نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تیمم میں دوضربیں ہیں۔

 


تیمم میں دوضربیں ہیں۔

مولانا نذیر الدین قاسمی

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 4

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تیمم میں دو ضربیں ہیں ،ایک ضرب چہرے پر مسح کرنے کے لئے اور دوسری ضرب سے دونوں ہاتھ کہنیوں تک مسح کرنے کے لئے اور یہ بات دلیل سے ثابت ہے ۔

دلیل نمبر ۱:

مشہور صحابی رسول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک طویل حدیث میں کہتے ہیں کہ :

۔۔ثم ان النبی ﷺ ضرب بکفیہ ،فمسح بوجہہ مسحۃ،ثم ضرب بکفیہ الثانیۃ فمسح ذراعیہ الی المرفقین ۔۔

پھر حضور ﷺ نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دیوار پر مارا ،پھر اپنے چہرے پر ایک بار مسح کیا ،پھر آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہتھیلیوں کو دیوار پر مارا پھر ان سے اپنے گٹوں سے کہنیوں تک پر مسح کیا ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ (سنن کبری للبیہقی حدیث نمبر:۹۹۳)

اس کی سند یوں ہے،

 امام بیہقی ؒ  (م۴۵۸؁ھ) کہتے ہیں کہ

              اخبرنا ابوعبداللہ الحافظ ،انا ابوبکربن اسحق الفقیہ انا موسی بن الحسن بن عباد ،ثنا مسلم بن ابراہیم الازدی ،ثنا محمدبن ثابت العبدی ،وکان صدوقا ،واخبرنا ابوالحسن علی بن احمد بن عبدان الاہوازی ،اخبرنا احمدبن عبید الصفار ،ثنا اسمعیل بن اسحق ثنا مسلم بن ابراہیم الازدی ثنا محمدبن ثابت العبدی ،ثنا نافع قال : انطلقت مع ابن عمر فی حاجتہ الی ابن عباس فلما ان قضی حاجتہ کان من حدیثہ یومئذ قال:بینما النبی ﷺ فی سکۃ من سکک المدینۃ ،وقد خرج النبی ﷺ من غائط او بول فسلم علیہ رجل فلم یرد علیہ ،ثم ان النبی ﷺ ضرب بکفیہ ،فمسح بوجہہ مسحۃ ،ثم ضرب بکفیہ الثانیۃ فمسح ذراعیہ الی المرفقین ۔۔۔۔۔(سنن کبری للبیہقی ج:۱ص:۳۱۶،حدیث نمبر: ۹۹۳، واسنادہ حسن)

اسکین :


روات کی تفصیل یہ ہے :

۱)           امام بیہقی ؒ ۴۵۸؁ھ) مشہور ثقہ ،امام اور حافظ الزمانہ ہیں ۔(تاریخ الاسلام ج:۱۰ص:۹۵)

۲ْ)          امام ابوعبداللہ الحاکم ؒ(م۴۰۵؁ھ)  بھی ثقہ ،حافظ الحدیث اور المستدرک علی الصحیحین کے مصنف ہیں ۔ ( کتاب الثقات للقاسم ج:۸ص:۳۹۲)

۳)          ابوبکر بن اسحٰق الفقیہ سے مراد امام احمد بن اسحق ابوبکر النیساپوری ؒ ۳۴۲؁ھ)ہے  جو کہ ثقہ محدث  ہیں  ۔ (الروض الباسم فی تراجم شیوخ الحاکم ص:۱۸۹)

۴)          محدث موسی بن ابو حسن بن عباد ؒ ۲۸۷؁ھ) میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔(سیر اعلام النبلاء ج:۱۳ص:۳۷۸)

۵)          حافظ مسلم بن ابراہیم الازدی ؒ ۲۲۲؁ھ) صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ مامون ہیں ۔(تقر یب رقم : ۶۶۱۶)

۶)          محمدبن ثابت العبدی ؒ بھی جمہور کے نزدیک ثقہ ،صدوق ہیں۔[1]

۷)          امام نافع ابوعبداللہ المدنی ؒ ۱۱۷؁ھ) مشہور فقیہ ،امام اور مضبوط راوی ہیں۔(تقریب رقم : ۶ ۸ ۷۰)

۸)          ابن عمر رضی اللہ عنہما مشہور صحابی رسول ہیں ۔(تقریب )

دلیل نمبر ۲:

حافظ ابوبکر الشیرازی ؒ ۴۰۷؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

              ثنا ابوعمر و ثنا محمدبن ابراہیم ثنا موسی بن سعید بن النعمان بن حسان الدردانی ثنا ابوحذیفۃ موسی بن مسعود ثنا ابن ابی روا دبہ بلفظ ( یعنی عن نافع عن ابن عمر عن النبی ﷺ قال )التیمم ضربتان ضربۃ للوجہ وضربۃ للیدین الی المرفقین ۔

حضور ﷺ نے فرمایا کہ تیمم میں دو ضربیں ہیں ،ایک ضرب چہرے پر مسح کے  لئے ہے اور د وسر ی ضرب دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک مسح کرنے کے لئے ہے۔( کتاب الالقاب للشیرازی بحوالہ شرح ابن ماجہ للمغلطائی[2] ص۶۸۶)[3]          اسکین ملاحظہ فرمائے


سند کے روات کی تحقیق یہ ہے :

۱)           حافظ احمد بن عبدالرحمن اشیرازی ؒ ۴۰۷؁ھ) ثقہ ،صدوق امام اور کتاب الالقاب کے مصنف ہیں ۔( تاریخ الاسلام ج:۹ص:۱۱۵،سیر اعلام النبلاء ج:۱۷ص:۲۴۲)

۲)          ابو عمر و سے مراد امام اسعید بن القاسم بن العلائی البرذعی ؒ ۳۶۲؁ھ)  بھی ثقہ،حافظ ہیں۔ (الدلیل المغنی لشیوخ الامام ابی الحسن الدارقطنی ص:۲۰۷)

۳)          محمد بن ابراہیم سے مراد ثقہ حافظ محمد بن یحی بن مندہ ؒ ۳۰۷؁ھ) ہیں اور مندہ کا نام ابراہیم ہے ،جیسا کہ امام ذہبی ؒ نے صراحت کے ہے،نیز وہ امام سعید بن القاسم بن العلائی البرذعی ؒ ۳۶۲ ؁ھ) کے استاذ بھی ہیں ۔(تاریخ الاسلام ج:۷ص:۴۴،ارشاد القاضی والدانی الی تراجم شیوخ الطبرانی ص:۶۲۹،تذکرۃ الحفاظ ج:۳ص:۹۹)

۴)          موسی بن سعید بن نعمان ؒ بھی صدوق حافظ ہیں۔( تقریب رقم : ۶۹۶۷،الکاشف)

۵)          ابوحذیفہ موسی بن مسعود النہدی ؒ ۲۲۰؁ھ) بھی جمہور کے نزدیک صدوق ہیں۔( الکاشف رقم : ۵۷۳۲،ذکر اسماء من تلکلم فیہ وہو موثق ص:۲۰۹،سیر اعلام النبلاء ج:۱۰ص؛ ۱۳۷،تہذیب التہذ یب ج:۱۰ص:۳۷۱،تکمیل لابن کثیر ج:۱ص:۲۷۳، البدر المنیر ج:۳ص:۴۶۹،مصباح الزجاجہ ج : ۱ص:۱۰۸)

البتہ آپؒ تصحیف کرتے تھے لیکن چونکہ متابع میں ثقہ حافظ اور حدیث کے شہنشاہ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ ۱۵۰؁ھ) موجود ہیں جنہوں نے آپ کی طرح عبدالعزیز بن ابی رواد ؒ سے یہی روایت مرفوعاً  نقل کی ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔

تو اس روایت میں ابوحذیفہ ؒ پر تصحیف کا اعتراض فضول اور بیکار ہے اور آپ اس روایت میں ثقہ وصدوق ہیں ،نیز محمد بن ثابت العبدیؒ اوردوسرے کئی روات بھی آپ کی متابعت میں موجود ہیں ،لہذا اس روایت میں آپ پر تصحیف کا الزام واعتراض باطل ومردود ہے ۔

۶)          عبدالعزیز بن ابی رواد ؒ ۱۵۹؁ھ) بھی جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ۔(الکاشف ،تہذیب التہذیب ج:۶ص:۳۳۸)

۷)          امام نافع ابو عبداللہ المدنی ؒ (م ۱۱۷؁ھ) کی توثیق گزرچکی ۔

۸)          حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مشہور صحابی رسول ہیں ۔(تقریب )

معلوم ہوا کہ اس کی سند حسن ہے ۔

دلیل نمبر ۳ :

ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہی روایت تیسری سند سے مسند امام ابوحنیفہ بروایت حافظ ابن المظفر میں بھی موجود ہے چنانچہ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ :

کان تیمم رسول اللہ ﷺ ضربتین ،ضربۃ للوجہ ،وضربۃ للیدین الی المرفقین ۔

رسول اللہ ﷺ کے تیمم میں دو ضربیں تھیں ایک ضرب چہرے کے لئے اور دوسری ضرب دونوں ہاتھ کہنیوں تک کے لئے ۔

اس روایت کو حافظ محمد بن المظفر ؒ (م ۳۷۹؁ھ) نے اس سند سے ذکر کیا ہے :


              (روی) حافظ محمد بن الظفر فی مسندہ (عن ) ابی اسحق ابراہیم بن محمد بن عبداللہ القزوینی (عن ) یوسف بن موسی المروزی (عن ) ابی بکر موسی بن سعید (عن ) ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ (عن ) عبدالعزیز بن ابی رواد (عن ) نافع (عن ) ابن عمر رضی اللہ عنہما قال : کان تیمم رسول اللہ ﷺ ضربتین ضربۃ للوجہ وضربۃ للیدین الی المرفقین ۔(مسند امام ابی حنیفہ بروایت امام محمد بن ابی مظفر بحوالہ جامع المسانید للامام خوارزمی ج:۱ص:۲۳۳،واسنادہ حسن )[4]

سند کے راویوں کی تحقیق درج ذیل ہے :

۱)           حافظ محمد بن المظفر ؒ(م ۳۷۹؁ھ) مشہور ثقہ ،حافظ الحدیث ہیں ۔( تاریخ الاسلام ج:۸ ص : ۷۲ ۴ )

۲)          ابواسحٰق ابراہیم بن احمد القزوینی ؒ ۳۴۰؁ھ) بھی ثقہ ،عالم دین ہیں ۔( کتاب الثقات للقاسم ج:۲ص:۱۴۹)

۳)          یوسف بن موسی المروزی ؒ ۲۹۶؁ھ) کو خطیب البغدادی ؒ نے ثقہ کہا ہے ۔( تاریخ بغداد ج : ۱۴ص:۳۱۱،تاریخ الاسلام ج:۶ص:۱۰۶۸)

۴)          ابوبکر موسی بن سعید بن نعمان ؒ   سنن نسائی کے راوی ہیں اور صدوق ہیں ۔( تقریب رقم : ۷ ۶ ۹ ۶ )

۵)          امام اعظم ابوحنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) ثقہ ،حافظ الحدیث اور حدیث کے شہنشاہ ہیں۔ (دیکھئے  ص: ۸)

۶)          عبدالعزیز بن ابی رواد ؒ ۱۵۹؁ھ) بھی جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ۔( الکاشف ،تہذیب التہذیب ج:۶ص:۳۳۸)

۷)          امام نافع ابوعبداللہ المدنی ؒ ۱۱۷؁ھ) کی توثیق گزر چکی ۔

۸)          حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مشہور صحابی رسول ہیں ۔(تقریب )

معلوم ہواکہ اس کی سند بھی حسن ہے ۔

اور اخیر میں ان ائمہ کا نام ملاحظہ فرمائیں جنہوں نے ابن عمر ؓ کی تیمم والی روایت کو مرفوع تسلیم کیا ہے۔

۱)           امام حاکمؒ۴۰۵؁ھ)۔(خلاصہ بدر المنیر ج:۱ص:۶۹،المستدرک للحاکم ج:۱ص: ۷ ۸ ۲ ، حد یث نمبر:۶۳۴)

۲)          امام بیہقی ؒ (م ۴۵۸؁ھ) نے امام بخاری ؒ کے اعتراض کاجواب دیا اور ابن عمر ؓ کی روایت کو مرفوع تسلیم کیا ہے ۔

۳)          اور حافظ زیلعی ؒ ۷۶۲؁ھ) نے بھی امام بیہقی ؒ کی تائید کی ہے جس کی تفصیل ص:۴۰پر موجود ہے ۔ 

۴)          شیخ المحدثین حافظ مغلطائی ؒ ۷۶۲؁ھ) نے بھی امام احمد بن حنبل ؒ کے اشکال کا جواب دیا ہے اور انہوں نے بھی اس روایت کو مرفوعاً ثابت کیا ہے ۔(شرح ابن ماجہ للمغلطائی ص:۶۸۶)

۵)          امام عینی ؒ ۸۵۵؁ھ)۔ (البنایہ للعینی ج:۱۵۲۴)

۶)          امام محمد بن عبداللہ الزرکشی ؒ(م ۷۷۲؁ھ)۔(شرح زرکشی علی الخرقی ج:۱ص ۳۳۹)  اور دلائل کی روشنی میں حضرت ابن عمر ؓ کی روایت کا مرفوع ہونا ہی راجح ہے ۔

واللہ اعلم

دلیل نمبر ۴:

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ :

               التیمم ضربتان ضربۃ للوجہ ،وضربۃ للذراعین الی المرفقین ۔

تیمم میں ایک ضرب چہرے کے لئے ہے اور دوسری ضرب دونوں ہاتھ کہنیوں تک کے لئے ہے ۔

چنانچہ امام دارقطنی ؒ ۳۸۵؁ھ)کہتے ہیں کہ :

              حدثنا محمدبن مخلد ،واسمعیل بن علی ،وعبدالباقی بن قانع ،قالوا:نا ابراہیم بن اسحق الحربی ،نا عثمان بن محمد الانماطی ،ثنا حرمی بن عمارۃ ،عن عزرۃ بن ثابت ،عن ابی الزبیر عن جابر عن النبیﷺ قال:التیمم ضربۃ للوجہ وضربۃ للذراعین الی المرفقین ۔(سنن دارقطنی حدیث نمبر: ۶۹۱،واسنادہ صحیح )[5]

اسکین

ائمہ محدثین کی تصحیح :

امام دارقطنی ؒ اور امام ابن مفلح ؒ ۸۸۴؁ھ) فرماتے ہیں کہ اس روایت کے رجال ثقہ ہیں،امام حاکم ؒ ،امام بیہقی ؒ ،امام ابن الملقن ؒ اور امام ذہبیؒ نے اس کی سند کو صحیح اور امام ابن حجر ؒ نے حسن قرار دیا ہے ،نیز حافظ بن عبدالہادی ؒ ،حافظ قاسم بن قطلوبغا ؒ نے اس روایت کا دفاع کیا ہے اور اس کی سند کو ثابت کیا ہے ۔(المبدع لابن المفلح ج:۱ص:۲۰۰،مستدرک للحاکم حدیث نمبر: ۶۳۶،نخب الافکار للعینی ج : ۲ ص:۴۴۲،سنن کبری للبیہقی ج:۱ص:۳۱۹،حدیث نمبر: ۹۹۱،البدرالمنیر ج:۲ص:۶۴۷، الدرایہ ج :۱ ص:۶۸،تنقیح التحقیق ج:۱ص:۳۷۸،تخریج احادیث الاختیار للقاسم ج:۱ص:۱۵۱)

ایک اشکال اور اسکا جواب :

امام دارقطنی ؒ نے اس روایت کو موقوف کہا ہے ،یہ غالباً اس وجہ سے ہے کہ اس روایت کی سند میں عثمان بن محمد انماطی ؒ[ثقہ] اس روایت کو مرفوع نقل کرنے میں منفرد ہیں ،لیکن محمد بن عثمان ؒ اس میں منفرد نہیں ہیں ،بلکہ حضرت جابر ؓ کی روایت کو امام ابو نعیم ؒ ۲۱۹؁ھ) نے بھی مرفوع بیان کیا ہے ۔

دلیل نمبر۵:

چنانچہ امام حاکم ؒ ۴۰۵؁ھ) کہتے ہیں کہ :

              حدثنا علی بن حمشاذ العدل ،وابوبکر بن بالویہ ،قالا : ثنا ابراہیم بن اسحق الحربی ،ثنا ابونعیم ،عن عزرۃ بن ثابت ، عن ابی الزبیر ،عن جابر قال : جاء رجل الی رسول اللہ ﷺ فقال: أصابنی جنابۃ ،وانی تمعکت فی التراب ،فقال : اضرب ہکذا وضرب بیدہ الارض فمسح وجہہ ثم ضرب بیدیہ فمسح بہما الی المرفقین ۔(مستدرک للحاکم حدیث نمبر: ۶۳۸،واسنادہ صحیح ورجالہ کلہم ثقات )

اسکین 

یہی وجہ ہے کہ امام نووی ؒ ،حافظ ابن تیمیہ ؒ ،امام ابن مفلح ؒ وغیرہ نے بھی حضرت جابر ؓ کی روایت کو مرفوع ہی نقل کیا ہے ۔(المجموع للنووی ج:۲ص:۲۳۴،شرح عمدہ لابن تیمیہ ج:۲ص:۴۲۰،المبدع فی شرح مقنع لابن المفلح ج:۱ص:۲۰۱)

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ جابر بن عبداللہ ؓ کی روایت صحیح بھی ہے اور مرفوع بھی ہے ۔

دلیل نمبر۶:

امام ابوبکر البزار ؒ ۲۹۲؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

              حدثنا یحی بن حکیم ومحمد بن معمر ،قالا : حدثنا حرمی بن عمارۃ ،قال:حدثنا الحریش بن الخریت ،عن ابن ابی ملیکۃ ،عن عائشۃ رضی اللہ عنہا عن النبیﷺ انہ قال:فی التیمم ضربتین ضربۃ للوجہ وضربۃ للیدین الی المرفقین ۔

حضرت عائشہ  ؓ نبی ﷺ سے روایت ہے کہ کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ :تیمم میں دو ضربیں ہیں ۔ایک ضرب چہرے کے لئے اور ایک ضرب ہاتھوں سے کہنیوں تک کے لئے ۔(مسند بزار ج:۱۸ص:۲۲۸،واسنادہ حسن )

اسکین :


سند کے راویوں کی تحقیق درج ذیل ہے :

۱)           امام ابوبکر البزار ؒ ۲۹۲؁ھ) ثقہ ،حافظ الحدیث ہیں ۔(کتاب الثقات للقاسم ج:۱ص:۴۴۴)

۲)       محدث محمد بن معمر البصری ؒ (م بعد ۲۵۰؁ھ) صحیحین کے راوی ہیں اور صدوق ہیں ۔(تقریب رقم :۶۳۱۳) پھر ان کے متابع حافظ یحی بن حکیم ابوسعید البصریؒ ۲۵۶؁ھ) بھی موجود ہیں جو کہ ثقہ ، حافظ ،عابداور مصنف ہیں ۔(تقریب رقم : ۷۵۳۴)

۳)           حرمی بن عمارہ البصری ؒ  ۲۰۱؁ھ) بھی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے راوی ہیں اور ثقہ ،صدوق ہیں۔ (الکاشف رقم : ۹۸۰،اکمال تہذیب الکمال ج:۴ص:۳۷)

۴)          حریش بن الخریت البصریؒ راجح قول کے مطابق ثقہ اور حسن الحدیث ہیں ۔

امام ابن خلفون ؒ نے حریش بن الخریت البصری کو ثقات میں شمار کیا ہے،امام بخاری ؒ اپنی کتاب تاریخ الکبیر میں کہتے ہیں کہ ’’أرجو ان یکون صالحا ‘‘ ان کی طرف رجوع کرو (اس لئے) کہ وہ نیک ہیں ۔ امام یحیی بن معین ؒ کہتے ہیں کہ ان میں کوئی خرابی نہیں ہے،امام حاکم ؒ اور امام ابن السکن ؒ نے ان کی حدیث کو صحیح کہا ہے اور کسی حدیث کی حدیث کی تصحیح وتحسین غیرمقلدین کے نزدیک اس حدیث کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے۔(دیکھئے، ص: ۲)معلوم ہوا کہ امام حاکم ؒ اورابن السکن ؒ کے نزدیک بھی وہ ثقہ ہیں ۔امام دارقطنی ؒ کہتے ہیں کہ ان کا اعتبار کیا جائے گا ،امام ابن شاہین ؒ نے بھی انہیں ثقات میں شمار کیا ہے ۔(تہذیب التہذیب ج :۲ ص : ۲ ۴ ۲،اکمال تہذیب الکمال ج:۴ص:۴۷،البدر المنیر ج:۱ص:۷۰۹،اتحاف المہرہ ج: ۱۷ ص:۴۱)[6]

معلوم ہو اکہ آپ ؒ حسن الحدیث ہیں ۔

۵)          ابن ابی ملیکہ ؒ (م۱۱۷؁ھ) ثقہ تابعی اور فقیہ ہیں ۔(تقریب رقم : ۵۴۳۴)

۶)          حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہامشہور صحابیہ اور خواتین میں سب سے بڑی فقیہہ ہیں ۔ (تقریب رقم : ۸۶۳۳)

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ یہ روایت حسن درجے کی ہے ۔

الغرض ان احادیث سے معلوم ہواکہ تیمم میں دو ضربیں ہیں،اور یہی احناف کا قول ہے اور جمہور کا بھی یہی کہنا ہے ۔ (کتاب الاربعین فی ارشاد السائرین الی منازل المتقین او الاربعین الطائیۃ ص: ۷ ۰ ۲ ، اکمال المعلم بفوائد مسلم ج:۲ص:۲۲۲)                                     

واللہ اعلم



[1] امام حافظ مسلم بن خالد ؒ ۲۲۲؁ھ)نے آپ کو صدوق قرار دیا ہے ۔امام عجلیؒ۲۶۱؁ھ) اور امام محمد بن سلیمان ؒ (م۲۴۵؁ھ) ثقہ کہتے ہیں ،امام احمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ آپ میں کوئی حرج نہیں ہے، امام نسائی ؒ (م۳۰۳ھ) بھی کہتے ہیں کہ آپ میں حرج نہیں ہے ،امام ابوحاتم ؒ ۲۷۷؁ھ) کہتے ہیں کہ آپ مضبوط نہیں ہیں ،(لیکن پھر بھی)آپ کی حدیث لکھی جائے گی ۔(سنن کبری للبیہقی ج:۱ص:۲۰۶،۲۰۷،تہذیب التہذیب ج:۹ص:۸۵)،امام عبداللہ بن مبارک ؒ ۱۸۱؁ھ) نے آپ سے روایت لی ہے ،اور غیرمقلدین کے نزدیک امام عبداللہ بن مبارک ؒ صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں ۔(اتحاف النبیل ج:۲ص:۱۰۵) ثابت ہواکہ امام عبداللہ بن مبارک ؒ کے نزدیک محمد بن ثابت العبدی ؒ ثقہ ہیں ،امام علی بن المدینی ؒ (م ۲۳۴ھ) کہتے ہیں کہ وہ صالح ہیں ،اورقوی نہیں ہیں ۔ (سوالات ابن ابی شیبہ رقم :۳۵) معاویہ بن صالح ؒاور دارمیؒ کی روایت میں امام ابن معین ؒ (م ۲۳۳ھ) کہتے ہیں کہ آپ میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔(الضعفاء للعقیلی ج:۴ص:۳۸) حافظ ابن حجرعسقلانیؒ انہیں صدوق اور لین الحدیث کہتے ہیں ۔(تقریب رقم :۵۷۷۱) ابن شاہین ؒ نے بھی آپ کو کتاب الثقات میں شمار کیا ہے ۔(ص:۲۰۰)

نوٹ :

غیرمقلدین کے نزدیک لین الحدیث سے راوی کا ضعف ثابت نہیں ہوتا ۔(مسنون تراویح ص : ۲۲) اسی طرح لیس بالقوی تو غیرمقلدین کے نزدیک قابل اعتماد جرح ہی نہیں ہے ۔(دوماہی الاجماع مجلہ : شمارہ نمبر  ۳ : ص ۱۰۵)  لہذا خود غیرمقلدین کے اصول سے محمد بن ثابت العبدی ؒ پر معتبر جرح موجود نہیں ہے ۔

محمد بن ثابت العبدی ؒ پر جرح کی وجہ ؟

اکثر محدثین رحمہم اللہ نے محمدبن ثابت العبدیؒ پر اعتراضات صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ انہوں نے تیمم والی روایت کو مرفوع بیا ن کیاہے۔نافع مولی عمر ؒ کے دوسرے شاگردوں کی مخالفت کی ہے کیونکہ نافع ؒ کے دوسرے شاگرد اسے ابن عمر ؓ کا فعل بتایا ہے ،لہذا محمد بن ثابت ؒ اس روایت کو مرفوع بیان کرنے میں منفر د ہیں۔حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔

امام بیہقی ؒ ۴۵۸؁ھ) نے ایک اور روایت ذکر کی ہے :

                  اخبرنا ابوعلی الروذ باری ،انا ابوبکر بن داسۃ ،ثنا اوداؤد ،ثنا جعفر بن مسافر ،ثنا عبداللہ بن یحی یعنی البرلسی ،انا حیوۃ بن شریح ،عن الہاد ،ان نافعاً حدثہ عن ابن عمر قال :أقبل رسول اللہ ﷺ من الغائط فلقیہ رجل عند بئر جمل ،فسلم علیہ فلم یرد علیہ رسول اللہ ﷺ حتی أقبل علی الحائط فوضع یدہ علی الحائط ،فمسح وجہہ ویدیہ ،ثم ردرسول اللہ ﷺعلی الرجل السلام ۔

اس روایت کے تمام روات ثقہ اور صدوق ہیں ۔

اور غور فرمائیے ! محمد بن ثابت ؒ کی طرح ابن الہاد ؒ نے بھی نافع ؒ سے یہ روایت مرفوع بیان کی ہے  ا و ر ان کا پورا نام یزید بن عبداللہ بن عثمان بن الہاد اللیثی ؒ ۱۳۹؁ھ) ہے جو کہ ثقہ مکثر ہیں ۔(تقریب رقم:۷۷۳۷)

البتہ اس روایت میں دوسری بار ضرب مارنے کا ذکر نہیں ہے ،لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،کیونکہ غیر مقلدین کا اصول ہے کہ ،عدم ذکر عدم شیٔ کو مستلزم نہیں ۔(نور العینین ص: ۸۱ ،حدیث اور اہل تقلید ج:۱ص:۲۳۴)

نیز ابن الہاد کی روایت سے محمد بن ثابت ؒ پر تنہاروایت کو مرفوع بیان کرنے کا الزام بہر حال مردود ثابت ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امام بیہقی ؒ ۴۵۸؁ھ) خود فرماتے ہیں کہ :

                   فہذہ الروایۃ شاہدۃ لروایۃ محمدبن ثابت العبدی الاانہ حفظ فیہا الذراعین ولم یثبتہا غیرہ کما ساق ہو وابن الہاد الحدیث ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وفعل ابن عمر التیمم علی الوجہ والذراعین الی المرفقین شاہد لصحۃ روایۃ محمد بن ثابت غیر مناف لہا ۔

چنانچہ یہ روایت محمد بن ثابت العبدیؒ کی روایت کی شاہد ہے ،مگر یہ کہ انہوں نے اس روایت میں کہنیوں (تک مسح کرنے ) کا لفظ محفوظ کرلیا ہے اور ان کے علاوہ کسی اور نے کہنیوں (تک مسح کرنے ) کے لفظ کو ذکر نہیں کیا ہے ۔جیسا کہ ابن الہاد ؒ اور ان کی حدیث گزری ۔

آگے امام بیہقی ؒ کہتے ہیں کہ ابن عمر ؓ کا تیمم (میں مسح )کو چہرے اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک کرنا ، محمد بن ثابت ؒ کی روایت کی شاہد ہے ،اس کے خلاف نہیں ہے ۔پھراس کی وجہ آگے واضح کرتے ہیں کہ محمد بن ثابت ؒ ثقہ ہیں۔ (سنن کبری للبیہقی حدیث نمبر: ۴ ۹ ۹، ج:۱ص:۱۳۷،۱۳۸) اور ثقہ کی زیادتی غیرمقلدین کے نزدیک بھی مقبول ہے۔ (دیکھئے، ص : ۶)  لہذا محمد بن ثابت العبدیؒ پر یہ اعتراض صحیح نہیں ہے۔

نوٹ :

امام بیہقی ؒ کا یہ کہنا کہ : محمد بن ثابت ؒ کے علاوہ کسی اور نے کہنیوں (تک مسح کرنے) کا لفظ ذکر نہیں کیا ہے ،صحیح نہیں ہے ۔کیونکہ کئی راویوں نے اس روایت کو مرفوعاً بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کہنیوں (تک مسح کرنے) کے لفظ کو بھی ذکر فرمایا ہے ،مثلاً :

سلیمان بن ابی داؤد الحرانی ؒ ( ضعیف )نے اس تیمم والی روایت کو مرفوع بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ،کہنیوں تک مسح کرنے کو بھی ذکر کیا ہے۔چنانچہ امام دارقطنی ؒ(م ۳۸۵؁ھ) کہتے ہیں کہ :

                  حدثنا محمد بن مخلد ،واسمعیل بن علی ،قالا : نا ابراہیم الحربی ،ثنا ہارون بن عبداللہ ثنا شبابۃ ثنا سلیمان بن ابی داؤد الحرانی ،عن سالم ،ونافع ،عن ابن عمر ،عن النبی ﷺ فی التیمم ضربتین ضربۃ للوجہ وضربۃ للیدین الی المرفقین ۔(سنن دارقطنی ج:۱ص:۳۳۴،حدیث  نمبر: ۶۹۰)

نوٹ:

حافظ مغلطائی ؒ ۷۶۲؁ھ) محمد بن ثابت العبدی ؒ کی حدیث پر امام احمد بن حنبلؒ کے اعتراض کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ فیہ نظر : من حیث ان حدیث ابن ابی داؤد مرفوع لا موقوف ‘‘ امام احمد بن حنبلؒ کا کلام قابل غور ہے ،اس حیثیت سے ابن ابی داؤد کی حدیث (بھی محمد بن ثابت العبدی ؒ کی روایت کی طرح )مرفوع ہے ،نا کہ موقوف ۔(شرح ابن ماجہ للمغلطائی ص:۶۸۶) معلوم ہواکہ حافظ مغلطائی ؒ کے نزدیک ابن ابی داؤد کی روایت شاہد کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے ۔

نیز علی بن ظبیان ؒ (ضعیف )اور سلیمان بن ارقم (ضعیف ) نے بھی اس روایت کو مرفوعا ً بیان کیا ہے اور ان دونوں کی روایت میں کہنیوں تک مسح کرنا کا تذکرہ موجود ہے ۔

علی بن ظبیان ؒ کی روایت کے الفاظ :

امام دارقطنی ؒ ۳۸۵؁ھ) کہتے ہیں کہ :

                  حدثنا ابوعبداللہ محمد بن اسمعیل الفارسی ،نا عبداللہ بن الحسین بن جابر ،نا عبدالرحیم بن مطرف ،ثنا علی بن ظبیان ،عن عبید اللہ بن عمر ،عن نافع ،عن ابن عمر ،عن النبی ﷺ قال : التیمم ضربتان ضربۃ للوجہ وضربۃ للیدین الی المرفقین ۔(سنن دارقطنی ج:۱ص:۳۳۲،حدیث نمبر: ۶۸۵)

سلیمان بن ارقم ؒ کی روایت کے الفاظ :

امام دارقطنی ؒ ۳۸۵؁ھ) کہتے ہیں کہ :

                  حدثنا محمدبن علی بن اسمعیل الابلی ،ثنا الہیثم بن خالد ،ثنا ابونعیم ،ناسلیمان بن ارقم عن الزہری ،عن سالم عن ابیہ قال: تیممنا مع النبیﷺ ضربنا بأیدینا علی الصعید الطیب ثم نفضنا أیدینا فمسحنا بہا وجوہنا ،ثم ضربنا ضربۃ اخری الصعید الطیب ثم نفضنا أیدینا فمسحنا بأیدینا من المرافق الی الاکف علی منابت الشعر من ظاہر وباطن ۔(سنن دارقطنی ج:۱ص: ۳۳۴،حدیث نمبر: ۶۸۸)

امام حاکم ؒ اپنی کتاب المستدرک میں کہتے ہیں کہ ’’سلیمان بن ارقم وسلیمان بن ابی داؤد لیسا من شروط ہذا الکتاب ،ولکن ذکرنا ہما فی الشواہد ‘‘ سلیمان بن ارقم اور سلیمان ابی داؤد ؒ اس کتاب کے شرائط میں سے نہیں ہے ۔لیکن ہم نے ان دونوں کی روایت کو شواہد میں ذکر کیا ہے ۔ (المستدرک للحاکم ج:۱ص:۲۸۷،حدیث نمبر: ۶۳۵ ، ۶۳۶،نصب الرایہ ج:۱ ص:۱۵۰،واللفظ لہ )

پھر ان سب کے علاوہ عبدالعزیز بن ابی روادؒ ۱۵۹؁ھ) [ثقہ] نے بھی اس روایت کو مرفوع بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کہنیوں کا بھی ذکر کیا ہے ۔جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ،اور جابر بن عبداللہ ؓ کی روایت بھی مرفوع ہے اور اس میں بھی کہنیوں تک مسح کرنے کا ذکر موجود ہے ۔

الغرض اس پوری تفصیل سے معلوم ہو اکہ محمد بن ثابت العبدی ؒ نہ ابن عمر ؓ کی روایت کو مرفوع بیان کرنے میں منفرد ہیں اور نہ ہی کہنیوں کے لفظ کو ذکر کرنے میں ۔

یہی وجہ ہے کہ امام بیہقی ؒ امام بخاری ؒ کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ،معرفۃ السنن والآثار میں کہتے ہیں کہ ’’ انکر البخاری رحمہ اللہ علی الحدیث ،ورفعہ غیر منکر ‘‘ امام بخاری ؒ نے محمد بن ثابت العبدی ؒ کی حدیث کا انکار کیا (اس لئے کہ انہوں نے اس کو مرفوع بیان کیا ہے) حالانکہ ان کا (روایت کو ) مرفوع بیان کرنا منکر نہیں ہے اور امام زیلعی ؒ نے بھی امام بیہقی ؒ کی تائید کی ہے ۔(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی ج:۲ص: ۸،نصب الرایہ ج:۱ص:۱۵۳)

امام حاکم ؒ نے بھی اس روایت کو مرفوعاً تسلیم کیا ہے ۔(خلاصہ بدرالمنیرج:۱ص:۶۹)،  مزید اقوال ص  : ۴۶پر موجود ہے۔لہذا محمد بن ثابت العبدی ؒ کی روایت سنداً اور متناً دونوں لحاظ سے صحیح ہے ۔والحمد للہ

[2] حافظ  مغلطائی ؒ (م۷۶۲؁ھ)ائمہ کے نزدیک ثقہ،حافظ اور شیخ المحدثین ہیں، دیکھئے  ص :  ۵۳ ۔

[3] شرح ابن ماجہ لمغلطائی کے بعض مطبوعہ نسخوں میں کتاب الالقاب للشرازی کے بجائے کتاب الالباب للشرازی چھپ چکا ہے جو کہ کتاب کی غلطی ہے۔کیونکہ شرح ابن ماجہ لمغلطائی کے مخطوطہ[نسخہ مکتبہ فیض اللہ افنڈی،ترکی : رقم ۳۶۲،فولیو [Folio]نمبر۲۶۶ ] میں ’ کتاب الالقاب للشرازی ‘ ہی موجود ہے۔لہذا قارئین سے  گزارش ہےکہ اسے نوٹ کرلے۔

اسکین : مخطوطہ [شرح ابن ماجہ لمغلطائی] نسخہ مکتبہ فیض اللہ افنڈی،ترکی

 

[4] یاد رہے کہ امام خوارزمی ؒ ۶۶۵؁ھ) ثقہ ہیں ۔تفصیل کے لئے (دیکھئے ص:۳۰)

[5]  مضبوط شواہد کی وجہ سے اس روایت میں حافظ ابو زبیر المکی ؒ (م ۱۲۶؁ھ)پر تدلیس کا اعتراض مردود ہے ۔(شواہدکے لئے دیکھئے دلیل نمبر:۱-۳، دلیل نمبر:۶۔۔وغیرہ نیز دیکھئے سینے ہاتھ باندھنے کے حکم اور مقام از زبیر علی زئی ص:۳۷) پھر جابربن عبداللہ ؓسے روایت کرنے میں حافظ ابوزبیر المکی ؒ ۱۲۶؁ھ)  مکثر ہیں ،اس لحاظ سے بھی ان کی تدلیس قابل قبول ہے ۔(الاجماع : شمارہ نمبر ۳: ص ۲۳۱)

 

[6]  حریش بن الخریت البصری پر کوئی جرح مفسر موجود نہیں اور غیر مقلدین کے نزدیک جرح غیر مفسر پر تعدیل مقدم ہوتی ہے۔(الاجماع: شمارہ نمبر ۲ : ص ۱۷۸) لہذا غیر مقلدین کے اصول سے تعدیل کو ہی ترجیح حاصل ہے اور وہ جرح غیر مفسر پر مقدم ہے ۔

 

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 4

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...