مسئلہ تین طلاق پہ مدلل و مفصل بحث
مقدمۃ الکتاب (اَز مؤلف کتاب )
ماخوذ : مجلہ راہ ہدایت شمارہ 21
اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک مجلس
میں تین طلاقیں دے چھوڑے تو وہ تین واقع ہوں گی یا ایک؟ غیرمقلدین کی رائے میں ایک
رجعی طلاق واقع ہوتی ہے۔عدت کے دَوران رجوع کا حق ہوتا ہے اورعدت کے بعد نئے نکاح
سے دونوں شوہر و بیوی بن سکتے ہیں۔ جب کہ ان کے بالمقابل اہل السنت والجماعت
کانظریہ ہے کہ ایسی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں جس سے شوہر و بیوی کا تعلق
بالکیہ ختم ہوجاتا ہے۔اس کے بعد نہ تو رجوع کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ نئے نکاح سے
دوبارہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ عورت قرآنی آیت: ’’ حَتّٰی
تَنْکِحَ زَوْجًاغَیْرَہ،یہاں تک کہ اس کے علاوہ کسی خاوند سے نکاح کر لے ‘‘ پہ عمل
پیر ا ہو جائے ۔
اسلام کی ابتدائی سات صدیوں کا
اجماع
صحابہ کرام کے زمانہ سے لے کر سات
صدیوں تک تین طلاقوں کو تین ہی سمجھا جاتا رہا۔ غیرمقلدین کے حلقہ میں ’’بیہقی
وقت‘‘ کا لقب پانے والے عالم مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ صحابہ و تابعین و تبع تابعین سے لے کر سات سو سال تک سلف
صالحین صحابہ و تابعین و محدثین سے تو تین طلاق کا ایک مجلس میں واحد شمار ہونا تو
ثابت نہیں۔‘‘
( فتاوی ثنائیہ
:۲؍۲۱۷، ناشر:اسلامک پبلشنگ لاہور )
ایک مجلس کی تین طلاقوں کے تین ہونے
پہ اجماع کا دعویٰ صرف مولانا شرف الدین دہلوی ہی کا نہیں بلکہ ہر صدی کے کئی
بزرگوں اور محدثین وفقہاء نے بھی یہی بات بیان کی ہے۔ (حوالہ جات کتاب میں موجود
ہیں۔)زمانہ حاضر کے کئی غیرمقلدین نے بھی تسلیم کیا کہ دَور ِصحابہ میں اور بعد کے
اَدوار میں تین طلاقوں کے تین ہونے پر امت کا اجماع رہا ہے۔نہایت قابلِ افسوس بات
یہ ہے کہ ان میں سے بعض تین طلاقوں کے تین ہونے کو اجماعی مسئلہ مان کربھی مخالف
پہلو کو سینہ سے لگائے ہوئے ہیں اور کھلے لفظوں میں لکھ دیا کہ اجماع کی اتباع
ضروری نہیں۔
چنانچہ
پروفیسر قاضی مقبول احمد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اجماع صحابہ بعض معاملات میں حجت نہیں ہے ایسا اجماع
وقتی قانون کی وجہ سے تھا مثلا...حضرت عمر ؓنے اُمِّ ولد لونڈی کی بیع کی ممانعت
کر دی۔تین طلاقوں کو نافذ کر دیا ۔‘‘
(اسلام اور
اجتہاد صفحہ ۴۸ ،مکتبہ قدوسیہ لاہور )
مولانا
محمد حنیف ندوی غیرمقلد نے ’’ کیا اجماع کی مخالفت صحیح اور صحت مندہو سکتی ہے ؟‘‘
عنوان قائم کرکے تاثر دیا کہ اجماع کی مخالفت صحیح اور صحت مند ہو سکتی ہے۔پھر
بزعم ِخود محاکمہ کرتے ہوئے مسئلہ تین طلاق کو پیش کرکے آخر میں لکھا:
’’ حق ابن تیمیہ ؒ کے ساتھ ہے اور اجماع ان بزرگوں کے ساتھ
۔‘‘
(مسئلہ اجتہاد صفحہ ۱۰۵، ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور،
دوسرا ایڈیشن: ۱۹۶۱ء )
یہ صرف اپنے مسلک کو تقویت دینے کے
لیے کہہ دیا کہ حق اجماع والوں کے پاس نہیں۔حالاں کہ قرآن و حدیث کی رُو سے حق
اجماع والوں کے پاس ہوتا ہے، نہ کہ مخالف ِاجماع افراد کے پاس۔ حافظ زبیر علی زئی
غیرمقلدنے امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ سے یوں نقل کیا:
’’ روایت سے زیادہ اجماع سے حق
ثابت ہوتا ہے ۔ ‘‘
( علمی مقالات :۵؍۹۶، مکتبہ اسلامیہ، اشاعتِ اول :۲۰۱۲ء
)
اس مسئلہ کے اجماعی ہونے کی مزید
تفصیل کتاب میں ملاحظہ کر سکیں گے ان شاء اللہ۔وہاں محدثین کے ایسے حوالے بھی
منقول ہیں جن میں کہاگیا کہ شاذ اقوال اجماع کو نہیں توڑ سکتے۔
ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کا مسلک
فقہائے کرام میں ائمہ اربعہ : امام
ابوحنیفہ رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ،امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن
حنبل رحمہم اللہ کا بہت زیادہ مقام ہے، اُمت میں انہیں بہت زیادہ مقبولیت ملی۔ جو
مسئلہ ان چاروں کے اتفاق سے ثابت ہو جائے اسے بہت وزنی سمجھا جاتا ہے۔رئیس محمد
ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ عام مقلدین نے داود ظاہری کو ائمہ متبوعین میں شمار
کررکھا ہے جس کا مطلب ہے کہ کسی بھی مسئلہ میں ان کی رائے و موقف کا ایک وزن عام
مقلدین کو بھی تسلیم ہے۔ ‘‘
( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق
صفحہ ۲۹۲،مکتبہ محمدیہ چیچہ وطنی ،طبع اول ، سن اشاعت اپریل ؍ ۲۰۰۶ )
جب ایک امام متبوع کا اختیار کردہ
مسئلہ وزنی ہے تو ائمہ اربعہ کا اتفاقی مسئلہ تو چار گنا زیادہ وزنی ہوگا۔ بلکہ اس
سے کچھ مزید بھی، کیوں کہ داؤد ظاہری امام متبوع ہونے کے حوالہ سے ائمہ اربعہ میں
سے ہر امام سے کم ہیں۔ موصوف کے پیرو کار
تعداد میں کم رہے اور زمانہ کے اعتبار سے بھی کم تھے کہ ایک مدت تک ان کی اتباع
ہوئی،پھر ختم ہوگئی ۔تدوین مذہب میں بھی انہیں ائمہ اربعہ جیسا مقام حاصل نہیں ہوا
کہ جس طرح ان حضرات کے مذاہب کتابوں میں مدوّن ہیں ، اسی طرح موصوف مذکور کا بھی
مذہب مدون ہواہو۔
بہرحال
ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ائمہ اربعہ بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین مانتے
ہیں۔اور یہ بات مخالفین کو بھی تسلیم ہے۔حوالہ جات کتاب کے باب: ۴، ائمہ اربعہ کا
مسلک ‘‘ میں موجود ہیں۔
غیرمقلدین مسئلہ تین طلاق میں ائمہ اربعہ رحمہم
اللہ کے موقف سے بھی کنارہ کش ہیں ۔ جب کہ ان کا یہ دعوی بھی ہے کہ ائمہ اربعہ
قرآن وحدیث ہی کی پیروی کیا کرتے تھے۔مزید یہ کہ وہ ان سب کو خاص کر آخری تین
اماموں:مالک، شافعی اور احمد کو تو اہلِ حدیث بھی باور کرایا کرتے ہیں۔اوربوقت
ضرورت ائمہ اربعہ کے پیرو ہونے کابھی دعوی کردیتے ہیں۔
چنانچہ حافظ
احسن شفیق صدیقی غیرمقلد (ساہیوال ) نے لکھا:
’’ اہلِ حدیث صحابہ ، تابعین و ائمہ اربعہ کے نقش ِ قدم پر
چلتے ہیں۔ ‘‘
( مجلہ تفہیم الاسلام احمد پور شرقیہ صفحہ ۲۲، اپریل ؍ ۲۰۱۹ء)
جب کہ مسئلہ تین طلاق میں مدعیان اہلِ
حدیث نہ صحابہ کی راہ پہ ہیں، نہ تابعین کی اور نہ ہی ائمہ اربعہ کی۔مولانا شرف
الدین دہلوی غیرمقلد کا حوالہ پہلے منقول ہو چکا کہ اسلام کی پہلی سات صدیوں میں
تین طلاقوں کو تین ہی سمجھا جاتا رہا۔انہی سات میں صحابہ کرام وائمہ اربعہ کادَور
ہے اور خیر القرون کا زمانہ بھی انہی سات صدیوں میں شامل ہے جس کے خیر ہونے کی
تصریح حدیث ِ نبوی میں مذکور ہوئی ۔
مذاہب اربعہ کامسلک
ائمہ
اربعہ رحمہم اللہ کی اتباع کرنے والے چار مذاہب:حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی
ہیں۔ان میں کیسے کیسے ارباب کمال اور اصحاب ِعلم ،فضل وتقوی ہیں؟یہ آپ
غیرمقلدلکھاری کی زبانی کی سنئے :
’’ ائمہ اربعہ کے متبعین میں بڑے بڑے اصحاب جبہ و دستار اور
ارباب کمال و صاحبان علم و تقویٰ موجود تھے جن کی خدمت ملی کے سامنے آنکھیں جھکتی
اور سرنگوں ہوئی تھیں اور جن کے رعب و طنطنہ کے سامنے اوروں کے قد بونے معلوم ہوتے
تھے۔ ‘‘
( شرف اصحاب الحدیث کا اردو
ترجمہ فضائل اصحاب الحدیث : تسھیل و ترتیب : مولانا عبد اللہ سلیم اے، تحقیق و
تخریج : مولانا غلام مصطفی ظہیر امن پوری صفحہ ۲۳، طبع مکتبہ ثنائیہ سرگودھا )
یہ بھی جان لیں کہ حدیث کی عظمت و
حرمت کی بابت ان کا کیا نظریہ ہے ۔ مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ معزز ناظرین! آپ حضرات نے اس طول طویل بحث اور پاکیزہ
خیالات علماء سے یہ نتیجہ ضرور اخذ کیا ہوگا کہ حدیث نبوی کی عزت و حرمت جیسے اہلِ
حدیث کے نزدیک ہے،ویسے ہی مذاہب ِ اربعہ مروجہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی وغیرہ
میں بھی ہے۔ ‘‘
( خاتمہ اختلاف
صفحہ ۱۰۳ )
کھنڈیلوی
صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ تمام مقلدین ِ مذاہب اربعہ اپنے اپنے مسائل کے دلائل ان
ہی کتب ِ حدیث معتبرہ صحاح ستہ وغیرہ سے اخذ کرتے ہیں اور ان ہی کتبِ حدیث کا درس
دیتے ہیں اوربعد فراغ فضیلت کی پگڑی زیب سر کرتے ہیں۔ ‘‘
(خاتمہ اختلاف صفحہ ۹۱ )
ایک اور حوالہ بھی پڑھ لیں، وہ اگرچہ
اہلِ مذاہب اربعہ کی بابت نہیں بلکہ صرف احناف دیوبند کی خدمات حدیث پر مشتمل ہے
مگر یقینا دلچسپی سے خالی نہیں ۔ کھنڈیلوی صاحب لکھتے ہیں:
’’ دار الحدیث دیوبند میں ہمارے علماء احناف ان کتب ِ صحاح
ستہ کو پڑھتے اور پڑھاتے ہیں اور اپنے فتاووں میں ان سے استدلال کرتے ہیں پس کہاں
ہیں وہ حنفی بھائی جو اِن کتب صحاح ستہ کو اہلِ حدیث و شافعیہ کی کتابیں بتلاتے
ہیں، حالاں کہ ان کتابوں کو عرب سے لانے والے اور چھپوانے والے یہی علمائے احناف
ہیں ۔ ‘‘
(خاتمہ اختلاف
صفحہ ۹۸ )
ٍ اتنی گزارش کے بعد عرض ہے کہ یہ چاروں
اہل ِ مذاہب بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کوتین جانتے ہیں۔ غیرمقلدین نے ان مذاہب
سے بھی الگ راہ اختیار کی ۔حکیم اشرف سندھو غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ مسلک اہلِ حدیث کے مسائل میں صرف دوایک ہی ایسے مسئلے
ہیں جوکہ ... مذاہب اربعہ کے مسائل سے مختلف ہیں مثلاً مدرک رکوع کو دوبارہ رکعت
پڑھنا اور ایک وقت کی تین طلاق کو صرف ایک طلاق ماننا ۔ ‘‘
( تاریخ التقلید صفحہ ۱۶۰)
یہاں خواجہ
محمد قاسم غیرمقلد کی عبارت بھی پڑھتے چلیں :
’’ بحمد اللہ ائمہ ثلاثہ کے
ماننے والے اہلِ علم کے نزدیک اہل سنت یعنی اہلِ حدیث ہی ہیں۔ ‘‘
( معرکہ حق و باطل صفحہ ۰۳ا، مکتبۃ الحرمین ماڈل ٹاؤن
گوجرانوالہ )
خواجہ صاحب ائمہ ثلاثہ کے متبعین :
مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کو ’’ اہلِ حدیث ‘‘ بتا رہے ہیں ۔ عرض ہے کہ خواجہ صاحب
جنہیں اہلِ حدیث ظاہرکررہے ہیں وہ تین طلاقوں کو تین ہی مانتے ہیں۔
سلف صالحین کا مسلک
غیرمقلدین خود کو سلفی بھی کہلواتے
ہیں جس کامطلب ان کے بقول یہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن و حدیث کو سلف صالحین کی فہم کے
مطابق سمجھنے کے قائل اور عامل ہیں۔شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے تو یہاں تک کہہ
دیا ہے کہ فہمِ سلف کے بغیر حدیثوں کو سمجھیں گے تو گمراہی کی کھائیوں میں جا گریں
گے۔
چنانچہ وہ
لکھتے ہیں:
’’تمام صحیح و ثابت روا یات کو جمع کرکے ان کا مفہوم سلف
صالحین کے فہم کی روشنی میں سمجھنا چاہیے ورنہ گمراہی کی گہری کھائیوں میں جا گریں
گے ۔ ‘‘
(ماہ نامہ الحدیث حضروشمارہ: ۴۵
صفحہ ۴۳بحوالہ اشاعۃ الحدیث ، اشاعت ِ خاص حافظ زبیر علی زئی صفحہ۳۷۳)
علی زئی صاحب نے حافظ عبد اللہ روپڑی غیرمقلد کی
بات اپنی تائید میں نقل کی :
’’ خلاصہ یہ ہے کہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ کہ سلف
کا خلاف جائز نہیں ۔ ‘‘
(اشاعۃ الحدیث حضرو، اشاعت خاص بیاد حافظ زبیر علی زئی
صفحہ ۳۷۵، طبع مکتبہ اسلامیہ )
علی زئی صاحب
نے یوں بھی لکھا:
’’
سلف صالحین کے فہم کے مقابلے میں ذاتی انفرادی فہم کو دیوار پر دے مارنا چاہیے ۔‘‘
(ماہ نامہ
الحدیث ،شمارہ نمبر ۴۲ ، صفحہ ۱۱)
مذکورہ حوالہ’’ اشاعۃ الحدیث حضرو، اشاعت خاص
بیاد حافظ زبیر علی زئی صفحہ۳۸۶، طبع مکتبہ اسلامیہ ‘‘میں منقول ہے ۔
شیخ البانی
غیرمقلد اپنے اک خطاب میں کہتے ہیں:
’’ آج کل محض یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ ہم صرف قرآن وسنت
پرعمل پیرا ہیں اور اس کی طرف دعوت دیتے ہیں ۔بلکہ فہم سلف صالحین کی طرف رجوع
کرنا ہی اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ مسلمان اس طرح سے گمراہ نہ ہوں جس طرح سلف
صالحین کے بعد آنے والے مسلمان گمراہ ہوئے۔ ‘‘
(سلفی منہج صفحہ
۲۹، مترجم طارق علی بروہی ، ناشر: مکتبہ احیاء منہج السلف کراچی )
ہم
نے اپنی اس کتاب میں ایک مستقل باب’’ سلف صالحین کا مسلک ‘‘ قائم کیا ہے کہ اسلاف
بھی تین طلاقوں کو تین ہی سمجھتے ہیں۔مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد نے تو اسلام
کی ابتدائی سات صدیوں کے اسلاف کو تین طلاقوں کے وقوع کا قائل بتایا ہے۔
( فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۲۱۹ ،ناشر: اسلامک پبلشنگ
لاہور )
چوں کہ غیرمقلدین سلفی ہونے کے دعوے
دار ہیں،اس لئے انہیں مسئلہ تین طلاق میں بھی فہم ِ اسلاف کی پیروی کرنی چاہیے
،ورنہ ان کی سلفیت پہ سوالیہ نشان ہوگا۔
شیخ
غلام مصطفی ظہیر امن پوری غیرمقلد نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مجھے کوئی ایک ہزار
آیات بینات پیش کر دے اور مسئلہ اُن سے واضح طور پر سمجھ بھی آتا ہو مگر اسلاف نے
وہ مسئلہ ان سے نہ سمجھا ہویا اس کے برعکس سمجھا ہو،تو میں کہوں گا کہ قرآن تو
برحق ہے مگر میں سلف صالحین کے فہم کا پابند ہوں۔
امن پوری صاحب کایہ بیان عام ہو
چکا،واٹس ایپ گروپس میں بھی مل جاتا ہے۔ امن پوری صاحب فہم سلف کواس قدر ترجیح
دینے کے دعوے دار ہیں کہ اُن کے مقابلہ میں قرآن کی ہزار واضح آیتوں کو بھی چھوڑنے
کے پابند ہیں تو اُن سے گزارش ہے کہ وہ مسئلہ تین طلاق کو بھی فہمِ اسلاف کے مطابق
حل کرکے شائع کریں ۔
حافظ عمر صدیق غیرمقلد کا شیخ غلام
مصطفی ظہیر امن پوری غیرمقلد سے مناظرہ ہو۔یہ مناظرہ نیٹ پہ موجود ہے۔اس میں امن
پوری صاحب نے دعوی کیا کہ یزید کی مذمت میں پیش کی جانے والی روایات میں کوئی بھی
صحیح وثابت نہیں۔ تب عمر صدیق نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا:
آپ نے ساری زندگی فہم سلف کے نام کا چورن بیچا ہے، فہم
اسلاف کے مطابق زیر بحث مسئلہ کو حل کریں ۔ (مفہوم )
عمر صدیق اور امن پوری دونوں سے ہم کہتے ہیں کہ
مسئلہ تین طلاق کو بھی فہم سلف کی روشنی میں امت کے سامنے پیش کریں۔
بہت ممکن ہے کہ کوئی غیرمقلد اپنے
مولویوں کا یاد کرایا ہوا جواب پیش کردے کہ ہم قرآن وحدیث کے مقابلہ میں کسی کی
بات ماننے کے پابند نہیں۔ اور یہ محض امکان ہی نہیں،بلکہ مسئلہ تین طلاق کی بحث
میں اس طرح کی بات اُن کی کتابوں میں مل جاتی ہے ،جیسا کہ آگے شیخ یحی عارفی کا
حوالہ مذکور ہوگا ان شاء اللہ ۔ سردست شاہد نذیر غیرمقلد (کراچی ) کا حوالہ ملاحظہ
ہو۔وہ لکھتے ہیں:
’’اہلِ حدیث کے نزدیک قرآن و حدیث کے مقابلے میں ہر شخص کی
بات مردود ہے ۔ اہلِ حدیث کے اس بنیادی اصول کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے
نئے نئے مسلک اہلِ حدیث سے جڑنے والے حضرات کے ساتھ عموماً یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ
قرآن وحدیث کو بذریعہ سلف صالحین سمجھنے کے بجائے اپنی عقل سے سمجھنے کی کوشش کرتے
ہیں اور جب ان کی عقل اور سلف صالحین کے فہم کا آپس میں ٹکراؤ ہو جائے تواہلِ حدیث
کے اس (مذکورہ ) بنیادی اصول کا حوالہ دے کر فہم سلف کو ٹھکرا دیتے ہیں ۔ ایسے
نوزائیدہ اہلِ حدیث کی تربیت کے لئے حافظ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ کثرت سے
اپنی تحریروں میں یہ بات لکھتے تھے کہ اہلِ حدیث کا منہج شریعت کو سلف صالحین کے
فہم کے ذریعے سمجھنا ہے ناکہ اپنی ذاتی عقل و فہم سے۔ جیسا کہ لکھتے ہیں : ’ ’
کتاب و سنت کا وہی مفہوم معتبر ہے جو راسخ فی العلم علماء یعنی ثقہ و صدوق سلف
صالحین سے ثابت ہے۔ ‘‘ (ماہ نامہ الحدیث ، شمارہ نمبر۵۱، صفحہ ۱۱)
اور فرماتے ہیں :
’’ سلف صالحین کے فہم کے مقابلے
میں ذاتی انفرادی فہم کو دیوار پر دے مارنا چاہیے ۔ (ماہ نامہ الحدیث ،شمارہ نمبر
۴۲ ، صفحہ ۱۱) ‘‘
( اشاعۃ الحدیث حضرو، اشاعت خاص بیاد حافظ زبیر
علی زئی صفحہ۳۸۶، طبع مکتبہ اسلامیہ )
شاہد نذیرصاحب کہہ رہے ہیں جو اَسلاف کو قرآن
وحدیث کا مخالف بتائیں وہ’’ نوزائیدہ‘‘ ہیں۔عرض ہے کہ مسئلہ تین طلاق پر لکھی گئی
غیرمقلدین کی تحریریں پڑھ لیں آپ کو اس طرح کے بہت سے ’’ نوزائیدہ ‘ ‘مل جائیں گے
۔ فی الوقت ایک حوالہ پیش خدمت ہے ۔
شیخ یحی
عارفی غیرمقلد نے مسئلہ تین طلاق کی بحث میں کسی کا سوال نقل کیا:
’’جتنے ائمہ گزرے کیا وہ سب کے سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے فرمان کے خلاف فتوے دیتے رہے اور حدیث صرف آپ کو سمجھ آئی ہے ؟‘‘
عارفی صاحب
نے اس سوال کا یوں جواب دیا:
’’ ہم ائمہ دین کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں لیکن قرآن
مجید نے امت مسلمہ کو ایک اصول بتلایا﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ
شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ﴾جس کا فتوی کتاب و سنت کے
موافق سر آنکھوں پر وگرنہ ناقابل قبول ۔‘‘
(تحفہ ٔ احناف
صفحہ ۱۱۱)
تنبیہ:۱…… قرآن میں ’’ فَرُدُّوْہُ
اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘ کی بجائے ’’ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ
وَالرَّسُوْلِ ‘‘ہے ۔
تنبیہ: ۲……مذکورہ بالا آیت میں خطاب
مجتہدین کو ہے جیسا کہ غیرمقلدین کے ’’ خاتم المحدثین ‘‘ نواب صدیق حسن نے کہا ہے
۔( تفسیر فتح البیان :۲؍۳۰۸ ، بحوالہ تقلید کی شرعی حیثیت صفحہ ۱۸ ، تالیف حضرت
مولانامفتی محمد تقی عثمانی دام ظلہ،مکتبہ دار العلوم کراچی ،طبع جدید نومبر؍۲۰۰۴ء
)
عارفی صاحب! سائل کا سوال یہ نہیں تھا
کہ کسی کی بات قرآن وحدیث کے خلاف ہو تو ترجیح کس کو ہے؟ بلکہ سوال یہ ہے ائمہ سَلَف نے قرآن و حدیث سے تین طلاقوں کا تین ہونا سمجھا جب کہ
آپ لوگوں کا دعٰوی ہے کہ قرآن وحدیث میں تین طلاقوں کاایک ہونا مذکور ہے۔یہاں
تقابل ائمہ سلف کے فہم اورغیرمقلدین کی رائے کا ہے تو ترجیح ائمہ اسلاف کے فہم کو
ہونی چاہیے یا غیرمقلدین کی رائے کو ؟ آپ کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے تھا مگر
آپ اس سوال کے جواب سے لا جواب ہو ئے تو گلو خلاصی کرتے ہوئے کسی اور طرف چلے گئے۔
مزید یہ کہ آگے شیخ زبیر علی زئی اور
شاہد نذیر غیرمقلد کاحوالہ آ رہاہے کہ کس کی بات قرآن و حدیث کے خلاف ہے اور کس کی
نہیں؟ یہ فیصلہ بھی اَسلاف نے کرنا ہے۔لہذا آپ خود سے فیصلہ کرنے کی بجائے اَسلاف
کا فیصلہ پیش کریں کہ انہوں نے تین طلاقوں کے تین ہونے کو قرآن و حدیث کے خلاف
قرار دیا ہو۔یاد رہے کہ یہاں دو باتیں الگ الگ ہیں۔ایک :اکٹھی تین طلاقیں دینے کا
مسئلہ اور دوسرا: اُن کے واقع ہوجانے کا نظریہ۔ ہمارا مطالبہ دوسرے جملہ کی بابت
ہے کہ اسلاف نے تین طلاقوں کے واقع ہونے کو کتاب و سنت کے خلاف بتایا ہو،اس کا
ثبوت چاہیے۔لہٰذا خلط ِ مبحث کرتے ہوئے پہلے امر کی ممانعت پہ اسلاف کے حوالے پیش
کرنے کی ضرورت نہیں ۔
محدثین کرام کامسلک
فقہاء کرام کی طرح محدثین عظام نے بھی ایک مجلس
کی تین طلاقوں کو تین ہی تسلیم کیا۔ مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ محدثین کی طرف مجلس ِواحد میں تین طلاق کو ایک شمار کرنے
کی نسبت میں بھی کلام ہے، یہ سخت مظالعہ ہے ۔ ‘‘
( فتاوی ثنائیہ
:۲؍۲۱۷، ناشر:اسلامک پبلشنگ لاہور )
پچھلی
صدیوں میں محدثین کے لیے اہلِ حدیث کا لفظ بولا اورلکھاجاتا رہا ۔ انگریز سے اہلِ
حدیث کا لقب الاٹ کرانے والے غیرمقلدین نے متقدمین کی کتابوں میں موجود لفظ اہلِ
حدیث کو خود پر چسپاں کر لیا۔لیکن ان محدثین نے مسئلہ تین طلاق کی بابت جوموقف
اپنایا اس سے گریزاں ہیں۔جب کہ غیرمقلدین کا یہ دعوی بھی ہے کہ حدیث کا مفہوم سب سے زیادہ محدثین ہی جانتے ہیں لیکن مسئلہ
تین طلاق میں اپنے اس دعوی و نظریہ پر عمل پیرا نہیں، محدثین کے فہم پہ اپنی رائے
کو ترجیح دیتے ہیں۔ پھر مزید یہ کہ بعض نے تومحدثین سے براء ت کا اعلان بھی کر دیا
۔چنانچہ خواجہ محمد قاسم غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ہم لوگ اہلِ حدیث یا دوسرے لفظوں میں اہلِ سنت ہیں۔اہل ِ
محدثین یااہل ِسنیین نہیں۔‘‘
( تین طلاقیں
ایک وقت میں ایک ہوتی ہے صفحہ ۶۱)
اس کتاب کا ’’پیش ِ لفظ ‘ ‘مولانا
محمد اسماعیل سلفی(سابق امیر جمعیت اہلِ حدیث پاکستان ) نے لکھا۔ اُن کی تحریر کے
آخر میں تاریخ ۱۸؍مارچ ۱۹۶۴ء درج ہے ۔
خواجہ صاحب نے واضح لفظوں میں کہہ دیا
کہ ہم محدثین اور سنیوں والے نہیں ہیں۔ غیرمقلدین جب محدثین اور سنیوں والے نہیں
تو پھر انہیں اس مسئلہ میں طبقات امت میں سے کس طبقہ کی معیت حاصل ہے ، شیعوں اور
مرزائیوں کی یا کس کی ؟
غیرمقلدین عموماً محدثین کواپنا ہم مسلک؍ مذہبی
اہلِ حدیث کہتے ہیں اس لئے انہیں چاہیے کہ جب مسئلہ تین طلاق کی بابت اہلِ حدیث کا
موقف تحریر کریں تو محدثین کو بھی اپنے اصول کے مطابق اہلِ حدیث کے طور پیش
کریں،پھربتائیں کہ اہلِ حدیث کا اس مسئلہ میں کیاموقف ہے؟ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ
مسئلہ تین طلاق میں وہ اہلِ حدیث کا موقف بیان کرتے ہوئے وہی نظریہ لکھتے ہیں جو
انگریز سے اہلِ حدیث نام لینے والوں کا ہے ۔ اہلِ حدیث کے اصلی مصداق محدثین کے
مسلک کو اہلِ حدیث کا نظریہ باور نہیں کراتے۔ دیکھئے اوپر حکیم اشرف سندھو کی بات
منقول ہے کہ مسلک اہلِ حدیث کے مسائل میں تین کو ایک کہنا مذاہب اربعہ کے خلاف
ہے۔سندھو صاحب نے اس جگہ مسئلہ تین طلاق کی بابت جن اہلِ حدیث کا مسلک لکھا وہ
انگریز سے اہلِ حدیث کا لقب پانے والے غیرمقلدین ہیں ، نہ کہ اہلِ حدیث کاا صلی
مصداق محدثین۔ آگے مولاناعبداللہ روپڑی غیرمقلد کا حوالہ آرہا ہے۔انہوں نے بھی
مسئلہ تین طلاق کی بابت اہل حدیث کا مسلک تحریر کیا وہ بھی انگریزسے اہلِ حدیث نام
لینے والوں کا ہے، اہلِ حدیث کے حقیقی مصداق محدثین کا نہیں۔
جناب مقتدیٰ
حسن ازہری غیر مقلد ( جامعہ سلفیہ بنارس )
لکھتے ہیں:
’’ بحث کا دوسرا پہلو
فقہ کے ایک جزئی مسئلہ سے متعلق تھا، یعنی ایک مجلس کی تین
طلاقیں تین شمار ہوں گی یا ایک؟ علماء اہلِ
حدیث و علماء احناف اس مسئلہ میں بحث کے دو فریق تھے۔اول الذکر حدیث ِ نبوی کی
بنیاد پر ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک مانتے تھے، جب کہ مؤخر الذِکر علماء اپنے
فقہی مذہب کی رعایت میں اسے تین کا حکم دیتے تھے ۔‘‘
( عرض ِ ناشر:
تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۱۲)
ازہری صاحب نے بھی اس جگہ غیرمقلدین
کی رائے کو اہلِ حدیث مسلک کے طور پہ لکھا ، نہ کہ محدثین کے موقف کو ۔
ازہری صاحب کا یہ محض دعوی ہی ہے کہ
ایک مجلس کی تین طلاقوں کا ایک ہونا حدیث میں مذکور ہے ورنہ حقیقت اس کے برعکس ہے
جیسا کہ قارئین کرام کتاب پڑھ کر جان لیں گے ان شاء اللہ ۔
ازہری صاحب کہتے ہیں کہ احناف کا تین
طلاقوں کو تین ماننا محض فقہی مذہب کی رعایت میں ہے ۔ ہم یہاں طویل بحث نہیں کرنا
چاہتے ، مختصرً ا عرض ہے کہ تین طلاقوں کا تین ہونامحض کسی فقہی مذہب کا قیاسی
مسئلہ نہیں بلکہ یہ دلائل سے مبرہن و مزین موقف ہے۔یہاں ہمارا یہ سوال بھی بجا ہے
کہ محدثین اور اسلاف تین کو تین مانتے ہیں کیا وہ بھی محض اپنے فقہی مذہب کی پاس
دار ی میں مانتے ہیں؟ جب کہ آپ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ محدثین اور اسلاف کسی فقہی
مذہب کی تقلید کے پابند نہیں۔
رئیس محمد ندوی غیرمقلد نے محمد بن
مقاتل کی بابت لکھاکہ وہ تین طلاقوں کو ایک مانتے ہیں پھران کے متعلق یوں حسن ِظن
پیش کیا:
’’ انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ عام فقہاء اہل الرائے و
جمہور محدثین و ائمہ کرام ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین مانتے ہیں۔اس کے باوجود
موصوف نے جمہور کی رائے کے خلاف موقف اہلِ حدیث اختیار کیا۔ ظاہر ہے کہ موصوف نے
اس مسئلہ میں پوری تحقیق اور چھان بین سے کام لیا ہوگا کہ کہیں یہ مسئلہ اجماع اور
نصوص صریح کے خلاف تو نہیں ہے۔ یہ اطمینان کر لینے کے بعد ہی موصوف محمد بن مقاتل
نے یہ موقف اختیار کیا ہوگا۔ ‘‘
( تنویر الآفاق
فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۲۸۷)
دیکھئے! ندوی صاحب نے بھی مسئلہ تین
طلاق کے بیان میں غیرمقلدین کو اہلِ حدیث کے نام سے پیش کیا اور محدثین کا مسلک
اہلِ حدیث کے طور پہ نہیں لکھابلکہ انہیں اہلِ حدیث کے مد مقابل ٹھہرایا، جب کہ
اہلِ حدیث کا اصلی و حقیقی مصداق محدثین ہی ہیں ۔ ہاں ان کی عبارت میں یہ اعتراف
ضرور ہے کہ غیرمقلدین کا مسلک محدثین کے خلاف ہے۔
یہاں رئیس ندوی کے حسن ِ ظن پہ بھی
غورکیجئے۔ انہوں نے محمد بن مقاتل کی بابت کہا کہ انہوں نے مسئلہ تین طلاق کو ایک
قرار دینے میں پوری تحقیق اور چھان بین سے کام لیا ہوگا کہ کہیں یہ مسئلہ اجماع
اور نصوص صریحہ کے خلاف تو نہیں ۔
کیا غیرمقلدین اسی حُسنِ ظن کو تین
طلاقوں کو تین قرار دینے والے محدثین کرام کے متعلق عوام کی خدمت میں پیش کر سکتے
ہیں کہ انہوں نے پوری تحقیق اور چھان بین سے کام لیا ہوگا کہ کہیں یہ مسئلہ اجماع
اور نصوص صریحہ کے خلاف تو نہیں ،اس کے بعد ہی یہ مسلک اختیار کیا ہوگا۔
ویسے معقول بات ہے جب ایک فرد کی بابت
یہ حُسنِ ظن قائم کیا جا سکتا ہے تو سب محدثین یا جمہور محدثین کے متعلق بطریقِ
اولٰی ہونا چاہیے ،خاص کر جب غیرمقلدین کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ محدثین قرآن وحدیث
کے پیرو ہیں۔ اس کے بالمقابل محمد بن مقاتل کو ندوی صاحب نے تنویر الآفاق فی مسئلۃ
الطلاق صفحہ ۲۸۶ پہ اہل الرائے بتایا ہے ۔ اور غیرمقلدین بالخصوص ندوی صاحب کا
دعوی ہے کہ اہل الرائے قرآن و حدیث کے خلاف رائے کی پیروی کیا کرتے ہیں۔ رئیس محمد
ندوی کی کتابیں: ’’سلفی تحقیقی جائزہ ... اور ـــ... اللمحات ‘‘دیکھئے !
مگر آہ ! یہاں ضرورت تھی تو اپنے مزعوم اہل
الرائے کے ایک فرد کا جمہور محدثین سے تقابل کرکے محدثین کے مقابلہ میں مزعوم اہل
الرائے کو حسنِ ظن سے نوازا ۔ اور جمہور محدثین کے مقابلہ میں ایک شخص کے متعلق
حسنِ ظن پیش کیا کہ:
’’ موصوف نے اس مسئلہ میں پوری تحقیق اور چھان بین سے کام
لیا ہوگا کہ کہیں یہ مسئلہ اجماع اور نصوص صریح کے خلاف تو نہیں ہے۔‘‘
یہیں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ندوی
صاحب اپنی بات کومزین وپختہ باور کرانے کے
لیے کس طرح پاپڑ بیل رہے ہیں اور کس طرح اصول شکنی کے مرتکب ہیں؟
تنبیہ:
محمد بن مقاتل کے متعلق تین طلاقوں کے ایک ہونے کی نسبت کی حقیقت اوران کی
بابت غیرمقلدین کی دیگر باتوں پہ بحث ہماری اسی کتاب کے باب: ۱۳ ، افرادِامت سے ہم
نوائی کے دعوے کی حقیقت ‘‘ میں دیکھئے ۔
اصلی اہلِ حدیث یعنی محدثین کے موقف
کی بابت یہاں امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کی عبارت بھی ملاحظہ فرما لیں۔وہ تین
طلاقوں کے واقع ہو نے کا مسئلہ لکھ کر کہتے ہیں:
’’ وَعَلٰی ھٰذَا جَمَاعَۃُ
الْعُلِمَاءِ وَالْفُقَھَاءِ بِالْحِازِ وَالْعِرَاقِ وَالشَّامِ وَالْمَشْرِقِ
وَالْمَغْرِبِ مِنْ اَھْلِ الْفِقْہِ وَالْحَدِیْثِ وَھُمُ الْجَمَاعَۃُ
وَالْحُجَّۃُ۔
(التمہید لابن
عبد البر :۲۳؍۳۷۸)
ترجمہ : اسی مسلک پر اہل فقہ و حدیث میں سے حجاز، عراق، شام
، مشرق اور مغرب کے علماء اور فقہاء ہیں اور وہی جماعت اور حجت ہیں ۔
امام
ابن عبد البر رحمہ اللہ نے مشرق و مغرب ، شام و عراق حتی کہ حجاز کے اہلِ فقہ یعنی
فقہاء اور اہلِ حدیث یعنی محدثین کا مسلک بتایا کہ وہ تین طلاقوں کو تین ہی مانتے
ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ حدیث کے اصلی وحقیقی مصداق محدثین تین طلاقوں کے
تین ہونے کا ہی موقف رکھتے ہیں۔ غیر مقلدین مسئلہ تین طلاق کی بابت اپنی رائے کو
اہلِ حدیث مسلک عنوان سے ظاہر کیا کرتے ہیں۔ اَب اُن سے مطالبہ ہے کہ وہ اَصلی
اہلِ حدیث یعنی محدثین کا موقف لوگوں کے سامنے اہلِ حدیث مسلک کے طورپر بیان کریں۔
یہاں بھی غیرمقلدین وہی رٹارٹایا جملہ
کہنے کی کوشش کریں گے کہ ہم قرآن وحدیث کے خلاف محدثین کی بات نہیں مانتے۔ہم اس کے
جواب میں شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد اور شاہد نذیر غیرمقلد کی عبارت پیش کرنا چاہتے
ہیں۔
شاہد نذیر
صاحب لکھتے ہیں:
’’ اس کے ساتھ ساتھ بات کا فیصلہ کرنا کہ کس کا قول قرآن
وحدیث کے خلاف ہے اور کس کا نہیں یہ کام بھی عام اور جاہل عوام کا نہیں، بلکہ اس
تصفیہ کا حل بھی سلف صالحین کے فہم اور فیصلہ کی روشنی ہی میں ہوگا ۔ اس سلسلے میں
حافظ [ شیخ زبیر علی زئی (ناقل )] صاحب تنبیہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : یاد رہے کہ
قرآن و حدیث کے صریح خلاف ہر شخص کی بات مردود ہے چاہے کہنے والا کوئی بھی ہو لیکن
ہر ایرے غیرے کو خلف (خلاف ) قرار دینے کا حق نہیں بلکہ اس کے لیے سلف صالحین کی
طرف ہی رجوع کرنا پڑے گا۔( ماہ نامہ الحدیث ، شمارہ نمبر ۵۳ ، صفحہ ۸) ان تمام
واقعات و حوالہ جات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ حافظ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ
کو اپنے مسلمان بھائیوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح کی کس قدر فکر تھی ۔ ‘‘
( اشاعۃ الحدیث
حضرو، اشاعت خاص بیاد حافظ زبیر علی زئی صفحہ۳۸۶، طبع مکتبہ اسلامیہ )
شیخ زبیر علی زئی اور ان کے معتقد
شاہد نذیر کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ کسی کو بات کو قرآن وحدیث کے خلاف قرار دینے کا حق کسی ایرے غیرے کو نہیں بلکہ اس میں
اسلاف کا ہی فیصلہ معتبر ہے لہذا غیرمقلدین اسلاف کا فیصلہ پیش کریں کہ انہوں نے
تین طلاقوں کے تین ہونے کو قرآن وحدیث کے خلاف کہا ہو۔سَلَف صالحین ا س طرح کا
فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں جب کہ وہ خود تین طلاقوں کے وقوع کے قائل تھے۔ہاں البتہ اس
کے برعکس اسلاف کے حوالہ جات کتب میں مذکور ہیں کہ انہوں نے تین طلاقوں کو ایک
کہنے کے خلاف سنگین فتوے دئیے ہیں جیسا کہ یہ فتاوی ہماری اسی کتاب میں باحوالہ
منقول ہیں۔ ’’باب:۹ ،شاذ اقوال اجماع کے لئے مضر نہیں ‘‘ وغیرہ ابواب دیکھئے ۔
یہاں غیرمقلدین کے ہاں ’’ شیخ العرب
والعجم ‘‘ کہلائے جانے والے بزرگ شیخ بدیع الدین راشدی غیرمقلد کا محدثین کے متعلق
اقتباس پڑھتے جائیں:
’’ دوستو! تم لوگوں کو احادیث اہلِ حدیث [محدثین (ناقل )]
سے ملی ہیں سو ’’ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘‘ کے مصداق انہی کے مخالف ہو گئے۔
’’جس ہانڈی میں کھاؤ ،اسی میں سوراخ کرو۔‘‘ تم لوگوں سے زیادہ ناشکرا کون ہوگا ؟
۔‘‘
(مقالات ِ
راشدیہ : ۳؍۵۰۹)
اول تو پچھلے صفحات میں مولانا عبد
الجبار کھنڈیلوی غیرمقلد کی عبارت ملاحظہ کر لیں کہ صحاح ستہ اہلِ حدیث کی کتابیں
نہیں ،انہیں عرب سے لانے اور چھپوانے والے علمائے احناف ہیں ۔
ویسے میری معلومات کی حدتک حدیثیں جمع
کرنے والے لوگ مجتہد ین ہیں یا مقلدین ۔ اُن میں سے ایک بھی ایسا نہیں کہ اس میں
اجتہاد کی صلاحیت بھی نہ ہو، اور تقلید بھی نہ کرتا ہو۔
دوم : اس عبارت کا غیرمقلدین ہی مصداق
ہیں کہ جن محدثین سے حدیثیں لینے کے دعوے دار ہیں، مسئلہ تین طلاق میں انہی کی
مخالفت کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔صرف اسی پر بس نہیں بلکہ اس مسئلہ کی وجہ سے کئی
طرح کے طعن امیز جملے بھی لکھے جو محدثین بلکہ صحابہ کرام پر بھی چسپاں ہوتے ہیں۔
ہماری اسی کتاب کا باب: ۱۷، صحابہ کرام وعلماء عظام کے متعلق
گستاخانہ تحریریں ، بے جا الزامات اور نامناسب باتیں ۔‘‘ دیکھئے ۔
اور اوپر خواجہ محمد قاسم غیرمقلد کی
عبارت منقول ہے کہ ہم محدثین والے نہیں۔راشدی صاحب کی یہ عبارت خواجہ صاحب پہ پوری
منطبق ہوتی ہے کہ جن محدثین سے حدیثیں لینے کا دعوی ہے انہیں سے براء ت کا اعلان
ہے۔
خواجہ صاحب نے تو محدثین سے اپنی براء
ت کا اعلان کر دیاجس میں ایک طرح کا اعتراف ہے کہ مسئلہ تین طلاق میں غیرمقلدین کی
رائے موقف ِ محدثین کے خلاف ہے لیکن غیرمقلدین میں ایسے لو گ بھی ہیں جو بے دھڑ ک
محدثین کی طرف تین طلاقوں کے ایک ہونے کی غلط نسبت کر دیتے ہیں مثلا ً
مولانا ظفر
عالم غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ حنفیہ اس کو طلاق بدعی ماننے کے باوجود تین کہتے ہیں
...مگر محدثین ، فقہاء اور علماء محققین کے نزدیک یہ ایک رجعی طلاق ہوگی ۔ ‘‘
( فتاویٰ ثنائیہ
:۲؍۲۲، ناشر:اسلامک پبلشنگ لاہور)
ظفر صاحب نے تقسیم کرتے ہوئے حنفیہ
اور محدثین کو باہم مقابل ٹھہر ا دیا، اس کا جواب ستر سال پہلے مولانا شرف الدین
دہلوی غیرمقلددے چکے ہیں۔ انہوں نے تین کو ایک کہنے والے مذہب کے متعلق لکھا:
’’مشہور کر دیا گیا ہے کہ یہ مذہب محدثین کا ہے ، اور اس کے
خلاف مذہب حنفیہ کا ہے۔اس لیے ہمارے اصحاب فوراً اس کو تسلیم کر لیتے ہیں حالاں کہ
یہ فتویٰ یا مذہب آٹھویں صدی ہجری میں وجود میں آیا ہے ۔‘‘
( فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۲۲۰، ناشر:اسلامک پبلشنگ لاہور)
اس سے زیادہ غیرمقلدین کی تسلی
کیاکرائیں کہ اُن کے بیہقی وقت نے محدثین کی جانب تین طلاقوں کے ایک ہونے کی نسبت
کو غلط قراردیا،بلکہ ایک جگہ اسے مظالعہ کا نام دیا ہے جیسا کہ پہلے منقول ہو چکا
۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا مسلک
غیرمقلدین صحیح بخاری پر عمل کرنے کے
دعوے دار ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ کی بابت یہ بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے بخاری
کے تراجم میں قرآن وحدیث کی ترجمانی کی ہے۔فتاویٰ نذیریہ میں تو یوں بھی لکھ دیا :
’’ ان کی مخالفت لوہے کے چنے چبانے ہیں ۔‘‘
( فتاوی نذیریہ : ۱؍۴۲۷، مکتبۃ المعارف
الاسلامیۃگوجرانوالہ)
غیرمقلدین مسئلہ تین طلاق میں جیسے عام محدثین
کے خلاف ہیں،اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ کے بھی مخالف ہیں ۔
مولانا عبد
اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ایک مجلس کی تین طلاق میں بہت ( سے ) اہلِ حدیث بخاری
وغیرہ کے خلاف ہیں۔ ‘‘
(فتاوی اہلِ
حدیث :۱؍ ۷، ناشر:ادارہ احیاء السنہ سرگودھا )
خواجہ محمد
قاسم غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’مثلاً طلاق ثلاثہ کو لے لیجئے۔ائمہ اربعہ اور امام بخاری
تک اس کے قائل ہیں مگر ہم قائل نہیں ۔ ‘‘
( تعویذ اور دم صفحہ ۱۷، ناشر: ادارہ احیاء السنۃ
گھرجاکھ گوجرانوالہ )
شیخ یحیٰ عارفی غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’ امام بخاری کا نظریہ یک بارگی تین کے جواز کا معلوم ہوتا
ہے۔ ‘‘
( تحفہ ٔ احناف صفحہ ۳۵۳،مکتبہ دفاع کتاب و سنت لاہور )
لوجی ! ’’یک نہ شد، دو شد‘‘ والا
معاملہ ہوا۔ ایک تو امام بخاری رحمہ اللہ تین طلاقوں کو تین مانتے ہیں۔ دوسرا وہ
اکٹھی تین طلاقیں دینے کو جائز بھی سمجھتے ہیں۔
مزید تفصیل
کے لیے کتاب میں ’’:باب:۵ سلف صالحین کا مسلک ‘‘ کا مطالعہ کریں۔
علامہ ابن حزم ظاہری کا مسلک
علامہ ابن حزم ظاہری اہل ظواہر کے
پیشوا ہیں غیرمقلدین انہیں بھی اپنا ہم مذہب اہلِ حدیث قرار دیتے ہیں ۔مثلاًمولانا
عبد القادر حصاروی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ تحقیق مسائل میں میرا مسلک امام ابن حزم کی طرح ہے جو
ٹھیٹھ مذہب اہلِ حدیث رکھتے تھے ،مقلد بالکل نہ تھے ۔ ‘‘
(فتاویٰ حصاریہ :۶؍۳۶۸، طبع اول )
حصاروی صاحب کی طرح دیگر غیرمقلدین نے
بھی ابن حزم ظاہری کو اہلِ حدیث و غیرمقلد قرار دے دیا۔ حوالہ جات ہماری اسی کتاب
کے ’’’باب: ۱ تین طلاقوں کے تین ہونے پرقرآن وحدیث سے دلائل‘‘ میں منقول ہیں۔
غیرمقلدین نے انہیں اہل حدیث و
غیرمقلد کہہ کر دو فائدے حاصل کرنے تھے۔ ایک یہ کہ اہل ظواہر کی خدمات کو اپنے
کھاتے میں ڈال سکیں۔اور دوسرا یہ کہ وہ یوں تاثر دے سکیں کہ اہل ظواہر ہمارے مسلک
کے لوگ ہیں اور ہم قدیم زمانہ سے چلے آر ہے ہیں یعنی تعداد میں اضافہ اور اپنی
قدامت ظاہر کرنا مقصد ہے۔ مگر اللہ کی شان اہل ظواہر کے مقتداعلامہ ابن حزم ظاہری
بھی ایک مجلس کی تین طلاقون کو تین کہتے ہیں ۔( المحلی :۹؍۴۶۳)
شیخ یحی
عارفی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ امام شافعی کے نزدیک یک بارگی تین طلاقیں دینا سنت ہے۔
ان کے ہاں مدخولہ و غیر مدخولہ کا کوئی فرق نہیں۔ یعنی شافعیہ کا موقف عام ہے، اسی
طرح ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ کا موقف بھی عام ہے ۔ ‘‘
( تحفۂ احناف صفحہ ۲۸۵)
عارفی صاحب کی اس عبارت کے مطابق
علامہ ابن حزم ظاہری نہ صرف ایک مجلس کی تین طلاقوں کے وقوع کے قائل ہیں بلکہ ان
کے نزدیک اکٹھی تین طلاقیں دینا سنت بھی ہے ۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی علامہ
ابن حزم ظاہری کوتین طلاقوں کے وقوع کا قائل تسلیم کیا ہے ۔ (اغاثۃ اللہفان : ۱؍۳۲۹)
علامہ ابن حزم ظاہری نہ صرف یہ کہ تین
طلاقوں کے وقوع کو مانتے ہیں بلکہ انہوں نے اپنی کتاب ’’المحلی‘‘ میں اس موقف کے
اثبات پہ دلیل بھی ذِکر کی اورصحیح مسلم میں مذکور حدیث (حدیث ابن عباس ) سے کسی
کو مخالف رائے کا شبہ ہو سکتا تھا،اس کا جواب بھی دیا کہ یہ حدیث مرفوع یعنی حدیث
نبوی ہے ہی نہیں۔ جب کہ دَور ِحاضر کے غیرمقلدین اسی حدیث کو اپنی مرکزی اورگلا
گھونٹ دینے والی دلیل باور کرایا کرتے ہیں۔اسی طرح انہوں نے حدیث ِرکانہ کو ضعیف
قرار دیا ۔ اصل عبارات بقید صفحات ہماری اسی کتاب میں آپ ملاحظہ فرما لیں گے ان
شاء اللہ ۔
غیرمقلدین نے مسئلہ تین طلاق میں
علامہ ابن حزم ظاہری سے بھی راہ الگ کر لی، جیساکہ اوپر مذکور ہوا۔
زیرِ بحث مسئلہ میں سات صدیوں
بعد لب کشائی کرنے والے
اتنی وضاحت اور تفصیل عرض کرنے کے بعد
اَب ہم ان دو بزرگوں کا تذکرہ کرتے ہیں جنہوں نے تین طلاقوں کے ایک ہونے پہ گرم
جوشی دکھائی۔ مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اصل بات یہ ہے کہ مجیب مرحوم نے جو لکھا ہے کہ تین طلاق،
مجلس ِ واحد کی محدثین کے نزدیک ایک کے حکم میں ہیں یہ مسلک سات سو سال کے بعد کے
محدثین کا ہے جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کے فتویٰ کے پابند اور ان کے معتقد ہیں۔
یہ فتوی شیخ الاسلام نے ساتویں صدی ہجری کے اخیر یا اوائل آٹھویں میں دیا تھا تو
اس وقت کے علمائے اسلام نے ان کی سخت مخالفت کی تھی۔‘‘
(فتاویٰ
ثنائیہ:۲؍۲۱۹، ناشر: اسلامک پبلشنگ لاہور)
دہلوی صاحب
آگے لکھتے ہیں:
’’ نواب صدیق حسن خاں مرحوم نے اتحاف النبلاء میں جہاں شیخ
الاسلام کے متفردات مسائل لکھے ہیں،اس فہرست میں طلاقِ ثلاثہ کا مسئلہ بھی لکھا ہے
اور لکھا ہے کہ جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے تین طلاق کی ایک مجلس میں ایک طلاق
ہونے کا فتویٰ دیا تو بہت شور ہوا ، شیخ الاسلام اور ان کے شاگرد ابن قیمؒ پر
مصائب برپا ہوئے، ان کو اونٹ پر سوار کرکے درے مار مار کر شہر میں پھرا کر توہین
کی گئی ، قید کئے گئے اس لیے کہ اس وقت یہ مسئلہ علامت ِ روافض کی تھی۔‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ:۲؍۲۱۹)
شرح عقیدہ
واسطیہ میں لکھاہے
:
’’مسئلہ طلاقِ ثلاثہ میں فتویٰ صادر کرنے پر طوفان برپا
ہوگیا تھا۔۷۲۶ھ میں صالحین اور انبیاء کی قبروں کی جانب نیکی اور ثواب کے ارادے سے
قلبی اہتمام کے ساتھ سفر کرنے پر گفتگو چھڑی تو شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ نے اس
کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا تو آپ کو ہم عصر علماء کی جانب سے انتہائی مخالفت کا
سامنا کرنا پڑا۔ ‘‘
( شرح عقیدہ واسطیہ سوالا وجوابا صفحہ۱۱، ترتیب وتسہیل الشیخ عبد العزیز
الحمد السمان ، ترجمہ محمد اختر صدیق ، طبع مکتبہ اسلامیہ )
مزید تفصیل کے لیے ہماری اسی کتاب کا
’’باب: ۲۰ علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کے بارے میں کچھ باتیں ‘‘ کا مطالعہ
کریں۔
تنبیہ: مسئلہ تین طلاق کو ایک قرار
دینے کی بحث کو حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے زیادہ ان کے شاگرد حافظ ابن قیم رحمہ
اللہ نے لکھا ہے۔ ان کی تحریروں کا تنقیدی جائزہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر
رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’عمدۃ الاثات ‘‘ کے آخر میں لیاہے۔ جب کہ مولانا عتیق
الرحمن سنبھلی صاحب نے اس حوالہ سے ایک مستقل کتاب ’’ طلاق ثلاثہ اور حافظ ابن
القیم ؒ‘لکھی ہے ۔ شائقین ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلدکا حوالہ پہلے
گزر چکا کہ سات صدیوں میں تین طلاقوں کو تین سمجھاجاتا رہا آٹھویں صدی کی ابتداء
میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تین کے ایک ہونے کا فتوی دیا۔ اس کے بعدکی صدیوں
کا حال حضرت مولانامحمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ کی زبانی جانئے ۔ وہ اپنے
رسالہ ’’ تاریخ طلاق ثلاثہ ‘‘ میں آٹھویں صدی کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’ ’آٹھویں صدی کی ابتداء میں ابن تیمیہ یا ابن قیم نے اجماع
صحابہ کرام ؓ اور مذاہب سے ہٹ کر روافض کی اتباع میں ایک مجلس کی تین طلاق کے رجوع
کا فتوی دیا ۔ لیکن مذاہب اربعہ کے تمام علماء اور اسلامی حکومت نے اس کو مسترد
کردیا اور ان کی توہین و تذلیل کے ساتھ ساتھ قید وبند کی سزا بھی دی ۔ چنانچہ
نویں، دسویں، گیارہویں ، بارہویں صدی میں ایک مفتی بھی نہیں ملتا جس نے ابن تیمیہ
کے اس غلط فتوے کے مطابق فتوی دیا ہو ۔ اور یہ صدیاں بھی اسلامی عروج کی تھیں ۔‘‘
( تجلیات صفدر
:۴؍۵۸۴، ۵۸۵)
مطلب یہ کہ آٹھویں صدی کے بعد بھی کئی
صدیوں میں تین طلاقوں کے ایک ہونے کے مسئلہ کو قبولیت نہیں ملی ۔ ہاں ماضی بعید
میں شیعہ اس کے قائل رہے اور ماضی قریب میں قادیانیوں کا یہی نظریہ ہے ۔اور دَورِ
حاضر میں دونوں کایہی موقف ہے ۔ حوالہ جات ملاحظہ ہوں ۔
شیعوں کی رائے
اہل سنت وا لجماعت کے بالمقابل شیعوں کا نظریہ
ایک مجلس کی تین طلاقوں کے ایک ہونے کا ہے ۔
امام ابن العربی رحمہ اللہ( وفات:
۵۴۳ھ ) نے تین طلاقوں کے وقوع پر اجماع کا دعوی کرنے کے بعد لکھاـ:
’’ وَلَا
احْتِفَالَ بِالْحَجَّاجِ وَاِخْوَانِہٖ مِنَ الرَّافِضَۃِ فَالْحَقُّ کَائِنٌ
قَبْلَھُمْ۔
(احکام القرآن لابن العربی :۱؍۳۷۷)
ترجمہ: حجاج اور اس کے رافضی بھائیوں کا کوئی اعتبار نہیں
کیوں کہ حق وہ ہے جواُن سے پہلے موجود تھا۔
تین طلاقوں کو ایک کہنے والوں اور
رافضیوں کوبھائی بھائی قرار دینے والے امام ابن العربی رحمہ اللہ کا شمار محدثین
میں ہے اورغیرمقلدین کو محدثین سے عقیدت بلکہ مذہبی ہم نوائی کا دعوی ہے ،اس لئے
دیکھتے ہیں کہ غیرمقلدین اس پہ کیا رَدِ عمل پیش کرتے ہیں۔
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے تین طلاقوں کے
تین ہونے کو اجماعی مسئلہ قرار دے کر کہا:
’’ لَیْسَ الحَجَّاجُ بْنُ اَرْطَاۃٍ
وَّمَنْ قَالَ بِقَوْلِہٖ مِنَ الرَّافِضَۃِ مِمَّنْ یُّعْتَرَضُ بِہٖ عَلَی
الْاِجْمَاعِ لِانَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِ الْفِقْہِ۔( الاستذکار : ۶؍ ۸)
ترجمہ: حجاج بن ارطاۃ اور جو رافضی اجماع کے خلاف مذہب
رکھتے ہیں یہ ان لوگوں میں نہیں کہ جن کی وجہ سے اجماع پر اعتراض کیاجا سکے کیوں
کہ یہ اہلِ فقہ میں سے نہیں ہیں۔
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کی اس
عبارت کے مطابق رافضیوں کا مذہب تین کو ایک سمجھنا ہے اور مزید یہ کہ ان کی تصریح
کے مطابق حجاج اور روافض ’’ غیرفقیہ‘‘ ہیں۔یاد رہے کہ غیرمقلدین کے ہاں ’’غیرفقیہ
‘‘ کا معنی ’’غیر سمجھ دار اوربے وقوف ‘‘ ہے۔
امام قاضی عیاض رحمہ اللہ( وفات ۵۴۴ھ
)نے تین طلاقوں کے تین ہونے کے مسئلہ کو اجماعی قرار دے کر کہا:
’’ اِلَّا مَنْ لَّا یُّعْتَدُّ بِہٖ
مِنَ الْخَوَارِجِ وَالرَّوَافِضِ۔
( اکمال المعلم
: ۵؍۸)
ترجمہ: مگر خوارج اور روافض کا مذہب اس سے مختلف ہے لیکن ان
کے قول کا کوئی اعتبار نہیں۔
امیر یمانی صاحب آٹھویں صدی کے علمائے کرام کے
متعلق لکھتے ہیں:
’’
وَاشْتَدَّ
نَکِیْرُھُمْ عَلٰی مَنْ خَالَفَ ذٰلِکَ وَصَارَتْ ھٰذِہِ الْمَسْئَلَۃُ عَلَمًا
عِنْدَھُمْ لِلرَّافِضَۃِ وَالْمُخَالِفِیْنَ وَعُوْقِبَ بِسَبِ الْفَتْوٰی شَیْخُ
الْاِسْلَامِ ابْنُ تَیْمِیَۃَ وَطِیْفَ بِتِلْمِیْذِہٖ الْحَافِظِ ابْنِ
الْقَیِّمِ عَلٰی جَمَلٍ بِسَبِ الْفَتْوٰی بِعَدْمِ وُقُوْعِ الثَّلَاثِ۔‘‘
(سبل السلام
:۳؍۲۱۵بحوالہ عمدۃ الاثاث صفحہ ۴۹)
ترجمہ: اور انہوں نے اپنے مخالفین پر نہایت سختی سے انکار
کیا ہے اور تین طلاقوں کو ایک سمجھنا ان کے نزدیک رافضیوں اور مخالفین کی علامت
ہے، اور اسی فتویٰ کی رُو سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کو سزا دی گئی اور ان کے
شاگرد حافظ ابن القیم ؒ کو تین طلاقوں کے واقع نہ ہونے کے فتویٰ کی وجہ سے اونٹ پر
سوار کرکے (بطور سزا ) کے پھرایا گیا ۔
یمانی صاحب کی عبارت میں ’’ ان کے
نزدیک رافضیوں اور مخالفین کی علامت ہے۔‘‘ جملہ پہ نگاہ رہے ۔
مولاناشرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں :
’’شیخ الاسلام اور ان کے شاگرد ابن قیمؒ پر مصائب برپا ہوئے
، ان کو اونٹ پر سوار کرکے درے مار مار کر شہر میں پھرا کر توہین کی گئی ، قید کئے
گئے اس لیے کہ اس وقت یہ مسئلہ علامت ِ روافض کی تھی۔‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ:۲؍۲۱۹)
یعنی
تین طلاقوں کو ایک قراردینے کی رائے کو آٹھویں صدی میں بھی رافضی مذہب سمجھا گیا ۔
حافظ ابن
تیمیہ رحمہ اللہ کے سوانح نگار شیخ ا بو زہرہ نے ان کے متعلق لکھا:
’’ امام صاحب ؒ کا یہ مسلک شیعہ امامیہ کے مسلک سے ملتا ہوا
ہے۔ان کے نزدیک بھی طلاق ثلاث بہ لفظ ثلاث سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔ ‘‘
( حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہ صفحہ 634 المکتبۃ السلفیۃ شیش محل روڈ لاہور )
دیگر علماء نے بھی اپنی کتابوں میں تین طلاقوں
کو ایک قرار دینے کا نظریہ شیعوں کا بتایا ہے۔ حوالہ جات کتاب میں منقول ہیں ۔ خود
شیعہ کتب میں بھی یہی نظریہ لکھاہوا ہے ۔
شیعہ مصنف ابو جعفر محمد بن الحسن علی الطوسی
لکھتے ہیں:
’’ وَالطَّلَاقُ الثَّلاَثُ بِلَفْظٍ
وَّاحِدٍ اَوْ فِیْ طُھْرٍ وَّاحِدٍ مُتَفَرِّقًا لَا یَقَعُ عِنْدَنا اِلَّا
وَاحِدَۃ ۔‘‘
( المبسوط فی فقہ الامامیۃ :۵؍۴)
ترجمہ:تین طلاقیں ایک لفظ کے ساتھ ہوں یا ایک طہر میں الگ
الگ دی گئی ہوں ہمارے ہاں صرف ایک واقع ہوگی ۔
محمد بن علی بن
ابراہیم المعروف ابن ابی جمہور لکھتے ہیں:
’’ وَرَوٰی جَمِیْلُ بْنُ دَرَاجٍ
فِیْ صَحِیْحِہٖ عَنْ اَحَدِھِمَا عَلَیْھِمَا السَّلامُ قَالَ سَأَلْتُہٗ عَنِ
الَّذِیْ یُطَلِّقُ فٖیْ حَالِ طُھْرٍ فِیْ مَجْلِسٍ وَّاحِدٍ ثَلَاثًا؟ قَالَ ھِیَ وَاحَدَۃٌ۔
( عوالی اللآلی العزیزیۃ : ۳؍۳۷۸)
ترجمہ: جمیل بن دراج نے اپنی کتاب ’’ صحیح ‘‘ میں امام باقر
یا امام صادق سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے ان سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو
اپنی بیوی کو حالت ِ طہر میں ایک مجلس
میں تین طلاقیں دیتا ہے تو انہوں جواب دیا کہ
ایک طلاق واقع ہوگی ۔
درج
ذیل کتب شیعہ میں بھی یہی مذکور ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک قرار دیا
جائے گا ۔ (التحریر المجلہ :۵؍۴۰،جامع المدارک :۴؍۵۰۹)
مسئلہ تین طلاق میں قادیانیوں
کا موقف
شیعوں
کی طرح مرزائیوں؍قادیانیوں کے ہاں بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک سمجھاجاتا ہے
۔
محمد علی ( مرزائی ) لکھتے ہیں:
’’طلاق ایک ہی ہے خواہ سو دفعہ کہے ، یا تین دفعہ ۔ اور
خواہ اسے ہر روز کہتا جائے یا ہر ماہ میں ایک دفعہ کہے اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا
۔
( بیان القرآن
:۱؍۱۳۶ سورہ بقرہ )
اسی طرح مرزائیوں کی کتاب ’’ فقہ احمدیہ ‘‘ میں
لکھا ہے:
’’اکٹھی تین طلاقیں دینا مشروع نہیں ہے لہٰذا فقہ احمدیہ کے
نزدیک اگر تین طلاقیں ایک دفعہ ہی دے دی جائیں تو ایک رجعی طلاق متصور ہوگی ۔‘‘
( فقہ احمدیہ :مشتمل بَر اَحکام ِ شخصیہ ؍پرسنل لاء صفحہ
۸۰شائع کردہ ادارۃ المصنفین ربوہ )
آگے لکھا ہے:
’’ ایک نشست میں اِس طرح دی گئی تین طلاقوں کے بعد اگر کوئی
شخص پیشمان ہو اور رجوع کرنا چاہے تو اس کے رجوع کے حق کو تسلیم کیا جائے گا۔ حضرت
مسیح موعود علیہ السلام [ نبوت کے جھوٹے دعوے دار مرزا غلام احمد قادیانی کو
مرزائی لوگ مسیح موعود کہتے ہیں( ناقل )] فرماتے ہیں : اگر تین طلاق ایک ہی وقت
میں دی گئی ہوں تو اس خاوند کو یہ فائدہ دیا گیا ہے کہ وہ عدت کے گذرنے کے بعد بھی
اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے کیوں کہ یہ طلاق ناجائز طلاق تھا اور اللہ ور رسول کے
فرمان کے موافق نہ دیا گیا تھا۔ ‘‘
( فقہ احمدیہ
:مشتمل بَر اَحکام ِ شخصیہ ؍پرسنل لاء صفحہ ۸۰شائع کردہ ادارۃ المصنفین ربوہ )
’’فقہ
احمدیہ ‘‘نامی کتاب میں تین طلاقوں کے ایک ہونے کے مزعومہ دلائل وہی تحریر کئے ہیں
جو غیرمقلدین پیش کیاکرتے ہیں یعنی الطلاق مرتان،مسلم کی
حدیث ابن عباس اور حدیث رکانہ۔یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے تین طلاقوں کے
نفاذ والے فیصلہ کا جواب بھی وہی دیا جو غیرمقلدین دیتے ہو تے ہیں کہ اُن کا یہ
فیصلہ تعزیری تھا ۔چنانچہ اس کتاب میں مذکو رہے :
’’حضرت عمر ؓ نے جب یہ محسوس فرمایا کہ شریعت کی دی گئی ایک
سہولت کو بعض لوگوں نے مذاق بنالیا ہے تو یہ حکم صادر فرمایا کہ لوگوں کی اس جلد
بازی پر گرفت کی جائے اور اس طرح کی دی ہوئی تین طلاقوں کو تین ہی متصور کیا جائے
تاکہ لوگوں کو تنبیہ ہو۔ مگر حضرت عمر ؓ کا یہ حکم تعزیر کا رنگ رکھتا ہے اور اسے
دائمی حکم قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ‘‘
(فقہ احمدیہ :مشتمل بَر اَحکام ِ شخصیہ ؍پرسنل لاء صفحہ
۸۰،شائع کردہ ادارۃ المصنفین ربوہ )
تنبیہ: شیعوں اور مرزائیوں کی کتابیں
میرے پاس نہیں ۔ ’’فقہ احمدیہ‘‘ نامی کتاب کے علاوہ مذکورہ بالاباقی حوالے میں نے
مسئلہ طلاق پر لکھی گئی کتابوں سے نقل کئے ہیں۔
غیرمقلدین مسئلہ زیر بحث میں شیعوں اور
قادیانیوں سے متفق ہیں
مدعیان اہلِ حدیث مسئلہ تین طلاق میں
شیعوں اورمرزائیوں سے متفق ہیں یعنی شیعوں اور مرزائیوں کی طرح ان کی اکثریت کے
نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک طلاق رجعی شمار ہو تی ہے۔
پھر ان میں بھی کئی گروہ ہیں۔ ایک
گروہ تو صرف ایک مجلس کی تین کو ایک کہتا ہے، دوسرا گروہ ایک طہر میں دی جانے والی
الگ الگ مجلسوں کی تین کو بھی ایک کہتا ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے اگر طلاق دینے کے
بعد رجوع نہ کیا جائے تو الگ الگ طہروں میں دی جانے والی تین طلاقیں بھی ایک کے
حکم میں ہیں۔
البتہ غیرمقلدین کی ایک چھوٹی سی
جماعت ایسی ہے کہ ان کے نزدیک اہل سنت کی طرح ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی ہوتی
ہیں۔ اس گروہ میں مولانا شرف الدین دہلوی، حافظ زبیر علی زئی اور انجینئر محمد علی
مرزاوغیرہم ہیں۔اُن کی عبارات ہماری اسی کتاب کے ’’باب: ۱۰ ،تین طلاقوں کے وقوع پر
غیرمقلدین کی تائیدی عبارات ‘‘ میں منقول ہیں۔
دلائل کس فریق کے پاس ہیں
مسئلہ تین طلاق میں مسالک اور اہلِ
مسالک معلوم کرنے کے بعداگلا مرحلہ یہ جاننے کا ہے کہ کن کا مسلک کتاب و سنت کے ہم
اہنگ ہے اور کن کا مخالف!؟۔اس کا اندازہ اس مقدمہ سے ہوگیا ہوگا اور مزید کتاب پڑھ
کر جان سکیں گے ان شاء اللہ۔البتہ سردست مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلداور حافظ
زبیر علی زئی غیرمقلد کے حوالے پڑھ لیں۔
دہلوی صاحب مسئلہ تین طلاق کے حوالہ
سے غیرمقلدین کی مستدل حدیث ؍ مرکزی دلیل (صحیح مسلم میں موجود حدیث ابن عباس) کے
متعلق لکھتے ہیں:
’’یہ حدیث بظاہرہ کتاب و سنت صحیحہ و اجماع صحابہ ؓ وغیرہ
ائمہ محدثین کے خلاف ہے، لہٰذا حجت نہیں ہے۔‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ ۲؍۲۱۹...دوسرا نسخہ صفحہ ۴۶)
دہلوی صاحب کی اس عبارت سے معلوم ہوا
کہ تین طلاقوں کو ایک ماننا کتاب وسنت ، اجماعِ صحابہ کرام وغیرہ ائمہ محدثین کے
خلاف ہے۔
علی زئی صاحب نے تین طلاقوں کے تین
ہونے پر صحابہ کرام کا اجماع بتایا۔ پھرکہا:
’’
وَلَیْسَ
فِی الْکِتَابِ وَالسُّنَۃِ مَایُعَارِضُہُ، کتاب و سنت میں اس ( اجماع) کے
خلاف کوئی بات نہیں ہے۔‘‘
( حاشیہ جزء علی بن محمد الحمیری :۳۷تحت حدیث : ۴۳)
حافظ زبیر علی زئی کی اس عبارت کا
سکین جو چاہے ہم سے واٹس ایپ کے ذریعہ منگوا سکتا ہے۔
دہلوی صاحب اور علی زئی صاحب کی طرح دیگر بھی
کئی غیرمقلدین نے تین طلاق کے تین ہونے کو اجماعی مسئلہ تسلیم کیا ہے۔ حوالہ جات
کتاب میں مذکور ہیں۔ اور اجماع بھی مستقل دلیل ہے بلکہ علی زئی صاحب کے بقول اجماع
حدیث سے بھی زیادہ وزنی دلیل ہے جیسا کہ پہلے ہم نقل کر چکے اور یہی حوالہ عبارت
کے مزید اضافہ کے ساتھ کتاب میں منقول ہے ۔
تین طلاقوں کو ایک قرار دینے
والوں کی بابت حکم
مسئلہ تین طلاق کی بابت مسالک، اہل ِ
مسالک اور دلائل کی بابت اگاہی کے بعد اَب ہم اگلے مرحلہ کی طرف بڑھتے ہیں کہ تین
طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کے متعلق کیا حکم ہے ؟
امام قرطبی رحمہ اللہ نے ابو الصہباء
والی حدیث ابن عباس میں اضطراب سند و متن اور وجوہ علت بیان کرنے کے بعد لکھا:
’’ وَاِنَّمَا اَطَبْنَا فِی
الْکَلَامِ عَلٰی حَدِیث ابْنِ عَبَّاسٍ لِاَنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْجُھَّالِ
اغْتَرُّوْابِہٖ فَاَحَلَّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فَافْتَرَوْا عَلَی اللّٰہِ وَ
عَلٰی کِتَابِہٖ وَعَلٰی رَسُوْلِہٖ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی
اللّٰہِ کَذِبًا وَّعَدَلَ عَنْ سَبِیْلِہٖ۔
( المفھم لما اشکل من تلخیص کتاب
مسلم
:۱۳؍۸۳بحوالہ حرام کاری سے بچئے صفحہ ۳۴۲)
ترجمہ: ہم نے حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث پر اتنی طویل گفتگو
محض اس لئے کی ہے کہ بہت سے جاہل لوگوں نے اس حدیث سے دھوکہ کھایا اور دھو کہ
کھاکر خود انہوں نے اللہ کے حرام کو حلال کرلیا لیکن جھوٹ بول کر اس حلال کی نسبت،
کتاب اللہ اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف کردی اور اس سے بڑا ظالم
کون ہے جس نے اللہ پر جھوٹ بولا اور اللہ کے راستے سے منحرف ہو گیا ۔
یہ عبارت امام قرطبی رحمہ اللہ
کی ہے ، میں اس کا ناقل ہوں ۔شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ میں تو ایک ناقل ہوں، لہٰذا میرے ا ن حوالوں پر غصہ نہ
فرمائیں بلکہ اپنی اداؤں پر غور کریں ۔ ‘‘
(علمی مقالات
:۵؍۴۶۷، طبع مکتبہ اسلامیہ ،اشاعت اول : ۲۰۱۲ ء)
غیرمقلدین کو چاہیے کہ وہ اس کتاب میں میرے نقل
کردہ حوالہ جات پہ غصہ نہ ہوں بلکہ اپنے مسلک پہ نظر ثانی کریں ۔
امام
قرطبی رحمہ اللہ کی یہ عبارت غیرمقلدین کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔اس میں تین طلاقوں کو
ایک قرار دینے والوں کے متعلق درج ذیل باتیں مذکور ہیں:
۱۔ایسے لوگ
جاہل ہیں۔
۲۔ دھوکہ
کھائے ہوئے ہیں۔
۳۔ دھوکہ کا
شکار ہو کر اللہ تعالیٰ کے حرام کو حلال بنانے والے ہیں۔حلالہ کے مسئلہ میں شور
مچانے والوں کی اپنی اصلیت معلوم ہوگئی کہ وہ امام قرطبی کی تصریح کے مطابق اللہ
تعالیٰ کے حرام کردہ کو حلال بنائے بیٹھے ہیں۔
۴۔ پھر اپنے حلال کردہ کی نسبت اللہ ،قرآن اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنے والے ہیں۔یہیں سے پتہ چل گیا کہ تین
طلاقوں کے ایک کہنے کو قرآن وحدیث کی طرف منسوب کرنا غلط ہے؟
۵۔ ایسے ظالم
ہیں جنہوں نے اللہ پہ جھوٹ باندھا ۔یعنی تین طلاقوں کے بعد بیوی کو حلال قرار دے
کر اسے اللہ کی طرف منسوب کرنا ظلم بھی ہے اور جھوٹ بھی۔
۶۔ اللہ کے
راستے سے انحراف کرنے والے ہیں۔ لو جی ! چھ نمبر پورے ہو گئے ۔
تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کی
بابت علمائے امت اور محدثین کرام کے مزید حوالہ جات کتاب میں منقول ہیں ۔
کتاب کی تالیف کا پس منظر
اتنا کچھ عرض کرنے کے بعد اَب آتے ہیں
کتاب کی تالیف کے پس منظر کی طرف۔ احمد پور شرقیہ شہر (ضلع بہاول پور) میں ایک
آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں، جامع مسجد اقصیٰ کے امام حافظ عبد
الرحمن غیرمقلد کے پاس کسی نے مسئلہ تین طلاق کے حوالے سے استفتاء بھیجا، انہوں نے
فتویٰ دیا کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دی جائیں تو ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہے۔
دار العلوم فتحیہ حمزہ ٹاؤن احمد پور شرقیہ کے استاذ حضرت مولانا محمد
الطاف صاحب حفظہ اللہ کو یہ فتویٰ کہیں سے دستیاب ہوا تو انہوں نے بندہ کو حکم
فرمایا کہ اس فتویٰ کا تحقیقی جائزہ لیا جائے۔اُن کی طرف سے جب یہ حکم ہواتو بندہ
سفر پہ جانے والا تھا، اس لیے تفصیل سے نہیں لکھ سکا بہرحال جو کچھ تحریر ہو سکا،
پیش کردیا۔ لکھنے کا انداز یہ اختیار کیا کہ حافظ صاحب کے فتوی کو لفظ بہ لفظ مکمل
نقل کرکے جواب دیا ہے۔ حافظ عون صاحب ( احمد پور شرقیہ )کو اس رسالہ کا علم ہوا تو
انہوں نے اس کی کاپی کرا کے حافظ عبد الرحمن صاحب کو دی اور ان سے جواب کامطالبہ
کیا۔ہم لوگ انتظار میں رہے کہ اگر وہ کوئی مناقشہ کریں تو اس پر غور کر لیا جائے
مگر دس سال کا عرصہ بیت گیا اُن کی طرف سے اَب تک خاموشی ہے جب کہ کئی بار انہیں
یاد دہانی بھی کرائی ۔
طویل انتظار کے بعد مسودہ کو شائع کرنے کا خیال
آیا تو ارادہ ہوا کہ اس میں اضافہ کرکے نسبۃًجامع بنایا جائے۔اس لئے اس میں
مفیداضافے کئے ، ابحاث کو ابواب کے تحت ذکر کیااور ترتیب بھی نئی قائم کی۔ اَب
کتاب میں درج ذیل بائیس ابواب ہیں۔
باب نمبر
:۱... تین طلاقوں کے وقوع پر قرآن وحدیث سے دلائل۔
باب نمبر :۲... تین طلاقوں کے وقوع پر آثار ِ
صحابہ کرام ۔
باب نمبر
:۳... مسئلہ تین طلاق میں تابعین کا مسلک ۔
باب نمبر :۴... ائمہ اربعہ مسلک ۔
باب نمبر
:۵... سلف صالحین کا مسلک۔
باب نمبر
:۶... محدثین کرام کا مسلک ۔
باب نمبر :۷... مسئلہ تین طلاق میں علمائے
سعودیہ کا مسلک۔
باب نمبر :۸... تین طلاقوں کے واقع ہوجانے پر
اجماع کے حوالے۔
باب نمبر
:۹... شاذ اقوال اجماع کے لیے مضر نہیں ۔
باب نمبر :۱۰... تین طلاقوں کے وقوع پر
غیرمقلدین کی تائیدی عبارتیں۔
باب نمبر
:۱۱... حلالہ شرعی کی وضاحت ۔
باب نمبر
:۱۲... غیرمقلدین کے مزعومہ دلائل کا جائزہ۔
باب نمبر
:۱۳... افراد امت سے ہم نوائی کے دعو وں کی حقیقت۔
باب نمبر
:۱۴... غیرمقلدین کی قیاسی آراء کاجائزہ ۔
باب نمبر
:۱۵... غیرمقلدین کے چند مزید شبہات کا ازالہ۔
باب نمبر :۱۶
... غیر شرعی ؍ بدعی طلاق کا وقوع ، غیرمقلدین کی زبانی۔
باب نمبر
:۱۷... صحابہ کرام وعلماء عظام کے متعلق گستاخانہ تحریریں ، بے جا الزامات اور
نامناسب باتیں۔
باب نمبر
:۱۸... مسئلہ تین طلاق وغیرہ میں غیرمقلدین کی تضاد بیانیاں ۔
باب نمبر :۹
ا... غیرمقلدین کی طرف سے صحیح مسلم کی حدیثوں پر جرح۔
باب نمبر
:۲۰... علامہ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کے بارے میں کچھ باتیں۔
باب نمبر
:۲۱... مسئلہ تین طلاق میں غیرمقلدین کی غلط بیانیاں ۔
باب نمبر
:۲۲... در متفرقات ۔
ان ابواب سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ
کتاب میں کیا کچھ ہے۔اور کتاب کی فہرست دیکھ کر بھی کتاب کے مندرجات اجمالی طور پر
معلوم ہو سکیں گے۔
مسئلہ تین طلاق کی تحقیق میں اکابر حضرات اور
علماء کرام کی بھی کتابیں شائع ہیں اس لیے انہیں بھی مطالعہ میں رکھیں ۔یہ کتابیں
’’الفضل للمتقدم،فضیلت تو پہل
کرنے والے کے لئے ہے ‘‘ کا مصداق ہیں۔ ان میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں۔
(۱)……عمدۃ
الاثات ۔( حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ)
(۲)……حرام
کاری سے بچئے۔‘‘(مولانا منیر احمد منور دام ظلہ )
بندہ نے مذکورہ بالا دونوں کتابوں سے
نسبۃً زیادہ استفادہ کیا ہے۔ پھراُن میں سے دوسری سے پہلی کی بہ نسبت زیادہ فائدہ
حاصل کیا ۔
(۳)……کتاب
الطلاق۔( حضرت مفتی سید مختار الدین شاہ صاحب )
(۴)……تاریخ طلاقِ ثلاثہ ۔ (حضرت مولانا محمد
امین اُوکاڑوی رحمہ اللہ)
(۵)……تین طلاقیں اور حلالہ۔ (حضرت مولانا محمد
امین اُوکاڑوی رحمہ اللہ)
یہ دونوں رسالے اُن کی کتاب تجلیات صفدر جلد
چہارم طبع ملتان میں شامل ہیں۔
(۶)……طلاق
ثلاث صحیح احادیث کی روشنی میں۔ ( مولانا حبیب الرحمن قاسمی استاد دار العلوم
دیوبند )
(۷)……تین
طلاق پر دار العلوم دیوبند کے دو مدلل و مفصل فتوے۔ ( مفتی زین الاسلام قاسمی
استاد دار العلوم دیوبند )
(۸)……ایک
مجلس کی تین طلاقیں ، اس کی نوعیت اور حل۔ (حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان
صاحب مفتاحی ، مہتمم جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم بنگلور)
(۹ )……جواب
مقالہ ۔( حضرت مولانا حافظ عبد القدوس خان قارن دام ظلہ )
(۱۰)……الازہار
المربوعۃ۔( حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب )
(۱۱)……الاعلام
المرفوعۃ۔( حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب )
(۱۲)……حضرت مولانا عمرصاحب دام ظلہ۔( کوٹ ادو
)کا رسالہ...
(۱۳)……مسئلہ
طلاق ِ ثلاثہ ۔( حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب حفظہ اللہ )
(۱۴) ……تین
طلاق کا مسئلہ ۔(مولانا سید سلمان منصور پوری )
(۱۵)……طلاقِ
ثلاث ،ایک سوال کا جواب۔( مولانا مفتی احمد ممتاز صاحب دام ظلہ )
(۱۶)……طلاق ِ
ثلاثہ اور حافظ ابن قیم ؒ ۔ ( مولانا عتیق الرحمن سنبھلی )
(۱۷)……ماہ
نامہ تجلی دیوبند نمبر ۔ یہ مسئلہ تین طلاق کے حوالہ سے خصوصی اشاعت ہے ۔
(۱۸)
……الاشفاق ۔( علامہ زاہد الکوثری )
اس کا اُردو ترجمہ حضرت مولانا محمد
یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کے فتاویٰ ’’ آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ میں شامل ہے ۔
غیرمقلدین کا نیا مسلک
آخر میں اک اطلاع بھی دے دوں کہ اَب
غیرمقلدین کا اک نیا مسلک بھی وجود میں آگیا ہے وہ یہ کہ اگر گواہوں کی موجودگی کے
بغیر طلاق دی جائے تو وہ واقع نہیں ہوتی۔ اس رائے کے قائلین میں ڈاکٹر حافظ محمد
زبیر غیرمقلد ہیں، انہوں نے اپنا یہ مسلک اپنی کتاب ’ ’ مکالمہ‘‘ میں لکھا بلکہ اس
کتاب میں شیخ البانی اورشیخ احمد شاکر کایہی نظریہ بتلایا ہے اور یہ اقراربھی
کیاکہ اہلِ تشیع بھی اسی کے قائل ہیں ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
’’ معاصر علماء میں علامہ البانی رحمہ اللہ کا فتوی یہ ہے
کہ حالت ِ حیض ، حالتِ نفاس اور اس طہر میں کہ جس میں بیوی سے تعلق قائم کیاہو،
اسے دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی اور اسی طرح دو گواہوں کی غیرموجودگی میں بھی
طلاق نہیں ہوتی ہے جب کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ دو گواہوں کی غیرموجودگی میں
طلاق کے قائل ہیں ... جمہور کا موقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ دو گواہوں کے بغیر بھی
طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ البتہ اہلِ تشیع میں موقف یہی ہے کہ دوگواہوں کے بغیر طلاق
نہیں ہوتی ... امام ابن حزم ،شیخ ابو زہرہ اور شیخ احمد شاکر رحمہم اللہ کا موقف
بھی یہی ہے کہ طلاق کے وقت دو گواہوں کی موجودگی واجب ہے ۔‘‘
(مکالمہ صفحہ ۱۷۲ ، ناشر: دار الفکر الاسلامی ، طبع اول
: جنوری ؍۲۰۱۸ء )
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری اس کاوش
کو قبول کرکے میرے لئے اسے ذخیرۂ آخرت اور عوام کی اصلاح کا ذریعہ بنائے ، آمین
رحم اللہ عبدا قال آمینا
رب نواز عفا اللہ عنہ
مدرس دار العلوم فتحیہ احمد پور شرقیہ ضلع بہاول پور
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں