نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

الافشاء لمکر ناقد الاعلاء , اعلاء السنن پر کی گئی تنقید کی حقیقت, سبب تالیف

 

مولانا ابوحمزہ محمد ذیشان یوسف چنیوٹی صاحب حفظہ اللہ                                                    (قسط:۱)

الافشاء لمکر ناقد الاعلاء

)اعلاء السنن پر کی گئی تنقید کی حقیقت)

سبب تالیف

            اسلام نے اپنی روحانی اور محاذی قوت سے جب ہند کے بت کدے کو دارالاسلام میں ، اور بیشتر ہندؤوں کو اہل ایمان میں تبدیل کیا۔ تو اس تبدیلی کے دونوں عنصر روحانیت اور محاذی قوت مسلمانان احناف ہی تھے۔ دیگر اسلامی حکومتوں کی طرح جب برصغیر پر دور زوال آیا تو دشمن نے مرد میدان بن کر نہیں بلکہ وسوسہ اندازی کے ذریعے آپس میں منافرت پیدا کی۔ جیسے حکام کی قوت کو باہمی جھگڑوں کے ذریعے کمزور کیا بعینہٖ ایسے ایک نوپید فرقے کی حوصلہ افزائی اور خوب مالی امداد کر کے اس میدان میں بھی انتشار پیدا کر دیا۔ کفار کو زیر کرنے والے مسلمانان احناف سے انہیں طبعی بغض تھا لہذا نو پید فرقے نے احناف کی مخالفت پر یوں کمر کسی  کہ کفر سے مقابلہ تو درکنار ان کے ساتھ وفاداری کا دم بھرنے لگے۔ چونکہ یہ مسلمانوں پر مذہبی وار تھا لہذا احناف پر مذہبی رو سے طعن و تشنیع ہوئی۔ امام ابو حنیفہؒ نہ صرف ائمہ اربعہ میں بالاتفاق داخل ہیں بلکہ بالاتفاق احناف اور دیگر حضرات نے انہیں ائمہ اربعہ میں سے الامام الاعظم جاتا ہے ۔لیکن یہ نوپید فرقہ اسلاف امت کی اس گواہی پر مطمئن نہیں ہے۔ لہذا امام ابو حنیفہ کی فقہی آراء کو نے نئے سرے سے مدلل انداز میں پیش کیا گیا۔ اس پیش رفت میں ایک عظیم کردار "اعلاء السنن" نے ادا کیا لیکن حیرت بالائے حیرت ہے کہ جو خود اپنے نزدیک "فقہی اور حدیثی ذخیرہ" پیش کرنے سے مسلسل عاجز ہیں ۔ انہیں اس پر اعتراض ہیں۔

                                    انقلاب چمن دہر کی دیکھی میں نے تکمیل

                                    یہاں قارون بھی کہ دیتا ہے حاتم کو بخیل

اور یہ اعتراض اپنی خفت کو مٹانے اور احساس کمتری دور کرنے کی کا ذریعہ ہیں۔ ورنہ علمی اعتراض کرنے  والوں کا طرز یہی ہوتا ہے کہ وہ جس چیز پراعتراض کرتے ہیں اس کا اعتراض سے خالی پہلو بھی پیش کرتے ہیں۔ جبکہ یہاں اعلاءالسنن پر اعتراض تو ہے لیکن  اپنا مدعا اسی تفصیل سےندار،دخیر اگر صرف تنقید برائے تنقید ہی ان کا کل جہاں تھا تو اس میں بھی کسی معیار پر بات کی ہوتی ہے لیکن یہاں تنقید بھی جرائم سے آلودہ ہے۔ جس کا راز فاش کرنے کے لیے اس نو پید فرقے کی کتاب "اعلاءالسنن فی المیزان" کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

مقدمۃ الکتاب

الحمد للرحمن خلق الانسان علمه البيان ، والصلوة والسلام  علی من ارسل الى الانس والجان ، و علی من نشر علومه من اھل الفقه والاتقان ، خصوصاً على الامام الاعظم ابى حنيفة النعمان ، و على المحدث الناقد ، المتفوق على الحاقد ، ظفر احمد من ولد عثمان،  اما بعد

            علم انبیاء علیہم السلام کی وراثت ہے جو وقتا فوقتا اپنی قوموں کی راہنمائی کیلئے مبعوث ہوتے رہے آخر میں سید الانبیاء خاتم النبیین بن کر مبعوث ہوئے تو ان کے علوم انکے صحابہ نے ان سےبلاواسطہ اور تابعین نے صحابہ کے واسطے سےحاصل کیے۔ یہ علوم زندگی کے شعبہ جات میں راہنمائی کیلئے تھے۔ قرآن و حدیث سے استدلال کرنے میں فہم مختلف ہونے اور نئے پیش آنے والے مسائل میں اجتہاد مختلف ہونے کے باعث اجتہادی اختلاف ہوا۔جس میں رائے کے درست ہونے پر دو اجر، اور خطااور غلط ہونے پر ایک اجر کی بشارت زبان نبوت سے مل چکی تھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اجتہادی اختلاف کے متعلق عظیم تابعی ،خلیفۂ راشد، عمر بن عبد العزیز کا قول مشہور ہے ما یسرنی ان اصحاب محمد لم يختلفوا  میں نہیں چاہتا کہ صحابہ میں اختلاف نہ ہوتا۔   لہذا صحابہ کا اختلاف حد اعتدال میں اور نعمت تھا۔ اسی طرح کبار تابعین میں بھی اختلاف قابل تحمل تھا۔ تابعین کے دور اختتام تک اختلاف کثرت کی طرف چل پڑا تھا۔اور اسکے مضر اثرات بھی دکھائی دینے لگے تھے  ۔

 کثرت اختلاف کا سبب

            صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد حکام بالا سیاسی نظام کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر چلا رہے تھے۔ اور دینی مسائل میں عالم اسلام کی (جو کہ دن بدن وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا تھا) دینی راہنمائی کیلئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح کوئی اہل علم وفضل کی کوئی مجلس شوری نہیں بنا رکھی تھی۔ ان بادشاہوں کی حیثیت مذہبی پیشوا کی نہیں بلکہ ایک سیاسی قائد جتنی ہوتی تھی۔ لہذا ہر علاقے کے عوام بلکہ ضرورت پڑنے پر خود بادشاہ اپنے قریبی اہل علم سے راہنمائی لیا کرتے تھے۔اور وہ اہل علم قرآن وسنت کی روشنی میں اپنے اجتہاد کے مطابق راہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ مگر تمام عبادات ، تجارت ، معاشرت، معیشت ، جرم و سزا، دیوانی و فوجداری ، مقدمات ، جہاد ، باغیوں ، ذمیوں اور کافروں سے معاملات، بین الاقوامی معاہدوں سمیت سینکڑوں مسائل تھے جن کو حل کر لینا ہر مفتی ، قاضی یا فقیہ کے بس کی بات نہیں تھی اور نو مسلموں کا ایک جم غفیر تھا جسکی گذشتہ عادات و اطوار کے متعلق انہیں بتانا تھا کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح!!! ان متنوع مسائل میں سے جن مسائل کو حل کر بھی لیتے تھے تو فقہاء کے اجتہادی اختلاف کے باعث متضاد فتاوی کا ایک انبار جمع ہو رہا تھا۔ اگر یہ دروازہ یونہی چوپٹ کھلا رہتا تو دائرہ اسلام کے وسیع ہونے کیساتھ اختلاف نے بھی اسی قدر وسعت اختیار کرنے جانا تھا کہ ہر علاقے کے اہل علم کا قرآن وحدیث سمجھنے کا الگ فہم اور نئے مسائل میںاجتہاد کے متعلق اپنا ایک الگ نظریہ!!! جس کے نتیجے میں آج ہم دیکھتےکہ ہر اسلامی ملک ، ملک کے ہر شہر ، شہر کے ہر محلے والوں کا ایک الگ مذہب ہوتا۔ اختلاف کا رحمت ہونا بالکل بارش کے رحمت ہونے کی طرح ہے اگر حد اعتدال میں ہو تو رحمت، ورنہ طوفان کہلاتی ہے اور اسے عذاب کہا جاتا ہے۔ اختلاف کی کثرت کو نہ تو امت نے پہلے کبھی پسند کیا، نہ ہی بعد میں ،نہ عین اس وقت اسکو باقی رکھنا برداشت کیا گیا ۔بس ایک عبوری دور تھا جو انتہائی مختصر ثابت ہوا۔اہل علم نے اس بات کو بڑی سنجیدگی سے محسوس کیا۔ امام ابو حنیفہ کے ہم عصرابن المقفع کا حکام کو لکھا ہوا پر سوز خط اس زمانے کے احساسات کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔

            ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم لکھتے ہیں   امام ابو حنیفہ کے ہم عصر ابن المقفع کے اپنے نظم ونسقی تجربے کے باعث ایک درد بھرے رسالے الصحابہ میں حکومت کو توجہ دلائی کہ قضاۃ ساختہ قانون نظائر ، اور فتاوی میں تضاد اوراختلاف رائے کی اتنی کثرت ہو گئی ہے کہ صحیح اسلامی حکم کا پتہ چلنا نا ممکن ہو گیا ہے اور ضرورت ہے کہ مختلف اقوال کو کھنگال کر کسی کو ترجیح دی جائے۔ اور خلیفہ کے حکم سے واجب التعمیل قرار دیا جائے انتھی۔    مگر ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ ان بادشاہوں کی حیثیت عوام کی نظروں میں سیاسی قائد کی تھی نہ کہ مذہبی پیشوا کی۔ اول تو وہ ایسا کر نہیں سکتے تھے اور اگر کرتے بھی تو ان کے فیصلوں کو  عوام کے ہاں دینی حیثیت ملنا بہت مشکل تھا۔ تو اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ مسائل کو مدون کرکے ایسی شکل دی جائے کہ وہ اپنی علمی قوت سے دل و دماغ کو مسخر کرے ، بڑھتے ہوئے اس اختلاف کو روک کر نظروں کا رخ اپنی طرف پھیر دے۔ اس پس منظر میں امام ابو حنیفہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ والے طرز پر اہل علم کی ایک مجلس شوری ترتیب دی۔ تدوین فقہ کیلئے جن علوم اور جس معیار کی ضرورت ہوتی ہے وہ بہت  بلند ہے۔ اس لحاظ سے اس علمی شوری کے ارکان کس معیار کے تھے۔ امام

المحدثین امام وکیعؒ کی زبانی سنئے۔

 ابن كرامۃ قال كنا عند وكيع فقال رجل اخطأ أبو حنيفة فقال وكيع کيف يقدر ابو حنيفۃ  يخطى ومعه مثل ابی یوسف و زفرؒ فی قیاسھما ، و مثل یحیی بن ابی زائدة و حفص بن غیاث و حبان و مندل في حفظھم الحديث ، والقاسم بن معن في معرفته باللغة العربية ، وداؤد الطائي وفضيل بن عياض في زھدهما ورعھما من كان هؤلاء جلساؤه لم يكن يخطى لانه ان اخطاء رودہ  تاريخ بغداد للخطیب 365/16۔

   ترجمہ :  ابن کرامہؒ فرماتے ہیں ہم امام وکیعؒ کے پاس تھے ایک آدمی نے کہا کہ (اس مسئلے میں) امام ابو حنیفہؒ نے خطا کی تو امام وکیعؒ نے فرمایا امام ابو حنیفہؒ کیسے خطا کر سکتے ہیں حالانکہ انکے ساتھ ابو یوسفؒ اور زفرؒ اپنے قیاس کی مہارت سمیت موجود ہیں ، اوریحیی بن ابی زائدہؒ ، حفص بن غیاثؒ ، حبانؒ اور مندلؒ جیسے حفاظ حدیث موجود ہیں۔ اور قاسم بن معنؒ عربی لغت کی معرفت کیساتھ موجود ہیں ، اور داؤد طائیؒ اور فضیل بن عیاضؒ اپنے زہد و تقوی کیساتھ موجود ہیں ۔جس کے ہم نشین ایسے ہوں اس سے خطا نہیں ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اگر اس سے خطا ہو تو یہ ہمنشیں انہیں حق کی طرف پھیر دیں گے۔ (وهذا إسناد جيد رواة الرواية علي بن محمد بن الحسن بن محمد بن عمر بن سعيد بن مالك الشهرة : علي بن محمد النخعي ، النسب : النخعي، الكوفي الرتبة : ثقة- نجيح بن إبراهيم هو الزهري مولى آل سعد بن أبي وقاص الفقيه الكوفي الرماني قال ابن حبان يغرب (الثقات لابن حبان ج9/ص220) قلت لا بأس به جيد الحديث ما لم يخالف فقد تعقبت أحاديثه وعامتها قد توبع عليها وروى عنه الحفاظ مثل الطبري وخيثمة بن سليمان وابن الأعرابي ويحيى بن محمد بن صاعد وابنه إبراهيم أيضًا وغيرهم- ابن كرامة هو محمد بن عثمان محمد بن عثمان بن كرامة العجلي ثقة)

 امت کی دیگر کئی قد آور شخصیات نے بھی اپنے طور پر فقہ مدون کی ان شخصیات کی مرتب فقہ نے ہر کس  و ناکس کے مفتی بن کر شرعی مسائل میں رائے زنی کرنے کا راستہ منقطع کر دیا۔ اس سے اختلاف کی راہیں کافی حد تک سمٹ گئیں۔ ان ائمہ میں سے اہل سنت کے چار فقہاء امام اعظم امام ابو حنیفہؒ ، امام شافعیؒ ، امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کو امت کی طرف سے اپنی عقیدت ملی کر دیگر فقہاء کے مذاہب بےتوجہی کی نذر ہوگئے۔اور رفتہ رفتہ کتب اور ذہنوں سے محو ہوتے چلے گئے۔ صرف چار فقہار پر امت کا اعتماد ہو جانا کثرت اختلاف کی بساط سمٹنے کا پہلے سے زیادہ مؤثر ذریعہ ثابت ہوا۔ اور جمہور امت میں فقہی اختلاف سمٹ کر چار تک محدود ہو گیا۔ یہ چار مذاہب امت کی چار طبقاتی تقسیم نہیں ، بلکہ اختلاف کی ہولناک کثرت صرف چار عدد میں سمٹ جانے کا ذریعہ بنا۔ یہ چاروں ائمہ امت کو چار پر تقسیم کرنے کا نہیں بلکہ ہزاروں ٹولیوں میں بٹتی ہوئی امت کے چار جگہ محفوظ ہونے کا ذریعہ ہے۔ تدوین کے زمانے میں ان مذاہب کو اسی نظر سے دیکھا گیا۔ اور نعمت عظمی جان کر اپنایا گیا۔اہل زمانہ کی اتنی بڑی گواہی بارہویں صدی کے نادانوں کی منفی سوچ پر ایک کاری ضرب ہے۔ کہ لیس الخبر کالمعاينة   آنکھوں سے دیکھنا اور سنی سنائی بات برابر نہیں ہوتی۔  صاحب البیت ادری بمافيه گھر والا گھر کے حالات سے زیادہ باخبر ہوتا ہے۔ ان چار فقہاء اور کی فقہ کی عنداللہ مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ انکی وفات سے لیکر آج تک امت ان کے اعلیٰ دینی فہم کی ٹھنڈی چھاؤں تلے زندگی گزار رہی ہے۔ پھر انہی مذاہب سے وابستہ فاتحین نے دائرۂ اسلام کو وسیع کیا تو نئے ملکوں میں انہیں مذاہب کو ترویج ملی اور پورے پورے ملک کثرت اختلاف کی دھکم پیل سے محفوظ راستے پر چلنے لگے۔

احناف کثرت سے کیوں ہیں؟

o    تدوین فقہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کاوشیں اتنی اعلیٰ ہیں کہ امت نے ان کو چار ائمہ میں سے امام اعظم مانا ہے۔ اور انکی تحقیقات پر اعتماد کرنے والوں کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔

o    دائرۂ اسلام کو وسیع کرنے میں احناف نے زیادہ مستعدی دکھائی ہذانئے ممالک میں اکثر و بیشتر حنفیت کا تعارف ہوا۔

کثرت اختلاف کی دعوت کا آغاز

            جمہور امت کے اس روشن طرز عمل کے خلاف بر صغیر میں چند سروں نے الگ لائحہ عمل کو پسند کیا جو دانستہ یا نادانستہ اختلاف کی کثرت کو پسندکرنے کے مترادف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ائمہ فقہاء کی تقلید کی بجائے از خود فیصلے کیے جائیں۔ برٹش حکومت کے غاصبانہ قبضے کے زمانے میں ان حضرات نے اختلات کو ہوا دینی شروع کی۔ اس نازک زمانے میں امت میں انتشار پیدا کرنا اور اختلافات کو ہوا دینا خود اس بات کی گواہی ہے کہ یہ طرز عمل نہ اسلام کیساتھ خیر خواہی ہے نہ مسلمانوں  کے ساتھ ۔جیسا کام ویسی بنیاد یہ حضرات اپنے اس کام میں اس طرح مشغول تھے اور اپنی کی کج فکری کے باعث مسلمانوں سے اتنے بددل تھے کہ کہ انکا رجحان مسلمانوں کی بجائے کفار کی طرف ہی رہا۔ انگریزوں اور مسلمانوں کے اختلاف میں انگریزوں کی پشت پناہی اختیار کی۔ اور اہلسنت احناف پر کیچڑ چھالنے کیلئے علمی خیرات اہل تشیع سے لی۔ ہماری اس بات کی تصدیق مولوی محمد حسین بٹالوی غیر مقلد کی اس تحریر سے ہوتی ہے جو انہوں نے فقیر محمد جہلمی کی کتاب "السیف الصارم" پر تبصرہ میں لکھی۔ لکھتے ہیں

 ”امام الائمہ ابو حنیفہ علیہ الرحمہ پر جو اعتراضات اخبار اہل ذکر میں مشتہر کیے گئے ہیں یہ سب کے سب ہذیانات بلا استثناء اکاذیب اور بہتانات ہیں جس کا ماخذ زمانہ حال کے معترضین کیلئے حامد حسین شیعی لکھنوی کی کتاب استقصاء الافحام و اسیفاء الانتقام فی نقض منتہی الکلام کے سوا اور کوئی کتاب نہیں ہے اس کتاب میں اس قسم کے مطاعن سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ کسی سنی امام (امام مالک، امام بخاری وغیرہ) کو نہیں چھوڑا ایک ایک کا نام لے کر کئی ورق بلکہ کئی جزوں کو سیاہ کر ڈالا ہے۔“

 بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان ہونے کے دعوے کے باوجود انگریزوں کی پشت پناہی اور شیعوں سے خیرات لے کر اختلاف بڑھانے کا یہ ایجنڈا تشکیل دیا گیا۔ جس کے اثرات خود غیر مقلدین حضرات نے کچھ اس طرح لکھے

”25 برس کے تجربے کے بعد ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام ہی کو سلام کر بیٹھتے ہیں۔“

 (اشاعت السنہ )

اسلاف امت سے بے زار نعرہ

            ہر شخص کو قرآن و حدیث میں رائے زنی دینے کا حق دینے کی آواز اٹھائی گئی۔ جس سے اختلاف کے چوراہے کھل کر امت نے اسی کثرت اختلاف کا شکار ہو جانا تھا جسے اسلاف نے ناپسند کیا تھا اور حکمت الہی نے اسے امت کی عملی زندگی سے نکال دیا تھا۔

اہل علم کی کاوشیں

            اہل علم چونکہ عالم الغیب نہیں ہوتے ہیں کہ فتنہ پیدا ہونے سے پہلے ہی اسکے خد و خال سے واقف ہوں اور

فتنے کو اٹھتے ہی مار گرائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ کے زمانے میں فتنہ خوارج پیدا ہونے سے لے کر آج تک فتنوں کو اپنے ابتدائی دور میں کچھ نہ کچھ پذیرائی ضرور ملی۔ نئے اعتراضات پہلے ہی مشکل ہوتے ہیں۔اوپر سے فساد کا دور ہے رائے کی آزادی ہر آدمی کو پسند ہے ۔ چاہے وہ اس معاملے میں رائے رکھنا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ لہذا ان اختلاف پسندوں کی دال گلنی شروع ہو گئی۔ اکابرین نے اس فتنے کے خد وخال کا بغور جائزہ لیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ چند احادیث جن کے فہم میں ائمہ کا مجتہدانہ اختلاف ہے انہیں دکھا کر احناف کو تارک حدیث اور خود کو اہل حدیث باور کراتے ہیں۔تو اکابر نے امام ابوحنیفہؒ کے حدیثی مستدلات کتب حدیث کی شروحات ،اور مختلف مجموعوں کی شکل میں پیش کئے، جن میں فقیہ ملت، امام اعظم، ابوحنیفہؒ کی فقہی آراء کے دلائل شرح وبسط کیساتھ بیان فرمائے۔ باقی کتب کی افادیت اپنی جگہ لیکن جدید اعتراضات کے شیش محل پر جو سنگ باری اعلاء السنن نے کی ہے وہ دیگر کتب نہیں کر پائیں۔ ذلك فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء

مصنف اور کتاب کا  تعارف شام کے عظیم محدث شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ کی زبانی

فرماتے ہیں۔

قد تبارت همم المحدثين الفقهاء من كل عصر ومصر في جمع تلك الاحاديث في صعيد واحد لتكون مرجعا سهلا قريب المنال لكل متفقه ومستفيد. ومن افضل بل افضل ما الف فيها في هذا القرن الرابع عشر واوسعه جمعا من وجهة نظر سادة الحنفية كتاب "اعلاء السنن" تاليف شيخنا العلامه المحدث الفقيه الاصولي البارع المتتبع الشيخ "ظفر احمد العثماني التهانوي

ترجمہ: ہر زمانے اور ہر علاقے میں احادیث احکام کو ایک ہی جگہ جمع کرنے کیلئے فقہاء محدثین کے حوصلے بلند رہے ہیں۔ تاکہ ہر متفقہ اور مستفید احادیث کی طرف بآسانی رجوع کر سکے اور انہیں اپنے قریب پائے۔ اس چودھویں صدی میں احادیث احکام کے متعلق لکھی ہوئی افضل کتابوں میں سے بلکہ ان میں سب سے افضل اور سب سے زیادہ جامعیت کی حامل کتاب" حضرات احناف کے نقطہ نظر کے مطابق” اعلاءالسنن “ہے۔ جو ہمارے شیخ علامہ محدث فقیہ ماہر اصولی باریک بین مولانا ظفر احمد عثمانی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف ہے۔

سبب تالیف از علامہ ابوغدہ رحمہ اللہ

وكان سبب تاليف هذا الكتاب النافع العظيم ما حدث من حوالي منتصف هذا القرن اذ قامت في بعض بلاد الهند قبل انقسام باكستان منها نغمة من بعض الناس المسمين انفسهم "اهل الحديث" زعموا فيها ان مذهب السادة الحنفية الذي هو مذهب جمهور المسلمين في تلك البلاد الواسعة العريضة يخالف الاحاديث النبوية في كثير من مسائله كما زعموا ايضا ان سادة الحنفية يقدمون القياس على الحديث الشريف وكما انكروا ايضا تقليد الائمة الاربعة المتبوعين رحمة الله عليهم واطالوا لسانهم في جنب فقه الحنفية وجنب فقيه الملة الامام ابي حنيفة بوجه اخص فتصدى لرد هذه المزاعم الزائفة فحول العلماء في تلك الديار الهندية وابطل هذه الدعاوي بالتاليف الحديثية الكثيرة المحققة وبينوا فيها استناد السادة الحنفية في فقههم ومذهبهم الى الاحاديث الشريفة وانهم يقدمون الحديث الشريف حتى الحديث الضعيف على القياس!!!

ترجمہ: اس عظیم المنفعت کتاب کی تالیف کا سبب: اس صدی میں تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان کے بعض علاقوں میں کچھ نام نہاد اہلحدیث ایک نغمہ لے کر اٹھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ حنفی حضرات کا مذہب جو کہ بلاد ہند کی وسعتوں میں بسنے والے جمہور مسلمانوں کا مذہب ہے اپنے بہت سے مسائل میں احادیث نبوی کے مخالف ہے۔ اسی طرح انہوں نے یہ بھی گمان پیش کیا ہے کہ احناف  قیاس کو حدیث شریف پر مقدم کرتے ہیں۔ اور انہوں نے ائمہ اربعہ( امام ابو حنیفہ امام مالک امام شافعی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم) کی تقلید کا انکار کیا۔ اور فقہ حنفی پر زبان درازی کی خصوصا فقیہ ملت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر۔ تو ان "بدگمانیوں" کے رد کے لیے ہندوستان کے اکابر علماء کھڑے ہوئے اور انہوں نے ان دعووں کا بطلان حدیث کی بہت سی تحقیقی تالیفات کے ذریعے واضح کیا۔ اور فقہ حنفی کا احادیث شریفہ کے ساتھ رشتہ واضح کر دیا- نیز  یہ بھی بیان کیا کہ احناف تو حدیث ضعیف کو بھی قیاس پر مقدم کرتے ہیں۔(شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ کی بات مکمل ہو گئی)

            معزز قارئین جب سے یہ مبارک کتاب منظر عام پر آئی ہے ان غیر مقلدین کی خارش رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اگرچہ بہت سے حیلے کئے گئے۔ آخر ان کے ایک صاحب قلم ارشاد الحق اثری صاحب نے اس کے جواب میں "اعلاءالسنن فی المیزان" لکھ کر گویا ایک سکون کی پڑیا" ان کے ہاتھوں میں تھما دی اس سے اگرچہ غیر مقلدین کو عارضی سکون اور اثری صاحب کو دنیائے غیر مقلدیت سے داد و تحسین وصول ہو گئی لیکن اس مہم کو سرانجام دیتے ہوئے ان کا دامن "علمی خیانتوں" سے کس قدر داغدار ہوا ہے اس حقیقت کو اشکارا کرنے کے لیے ہم نے اس عنوان پہ قلم اٹھایا ہے۔ ان حضرات نے "اعلاءالسنن" نام کا مذاق اڑانے کی بھی کوشش کی ہے۔ اور معیار پر بھی انگلی اٹھائی ہے۔ لیکن خود اپنی صورت حال یہ ہے کہ کتاب کا نام رکھا ہے "اعلاءالسنن فی المیزان" جس کا معنی ہے اعلاءالسنن ترازو میں۔

کتاب کے نام اور کام میں فرق

 "اعلاءالسنن فی المیزان"  اس نام کے دو جز ہیں

1.   اعلاءالسنن    

2.   المیزان

پہلے جز کا تقاضا

            اعلاءالسنن 21 جلدوں کے مجموعے کا نام ہے۔جس میں اصول حدیث، اصول فقہ،احادیث کی روایت اور درایت کے حوالے سے بحث اور ان پر فقہی مسائل کا انطباق کیا گیا ہے۔ کل کتاب کا نام لینے والے کو کل کتاب پر ہی بحث کرنی چاہیئے۔

دوسرے جز  کا تقاضا

            ترازو کا مقصد صحیح تول پیش کرنا ہوتا ہے۔لہذا "اعلاءالسنن فی المیزان" نام کا تقاضا یہ تھا کہ اعلاءالسنن پر

صرف خشک تنقید کرنے کی بجائے ساتھ اپنا لائحۂ عمل بھی پیش کیا جاتا۔ یعنی اعلاءالسنن کے پہلو بہ پہلو ایک کتاب مرتب کی جاتی۔ جس میں اعلاءالسنن کے تمام فقہی اور حدیثی مباحث کا احاطہ کرتے۔ صحیح اور غلط کے بارے میں اپنی مدلل رائے  پیش کرتے۔ اپنی فقہی آراء پیش کرتے اور ان تمام مباحث میں اپنے معیار کے مطابق دلائل فراہم کرتے۔اثری صاحب اپنے رکھے ہوئے نام کے تقاضے سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں چونکہ ان حضرات کا علم اصلاحی اور مرتب مواد پیش کرنے سے ہمیشہ قاصر رہا ہے۔ لہذا انہیں ان تقاضوں سے پیچھے ہٹنا پڑا ۔انہی کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں ۔پہلے تقاضے سے پیچھے ہٹتے ہوئے لکھتے ہیں

” ہماری یہ گزارشات اور تنقیحات اعلاءالسنن کے صرف اٹھ اجزاء کے حوالے سے ہیں اللہ تعالی نے توفیق بخشی تو باقی اجزاء پر بھی ہم اپنی گزارشات قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔“

              معزز قارئین 21 جلدوں میں سے صرف اٹھ اجزاء اور ان میں سے بھی صرف اصولوں پر کلام کر کے چلتے بننا جو کہ کل کتاب کا دسواں حصہ بھی نہیں بنتا۔ان تمام ابواب سے متعلق اپنی فقہی رائے کا خوف کے مارے اظہار ہی نہ کر پانا ناقد کا پست قد اور کتاب کی عظمت بالکل واضح کر دیتا ہے اس پر مستزاد یہ کہ ان کو یہ کتاب لکھے تقریبا11سال بیت چکے ہیں انکی دیگر کتب تو منظر عام پر آ رہی ہیں لیکن اعلاءالسنن سے کچھ یوں سٹپٹا کر بھاگے ہیں کہ باقی گزارشات پیش کرنے کا وعدہ آج کی صبح تک وفا نہیں ہو سکا۔

            دوسرے تقاضے سے پیچھے ہٹتے ہوئے لکھتے ہیں

”ہم نے اس میں فقہی مباحث سے تعرض نہیں کیا کہ اہل علم اس بارے میں اپنی اپنی داد تحقیق پیش کر چکے ہیں اور طلبہ علم انہیں دیکھ کر کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں ہم نے یہاں ان قواعد اور اصولوں کو ذکر کرنے پر اکتفا کیا ہے جن کو مولانا عثمانی نے حدیث کی تصحیح و  تضعیف میں اختیار کیا ہے“ انتھی

            معزز قارئین کیا اعلاءالسنن صرف اصول حدیث کی کتاب ہے؟ یا اس میں اصول حدیث،اصول فقہ حدیث کی روایت اور درایت کے حوالے سے بحث  کیساتھ  فقہی مسائل کا ان پر انطباق کیا گیا ہے؟جب یہ کتاب اس معیار کیساتھ فقہائے محدثین کے طریقے پر لکھی گئی تھی تو بعض ناقدین کا صرف فقہی مباحث پر اور بعض کا صرف اصولی مباحث پر بحث کرنا کس مرض کی دوا ہے۔ تفصیل کتاب میں آئے گی مختصراً یہاں سمجھیئے کہ در پردہ یہ بات کار فرما ہے کہ اگر اصولوں کے ساتھ مسئلے کی فقہی حیثیت بتاتے تو اعلاءالسنن میں مسئلے اور حدیث کی حیثیت برابر ہونے کی وجہ سے جناب کا سارا پول کھل جانا تھا۔ مسئلہ مستحب اور افضل غیر افضل کا ہو تو عثمانی صاحب ایک درجے کی حدیث کو قبول فرماتے ہیں۔ لیکن اسی درجے کی حدیث جب قوی دلائل سے ٹکرا رہی ہوتی ہے تو نہیں لیتے۔ یہاں ناقد صاحب مسئلے کی حیثیت اور دیگر دلائل کا پس منظر عوام کی نظروں سے ہٹا کر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں کہ کسی طرح علامہ عثمانی کو متضاد بیان ثابت کیا جائے۔

کیا یہ دوہرا اختصار اثری صاحب کے کام آ سکا؟

            اس دوہرے اختصار کے باوجود اثری صاحب کو اس عظیم کتاب پر تنقید کرنے کے لیے کیسی کیسی بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑا۔ عبارتیں کاٹیں ، واضح معنی کو چھوڑ کر من مانے مطلب نکالے اور دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ بعض حضرات کو سہارا لیتے وقت درست اور دیگر مقامات پہ غلط کہا گیا۔

 تنقیدی کتاب کا معیار

             انہوں نے جس اعلاءالسنن پر تنقید کی ہے۔ وہ ایک ضخیم کتاب ہے۔ اس کی ایک ایک حدیث گن کر بتانا کہ حدیث کی کس کتاب سے لی گئی ہے خاصے وقت کا تقاضا کرتا ہے۔ تاہم ہم نے پہلی جلد کے پہلے 140 صفحات کی احادیث گنی ہیں۔  باقی قارئین خود دیکھ سکتے ہیں۔ ان 140 صفحات میں 31 احادیث بخاری و مسلم سے ، 5 مؤطا امام مالک سے ، 5 صحیح ابن سکن سے ، 27 ابوداؤد سے ، 19 ترمذی سے ، 10 نسائی سے ، 12 ابن ماجہ سے ، 18 مسند احمد سے  یہ مشہور کتب کے ہم نے نام لکھے ہیں۔ باقی دیگر حدیث کی کتب سے۔  لیکن جناب کی تنقید کا معیار دیکھئے کہ بے دھڑک بلکہ رضا و رغبت کے ساتھ کل کتاب کا موضوعات( من گھڑت احادیث) سے بھرا ہوا ہونا نقل کر دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ان کے اس بات سے احادیث مبارکہ پر تو کوئی آنچ نہیں آتی ہے ہاں ان کی تنقیدی کتاب کا معیار عوام و خواص سب کے سامنے آ جاتا ہے۔ کتاب کے نام کی پاسداری اور معیاری کام سے محرومی کے باوجود انہیں جس چیز نے اس "ذلت آمیز" نتیجے تک پہنچایا ہے وہ غالبا "وتعز من تشاء وتذل من تشاء"کا نظام ہے۔      ہمارا مطالبہ

ہم اپنی بات ایک تعمیری مطالبے پر ختم کرتے ہیں !

”ہمارا مطالبہ ہے کہ فرقہ اہل حدیث کے علماء اپنی طرف سے مقبول احادیث مبارکہ اور فقہی ابواب کا ایک متفقہ اور معتمد علیہ مجموعہ پیش کریں۔ چونکہ اپ گزشتہ ائمہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان تک یہ احادیث نہیں پہنچ سکی تھیں۔ اب آپ کو پہنچ چکی ہیں تو اپ ایک مکمل نظام عمل تشکیل دیں۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ آپ کی تحقیقات پر ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کے معتمدین جتنا بڑا عدد مطمئن ہو جائے بس اہل حدیث نام کا یہ ایک مختصر سا فرقہ ہی مطمئن ہو جائے۔ تخریبی کاروائیاں بہت ہو چکیں اب تعمیری کام کی طرف آئیں۔“

(جاری ہے)

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...