نماز میں قہقہہ لگانے سے وضو بھی ٹوٹ جاتاہے۔(غلام
مصطفٰی امن پوری کے اعتراضات کے جوابات)
-مولانا نذیر الدین
قاسمی
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 6
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
معتبر احادیث سے ثابت ہے کہ
نمازمیں قہقہہ لگا نا (یعنی ٹھاٹھیں مار ) کر ہنسنے سے نماز کے ساتھ وضو بھی ٹوٹ جاتا
ہے۔ دلائل درج ذیل ہیں :
دلیل نمبر ۱ :
- امام
ابن عدی ؒ (م ۳۶۵ھ)فرماتے
ہیں کہ :
حدثناہ
ابن جوصا،حدثنا عطیۃ بن بقیۃ ،حدثنا ابی ،حدثنا عمرو بن قیس السکونی عن عطاء ،عن
ابن عمر قال:قال رسول اللہ ﷺ من ضحک فی صلاۃ قہقہۃ فلیعد الوضوء والصلاۃ ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کہ جو کوئی نماز میں قہقہہ لگائے تو وہ اپنے وضو
اورنماز کو لوٹائے ۔(الکامل لابن عدی ج:۴ص:۱۰۱،واسنادہ
حسن) اسکین ملاحظہ فرمائے
سند کے روات کی تفصیل یہ ہے :
۱) امام
ابواحمد بن عدی ؒ (م ۳۶۵ھ)مشہور
ثقہ ،حافظ اور ائمہ جرح وتعدیل میں سے ہیں ۔(تاریخ الاسلام ج:۸ص:۲۴۰)
۲) ابن
جوصا ؒ جن کا پورانام امام حافظ احمد بن عمیر بن یوسف بن جوصاؒ (م ۳۲۰ھ)
ہے ۔وہ ثقہ ،حافظ اور امام اہل حدیث ہیں ۔(کتاب الثقات للقاسم ج:۱ص:۴۴۹،لسان المیزان ج:۱ص:۵۶۶،سیر اعلام النبلاء ج:۱۵ص:۱۵،الدلیل المغنی ص:۱۰۶)
۳) عطیہ
بن بقیہ بن الولید ؒ (م ۲۶۵ھ)
بھی جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ،انہیں ابن حبان ؒ اور قاسم بن قطلوبغا ؒ نے ثقات میں شمار کیا ہے ۔امام ابن ابی حاتم
ؒ نے ان سے روایت لی ہے اور غیر مقلدین کے نزدیک ابن ابی حاتم ؒ صرف ثقہ سے ہی روایت
لیتے ہیں ۔(انوار البدر ص:۱۲۴)
نیز ،انہوں نے یہ بھی کہا کہ’’
محلہ الصدق وکانت فیہ غفلۃ ‘‘ان کا معاملہ سچا ہے اور ان
میں کچھ غفلت ہے ۔(کتاب الثقات لابن حبا ن ج : ۸ص:۵۲۷،کتاب الثقات للقاسم ج:۷ص:۱۴۵)امام ابوعوانہ ؒ نے آپ کی
روایت کو صحیح اور حافظ ہیثمی ؒ نے حسن کہا ہے ۔(صحیح ابوعوانہ حدیث نمبر:۷۸۹۰،المعجم الکبیر للطبرانی ج:۱ ص:۱۸۲،معجم الزوائد ج:۹ص:۳۰۵،حدیث نمبر: ۱۵۶۶۹) اور غیر مقلدین کا اصول ہے
کہ محدث کا کسی حدیث کی تصحیح وتحسین کرنا ،اس حدیث کے ہرہرراوی کی توثیق ہوتی ہے۔
(نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام :ص۱۷، انوار البدر : ص ۲۷) معلوم
ہواکہ امام ابوعوانہ ؒ اور حافظ ہیثمی ؒ کے نزدیک عطیہ بن بقیہ ثقہ ہیں ۔
نیز عطیہ بن بقیہ بن الولید
ؒ کا علم ہونے کے باوجود ،امام ابن عدی ؒ نے الکامل میں آپ کے ترجمے کو ذکر نہیں کیا ہے ،اور اہل حدیث حضرات کا اصول
ہے کہ جس راوی کا ترجمہ ،امام ابن عدی ؒ اپنی کتاب الکامل میں ذکر نہ کریں ،وہ ابن
عدی ؒ کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے ۔(انوار البدر ص:۲۲۴،۲۲۵) ثابت ہواکہ ابن عدی
ؒ کے نزدیک یہ راوی ثقہ ہے ۔[1]
۴) بقیہ
بن الولید ؒ(م ۱۹۷ھ)
کے بارے میں فیصلہ کن قول یہی ہے کہ جب وہ ثقہ راویوں سے (یعنی معروف روات سے ) سماع
کی تصریح کریں تو وہ جمہور نزدیک ثقہ ہیں ۔(الکاشف رقم: ۶۱۹)
نیز اگر بقیہ ؒ کا کوئی ثقہ
راوی متابع یا شاہد مل جائے تو اس صورت میں بھی بقیہ بن الولید ؒ پر تدلیس کا الزام
مردود ہوگا اور وہ ثقہ ہوں گے ۔ واللہ اعلم
تنبیہ :
یہاں پر بھی بقیہ ؒ نے سماع
کی تصریح کی ہے اور ان کے شیخ بھی ثقہ ہیں ،جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔[2]
۵) عمر
بن قیس السکونی ؒ (م ۱۴۰ھ)
سنن اربعہ کے راوی ہیں اورثقہ ہیں ۔( تقریب
رقم :۵۰۹۹)
۶) امام
عطاء بن ابی رباح ؒ (م ۱۱۴ھ)
ثقہ ہیں اور بخاری اور مسلم کے راوی ہیں ۔( تقریب رقم :۴۵۹۱)
۷) عبداللہ
بن عمر رضی اللہ عنہ مشہور صحابی رسول ہیں ۔( تقریب )
معلوم ہواکہ اس روایت کے تمام
روات ثقہ ہیں اور اس کی سند حسن درجے کی ہے ،نیز امام ماردینی ؒ (م ۷۵۰ھ) اور
امام ابومحمد الزیلعی ؒ (م ۷۶۲ھ)
نے اس حدیث پر اعتراضات کے جوابات دیکر اسے
معتبر ثابت کیا ہے ۔(الجوہر النقی ج:۱ ص:۱۴۷ ،نصب الرایہ ج:۱ص:۴۸)
وضاحت :
اس معتبر حدیث سے پتہ چلتا
ہے کہ نماز میں اگر کوئی کھلکھلا کر ہنسے تو
نماز کے ساتھ ساتھ اس کا وضو بھی ٹوٹ جائیگا۔
اعتراض نمبر ا :
غلام
مصطفی ظہیر امن پوری صاحب کہتے ہیں کہ یہ روایت بھی ضعیف ہے، کیونکہ اس میں انقطاع
ہے، امام عطاء بن ابی رباح ؒ کا ابن عمرؓ سے سماع ثابت نہیں ہے۔ ( السنۃ :
شمارہ نمبر ۱ : صفحہ ۳۱)
الجواب :
امام
بخاریؒ (م ۲۵۶ھ) فرماتے ہیں کہ ‘سَمِعَ أَبَا هُرَيرةَ، وابْن
عَبّاس، وأبا سَعِيد، وجابر، وابن عُمَر، رضي الله عَنْهُم’ امام عطاء بن
ابی رباح ؒ نے ، ابو ہریرہ ؓ ، ابن عباسؓ ، ابو سعید خدری ؓ ، جابر بن عبد اللہ ؓ
