مسئلۃ القدر
المفروض مسحہ من الرأس
مفتی ابن اسماعیل المدنی
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں۔
زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ہے
کہ وضو میں چوتھائی حصہ کا مسح فرض ہے ، یہ دعویٰ بلا دلیل ہے۔ (ہدایۃ المسلمین
:صفحہ ۱۴) اسی طرح اسی مسئلہ کے بارے میں سلفیوں کے وکیل رئیس ندوی سلفی لکھتے
ہیں کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ (رسول اللہ ﷺ کا صحیح طریقہ نماز:صفحہ ۱۰۲) شیخ
عبد الرحمن عزیز کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے ۔ (صحیح نماز نبوی:۴۵)
الجواب :
یہ
اعتراض ہی مردود ہے ،کیونکہ قرآن پاک کی سورہ مائدہ کی آیت نمبر :۶ میں ’’وامسحو ابوؤسکم ‘‘ہے۔
(یعنی ب کے ساتھ ہے ) نہ کہ وامسحوا
رؤسکم ۔(بغیر ب کے )۔ اس میں ب تبعیض یعنی بعض کے
معنی پر دلالت کرنے کے لئے آیا ہے ،اور یہی با ت ابو المحاسن الرویانی ؒ (م۵۰۲ھ)
،فقیہ ابو الحسین یحی العمرانی ؒ (م ۵۵۸ھ)،امام
ماوردی ؒ (م ۴۵۰ھ)،اور
امام ابو بکر الجصاص ؒ (م ۳۷۰ھ)وغیرہ
کہی ہے ۔ (بحر المذہب للرویا نی ج:۱ص:۹۳،البیان للعمرانی
ج:۱ص:۱۲۵،الحاوی الکبیر ج:۱ص:۱۱۵،شرح مختصر الطحاوی للجصاص
ج:۱ص:۳۱۷) معلوم
ہوا کہ کلام پاک میں پورے سر کا نہیں ،’’بائے تبعیض ‘‘ آنے کی وجہ سے سر کا
بعض حصہ مراد ہے۔لیکن چونکہ بعض سے مراد کتنا حصہ ہے ،یہ ذکر قرآن میں نہیں ،اس لئے
فقہائے کرام نے اس آیت کو سر کے مسح کی فرض مقدار کے تعلق سے مجمل قرار دیا ہے ۔
اور وضو میں چوتھائی حصہ کے مسح کو فرض قرار دینے کے بعد ، امام ابو الحسین احمد
بن محمد القدوری ؒ (م۴۲۸ھ) فرماتے ہیں : ’’لما
روى المغيرة بن شعبة أن النبي صلى الله عليه وسلم أتى سباطة قوم فبال وتوضأ ومسح
على ناصيته وخفيه‘‘ جیسا کہ مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کچھ
لوگوں کے کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ پر تشریف لائے ، پیشاب کیا ، پھر وضو فرماتے ہوئے، پیشانی اورموزے پر
مسح کیا ۔ (مختصر القدوری :صفحہ ۱۱)
اسی طرح امام ابو بکر جصاص الرازی ؒ (م۳۷۰ھ) نے بھی
یہی روایت پیش فرمائی ہے ۔ (شرح مختصر الطحاوی :جلد ۱:صفحہ ۳۱۷) یہ روایت صحیح
مسلم : صفحہ ۷۲۵، حدیث نمبر ۶۳۳پر موجود ہے ۔
غور فرمائیے ، اس میں پیشانی پر مسح کرنے کا ذکر ہے اور
امام الحسین القدوریؒ فرماتے ہیں کہ ’’وهو
ربع الرأس‘‘ وہ چوتھائی سر (کے حصہ کے برابر ) ہے ۔ (مختصر
القدوری :صفحہ ۱۱)
اسی طرح صحیح مسلم :صفحہ ۲۷۵، حدیث نمبر ۶۳۴میں
روایت موجود ہے کہ ’’ مسح النبي صلى الله عليه وسلم مقدم رأسه ‘‘ آپ ﷺ نے سر کے اگلے حصہ پر مسح کیا ، جس سے معلوم ہوا کہ
پورے سر کا مسح فرض نہیں ہے۔ امام ابو بکر جصاص رازی ؒ فرماتے ہیں کہ : ’’فدل أن المفروض منه هذا القدر‘‘ لہذا اس روایت سے معلوم ہوا
کہ مسح میں فرض یہ مقدار (یعنی سر
کا اگلا حصہ) ہے۔ (شرح
مختصر الطحاوی :جلد ۱ :صفحہ ۳۱۷)جو
کہ چوتھائی سر (کے حصہ کے برابر ) ہوتا ہے، الامام الفقیہ برھان الدین مرغینانی ؒ (م۵۹۳)
[صدوق،فقیہ،حافظ][1]
بھی فرماتے ہیں کہ : ’’والمفروض
في مسح الرأس مقدار الناصية وهو ربع الرأس‘‘ سر کے مسح میں فرض مقدار پیشانی
کی مقدار ہے اور وہ چوتھائی سر
(کے حصہ کے برابر ) ہے ۔ (الہدایۃ للمرغینانی :صفحہ۱۵)
لہذا کتاب وسنت کی
روشنی میں معلوم ہوا کہ وضوء میں سر کے مسح میں فرض مقدار پیشانی
کی مقدار ہے اور وہ چوتھائی سر
(کے حصہ کے برابر ) ہے ۔ مزید اقوال کے لئے دیکھئے ص : ۱۲۹۔
اعتراض نمبر ۱:
زئی صاحب لکھتے ہیں کہ عمامہ والی روایت (یعنی مغیرہ بن
شعبہ ؓ والی روایت ) عمامہ کے ساتھ ہی مختص ہے ، اسلئے منکرین ِمسح عمامہ کا اس سے
استدلال صحیح نہیں ہے ۔ (ہدایۃ
المسلمین :صفحہ ۱۴)
الجواب :
یہ اعتراض ہی مردود ہے ، کیوں کہ حدیث کا صحیح مطلب سب سے
زیادہ فقہاء کرام جانتے ہیں ۔ امام ترمذی
ؒ (م۲۷۹ھ) فرماتے ہیں کہ ’’كَذَلِكَ قَالَ
الفُقَهَاءُ وَهُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الحَدِيثِ‘‘ اسی طرح فقہاء
کہتے ہیں اور وہ حدیث کے معنیٰ کو سب سے زیادہ جانتے ہیں ۔ (سنن ترمذی :حدیث
نمبر ۹۹۰) اور چوتھائی مسح کے سلسلہ میں ہم نے اسی حدیث کے تحت ثقہ، صدوق فقہاء
کرام ؒ کے حوالے دئیے ہیں ، لہذا علی زئی صاحب کا اعتراض مردود ہے ۔
اور خود علی زئی صاحب ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ : نماز
کی حالت میں سلام اور اس کا جواب ، رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے ، اور آپ کی وفات کے
بعد صحابہ کرام ؓ سے بھی ۔۔۔۔ جب نماز میں سلام کا جواب جائزہے ، تو دورانِ خطبہ
بطریق اولیٰ سلام کا جواب جائز ہے ۔ (فتاویٰ علمیہ :جلد۱:صفحہ ۴۴۵) اسکین
ملاحظہ فرمائے
اہم نکتہ :
علی زئی صاحب کے نزدیک جب عمامہ والی روایت عمامہ کے ساتھ
ہی مختص ہے ، تو انہی کے اصول کے مطابق نماز میں سلام والی روایت بھی نماز پر ہی
مختص ہوگی ۔
لیکن افسوس ایسے دھوکہ تحقیق کے نام ہوتے ہیں، اور علی زئی
صاحب نے نماز کے دوران سلام والی روایت سے خطبہ کے دوران سلام کے مسئلہ میں بھی
استدلال کیا ۔
جب علی زئی صاحب کا اپنا استدلال ان کے نزدیک صحیح ہے ، تو ان
فقہاء و ائمہ جن کی عدالت پر محدثین کی گواہیاں موجود ہیں، ان کا مغیرہ بن شعبہ ؓ
کی روایت سے استدلال کیوں صحیح نہیں ہوسکتا، پھر محدثین نے صراحت بھی کی ہے کہ
فقہاء حدیث معنیٰ کو زیادہ جانتے ہیں۔ الغرض علی زئی کا یہ اعتراض باطل ومردود ہے
۔
نوٹ:
عمامہ پر مسح کے مسئلہ پر تفصیل آگے آرہی ہے ۔ [2]
اعتراض نمبر ۲:
رئیس ندوی سلفی صاحب لکھتے ہیں کہ :مفتی نذیری کی دونوں
مستدل حدیثوں میں صراحت ہے کہ آپ ﷺ نے مقدم سر کے مسح کے ساتھ عمامہ کا بھی مسح
کیا تھا۔ اگر صرف مقدم مسح کافی ہے ، تو
عمامہ پر مسح فعل عبث ہوا، خصوصاً اس صورت میں کہ مفتی نذیری عمامہ پر مسح ناجائز
مانتے ہیں ۔ (صحیح طریقہ نماز :صفحہ ۱۰۱)
الجواب:
مقدم سر ہمارے فقہاء کے نزدیک سر کا چوتھائی حصہ ہوتا ہے ۔ اس پر مسح کرنے سے فرض مقدار ادا ہوجاتی ہے ،
لیکن سنت پورے سر پر مسح کرنے سے ادا ہوتی ہے ۔ اس میں ہمارے علماء کا اختلاف
ہے۔بعض علماء نے کہا کہ یہاں نبی کریم ﷺ
نے چوتھائی سر پر مسح کیا، تاکہ فرضیت ادا ہوجائے اور باقی سر پر موجود عمامہ پر
بھی مسح کیا تاکہ سنت بھی ادا ہوجائے ، یہ قول شیخ الہند ؒ اور حافظ علامہ
انوار شاہ کشمیری ؒ وغیرہ کا ہے۔(العرف الشذی ، معارف السنن،دیکھئے ص ۱۲۸)
اور جمہور علماء کی رائےمیں چوتھائی سر پر مسح کے بعد عمامہ پر مسح جائز
ہے۔لیکن اس سے سنت ادا نہیں ہوگی۔ لہذا
رئیس صاحب کا احناف کے حوالہ سے اسے فعل عبث کہنا باطل ومردود ہے ۔
پھرجس صورت کی طرف رئیس
صاحب نے خاص طور سے اشارہ کیا، یعنی صرف
عمامہ کے مسح پر اتفاق کرنا اور سر کے مقدم حصہ پر مسح نہیں کرنا ،جیسا کہ غیر
مقلدین کا مذہب ہے، تو اس صورت کو صرف ہم
ہی ناجائز نہیں
کہتے ، بلکہ یہ حضورﷺ کے احادیث کے
بھی خلاف ہے۔جس کی تفصیل عمامہ پر مسح کے مسئلہ میں آرہی ہے۔
نیز، رئیس صاحب نے صفحہ ۱۰۲ پر صحیح بخاری سے حضرت
عبد اللہ بن زید ؓ کی روایت نقل کی ہے ، جس میں پورے سر کے مسح کا ذکر ہے اور اس
کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں سنت طریقہ کا ذکر ہے ، جس کے ہم بھی قائل ہیں۔
لیکن صحیح مسلم کی روایت میں آپ ﷺ نے صرف سر کے مقدم حصہ
پر ہی مسح کیا ، اگر پورے سر کا مسح فرض ہوتا تو
آپ ﷺ صرف مقدم حصہ پر کبھی اکتفاء نہیں کرتے ، لیکن آپ کا صرف سر کے مقدم
حصہ پر مسح کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اتنے حصہ پر مسح کرنے سے فرض ادا ہوجائے گا۔
لہذا اس مسئلہ غیر مقلدین کا ابن
زید ؓ کی روایت سے استدلال باطل ومردود ہے ۔
[1] حافظ ابو محمد عبد القادر القرشی ؒ (م ۷۷۵ھ)
آپ ؒ کو ’شیخ الاسلام ، الامام الجلیل ، العلامۃ المحقق ‘کہتے ہیں،
امام ذہبی ؒ صاحب ہدایہ کو ’’العَلاَّمَةُ،
عَالِمُ مَا وَرَاءَ النَّهْرِ،شیخ الحنفیۃ ، شیخ الاسلام‘‘ قرار دیتے ہیں، صلاح الدین الصفدی ؒ (م۷۶۴ھ) امام،شیخ الحنفیہ
مرغینانی ؒ کہتے ہیں ، (الجواھر المضیئۃ للقرشی :جلد ۱:صفحہ ۴، صفحہ ۳۸۳، تاریخ الاسلام :جلد
۱۲:صفحہ۱۰۰۲، سیر أعلام النبلاء :جلد۲۱:صفحہ ۲۳۲، جلد ۲۳:صفحہ ۱۱۳، الوافی
بالوفیات:جلد ۲۰:صفحہ ۱۶۵)
[2] دیکھئے ص :۱۱۸
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں