نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد کی کتاب’’ طلاق ، خلع اور حلالہ ‘‘ کا مطالعہ


حافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد کی کتاب’’ طلاق ، خلع اور حلالہ ‘‘ کا مطالعہ

  مفتی رب نوازحفظہ اللہ ، احمد پور شرقیہ

ماخوذ  : مجلہ  راہ     ہدایت    شمارہ 21


            [ بندہ کی ایک کتاب ’’ مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث ‘‘زیر ترتیب ہے۔ اس کے لئے مسئلہ طلاق سے متعلقہ غیرمقلدین کی متعددکتابوں کا مطالعہ کیا۔اُن میں سے ایک کتاب ’’ طلاق، خلع اور حلالہ ‘‘ مؤلفہ حافظ صلاح الدین یوسف ہے۔ اس کے متعدد حوالہ جات پر بحث بندہ کی زیر ترتیب کتاب میں ہوگی ان شاء اللہ۔ البتہ جو باتیں اس کتاب کے عنوان سے ہٹ کر ہیں، انہیں یہاں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے ۔ ( رب نواز عفا اللہ عنہ )]

پُر خطر وادیوں سے بسلامت گزرنے کا دعویٰ

 حافظ محمد عثمان یوسف ( مدیر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور ) نے اپنے والد حافظ صلاح الدین یوسف کے متعلق لکھا:

            ’’مشاجرات کی بحثوں سے افراط و تفریط کا شکار ہوئے بغیر بھلا کون اپنا دامن بچا کر گزر سکا ... لیکن والد گرامی ان پُر خطر وادیوں سے بسلامت گزر گئے۔ ‘‘

 ( پیس ِ لفظ : طلاق، خلع اور حلالہ صفحہ ۱۲، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)

            یہ تو بیٹے کا دعوی ہے اَب ذرا اُن کے والدصاحب کی اپنی عبارت پڑھئے۔حافظ صلاح الدین یوسف نے مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی پہ ایک مضمون’’ میرے مربی ، محسن اور استاد ‘‘ تحریر کیا ۔اس میں لکھتے ہیں:

            ’’ پھر راقم نے جب بہ اصرار اجازت لے کر ’’خلافت و ملوکیت ‘‘ کا جواب لکھا تو نظر ثانی کے وقت ایک مقام پر اہلِ سنت کے متفقہ مسلک سے جو کچھ انحراف ہے ، اس کی بابت انہوں نے اسے بدلنے کا مشورہ دیا ۔ یہ مقام ہے جمل و صفین کی جنگوں میں برسرحق گروہ کا ۔ اہل سنت کے جمہور علماء و فقہاء کی رائے یہ ہے کہ ان میں حضرت علی ؓ حق پر تھے اور حضرت معاویہ ؓ غلطی پر ۔اَور وہ اسے حضرت معاویہ ؓ کی خطائے اجتہادی کہتے ہیں۔راقم نے اپنی کتاب ’’ خلافت و ملوکیت ‘‘ کی تاریخی و شرعی حیثیت ‘‘ میں اس سے قدرے برعکس موقف اختیار کیا ہے اور حضرت مرحوم کی خواہش کے باوجود اسے تبدیل نہیں کیا ۔ ‘‘

 ( الاعتصام ،اشاعتِ خاص بیاد مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی صفحہ ۴۷۸)

             صلاح الدین صاحب نے اعتراف کیا کہ مشاجرات ِصحابہ کی بابت اُن کا موقف اہلِ سنت کے برخلاف ہے۔مزید یہ کہ انہیں اس پہ متنبہ بھی کیا گیا پھر بھی رجوع نہیں کیا ۔

یزید کی ثقاہت کا موقف

حافظ محمد عثمان یوسف لکھتے ہیں:

            ’’واقعہ کربلا پر لکھا تو یوں لکھا کہ ابن معاویہ کی تعدیل کے ساتھ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی عظمت بر قرار رہی ۔ ‘‘

 ( پیش  ِ لفظ : طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ ۱۲، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)

            اس عبارت میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ صلاح الدین صاحب کے نزدیک یزید ثقہ راوی ہے ۔ اس کے بالمقابل شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ یزیدکے بارے میں سکوت کرنا چاہیے ،حدیث کی روایت میں وہ مجروح راوی ہے ۔‘‘

(ماہ نامہ الحدیث شمارہ نمبر :۶ صفحہ ۸،بحوالہ اشاعۃ الحدیث ،بیاد حافظ زبیر علی زئی صفحہ ۳۹۲)

اعتدال کا دعویٰ

حافظ محمد عثمان یوسف لکھتے ہیں:

            ’’ اعتدال کسے کہتے ہیں، دین کیسے سمجھنا ہے، حکمت کیا ہوتی ہے، اور باشعور تحریر کسے کہتے ہیں، یہ سب جاننا ہو تو والد گرامی کی تصنیفات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ‘‘

 ( پیش ِ لفظ : طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ ۱۳، ناشر :مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)

            صلاح الدین صاحب نے جس حکمت، اعتدال اور شعور کا مظاہرہ کیا اس کا ایک نمونہ آگے حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی دام ظلہ سے مخاطبت کے حوالہ سے آرہا ہے ، ان شاء اللہ ۔

مولانا سید سلیمان ندوی اورعلامہ شبلی کی کتب میں علمی جواہر

 حافظ محمد عثمان یوسف اپنے والد کے متعلق لکھتے ہیں:

            ’’انہوں نے مولانا مسعود عالم ندوی ، مولانا ابو الحسن ندوی اور مولانا عبد السلام ندوی جیسے متعدد اصحاب قلم کی تصانیف سے بھی استفادہ کیا اور مولانا ابو الکلام آزاد ، قاضی سلیمان منصورپوری، علامہ شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کی کتابوں سے بالخصوص علمی جواہر اخذ کئے۔‘‘

( پیش لفظ: طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ۱۲ ، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)

            مولانا سلیمان ندوی کو دیگر غیرمقلدین نے بھی خراج تحسین پیش کیا ہے۔ حوالہ جات کے لیے بندہ کی کتاب ’’ غیرمقلدین کا علمائے دیوبند کو خراج تحسین ‘‘ کا مطالعہ کیجئے ۔ یہ کتاب قسط وار مجلہ الفتحیہ احمد پورشرقیہ میں شائع ہو رہی ہے ۔ ایک سو اٹھارہ (۱۱۸ )قسطیں شائع ہو چکی ہیں والحمد للہ۔ اس میں علامہ شبلی کا تذکرہ بھی شامل ہوگا ان شاء اللہ ۔

حضرت مولانامحمد یوسف بنوری رحمہ اللہ

حافظ محمد عثمان یوسف لکھتے ہیں:

            ’’کتاب پر بطور مقدمہ شامل کرنے کے لیے مولانا یوسف بنوری جیسے جید حنفی عالم نے بینات میں لکھا اپنا ’’عظمت ِ صحابہ ‘‘ سے متعلق مضمون ہدیہ کر دیا۔ کیا آج ایسی رواداری کہیں دکھائی دیتی ہے؟ ایک جید عالم جو پیری کے دَور میں ہیں جب کہ دنیا ان کا لوہا مانے ہوئے ہے ، عجم کیا عرب ان کی جلالت علمی سے متاثر ہیں، وہ ایک پچیس سال کے لڑکے کی کتاب میں جس کا تعلق بھی دوسرے مسلک سے ہے، اپنامضمون بطور مقدمہ شامل کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ کچھ خاص بات تو رہی ہوگی اس لڑکے کی تحریر میں کہ ایک متبحر حنفی عالم و شیخ الحدیث ان کی کتاب پر تقدیم کا خواہاں ہوتا ہے اور کیا خوبی ہوگی اس عالم کی شان ِ انکساری و سر پرستی علم کی کہ وہ اپنے لحاظ سے ایک طفل مکتب کی کتاب کو عملی و علمی طور پر سراہتے ہیں ۔ آہ خاک ہو گئے نگینے لوگ ۔ ‘‘

( پیش ِ لفظ : طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ ۱۳، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)

             حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کی مدح سرائی پہ مشتمل دیگرغیرمقلدین کے حوالہ جات کے لیے بندہ کی کتاب ’’ غیرمقلدین کا علمائے دیوبند خراج ِ تحسین ‘‘ دیکھئے ۔یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ جس کی کتاب ہوتی ہے وہ تقدیم لکھوانے کاخواہاں ہوتا ہے ،نہ کہ وہ شخصیت جسے سے تقدیم لکھوائی جارہی ہو۔

تفسیر احسن البیان

حافظ محمد عثمان یوسف لکھتے ہیں:

            ’’اور پھر تفسیر ’’ احسن البیان ‘‘کی تو بات ہی کیا ہے۔ اس تفسیر کے متعلق کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ایک ایسی تفسیر جو شروع سے آخر تک سلف کے فہم پر مبنی ہے ۔ ‘‘

 ( پیش ِ لفظ : طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ۱۴، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)

            اس تفسیر سے خود کئی غیرمقلدین کو اختلاف ہے مثلا ً اس میں قرآن کی آیت ومن یشاقق الرسول الخ کی تفسیرمیں اجماع کو حجت قرار دے کر اس کے انکار کو کفر قرار دیا ہے ۔جب کہ غیرمقلدین کا ایک طبقہ اجماع کی حجیت کا منکر ہے۔حوالہ جات بندہ نے اپنی کتاب ’’ زبیر علی زئی کا تعاقب ‘‘ میں نقل کر دئیے ہیں ۔

            عثمان صاحب تفسیر احسن البیان کو ’’ شروع سے آخر تک سلف کے فہم پر مبنی ۔ ‘‘قرار دے رہے ہیں۔ ساری تفسیر فہم سلف کے مطابق ہونا تو بڑی بات ہے آپ صرف مسئلہ تین طلاق کی بابت ثابت کر دیں کہ انہوں نے اسے فہم سلف کے مطابق حل کیا ہو؟ اسلاف نے قرآن وحدیث سے کیا سمجھا ہے تین کا تین ہونا یا تین کا ایک ہونا ؟مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ صحابہ و تابعین و تبع تابعین سے لے کر سات سو سال تک سلف صالحین صحابہ و تابعین و محدثین سے تو تین طلاق کا ایک مجلس میں واحد شمار ہونا تو ثابت نہیں۔‘‘

 ( فتاوی ثنائیہ :۲؍۲۱۷، ناشر:اسلامک پبلشنگ لاہور )

کتاب’’طلاق ، خلع اور حلالہ ‘‘ کی حیثیت

حافظ محمد عثمان یوسف لکھتے ہیں:

            ’’مذکورہ کتاب ’’طلاق ، خلع اور حلالہ ، قرآن و سنت اور فقہ حنفی کے تناظر میں تحقیقی جائزہ ‘‘ ہماری جد وجہد کی ایک اہم کڑی ہے ۔ یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے ممتاز و منفرد ہے جو عوام و خواص کے لیے بہت سا علمی مواد اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔ ‘‘

( پیش ِ لفظ : طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ۱۶، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)

            اس عبارت کے مطابق کتاب میں جو اقتباسات احناف کی حمایت اورغیرمقلدین کی مخالفت میں ہیں وہ بھی ممتاز و منفرد شمار ہونے چاہئیں ۔

متعہ طلاق ہر طلاق یافتہ عورت کے لیے !؟

صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:

            ’’طلاق دینے کے بعد رجوع نہ ہو سکے تو مطلقہ عورت کو اچھے طریقے سے رخصت کیا جائے ... علاوہ اَزیں اس موقع پر انہیں کوئی ہدیہ یا تحفہ دینے کا حکم دیا گیا ... یہ متعہ طلاق (فائدہ ) ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کو دینا چاہیے ۔ ‘‘

( طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ ۳۶ ، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)

            بتایا جائے کہ اس مسئلہ میں امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف کیا ہے وہی جو مذکورہ عبارت میں ہے یا کچھ اور؟جب کہ فتاویٰ نذیریہ میں ہے:

            ’’ ان[امام بخاری رحمہ اللہ (ناقل)] کی مخالفت لوہے کے چنے چبانے ہیں۔‘‘

 ( فتاوی نذیریہ : ۱؍۴۲۷، مکتبۃ المعارف الاسلامیۃگوجرانوالہ)

 طلاق حسن کو ’’طلاق کی بدترین قسم‘‘کا نام دینے کی جسارت

 صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ طلاق حسن، جو بہت مشہور ہے۔ یہ طریقہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی بیان کیا ہے۔ اس لئے اسے مسنون طریقہ سمجھ لیا گیا ہے اور اسے طلاق سنت کا نام دے دیا گیا، حالاں کہ اسے طلاق سنت قرار دینا کسی لحاظ سے بھی صحیح نہیں ہے ... طلاق کی دوسری قسم ، طلاق حسن جسے طلاق سنت مشہور کر دیا گیا ہے ، طلاق کی بدترین قسم ہے۔ ‘‘

( طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ۴۹ ،۵۰، ناشر : مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور )

            صلاح الدین صاحب نے تسلیم کیا کہ طلاق حسن کی یہ تعریف سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، پھر بھی کہہ دیا کہ یہ طلاق کی بد ترین قسم ہے ۔اس لئے اسے طلاق سنت کا نام دینا کسی لحاظ سے بھی صحیح نہیں۔

 ابن قدامہ رحمہ اللہ ’’حنبلی المسلک‘‘ ہیں

 صلاح الدین صاحب’’ فقہ حنبلی کا فتوی ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:

            ’’حنبلی مسلک کی کتاب ’’ المغنی‘‘ میں ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں... ‘‘

 ( طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ۵۹، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)

            امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کا شمار محدثین میں ہے ۔ اور اس کے ساتھ وہ حنبلی المسلک مقلد بھی ہیں اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ محدثین تقلید کے قائل نہیں تھے ۔

 نووی شافعی المسلک ہیں

صلاح الدین صاحب’’ فقہ شافعی کا فتویٰ ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:

            ’’شافعی مسلک کی کتاب ’’ روضۃ الصالحین ‘‘ میں امام نووی لکھتے ہیں۔ ‘‘

 ( طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ ۵۹، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)

            امام نووی رحمہ اللہ کو شافعی مقلد تسلیم کیا ہے،وہ مقلد ہونے کے ساتھ ساتھ محدث بھی تھے۔مزید یہ کہ انہوں نے تقلید شخصی کو واجب قرار دیا ہے :

            ’’فعلی ھذا یلزمہ ان یجتھد فی اختیار مذھب یقلد ہ علی التعیین ،ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ کوشش کرکے کوئی ایک مذہب چن لے اورپھر معین طور سے اس کی تقلید کرے ۔‘‘

 ( المجموع شرح المہذب:۱؍۹۱، مطبعۃ العاصمۃ قاہرۃ بحوالہ تقلید کی شرعی حیثیت صفحہ۶۶)

مسئلہ خلع میں عورت کو مرد پر قیاس

صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:

            ’’خاوند میں کوئی اور ایسی بیماری ہو، جسے عورت ناپسند کرے اور شادی سے پہلے اس کی بابت اسے بتلایا نہ گیا ہو تو وہ بھی نکاح فسخ کرا کے خاوند سے علیحدہ ہو سکتی ہے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے : ﴿جس آدمی نے کسی عورت کے ساتھ شادی کی ( بعد میں معلوم ہوا کہ ) اسے دیوانگی ، کوڑھ یا برص کی بیماری ہے ( تو اسے اختیار ہے کہ اسے طلاق دے کر رخصت کر دے ) او ر اس سے صحبت کی ہے تو اسے اس کا پورا حق مہر دینا ہوگا اور یہ مہر خاوند عورت کے ولی سے وصول کرے گا( اس لئے کہ اس نے اسے عورت کے ان عیبوں سے آگاہ نہیں کیا تھا ﴾اس اثر سے مرد کے اختیار کا بیان ہے لیکن اس پر قیاس کرتے ہوئے یہی اختیار اس عورت کو بھی ہوگا جس کی شادی ایسے مرد سے کر دی جائے جس کو مذکورہ بیماریوں میں سے کوئی بیماری یا کوئی اور کوئی خطر ناک بیماری لگی ہو اور شادی سے پہلے اس بیماری کی اطلاع اسے نہ مل سکی ہو، نیز اس بیماری کی وجہ سے وہ اس کے پاس رہنا پسند نہ کرے تو اسے بھی یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ خاوند سے بذریعہ طلاق یا بذریعہ عدالت یا پنچایت نکاح فسخ کرا کے علیحدگی اختیار کر لے، چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: قیاس کا تقاضا ہے کہ ہر وہ عیب جو میاں بیوی سے ایک کو دوسرے سے متنفر کر دے اور اس کی وجہ سے نکاح کا مقصود، شفقت و محبت حاصل نہ ہو، وہ دونوں کے لیے اکٹھے رہنے یا نہ رہنے کو واجب کر دیتا ہے اور یہ اختیار اس سے زیادہ اَولیٰ ہے جو خرید و فروخت میں ملتا ہے۔جیسے ان شرطوں کا پورا کرنا، جو نکاح میں باندھی جاتی ہیں، خرید و فروخت کی شرطوں سے اَولیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے کبھی کسی ’’مغرور ‘‘ (جس کو فریب دیا جائے) یا ’’ مغبون ‘‘جس سے بدنیتی کی جائے ) پر اس چیز کو لازم نہیں کیا ہے جس میں ان کے ساتھ دھوکہ اور بدنیتی کی گئی ہو۔ جو شخص بھی شریعت کے مقاصداور اس کے عدل و حکمت اور اس پر مشتمل مصلحتوں پر غور کرے گا تو اس پر اس رائے کا راجح ہونا اور اس کا قواعد شریعت کے قریب ہونا مخفی نہیں رہے گا۔ ‘‘

 ( طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ ۸۶، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)

            غیرمقلدین قیاس کو حجت نہیں سمجھتے ۔مگر جب چاہتے ہیں ،خود قیاس کر لیتے ہیں۔مزید قابلِ غور بات یہ

  ہے کہ صلاح الدین صاحب نے اس مسئلہ کا قیاس کسی آیت یا حدیث ِ نبوی پہ نہیں کیا بلکہ امتی؍ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قول پہ قیاس کیا ہے۔ جب کہ غیرمقلدین کے ہاں غیرمعصوم کی بات حجت نہیں ہے۔شیخ زبیر علی زئی کی کتاب ’’ مقالات الحدیث ‘‘ دیکھئے!

            یہاں ’’ رائے کا راجح ہونا‘‘ پہ توجہ رہے کہ وہ رائے پیش کر رہے ہیں ، نہ کہ حدیثِ نبوی ۔جب کہ وہ دوسروں کو ’’اہل رائے‘‘ قرار دے کر اس کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں کہ’’ اہل رائے ‘‘حدیث سے بے نیاز ہو کر محض رائے سے فتوے دیتے ہیں ۔مگرجناب نے یہاں کون سی حدیث نبوی پیش کی ہے ؟

امام زہری کے قول پہ فتوی

 صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ ہر اُس خطر ناک بیماری کی وجہ سے عورت خلع کروا سکتی ہے جس سے اسے نفرت و کراہت ہو اور اس کی وجہ سے وہ مرد کے وہ حقوق ادا کرنے سے قاصر ہو جو اس سے عائد ہوتے ہیں ، چنانچہ امام زہری کا قول ہے : ﴿یرد النکاح من کل داء عضال ﴾ہر خطر ناک بیماری کی وجہ سے نکاح رد ( ختم ) کر دیا جائے گا ۔ ‘‘

( طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ۸۷ ، ناشر : مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور )

            کہنے کو تو غیرمقلدین کہہ دیا کرتے ہیں غیرمعصوم کی پیروی جائز نہیں ،دوسرے لفظوں میں امتی کی اتباع ناجائز ہے ۔اسی اصول سے وہ ائمہ کی تقلید کو ناجائز بتاتے ہیں مگر خود امتیوں کی پیروی کیاکرتے ہیں جس کی ایک مثال مذکورہ بالا مسئلہ ہے ۔

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع اور ان کی تفسیر معارف القرآن

صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:

            ’’مولانا تقی عثمانی صاحب کے والد گرامی جناب مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم نے قرآن مجید کی اردو میں نہایت مفصل تحریر فرمائی ہے جو آٹھ ضخیم جلدوں میں شائع شدہ ہے۔ تفسیر ’’معارف القرآن ‘‘ اس کا نام ہے۔ اس میں ہر اَہم مسئلے پر مفتی صاحب موصوف نے خاصی

  تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ ‘‘

( طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ۶۹، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)

            مذکورہ عبارت میں درج ’’ہر اَہم مسئلے پر مفتی صاحب موصوف نے خاصی تفصیل سے گفتگو کی۔‘‘جملہ پہ ہم ماشاء اللہ اور الحمد للہ کہتے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی تفسیر کو قبول کرے ، آمین ۔

 تفویض طلاق کے قائل علمائے غیرمقلدیت

 صلاح الدین صاحب نے مسئلہ تفویضِ طلاق کی بابت لکھا:

             ’’ بعض علمائے اہلِ حدیث بھی اس کے جواز کا فتوی دے دیتے ہیں۔ غالباً انہوں نے اس مسئلے کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیا یا عورتوں کے ’’ حقوق‘‘ کے شور میں اس کی شاید ضرورت ہی محسوس نہیں کی، اس لئے وہ بھی جواز کے قائل ہو گئے۔ راقم کے پاس بھی یہ استفسار آیا اور اس میں بعض علمائے اہلِ حدیث کی طرف سے اس کے اثبات کا حوالہ بھی دیا گیا ۔ ‘‘

( طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ۹۷ ، ناشر : مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور )

            غیرمقلدین کا اختلاف سامنے آگیا اور یہ بات بھی کہ غیرمقلدین کے ایک فریق نے بقول صلاح الدین صاحب گہرائی سے جائزہ نہیں لیا ۔اس فریق سے پوچھا جائے تو وہ اپنے مخالف کی بابت یہی دعویٰ کرے گا کہ انہوں نے اس مسئلہ میں گہرائی سے کام نہیں لیا۔

حضرت مولانامفتی تقی عثمانی پر گھناوناالزام

صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:

            ’’موجودہ علمائے احناف میں ایک نہایت بر سر آوردہ عالم مولانا تقی عثمانی صاحب ہیں جن کو ان کے عقیدت مندوں نے شیخ الاسلام کے لقب سے نوازا ہوا ہے ، جن کا اس دَور میں ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ ’‘میزان بینک ‘‘ کے نام سے جو بینک قائم ہوا ہے اس کو غیر سودی بینک قرار دے کر سودی طریقوں کو سند جواز مہیا کی ہے۔ گویا فقہی حیلوں کے ذریعے سے حرام کو حلال کرنے میں ان کو خصوصی مہارت حاصل ہے ۔ اللہ کرے زور ِ فقاہت اور زیادہ ۔ ‘‘

 ( طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ ۱۲۱، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)

 صلاح الدین صاحب کے بیٹے حافظ محمد عثمان یوسف ان کے متعلق لکھتے ہیں:

            ’’یہ ان کے وسعتِ مطالعہ کا اثر تھا کہ جس سے اختلاف کیا، ادب سے کیا۔ دفاع صحابہ رضی اللہ عنہم میں سید مودودی سے بھر پور اختلاف کیا لیکن اس قدر تہذیب و شائستگی کے ساتھ کہ اپنی بات بھی کہہ گئے ، سید مودودی کے افکار کا انتقاد بھی ہوگیا اور سید کی شخصیت کے احترام کا پاس بھی رہ گیا ۔‘ ‘

( پیش لفظ: طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ۱۲ ، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)

             عثمان صاحب کا دعویٰ ہے کہ ان کے والد نے مودوی صاحب کے احترام کا پاس رکھا ہے ۔عرض ہے کہ حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دام ظلہ کو مودودی صاحب جتنا بھی احترام نہیں دیا۔ نہ صرف یہ کہ احترام نہیں دیا بلکہ انہیں حیلوں سے حرام کو حلال کرنے کا خصوصی ماہر قرار دیاہے ۔ مگر بیٹا صاحب ’’ جس سے اختلاف کیا ، ادب سے کیا ‘‘ کہہ کر تعریف کر رہے ہیں۔

            یہاں اسلامی بینکاری کی وجہ سے صلاح الدین صاحب نے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دام ظلہ پہ فقہی حیلوں سے حرام کو حلال کرنے کا الزام جڑ دیا جب کہ ڈاکٹر حافظ محمد زبیرغیرمقلد نے اسی خدمت پہ انہیں خراجِ تحسین پیش کیا چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

            ’’جو ہمارا روایتی طبقہ اورہمارا مین دھارا (Main Stream )ہے ، اس سے ہم کریٹوورک (Creatove work)کی بعض مثالیں لے سکتے ہیں جیساکہ عصر حاضر میں اس کی مثال .. .مولانا محمد تقی عثمانی کا اسلامی بینکاری کے بارے میں کام ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ... مولانا تقی عثمانی صاحب کے اسلامک بینک (Islamic Banking) کے فتوی سے ہمیں اتفاق ہے کہ نہیں ۔کچھ کو اتفاق ہے ، کچھ کو نہیں ہے ۔ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بہرحال ہمیں ماننا پڑے گا کہ چاہے ...تقی عثمانی صاحب سے سینکڑوں اختلافات ہوں کہ یہ اُن کا تخلیقی کام ہے ۔ ‘‘

 ( تحقیق اور اصول تحقیق صفحہ ۲۰)

             ڈاکٹر محمد اسلام غیرمقلد نے ’’تحقیق اور اصول تحقیق صفحہ ۱۹، ۲۰ پہ حاشیہ میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی

  عثمانی دام ظلہ کے مختصر حالات لکھ دئیے جس میں ان کے مقام کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔حضرت مفتی صاحب

  موصوف دام ظلہ کو دیگر غیرمقلدین نے بھی خراج ِ تحسین پیش کیا۔ ہماری کتاب ’’ غیرمقلد ین کا علمائے دیوبند کو خراج تحسین‘‘ دیکھئے ۔

            صلاح الدین صاحب ایک طرف تو الزام دیتے ہیں کہ حضرت مولانا مفتی محمدتقی عثمانی دام ظلہ کوفقہی حیلوں سے حرام کو حلال بنانے کی خصوصی مہارت ہے اور دوسری طرف ان کی ایسی فقاہت کے لئے ’’ اللہ کرے زور ِ فقاہت اور زیادہ ۔ ‘‘کہہ کر بڑھوتری کی دعا بھی دیتے ہیں۔

 مدرسہ دار العلوم دیوبند

صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ماضی قریب کے چند حنفی مفسرین کے حوالے ملاحظہ فرمائیں جن سب کا خصوصی تعلق دار العلوم دیوبند ہی سے ہے جو پاک و ہند کے علمائے احناف کی مسلمہ مادر علمی ہے ۔ ‘‘

 ( طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ ۱۳۰، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)

            اس عبارت میں دیوبند یوں کا حنفی ہونا تسلیم کیا ہے جب کہ شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے علمائے دیوبند کو حنفی ماننے سے انکار کر دیا۔بلکہ انہوں نے یہاں تک لکھا:

            ’’ میری جس تحریر میں دیوبندیوں و بریلویوں کے ساتھ حنفی کالفظ لکھا گیا ہے وہ عرف کے لحاظ سے لکھا گیا ہے ورنہ حقیقت میں یہ حضرات حنفی نہیں ۔ لہٰذا اسے مسنوخ سمجھا جائے۔‘‘

( نصرالباری صفحہ ۴۰بحوالہ اشاعۃ الحدیث حضرو ،بیاد حافظ زبیر علی زئی صفحہ ۳۹۲)

مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی ’’سلفی ‘‘ ہیں

            صلاح الدین صاحب نے مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کی ایک عبارت نقل کی ۔ جس میں انہوں نے اپنے سلفی ہونے کا اقرار کیا۔چنانچہ وہ اپنے متعلق لکھتے ہیں:

            ’’دیوبند کے خلاف طبیعت میں تعصب موجود تھا ۔ پھر علامہ رشید مرحوم کے درس نے مسلک سلف کا قائل کر دیا تھا ۔ ‘‘

( طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ ۱۳، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)

جب وہ سلفی ہیں تو ان کے حوالے بطور ِ الزام سلفیوں کے خلاف پیش کئے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...