، ابن عمر ؓ سے سناہے۔ (التاریخ الکبیر : جلد ۶ : صفحہ ۴۶۳) ، امام مسلم ؒ (م ۲۶۱ھ) کہتے ہیں کہ ‘سمع ابن عباس وأبا هريرة وأبا سعيد وجابرا وابن عمر’ ۔ (الکنی والاسماء : جلد۲ : صفحہ ۷۱۹) امام
ابو نعیم اصبہانی ؒ (م ۴۳۰ھ) کہتے ہیں کہ ‘سمع
من ابن عباس، وابن عمر’ عطاء ؒ نے ابن
عباس ؓ سے اور ابن عمرؓ سے سنا ہے۔ (حلیۃ الأولیاء : جلد۳ : صفحہ ۳۱۵) امام
عبد الغنی المقدسی ؒ (م ۶۰۰ھ) فرماتے ہیں کہ ‘سمع
عبد اللہ بن العباس و عبد اللہ بن عمر’۔ (الکمال فی اسماء الرجال للمقدسی : جلد۷ : صفحہ ۳۰۲)، امام نووی ؒ (م ۶۷۶ھ) کہتے ہیں کہ ‘سمع العبادلة الأربعة: ابن عمر، وابن عباس،
وابن الزبير، وابن أبى العاص’۔(تہذیب
اللغات : جلد۱ : صفحہ ۳۳۳) حافظ ذہبی ؒ (م ۷۴۸ھ) بھی فرماتے ہیں کہ ‘سَمِعَ: عَائِشَةَ، وأبا
هُرَيْرَةَ، وأسامة بْن زيد، وأمّ سَلَمَةَ، وابن عَبَّاس، وابن عُمَر’۔ (تاریخ الاسلام :
جلد۳ : صفحہ ۲۷۷)، امام تقی الدین
الحسنی الفاسی ؒ (م ۸۳۲ھ) بھی کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح ؒ نے ابن عمر
ؓ سے سنا ہے ۔ (العقد الثمین : جلد۵ : صفحہ ۲۰۵)
یہ
تو چند محدثین کے اقوال ہوئے ، پھر خود
عطاء بن ابی رباح ؒ نے ابن عمر ؓ سے سماع کی صراحت کردی ہے ، چنانچہ امام حاکم ؒ (م ۴۰۵ھ) فرماتے
ہیں کہ :
حدثنا علي
بن حمشاذ العدل، ثنا أبو الجماهر محمد بن عثمان الدمشقي، حدثني الهيثم بن حميد،
أخبرني أبو معبد حفص بن غيلان، عن عطاء بن أبي رباح، قال: كنت مع عبد الله بن عمر فأتاه
فتى يسأله عن إسدال العمامة، فقال ابن عمر: سأخبرك عن ذلك بعلم إن
شاء الله تعالى، قال: كنت عاشر عشرة في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم: أبو
بكر، وعمر، وعثمان، وعلي، وابن مسعود، وحذيفة، وابن عوف، وأبو سعيد الخدري رضي
الله عنهم، فجاء فتى من الأنصار فسلم على رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم جلس،
فقال: يا رسول الله أي المؤمنين أفضل؟ قال: «أحسنهم خلقا» قال: فأي المؤمنين أكيس؟ قال: «أكثرهم للموت ذكرا وأحسنهم له استعدادا
قبل أن ينزل بهم أولئك من الأكياس» ثم سكت الفتى۔
(المستدرک
للحاکم مع تلخیص للذہبی : جلد۴ : صفحہ
۵۸۲، حدیث نمبر ۸۶۲۳،حافظ
ذہبی ؒ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے)
غور
فرمائیے ! اس روایت میں امام عطاء ابن ابی رباح خود کہتے ہیں کہ میں ابن عمر ؓ کے
پاس موجود تھا پھر انہوں نے ابن عمر ؓ کا پورا کلام نقل کیا ۔
لہذا
محدثین کے اقوال اور عطاء ؒ کی ابن عمر ؓ سے سماع کی صراحت کی وجہ سے ، غلام مصطفی
ظہیر صاحب کا اعتراض باطل ومردود ہے۔
اعتراض نمبر ۲ :
ظہیر امن پوری صاحب کہتے ہیں کہ :
نیز
اس میں بقیہ بن الولید راوی ، اگرچہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہے ، لیکن تدلیس تسویہ کے
مرتکب تھے ، لہذا سند مسلسل بالسماع ہونی چاہیے ۔ (السنہ : شمارہ نمبر ۱ : صفحہ
۳۱)
الجواب :
بقیہ
بن الولید ؒ کے بارے میں خود ظہیر صاحب کے استاد حافظ زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں
کہ ان سے تدلیس ِ تسویہ ثابت نہیں ہے۔ (فتح المبین : صفحہ ۶۹) ، اسی طرح
غیر مقلدین کے امام المحدثین ، شیخ البانی ؒ نے بھی دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ
بقیہ بن الولید تدلیس تسویہ نہیں کرتے تھے ۔ (سلسلہ احادیث ضعیفہ : جلد۱۲ : صفحہ
۱۰۵)، لہذا غلام مصطفیٰ ظہیر صاحب کا اعتراض خود انہیں کے علماء کی نظر میں
مردود ہے۔
دلیل نمبر ۲ :
- امام
طبرانی ؒ (م ۳۶۰ھ)
فرماتے ہیں کہ :
حدثنا
احمد بن زہیر التستری ثنا محمد بن عبدالملک الدقیقی ثنا محمد بن ابی نعیم الواسطی
ثنا مہدی بن میمون ثنا ہشام بن حسان عن حفصۃ بن سیرین عن ابی العالیۃ عن ابی موسی
،قال : بینما رسول اللہ ﷺ یصلی بالناس اذدخل رجل فتردی فی حفرۃ کانت فی
المسجد ،وکان فی بصرہ ضرر فضحک کثیر من القوم وہم فی الصلاۃ ،فامر رسول
اللہ ص من ضحک ان یعید الوضوء ویعید الصلاۃ ۔
ایک دفعہ کی بات ہے کہ اللہ
کے رسول ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے ۔اتنے میں ایک صاحب مسجد میں داخل ہوئے ،اور
مسجد میں موجود ایک گڑھے میں گر گئے ۔(ان کی آنکھ میں خرابی تھی )تو کئی لوگ نماز
ہی کی حالت میں ہنس پڑے ،تو جو لوگ ہنسے تھے اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ
اپنا وضو اور اپنی نماز دہرا لیں ۔(المعجم الکبیر للطبرانی بحوالہ معجم الزوائد
حدیث نمبر: ۲۴۴۰،ونصب
الرایہ: ج:۱ص:۴۷، حافظ ہیثمی ؒ کہتے ہیں کہ
’’ورجالہ موثقون وفی بعضہم خلاف‘‘
اس روایت کے رجال (روات )ثقہ ہیں اور اس حدیث کی بعض سندوں میں اختلاف ہے)
اسکین : نصب الرایہ
روات کی تحقیق یہ ہے :
۱) امام
طبرانی ؒ(م ۳۶۰ھ)
مشہور ثقہ ،امام اور حافظ الحدیث ہیں ۔(تاریخ الاسلام ج:۸ص:۱۴۳)
۲) حافظ
احمد بن زہیرؒ التستری(م۳۱۰ھ)
بھی ثقہ ،حجت ہیں ۔(تاریخ الاسلام ج:۷ص:۱۵۲)
۳) محمد
بن عبدالملک الدقیقی ؒ (م ۲۶۶ھ)
سنن ابوداؤد اور ابن ماجہ کے راوی ہیں اور ثقہ ،صدوق ہیں ۔ (تقریب رقم ۶۱۰۱،سیر اعلام النبلا ء ج:۱۲ص:۵۸۲)
۴) محمدبن
ابی نعیم ؒ الوسطی ؒ (م ۲۲۳ھ)
سنن ابن ماجہ کے راوی ہیں اور جمہور کے نزدیک ثقہ ،صدوق ہیں ۔
حافظ ابن حجر ؒ ،امام ابوحاتم ؒ نے انہیں صدوق اور امام
احمد بن سنان ؒ نے ثقہ ،صدوق کہا ہے ۔اسی طرح ابن حبان ؒ نے انہیں ثقات میں شمار کیا
ہے ،امام ابو زرعہ رازی ؒ نے بھی ان سے روایت لی ہے ۔ (تقریب رقم :۶۳۳۷،تہذیب التہذیب ج:۹ ص:۴۸۱،تہذیب الکمال ج:۲۶ص:۵۲۷)اور امام ابو زرعہ الرازی
ؒ،غیر مقلدین کے نزدیک صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں ۔(اتحاف النبیل ج:۲ص:۱۲۸) معلوم ہو اکہ جمہور کے نزدیک
آپ ؒ ثقہ وصدوق ہیں ۔
۵) مہدی
بن میمون ؒ (م ۱۷۲ھ)
صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں ۔(تقریب رقم :۶۹۳۲)
۶) ہشام
بن حسان ؒ (م ۱۴۸ھ)
بھی صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں ۔(تقریب رقم :۷۲۸۹)
۷) حفصہ
بنت سیرین ؒ ( م ۱۰۰ھ)
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی راوی ہیں اور ثقہ
ہیں ۔(تقریب رقم :۸۵۶۱)
۸) ابوالعالیہ
البصری ؒ (م ۹۳ھ)
بھی ثقہ راوی ہیں ۔(تقریب رقم : ۱۹۵۳)
۹) ابوموسی
الاشعری رضی اللہ عنہ مشہور صحابی رسول ہیں
۔(تقریب ) معلوم
ہوا کہ اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں اور اس کی سند صحیح ہے ۔
ایک وضاحت :
بعض محدثین نے ابوالعالیہ ؒ سے یہ روایت مرسلا
ً نقل کی ہے ۔لیکن معجم الکبیر للطبرانی میں
یہ روایت صحیح سند کے ساتھ متصل آئی ہے ۔جیسا کہ تفصیل اوپر بیان کی گئی ۔اور غیر
مقلدین کا اصول ہے کہ ثقہ کی زیادتی مقبول ہے ۔
چنانچہ، غیرمقلد ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر صاحب ثقہ کی زیادتی
کے بارے میں آخری قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
جمہور
فقہاء ومحدثین اور اصولیین کے نزدیک ثقہ کی زیادتی مقبول ہے ۔خطیب نے اس قول کو پسند
کیا ہے (اور کہا) کہ یہ قول ہمارے نزدیک صحیح ہے ۔(التحدیث
ص:۲۵۳)
اسی طرح زبیر علی زئی صاحب
ابن کثیر ؒ کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حافظ ابن کثیر ؒ کی یہ بات محل نظر ہے ۔کیونکہ
خطیب البغدادی ؒ نے لکھا ہے کہ جمہور فقہاء اور اصحاب الحدیث نے کہا :ثقہ کی زیادتی
مقبول ہے ،جس کے ساتھ وہ منفرد ہو ۔(اختصار علوم الحدیث ترجمہ علی زئی ص:۴۸)
لہذا غیر مقلدین کے اپنے اصول
سے المعجم الکبیر للطبرانی والی یہ متصل روایت مقبول ہے ،لہذا اس پراعتراض ہی مردود
ہے۔
اعتراض :
غلام مصطفیٰ ظہیر امن
پوری صاحب کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے، اس میں ہشام بن حسان مدلس ہیں ، جو عن
سے روایت کر رہے ہیں ، ثقہ مدلس کی صحیح بخاری ومسلم کے علاوہ عن والی روایت ضعیف
ہوتی ہے ۔ (السنۃ : شمارہ نمبر ۱ : صفحہ ۳۰)
الجواب :
ظہیر صاحب کے استاد ،
زبیر علی زئی لکھتے ہیں کہ مدلس راوی کی ، اگر معتبر متابعت یا قوی شاہد مل جائے ،
تو اس پر سے تدلیس کا الزام ختم ہوجاتا ہے۔ (نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم مقام
: صفحہ ۳۷) اور دلیل نمبر ۱ میں موجود
ابن عمرؓ کی روایت اور آگے آنے والی تمام روایات ہشام بن حسان ؒ کی روایت کی قوی
شواہد ہیں ۔
لہذا ظہیر صاحب کا اعتراض
خود ان کے اصول سے باطل ہے۔
دلیل نمبر ۳ :
- امام
ابونعیم ؒ (م ۴۳۰ھ)
کہتے ہیں کہ :
ثنا
محمد بن ابراہیم، ثنا اسحا ق بن ابرہیم ،ثنا اسماعیل بن محمد ،ثنا مکی بن ابراہیم
،ثنا ابوحنیفۃ ،عن منصور بن زاذان قال:عن الحسن ،عن ابی سعید عن النبی ﷺ :بینما ہو
فی الصلاۃ اذ اقبل أعمی یرید الصلاۃ ،فوقع فی رویۃ فاستضحک بعض القوم ،حتی قہقہہ
فلما انصرف قال النبی ﷺ من کان منکم قہقہہ فلیعد الوضوء والصلاۃ ۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ
عنہ نبی ﷺ کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کی بات ہے ،نبی پاک ﷺ نماز میں
تھے تبھی ایک نابینا صاحب نماز کے ارادے سے آئے تو ایک نالی میں گر گئے تو کچھ لوگ
ہنس پڑے یہاں تک کہ وہ ہنسی قہقہہے تک پہنچ گئی تو جب نبی ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ
نے فرمایا کہ تم میں سے جس نے بھی قہقہہ لگایا ہے وہ اپنا وضو اور نماز دہرائے ۔(مسند
امام ابو حنیفہ بروایت ابونعیم ص:۲۲۲)
اسکین :
اس روایت کے راویوں کی تفصیل درج ذیل ہے :
۱) امام
ابونعیم اصبہانی ؒ (م۴۳۰ھ)
مشہور ثقہ ،حافظ ہیں ۔(تاریخ الاسلام ج:۹ص:۴۶۸)
۲) محمدبن
ابراہیم سے مراد مسند اصبہان محمدبن ابراہیم ابوبکر ابن المقری ؒ (م ۳۸۱ھ)
ہیں ،جوکہ مشہور ثقہ ،حافظ الحدیث ہیں ۔(تاریخ الاسلام ج:۸ص:۵۲۴)
۳) اسحاق
بن ابراہیم کا پورا نام اسحق بن ابراہیم بن عبداللہ بن شاذان الفارسی ؒ ہے ۔جو کہ ثقہ
راوی ہیں ۔(مسند ابوحنیفہ بروایت ابونعیم ص:۲۳۸،تاریخ الاسلام ج:۶ص:۲۹۴)
۴) اسماعیل
بن محمد بن ابی کثیر الفسوی ؒ (م ۲۸۸ھ)
بھی ثقہ شیخ ہیں ۔(تاریخ الاسلام ج:۶ص:۷۲۱)
۵) امام
حافظ مکی بن ابراہیم ؒ (م ۲۱۵ھ)
صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ و مضبوط ہیں ۔(تقریب رقم :۶۸۷۷)
۶) امام
اعظم ابوحنیفہ ؒ (م ۱۵۰ھ)
مشہور فقیہ ،امام ،حافظ الحدیث ،ثقہ اور حدیث کے شہنشاہ
ہیں ۔(امام ابوحنیفہ ؒ کا محدثانہ مقام ص:۳۲۳،نیز دیکھئے ص ۲۱،۶۲،الاجماع
مجلہ:شمارہ نمبر ۳: ص ۲۷۸)
۷) منصور
بن زاذان ؒ (م ۱۲۹ھ)
صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ مضبوط ،عابد ہیں ۔(تقریب رقم:۶۸۹۸)
۸) امام
حسن البصری ؒ (م ۱۱۰ھ)
بھی مشہور ثقہ ،فقیہ ،فاضل ،امام ہیں ۔(تقریب رقم : ۱۲۲۷)
۹) ابو
سعید خدری رضی اللہ عنہ مشہور صحابی رسول ہیں ۔[3]
نوٹ :
اس روایت میں امام حسن البصری
ؒنے عن سے روایت کیا ہے اور وہ طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں ،جن کی تدلیس قابل قبول ہوتی
ہے ۔(طبقات المدلسین لابن حجر ص:۲۹)
اس تحقیق سے معلوم ہواکہ اس
سند کے تمام روات ثقہ ہیں اور اس کی سند صحیح ہے ۔[4]
دلیل نمبر ۴ :
- امام
ابن عدی ؒ (م ۳۶۵ھ)فرماتے
ہیں کہ :
حدثنا
زید بن عبداللہ بن زید الفارض ۔حدثنا کثیر بن عبید ۔حدثنا بقیۃ عن محمد الخزاعی عن
الحسن عن عمران بن حصین ۔ان النبی ﷺ قال لرجل ضحک أعد وضوئک ۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ
عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص (نماز میں) ہنسا تو اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے فرمایا
:اپنے وضو کو دہراؤ۔(الکامل لابن عدی ج:۴ص:۱۰۱)
اسکین :
اس کی تحقیق یہ
ہے :
۱) امام
ابن عدیؒ کی توثیق گزر چکی ۔
۲) زید
بن عبداللہ بن زید ابوطلحہ ؒ بھی ثقہ ہیں
۔ کیونکہ
ان کے علم کے باوجود امام ابن عدیؒ نے ان کا ترجمہ اپنی کتاب الکامل میں ذکر نہیں کیا
،اور غیر مقلدین کے نزدیک یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ راوی ابن عدی ؒ کے نزدیک ثقہ
ہے ۔ دیکھئے (انوار البدر ص:۲۲۴)
۳) کثیر
بن عبید بن نمیر ؒ (م ۲۵۰ھ)
سنن ابوداؤد ،ابن ماجہ اور نسائی کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں ۔(تقریب رقم :۵۶۱۸)
۴) بقیہ
بن الولید کی توثیق گزر چکی۔(دیکھئے ص:۳)[5]
۵) محمد
الخزاعی ؒ بھی ثقہ ہیں ۔
اعتراض :
ابن عدی ؒکہتے ہیں کہ اس روایت
میں محمد الخزاعی ؒمجہول ہیں ۔اسی طرح ابن عدیؒ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’یقال
عن بقیۃ فی ہذا الحدیث عن محمد بن راشد عن الحسن ،ومحمد بن راشد أیضا عن الحسن
مجہول ‘‘اس حدیث کو بقیہ نے محمد بن راشد عن الحسن سے
بھی روایت کیا ہے اور حسن سے روایت کرنے والے محمد بن راشد بھی مجہول ہیں ۔(لکامل
لابن عدی ج:۴ص:۱۰)
الجواب :
نہایت
ادب واحترام کے ساتھ عرض ہے کہ محمد الخزاعی ؒاور محمد بن راشد ؒ یہ دونوں ایک ہی شخص
ہیں،جن کا پورا نا م محمد بن راشد الخزاعی ابوعبداللہ الشامی الدمشقی ؒ (م بعد ۱۶۰ھ)
ہے ۔آپ سنن اربعہ کے راوی ہیں ،بقیہ بن الولید ؒ (م۱۹۷ھ)
کے استاذ ہیں اور جمہور کے نزدیک ثقہ ،صدوق ہیں ۔(تہذیب الکمال ج:۴ص:۱۹۳،تقریب رقم :۵۸۷۵،تہذیب التہذیب ج:۹ص:۱۶۰، الکاشف )محدث
عینی ؒ (م ۸۵۵ھ)
نے بھی امام ابن عدی ؒ کے اعتراض کا تقریباً یہی جواب دیا ہے۔ (العنایہ شرح ہدایہ
ج:۱ص:۲۹۱)
لہذا انہیں مجہول کہنا صحیح نہیں ہے ،بلکہ وہ ثقہ اور سچے
ہیں ۔
۶) امام
حسن البصری ؒ (م۱۱۰ھ)
کی توثیق گزرچکی ۔
۷) حضر
ت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ (م۵۲ھ)
بھی مشہور صحابی رسول ہیں ۔(تقریب رقم :۵۱۵۰)[6]
معلوم ہواکہ اس بھی تمام روات ثقہ ہیں ،لہذا یہ روایت بھی
صحیح اور متصل ہے ۔
اعتراض :
ظہیر
امن پوری صاحب لکھتے ہیں کہ اس روایت میں (حسن
البصری ؒ سے روایت کرنے والے) محمد الخزاعی سے مراد محمد بن راشد الخزاعی نہیں ،
بلکہ اور کوئی ہے، جن کے حالات نہیں مل سکے۔ (صفحہ ۳۲)
الجواب :
امام ، حافظ ابن الترکمانی ؒ (م
۷۵۰ھ) نے بھی محمد الخزاعی ؒ کا تعین محمد بن راشد الخزاعی الشامی سے کیا
ہے،چنانچہ ان کے الفاظ ہیں : ’ابن راشد هذا
وثقه ابن حنبل وابن معين’
۔ (الجوہر النقي : جلد۱ : صفحہ ۱۴۶)
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس روایت میں محمد
الخزاعی ؒ کے شاگرد بقیہ بن الولید ہیں ، بقیہ بن الولید کےاستادوں میں محمد
الخزاعی کے نام سے محمد بن راشد الخزاعی المخولی الدمشقی الشامی موجود ہیں، جس کا
حوالہ گزر چکا ، اس لحاظ سے محمد الخزاعی ؒ سے مراد محمد بن راشد الخزاعی الشامی
ثابت ہوتے ہیں ۔
لیکن موصوف ظہیر صاحب نے یہ بات چھپالی اور بڑی
چالاکی سے کہا کہ محمد بن راشد المخولی کے اساتذہ میں کسی محدث نے بھی حسن البصری
ؒ کو ذکر نہیں کیا ، نہ ہی حسن البصری کے شاگردوں میں ان کا نام موجود ہے ۔ (صفحہ
۳۲) تاکہ وہ اپنے مسلک بچا سکیں ۔
اور یہی نہیں ، بلکہ حافظ ابن الترکمانی ؒ کے
بارے میں انتہائی بے ادبی کے ساتھ کہتے ہیں کہ جناب ابن الترکمانی حنفی صاحب شدید
وہم کا شکار ہوگئے ہیں ، محمد الخزاعی مجہول کو محمد بن راشد المخولی سمجھ بیٹھے
ہیں ، ایک ثقہ راوی کی توثیق ایک مجہول پر تھوپ دی ہے۔ (صفحہ ۳۲)
حالانکہ امام ، حافظ ابن الترکمانی ؒ جو کہ
حافظ ذہبی ؒ کے شاگرد ہیں۔(ذیل التقیید : جلد۱ : صفحہ ۵۱۹) ان کے بارے میں
:
امام صلاح الدین الصفدی ؒ (م ۷۶۴ھ) نے
کہا کہ ‘الشيخ الإمام الفاضل المفنن’۔(أعیان
العصر للصفدی : جلد۳ : صفحہ ۴۶۲)
ابن فہد مکی ؒ (م ۸۷۱ھ) نے کہا : ‘قاضي القضاة الإمام
العلامة الحافظ’
نیز کہتے ہیں کہ
: ’ له تآليف حسنة مفيدة منها "تخريج أحاديث
الهداية" و"الدر النقي في الرد على البيهقي" وكتاب في علوم الحديث
اختصر فيه كتاب ابن الصلاح اختصارًا حسنًا مستوفًى ‘ ۔
حافظ عراقی ؒ (م ۸۰۶ھ) نے
کہا : ’ الإمام
العلامة الحافظ ‘۔(لحظ الألحاظ : صفحہ ۸۶- ۸۷) ،
حافظ ابن حجر ؒ (م ۸۵۲ھ) نے کہا : ’ وكان كثير
الإفضال، مع مشاركة فِي علم الحديث. واختصر كتاب ابن الصلاح اختصاراً حسناً. سمعت
شيخنا العراقي يقول: إنه أوفى بمقصوده. قال: ولا نعلم أحداً ساواه فِي ذَلِكَ
‘۔
(رفع الإصر عن قضاۃ مصر لابن حجر: صفحہ ۲۷۸)
ان تمام عبارتوں سے معلوم ہوا کہ
حافظ ابن الترکمانی ؒ (م ۷۵۰ھ) امام ، علامہ ، حافظ الحدیث ، اچھی اور نفع بخش
کتابوں کے مصنف (جس میں الجوہر النقی بھی شامل ہے) اور علم حدیث کے عالم تھے ۔
لہذا اس صدوق [7]،
حافظ الحدیث اور حدیث وعلوم الحدیث کے ماہر پر ظہیر صاحب کا اعتراض باطل ومردود
ہے۔
ایک اور دلیل :
محمد الخزاعی ؒ کا محمد بن راشد
المخولی الخزاعی ؒ ہونے کی ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ
محمد بن راشد المخولی ؒ بصرہ بھی گئے تھے ،
چنانچہ :
امام دارقطنی ؒ فرماتے ہیں کہ :
’ كان بالبصرة، يعتبر به ‘۔ (سوالات برقانی : رقم ۴۳۱) امام
ابن معین ؒ : ’ مُحَمد بن راشد، شَاميٌ، نَزَل البَصرة
‘۔ (تاریخ
ابن معین بروایۃ الدوری : رقم ۳۳۴۴)، یحییٰ بن سعید سے بھی ایک قول مروی ہے کہ
: ’ مُحَمد بْن راشد صاحب مكحول شامي نزل البصرة
‘۔(الکامل
لابن عدی : جلد۷: صفحہ ۴۱۹)
لہذا جب وہ بصرہ گئے تھے ، تو ان
کا حسن البصری ؒ سے روایت کرنا کونسی تعجب کی بات ہے؟
الغرض یہاں اس روایت میں محمد الخزاعی سے مراد محمد بن
راشد المخولی الخزاعی الشامی ہی ہیں اور یہ روایت مقبول ہے ۔
واللہ اعلم
دلیل نمبر ۵ :
- الامام
الحافظ الفقیہ ابویوسف یعقوب بن ابراہیم ا لانصاری ؒ (م ۱۸۲ھ) فرماتے ہیں کہ :
(یوسف
بن ابی یوسف عن ابیہ )عن ابی حنیفۃ ،عن منصور بن زاذان عن الحسن عن معبد رضی اللہ
عنہ عن النبی ﷺ انہ بینما ہو فی الصلاۃ اذ أقبل أعمی یرید الصلاۃ ،فوقع فی زبیۃ
،فاستضحک بعض القوم حتی قہقہہ فلماانصرف النبی ﷺ قال من کان منکم قہقہہ فلیعد
الوضوء والصلاۃ ۔
ایک موقع پر جب کہ حضور پاک ﷺ نماز میں تھے تبھی ایک
نابینا صحابی نمازکے لئے آئے ۔تو گڑھے میں گر گئے اس پر کچھ لوگ ہنس پڑے یہاں تک کہ
ہنسی قہقہہے میں تبدیل ہوگئی ،تو جب نبی ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا :تم میں سے
جس نے قہقہہ لگایا وہ وضو اور نمازکو دہرا لے ۔(کتاب الآثار للقاضی ابویوسف ص:۲۸،حدیث نمبر: ۱۳۵)[8]
اسکین :
اس کی تفصیل یہ ہے :
۱) امام
،حافظ ،فقیہ ،قاضی ابویوسف ؒ (م ۱۸۲ھ)جمہور
محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں ۔(تلامذہ امام ابوحنیفہ ؒکا محدثانہ مقام ص
:۱۴۱)
۲) امام
ابوحنیفہ ؒ
۳) منصور
بن زاذان ؒ اور
۴) امام
حسن البصری ؒ کی توثیق گزر چکی ۔
۵) معبد
رضی اللہ عنہ صحابی رسول ہیں ۔
امام ابونعیم ؒ (م ۴۳۰ھ) اور
حافظ بن الاثیر الجزری ؒ (م ۶۳۰ھ)
نے آپ کو صحابی بتایا ہے ۔(معرفۃ الصحابہ ج:۵ص:۲۵۲۹،اسد الغابہ ج:۵ص:۲۱۱)، حافظ
ذہبی ؒ (م ۷۴۸ھ)نے
بھی آپ کا شمار ’’تجرید اسماء الصحابہ‘‘ میں کیا ہے۔ (ج:۲ص:۸۵)
لہذا آپ ؓ صحابی رسول ہیں
۔
معلوم ہواکہ
- یہ حدیث حسن البصری ؒ نے عمران بن حصین ؓ ،ابوسعید
الخدریؓ ،کے علاوہ معبد سے بھی نقل کی ہے ۔
- اس کے سند
کے تمام روات ثقہ ہیں ۔
- اورسند بھی صحیح ہے ۔[9]
اعتراض
نمبر ۱ :
ظہیر صاحب
کہتے ہیں کہ اس میں ارسال ہے ، معبد الجہنی تابعی ہیں ، خود امام دارقطنی نے اس کو مرسل کہا
ہے ۔ ۔۔۔۔ (صفحہ ۳۱)
الجواب
:
یہاں اس روایت میں معبد الجہنی نہیں ، بلکہ ایک
دوسرے صحابی معبد ؓ ، جن سے حسن البصری ؒ نے روایت کیا ہے ، وہ موجود ہیں ، جس کی
تفصیل اوپر ہم نے بیان کردی ہے ۔ لہذا
ظہیر صاحب کا اعتراض ہی مردود ہے ۔
نوٹ:
امام
دارقطنی ؒ نے جس روایت کو مرسل کہا : وہ دلیل نمبر ۶ میں موجود روایت ہے، لیکن تحقیق کے لحاظ سے نہ وہ
روایت مرسل ہے اور نہ ہی اس کے راوی معبد
الجہنی تابعی ہیں ، لہذا اس روایت پر اعتراض صحیح نہیں ہے ، جس کی تفصیل آگے
آرہی ہے ۔
اعتراض
نمبر ۲ :
ظہیر صاحب کہتے ہیں کہ اس سند کو دارومدار
نعمان بن ثابت پر ہے ، جو کہ بالاجماع مجروح ہے ، نیز کہتے ہیں کہ کسی ثقہ امام سے
اس کا ثقہ ہونا بسند صحیح ثابت نہیں ۔ (صفحہ : ۳۱)
الجواب
:
الحمد للہ ، الإجماع ، شمارہ نمبر ۳ ، سے امام ابو حنیفہ ؒ کی
توثیق صحیح سند کے ساتھ ، ثابت کی جارہی ہیں ، نیز دیکھئے ص: ۶۱، لہذا یہ
اعتراض بھی باطل ہے۔
اعتراض
نمبر ۳ :
ظہیر صاحب لکھتے ہیں کہ اس میں امام حسن البصری
ؒ کی تدلیس ہے ۔ (ایضاً)
الجواب
:
حسن البصری ؒ طبقات ثانیہ کے مدلس ہیں ، جس کا
حوالہ گزر چکا ، لہذا ان کی تدلیس قابل قبول ہے ، نیز امیر المؤمنین فی الحدیث ،
امام یحییٰ بن معین ؒ (م۲۳۳ھ) فرماتے ہیں کہ ’ إذا روى الحَسَن
البَصري عن رجلٍ، فَسَمَّاه، فهو ثقةٌ، يحتج بحديثه
‘ جب
امام حسن البصری ؒ کسی راوی سے روایت کریں ، پھر اس کا نام ذکر کریں ، تو وہ راوی
ثقہ ہے ، اس کی حدیثوں سے احتجاج کیا جائے گا ۔ (تاریخ ابن ابی خیثمہ
بحوالہ تہذیب التہذیب : جلد ۱ : صفحہ ۱۷۶)اس سے معلوم ہوا کہ امام یحییٰ بن معین ؒ کے نزدیک ،
امام حسن البصریؒ ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں ۔
لہذا جب وہ ثقہ سے روایت کرتے ہیں ، تو تدلیس
بھی ثقہ ہی سے کرتے ہیں ، اس لحاظ سے بھی یہاں پر ان کا عنعہ مضر نہیں ۔ الغرض
ظہیر صاحب کے تمام اعتراضات باطل ومردود ہیں ، اور یہ حدیث تحقیق کے لحاظ سے صحیح ہے۔
دلیل نمبر ۶ :
- امام
بیہقی ؒ (م ۴۵۸ھ)
فرماتے ہیں کہ :
فاخبرنا
ابوبکر بن الحارث انا علی بن عمر ثنا الحسین بن اسماعیل ومحمد بن مخلد قالا ثنا
محمد بن عبداللہ الزہیری ابوبکر ثنا یحی بن یعلی ثنا ابی ثنا غیلان عن منصور
الواسطی ـ۔۔۔۔ہو ابن زاذان ۔۔۔۔عن ابن سیرین عن معبد الجہنی قال کان النبی ﷺ یصلی الغداۃ
فجاء رجل اعمی وقریب من مصلی رسول اللہ ﷺ بئر علی رأسہا جلۃ ۔فجاء الاعمی یمشی
حتی وقع فیہا ۔فضحک بعض القوم وہم فی الصلاۃ ،فقال النبی ﷺ بعد ما قضی الصلاۃ ’’من
ضحک منکم فلیعد الوضوء والصلاۃ ‘‘۔
معبد جہنی رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ نبی ﷺ فجر کی نماز پڑھا رہے تھے اتنے میں ایک نابینا صاحب آئے ۔۔۔اور نبی
ﷺ کے مصلے کے پاس ایک کنواں تھا ۔۔۔ان کے سر پر ایک بڑا ٹوکرا تھا ۔ تو وہ نابینا صاحب
چلتے ہوئے آئے یہاں تک کہ اس میں گر پڑے ۔اس پر کچھ لوگ نماز ہی کی حالت میں ہنس پڑے،تونماز
مکمل کرنے کے بعدنبی ﷺ نے فرمایا :جو لوگ ہنسے ہیں وہ وضو او ر نماز دہرا لیں
۔ (الخلافیات
للبیہقی ج:۱ص:۳۹۵)
اسکین :
اس روایت کے راویوں کی تفصیل یہ ہے :
۱) امام
بیہقی ؒ (م ۴۵۸ھ)مشہور
ثقہ امام اور حافظ الزمانہ ہیں ۔ ( تاریخ الاسلام ج:۱۰ص:۹۵)
۲) ابوبکر
ابن الحارث ؒ جن کا پورانام احمد بن محمد بن احمد بن عبداللہ بن الحارث ؒ (م ۴۳۰ھ)ہے
۔وہ بھی ثقہ ،حافظ ہیں۔ (السلسبیل النقی فی تراجم شیوخ البیہقی ص:۲۲۸)
۳) امام
،حافظ عمر بن علی الدارقطنی ؒ (م ۳۸۵ھ)
کی ذات بھی مشہور ومعروف ہے آپ کے تعارف کی ضرورت نہیں ہے ۔
۴) فقیہ
،حافظ حسین بن اسماعیل القاضی ؒ (م ۳۳۳ھ)
اور ان کے متابع میں موجود محمد بن مخلد بن حفص البغدادی ؒ (م۳۳۱ھ)
دونوں بھی ثقہ ہیں ۔(الدلیل المغنی لشیوخ الامام ابی الحسن الدارقطنی ص:۱۸۹،۴۵۹)
۵) محمد
بن عبد اللہ ابوبکر الزہیری ؒ (م ۲۵۶ھ)
بھی ثقہ راوی ہیں ۔(کتاب الثقات للقاسم ج:۸ص: ۳۷۰)
۶) یحیی
بن یعلی المحاربی ؒ (م ۲۱۶ھ)
صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں ۔(تقریب
رقم :۷۶۷۵)
۷) ان
کے والد یعلی بن الحارث ؒ (م ۱۶۸ھ)
بھی ثقہ ہیں اور صحیح بخاری وصحیح مسلم کے راوی ہیں ۔(تقریب رقم :۷۸۴۰)
۸) منصور
بن زاذان ؒ کی توثیق گزرچکی دیکھئے (ص: ۸)
۹) امام
محمد بن سیرین ؒ (م ۱۱۰ھ)
بھی ثقہ ،حجت اور مضبوط ہیں ۔(تقریب رقم :۹ ۵ ۴ ۷ ،
الکاشف)
۱۰) خالد
الجہنی ؒ صحابی رسول ہیں ۔(الاصابہ لابن حجر ج:۶ص:۱۳۰)[10]
معلوم ہواکہ یہ روایت بھی صحیح ہے ۔
الغرض ان دلائل سے ثابت ہواکہ
نماز میں قہقہہ لگانے سے نماز کے ساتھ ساتھ وضو بھی باطل ہوجاتا ہے ۔
نیز
امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵۰ھ)
،امام اوزاعی ؒ (م ۱۵۷ھ)
،امام سفیان ثوریؒ (م ۱۶۱ھ)
،فقیہ عبیداللہ بن حسن العنبری ؒ (م۱۶۸ھ)
،امام ابویوسف ؒ(م ۱۸۲ھ)
،امام محمد بن حسن الشیبانیؒ (م ۱۸۹ھ) وغیرہ
کا بھی یہی قول ہے کہ نماز میں قہقہہ لگانے سے وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے اور دلیل کے رو
سے یہی راجح ہے۔(کتاب الاصل المعروف بالمبسوط ج:۱ص:۵۷،کتاب الحجۃ للامام محمد ج:۱ص:۲۰۳،اختلاف الفقہاء للمروزی ص:۱۱۴،مختصر اختلاف العلماء ج:۱ص:۱۶۱،الاوسط لابن المنذر ج:۱ص:۲۲۶)
[1]
ابن حبانؒ نے انہیں ثقات میں شمار کرنے کے بعد کہاکہ’’یخطئی
ویغرب یعتبر حدیثہ اذا روی عن ابیہ غیر الاشیاء المدلسۃ ‘‘ وہ خطا کرتے ہیں اور غریب
روایات لاتے ہیں،(اور)ان کی حدیثوں کا اعتبار اس وقت ہوگا جب وہ اپنے بعد بقیہ بن الولید
سے روایت کرے (جس میں ان کے والد نے) تدلیس نہ کی ہو ۔(کتاب الثقات لابن حبان ج:۸ص: ۵۲۷)
معلوم ہواکہ ابن حبان ؒ کے
نزدیک عطیہ بن بقیہ کی روایت کا اعتبار اس وقت ہوگا جب ان کے والد بقیہ ؒ سماع کی صراحت
کردیں۔یہاں اس روایت میں بھی انہوں نے سماع کی صراحت کی ہے ،لہذا یہاں عطیہ ؒ پر خطا
ء کا احتمال ختم ہوجا تا ہے اور وہ اس روایت میں ثقہ ہیں ۔
نیز ’’یخطیء
‘‘کی جرح کا جواب دیتے ہوئے ،زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ
یہ بات سورج کی طرح روشن ہے کہ ثقہ راویوں کو بھی بعض اوقات خطاء لگ جاتی ہے ۔لہذا
ایسا راوی اگر جمہور کے نزدیک ثقہ ہو ،تو اس کی ثابت شدہ خطاء کو چھوڑ دیا جاتا ہے
اور باقی روایتوں میں وہ حسن الحدیث ،صحیح الحدیث ہوتا ہے ۔(سینے پر ہاتھ باندھنے کا
حکم اور مقام ص:۳۱)اس
روایت میں کسی ایک محدث نے بھی صراحت نہیں کی عطیہ ؒ سے خطاء ہوئی لہذا خود غیرمقلدین
کے اصول سے ،یہاں پر وہ حسن الحدیث یا صحیح الحدیث ہیں ۔
پھر’’
یخطی‘‘کا ترجمہ کفایت اللہ صاحب ’کبھی کبھا ر غلطی
کرنے والا ‘کرتے تھے ۔(انوار البدر ص:۱۸۸) یعنی اہل حدیث حضرات کے اصول
سے ،ابن حبان ؒ کے نزدیک عطیہ قلیل الخطاء ہیں ۔ (کبھی کبھار خطا ء کرنے والے ہیں)
اور خود کفایت اللہ صاحب کے اصول کی روشنی میں قلیل الخطا ء کی روایت میں غالب احتمال عدم خطاء کاہے،اس لئے انکی
روایت مقبول ہے ۔(انوار البدر ص:۱۴۷) لہذا عطیہ بن بقیہ ؒ پر ’’یخطیء‘‘
کی جرح سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔نیز جب جمہور نے عطیہ بن
بقیہ بن ولید ؒ کی توثیق کردی ہے۔تو جمہور کے مقابلے میں ابن حبان ؒ کی جرح مردود ہے
جیسا کہ غیر مقلدین کا اصول ہے ۔(مقالات زبیر علی زئی ج:۶ص:۱۴۳،۱۴۴) اس لحاظ سے بھی عطیہ
بن بقیہ ؒ ثقہ ہی ثابت ہوتے ہیں۔
[2]
اس سے معلوم ہوا کہ ابن الجوزی ؒ کا اعتراض کہ:
’’اما الطریق الاول
ففیہ بقیۃ ومن عادتہ التدلیس فکأ نہ سمعہ من بعض الضعفاء فحذف اسم ذلک وقد کان لہ
رواۃ یسوون الحدیث ویحذفون اسم الضعیف ۔‘‘
(التحقیق ج:۱ص:
۱۹۶)
صحیح نہیں ہے ۔کیونکہ جمہور
ائمہ محدثین نے صراحت کی ہے کہ بقیہ ؒ جب سماع کی صراحت کردیں تو وہ ثقہ وصدوق ہیں
۔جیسا کہ امام ذہبی ؒنے صراحت کی ہے ،جس کا حوالہ اوپر گزرچکا ،اسی طرح امام یعقوب
بن شیبہ السدوسی ؒ ،امام ابن سعد ؒ ،حافظ عجلی ؒ ،امام ابوزرعہ ؒ ،امام ابواحمد الحاکم
ؒ،امام ابن خلفون ؒ ،امام سمعانی ؒ وغیرہ نے صراحت کی ہے کہ بقیہ بن الولید ؒ جب ثقہ
سے روایت کریں تو ثقہ ہیں ،ان پرکلام مجہولین سے روایت کرنیکی وجہ سے کیا گیا ہے ۔(تہذیب
التہذیب ج:۱ ص:۴۷۶،اکمال تہذیب الکمال ج:۳ص:۷) بلکہ امام نسائی ؒ نے واضح
کیا ہے کہ ’’اذا قال :حدثنا وأخبرنا فہو ثقۃ ‘‘
جب بقیہ حدثنا یا اخبرنا کہیں تو وہ ثقہ ہیں ۔(ایضاً) یہی وجہ ہے کہ امام ماردینی
ؒ (م ۷۵۰ھ)
ابن الجوزی ؒ کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ہو
صدوق وقد صرح بالتحدیث والمدلس الصدوق اذا صرح بذلک زالت تہمۃ تدلیسہ ‘‘
بقیہ صدوق ہیں ،اور انہوں نے سماع کی صراحت کردی ہے اور صدوق مدلس جب سماع کی صراحت
کردے تو اس پر تدلیس کا الزام ختم ہوجاتا ہے
۔ (الجوہر النقی ج:۱ص:۱۴۷)،حافظ
ابومحمد الزیلعی ؒ (م ۷۶۲ھ)
کہتے ہیں کہ ’’ ہذا فیہ نظر ،لان بقیۃ صرح فیہ
بالتحدیث ،والمدلس اذا صرح بالتحدیث ،وکان صدوقاً ،زالت تہمۃ التدلیس ،وبقیۃ من
ہذا القبیل ‘‘ (ابن الجوزی ؒ کی )یہ بات قابل غور ہے ،اس
لیے کہ بقیہ ؒ نے سماع کی صراحت کردی ہے اور مدلس راوی جب سماع کی صراحت کردے جب وہ
راوی صدوق ہو تو اس پر تدلیس کا الزام ختم ہوجائیگا اور بقیہ بن الولید ؒ اسی طرح کے
(صدوق مدلس )ہیں ۔(نصب الرایہ ج:۱ص:۴۸) معلوم ہواکہ ابن الجوزیؒ کا
اعتراض صحیح نہیں ہے ۔
[3] یاد رہے کہ امام حسن البصریؒ
کا سماع ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے ، جس کی تفصیل ص:۱۸ پر موجود
ہے لہذا یہ روایت متصل ہے ۔
[4]
امام ابو نعیم ؒ نے اس روایت کی ایک اور سند اس طرح ذکر
کی ہے کہ :
حدثنا
ابو محمد بن حیا ن ،ثنا سلم بن عصام ،عن عمہ محمد بن المغیرۃ ،ثنا الحکم عن زفر
،عن ابی حنیفۃ ،عن منصور بن زاذان قال : عن الحسن عن ابی سعید عن النبی ﷺ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روایت کے بھی روات ثقہ
ہیں ،اور حکم ؒ سے مراد ابومحمد حکم بن ایوب ؒ جن کو امام ذہبی ؒ اور امام ابو نعیم
ؒ نے فقیہ کہا ہے اوار امام ابو شیخ ؒ نے آپ
کا شمار اصبہان کے محدثین میں کیا ہے ۔(تاریخ الاسلام ج:۴ص:۱۰۹۷،طبقات المحدثین تاریخ اصبہان
ج:۱ص:۳۵۰،طبقات المحدثین ج:۲ص:۹۶) لہذا متابع کی وجہ سے یہ حدیث
اور بھی قوی و مضبوط ہوجاتی ہے۔
[5]
اگرچہ اس روایت میں بقیہ بن الولید ؒ نے سماع کی صراحت نہیں
کی ہے لیکن اس حدیث کی ایک اور سند امام دارقطنی
نے ذکر کی ہے ،جس کی سند یہ ہے :
حدثنا
بہ الحسین بن اسمعیل حدثنا محمد بن عیسی بن حنان ،نا الحسن بن قتیبۃ ،حدثنا عمر بن
قیس ،ح وحدثنا محمد بن علی بن اسمعیل ،نا سعید بن محمد الترخمی ،نا ابراہیم بن
العلاء ،نا اسمعیل بن عیاش ،عن عمر بن قیس ،عن عمرو بن عبید ،عن الحسن ،عن عمران
بن حصین قال : سمعت رسول اللہ ﷺ یقول : من ضحک فی الصلاۃ قرقرۃ فلیعد الوضوء
والصلاۃ ۔وقال الحسن بن قتیبۃ اذا قہقہہ الرجل أعاد الوضوء والصلاۃ۔(سنن
دارقطنی ج:۱ص:۳۰۲،حدیث نمبر: ۶۱۲)
غور فرمائیے!اس میں بقیہ
ؒ کے متابع میں دو دو راوی امام اسمعیل بن عیاش ؒ (م ۱۸۲ھ)[ثقہ]
اور حسن بن قتیبہ ؒ (لین) موجود ہے ۔اسی طرح الخلافیات
للبیہقی ج:۱ص:۳۷۳ پر
عبدالرحمن بن سلام ؒ (ثقہ ) بھی بقیہ کے متابعات میں موجود ہے ۔لہذا ان پر تدلیس کا
الزام اس روایت میں مردود ہے اور بقیہ ؒ اس روایت میں ثقہ ہیں ۔
[6]
یاد رہے کہ امام حسن البصری ؒ کا سماع حضرت عمران بن حصین
رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے ، دیکھئے (دوماہی مجلہ شمارہ نمبر: ۳ص:۲۷۴)
[7] اضواء المصابیح از
زبیر علی زئی : ص ۲۵۱
[8]
ذہن میں رہے کہ زبیر علی زئی کا اعتراض ’’کہ کتاب الآثار
امام ابو یوسف ؒ سے ثابت نہیں ہے ‘‘باطل ومردودہے ۔جس کی تفصیل ص:۲۵ پر موجود
ہے ۔
[9] ابن عدی ؒ کا اعتراض اور اس کا جواب :
امام ابن عدیؒ (م ۳۶۵ھ)
کہتے ہیں کہ’’ولم یقلہ احد عن معبد فی ہذا الاسنا د
الا ابوحنیفۃ ‘‘ اس سند میں امام ابوحنیفہ
ؒ کے علاوہ کسی نے معبدرضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کیا ہے ۔(الکامل ج:۴ص:۱۰۲)
حالانکہ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے ،کیونکہ دلیل نمبر:۶ کے
تحت ابن سیرین ؒ نے بھی معبدرضی اللہ عنہ کا ذکر کیا ہے ۔
[10] اعتراض :
امام
دارقطنی ؒ اور امام بیہقی ؒ کا کہنا ہے کہ معبدالجہنی صحابی نہیں ہیں اور کہا جاتا
ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے تقدیر کے بارے میں کلا م کیا تھا ۔(سنن دارقطنی ،معرفۃ
السنن والآثار ) لہذا یہ روایت مرسل ہے ۔
الجواب:
امام
ابن ابی حاتم ؒ (م ۳۲۷ھ)
اور امام ابوعمر بن عبدالبر ؒ (م ۴۶۳ھ) وغیرہ
نے صراحت کی ہے کہ معبد جہنی رضی اللہ عنہ صحابی رسول ہیں اور وہ اس معبد الجہنی کے
علاوہ ہیں جنہوں نے تقدیر کے بارے میں کلام کیا ہے ۔ابن عبدالبر ؒ نے دوسراقول نقل
کیا کہ کہاجاتا ہے کہ معبد الجہنی ہی صحابی ہیں ،جس کا رد کرتے
ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (م۸۵۲ھ)
نے لکھا ہے کہ :
قلت
:ہذا الثانی باطل ،فان القدری وافق ہذا
الصحابی فی اسم ابیہ ونسبہ ۔
(میں کہتا ہوں کہ یہ دوسراقول (کہ قدری معبدالجہنی
ہی صحابی ہیں ) باطل ہے ،کیونکہ قدری معبد الجہنی نے معبدالجہنی صحابی کے با پ اور
ان کے نسب کے ساتھ موافقت کے(یعنی دونوں کے والد کا نام اور نسب ایک ہی ہے ۔)۔( الاصابہ لابن حجر ج:۶ص:۱۳۰،الاستیعاب لابن عبدالبر ج:۳ص:۱۴۲۶) مطلب نام اور نسب ایک جیسا
ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں نے کہہ دیا کہ قدری معبد الجہنی ہی صحابی ہے ،جو کہ صحیح
نہیں ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ
قدری معبد الجہنی کے علاوہ بھی ایک صحابی رسول معبد الجہنی رضی اللہ عنہ کے نام سے
ہیں۔ لہذا یہاں پر وہ ہی مراد ہیں ۔
الغرض دارقطنی ؒ اور
بیہقی ؒ کا اعتراض صحیح نہیں ہے ۔
نوٹ : اس سے
ابن عدی ؒکا اعتراض [ کہ اس سند میں امام ابوحنیفہ ؒ کے علاوہ کسی نے معبدرضی اللہ
عنہ کا ذکر نہیں کیا ہے،دیکھئے ص: ۱۸] اور
اسی طرح غیر مقلدمحمد خبیب احمد صاحب کا اعتراض بھی [الاعتصام:ص۲۵، ۲۰۰۸،
۳۰مئی-۵ جون] باطل اور غیر صحیح
ہوتا ہے۔
مزید تفصیل لنک پر دیکھیں :
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 4
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں