ظہر کا مسنون وقت
-مفتی ابن اسماعیل المدنی
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 6
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ
’’وقت الظھر إذا زالت الشمس وکان ظل الرجل کطولہ ، مالم یحضر
العصر‘‘
ظہر کا وقت اس وقت سے ہے، جب سورج ڈھل جائے اور آدمی کا
سایہ اس کے قد کے برابر ہوجائے(اور ختم نہیں ہوتا) جب تک عصر کا وقت نہ آئے۔ (صحیح
مسلم : صفحہ ۷۷۳، حدیث نمبر ۱۳۸۸، دوسرا نسخہ: جلد۱ :صفحہ ۴۲۷، شرح معانی الآثار
: جلد۱ : صفحہ ۱۴۹، حدیث نمبر ۹۰۷، واسنادہ صحیح)
اس سے ثابت ہوا کہ ظہر کا وقت زوال کے بعد ہی شروع ہوجاتا
ہے، مگر زوال کے بعد فوراً ظہر پڑھنا نہیں ہے، بلکہ مؤخر کرکے پڑھنی ہے،
اور حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ (صل الظھر إذا کان ظلک مثلک) جب تمہارا سایہ تمہارے برابر
ہوجائے، تو ظہر کی نماز ادا کرو۔ (مؤطا امام مالک : جلد۱: صفحہ ۸، حدیث نمبر ۹،
واسنادہ صحیح) مزید جب شدید گرمی ہوتی ، تو حضور ﷺ ظہر کی نماز دیر سے
ادا فرماتے تھے ۔ (صحیح بخاری : حدیث نمبر ۵۳۸، کتاب الام : جلد۱ : صفحہ ۹۱)
ظہر کا
وقت ایک مثل کے بعد بھی رہتا ہے :
آپ
ﷺ سے ایک مثل کے بعد بھی ظہر کی نماز پڑھنا بھی ثابت ہے :
چنانچہ
ترمذی : حدیث نمبر ۱۵۸میں ہے کہ ( قال : حتی رأینا فتئ التلول ، ثم
أقام فصلی) جب حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ظہر کی نماز کیلئے اقامت کہنی چاہی، تو
آپ ﷺ نے فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دو، راوی بیان کرتے ہیں کہ (تاخیر اتنی کی کہ ) ہم
نے دیکھا کہ ٹیلوں کا سایہ ان کے برابر ہوگیا، پھر آپ ؓ نے اقامت کہی ،
اس طرح بخاری : حدیث نمبر ۵۳۹میں
بھی ہے کہ (حتی رأینا فیئ التلول) (تاخیر اتنی کی کہ) ہم نے دیکھا کہ ٹیلوں کا سایہ ان کے
مساوی ہوگیا۔
اس
حدیث کی شرح میں حافظ ابن الملقن ؒ(م ۸۰۶ھ) کہتے ہیں کہ
’’التلول : جمع تل ، وھو کل بارز
علی وجہ الأرض من تراب أو رمل ، ولا یصیر لھا فیئ عادۃ إلا بعد الزوال بکثیر ،
وأما الظل فیطلق علی ما قبلہ أیضاً ، وقد أوضحت ذلک فی ’’لغات المنھاج ‘‘ ، وظل
التلول لا یظھر إلا بعد تمکن الفیئ واستطالتہ جدا ، بخلاف الأشیاء المنتصبۃ التی
یظھر ظلھا سریعا ‘‘
تلول
، یہ تِل کی جمع ہے ، اور تل سطح ِ زمین پر مٹی یا ریت کے ابھرے ہوئے تودہ کو کہتے
ہیں ، اور عادتاً اس کا فیئ (سایہ) بہت زوال کے بعد ہی ظاہر ہوتا ہے ، اور رہا اس کا ظل (سایہ) تو اس کا
اطلاق اس سے پہلے پر بھی ہوتا ہے، لغات
المنہاج میں اس کی وضاحت کردی ہے، اور تودوں [ابھری ہوئی زمین یا ریت] کا سایہ بہت زیادہ
پھیلنے کے بعد ہی ظاہر ہوتا ہے، برخلاف
کھڑی ہوئی اشیاء کہ اس کا سایہ جلد ظاہر ہوتا ہے۔ (التوضیح لابن الملقن : ج۶ :
ص۱۵۳)
کھڑی ہوئی اشیاء [جن کو عربی میں ’ الأشیاء المرتفعۃ ‘ کہتے ہیں]اور زمین پر مٹی یا ریت کے ابھرے
ہوئے تودہ [جن کو عربی میں ’الأشیاء المنبسطۃ ‘ کہتے ہیں]کے سایہ کی تصویری شکل ملاحظہ فرمائے جس سے یہ حدیث کو سمجھنے میں آسانی
ہوگی۔
الأشیاء المرتفعۃ :
|
غور
فرمائے! کھڑی ہوئی اشیاء [الأشیاء المرتفعۃ] کے مقابلے میں زمین پر مٹی یا ریت کے ابھرے ہوئے تودہ [الأشیاء المنبسطۃ] کا سایہ بہت دیر کے بعد ظاہر ہوتا
ہے اور بہت زیادہ تاخیر کے بعد اس کا سایہ اس کے
ایک مثل کے ہوتا ہے۔(حدیث میں
بھی تودےکے سایہ کے ایک مثل ہونے کاذکر ہے)
یہی وجہ ہے کہ علامہ انور شاہ کشمیری ؒ (م ۱۳۵۳ھ ) بھی
فرماتے ہیں کہ :
’’قولہ: (حتی رأینا فیئ التلول)
وعند البخاری فی الأذان حتی ساوی الظل التلول ، وھذا یدل علی أن وقت الظھر یبقی
إلی المثلین‘‘ بخاری کتاب اذان میں موجود حدیث (حتی رأینا فیئ التلول حتی ساوی
الظل التلول ) دلالت کرتی ہے کہ ظہر وقت دو مثل
تک باقی رہتا ہے ، آگے شاہ صاحب ؒ کہتے
ہیں کہ :
’’لأن التلول فی الغالب تکون
منبطحۃ ولا تکون شاخصۃ فلا یظھر لھا ظل إلا بعد غایۃ التأخیر ، فالمساواۃ لا تکون
إلا بالمثلین ، وأقر النووی بأنہ دال علی التأخیر الشدید‘‘ اس لئے کہ تودے[ابھری ہوئی زمین یا ریت] عام طور سے پستہ قداور انچے نہیں ہوتے اور ان
کا سایہ بہت ہی تاخیر کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔لہذا اس کا سایہ ایک مثل اسی وقت ہوگا
جب کہ دوسری اشیاء کا سایہ دو مثل
کےقریب قریب ہوگا۔ امام نووی ؒ نے
بھی اقرار کیا ہے کہ تودے کا سایہ اس کے مساویہ [یعنی ایک مثل] ہونا بہت زیادہ تاخیر پر دلالت کرتاہے۔ (فیض الباری : جلد۲ : صفحہ ۱۴۵،
رقم الحدیث : ۵۳۹)
مزید عبارات :
والتلول : جمع تل بفتح المثناۃ
الفوقیۃ وتشدید الللام ، وھو کل ما اجتمع علی الأرض من تراب أو رمل أو نحو ذلک ،
وھی فی الغالب منبطحۃ غیر شاخصۃ ، فلا یظھر لھا ظل إلا إذا ذھب أکثر وقت الظھر ۔ (التحبیر لإیضاح معانی التیسیر :
۵/۱۱۴)
(حتی رأینا فیئ التلول) الفیئ رجوع الظل من جانب
المشرق إلی صائب المغرب ، وقال أھل اللغۃ : کل ماکانت علیہ الشمس فزالت فھو فیئ ،
وقیل : الفیئ لا یکون إلا بعد الزوال ، والظل یطلق علی ما قبل الزوال وما بعدہ
و’’التلول‘‘ بٖضم التاء جمع ’’تل‘‘ وھو ما اجتمع علی الأرض من تراب أو رمل أو نحو
ذلک، وھی فی الغالب منبطحۃ غیر عالیۃ ، فلا یظھر لھا ظل إلا إذا ذھب أکثر وقت
الظھر ۔ (فتح المنعم شرح مسلم لموسیٰ لاشین المصری : ۳ / ۳۱۸)
نوٹ:
ظل
اور فیئ ، اور اردو میں دونوں کا ترجمہ
سایہ سے کیا جاتا ہے، مگر عربی میں ان دونوں میں فرق ہے، ظل کا لغوی معنیٰ چھپا نے
کے ہیں ، اور اصطلاح میں ’ما نسختہ الشمس‘ یعنی وہ سایہ جو دھوپ آنے کی وجہ سے ختم ہو، اور یہ شروع دن سے دن کے اخیر
تک ہوتا ہے۔
اور فیئ کے اصل معنی رجوع اور لوٹنے کے ہیں ، اور اصطلاح میں ’ ما نسخ الشمس‘
جو دھوپ کو ختم کرے، یعنی سورج کے ڈھلنے کے بعد کسی چیز کا جو سایہ
ہوتا ہے ، اس کو فیئ کہتے ہیں ۔
فیئ کا اطلاق زوال کے بعد کے سایہ پر
ہی ہوتا ہے ، [1]اور
بخاری کی حدیث میں فیئ کا لفظ ہے۔
خلاصہ
یہ کہ آپ ﷺ نے ظہر کی نماز ایسے وقت پڑھی جبکہ ٹیلوں کا سایہ ایک مثل ہوچکا تھا ،
لہذا ان احادیث سے ظاہر ہے کہ ظہر کا وقت ایک مثل کے بعد بھی رہتا ہے۔
اعتراض :
غیر
مقلد عالم غلام مصطفیٰ امن پوری صاحب کہتے ہیں کہ اس حدیث کا تعلق سفر سے ہے نہ کہ
حضر سے۔ (السنۃ : شمار ہ نمبر ۲۰ : صفحہ ۷)
الجواب :
حالت
سفر میں بھی ہر نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا لازم ہے، اور ۲ نمازوں کو ایک ساتھ
پڑھنا جائز نہیں ، سوائے ایام حج میں مزدلفہ کی رات میں ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن
مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز کے اپنے وقت کے علاوہ کبھی
(دوسرے وقت میں ) نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ، مگر ۲ نمازیں مغرب اور عشاء مزدلفہ
میں ۔ (صحیح مسلم : صفحہ ۷۹۲، حدیث نمبر ۱۶۹۹[2]،
دوسرا نسخہ : جلد۲ : صفحہ ۹۳۸)
معلوم
ہوا کہ مزدلفہ کے علاوہ کہیں بھی ۲ نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا جائز نہیں ہے۔
تنبیہ :
جو شخص سفر میں ہو یا سخت بیمار
ہو، اس کے لئے نماز ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ شخص مثلا ظہر کی نماز کو اتنا
مؤخر کرے کہ عصر کا وقت قریب ہوجائے، اور جب عصر کا وقت قریب ہو تو ظہر کی نماز
پڑھ لے اور جب ظہر کا وقت ختم ہوجائے ، تو عصر کی نماز ادا کرلے، کیونکہ نبی ﷺ سفر
میں ایک نماز کو مؤخر اور دوسری نماز مقدم فرماتے تھے۔[3]
اس
دوسری حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ سفر
میں ایک نماز کو مؤخر اور دوسری کو مقدم فرماتے تھے، یعنی دونوں
نمازوں کو اپنے ہی وقتوں پر پڑھتے تھے اور غیر مقلدین کے نزدیک ایک حدیث
دوسری حدیث کی وضاحت کرتی ہے۔ ( نور العینین : ص ۱۲۰ ، دین الحق : ج۱: ص ۳۲۱)
لہذا یہ بخاری والی روایت (حتی رأینا فیئ التلول) میں بھی آپ ﷺنے ظہر کی نماز کو
مؤخرکرکے، ظہر کے آخری وقت میں ہی ادا
کیا تھا۔
اس
کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ آپ ﷺ نے ظہر کی نماز کو عصر کے وقت میں پڑھا ،
کیونکہ ایسا آپ ﷺ نے مزدلفہ کے علاوہ ، کہیں بھی نہیں کیا ، جیسا کہ صحیح مسلم کی
روایت گزر چکی ۔
الغرض
خلاصہ یہ کہ اس روایت میں آپ ﷺ نے ظہر کی نماز ایک مثل کے بعد پڑھی تھی، لہذا ظہر
کا وقت ایک مثل کے بعد بھی رہتا ہے۔
نوٹ :
اوپر حدیث گزر چکی کہ جب تک عصر کا وقت نہ ہوجائے ،
ظہر کا وقت باقی رہتا ہے، کئی فقہاء اور
صحابہ کا مذہب ہے کہ عصر کو مؤخر کرکے، ۲ مثل کے وقت پڑھنا چاہیے ، اور
یہ بات آپ ﷺ کی حدیث سے ثابت ہے، جس کی تفصیل ’عصر کا مسنون وقت‘ کے تحت
آرہی ہے۔
اس
لحاظ سے بھی ثابت ہوتا کہ ظہر کا وقت ایک مثل کے بعد بھی رہتا ہے۔ اور یہی راجح
اور درست ہے۔ واللہ اعلم
[1] قال ابن السکیت
(م ۲۴۴ھ) :
والظل
: ما نسختہ الشمس ، والفیئ : ما نسخ الشمس ۔ (إصلاح المنطق : ص ۲۲۸)
وقال الدینوری (م ۲۷۶ھ):
معرفۃ ما یضعہ الناس فی غیر موضعہ :
ومن ذلک : ’’ الظل والفیئ ‘‘ یذھب الناس إلی أنھما شیئ واحد
، ولیس کذلک ، لأن الظل یکون غدوۃ وعشیۃ ، ومن أول النھار إلی آخرہ ، ومعنی الظل
الستر ، ومنہ قول الناس ’’ أنا فی ظلک ‘‘ أي : فی ذراک وسترک ، ومنہ ’’ ظل الجنۃ
‘‘ ، وظل شجرھا إنما ھو سترھا ونوحیھا ، وظل اللیل : سوادہ ، لأنہ یستر کل شیئ ،
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ والفیئ لا یکون إلا بعد الزوال ، ولا یقال لما قبل الزوال فیئ ،
وإنما سمي بالعشي فینا لأنہ ظل فاء عن جانب إلی جانب ، أي : رجع عن جانب المغرب
إلی جانب المشرق ، والفیئ ھو الرجوع ، ومنہ قول اللہ عزوجل : حتی تفیئ إلی أمر
اللہ ( أي : ترجع إلی أمر اللہ ) ۔ أدب الکاتب : صفحہ ۲۱ ، ۲۶)
[2]
صحیح مسلم : ص
۷۹۲: حدیث نمبر ۱۶۹۹، دوسرا نسخہ : جلد۱ : صفحہ ۴۸۹، روایت کے الفاظ یہ
ہیں :
عن
عبد اللہ ، قال ما رأیت رسول اللہ ﷺ صلی صلاۃ إلا لمیقاتھا ، إلا صلاتین : صلاۃ
المغرب والعشاء بجمع ۔
[3]
روایت کے الفاظ یہ ہیں : عن أنس عن رسول ﷺ : أنہ کان إذا عجل بہ السیر یؤخر
الظھر إلی وقت العصر فیجمع بینھما ، ویؤخر المغرب حتی یجمع بینھما وبین العشاء حتی
یغیب الشفق ۔
( سنن نسائی : حدیث نمبر ۵۹۴، صحیح مسلم
: صفحہ ۷۸۸، حدیث نمبر ۱۶۲۵، دوسرا نسخہ : جلد۱ : صفحہ ۴۸۹، شرح معانی الآثار :
حدیث نمبر ۹۸۴)
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 6
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں