دم سائل ا ور پیپ ناقض وضو ہے۔
مولانا نذیر الدین قاسمی
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں.
خون یا پیپ نکل کر بہہ جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔اس کے دلائل
درج ذیل ہیں :
دلیل نمبر۱:
امام ابن عدی ؒ (م ۳۶۵ھ)فرماتے
ہیں کہ :
حدثنا القاسم بن محمد بن العباد ،حدثنا
أحمد بن عبدۃ ،حدثنا حسین بن حسن عن جعفر بن زیاد الأحمر ،عن أبی ہاشم الرمانی
عن زاذان عن سلمان قال رعفت عند النبی ﷺ فأمرنی أن أحدث وضوء ۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ میں نبی ﷺ کے پاس تھے اور میری ناک میں سے خون نکلا ،تو آپ
ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں نیا وضو کروں ۔(الکامل لابن عدی ج:۲ص:۳۷۵،واسنادہ
حسن )[1]
دلیل نمبر ۲:
امام ابو الحسن الدار قطنی ؒ(م۳۸۵ھ)فرماتے
ہیں کہ :
حدثنا
الحسین بن اسماعیل،واحمد بن عبداللہ الوکیل ،قالا :نا عمربن شیبۃ ،قال ناعمربن علی
المقدمی ،نا ہشام بن عروۃ،عن أبیہ ،عن عائشۃ قالت:قال رسو ل اللہ ﷺ :اذا احدث
أحدکم وہو فی الصلاۃ فلیضع ید ہ علی انفہ ثم لینصرف۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا کہ دوران نماز جب تم میں سے کسی شخص کی ناک میں سے خون یا پیپ ٹپکے ،تو اسے
چاہیئے کہ وہ اپنی ناک پر ہاتھ رکھ لے پھر نماز توڑ دے ۔(سنن دارقطنی رقم الحدیث
:۵۸۵،
واسنادہ صحیح)[2]
دلیل نمبر۳ :
امام ابو الحسن الدارقطنی ؒ (م ۳۸۵ھ)فرماتے
ہیں کہ :
حدثنا محمد بن اسماعیل
الفارسی ،وعثمان بن أحمد الدقاق ،قالا ،نا یحی بن ابی طالب ،نا عبد الوہاب
،أناابن جریج ،عن أبیہ عن النبی ﷺ قال :من وجد رعافاً أو قیئااو مذیا أو قلسا
فلیتوضأ ثم لیتم علی ما مضی ما بقی وہو
مع ذلک یتقی ان یتکلم ۔
عبدالعزیز بن جریج ؒ مرسلا ً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
کہ جس کی نکسیر ،پھوٹ جائے ،یا قیٔ یا مذی یا متلی آئے ،تو اسے چاہیئے کہ وہ وضو کرے
اور باقی نماز کو مکمل کرلے ،بشرطیکہ اس نے بات کرنے سے پرہیز کیا ہو۔ (سنن دارقطنی
رقم الحدیث :۵۷۳،واسنادہ
صحیح مرسل )[3]
اس حدیث کو امام محمد بن یحی
الذہلی ؒ(م۲۵۶ھ)،امام
ابوذرعہ الرازی ؒ (م ۲۶۴ھ)امام
ابن عبدالہادی ؒ(م ۷۴۴ھ)نے
مرسلاً صحیح کہا ہے ۔یہی خیال امام ابوحاتم
ؒ،امام دارقطنی ؒ ،اور امام بیہقی
ؒوغیرہ کا بھی ہے ۔(سنن دارقطنی حدیث نمبر :۵۷۲،علل ابن ابی حاتم ج:۱ص:۴۸۳،ج:۲ص:۴۵۹،تحقیق التنقیح لابن عبدالہادی
ج:۱ص:۲۸۵،علل دارقطنی ج:۱۱ص:۳۶۱،سنن الکبری للبیہقی ج:۱ص: ۲۲۳،حدیث نمبر:۶۷۰)
اور اس روایت سے احتجاج کرتے
ہوئے امام ابن جوزی ؒ(م ۵۹۷ھ)
اور امام ابن عبد الہادی ؒ(م ۷۴۴ھ)کہتے
ہیں کہ :’مرسل عندنا حجۃ ‘مرسل
ہمارے نزدیک حجت ہے ۔(التحقیق لابن ابی الجوزی ج:۱ص:۱۸۸،تحقیق التنقیح لابن عبد الہادی
ج:۱ص:۲۸۵)
یاد رہے کہ مرسل روایت جمہور
محدثین کے نزدیک حجت ہے اور امام شافعی ؒ اور ان کے ہم فکر محدثین اور غیر مقلدین کے
نزدیک مرسل کی تائید میں جب کوئی مرسل یا ضعیف سند آجائے ،تو حجت ہے۔(دوماہی
الاجماع مجلہ : شمارہ ۱ : ص ۶۵)
لہذا غیر مقلدین کا اب اس
مرسل روایت کو ضعیف کہہ کر انکار کرنا خود ان کے اصول کی روشنی میں مردود ہے، کیونکہ اس حدیث کی دو صحیح مسند روایتیں
اوپر گزر چکی ۔
دلیل نمبر۴:
امام علی بن الجعد ؒ(م ۲۳۰ھ)
فرماتے ہیں کہ :
حدثنا علی ،أنا یزید
بن أبراہیم ،عن أبی الزبیر ،عن جابر أن النبی ﷺ قال :الوضوء مما یخرج ولیس مما
یدخل ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا
کہ وضو ان چیزوں سے ہے ،جو نکلتی ہے ناکہ ان چیزوں سے جو داخل ہوتی ہے ۔(مسند ابن الجعد رقم الحدیث :۳۰۶۶،واسنادہ
صحیح )[4] اس سند کے تمام روات صحیح
بخاری کے ہیں ۔
یہا ں اس حدیث میں آپ ﷺ نے اصول
بیان فرمایا ہے کہ وضو ان چیزوں سے ٹوٹتا ہے جو جسم سے نکلتی ہے ۔ چنانچہ خون اور پیپ
بھی جسم سے نکلتی ہے۔لہذا ان سے بھی وضو ٹوٹ جا تاہے ۔
دلیل نمبر۵:
امام ابوعبید قاسم بن سلام ؒ (م ۲۲۴ھ)فرماتے
ہیں کہ :
ثنا
حجاج ،عن زکریا بن سلام ،عن عبیدۃ بن حسان ،وحمزۃ بن حسان ،یرویان الحدیث الی رسول
اللہ ﷺ أنہ قال :یعاد الوضوء من سبع :من اقطار بول ،أو
قیٔ ذراع أو دم سائل أونوم مضطجع أو دسعۃ تملأ الفم
،أو قہقۃ فی صلاۃ ،أو
حدث۔
عبید بن حسان ؒ اور حمزہ بن
حسان ؒ (مرسلا ً) روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ
نے فرمایا کہ وضو سات چیزوں سے ٹوٹتا ہے :
۱: پیشاب
کے ٹپکنے سے ۔
۲: منھ
بھر کے قیٔ کرنے سے
۳: بہنے
والے خون سے
۴: چت
لیٹنے سے
۵: منھ
بھر کے قیٔ کرنے سے
۶: نماز
قہقہہ لگا کر ہنسنے سے
۷: حدث
(پیشاب ،پاخانہ کرنے )سے ۔(کتاب الطہور
للقاسم ص:۴۰۲)[5]
پہلے بات گزر چکی ہے کہ اگر
مرسل کی تائید میں کوئی ضعیف مسند یا مرسل روایت آجائے تو وہ مرسل روایت بالاتفاق
حتی کہ غیر مقلدین کے نزدیک بھی حجت ہوتی ہے،اس روایت کی تائید دوسری مراسیل اور مسند
سے ہوتی ہے ۔
- امام
دارقطنی ؒ (م۳۸۵ھ)
کہتے ہیں کہ:
حدثنا محمد بن اسمعیل الفارسی ،نا موسی بن عیسی
بن المنذر ،نا أبی ،نا بقیۃ ،عن یزید بن خالد ،عن یزید بن محمد ،عن عمر بن
عبدالعزیز ،قال : قال تمیم الداری :قال رسول اللہ ﷺ الوضوء من کل دم سائل ۔
حضرت تمیم داریؓ کہتے ہیں
کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ہر بہنے والے خون سے وضو ہے ۔(سنن دارقطنی حدیث نمبر :۵۸۱،یہ
روایت مرسل ضعیف ہے اور اس کی سند میں یزید بن خالداور یزید بن محمد مجہول ہیں )
نوٹ :
بقیہ بن ولید ؒ (م۱۹۷ھ)نے
سماع کی صراحت کردی ہے ۔(شرح مختصر الطحاوی للجصاص ج:۱ص:۳۶۵،واسنادہ
حسن الی بقیہ)
- امام
ابن عدی ؒ(م ۳۶۵ھ)فرماتے
ہیں کہ :
حدثنا
عبداللہ بن أبی سفیان الموصلی ،حدثنا أحمد بن الفرج ،حدثنا بقیۃ ،حدثنا شعبۃ عن
محمد بن سلیمان بن عاصم بن عمر بن الخطاب ،عن عبدالرحمن بن ابان بن عثمان ،عن زید
بن ثابت ،قال :قال رسول اللہ ﷺ الوضوء من کل دم سائل ۔
حضرت زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں
کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ہر بہنے والا خون سے وضو ہے ۔(الکامل لابن عدی ج:۱ص:۳۱۳،واسنادہ
حسن مرسل )[6]
- امام البیہقی ؒ (م ۴۵۸ھ) فرماتے
ہیں کہ :
اخبرنا
ابو عبداللہ الحافظ انا ابو جعفر محمد بن سلمان بن منصور المذکر ثنا سہل بن عفان السجزی ثنا الجارود بن یزید عن ابن ابی ذئب عن الزہری عن سعید بن مسیب عن ابی
ہریرۃ قال :قال رسول اللہ ﷺ ’’یعاد الوضوء من سبع من اقطار البول والدم السائل
والقیٔ ومن دسعۃ یملأ بہا الفم ونوم المضطجع وقہقہۃ الرجل فی الصلاۃ وخروج
الدم ۔
اس کی سند میں سہل بن عفان مجہول ہیں اور جارود بن یزید
ؒ ضعیف ہیں جیساکہ امام بیہقی ؒ نے کہا ہے۔(الخلافیات
للبیہقی ج:۱ص:۳۶۳)
اورجیسا کہ پہلے گزرچکا کہ
امام شافعی ؒ اور ان کے ہم فکر محدثین اور غیر مقلدین کے نزدیک اگر کسی مرسل کی تائید
میں کوئی دوسری مرسل یا ضعیف مسند روایت آجائے ،تو اس صورت میں وہ مرسل سب کے نزدیک
حجت ہوگی ۔یہاں پر بھی کتاب الطہور کی مرسل کی تائید میں حسن درجے کی دوسری مرسل اور
دیگر مرسل اور مسند روایت موجود ہے۔لہذا خود غیر مقلدین کے اصول سے کتاب الطہور والی
مرسل روایت مقبول ہے ۔
نوٹ :
پیپ خون کے حکم میں ہے ،چنانچہ
امام ابراہیم النخعی ؒ (م ۹۶ھ)فرماتے
ہیں کہ :’’القیح بمنزلۃ الدم یعید الوضوء‘‘ پیپ
خون کے حکم میں ہے ،جس سے وضو ٹوٹ جاتاہے ۔(الحجۃ علی اہل المدینہ ج: ۱ص: ۶۹واسنادہ حسن
،مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث ۳۶۲۴،مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث ۱۲۶۰،واسنادہ
حسن )،
امام زہری ؒ (م ۱۲۵ھ)
فرماتے ہیں کہ’’ القیح والدم سواء ‘‘
پیپ اور خون (حکم میں )برابر ہے ۔امام ابراہیم النخعی ؒ،امام حماد بن ابی سلیمان ؒ
(م۱۲۰ھ)اور
امام حکم ؒ (م ۱۱۳ھ)
فرماتے ہیں ’’ماخرج من البشرۃ من شییٔ فہو بمنزلۃ
الدم ‘‘جو چیز بھی پھوڑے سے نکلے ،خون کے حکم میں ہے
۔(مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث ۱۲۵۷،۱۲۶۰،واسنادہما
صحیح )،
امام قتادہ ؒ (م ۱۱۸ھ)
بھی کہتے ہیں کہ ’’والقیح والدم سواء ‘‘پیپ
اور خون دونوں حکم میں برابر ہے ۔امام مجاہد ؒ (م ۱۰۴ھ)نے بھی یہی بات فرمائی ہے
۔(مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث:۵۴۳،۵۵۲،واسنادہ
حسن ) امام
احمد بن حنبلؒ (م ۲۴۱ھ)
کہتے ہیں کہ خون ،پیپ وغیرہ سب ایک ہی حکم میں ہے۔ (مسائل حرب للکرمانی ص:۳۲۰)، امام
لیث بن سعد ؒ (م ۱۷۵ھ)بھی
یہی کہتے ہیں کہ : ’’القیح بمنزلۃ الدم ‘‘امام
عروہ ؒبن زبیر ؒ (م ۹۴ھ)
اور امام الشعبی ؒ(م ۱۰۳ھ)
کا بھی یہی قول ہے۔ (الاوسط لابن المنذری ؒ ج:۱ص:۱۸۱،۱۸۲) معلوم ہواکہ خون کی
طرح پیپ بھی نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ،اور پھر ’’الوضوء
مما یخرج ولیس مما یدخل ‘‘والی حدیث سے بھی اس کی تائید
ہوتی ہے ۔
امام
ابوحنیفہ ؒ (م ۱۵۰ھ)
بھی کہتے ہیں کہ بہنے والے خون اور پیپ سے وضو ٹوٹ جاتاہے ۔یہی قول امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ)
اور امام ابو یوسف ؒ (م ۱۸۳ھ)
کا بھی ہے ۔(کتاب الاصل امعروف بالمبسوط
للامام محمد ج:۱ص:۵۷،۱) امام عطاء بن ابی رباح ؒ (م
۱۱۴ھ)
بھی یہی کہتے ہیں کہ پیپ نکلنے سے وضو ہے ۔(مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث ۵۴۶،واسنادہ صحیح )
لہذا راجح یہی ہے کہ بہنے
والے خون اور پیپ سے وضو ٹوٹ جاتاہے ۔
امام الاعمش ؒ (م ۱۴۸ھ)کی ’عنعنہ‘والی روایت ائمہ
متقدمین کے نزدیک مقبول ہے ۔
مولانا نذیر الدین قاسمی
امام سلیمان بن مہران الاعمش ؒ (م ۱۴۸ھ)کی ’عنعنہ‘والی روایت جمہور
محدثین کے نزدیک مقبول ہے ۔
۱۔ الامام
الحافظ المحدث امیر المؤمنین فی الحدیث ، شعبہ بن الحجاج ؒ (م۱۶۰ھ) کے نزدیک امام اعمش ؒ کبھی
کبھار تدلیس کرنے والے تھے ۔
چنانچہ ، حافظ ؒ (م۸۵۲ھ) ’شعبہ عن الاعمش‘ کے تحت فرماتے ہیں کہ :’ شعبة لا يحدث عن شيوخو الذين ربما دلسوا إلا بما تحقق أنھم
سمعوہ ‘ امام شعبہ ؒ اپنے اس شیوخ سے روایت بیان نہیں کرتے ، جو
کبھی کبھار تدلیس کرتے ہیں ، مگر وہ تحقیق کرتے ہیں کہ ان کبھی کبھار تدلیس کرنے
والے شیخ نے اس روایت کو سنا ہے ۔ (فتح الباری : جلد ۴: صفحہ ۱۹۴) اسکین ملاحظہ فرمائے
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حافظ ؒ کے نزدیک امام شعبہ ؒ ان
شیوخ سے روایت بیان کرتے ہیں ، جو کبھی کبھار تدلیس کرتے ہیں۔ البتہ ساتھ میں ان
کے سماع کی بھی تحقیق کرتے ہیں ۔
ثابت ہوا کہ شعبہ بن الحجاج ؒ (م۱۶۰ھ) کے نزدیک امام اعمش ؒ کبھی کبھار تدلیس کرنے
والے ہیں ۔
امام ابو داؤد ؒ (م۲۷۵ھ) کہتے ہیں کہ :
سمعت أحمد سئل عن الرجل يعرف بالتدليس يحتج فيما لم [ یقل
فیہ سمعت ] قال لا أدری فقلت الأعمش متی تصاد لہ الألفاظ قال یضیق ھذا أی أنک تحتج
بہ ۔
۲۔ امام
احمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱ھ) سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا ، جو تدلیس کی
وجہ سے معروف ہے کہ جب وہ
’ سمعت‘ نہ کہے ، تو وہ قابل
اعتماد ہوگا؟
امام احمد ؒ نے فرمایا : مجھے معلوم نہیں ہے ۔ تو امام ابو داؤد ؒ نے کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا
: اعمش ؒ کی تدلیس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ اس کے لئے الفاظ کیسے تلاش کئے جائیں
گے ۔ امام احمد ؒ نے جواباً فرمایا : یہ
کام بڑا مشکل ہے ۔
امام ابو داؤد ؒ فرماتے ہیں کہ آپ (یعنی امام احمد ؒ ) امام اعمش ؒ کی ’ عنعنہ‘ والی روایت کو قابل اعتماد سمجھتے
مانتے ہیں ۔ (سوالات ابی داؤد
لاحمد : رقم ۱۳۸) اسکین ملاحظہ
فرمائے
معلوم ہوا کہ امام
احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک امام اعمش ؒ کی ’عنعنہ ‘ والی روایت قابل اعتماد ہے ۔
نیز زبیر علی زئی کے اصول کے مطابق :
۳۔ امام
ابو داؤد ؒ (م۲۷۵ھ) نے بھی سکوت کے ذریعہ امام احمد بن حنبل ؒ کے منہج کی
تائید فرمائی ہے ۔ (انوار الطریق : صفحہ ۸)
۴۔ امام
العلل ، امام الجرح والتعدیل ، امام یحیٰ بن معین ؒ (م ۲۳۳ھ) کہتے
ہیں ’ الأعمش
عن إبراھیم عن علقمۃ عن عبد اللہ ‘کی سند سب سے زیادہ صحیح اور سب سے زیادہ قوی سند ہے ۔ (معرفۃ
علوم الحدیث للحاکم:صفحہ ۵۴)[7]
غور فرمائیے ! امام یحیٰ بن معین ؒ نے بغیر کسی شرط کے ،
مطلقاً امام اعمشؒ کی روایت کو سب سے زیادہ صحیح اور سب سے زیادہ قوی قراردیا ہے ۔
معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک امام اعمش ؒ کی روایت مطلقاً صحیح
ہے ، چاہے وہ عنعنہ والی ہو یا نہ ہو۔
اسکین : معرفۃ
علوم الحدیث للحاکم:صفحہ ۵۴
نیز ، ایک اور مقام پر امام ابن معین ؒ کہتے ہیں کہ :
كان الأعمش يرسل، فقيل لہ : إن بعض الناس قال : من أرسل لا یحتج
بحدیثہ ، فقال : الثوری إذاً لا یحتج بحدیثہ ، وقد کان یدلس ، إنما سفیان أمیر
المؤمنین فی الحدیث ۔
اعمش ؒ ارسال کرتے تھے (یعنی عن سے روایت کرتے ہیں ) ، اس
پر انہیں کہا گیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جو ارسال کرتا ہے ، اس کی حدیث حجت نہیں
ہے ، تو امام ابن معین ؒ نے فرمایا : اگر یہ بات ہے ، تو امام سفیان ثوری ؒ کی
حدیث حجت نہیں ہوگی (اس لئے کہ ) وہ بھی تدلیس کرتے تھے (یعنی عن سے روایت کرتے
ہیں ، حالانکہ ) سفیان امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں ۔ (شرح علل الترمذی لابن رجب : جلد
۲:صفحہ ۵۸۵) اس روایت سے بھی واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن معین ؒ کے
نزدیک امام اعمشؒ ’معنعن‘ مضر نہیں ، بلکہ
قابل قبول ہے ۔
۵۔ امام
ابو حاتم الرازی ؒ (م۲۷۷ھ)فرماتے ہیں کہ ’ الأعمَشُ ربَّما دَلَّسَ ‘امام
اعمشؒ (م ۱۴۸ھ)کبھی کبھار تدلیس کرتے تھے ۔ (العلل لابن ابی حاتم
:جلد۱:صفحہ ۴۰۶، جلد ۱:صفحہ ۱۱۸)
اسکین :
معلوم ہوا کہ امام شعبہ ؒ اورامام ابو حاتم ؒ کےنزدیک اعمشؒ
قلیل التدلیس ہیں۔
اور قلیل التدلیس کے بارے میں ، خبیب احمد صاحب غیر مقلد
عالم لکھتے ہیں کہ قلیل التدلیس کی ’معنعن‘ حدیث صحیح ہوتی ہے۔ (مقالات اثریہ
:صفحہ ۲۴۴) اسکین ملاحظہ فرمائے
اہل حدیث عالم ، کفایت اللہ سنابلی صاحب لکھتے ہیں کہ قلیل
التدلیس راوی تدلیس کرکے بصیغہ عن بیان کرسکتا ہے ، لیکن غالب احتمال عدم ِ تدلیس
کا ہے ، اس لئے ان کا ’معنعن‘ قبول ہوگا۔ (انوار البدر:صفحہ ۱۴۷) معلوم ہوا
کہ خود غیر مقلدین کے اصول سے بھی امام اعمش ؒ کی ’معنعن‘ قابل قبول ہے [8]
غالباً یہی وجہ ہے کہ امام یحیٰ بن معین ؒ (م۲۳۳ھ) امام
احمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱ھ) امام اعمش کی ’معنعن‘روایت سے استدلال کرتے تھے ،
اور انہیں صحیح مانتے تھے ۔
بلکہ امام ابو الحارث الصائغ ؒ(وھو صاحب الکتاب ) اور امام عبد اللہ بن احمد ؒ کی روایت میں امام احمد بن
حنبل ؒ کہتے ہیں ’
ما رواہ الأعمش عن إبراھیم عن علقمۃ عن عبد اللہ عن النبی ﷺ فھو ثابت ‘ ہر
وہ حدیث جو ’الأعمش عن إبراھیم عن علقمۃ عن عبد اللہ عن
النبی ﷺ ‘ کی سند سے ہو ، وہ
ثابت ہے ۔ (الجامع لعلوم الامام احمد :علوم الحدیث :جلد ۱۵:صفحہ ۴۱۵،واللفظ
لہ ، العُدۃللقاضی ابی یعلیٰ :جلد ۳:صفحہ ۹۸۶، تاریخ بغداد :جلد۵:صفحہ ۳۳۶)
اسکین : العُدۃللقاضی
ابی یعلیٰ :جلد ۳:صفحہ ۹۸۶
لیجئے ، اس سے زیادہ اور کیا واضح دلیل چاہیے کہ متقدمین
ائمہ جرح وتعدیل امام اعمش ؒ کی ’معنعن‘ روایت کو صحیح وثابت مانتے ہیں ۔ نیز، جمہور محدثین کے نزدیک بھی امام اعمش ؒ
طبقات ثانیہ کے مدلس ہیں ۔
اگر چہ ،
۶۔ امام
ابن حجر عسقلانی ؒ (م ۸۵۲ھ) نے اپنی کتاب ’ النکت ‘ میں امام اعمش ؒ کو
تیسرے طبقہ میں شمار کیا ہے [9]، لیکن
انہوں نے اپنی دوسری مشہور اورمقبول طبقات المدلسین میں امام اعمش ؒ کو دوسرے طبقہ
میں شمار فرمایا ہے ۔ دیکھئے (طبقات المدلسین :صفحہ ۳۳) اور ان کی ’عن‘
والی روایت کو صحیح بھی کہا ہے ۔ (فتح الباری :جلد۲:صفحہ ۴۹۵، حدیث مالک
الدار) اسکین ملاحظہ فرمائے
۷۔ حافظ ابن کثیر ؒ (م ۷۷۴ھ)نے بھی امام
اعمشؒ کی ’عن ‘ والی روایت کو قوی اور مضبوط کہا ہے ۔ (مسند الفاروق :جلد
۱:صفحہ ۲۲۳)
اسکین :
۸۔ الامام
الحافظ صلاح الدین العلائی ؒ (م ۷۶۰ھ) نے بھی امام اعمشؒ کو طبقات ثانیہ
کا مدلس قرار یا ہے ۔ (جامع التحصیل :صفحہ ۱۱۳)، اور طبقات ثانیہ کے مدلسین
کے بارے میں کہا کہ :
ثانیھا من احتمل الائمۃ تدلیسہ وخرجوا لہ فی الصحیح وإن لم
یصرح بالسماع وذلک إما لإمامتہ أو لقلۃ تدلیسہ فی جنب ما رویٰ أو لأنہ لا یدلس إلا
عن ثقۃ ۔
دوسراطبقہ
وہ ہے جن کی تدلیس کو ائمہ حدیث نے برداشت
کیا ہے، اور ان کی روایت کو صحیح حدیث کی
کتابوں میں ذکر کیا ہے چاہے وہ سماع کی تصریح نہ کریں ، ان کے امام ہونے کی وجہ
سے، ان کی مرویات کے مقابلہ ان کی تعداد بہت کم ہونے کی وجہ سے ، یا اس وجہ سے کہ
وہ صرف ثقہ سےہی تدلیس کرتے تھے۔ (جامع
التحصیل :صفحہ۱۱۳)
۹۔ امام
ابو زرعہ ابن العراقیؒ (م ۸۲۶ھ)بھی امام اعمشؒ کو طبقاتِ ثانیہ کے مدلس مانتے ہیں ۔(المدلسین
لابن العراقی : صفحہ ۱۰۹)
۱۰۔ امام
سبط ابن العجمی (م۸۴۱ھ)نے بھی أعمش ؒ کو دوسرے طبقہ کا مدلس مانا ہے ۔ (التبیین
لأسماء المدلسین لسبت ابن العجمی : صفحہ ۶۵)
۱۱ ۔ اسی
طرح غیر مقلد عالم بدیع الدین شاہ راشدی صاحب نے بھی امام اعمش ؒ کو طبقہ ثانیہ کا
مدلس قرار دیا ہے ۔ (الجزء المنظوم فی اسماء المدلسین ، فتح المبین :صفحہ ۸۹)
امام یعقوب بن سفیان ؒ (م ۲۷۷ھ)کی ایک اہم وضاحت :
۱۲۔ امام
یعقوب بن سفیان الفسوی ؒ(م۲۷۷ھ)کہتے ہیں کہ ’ حديث سفيان وأبي إسحاق والأعمش ما لم يعلم أنہ مدَّلس يقوم
مقام الحجة ‘ سفیان ، ابو اسحاق
اور اعمش ؒ کی حدیث حجت سمجھی جائےگی ، جب
تک کہ یہ نہ معلوم ہوجائے کہ اس میں انہوں نے تدلیس کی ہے۔ (التاریخ والمعرفۃ
:جلد۲ :صفحہ ۶۳۷)
یہ لیجئے ، امام یعقوب بن سفیان ؒ بھی کہتے ہیں کہ جب تک
کسی حدیث میں یہ ثابت نہ جائے کہ امام اعمش ؒ ، امام ثوری ؒ اور امام ابو اسحاق السبیعی ؒ نے
تدلیس کی ہے ، تب تک ان کی حدیثوں سے استدلال کیا جاسکتا ہے ، ان کی حدیثیں حجت
ہوں گی ، چاہے ، وہ عن کے صیغہ سے ہو یا کسی اور سے ۔
اسکین : التاریخ
والمعرفۃ :جلد۲ :صفحہ ۶۳۷
الغرض اس لحاظ سے بھی امام اعمش ؒ کی ’عن‘ والی روایت مقبول
ہوگی، البتہ اس روایت میں اہل علم اور محدثین صراحت کردیں کہ انہوں نے اس میں
تدلیس کی ہے ، تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا[10]۔
نیز غیر مقلدین کی خدمت میں عرض ہے ، جو امام سفیان ثوری ؒ
کے بارے میں زبیر علی زئی صاحب کی تقلید میں دن رات کہتے ہیں کہ امام حاکم ؒ نے
انہیں مدلسین کے تیسرے طبقہ میں شمار کیا ہے ۔ (نور العینین :صفحہ ۱۳۸)
۱۳۔ کہ اگر
آپ کے نزدیک امام حاکم ؒ کے طبقات حجت ہیں ، تو امام حاکم ؒ (م ۴۰۵ھ) نے
امام اعمشؒ کو مدلس کے دوسرے طبقہ میں شمار کیا ہے ۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم
: صفحہ ۱۰۴ ـ ۱۰۶) امید
ہے غیر مقلدین یہاں بھی امام اعمشؒ کو بھی
طبقہ ثانیہ کا مدلس مان کر ان کی ’عن‘ والی روایت کو قبول کرلیں گے ۔
اخیر میں امام اعمش ؒ کی تدلیس کے بارے میں’۳ ‘اہم
وضاحتیں :
وضاحت نمبر ۱:
امام
اعمشؒ جمہور متقدمین ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک کم تدلیس کرنے والے ہیں۔ لہذا ان کی ’عن ‘ والی روایت مقبول ہے ۔
نیز، جمہور مدلسین کے طبقات بنانے والے محدثین نے بھی انہیں
طبقہ ثانیہ کا مدلس بتایا ہے ۔
وضاحت نمبر ۲:
جس روایت کے بارے میں محدثین نے وضاحت کی ہے کہ امام اعمشؒ
نے اس روایت میں تدلیس کی ہے ، تو اس روایت میں ان کا سماع یا متابع یا شاہد کے نہ
ملنے کی صورت میں اس روایت کو ترک کردیا جائے گا۔
وضاحت نمبر ۳:
جس روایت کے بارے میں محدثین کی جانب سے کوئی صراحت نہ ہو
کہ امام اعمشؒ نے اس ’عن‘ والی روایت میں تدلیس کی ہے ، تو اس ’عن ‘ والی روایت کو
جمہور متقدمین ائمہ جرح وتعدیل اور جمہور اصحاب طبقات المدلسین کے اصول کی روشنی
میں قبول کیا جائے گا۔ لہذا غیر مقلدین کا
امام اعمشؒ کی ’معنعن‘ روایت ضعیف قرار دینا باطل ومردود ہے ۔
اور اللہ تعالیٰ سے دعا ء ہے کہ ہم سب کو حق سمجھنے اور
قبول کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے ۔ آمین ۔
[1] اس روایت کے تمام رجال ثقہ ہیں ،امام ابن عدی ؒ
(م ۳۶۵ھ)کی شخصیت تعارف کی
محتاج نہیں ،ان کے شیخ قاسم بن محمد بن العباد ؒ ثقہ ہیں۔(تقریب رقم : ۵۴۹۲) ان کے استاد احمد بن عباد ؒ صحیح مسلم کے راوی
ہیں اور ثقہ ہیں۔ (تقریب رقم :۷۴) ان کے استاد ابو عبداللہ حسین بن حسن ؒالکوفی
ؒ (م ۲۰۶ھ)کے بارے میں امام ابن
معین ؒ فرماتے ہیں کہ وہ صدوق ہیں اور ان میں کوئی خرابی نہیں ہے ،امام احمد بن حنبل
ؒ انہیں صدوق منکر الحدیث کہتے ہیں ،امام ابن حبان ؒ نے انہیں ثقات میں شمار کیا ہے ،امام بخاری ؒ مقارب الحدیث کہتے ہیں ،امام ابن خزیمہ ؒ امام حاکم
ؒ نے ان کی حدیثوں کو صحیح قرار دیا ہے۔ (تہذیب التہذیب ج:۲ص:۳۳۵،۳۳۶،سوالات ابن الہانی لأحمد رقم : ۲۳۵۸،علل ترمذی ص:۱۸۴،صحیح
ابن خزیمہ رقم الحدیث :۲۴۸۹،المستدرک
للحاکم ج:۳ص: ۱۴۸،رقم
الحدیث ۴۶۶۹) اور پھر سنن دارقطنی میں ثقہ راوی اسحاق بن
منصور الکوفی ؒ(م ۲۰۴ھ)اور اسمعیل بن ابان الوراق ؒ( م ۲۱۶ھ)ان کے متابع میں بھی موجود ہے ۔(سنن دارقطنی
ج:۱ص:۲۸۵،۲۸۶،حدیث نمبر :۵۷۷،۵۷۸)لہذا اس روایت میں ان پر جرح بیکار ہے اوروہ ثقہ ہیں ۔
پانچوے راوی جعفر بن زیاد الاحمر ؒ(م ۱۶۷ھ) ہیں ترمذی اور نسائی
کے راوی ہیں اور ثقہ صدوق ہیں ۔(تقریب رقم :۹۴۰،تہذیب
التہذیب ج:۵ص:۹۲،۹۳) چھٹے راوی ابوہشام الرومانی ؒ (م۱۲۲ھ) صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔ (تقریب رقم :۸۴۲۵) ساتویں راوی ابو عبداللہ زاذان ؒ (م۸۲ھ) صحیح مسلم کے راوی
ہیں اور ثقہ صدوق ہیں (تقریب رقم : ۱۹۷۶
الکاشف
)
ان کے استاد سلمان فارسی ؓ مشہور صحابی رسول ہیں ،اس تفصیل سے معلوم ہواکہ اس روایت
کے تمام رجال ثقہ ہیں اور یہ روایت حسن درجے کی ہے ۔نیز دیکھئے معجم الکبیر للطبرانی
ج:۶ص:۲۳۹،المجروحین
لابن حبان ج:۳ص:۱۰۵۔
[2] امام ابو الحسن الدارقطنی
ؒ(م ۳۸۵ھ) مشہور ثقہ
،حافظ اور امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں اس
حدیث میں ان کے استاد حسین بن اسمعیل القاجی ؒ (م ۳۳۰ھ) اور احمد بن عبداللہ الوکیل ؒ(م ۳۲۵ھ) ثقہ ہیں ۔(الدلیل المغنی
لشیوخ الامام أبی الحسن الدارقطنی ص: ۹۶،۱۸۹) ابو زید
عمر بن ابی معاذ الصباح البصری ؒ(م ۲۶۲ھ)بھی صدوق اور ثقہ راوی ہیں۔ (تقریب رقم
:۴۹۱۸)عمر بن علی المقدمی ؒ(م ۱۹۰ھ) صحیحین کے راوی ہیں
اور ثقہ ہیں ۔(تقریب رقم : ۴۹۵۲) ہشام بن
عروہ ؒ،اور ان کے والد دونوں بھی صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں (تقریب رقم : ۷۳۰۲،۴۵۶۱)حضرت ام المؤمنین عائشہ ؓ مشہور صحابیہ اور خواتین میں سب سے زیادہ فقیہ ہیں
۔لہذا یہ سند صحیح ہے ۔
[3] اس حدیث کے تمام راوی
ثقہ ہیں اورابن جریج ؒ (م ۱۵۰ھ) کے والد
عبد العزیز بن جریج ؒ بھی ثقہ ہیں ۔آپ کو
امام عجلی ؒ، اور امام ابن حبان ؒ نے ثقات
میں شمار کیا ہے ۔(معرفۃ الثقات للعجلی ج:۲ص:۹۵،رقم : ۱۱۰۴،کتاب
الثقات لابن حبان ج:۷ص: ۱۱۴) لہذا وہ بھی ثقہ ہیں ۔
[4] اس روایت میں اگرچہ
امام ابو زبیر المکی ؒ(م ۱۲۶ھ) مدلس ہیں
لیکن ابن عباس ؓ کی حدیث (سنن دارقطنی رقم الحدیث :۵۵۳،واسنادہ ضعیف ) اس کی
شاہد ہے ۔ لہذا ان پر تدلیس کا الزام مردود ہے۔پھر امام ابو زبیر المکی ؒ حضرت جابر
بن عبداللہ ؓکے شاگردوں میں سے ہیں اور ان کا سماع حضرت جابر سے مشہور ومعروف ہے ۔نیز
وہ جابر بن عبداللہ ؓ سے کثرت سے روایت کرتے ہیں ۔(یعنی وہ ان کی روایت میں مکثر ہیں
) لہذاامام عبداللہ بن زبیر الحمیدی ؒ (م ۲۱۹ھ) کے قول سے ان کی عن والی روایت بھی حجت ہے
۔(الکفایہ
للبغدادی
ص:۳۷۴)، مزید تفصیل ص :
۱۸۲ پرموجود ہے۔
[5] سند
کے رواۃ کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں :
امام قاسم بن سلام
ؒ(م ۲۲۴ھ)ثقہ اور مشہور محدث
ہیں ۔(تقریب رقم :۵۴۶۲)،امام حجاج
بن محمد الاعور ؒ(م ۲۰۶ھ)بھی ثقہ مضبوط راوی
ہیں ۔(تقریب رقم :۱۱۳۵)،زکریا بن
سلام ؒ بھی ثقہ راوی ہیں ،امام ابن حبان ؒ (م ۳۵۴ھ)اور امام قاسم بن قطلوبغا ؒ(م ۸۷۹ھ) نے انہیں ثقات میں
شمار کیا ہے ۔امام ذہبی ؒ (م ۷۴۸ھ)نے انہیں
صدوق کہا ہے ۔(کتاب الثقات لابن حبان ج:۸ص:۲۵۲،کتاب الثقات لابن قاسم ج:۴ص:۳۲۰،تاریخ
الاسلام ج:۳ص:۸۶۵)اس
روایت میں زکریا بن سلام نے دو لوگوں سے روایت کیا ہے ۔
پہلے عبیدہ بن حسان
ؒ سے جو کہ ضعیف ہیں ۔ (میزن الاعتدال ج:۳ص:۲۶) دوسرے حمزہ
بن حسان ؒ سے جو کہ مقبول راوی ہیں ۔کیونکہ ان سے تین تین ثقہ راویوں نے روایت کیا
ہے ۔محمد بن سلمہ الحرانی ؒ (م ۱۹۱ھ)،بقیہ بن
ولید ؒ (م ۱۹۷ھ) اور زکریا بن سلام
ؒ نے ان سے روایت کیا ہے ۔(الجرح والتعدیل ج:۳ص:۲۱۰،الاباطیل والمناکیر لحافظ جورقانی ج:۲ص:۸۵،شرف
اصحاب الحدیث ص:۸۰) پھر
امام ابن ابی حاتم ؒ نے انہیں اپنی کتاب الجرح والتعدیل میں شمار کیاہے ۔اور ان پر
کوئی جرح نہیں کی ہے ،یہ غیر مقلدین کے نزدیک ابن ابی حاتم ؒ کی طرف سے توثیق ہوتی ہے۔ (مسند احمد تحقیق
احمد شاکر مصری : ج۲: ص ۳۴۴،حدیث نمبر ۱۷۲۰،۴۶۰،مرعاتۃ المفاتیح:ج۵:
ص۱۰۲) نیز حافظ المشرق خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳ھ) نے ان کی روایت کو
محفوظ کیا ہے ۔(تاریخ بغداد ج:۱۳ص:۲۶۶) اور کسی حدیث کی تصحیح یا حسین اس حدیث کے ہر
ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے ،جیسا کہ غیر مقلدین کا اصول ہے ۔(دیکھئے ، ص: ۹۶)
پس ثابت ہواکہ امام خطیب البغدادی ؒ کے نزدیک حمزہ بن حسان ؒ ثقہ ہیں ،ان ساری تفصیلات
سے معلوم ہو ا کہ یہ روایت مرسل حسن درجے کی ہے ۔
نوٹ:
کتاب الطہور للقاسم بن سلام کے مطبوعہ نسخے میں کاتب
کی غلطی کی وجہ سے حمزہ بن حسان کے بجائے حمزہ بن یسار ہوگیاہے۔(کتاب الطہور للقاسم
ص:۴۰۲) جبکہ
الامام الحافظ مغطائی ؒ (م ۷۶۲ھ)
نے شرح ابن ماجہ میں یہی روایت امام ابو عبید ؒکی کتاب سے نقل فرمائی ہے او روہاں حمزہ
بن حسان لکھا ہے ۔(شرح ابن ماجہ للمغطائی ص:۵۳۷)
اسکین ملاحظہ فرمائے
لہذا درست اور صحیح
حمزہ بن حسان ہے ۔قارئین سے گزارش ہے کہ اسے نوٹ کرلیں ۔
[6] رواۃ
کی تفصیل یہ ہے :
امام ابن عدی ؒ مشہور ثقہ اور حافظ ہیں۔(تاریخ الاسلام
ج:۸ص:
۲۴۰)،عبداللہ
بن زیاد بن خالد بن ابی سفیان الموصلی ؒبھی ثقہ ہیں ،امام قاسم بن قطلوبغا ؒ نے انہیں
ثقات میں شمار کیا ہے،امام مسلمہ بن قاسم ؒ بھی انہیں ثقہ مانتے ہیں ،امام ضیاء الدین
مقدسی ؒ نے ان کی روایت کو صحیح کہا ہے ۔(کتاب الثقات للقاسم ج:۶ص: ۲۸،احادیث المختارہ ج:۳ص:۱۱۲) لہذا جمہور کے نزدیک وہ ثقہ
ہیں ،لہذا ان حضرات کی توثیق ابن عدی ؒ کا انہیں منکر کہنے پر مقدم ہے ۔
احمد بن فرج ؒ بھی جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں۔
اعتراض :
زید بن ثابت ؓ کی روایت پر
اعتراض کرتے ہوئے بحوالہ تاریخ بغداد ابوصہیب داؤد ارشد صاحب لکھتے ہیں کہ اس کی سند مین احمد بن فرج حمصی راوی
ہیں ،ان کے ہم وطن محمد بن عوف حمصی نے سخت ضعیف اور کذاب کہا ہے۔اور فرماتے ہیں کہ
بقیہ کی جو روایت ان کے پاس ہے ان کی کوئی اصل نہیں ہے ۔(یہ روایت بھی بقیہ سے نقل
کررہے ہیں ) یہ اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ کذاب شخص ہے ۔شراب پیتا ہے ۔(حدیث
اور اہل تقلید ج:۱ص:۲۴۸)
الجواب :
اول تو ابو صہیب صاحب کے نقل کردہ قول کی سند یہ ہے :
قرأت فی کتاب أبی
الفتح أحمد بن الحسن بن محمد بن سہل المالکی الحمصی ،أخبرنا أبوہاشم ،ثم
عبدالغافر بن سلامۃ بحمص ،قال :قال محمد بن عوف :والحجازی کذاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔(تاریخ
بغداد)
غور فرمائیے!اس میں خطیب بغدادی
ؒ ابو الفتح احمد بن حسن المالکی الحمصی کی کتاب کا تذکرہ کررہے ہیں ،لہذا ابو الفتح محمد بن حسن الحمصی ؒ کی توثیق
غیر مقلدین سے مطلوب ہے ۔یاد رہے کہ میزان الاعتدال ج:۱ص:۹۲،میں
انکے بارے میں لکھا ہے کہ ’’قیل :یتہم بوضع
الحدیث قالہ الضیاء ‘‘۔
دوم غیر مقلدمحدث زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ کوئی
مسئلہ نہیں ہے کہ فلاں امام نے فلاں راوی کو کذاب یاضعی کہا ہے ،بلکہ اصل مسئلہ صرف
یہ ہے کہ جمہور مھدثین کس طرف ہیں ؟جب جمہور محدثین سے ایک قول (مثلاًتوثیق یا تضعیف
)ثابت ہوجائے تو اس کے مقابلے میں ہر شخص یا بعض اشخاص کی بات مردود ہے ۔(مقالات
ج: ۶ص:۱۴۳) لہذا اگر کسی راوی کی جمہور
توثیق کردیں تو غیر مقلدین کے نزدیک کذاب کی جرح بھی مردود ہے اور احمد بن فرج ؒ کی
توثیق جمہور نے کردی ہے ۔دلائل ملاحظہ فرمائیں :
امام ابن ابی حاتم ؒ (م
۳۲۷ھ)
فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک وہ سچا ہے ،امام مسلمہ بن قاسم ؒ بھی انہیں ثقہ مشہور کہتے
ہیں ،امام ابن حبان ؒ نے انہیں ثقات مین شمار کیا ہے ،اما م حاکم ؒ نے بھی انہیں ثقہ کہا ہے ،امام ابن الجارود ؒ(م
۳۰۷ھ)
،امام ابو عوانہ ؒ (م ۳۱۶ھ)
،امام حاکم ؒ (م ۴۰۵ھ)
امام ذہبی ؒ(م ۷۴۸ھ)،امام
ابو نعیم ؒ (۴۳۰ھ)
حافظ ابن عساکر ؒ (م۵۷۱ھ)،امام
ابن کثیر ؒ (م ۷۷۴ھ)
وغیرہ نے ان کی حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ (المنتقی حدیث نمبر: ۱۹،صحیح ابو عوانہ حدیث نمبر
: ۸۱۱۰،المستدرک
للحاکم مع تلخیص للذہبی ج:۲ص:۲۳۰حدیث نمبر: ۲۸۴۳،ج:۴ص: ۳۷۸،مستخرج علی صحیح مسلم ج:۴ص:۹۹،معجم ابن عساکر ج:۲ص:۱۱۲۴،تفسیر ابن کثیر ج:۶ص:۵۵۵) حافظ
ذہبی ؒ آپ کو الشیخ ،المعمر ،المحدث کہتے ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء ج:۱۲ص: ۵۸۴)،
امام ابو احمد الحاکم ؒ (م ۳۷۲ھ)
کہتے ہیں کہ جب احمد بن فرج بغداد پہنچے ،تو محدثین نے ان سے حدیثیں لکھی ہیں اور وہ
ان کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں۔(لسان
المیزان ج:۱ص:
۵۷۵)،امام
قاسم بن قطلوبغا ؒ نے بھی آپ کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ (کتاب الثقات للقاسم ج:۱ص: ۴۵۶) امام
عبداللہ بن احمد بن حنبل ؒ (م۲۹۰ھ)نے بھی آپ سے روایت کی ہے ،اور غیر مقلدین
کے نزدیک آپ صرف ثقات سے روایت کرتے ہیں ۔(اتحاف النبیل ج:۲ص: ۱۰۳) ثابت
ہوا کہ جمہور کے نزدیک احمد بن فرج ؒ ثقہ ہیں ۔لہذا خود غیر مقلدین کے اصول سے ان پر
کذاب کی جرح مردود ہے۔نیز یاد رہے کہ امام ابن الجارود ؒ (م ۳۰۷ھ)،امام
ابو عوانہ ؒ(م ۳۱۶ھ)
،امام حاکم ؒ (م۴۰۵ھ)،امام
ابونعیم ؒ (م۴۳۰ھ)حافظ
ابن عساکر ؒ (م۵۷۱ھ)
امام ابن کثیر ؒ (م ۷۷۴ھ)
وغیرہ نے’’ أحمد بن الفرج ثنا بقیۃ بن الولید ‘‘کی
سند کو صحیح کہا ہے ،جس کا حوالہ اوپر گزرچکا ۔تو ثابت ہوا کہ جمہور کے نزدیک یہ سند
بھی صحیح ہے ،لہذا داؤد ارشد صاحب کا یہ اعتراض بھی مردود ہے ۔
احمد بن فرج ؒ کے استاد بقیہ بن ولید ؒ (م ۱۹۷ھ)
بھی جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ،جب وہ سماع کی تصریح کردیں۔ (الکاشف رقم : ۶۱۹) اور
اس روایت میں بھی انہوں نے سماع کی تصریح کی ہے ،لہذا یہاں پر وہ ثقہ ہیں ۔امام شعبہ
ؒ (م ۱۶۰ھ)
مشہور ثقہ حافظ الحدیث ،امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں ۔( تقریب رقم :۱۷۹۰)،محمد
بن سلیمان بن عاصم بن عمر ؒبھی ثقہ ہیں ،کیونکہ غیر مقلدین کے نزدیک امام شعبہ ؒ صرف
ثقات سے روایت کرتے ہیں ۔ (انوار البدر :ص۱۳۲، نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام :ص
۴۴)
نوٹ: امام ابن عدی ؒ کا
کہنا ہے کہ یہاں شعبہ ؒکے استاد محمد بن سلیمان بن عاصم بن عمر ؒ نہیں ،بلکہ عمر بن سلیمان بن عاسم بن بن عمر
ؒ ہیں جوکہ سنن اربعہ کے راوی ہیں۔اور ثقہ ہیں ۔(الکامل ج:۲ص: ۲۶۲،تقریب رقم :۴۹۱۲) روایت کی صحت ر کوئی اثر نہیں
پڑے گا ۔عبدالرحمن بن ابان بن عثمان ؒ بھی سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ،عابد ہیں۔
(تقریب رقم : ۳۷۹۲)اور
زید بن ثابت ؓ مشہور صحابی اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ۔البتہ یہ روایت مرسل ہے
،کیونکہ عبدالرحمن بن ابان کا زید بن ثابت ؓ سے سماع ثابت نہیں ہے۔
[7] معرفۃ
علوم الحدیث للحاکم کی سند یوں ہے :
حدثني الحسين بن عبد الله الصيرفي، قال:
حدثني محمد بن حماد الدوري بحلب، قال:
أخبرني أحمد بن القاسم
بن نصر بن دوست قال: حدثنا حجاج بن الشاعر قال:
اجتمع أحمد بن حنبل، ويحيى بن معين، وعلي بن المديني
في جماعة معهم اجتمعوا فذكروا أجود الأسانيد الجياد …..
اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں ، مگر محمد بن
حماد الدوری ؒ کے حالات نہیں مل سکے ، لیکن تمام ائمہ محدثین نے یہ بات امام بن معین ؒ سے ثابت مانی
ہے ۔
چنانچہ ، حافظ
ابن دقیق العید ؒ (م۷۰۲ھ) حافظ ابن الصلاح ؒ (م ۶۴۳ھ) ، محدث بقاعی ؒ (م ۸۸۵ھ)حافظ ابو الفضل
عراقی ؒ (م۸۰۶ھ)،فقیہ برہان الدین عبناسی ؒ (م۸۰۲ھ)حافظ ابن کثیر
ؒ (م۷۷۴ھ)، حافظ ابو عبد اللہ الزرکشی ؒ (م ۷۹۴ھ)حافظ سخاوی ؒ (م۹۰۲ھ) وغیرہ تمام محدثین نے
اس قول کو امام بن معین ؒ کا ہی قول بتایا ہے ۔ (الاقتراح لابن دقیق العید :
صفحہ ۶، مقدمۃ ابن الصلاح :صفحہ ۶، النکت الوافیۃ :جلد ۱ :صفحہ ۱۰۰، التقیید
والایضاح :صفحہ ۲۳، الشذا الفیاح :جلد ۱:صفحہ ۶۹، الباعث الحثیث :صفحہ ۲۲، النکت
علی الصلاح :جلد ۱:صفحہ ۱۳۶، فتح المغیث :جلد۱:صفحہ ۳۹ )
لہذا اس روایت میں محمد بن حماد الدوری ؒ
قابل اعتماد ہیں ۔
[8] انوار
البدر :صفحہ ۳۴۰، ۳۴۳۔
[9] اہل
حدیث مسلک کے محقق ابو خرّم شہزاد صاحب یہ اصول لکھتے ہیں کہ اگر کسی محدیث کے ایک
ہی راوی کے بارے میں ۲ مختلف قول ہیں، تو اس محدث کے دونوں قول آپس میں ٹکراکر
ساقط ہوجائیں گے یا پھر جمہور محدثین کے موافق جو قول ہوگا ، وہ لے لیا جائے گااور
دوسرا قول چھوڑ دیا جائے گا۔ (کتاب الضعفاء والمتروکین :جلد ۱:صفحہ ۹۰) لہذا
اہل حدیثوں کے اس اصول کی روشنی میں عرض ہے کہ چونکہ حافظ ابن حجر ؒ کا امام اعمش
ؒ کو دوسرے طبقہ میں شمار کرنا جمہور کے موافق ہے ، اس لئے اسے ترجیح حاصل ہے ،
اور النکت میں موجود تقسیم کو ترک کردیا جائے گا۔
[10] یہی
وجہ ہے کہ بعض محدثین نے بھی امام اعمش ؒ
کی تدلیس پر اعتراض کیا ہے، جس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس روایت میں انہوں نے
تدلیس کی ہے۔
لہذا
مدلس راوی کا متابع یا شاہد نہ مل جانے کی
صورت میں ان کی اس روایت سے توقف کیا جائے گا ۔ لیکن جن روایات میں ان کا مدلس
ہونا ثابت نہیں ہے ، تو ان کی ’عن ‘ والی روایت کو بھی قبول کیا جائے گا، کیونکہ
وہ جمہور متقدمین ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک کم تدلیس کرنے والے ہیں ، اور ان کی
’عن‘ والی روایت سے متقدمین ائمہ جرح
وتعدیل نے استدلال کیا ہے ، اور اسے صحیح مانا ہے ، پھر جمہور محدثین نے طبقات
ثانیہ کا مدلس بھی مانا ہے ۔
لہذا ان کی ’عن‘ والی روایت مقبول ہے۔
اعتراض نمبر ۱:
بعض محدثین نے امام
اعمش ؒ کو کثرت سے تدلیس کرنے والا قرار دیا ہے ، نیز کچھ لوگوں نے انہیں طبقات
ثالثہ کا بھی مدلس بتایا ہے ۔
الجواب:
خود غیر مقلدین کا
اصول ہے کہ متقدمین کے مقابلہ میں متأخرین کی بات قابل قبول نہیں ہے ۔ (نور العینین : ص۱۳۷-۱۳۸، کتاب الضعفاء
والمتروکین : صفحہ ۹۱)
متقدمین ائمہ جرح
وتعدیل میں سے کسی نے یہ بات نہیں کہی ہے کہ امام اعمشؒ کثرت سے تدلیس کرنے ہیں
، بلکہ ہم نے امام ابوحاتم ؒ ، امام شعبہ
ؒ ، وغیرہ سے ثابت کیا ہے کہ امام اعمش ؒ کم تدلیس کرنے والے ہیں ۔ لہذا خود اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں یہ
اعتراض مردود ہے ۔
جہاں تک بات ہے ، تیسرے طبقہ کے مدلس کی، تو عرض ہے کہ :
اہل حدیث مسلک کے زبیر علی زئی کہتے ہیں کہ :
جب جمہور محدثین سے ایک بات ثابت ہوجائے ، تو اس کے مقابلہ میں ہر شخص یا بعض
اشخاص کی بات مردود ہے ۔ (مقالات ۶ـ۱۴۳) لہذا جب جمہور محدثین (ابن حجرؒ، حاکم ؒ ، العلائی ؒ،
ابن العراقی ؒ ، سبط ابن العجمیؒ، وغیرہ ) نے انہیں دوسرے طبقہ کا مدلس مانا ہے ،
تو خود اہل حدیثوں کے اصول میں جمہور کے مقابلہ میں امام اعمشؒ کو تیسرے طبقہ میں
شمار کرنا شاذ اور غیر صحیح ہے ۔
اعتراض نمبر ۲:
بعض محدثین نے اعمش ؒ کے بارے کہا ہے کہ وہ ضعفاء سے تدلیس کرتے ہیں اور عثمان
بن سعید الدارمی ؒ نے ان پر تدلیس تسویۃ کا بھی الزام لگایا ہے ۔
الجواب :
اول تو امام سفیان ثوری ؒ کے بارے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ وہ بھی ضعفاء سے تدلیس
کرتے ہیں اور تدلیس تسویہ کا بھی ان پر الزام لگایا گیا ہے ۔ (نور العینین
:صفحہ ۱۳۵، فتح المبین :صفحہ ۴۰) تو کیا غیر مقلدین ان کی ’عن‘ والی روایت کو
ترک کردیں گے ۔
دوم تدلیس تسویہ کے الزام کے جواب میں ، امام ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲ھ) کہتے
ہیں کہ امام ثوری ؒ اور امام اعمشؒ تدلیس تسویہ ان لوگوں سے کرتے تھے ، جو ان کے
نزدیک ثقہ ہوتے اور ان کے علاوہ کے نزدیک ضعیف ۔
حافظ ؒ کے الفاظ یہ
ہیں :
لا شك أنہ جرح، وإن وصف بہ الثوري، والأعمش، فالاعتذار أنهما لا يفعلانہ إلا في حق من يكون ثقة عندھما ضعيفا عند غيرىما.(تدریب الراوی :جلد ۱ :صفحہ ۲۵۹،واللفظ لہ ،
النکت الوافیۃ للبقاعی :جلد ۱:صفحہ ۴۵۳)
لہذا جب تدلیس
تسویہ اپنے نزدیک ثقہ سے کرتے ہیں ، تو پھر تدلیس بھی وہ دونوں حضرات اپنے نزدیک
ثقہ ہی سے لازماً کرتے ہیں ، اور امام اعمشؒ اور امام ثوریؒ کو محدثین سے رواۃ کے
سلسلہ میں اختلاف کا حق حاصل تھا، کیونکہ یہ دونوں ائمہ جرح وتعدیل اور محدثین میں
سے ہیں ، اور رواۃ کی ثقاہت اور ضعف پر کلام کرتے ہیں ۔ (ذکر
من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل :صفحہ ۱۷۵، المعین
فی طبقات المحدثین :صفحہ ۵۴) نیز ، امام ذہبی
ؒ (م۷۴۸ھ)نے بھی ثوری ؒ کے دفاع میں قریب قریب یہی بات کہی ہے ۔ (میزان
الاعتدال :جلد ۲:صفحہ ۱۶۹)
لہذا اس تفصیل سے
معلوم ہوا کہ حضرات حقیقت میں کوئی تدلیس تسویہ کے مرتکب نہیں تھے ۔
سوم ہم نے
وضاحت کردی ہے کہ جس روایت کے بارے میں ائمہ محدثین کے ذریعہ سے یہ ثابت ہوجائے کہ
امام اعمشؒ نے تدلیس کی ہے ، تو ان کی اس روایت کو ترک کردیا جائے گا ، اگر سماع
کی تصریح ، متابع یا شاہد نہ ملا ہو تو۔
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں