۶، واسنادہ صحیح ورجالہ کلہم ثقات)

اس قول سے بھی معلوم ہو رہا ہے کہ حضورﷺ کی وفات کے بعد ، عورتوں نے حضور ﷺ کی مقرر کی ہوئی شرطوں کی جو خلاف ورزی کی ہے، حضرت عائشہ ؓ اس کا ذکر رہی ہیں اور یہ بتا رہی ہیں کہ اب اس زمانے میں عورتوں کا نماز کیلئے مسجد آنا  درست نہیں ہیں۔

حضرت عائشہؓ کے ارشاد پر غیر مقلدین کے وسوسہ واعتراض کا جواب  ص : ۱۸۳  پر موجود ہے ۔

۲۔ حضرت عمر بن الخطاب ؓ (م ۲۲؁ھ) اور حضرت زبیر بن العوام ؓ (م ۳۶؁ھ) نے بھی اس بات کو ناپسند کیا کہ عورتیں مسجد میں جاکر نماز پڑھیں ، تفصیل یہاں ص : ۱۷۲  پر موجود ہے :

 

۳۔ فقیہ الصحابہ ، ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن مسعود ؓ (م ۳۲؁ھ) کا فرمان :

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ :

’’  قَالَ: ” كَانَ الرِّجَالُ، وَالنِّسَاءُ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ يُصَلُّونَ جَمِيعًا، فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا كَانَ لَهَا الْخَلِيلُ تَلْبَسُ الْقَالَبَيْنِ تَطَوَّلُ بِهِمَا لِخَلِيلِهَا، فَأَلْقَى الله عَلَيْهِنَّ الْحَيْضَ، فَكَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَقُولُ: أَخِّرُوهُنَّ حَيْثُ أَخَّرَهُنَّ اللهُ

               بنی اسرائیل کے مردوعورت اکٹھا نماز پڑھا کرتے تھے، جب کسی عورت کا کوئی آشنا(محبوب) ہوتا، تو کھڑاؤں پہن لیتی تھی، جس سے وہ لمبی ہوجاتی اپنے آشنا کو دیکھنے کیلئے (تو ان کی نازیبا حرکت پر بطور سزا کے ) ان پر حیض مسلط کردیا گیا، (یعنی حیض کی مدت دراز کردی گئی) اور اس حالت میں مسجد میں آنا حرام قرار دیا گیا ۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اس کو بیان کرنے کے بعد فرماتے تھے کہ ان عورتوں کو نکالو جہاں سے اللہ نے ان کو نکالا ہے ۔  (صحیح ابن خزیمہ : حدیث نمبر ۱۷۰۰، امام ابن خزیمہ ؒ نے صحیح اور موقوف ، امام ابن حجر عسقلانی ؒ نے صحیح اور امام ہیثمی ؒ نے اس کے رجال کو صحیحین کے رجال قرار دیا ہے ، فتح الباری : جلد ۲ : صفحہ ۳۵۰، مجمع الزوائد : حدیث نمبر ۲۱۲۰، واللفظ لہ )

حضرت ابن مسعود ؓ نے نہایت واضح اور صاف طور پر بیان کیا کہ جس جگہ (یعنی مسجد) سے اللہ نے ان عورتوں نکال دیا (اللہ کے حکم کی اتباع میں ، اے لوگو) تم بھی وہاں سے (یعنی مسجدوں سے ) عورتوں کو نکال دو۔

صرف اتنا ہی نہیں ، بلکہ ایک روایت میں حضرت ابو عمرو الشیبانی ؒ (م ۹۶؁ھ)فرماتے ہیں کہ : ’’ رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يُخْرِجُ النِّسَاءَ مِنَ الْمَسْجِدِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ‘‘ میں نے ابن مسعود ؓ کو دیکھا کہ آپ ؓ عورتوں کو کنکریاں مار کر مسجد سے باہر نکال رہے تھے ۔ ( مسند ابن الجعد : حدیث نمبر ۴۲۷، واللفظ لہ، امام ہیثمی ؒاور امام بوصیریؒ نے اس کے رجال کو ثقہ فرمایا ہے، امام ابن حجرؒ نے صحیح اور امام منذری ؒ نے اس کی سند کے بارے میں فرمایا کہ اس میں خرابی نہیں ہے، مجمع الزوائد :حدیث نمبر ۲۱۱۹، اتحاف الخیرۃ المہرۃ للبوصیری : حدیث نمبر ۱۵۱۵، المطالب العالیۃ : جلد ۴ : صفحہ ۶۵۳، حدیث نمبر ۶۸۵، الترغیب والترہیب : جلد ۱: صفحہ ۱۴۲، حدیث نمبر ۵۱۶)

۴۔ حضرت ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن عمرؓ(م ۷۴؁ھ)کا عمل:

امام عینی ؒ (م ۸۵۵؁ھ)فرماتے ہیں کہ :

’’كَانَ ابْن عمر، رَضِي الله تَعَالَى عَنْهُمَا، يقوم يحصب النِّسَاء يَوْم الْجُمُعَة يخرجهن من الْمَسْجِد۔‘‘ ابن عمرؓ جمعہ کے دن ،کھڑے ہوکر ، عورتوں کو کنکریاں مار کر، انہیں مسجد سے  باہر نکالتے تھے ۔ (عمدۃ القاری : جلد ۶ : صفحہ ۱۵۷) اس روایت کی سند نہیں ملی، لیکن اس کی تائید دوسری صحیح روایت سے ہوتی ہے ، مثلا:

امام نافعؒ  (م ۱۷۷؁ھ) فرماتے ہیں :

’’ عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ لَا يُخْرِجُ نِسَاءَهُ فِي الْعِيدَيْنِ‘‘ ابن عمرؓ اپنی عورتوں کو عیدین میں نہیں لے جاتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر : ۵۸۴۵،  واللفظ لہ ، صحیح )

ابن عمرؓ سے ایک اور روایت ہے کہ :  ’’ كَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ يُخْرِجُ إِلَى الْعِيدَيْنِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْ أَهْلِهِ.‘‘ آپ ؓ اپنی عورتوں میں جن کو باہر نکالنے کی گنجائش دیکھتے، اس کو نکالتے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ :حدیث نمبر ۵۸۳۷، واللفظ لہ ، صحیح )

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عورتوں میں جن کو باہر نکالنے کی گنجائش ہوتی، یعنی اس سے مراد بوڑھی عورتیں ہیں ، کیو نکہ ان سے فتنہ کا اندیشہ کم ہوتا ہے ۔  معلوم ہوا کہ ابن عمرؓ کے نزدیک بھی جوان اور خوبصورت عورتوں کا مسجد جانا درست نہیں ہے ۔

۵۔ امام المفسرین ، عبد اللہ بن عباس ؓ (م ۶۸؁ھ ) کا فتویٰ :

حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ :

’’ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْهُ عَنِ الصَّلاَة فِي الْمَسْجِدِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ؟ فَقَالَ : صَلاَتُكِ فِي مَخْدَعِكِ أَفْضَلُ مِنْ صَلاَتِكِ فِي بَيْتِكِ ، وَصَلاَتُكِ فِي بَيْتِكِ أفْضَلُ مِنْ صَلاَتِكِ فِي حُجْرَتِكِ ، وَصَلاَتُكِ فِي حُجْرَتِكِ أَفْضَلُ مِنْ صَلاَتِكَ فِي مَسْجِدِ قَوْمِك‘‘ ایک عورت نے جمعہ کی نماز مسجد میں پڑھنے کے بارے میں ان سے پوچھا، حضرت ابن عباس ؓ جواب میں انہیں اجازت دینے کے بجائے یہ فرمایا:

تیری کوٹھری کی نماز ، تنگ کمرے کی نماز سے بہتر ہے ، تیرے تنگ کمرے کی نماز ، کھلے کمرے کی نماز سے بہتر ہے، تیری کھلے کمرے کی نماز مسجد کی نماز سے بہتر ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۷۶۹۷،  واسنادہ حسن )

غور فرمائیے ! ابن عباس ؓ بجائے اجازت دینے کی اس خاتون کو فرمارہے ہیں کہ تیرا گھر میں ظہر کی نماز پڑھ لینا زیادہ بہتر ہے ۔  اس سے معلوم ہورہا ہے کہ ابن عباسؓ کے نزدیک بھی پسندیدہ یہی ہے کہ عورت بجائے مسجد کے اپنے گھر ہی میں نماز پڑھے۔

۶۔ امام عبد الرحمن بن القاسم ؒ (م ۱۲۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

’’ قَالَ : كَانَ الْقَاسِمُ أَشَدَّ شَيْءٍ عَلَى الْعَوَاتِقِ ، لاَ يَدَعُهُنَّ يَخْرُجْنَ فِي الْفِطْرِ وَالأَضْحَى ‘‘ امام قاسم بن محمد بن ابو بکر صدیقؒ (۱۰۶؁ھ) جوان عورتوں کے بارے میں سخت تھے ، وہ ان کو عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے لئے نہیں نکلنے دیتے تھے ۔( مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۵۸۴۷،  واسنادہ صحیح )

۷۔ امام حسن البصری ؒ (م ۱۱۰؁ھ)سے پوچھا گیا:

’’ سُئِلَ الْحَسَنُ عَنِ امْرَأَةٍ جَعَلَتْ عَلَيْهَا إِنْ أُخْرِجَ زَوْجُهَا مِنَ السِّجْنِ أَنْ تُصَلِّيَ فِي كُلِّ مَسْجِدٍ تُجَمَّعُ فِيهِ الصَّلاَة بِالْبَصْرَةِ رَكْعَتَيْنِ ، فَقَالَ الْحَسَنُ : تُصَلِّي فِي مَسْجِدِ قَوْمِهَا فَإِنَّهَا لاَ تُطِيقُ ذَلِكَ لَوْ أَدْرَكَهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لأَوْجَعَ رَأْسَهَا۔‘‘ ایک عورت کے بارے میں جس نے یہ نذر مان رکھی تھی کہ اگر اس کے شوہر کو جیل سے رہائی مل جائے، تو وہ بصرہ کی ہر اس مسجد میں دو نفل پڑھے گی ، جس میں باجماعت نماز ہوتی ہے ۔

حضرت حسن البصری ؒ نے فرمایا کہ وہ اپنے محلہ کی مسجد میں دو رکعت ادا کرکے اپنی نذر پوری کرے ، کیونکہ بصرہ کی ہر مسجد میں جاکر نماز پڑھنے کی (شرعاً) طاقت نہیں ، نیز حسن البصری ؒ فرماتے ہیں کہ اگر عمر بن الخطاب ؓ اس (نذرماننے والی ) عورت کو پالیتے ، تو ضرور اس کو سزا دیتے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: حدیث نمبر ۷۷۰۰،  اسنادہ صحیح )     اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ عورت کو مسجد جانا درست نہیں ہے ۔

۸۔ امام ، الحافظ ، المجتہد، ابراہیم النخعیؒ (م ۹۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

’’ قَالَ : كُرِهَ لِلشَّابَّةِ أَنْ تَخْرُجَ إلَى الْعِيدَيْنِ۔‘‘ جوان لڑکیوں اور عورتوں کا عیدین کیلئے نکلنا مکروہ ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۵۸۴۸،  واسنادہ صحیح)

اسی طرح ایک اور روایت میں امام اعمش ؒ (م ۱۴۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ :  ’’عَنْ إبْرَاهِيمَ ، قَالَ : كَانَ لإِبْرَاهِيمَ ثَلاَثُ نِسْوَةٍ فَلَمْ يَكُنْ يَدَعُهُنَّ يَخْرُجْنَ إلَى جُمُعَةٍ ، وَلاَ جَمَاعَةٍ.‘‘ امام ابراہیم النخعیؒ کی تین بیویاں تھیں اور ان میں سے کسی ایک نے بھی محلہ کی مسجد نماز نہیں پڑھی۔  (مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث ۷۷۰۳، واسنادہ صحیح)

۹۔ امام ابن جریجؒ(م۱۵۰  ؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

’’عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: أَيَحِقُّ عَلَى النِّسَاءِ إِذَا سَمِعْنَ الْأَذَانَ أَنْ يُجِبْنَ كَمَا هُوَ حَقٌّ عَلَى الرِّجَالِ؟ قَالَ: لَا لَعَمْرِي‘‘ میں نے امام عطاء بن ابی رباح ؒ (م۱۱۴؁ھ) سے پوچھا  ہے کہ جیسے مردوں کیلئے یہ حق ثابت ہے کہ جب وہ اذان سنیں ، تو مسجد میں حاضر ہوں، کیا عورتوں کیلئے بھی یہ ثابت ہے ؟ امام عطاء ؒ نے قسم کھاکر فرمایا کے ان کیلئے ثابت نہیں ۔  (مصنف عبد الرزاق : حدیث نمبر ۵۱۰۶،  واسنادہ صحیح)

۱۰۔امام سفیان الثوریؒ (م ۱۶۱؁ھ) فرماتے ہیں :

 ’’عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ: أَنَّهُ كَرِهَ اليَوْمَ الخُرُوجَ لِلنِّسَاءِ إِلَى العِيدِ‘‘ کہ اس زمانہ میں عورتوں کا عید کیلئے نکلنا مکروہ ہے ۔ (سنن ترمذی : حدیث نمبر ۵۴۰)

۱۱۔ امام ہشام بن عروۃ ) م ۱۴۶؁ھ)  فرماتے ہیں کہ :

 ’’ عَنْ أَبِيهِ ؛ أَنَّهُ كَانَ لاَ يَدَعُ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِهِ تَخْرُجُ إِلَى فِطْرٍ ، وَلاَ إِلَى أَضْحَى.‘‘ امام عروہ ؒ (م۹۴؁ھ) اپنی کسی عورت کو عید الفطر اور عید الاضحیٰ کیلئے نکلنے کا موقع نہیں دیتے تھے ۔  (مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۵۸۴۶،  واسنادہ صحیح )

۱۲۔ امام ابراہیم النخعی (م ۹۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

’’قَالَ : كَانَ لِعَلْقَمَةَ امْرَأَةٌ قَدْ خَلَتْ فِي السِّنِّ تَخْرُجُ إِلَى الْعِيدَيْنِ.‘‘ امام علقمہ ؒ (م۷۰؁ھ) کی اہلیہ جو بوڑھی ہوچکی تھیں ، عیدین کیلئے نکلتی تھیں ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۵۸۴۰، واسنادہ صحیح )  معلوم ہوا کہ امام علقمہ ؒ کے نزدیک بھی جوان عورتوں کو نماز کیلئے نکلنے کی اجازت نہیں ہے ۔

اور یاد رہے کہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد کسی ایک صحابی سے بھی یہ صحیح سند سے ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے جوان عورتوں کو نماز کیلئے مسجد یا عیدین آنے کی اجازت دی ہو۔

وضاحت:

             جو حضرات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اہل حدیث فرقہ صحابہ کے زمانہ سے ہے، ان کو کم سے کم یہ تو ثابت کرنا چاہیے تھا کہ حضور ﷺ کے بعد حضرت عائشہ ؓ ، ابن مسعودؓ ، ابن عمرؓ اور ابن عباسؓ وغیرہ صحابہ کرام ؓ کے حکم ، ارشادات اور عمل کے بعد ، کیا ایک صحابی نے بھی اپنے گھر کی عورتو ں کو خصوصاً ،جوان عورتوں کو مسجد میں جاکر نماز پڑھنے کی اجازت دی  ؟؟

             لیکن جیسا کہ تفصیل اوپر گزر چکی کہ کسی ایک صحابی سے بھی ثابت نہیں کہ انہوں نے اپنی عورتوں کو مسجد جاکر نماز پڑھنے کی اجازت دی ہو۔

              معلوم ہوا کہ صحابہ کے زمانہ سے فرقہ اہل حدیث کے وجود کا دعویٰ باطل ومردود  ہے اور صحابہ کرام ؓ اس پر متفق تھے کہ عورتیں خصوصاً جوان عورتیں نماز کیلئے مسجد نہ جائیں ۔                                                                                                                                         واللہ اعلم ۔

عورتوں کا (مسجد کے مقابلے میں )اپنے گھر کے اندر نماز پڑھنا افضل اور زیادہ ثواب کاذریعہ ہے۔

              عورت کا مسجد کے مقابلے  میں گھر کے اندر نماز پڑھنا افضل اور  زیادہ باعث ثواب ہے ۔

(۱)              حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : صلا ۃ المرأۃ فی بیتہا افضل من صلاتہا فی حجرتہا ،وصلاتہا فی مخدعہا افضل من صلاتہا فی بیتہا ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :عورت کی گھر کے اندر کی نماز گھر کے صحن کی نماز سے افضل ہے ،اور اس کی گھر کی اندرونی کوٹھری کی نماز گھر کی نماز سے بہتر ہے ۔(مستدرک الحاکم مع تلخیص للذہبی ،جلد ۱ص ۳۲۸،رقم الحدیث ۷۵۷، امام حاکمؒ اور امام ذہبی ؒ نے اس روایت کو شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے ،معجم الکبیر للطبرانی ج۹ص۲۹۵)

              مطلب یہ ہے کہ عورت جس قدر پو شیدہ ہو کر (چھپ کر)نماز پڑھے گی اسی اعتبار سے زیادہ ثواب ملے گا ۔

 (۲)              ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ’’ قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ المرأۃ فی بیتہا خیر من صلا تہا فی حجرتہا وصلاتہا فی حجرتہا خیر من صلاتہا فی دارہا وصلاتہا فی دارہا خیر من صلاتہا فی مسجد قومہا‘‘ حضورﷺ نے فرمایا کہ عورت کی اپنی کوٹھری کی نماز بہتر ہے اس کے بڑے کمرے کی نماز سے ،اور اس کے بڑے کمرے کی نماز بہتر ہے گھر کے صحن کی نماز سے ،اور اس کے صحن کی نما ز بہتر ہے مسجد کی  نماز سے۔ (معجم الاوسط للطبرانی بحوالہ الترغیب والترہیب للمنذری ج ۱ص۱۳۵، امام منذری ؒ اس کی سند کو مضبوط کہتے ہیں)

 (۳)              یہی روایت مختلف الفاظ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ،ان کی روایت کے الفاظ یہ ہیں         ’’ عن عائشۃ قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ المرأۃ فی بیتہا خیر من صلاتہا فی حجرتہا وصلاتہا فی حجرتہا خیر من صلاتہا فی دارہا وصلاتہا فی دارہا خیرمن صلاتہا فی ماوراء ذلک ‘‘۔(التمہید لابن عبدالبر ج۲۳ص۴۰۱واسنادہ حسن بالشواہد )

(۴)              حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’قال رسول اللہ ﷺ :لاتمنعو ا نساء کم المساجد ،وبیوتہن خیر لہن ‘‘ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنی عورتوں کو مسجد میں آنے سے نہ روکو البتہ ان کے گھر ان کے لئے زیادہ بہتر ہیں۔(یعنی مسجدوں میں نماز پڑھنے کے مقابلے میں ان کے لئے گھر میں نماز پڑھنا زیادہ باعث ثواب ہے۔ (مستدرک الحاکم مع تلخیص للذہبی ؒج ۱ص۳۲۷رقم الحدیث ۷۵۵،امام حاکم ؒ اور امام ذہبی ؒ نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے)

 (۵)              اسی طرح ایک اور روایت میں ذکر ہے کہ’’ انہا لاتکون أقرب الی  اللہ منہا فی قعر بیتہا  ‘‘ آپﷺ نے فرمایا کہ عورت اللہ سے سب سے زیادہ اس وقت قریب ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر کے بالکل اندر ہوتی ہے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی ؒ،امام منذری ؒ اور امام ہیثمی ؒ فرماتے ہیں کہ اس کے رجال صحیحین کے رجال ہیں،الترغیب والترہیب ج۱ص۱۴۱،معجم الزوائد رقم الحدیث ۷۶۷۱ولفظہ )

 (۶)              ایک جگہ ارشاد ہے کہ ’’عن النبی ﷺ قال ان احب صلاۃ  تصلیہا المرأۃ الی اللہ فی اشد مکان فی بیتہا ظلمۃ ‘‘ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عورت کی  وہ نماز ہے جو تاریک تر کوٹھری میں ہو۔ (یعنی سب سے زیادہ پوشیدہ جگہ پر ہو۔  (صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث ۱۶۹۱، امام ابن خزیمہ ؒ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے،یہی روایت موقوفاً بھی مروی ہے۔ جس کے رجال کو امام ہیثمیؒ نے ثقہ کہا ہے۔امام زین الدین مناوی  ؒاس روایت کو حسن کہتے ہیں اور امام منذری ؒنے اس روایت پر سکوت اختیار کیا ہے۔جو کہ غیر مقلدین کے نزدیک روایت کے معتبر ہونے کی دلیل ہے۔ (معجم الزوائد رقم الحدیث ۲۱۱۵ ،التیسیر للمناوی ج ۲ص۳۵۲،،الترغیب والترہیب ج۱ص۱۳۶)

کچھ وضاحت :

              حضور پاک ْﷺ کے ارشادات عالیہ آپ کے سامنے ہیں جس سے صاف طور سے معلوم ہوتاہے کہ حضورﷺنے عورتوں کو اگرچہ مسجد میں آنے کی اجازت دی ہے ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے گھر کے اندرونی حصے میں نماز اداکیا کریں کیونکہ  عورت کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے کہیں زیادہ افضل ہے ۔

              اسی بات کی حضور ﷺ نے عورتوں کے لئے مختلف مواقع پر ترغیب دی ہے۔ نیز کچھ اور صحیح حدیث آگے آرہی ہے جس سے عورتوں  کیلئے گھر میں  نماز پڑھنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ۔

              غرض حضور پاک ﷺ کی اس ترغیب کے خلاف آج فرقہ اہل حدیث غیرمقلدین عورتوں کو مسجد میں آنے کی ترغیب دے رہے ہیں،[1] جبکہ حضور ﷺ نے عام دنوں میں عورتوں کو خطاب کرکے کبھی یہ ترغیب نہیں دی کہ ’’تم لوگ مسجد میں آیا کرو‘‘۔

              اور یہ بھی جان لیا جائے کہ عورتوں کا مسجد میں آنا نہ تو فرض ہے نہ واجب اور نہ ہی سنت ،بلکہ اس کا حکم یہ ہے کہ وہ جائز ہے اور شرائط کے ساتھ۔جبکہ عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل اور پسندیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے کے مقابلے میں زیادہ ثواب کا ذریعہ ہے ،اور اسی بات کی ترغیب حضور پاک ﷺ نے دی ہے۔پر جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے کہ غیر مقلدین فرقہ اہل حدیث حضور ﷺ کے منشاء کے خلاف عورتوں کو مسجد آنے کی ترغیب دے رہے ہیں اور اسے سنت بھی کہتے ہیں ۔

              ذرا غور فرمائیے ! اگر عورتوں کا جماعت میں حاضر ہونا سنت ہوتا تو حضور ﷺ کیوں فرماتے ہیں کہ عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا زیادہ افضل اور پسندیدہ ہے ،اور پھر غیر مقلدین کی یہ ترغیب سلف صالحین کے منہج کے بھی خلاف ہے ۔کیونکہ عورتوں کو مسجد میں نماز پڑنے کی ترغیب تو دور کی بات ہے ۔سلف نے تو عورتوںکو حضور ﷺ کی شریعت کی خلاف ورزی کی وجہ سے اپنے گھر ہی میں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔پھر غیر مقلدین کس منھ سے کہتے ہیں کہ ’’ہم سلف کے منہج کی اتباع کرتے ہیں ‘‘۔

              اب کچھ مزید احادیث ملاحظہ فرمائیے :

(۷)              حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’عن رسول اللہﷺ قال :صلاۃ المرأۃ وحدہا تفضل صلاتہا فی الجمیع خمساًوعشرین درجۃ‘‘ نبی ﷺ نے فرمایا کہ عورت کی (گھر میں ) اکیلے نماز مردوں کے ساتھ جماعت  کی نماز سے پچیس ۲۵ گنا فضیلت رکھتی ہے ۔(تاریخ ابونعیم ج۲ص۱۹)

              اس روایت کی سند حسن ہے ، جس کی تفصیل ص : ۱۵۴ موجود ہے ۔

              معلوم ہوا کہ جو خواتین مسجد کے بجائے گھر ہی میں نماز پڑھتی ہیں وہ مسجد میں جاکر نماز پڑھنے والی عورتوں سے ۲۵ گنا زیادہ فضیلت حاصل کررہی ہیں ۔

               اب ہر امتی سوچ لے کہ اس کے گھر والوں کو گھر میں نماز پڑھنے سے زیادہ ثواب ملتا ہے ؟یا مسجد میں جا  کر نماز پڑھنے سے ؟ حضور پاک ﷺ کی  حدیث کے مطابق  عورت کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا مسجد نبوی میں نماز پڑھنے سے افضل  ہے :

(۸)              حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ’’ انہا جاء ت النبی ﷺ فقالت :یا رسول اللہ انی أحب الصلا ۃ معک ،قال :’’قد علمت انک تحبین الصلاۃ معی ،وصلاتک فی بیتک خیر لک من صلاتک فی حجرتک وصلا تک فی حجرتک خیر من صلاتک فی دارک ،وصلاتک فی دارک خیر من صلاتک فی مسجد قومک ،وصلاتک فی مسجد قومک خیر من صلاتک فی مسجدی ‘‘لقیت اللہ عزوجل ‘‘ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا ،اے اللہ کے رسول !میں آپ کی اقتدا ء میں نماز پڑھنے خواہش رکھتی ہوں ،آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں جانتاہوں کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہو ،لیکن تمہارے گھر کی (اندرونی )کوٹھری کی نما زبڑے کمرے کی نماز سے بہتر ہے۔اور تیری بڑے کمرے کی نماز صحن کی نماز سے بہتر ہے ۔اور تیری صحن کی نماز محلے کی مسجد کی نماز سے بہتر ہے ۔اور محلے کی مسجد کی نماز میری مسجد کی نماز سے بہتر ہے ۔

               اور سنیئے اسی حدیث میں موجود ہے کہ حدیث بیان لرنے والے راوی کا بیان ہے’’ قال فأمرت فبنی لہا مسجد فی اقصی شیء من بیتہا واظلمہ ،فکانت تصلی فیہ حتی ‘‘ کہ ام حمید رضی اللہ عنہا نے حضور ﷺ کے منشاء کو سمجھ کر انہوں نے اپنے گھر والوں کو گھر کے اندر مسجد بنانے کا حکم دیا ، چنانچہ گھر  کی تاریک تر کوٹھری میں ان کیلئے مسجد بنائی گئی اور وہ اسی میں نماز پڑھتی رہیں یہاں تک  کہ اللہ سے جاملیں ۔(مسند احمد رقم الحدیث ۲۷۰۹۰، امام ابن حجر ؒ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے ،امام ہیثمی ؒ نے بھی اس روایت کی تصحیح کی ہے ،فتح الباری ج۲ص۳۴۹،،مجمع الزوائد رقم الحدیث ۲۱۰۶،امام ابن خزیمہ ؒ اور امام ابن حبان ؒ  نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے،صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث ۱۶۸۹،،صحیح ابن حبان رقم الحدیث ۲۲۱۷)

               مناسب معلوم ہوتاکہ ہم اپنی طرف سے کچھ کہے بغیر سلف کا فتوی نقل کردیں ۔

امام الائمہ امام ابن خزیمہ ؒ  ۳۱۱؁ھ) کا فتوی :

               امام ابن خزیمہ ؒ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ ’’ صلاتہا فی مسجد قومہا علی صلاتہا فی مسجد النبی ﷺ ‘‘ عورت کی محلے کی مسجد میں پڑھی گئی نماز مسجد نبوی میں پڑھی گئی نماز سے افضل ہے۔

               یہاں پر ایک علمی اشکا ل ہوتاہے کہ : دوسری احادیث میں آیا ہے کہ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں پڑھی جانے والی نماز تو عام مسجدوں کی نماز سے افضل ہے ۔تو اس سلسلے میں کون سی بات صحیح ہے ؟

               اللہ تعالی امام ابن خزیمہ ؒ کو جزائے خیر دے کہ خود امام صاحب ؒ نے اس کا جواب دیدیا ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ’’قول النبی ﷺ صلاۃ فی مسجدی ہذا افضل من الف صلاۃ فیما سواہ من المساجد ،اراد بہ صلاۃ الرجال دون صلاۃ النساء ‘‘ حضور ﷺ کا فرمان :’کہ میری مسجد (مسجد نبوی ) میں اداکی گئی نماز دیگر مساجد میں ادا کی گئی ہزاروں نمازوں سے افضل ہے ،اس فرمان سے آپ ﷺ کی مراد مردوں کی نماز ہے عورتوں کی نماز مراد نہیں ہے ۔(صحیح ابن خزیمہ ج۳ص۹۴)

غیر مقلد عالم شیخ محمد فاروق رفیع صاحب کا فتوی بھی ملاحظہ فرمائیں :

               اہل حدیث شیخ محمد فاروق رفیع صاحب فرماتے ہیں کہ عورت کیلئے گھر کے کسی بھی گوشے میں نماز پرھنا محلے کی مسجد اور مسجد نبوی  میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔اگرچہ مسجد نبوی نماز پڑھنے کا ثواب ۱۰۰۰ نماز کے برابر ہے ، لیکن عورت کا گھر پر نماز پڑھنا اس سے (مسجد نبوی سے ) زیادہ اجروثواب کا باعث ہے ،اس لئے عورتوں کو گھر پر نماز پڑھنی چاہیئے ۔(صحیح ابن خزیمہ مترجم ج ۳ص ۲۰۸)

وضاحت :

               یہ بات واضح ہوگئی کہ عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا مسجد نبوی میں نماز پرھنے سے افضل ہے ۔لہذا جب عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل  ہے اور زیادہ ثواب کا ذریعہ ہے تو خصوصاً آج کے پر فتن دور میں بغیر کسی شرعی ضرورت کے نماز کے لئے عورتیں مسجد میں کیوں جائیں ؟ جبکہ اس کا گھر ہی نما ز پڑھنا زیادہ افضل اور زیادہ ثواب کا ذریعہ ہے ۔

               اور یہ بھی یاد رہے کہ حضور ﷺ نے عیدین کے علاوہ عورتوں کو خطاب کرکے کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ وہ مسجد میں آکر نماز پڑھیں۔اور جو عیدین کے موقع پر آپ ﷺ نے حکم دیا ہے  اس کی تفصیل  اور آ پ ﷺ کے حکم  کا مقصد سلف صالحین کے ارشادات کی روشنی میں آئندہ مضامین میں آئیگا ان شاء اللہ۔

 معلوم ہوا کہ حضورﷺ نے عورتوں کو مخاطب کرکے کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ وہ مسجد آکرنماز پڑھیں ۔

               ان سب کے برعکس حضورﷺ نے ہمیشہ عورتوں کوخطاب کرکے فرمایا کہ تم اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھو، کیونکہ تمہارا اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے زیادہ افضل اور زیادہ ثواب کا ذریعہ ہے۔یہاں تک کہ حضورﷺ نے عورتوں کی گھر کی نماز  مسجد نبوی میں پڑھی جانے والی نماز سے افضل بتایا ہے ،جیساکہ احادیث اوپر گذر چکی ہیں ۔

               نیز مشہور سلفی عالم شیخ صالح بن عثیمین ؒنے یہاں تک فرما دیا  کہ عورت کی گھر کی نماز مسجد الحرام کی نماز سے بھی افضل ہے ۔

               ان کے الفاظ یہ ہیں : ’’سئل فضیلۃ الشیخ :عن امرأۃ تود حضور الصلاۃ  فی  المسجد الحرام ما دامت فی  مکۃ ،ولکنہا سمعت  ان صلاۃ المرأۃ فی بیتہا أفضل حتی فی المسجد الحرام  ،فہل یحصل لہا  عندماتصلی فی بیتہا من المضاعفۃ ما ٰیحصل عند ما تصلی  فی المسجد الحرام ؟ فأجاب فضیلتہ بقولہ :صلاۃ المرأۃ فی بیتہا افضل من صلاتہا فی المسجد الحرام ‘‘ ۔(مجموع الفتاوی لابن عثیمین ج۱۵ ص۱۲۴)

               لیجئے خود غیر مقلدین کے عالم فتوی دے رہے ہیں کہ عورت کی گھر کی نماز مسجد الحرام کی  نماز سے افضل ہے ۔

آخری روایت :

               ام حمید رضی اللہ عنہا کی ہی بعض روایت میں یہ الفاظ کی زیادتی ہے کہ آپ ؓنے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ’’عن أم حمید قالت : قلت یا رسول اللہ یمنعنا ازواجنا ان نصلی معک ونحب الصلاۃ معک فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :  صلا تکن فی حجرکن افضل من صلاتکن فی دورکن وصلاتکن فی دورکن افضل من صلا تکن فی الجماعۃ‘‘ اے اللہ کے رسول !ہمیں ہمارے شوہر آپ کے ساتھ نماز پڑھنے سے روکتے ہیں ،حالانکہ ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کی بہت چاہت رکھتے ہیں۔ رسول اللہ  ﷺ نے جواب میں فرمایا : تمہاری  اندرونی کوٹھری کی نما ز تمہارے کمرے کی نماز سے بہتر ہے اور تمہارے بڑے کمرے کی نماز تمہاری جماعت کی نماز سے افضل ہے۔(الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم رقم الحدیث، ۳۳۷۹)

               اس کی سند حسن ہے جس کی تفصیل ص : ۱۵۶ موجود ہے ۔

               غور فرمایئے !حضور ﷺ کے سامنے جب ام حمید رضی اللہ عنہا نے خواتین کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے شوہر ہمیں آپ کے ساتھ نماز پڑھنے روکتے ہیں ،تو آپ ﷺ نے بجائے ان کے شوہروں کو تنبیہ کرنے کے الٹا خواتین ہی سے خطاب کرکے فرماتے ہیں کہ تمہارا اپنے اپنے گھروں ہی میں نماز پڑھنا مسجد میں جما عت کے ساتھ نماز پڑھنے سے افضل اور بہتر ہے ۔اور پہلی روایت ہے کہ میرے ساتھ نماز پڑھنے سے افضل ہے۔

               اس حدیث سے معلوم ہواکہ صحابہ کرام رضی ا للہ عنہم کا خواتین کو مسجد میں آنے سے منع کرنا درست تھا ۔ کیونکہ حضور ﷺکے سامنے جب معاملہ آیا تو آپ ﷺ نے اس پر سکوت اختیا ر فرمایا جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام کا اپنی عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکنا درست تھا ۔

اہل حدیث علماء کا فتویٰ کہ عورتوں کا گھر میں نماز ادا کرنا  مسجد  میں ادا کرنے  سے بہتر ہے۔

 (۱)        اہل حدیث عالم شیخ محمد فاروق رفیع صاحب فرماتے ہیں کہ ’’عورت کا گھر میں رہنا اس کی عزت وناموس کیلئے بہتر ہے ۔کیونکہ عورت پردے دار چیز ہے ۔اور اس کے باہر نکلننے سے فتنہ و فساد کا اندیشہ ہے ۔اس لئے نماز کیلئے بھی مسجد نہ جا نا افضل ہے ‘‘۔(صحیح ابن خزیمہ مترجم ج ۳؍ص۲۰۶)

(۲)        اہل حدیث مفتی شیخ عبدالستار حماد صاحب کہتے ہیں کہ اگر انہیں باجماعت نماز پڑھنے کا شوق ہے تو معقول انتظام کے ساتھ میں حاضر ہوں اور وہاں جماعت میں شامل ہوسکتی ہیں ‘‘حدیث میں ہے کہ اللہ کی بندیوں کو مسجد سے نہ روکو ۔لیکن ان کا (عورتوں)کا گھر میں نماز ادا کرنا (مسجد ) سے بہتر ہے ۔(فتاوی اصحاب الحدیث ج ۲ص۱۳۵)

(۳)        شیخ صالح بن العثیمین بھی لکھتے ہیں کہ :مسجد میں نماز اداکرنے سے ان کا (عورتوں  کا)اپنے گھروں میں نماز ادا کرنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ گھر میں رہنے سے وہ کئی فتنوں سے محفوظ رہے گی۔ (فقہی احکام کتاب وسنت کی روشنی میں ج ۱ ص ۱۸۳)

(۴)        صادق سیالکوٹی صاحب اہل حدیث عالم بھی یہی کہتے ہیں کہ عورتوں کے لئے گھر کی نماز بہتر ہے ۔(صلا ۃ الرسول بتحقیق سندھی ص ۵۱۷)

(۵)        غیر مقلد مولانا محمود امان  میرپوری صاحب بھی لکھتے ہیں کہ ’’ویسے عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا بہتر ہے ۔ (فتاوی صراط مستقیم ص۱۶۲ )

(۶)        اہل حدیث محقق عبد القادر حصاری صاحب تحریر کرتے ہیں کہ  : عورتوں کے لئے گھروں میں نماز پڑھنا ان تمام مسجدوں سے (مسجد الحرام ،مسجد نبوی ، مسجد اقصی ،جامع مسجد اور مسجد محلہ سے)افضل ہے اور اس کی علت یہ ہے کہ عورتوں کے لئے ستر اور مردوں سے اخفاء ضروری ہے ۔(فتاوی حصاریہ ج۳ص۶۵۴)

             اتنے صاف اور صریح ارشادات کے ہوتے ہوئے ۔آج کے فتنوں کے دور میں بلا کسی شرعی ضرورت کے ،صحابہ کرام کے منع کرنے باوجود بھی ، اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ عورتوں کو مسجد میں جا کر نما زپڑھنا چاہیئے تو اپنے دل سے پوچھئے کہ سلف صالحین کے منہج اور حضورﷺ کے منشاء کے مطابق کر رہا ہے یا مخالف ؟

 نوٹ:

             نماز میں رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع الیدین کو افضل واعلی ثابت کرنے کے لئے کئی کتابیں اہل حدیث حضرات نے تصنیف کی ہیں ،لیکن اگر نماز میں رفع الیدین نہ کیا جائے تو بھی غیر مقلدین کے نزدیک نماز کی صحت میں کوئی فرق نہیں آتا ۔(فتاوی علمائے حدیث ج ۳ص ۱۵۴) لیکن غیر مقلدین دن رات کہتے ہیں کہ رفع الیدین کرنا افضل ہے ،اس میں ثواب بھی ہے اور سنت بھی ہے ،لہذا رفع الیدین کرنا چاہیئے ۔ یہاں  یہ فرقہ فرع الیدین میں ثواب  کی بات کرتاہے ۔حالانکہ نہ کرنا بھی ان کے نزدیک  مروی  ہے۔  (فتاوی نذیریہ ج۱  ص ۴۴۴) اور نہ کرنے سے ان کے نزدیک نما زکی صحت میں کوئی فرق نہیں آتا ،جیسا کہ حوالہ گذر چکا ۔

             لیکن اہل حدیث حضرات عورتوں کے مسجد آنے کے مسئلے میں خوشی خوشی اپنے اصول بھول جاتے ہیں اور بیچاری عوام کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ عورتوں کو مسجد میں آکر نماز پڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں(دیکھئے ایڈوکیٹ فیض کا ویڈیو :عورت کے مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کے آداب )جبکہ خود ان کے نزدیک بھی گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل اور زیادہ ثواب کا ذریعہ ہے ۔

             یہاں اپنے افضل اور ثواب والی بات جو وہ رفع الیدین وغیرہ مسائل میں کہتے تھے بھول جاتے ہیں ۔یہ دوغلی پالیسی آخر کیوں ؟

             اسی طرح اگر نماز میں آمین آہستہ کہی جائے تو اہل حدیث حضرات کے نزدیک نماز جائز ہوجاتی ہے۔اور اس طرح کے مسائل میں محدثین کا اول اور غیراولی کا اختلاف ہے ۔ (فتاوی نذیریہ ج ۱ص۴۴۸،حدیث اور اہل حدیث ج ۲ص۶۳۵) لیکن پھر بھی اہل حدیث حضرات نماز میں زور سے آمین کہتے ہیں اور اسی کا اپنی مسجدوں میں بھی اہتمام کرتے ہیں،کیونکہ ان کے نزدیک افضل زور سے آمین کہنا ہے ۔پر یہی زیاد ہ ثواب اور افضل والی  با ت فرقہ اہل حدیث کے لوگ کیوں عورت کے مسجد میں آنے کے مسئلے میں بھول جاتے ہیں؟اس مسئلے میں کیوں ترغیب دیتے ہیں کہ عورت مسجد میں آکر نماز پڑھے ؟                                                                                                                                       

             کم سے کم اپنے دعوے کے مطابق سلف کی طرح وہ بھی عورتوں کو گھر میں نماز پڑھنے کو کہہ سکتے ؟یا کم از کم مسجد میں آکر نماز پڑھنے سے روکے بغیر عورتوں کو اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی تاکید اور اس کی ترغیب اہل حدیث حضرات دے سکتے تھے ۔

             لیکن ان کے ایسا نہ کرنے کی وجہ سے کبھی خیال آتا ہے کہ کیا  اہلحدیث حضرات احناف کی مخالفت میں عورتوں کو مسجد میں آنے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔۔۔۔اللہ ہماری غلطیوں کو معاف فرمائے !آمین!!

ایک اعتراض اور اس کا جواب :

             بعض نادان کم علم اور کم سمجھ والے اہل حدیث یہ اعتراض کرتے ہیں کہ عورتیں مال (mall) ،بازار ،مدرسہ، اسکول  (جہاں پر co education بھی ہوتے ہیں ) درگاہ وغیرہ جاتی ہیں تو وہاں کوئی اعتراض نہیں کرتا ،کوئی انہیں نہیں روکتا کوئی ان پرفتوی نہیں لگاتا  کہ یہ ناجائز ہے ،وہاں ان کوئی فتنہ نظر نہیں آتا ۔

             لیکن سب کو فتنہ مسجد میں کیوں نظر آتا ہے ؟کیا سارے غنڈے موالی فتنہ پرور لوگ مسجد ہی میں موجود ہیں ؟ بازار میں نہیں ہیں کیوں لوگ عورتوں کو صرف مسجد میں آنے سے منع کرتے ہیں ؟

الجواب :

             عورتوں کو مسجد میں آکر نماز پڑھنے سے اس لئے منع  بھی کیا جاتا ہے ،کیونکہ وہ  گھر میں بھی نماز پڑھ سکتی ہیں ان کے لئے گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل بھی ہے ۔

             لیکن عورت کو مدرسہ، اسکول وغیرہ میں جانے کی اجازت اس لئے ہے کہ گھر میں بیٹھ کر دینی یا دنیاوی علم حاصل نہیں کر سکتی  اس ضرورت کی بنا ء پر اسے مدرسے یا اسکول جانے کی اجازت ہے ۔لیکن شرط یہ ہے کہ لڑکیوں کے لئے تعلیم کا نظم الگ ہو ۔

             ہمیشہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ  ،جو کا م عورت اپنے گھر میں  کر سکتی ہے مثلاً نماز ،گھریلو کام ،کھانا پکانا ،کپڑے دھونا ،وغیرہ وغیرہ ،تو ایسے کام جن کووہ  گھر میں کرسکتی ہے ،گھر میں انجام دے سکتی ہے ویسے کا م کے لئے اس کا باہر جانا منع ہے ۔لیکن کوئی ایسا کام یا  ایسی ضرورت ہے جسکو وہ گھر میں نہیں کر سکتی تو ان کاموں میں اس کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہے ،جیسا کہ میڈکل چیک اپ ہو یا بازار یا مال یا سپر مارکیٹ میں گھر کی ضروریات ہو اور اس وقت میں کوئی مرد گھر پر نہ ہو تو ایسے وقت میں عورت کو گھر سے باہر جانے کی اجازت ہے ۔رہا درگاہ یا مزار  پر عورتوں کا جانا ،تو اس سے علماء صاف طور سے منع کرتے ہیں ۔[2]

             لہذا ایسا اعتراض کرنے والے حضرات سے گزارش ہے کہ اس طرح کے اعتراضات کرکے آپ اپنی کم علمی اور جہالت کا ثبوت نہ دیں ۔  



[1] دیکھئے  فیض سید کا  ویڈیو : عورت باجماعت مسجد جاکر نماز پڑسکتی ہے یا نہیں ؟

https://www.youtube.com/watch?v=F2M05O__XRk&feature=youtu.be

[2] تفصیل کے لئے دیکھئے : آپ کے مسائل اور ان کا حل : ج ۸ : ص۳۵،۹۲، فتاوی دار العلوم دیوبند : ج ۱۳ : ص ۲۸۳۔نیز  انٹرنیٹ پر دار الافتاء دیوبند : ارود: فتاوی نمبر ۳۶۴۹۷ بھی دیکھ سکتے ہے۔


ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

 سکین کیلئے 
الاجماع (PDF ) دیکھیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...