نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث , طلاقِ ثلاثہ کے وقوع پر احادیث سے دلیل

 

مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث

 طلاقِ ثلاثہ کے وقوع پر احادیث سے دلیل

ماخوذ  : مجلہ  راہ     ہدایت    شمارہ 24

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز


چھٹی حدیث

امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

            ’’ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یُوْنُسَ النِّسَائِیُّ اَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ حَدَّثَھُمْ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِدْرِیْسَ: حَدَّثَنِیْ عَمِّی مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ عَنِ ابْنِ السَّائِبِ عَنْ نَافِع بْنِ عُجَیْرٍ عَنْ رُکَانَۃَ بْنِ عَبْدِ یَزِیْدَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ ۔‘‘

            ترجمہ: محمد بن یونس نسائی اپنی سند سے نافع بن عجیر سے، وہ رکانہ بن عبد یزید سے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث بیان کرتے ہیں ۔ (شرح ابو داود:۲؍ ۶۸۲ترجمہ سعیدی )

            یہی حدیث سے مراد اس سے پہلے والی حدیث نمبر: ۲۲۰۶ ہے۔اس کا متن یہ ہے :

            ’’ نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ سے مروی ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو بتہ طلاق دے دی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور کہا : قسم اللہ کی! میں نے اس سے ایک ہی کا ارادہ کیا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ قسم سے! تو نے صرف ایک ہی کا ارادہ کیا تھا؟ رکانہ نے کہا: اللہ کی قسم ! میں نے صرف ایک ہی کا ارادہ کیا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بیوی کو اس پر لوٹا دیا۔ چنانچہ اس نے اس کو دوسری طلاق،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دَور میں اور تیسری طلاق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دَور میں دی ۔ ‘‘ (ابوداود ،باب فی البتۃ ترجمہ مولانا عمر فاروق سعیدی غیرمقلد)

اس حدیث کی تخریج میں حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ [حسن ] انظر الحدیث السابق ، واخرجہ الدارقطنی: ۴؍۳۳، والبیھقی : ۷؍۳۴۲ من حدیث ابی داود بہ۔‘‘

 ( تخریج ابوداود، حدیث : ۲۲۰۷)

 اعتراض :یہ حدیث ضعیف و مضطرب ہے ۔

            خواجہ محمد قاسم غیرمقلد لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے ضعیف اور مضطرب کہا ہے ۔

 علامہ ابن حزم ظاہری نے کہا کہ اس کے غیرمعروف راوی ہیں۔

 ( ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہوتی ہے صفحہ ۶۱،۶۲)

جواب:

             اضطراب تب مضر ہوتا ہے جب کسی روایت کو ترجیح نہ دی جا سکے۔محدثین بلکہ متعدد غیرمقلدین نے بھی اس اختلاف میں بتہ والی حدیث کو ترجیح دی ہے۔ حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔

 امام ابو داؤد رحمہ اللہ ۔( ابوداؤد ۱؍۳۰۱)

 امام خطابی رحمہ اللہ۔( معالم السنن للخطابی : ۲؍۲۸۹)

قاضی عیاض رحمہ اللہ ۔ (اکمال لمعلم : ۵؍۱۱)

امام نووی رحمہ اللہ۔(شرح مسلم : ۱؍ ۴۷۸،المجموع شرح المہذب : ۱۷؍۱۲۲)

 امام ابن الملقن رحمہ اللہ ۔ ( البدر المنیر : ۸؍۱۰۵)

 امام ابن عبد البر رحمہ اللہ۔( الاستذکار :۶؍۹)

             صاحب مستدرک امام حاکم نے طلاق بتہ والی حدیث امام شافعی رحمہ اللہ کی سند سے نقل کی اور کہا :

             ’’ قَدْ صَحَّ الْحَدِیْثُ بِھٰذِہِ الرِّوَایَۃِ فَاِنَّ الْاِمَامَ الشَّافِعِیَّ قَدْ اَتْقَنَہٗ وَحَفِظَہٗ عَنْ اَھْلِ بَیْتِہٖ ‘‘

( المستدرک علی الصحیحین : ۲؍۱۹۹)

            ترجمہ: طلاق بتہ والی حدیث امام شافعی کی اس سند کے ساتھ صحیح ہے کیوں کہ امام شافعی نے اس حدیث کو رکانہ کے افراد خانہ سے ضبط اور حفظ کیا ہے ۔

             مذکورہ بالا سب بزرگوں کی عبارات ہماری اسی کتاب کے باب: ۱۲ ، ”غیرمقلدین کے مزعومہ دلائل کا جائزہ‘‘ میں درج ہیں ۔

مولانا عبد الرحمن مبارک غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ وَذَکَرَ التِّرْمِذِیُّ اَیْضًا عَنِ الْبُخَارِیِّ اَنَّہٗ مُضْطَرَبٌ فِیْہِ تَارَۃً قِیْلَ فِیْہِ ثَلَاثًا وَّ تَارَۃً

قِیْلَ فِیْہِ وَاحِدَۃٌ وَاَصَحُّہٗ اَنَّہ طَلَّقَھَا الَبَتَۃَ وَاَنَّ الثَّلَاثَ ذُکِرَتْ فِیْہِ عَلَی الْمَعْنٰی ۔

 ( تحفۃ الاحوذی :۲؍۲۱۰)

            ترجمہ: اور ترمذی نے بخاری سے یہ بھی نقل کیا کہ بے شک اس میں اضطراب ہے کہ کبھی ’’ ثلاثا ‘‘ ، کبھی واحدۃ کہا گیا لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ انہوں نے بتہ طلاق دی تھی اور روایت بالمعنی کے طور پر تین کا ذِکر کیا گیا ہے۔

            اختلاف کی صورت میں جب حدیث بتہ کو ترجیح ہے تو اضطراب کا دعوی بے حیثیت ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے اس اختلاف کو اضطراب کا نام دینے کی نفی کردی۔ چنانچہ انہوں نے لکھا:

            ’’امام بخاری نے اسے اضطراب سے معلول قرار دیاہے حالاں کہ اس روایت میں کوئی بھی اضطراب نہیں۔ ‘‘

( توضیح الاحکام : ۱؍۵۹۷ )

            علی زئی صاحب نے یہ دعویٰ بھی کر دیاکہ صحیح سند والی حدیث کے متن میں اضطراب ہو ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

            ’’عرض ہے کہ اگر متن میں اضطراب ہے تو سند صحیح نہیں ہے اور اگر سند صحیح ہے تو متن میں اضطراب کہاں سے آگیا؟‘‘

 ( علمی مقالات :۲؍۳۹۴)

          تنبیہ :اختلاف و اضطراب کی بحث بھی علی سبیل التنزل ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ حدیث ِ رکانہ ثلاثا والی محدثین اور متعدد غیرمقلدین کی تصریح کے مطابق ضعیف ہے اور جب کہ حدیث ِرکانہ بتہ والی محدثین اور شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد کے ہاں صحیح ہے۔ صحیح اور ضعیف کا اختلاف ہو تو اسے اضطراب نہیں کہہ سکتے تب صحیح کے مقابلہ میں ضعیف قابل رَد ہوتی ہے۔

            خواجہ صاحب کا علامہ ابن حزم ظاہری سے نقل کرنا ’’ اس کے رواۃ مجہول ہیں ‘‘کچھ مفید نہیں۔ اس لیے کہ علماء جانتے ہیں کہ ابن حزم اس حوالہ سے بہت زیادہ متشدد ہیں۔ اُن کے متعلق یہ جملہ کتابوں میں درج ہے کہ حجاج کی تلوار اور ابن حزم کی زبان دونوں بہنیں ہیں۔ اُن کی شدت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے سنن ترمذی کے جامع امام ترمذی رحمہ اللہ کو بھی مجہول کہہ دیا ہے، سبحان اللہ ۔اور جب وہ موج میں آئے تو گانے کی حرمت والی حدیث ِ بخاری پر بھی ضعف کی چھاپ لگا دی۔ جیسا کہ آگے آ رہا ہے ، ان شاء اللہ ۔

            بندہ کا ’’اہلِ ظواہر اور غیرمقلدین ‘‘کے حوالہ سے اک مستقل رسالہ لکھنے کا ارادہ ہے۔ اس طرح کی باتیں اور دیگر کئی مفید ابحاث غیرمقلدین کے اعترافی حوالوں کے ساتھ اس میں شامل ہوں گی، ان شاء اللہ ۔

             بہرحال جو مصنف امام ترمذی جیسے معروفِ جہاں اور ثقہ محدث کو مجہول کہنے سے نہیں چوکے ،وہ اگر حدیث بتہ کے رُواۃ کو مجہول کہہ دیں تو اچھنبے کی بات نہیں۔ بہتر ہوگا کہ غیرمقلدین کے گھر کا حوالہ ہم پیش کردیں کہ حدیث ِبتہ کے رواۃ کو مجہول قرار دے کر حدیث کو رَد کر دینا غلط ہے۔

 اس حدیث کی تصحیح شیخ زبیر علی زئی غیر مقلدسے

            شیخ زبیر علی زئی غیر مقلد نے اس حدیث کی صحت پر بحث کرتے ہوئے نہ صرف اسے صحیح قرار دیا بلکہ اعتراضات کا جواب بھی دیا ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

            ’’ سنن ابی داؤد کے ہمارے نسخہ میں امام شافعی والی حدیث کا نمبر :۲۲۰۶ ہے۔ نیز دیکھئے مسند الشافعی ص ۱۵۳، ترتیب سنجر بن عبداللہ الناصری : ۱۲۷۹، ۱۲۸۰،الام ۷؍۱۷۴) اس کی سند حسن لذاتہٖ ہے، اسے ابوداود، ابن حبان، حاکم اور قرطبی نے صحیح کہا ہے۔ امام بخاری نے اسے اضطراب سے معلول قرار دیا ہے حالاں کہ اس روایت میں کوئی بھی اضطراب نہیں۔ حافظ ابن عبد البر نے بعض مجہول لوگوں سے ’’ ضعفوہ ‘‘ کا عندیہ دیا ہے۔ یہ ضعیف قرار دینے والے لوگ کون ہیں؟ہمیں معلوم نہیں۔ تفصیل میری کتاب نیل المقصود فی التعلیق علی سنن ابی داود (ج۲ ص ۵۶۲قلمی ) میں ہے۔ یسر اللّٰہ لنا طبعہ۔بعض لوگوں نے اس حدیث کے تین راویوں کو مجہول وغیرہ کہہ کر کلام کیا ہے جس کا جواب درج ذیل ہے : (۱)امام شافعی کے چچا محمد بن علی بن شافع ثقہ تھے۔ امام شافعی نے فرمایا: میرے چچا ثقہ ہیں۔ ( مسند الشافعی ص ۲۷۶، الام ۵؍۱۷۴) ابو داود نے ان کی حدیث کو صحیح کہا۔ (سنن الدارقطنی :۴؍۳۳ح ۳۹۳۳) حاکم نے کہا: وہ اپنے زمانے میں قریش کے شیخ تھے۔ (المستدرک للحاکم ۲؍۲۰۰، ح ۲۸۰۸) اور حاکم نے ان کی روایت کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ کیا۔ معلوم ہوا کہ محمد بن علی بن شافع ثقہ و صدوق تھے۔ (۲)عبد اللہ بن علی ابن السائب کے بارے میں امام شافعی نے فرمایا: ثقہ ( مسند الشافعی ص ۲۷۶، الام ۵؍۱۷۴) حافظ ابن حبان نے انہیں کتاب الثقات(۵؍۴۶۹) میں ذکر کیا۔ ابوداود نے ان کی بیان کردہ حدیث کو صحیح کہا جو کہ امام ابوداود کے نزدیک اُن کی توثیق ہے۔ تحریر تقریب التہذیب میں ہے : بل صدوق حسن الحدیث‘‘ (۲؍۲۴۱ت ۳۴۸۴) ابن خلفون نے انہیں کتاب الثقات میں ذکر کیا۔ ( ایضاً ص ۲۴۱)خلاصہ یہ کہ عبد اللہ بن علی ثقہ و صدوق تھے۔ (۳)نافع بن عجیر کو ابن حبان نے کتاب الثقات (۵؍۴۶۹)میں ذکر کیااور حاکم نے مستدرک (۳؍۲۱۱ح ۴۹۳۹) میں اور ابوداود نے اُن کی حدیث کو صحیح کہا۔ ابو القاسم البغوی، ابو نعیم الاصبہانی، ابو موسیٰ اور ابن حجر عسقلانی وغیرہم نے اُنہیں صحابہ میں ذکر کیا۔دیکھئے الاصابہ ( ۳ ؍ ۵۴۵ ت ۸۶۶۱) خلاصہ یہ کہ نافع بن عجیر یا تو صحابی تھے یا ثقہ و صدوق تابعی تھے،رحمہ اللہ۔ اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ اُن راویوں کو مجہول و مستور قرار دے کر اس حدیث کو رَد کر دینا غلط ہے۔‘‘

( توضیح الاحکام : ۱؍۵۹۷، ۵۹۸)

            خواجہ محمد قاسم غیرمقلد نے اس حدیث کے راویوں کی بابت تاثردیا کہ غیرمعروف ہیں مگر فرقہ غیرمقلدیت کے ذہبی زماں علی زئی صاحب نے اس حدیث کی سندپر بحث کرکے اعلان کر دیا :

            ’’ اُن راویوں کو مجہول و مستور قرار دے کر اس حدیث کو رَد کر دینا غلط ہے۔‘‘

            آگے بڑھنے سے پہلے جانتے چلیں کہ غیرمقلدین کے ہاں علی زئی صاحب کا حدیث اوراسماء الرجال میں کیا مقام ہے ؟

پروفیسر ڈاکٹر سہیل حسن غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ حافظ زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیقات میں یہ پہلو بہت واضح اور گہرا نظر آتا ہے کہ اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کے حوالے سے اس عصر کے امام تھے، روایت کی سند کی تحقیق کرتے ہوئے جس مہارت اور دقت سے رجال پر گفتگو کرتے ہیں وہ انہی کا خاص حصہ ہے۔ ‘‘

( ماہ نامہ اشاعت الحدیث ، اشاعت ِ خاص بیاد حافظ زبیر علی زئی صفحہ ۵۴)

 علامہ عبد الرشید عراقی غیرمقلد نے علی زئی صاحب کے متعلق لکھا:

            ’’ جملہ علوم اسلامیہ پر ان کی گہری نظر تھی اور بعض علوم خاص کر حدیث اور اسماء الرجال میں امامت کا درجہ رکھتے تھے ۔ ‘‘

( حوالہ مذکورہ صفحہ ۱۱۹)

حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد نے علی زئی صاحب کی بابت لکھا :

’’احادیث اور رجال ان کو کمپیوٹر کی طرح حفظ اوریاد تھے ۔ ‘‘

( حوالہ مذکورہ صفحہ ۴۰۱)

قیصر محمود طیبی غیرمقلد نے علی زئی کے بارے میں لکھا:

’’ علم رجال اور اخبار و انساب کے امام، علل حدیث کے ماہر تھے ۔ ‘‘

( حوالہ مذکورہ صفحہ ۴۲۴)

شیخ زبیر علی زئی نے ابو داود کی حدیث بتہ کو صحیح السند تسلیم کیا اور یوں بھی لکھا:

            ’’ امام شافعی نے فرمایا: اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک حدیث کی سند صحیح و متصل ثابت ہو جائے تو یہ سنت ہے ۔ ‘‘

( علمی مقالات : ۶؍۴۴۹)

             حاصل یہ ہوا کہ علی زئی صاحب کے نزدیک حدیث بتہ کا مضمون ’’سنت نبوی ‘‘ ہے ۔

            شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے سنن ابی داود کی حدیث کی سند کو حسن لذاتہ کہا۔اس حدیث سے اکٹھی تین طلاقوں کا واقع ہونا ثابت ہے۔ اور جو شخص سنن ابی داود کے خلاف قول لائے اس کا حکم غیرمقلدین کے امام علامہ وحید الزمان کی زبانی سن لیں۔ وہ لکھتے ہیں:

            ’’اگر زیادہ فرصت ہو تو اور کتابیں بھی دیکھیں جیسے جامع ترمذی، سنن ابی داود ،موطا، سنن نسائی، ابن ماجہ ۔اور جن مفسدوں کا قول ان کتابوں کے خلاف ہو ان کا قول انہی کے منہ پر پھینک ماریں اور ان کو نائب دجال سمجھیں کائنا من کان ۔ ‘‘

 ( رفع العاجۃ عن سنن ابن ماجۃ : ۳؍۳۹۱،مہتاب کمپنی لاہور )

            اس کتاب کے شروع میں ’’ تشریح وتصحیح : مولانا محمد سلیمان ... تصحیح ، نظرثانی ومقالات: شیخ الحدیث مولانا

محمد عبدہ الفلاح ‘‘ لکھا ہوا ہے ۔

یہاں مولانا عبد الجبار غزنوی غیرمقلد کی تحریر پڑھ لیں،وہ اپنے غیرمقلدین کے متعلق کہتے ہیں:

            ’’ ہمارے زمانہ میں ایک فرقہ نیا کھڑا ہوا ہے جو اتباع حدیث کا دعوی کرتا ہے اور در حقیقت وہ لوگ اتباع حدیث سے کنارے ہیں جو حدیثیں کہ سلف اور خلف کے ہاں معمول بہا ہیں ، ان کو ادنی سی قدح اور کمزورجرح پر مردود کہہ دیتے ہیں۔ ‘‘

 ( فتاویٰ علمائے حدیث : ۷؍۸۰، ناشر : مکتبہ اصحاب الحدیث لاہور )

            اَب سوال یہ ہے کہ کیا تین طلاقوں کے تین ہونے کی حدیثیں سلف و خلف میں مقبول نہیں رہیں؟ کیا غیرمقلدین انہیں ادنی قدح اور کمزور جرح کے بل بوتے نہیں ٹھکرا رہے ؟

غزنوی صاحب مزید کہتے ہیں:

            ’’ بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ جب ایک مسئلہ میں کوئی ایسی حدیث موجود نہ ہو جو صحیح کے اعلیٰ رتبہ کو پہنچے اور اگرچہ اس میں گونہ کمزوری بھی ہو اور اس پر امت کے سلف و خلف یا جمہور نے عمل بھی کیا ہو تو وہ حجت پکڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور واجب الاتباع ہے اوریہی ہے وہ قول جس پر اگلے پچھلے متفق ہیں ۔‘‘

( حوالہ مذکورہ )

            مگر حکیم محمد صفدر عثمانی وغیرہ غیرمقلدین سلفیت کے دعوے دار ہونے کے باوجود ایسی حدیث کو واجب الاتباع نہ سمجھیں تو کیا علاج ہے ؟

ساتویں حدیث

          اَخْبَرَنَا سُلَیْمَانُ بْنْ دَاوٗدَ عَنِ ابْنِ وَھْبٍ قَالَ: اَخْبَرَنَا مَخْرَمَۃُ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: سَمِعْتُ مَحْمُوْدَ بْنَ لَبِیْدٍ قَالَ اُخْبِرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہْ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَاَتَہٗ ثَلَاثَ تَطْلِِیْقَاتٍ جَمِیْعًا فَقَامَ غَضْبَانًا ثُمَّ قَالَ اَیُلْعَبُ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَ اَنَا بَیْنَ اَظْھُرِکُمْ حَتّٰی قَامَ رَجُلٌ وَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَلَا اَقْتُلُہٗ۔

( سنن النسائی : ۲؍۸۲، باب الثلاث المجموعۃ و مافیہ من التغلیظ ، حدیث :۳۴۳۰)

            ترجمہ: محمود بن لبید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے متعلق خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں دے دیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ کی وجہ سے کھڑے ہو گئے ۔ پھر فرمایا : کیا میری ہوتے ہوئے کتاب اللہ کے ساتھ کھیل کھیلا جارہا ہے ؟ یہاں تک کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا میں اسے قتل نہ کردوں ؟

حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر رحمہ اللہ اس حدیث کی بابت لکھتے ہیں:

            ’’ حافظ ابن القیم ؒ (المتوفی : ۷۵۱ھ) فرماتے ہیں اسنادہ علی شرط مسلم اھ ( زاد المعاد جلد ۴ صفحہ ۵۲) کہ اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور علامہ ماردینی ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بسند صحیح ہے ۔( الجوھر النقی جلد ۷ صفحہ ۳۳۳) حافظ ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں اسنادہ جید بحوالہ نیل الاوطار جلد ۶ صفحہ ۲۴۱) اور حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: رواتہ موثقون (بلوغ المرام صفحہ ۲۲۴،و مع سبل السلام جلد ۳ صفحہ ۲۱۲) اس صحیح روایت سے معلوم ہو اکہ دفعۃً تین طلاقیں دینا پسندیدہ امر نہیں ہے ۔ ورنہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نہ تو اس کاروائی پر سخت ناراض ہوتے اور نہ یہ ارشاد فرماتے کہ میری موجودگی میں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے ۔ ‘‘

 ( عمدۃ الاثاث صفحہ ۲۸)

حضرت مولانا منیر احمد دام ظلہ لکھتے ہیں:

            ’’ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں دینا حرام اور گناہ ہے لیکن واقع ہو جاتی ہیں ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قولاً و فعلاً غصہ کا اظہار نہ فرماتے یعنی غصہ سے نہ کھڑے ہوتے اور نہ یہ ناراضگی والے کلمات ارشاد فرماتے بلکہ آپ فرما تے کہ اکٹھی تین طلاقیں ایک ہوتی ہے لیکن یہ نہیں فرمایا ۔ ‘‘

 ( حرام کاری سے بچئے صفحہ ۸۴)

 اعتراض :یہ حدیث ضعیف ہے

 متعدد غیرمقلدین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ۔

رئیس محمد ندوی نے لکھا:

’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔‘‘ (سلفی تحقیقی جائزہ صفحہ ۵۲۰)

مزید درج ذیل کتب دیکھئے !

 حافظ عبد الغفور ۔(البیان المحکم صفحہ ۶۹)

مولانا عبد المنان نورپوری۔( احکام و مسائل :۲؍۴۸۵)

جواب:

             شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا اور جرح کا جچا تلا جواب بھی دے دیا چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

            ’’ [ اِسْنَادُہٗ صَحِیْحٌ]وَھُوَ فِی الْکُبْرٰی ح ۹۴۵۵، مَحْمُوْدٌ صَحَابِیٌّ وَاُعِلَّ الْحَدِیْثُ بِعِلَّۃٍ غَیْرُ قَادِحِۃٍ ،مَخَرَمَۃُ عَنْ اَبِیْہِ کِتَاب، وَالرِّوِایَۃُ عَنْ کِتَابٍ صَحِیْحَۃٌ اِذَا لَمْ یَثْبُتِ الْجَرْحُ فِیْہِ ۔‘‘

            ترجمہ :اس کی اسناد صحیح ہے اور یہ (سنن )کبری میں بھی ہے، حدیث :۹۴۵۵۔ محمود صحابی ہیں اورحدیث میں ایسی علت نکالی گئی ہے جو قادح نہیں۔ مخرمہ اپنے باپ کی کتاب سے روایت کرتے ہیں اور کتاب سے روایت کرنا صحیح ہے بشرطیکہ اس میں جرح ثابت نہ ہو۔

( سنن النسائی مترجم اردو :۵؍۲۸۸، حدیث : ۳۴۳۰م ترجمہ و فوائد حافظ محمد امین... تحقیق و تخریج حافظ ابو طاہر زبیر علی زئی... نظرثانی، تصحیح و تنقیح اور اضافات حافظ صلاح الدین یوسف )

            علی زئی صاحب کی اس عبارت میں یہ اعتراف بھی ہے کہ محمود بن لبید صحابی ہیں۔ علی زئی صاحب کے شاگرد محمد خرم شہزاد محمدی غیرمقلد نے بھی انہیں صحابہ کرام کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ’’ چند صحابہ کرام کی تاریخ ِ وفات ‘‘ عنوان کے تحت لکھا:

            ’’ ۸۸۔ محمود رضی اللہ عنہ بن لبید متوفی: ۹۶ ھ ۔‘‘

 (اصول حدیث و اصول ِ تخریج صفحہ ۲۸۸،مکتبۃ الحقیق و التخریج )

فائدہ:

مولانا ابو عمار عمر فاروق غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ جناب محمود بن لبید رضی اللہ عنہ صغار صحابہ میں سے ہیں ، بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد

ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول سے اپنے دہن مبارک میں پانی بھرا اورمجھ پرپھینکا تھا جب کہ میری عمر پانچ سال تھی۔

( صحیح بخاری ،العلم ،باب متی یصح سماع الصبی : ۷۷)‘‘ (حاشیہ: اصلاحات المحدثین صفحہ۵۴ ، دار البلاغ پبلشرز لاہور ، اشاعتِ اول: جون ؍۲۰۱۴ء )

            حالاں کہ صحیح بخاری کے اس مقام پرسیدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کا ذِکر ہے ، نہ کہ سیدنا محمود بن لبیدرضی اللہ عنہ کا۔

            بہرحال زیر ِ بحث حدیث صحیح ہے۔اس کے ساتھ ساتھ معترضین کو پتہ ہونا چاہیے کہ خود ان کے اپنے غیرمقلدین اس حدیث سے استدلال کیا کرتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاقیں دینا منع ہے ۔درج ذیل کتب دیکھئے !

 ( فتاوی نکاح و طلاق صفحہ ۳۳۶، اشاعت: جنوری ۲۰۰۶ء ، فقہ الحدیث پبلی کیشنز لاہور)

 (ایک مجلس تین طلاقیں ایک ہوتی ہے صفحہ۸۸،۴۳)

            یہاں مفتی عبید اللہ خان عفیف غیرمقلد کا طرز عمل بھی جانتے چلیں کہ انہوں نے مخالف کے دلائل کا جواب دیتے ہوئے اس حدیث کی بابت لکھا:

            ’’ حضرت محمود بن لبید عہدنبوی میں تولد ہوئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا سماع محل نظر ہے۔ امام ابن کثیر سرے سے حدیث کو منقطع ٹھہراتے ہوئے فرماتے ہیں: فیہ انقطاع،یہ روایت منقطع ہے۔ تفسیر ابن کثیر :ج۱ ص ۴۷۷۔‘‘

 (فتاوی محمدیہ صفحہ ۷۷۶)

            مگر اسی ’’فتاویٰ محمدیہ صفحہ ۸۱۲‘‘ میں اس حدیث کو اپنے دلائل میں شامل کر کیا۔یہاں حاشیہ میں اس حدیث کے متعلق مذکور ہے :

             ’’ رواتہ مؤثقون بلوغ المرام ( ص ۹۷) وقال ابن کثیر اسنادہ جید۔ ‘‘

 ( حاشیہ: فتاویٰ محمدیہ صفحہ ۸۱۲)

            ترجمہ :اس کے رواۃ کی توثیق کی گئی (بلوغ المرام ص ۹۷ )اور ابن کثیر نے کہا : اس کی سند جید ہے۔

             یہاں سارے راوی ثقہ شمار کر لئے گئے اور پہلے جس ابن کثیر کی زبانی اسے ضعیف باور کرایا تھا، اَب اسی سے اس کی سند کا جید ہونا نقل کردیا گیا۔ حاصل یہ کہ مخالف کے دلائل میں اسے ضعیف کہا اور جب خود کو ضرورت پڑی تو اس کو صحیح باور کراکے اس سے استدلال کر لیا۔

 اعتراض :۲، یہ حدیث اکٹھی تین طلاقوں کے وقوع کی دلیل نہیں

حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’ ’ اگر دفعۃً تین طلاقیں دینا حرام قطعی تھا اور غیر معتبر نہ تھا تو آپ نے خود اسے حرام، گناہ اور بدعت کیوں لکھا؟...اس حدیث سے تین طلاقوں کے واقعہ ہونے کی دلیل لینا قطعاً درست نہیں بلکہ خلاف ِحدیث ہے کیوں کہ جس فعل کو آپ کتاب اللہ سے کھیل کہہ رہے ہیں، اسے نافذ کیسے فرما سکتے ہیں۔‘‘

(احسن الابحاث صفحہ ۳۱،۳۲)

جواب:

 حکیم صاحب کہتے ہیں:

            ’’اگر دفعۃً تین طلاقیں دینا حرام قطعی تھا... تو آپ نے خود اسے حرام، گناہ اور بدعت کیوں لکھا؟‘‘

            حکیم صاحب ! اکٹھی تین طلاقیں دینا حرام تھا اور مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے بھی حرام لکھا ، آپ کواس میں کیا اشکال ہے ؟

            باقی رہا آپ کا یہ اصول بنا لینا کہ چوں کہ اکٹھی تین طلاقیں دینے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے اوراسے کتاب اللہ سے کھیل قرار دیا، اس لیے یہ واقع نہیں ہونی چاہئیں۔

            عرض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حالت ِ حیض میں طلاق دینے سے بھی منع کیا۔مولانا صفی الرحمن مبارک پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اوریہ ناراضگی ایام حیض میں طلاق دینے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔ ‘‘

( اتحاف الکرام شرح بلوغ المرام اردو :۲؍۶۹۷، مترجم مولانا عبد الوکیل علوی ، دار السلام لاہور)

             مگراس کے باوجود حکیم صاحب سمیت غیرمقلدین کی اکثریت کے ہاں حالتِ حیض میں دی جانے والی طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔

حافظ محمد امین غیرمقلد نے زیر بحث حدیث ( حدیث محمود بن لبید )کے تحت لکھا:

            ’’اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین طلاقیں اکٹھی دینا خلاف شرع اوربدعت ہے ... اگر حیض کی طلاق کو حرام اور بدعت کہا جاسکتا ہے تو اس کو کیوں نہیں؟ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں مقامات پر ناراضی کا اظہار فرمایا ہے ۔ ‘‘

(ترجمہ و فوائد :سنن النسائی مترجم اردوصفحہ ۲۸۹، نظرثانی ، تصحیح و تنقیح اور اضافات حافظ صلاح الدین یوسف )

             جناب ! آپ کیا کہنا چاہتے ہیں یہی کہ جب اکٹھی تین طلاقیں دینا حرام ہیں تو واقع کیوں ہوتی ہیں ؟ یہی سوال آپ لوگوں سے ہے جب حالت حیض میں دی جانے والی طلاق گناہ، بدعت اور حرام ہے اور غیرمقلدین کے مذکورہ بالا حوالوں کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی طلاق پرناراض بھی ہوئے ،تو یہ طلاق کیوں واقع مانتے ہو ؟کیا حالتِ حیض میں طلاق دینا کتاب اللہ سے کھیل نہیں؟اگر ہے تو ایسی طلاق واقع کیوں ہو جاتی ہے؟حالتِ حیض میں دی گئی طلاق کا وقوع امین صاحب بھی مانتے ہیں۔(ترجمہ و فوائد :سنن النسائی مترجم اردوصفحہ ۵؍ ۲۸۸،۲۸۲،۸۱ ۲، نظرثانی ، تصحیح و تنقیح اور اضافات حافظ صلاح الدین یوسف )

             بدعی طلاقوں کے وقوع پرغیرمقلدین کے بہت سے حوالے ہماری اسی کتاب کے باب:غیر شرعی ؍ بدعی طلاقوں کا وقوع غیرمقلدین کی زبانی ‘‘ میں منقول ہیں۔

            جناب ! دو الگ الگ مسئلے ہیں ایک ہے اکٹھی تین طلاقوں کا دینا ،یہ منع ہے اور دوسرا یہ کہ اگر کوئی ممنوع ہونے کے باوجود تینوں دے چھوڑے تو واقع ہو جاتی ہیں اور یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ بدعی طلاقیں دینا از راہ شرع ممنوع ہیں، مگر غیرمقلدین کے اکثری طبقہ کے نزدیک یہ واقع ہوجاتی ہیں۔ ہاں صرف اکٹھی تین طلاقوں کے وقوع کا استثناء کر لیتے ہیں جب کہ یہ بھی بدعی طلاقوں میں شامل ہے ۔

 آٹھویں حدیث

            سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حیض کی حالت میں بیوی کو ایک طلاق دی پھر ارادہ کیا کہ باقی دو

طلاقیں بھی باقی دو حیض (یا طہر ) کے وقت دے دیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تواُن سے فرمایا :تجھے اللہ نے اس طرح کرنے کا حکم تو نہیں دیا تو نے سنت کی خلاف ورزی کی۔سنت تو یہ ہے کہ جب طہر کا زمانہ ہو تو ہر طہر میں اسے ایک طلاق دو ۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رجوع کرنے کا حکم دیا،چنانچہ میں نے رجوع کر لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: جب وہ طہر کے زمانہ میں داخل ہو تو اس کو طلاق دے دینا اور چاہو تو بیوی بنا کر رکھ لینا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:

             فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَرَأَیْتَ لَوْ اَنِّیْ طَلَّقْتُھَا ثَلَاثًا کاَنَ لِیْ اَنْ اُرَاجِعَھَا قَالَ لَا کَانَتْ تَبِیْنُ مِنْکَ وَتَکُوْنُ مَعْصِیَۃً۔

( سنن الکبری :۷؍۲۳۴، دار قطنی :۲؍۴۳۸)

             ترجمہ: میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول!بتائیے ! اگر میں اسے تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لیے اس سے رجوع کرنا حلال ہوتا؟ فرمایا: نہیں۔ وہ تجھ سے جدا ہوجاتی اور ایسا کرنا گناہ ہوتا ۔

            اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاقیں دے چکنے کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مذکورہ حدیث میں الفاظِ نبوی ’’ تَبِیْنُ مِنْکَ‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ تین طلاقیں دینے کے بعد بیوی بائنہ ہوجاتی ہے۔ یہاں غیرمقلدین یہ تاویل بھی نہیں کر سکتے کہ چوں کہ حالتِ حیض میں طلاق دینا منع ہے اس لئے اسے معصیت ؍ گناہ قرار دیاگیا۔ اگر وہ محض اسی وجہ کوگناہ تصور کرتے ہیں تو ’’ تَبِیْنُ مِنْکََ‘‘کے خلاف جاتا ہے ،اس لئے کہ غیرمقلدین کے ہاں ایک مجلس کی تین طلاقیں حالتِ حیض میں ہوں یا طہر میں ایک رجعی طلاق کے حکم میں ہیں نہ کہ طلاق بائن۔جب کہ اس حدیث میں ہے کہ تین طلاقیں دینے کی صورت میں عورت بائنہ ہو جائے گی۔ مزید یہ کہ اگر گناہ کی وجہ حالتِ حیض میں طلاق دینا قرار دیں ۔تو اس کے ساتھ گناہ کی وجہ اکٹھی تین طلاقیں دینا بھی ہے۔بلکہ اکٹھی تین طلاقیں دینا حالتِ حیض میں طلاق دینے کی بہ نسبت زیادہ عتاب کا باعث ہے جیسا کہ آگے حدیث : کے تحت ہم اس پر دلیل پیش کریں گے ان شاء اللہ ۔

            حاصل یہ کہ اس حدیث میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کے تین واقع ہونے کا مضمون ہے جیسا کہ مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:

            ’’یہ اثر اگر صحیح ثابت ہوجاتا تو قطع نزاع کے کا م آ سکتا تھا، مگر مشکل یہ ہے کہ یہ اثر انتہائی مجروح ہے۔ ‘‘

 ( ایک مجلس کی تین طلاقیں اوراُن کا شرعی حل صفحہ۶۳)

            کیلانی صاحب کی اس عبارت میں اعتراف ہے کہ اگریہ حدیث صحیح ہوتی تواختلاف کو ختم کرنے کے لئے فیصلہ کن ہے۔عرض ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اس پر جو اعتراضات ہیں اس کے جوابات مع غیرمقلدین کی تائیدات آئندہ سطور میں ملاحظہ ہوں۔

حدیث کی سند پر اعتراضات کا جائز ہ

 اعتراض: ۱…… اس کی سند میں شعیب بن رزیق راوی ضعیف ہے۔

خواجہ محمد قاسم غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ اس کے راوی صرف شعیب بن رزیق ہیں جنہیں محدثین نے ضعیف کہاہے۔‘‘

(ایک مجلس تین طلاقیں ایک ہوتی ہے صفحہ۱۲۴)

            حافظ عبد الغفور غیرمقلد (خطیب مسجد مبارک اہلِ حدیث فاروقہ سرگودھا )نے مولانا شمس الحق عظیم آبادی کی کتاب’’ التعلیق المغنی :۴؍۳۶ ‘‘ سے نقل کیا کہ اس کی سندمیں شعیب بن رزیق ہے اور وہ ضعیف ہے۔ ‘‘

( البیان المحکم صفحہ ۷۰،ناشر: اہلِ حدیث یوتھ فورس ضلع سرگودھا ، سن اشاعت: مارچ ؍۲۰۰۸ء)

 جواب:

            خواجہ صاحب نے محدثین کی طرف نسبت تو کردی مگر یہ نہیں بتایاکہ وہ کون ہیں اور ان کی جرح کس کتاب میں ہے۔ خواجہ صاحب تو متاخرین کے ایک فرد ہیں اگر متقدمین میں سے کوئی بزرگ یہ بات کہتے تو بھی بہ اعتراف غیرمقلدین معتبر نہ ہوتی۔ چنانچہ شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’حافظ ابن عبد البر نے بعض مجہول لوگوں سے ’’ ضعفوہ ‘‘ کا عندیہ دیا ہے۔ یہ ضعیف قرار دینے والے لوگ کون ہیں ؟ہمیں معلوم نہیں ۔‘‘

( توضیح الاحکام : ۱؍۵۹۷ )

علی زئی صاحب نے لکھا:

            ’’ ابن ابی حاتم کا قول ’ ’ تکلموا فیہ ‘‘ کئی لحاظ سے مردود ہے ...یہ جرح غیرمفسر ہے ...

اس کا جارح نامعلوم ہے ۔ ‘‘

( نور العینین صفحہ ۸۸)

مولانا عبد الرحمن مبارک پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ جارح مجہول کی جرح غیر معتبر و نامقبول ہے ۔ ‘‘

 ( تحقیق الکلام صفحہ ۱؍۶۳)

مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ امام دار قطنی نے اگر ’’ لینوہ ‘‘ کہا ہے تو اس کولین کہنے والے مجہول ہیں، لہذا اس کا کوئی اعتبار نہیں ۔ ‘‘

 (توضیح الکلام :۱؍۵۳۴)

اثری صاحب نے مزید لکھا:

’’ اگر جار ح مجہول ہے تو اہلِ علم نے جرح کو قبول نہیں کیا ۔ ‘‘

( حوالہ مذکورہ )

            عبد الغفور صاحب نے شعیب بن رزیق کی بابت ’’ضعیف ‘‘ ہونے کا تاثر تو دیا مگرکسی محدث سے جرح نقل نہیں کی ۔عرض ہے کہ ابو الفتح اَزدی کو اس کا جارح بتایا گیا ۔

حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب نے شعیب بن رزیق کے متعلق لکھا:

            ’’ائمہ جرح و تعدیل میں سے کسی نے ان کی تضعیف نہیں کی ،ہاں ابو الفتح ازدی نے بے شک ان کو ’’ لین ‘‘ کہا مگر یہ بہت نرم جرح اور کمزور جرح ہے ، علاوہ بریں ابو الفتح کی جرحیں بالکل ناقابل اعتبار ہیں اولاً:اس لئے کہ وہ خود ضعیف و صاحب مناکیر و غیر مرضی ہیں ۔ ثانیاً: وہ بے سند و بے وجہ جرح کیا کرتے ہیں جیسا کہ حافظ ذہبی میزان الاعتدال (جلد ۱صفحہ ۴) اور (جلد ۳صفحہ ۴۶) میں حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب جلد اول ترجمہ احمد بن شعیب میں لکھا ہے۔‘‘

 ( الاعلام المرفوعۃ صفحہ ۱۴)

             حضرت اعظمی صاحب نے دو باتیں فرمائیں :۱۔ جارح ازدی خود ہی غیر معتبر ہے ۔۲۔ لین نرم اور انتہائی

کمزور جرح ہے اور یہ دونوں باتیں غیرمقلدین کو بھی تسلیم ہیں۔

             غیرمقلدین نے اعتراف کیا کہ اَزدی کی جرح کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ وہ خود ہی ضعیف و متروک ہے ۔

محمد ابراہیم بن بشیر الحسینوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ جرح کرنے والا اگر خود ضعیف ہے تو اس کی جرح قبول نہیں کی جائے گی : اَزدی خود ضعیف ہے ، اس نے کسی راوی پر جرح کی تو اس پر تعلیق لکھتے ہوئے حافظ ذہبی فرماتے ہیں: ھذہ مجازفۃ لیت الازدی عرف ضعف نفسہ۔‘‘ یہ ظلم ہے ۔ کاش ازدی اپنے ضعف کو پہچانتے ۔ اسی طرح کچھ اور ضعیف راوی ہیں جو جرح و تعدیل کے لحاظ سے رواۃ پر حکم لگاتے ہیں ، نہ ان کی جرح قبول ہے اور نہ ہی توثیق ۔ ‘‘

( جرح و تعدیل کے اصول و ضوابط صفحہ ۴۳، ناشر: دار ابن بشیر للنشر والتوزیع)

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ محمد بن الحسین الازدی بذات ِ خود ضعیف ہے۔‘‘

( علمی مقالات :۳؍۲۵۴)

علی زئی صاحب لکھتے ہیں:

’’ ابو زرعہ الرازی کے مقابلے میں ازدی بذا ت خود ضعیف و مجروح کی جرح مردود ہے ۔ ‘‘

 (علمی مقالات : ۳؍۴۹۷)

علی زئی صاحب نے مزید لکھا :

’’ ازدی ضعیف و متروک۔‘‘

( علمی مقالات : ۵؍۱۹)

علی زئی صاحب نے دوسری جگہ لکھا:

’’ ازدی بذات ِ خود ضعیف ،متروک بلکہ سخت مجروح ہے ۔‘‘

 ( علمی مقالات : ۵؍۲۹)

مولانا ابو القاسم سیف بنارسی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ جی جناب! ازدی تو خود ضعیف ہے ،لہذا کسی دوسرے کے متعلق اس کی جرح کیوں کر

احاطہ قبول میں آگے گی ؟ اَزدی کی جرح غیرمقبول ہونے کی بہ نسبت ہم بہت بسط سے اپنے رسالہ ’’العرجون القدیم ‘‘(ص :۵۶) میں لکھ چکے ہیں۔ نیز اس کی کچھ تفصیل ... عبد الحمید بن ابی اویس کی جرح کے جواب میں آگے گی ۔یہاں پر مختصر یہ کہ حافظ ابن حجر ’’ ہدی الساری ‘‘ میں لکھتے ہیں ...لَا عِبْرَۃَ بِقَوْلِ الْاَزْدِیْ لِاَنَّہٗ ھُوَ ضَعِیْفٌ ، فَکَیْفَ یُعْتَمَدُ فِیْ تَضْعِیْفِ الثِّقَاتِ... نہ  ازدی کے قول کا (جرح میں کچھ ) اعتبار ہے ، اس لئے کہ ازدی بذات ِ خود ضعیف ہے ، پس ثقات کی تضعیف میں کیو ں کر اس پر اعتماد کیا جائے گا؟‘‘

( دفاع صحیح بخاری صفحہ۴۴۰)

بنارسی صاحب لکھتے ہیں:

’’سناکہ نہیں جناب! اور ہم احمد بن شبیب کے بیان میں لکھ آئے ہیں کہ ازدی خود ضعیف ہے ،لہذا ثقات کے حق میں اس کی تضعیف قطعاً مقبول نہیں ، نیز ہم عبد الحمید کے بیان میں بالتفصیل بتلادیں گے کہ ثقات کی تضعیف کرنا ازدی کی عادت ہے ،لہذا اس کی جرح کبھی مقبول نہیں ہو سکتی ۔‘‘

 ( دفاع صحیح بخاری صفحہ۴۴۵)

بنارسی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’یہاں پر اسی ازدی کی جرح ہے ،جو غیر مقبول ہے ...دیکھئے ! ازدی کی جرح نامقبول ہونے کی بابت ہم کس قدر عبارتیں لکھتے جاتے ہیں ،ان کو یاد رکھئے گا، باقی ہم عبد الحمید کے بیان میں پیش کریں گے ،ان شاء اللہ ۔‘‘

( دفاع صحیح بخاری صفحہ۴۴۸)

بنارسی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ازدی کی بابت بارہا مختلف عبارت کے ساتھ لکھا گیاہے کہ یہ خود ضعیف ہے۔ لہذا اس کی جرح کسی کے حق میں مقبول نہیں، خصوصا جب یہ متفرد ہو۔ ‘‘

( دفاع صحیح بخاری صفحہ۴۶۷)

بنارسی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’باقی رہا عبد الحمید پر ابو الفتح ازدی کا جرح کرنا اور اس کو واضع الحدیث کہنا، یہ ازدی کی

بڑی سخت غلطی ہے، اسی واسطے حافظ المغرب ابو عمر ابن عبد البر مالکی نے کہا ہے : ان ھذا القول من الازدی رجم بالظن الفاسد و کذب محض‘‘ انتھی( ھدی الساری :۴۱۶) یعنی ازدی کا ایسا کہنا تہمت اور نرا جھوٹ ہے۔ ‘‘ اور آپ نے اسی میزان میں ذرا سا آگے نہیں دیکھ لیا۔حافظ ذہبی لکھتے ہیں: ’’ وھذا من الازدی زلۃ قبیحۃ‘‘ انتھی یعنی ازدی سے بڑی لغزش ہوئی ہے اور ابو الفتح ازدی بڑے متشددین میں سے ہیں،حافظ ذہبی نے میزان میں بذیل ترجمہ ابان بن اسحاق المدنی لکھا ہے : قال ابوالفتح الازدی متروک، اس کے بعد لکھا ہے : قلت لایترک فقد وثقہ احمد العجلی ، وابو الفتح یسرف فی الجرح ، ولہ مصنف کبیر الی الغایۃ فی المجروحین، جمع فاوعی، وجرح خلقا بنفسہ، لم یسبقہ احد الی التکلم فیھم وھو المتکلم فیہ ‘‘ انتھی ( میزان الاعتدلال :۱؍۵) یعنی ابان بن اسحاق کو ازدی نے متروک کہہ دیا ،حالاں کہ وہ متروک نہیں ہے ، بلکہ عجلی نے اس کو ثقہ کہا (پس ) ازدی جرح میں بہت زیادتی کرتا ہے ، اس کی ایک بڑی ضخیم کتاب ہے اس میں جھوٹ موٹ ثقہ راویوں کو مجروح کرتا گیا ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ یہ ازدی کی عادت کی وجہ سے ہے کہ اس نے عبدالحمید کو واضع الحدیث کہہ دیا، حالاں کہ یہ ازدی خود سخت ضعیف ہے۔ حافظ ذہبی میزان میں ابو الفتح ازدی کے ترجمہ میں فرماتے ہیں: ’’ محمد بن الحسین ابو الفتح بن یزید الازدی الموصلی الحافظ ولہ کتاب کبیر فی الجرح والضعفاء، فیہ مؤاخذات، ضعفہ البرقانی، وقال ابو النجیب عبد الغار:رأیت اھل الموصل یوھنون ابا الفتح ، ولا یعدونہ شیئا، وقال الخطیب: فی حدیثہ مناکیر، ‘‘ انتھی(میزان الاعتدال:۳؍۵۲۳) یعنی ابو الفتح ازدی کو برقانی نے ضعیف کہا ہے ، اور کل ان کے شہر والے اہل ِ موصل ان کو کچھ شمار نہیں کرتے اور خطیب بغدادی نے ان کی حدیثوں کو منکر کہا ہے۔‘‘ اور حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں بذیل ترجمہ احمد بن شبیب البصری کہا ہے کہ الازدی غیر مرضی۔ (تہذیب التہذیب : ۱؍۳۱)اب لیجئے !ازدی خود ضعیف ٹھہرے اور جرح میں ان کا مشدد ہونا ثابت ہوا۔ پس ازدی کا عبد الحمید بن ابی اویس پر کلام کرنا غلط و باطل ثابت ہوا۔ ‘‘

 ( دفاع صحیح بخاری صفحہ۹۱۰،۹۱۱)

             ازدی کی جرح اور ان کی اپنی حیثیت ملاحظہ کر لینے کے بعدیوں بھی غور کریں کہ انہوں نے          شعیب

 بن رزیق کے متعلق ’’ لین ‘‘کہاہے ۔اور’’ لین ‘‘جرح کی کیا حیثیت ہے یہ بھی غیرمقلدین کی زبانی ملاحظہ ہو

 مولانا ابو القاسم سیف بنارسی غیرمقلد لکھتے ہیں:

             ’’دوم :محمد بن صلت میں جو جرح ’’ فیہ لین ‘‘ کی گئی ہے ، وہ ایسی جرح ہے جس کو محدثین ہی جانتے ہیں کیوں کہ جرح غیر مفسر ہے، جو غیرمقبول ہے جس کی تفصیل تمہید کتاب میں گزر چکی ہے۔سوم: اس کو سرے سے جرح ہی نہیں کہہ سکتے کما لایخفی علی ماھر الاصول ۔‘‘

 ( دفاع صحیح بخاری صفحہ۶۲۷)

دفاع ِ صحیح بخاری کے حاشیہ میں لکھا ہے:

’’ لین الحدیث :یہ خفیف جرح ہے ، یہ بھی کسی راوی کے صدوق ہونے کے منافی نہیں۔‘‘

(حاشیہ: دفاع صحیح بخاری صفحہ ۵۴۴)

حاشیہ میں مزید لکھا ہے:

            ’’لین الحدیث یا فیہ لین جرح کا سب سے ہلکا اور اولین درجہ ہے ، مراتب جرح کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ان الفاظ کی بابت امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں واذا اجابو فی الرجل بلین الحدیث، فھو ممن یکتب حدیثہ و ینظر فیہ اعتبارا ‘‘ اسی طرح امام ذہبی ، حافظ عراقی ، حافظ ابن حجر اور حافظ سخاوی رحمۃ اللہ علیہم نے اسے جرح کو ہلکا اور اولین درجہ قرار دیا۔ ‘‘

 (حاشیہ: دفاع صحیح بخاری صفحہ۶۲۸)

مولانا نذیر احمد رحمانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ محدثین نے ’’ فیہ لین ‘‘ اور’’ لین الحدیث ‘‘ کو ہلکے اور معمولی درجہ کے الفاظ جرح میں شمار کیا ہے ۔ ‘‘

(انوار المصابیح صفحہ ۱۱۵)

 رحمانی صاحب نے مزید لکھا:

            ’’ معلوم ہوا کہ جس راوی کے متعلق ’’ فیہ لین ‘‘ یا ’’ لین الحدیث ‘‘ کہا ہو اس کی روایت

قابل طرح و ترک نہیں ہے ۔‘‘

( حوالہ مذکورہ )

مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ اصطلاحاً ’’ لین الحدیث ‘‘ کے یہ معنی قطعاً نہیں کہ وہ حدیث میں ضعیف ہے ۔ ‘‘

( تنقیح الکلام صفحہ ۱۵۴،ناشر: ادارۃ العلوم الاثریۃ فیصل آباد ، تاریخ ِ اشاعت: ستمبر؍۲۰۰۴)

اعتراض: ۲……شعیب بن رزیق کو علامہ ابن حزم نے ضعیف کہا ہے ۔

            یہ بھی کہا گیا کہ شعیب بن رزیق کو علامہ ابن حزم نے بھی ضعیف کہا ہے۔ علامہ ابن حزم ظاہری کی جرح کی کیا حیثیت ہے خود غیرمقلدین کی زبانی سن لیں ۔

 شیخ محمد ابراہیم بن بشیر الحسینوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ابن حزم کا تشدد اور شذوذ معروف ہے ،لہذا ان کی بات قابل التفات نہیں ۔ ‘‘

 ( جرح و تعدیل کے اصول و ضوابط صفحہ ۴۲،ناشر: دار ابن بشیر للنشر و التوزیع )

مولانا ابو القاسم سیف بنارسی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ ابن حزم نے ان کی تضعیف میں زیادتی سے کام لیا ہے، نہ تو ان کے پاس اس کی کوئی وجہ ہے ، نہ ان میں کوئی ان کامؤید ہے ، بلکہ وہ نقد رجال میں ذر ا عجلت کر جاتے ہیں ، اسی وجہ سے حافظ ابن حجر نے اس پر تعاقب کیا چنانچہ تہذیب التہذیب میں ارقام فرماتے ہیں: وضعفہ ابومحمد بن حزم فاخطاء لانا لا نعلم لہ سلفا فی تضعیفہ ‘‘ انتھی یعنی ابن حزم نے ان کی

تضعیف میں خطا کی ہے ، کیوں کہ سلف میں کوئی اس کا قائل نہیں ہوا۔ ‘‘

(دفاع صحیح بخاری صفحہ ۶۴۳)

بنارسی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ ابن حزم کی جرح کی بابت گزرا کہ یہ جرح میں عجلت کر جاتے ہیں اور زیادتی سے کام لیتے ہیں ، اسی لئے محدثین کے یہاں ان کی جرح بحالت متفرد ہونے کے محل نظر رہتی ہے ، بلکہ اکثر غیر قابل قبول ہوتی ہے۔ ‘‘

( دفاع صحیح بخاری صفحہ ۶۵۵)

 مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’محلی ابن حزم کے دیکھنے کا اتفاق ہوا تو کیا دیکھتا ہوں ، اس نے اس مسئلہ میں انا ولا غیری کا ہڑبم بپا رکھا ہے جیسے اس کی عادت ہے ، او ر اپنی عادت سے مجبور بھی ہے ۔‘‘

 ( فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۳۵۰)

مولانا عبد الحق نوناری( المعروف ہاشمی) غیرمقلد نے علامہ ابن حزم ظاہری کے متعلق لکھا:

            ’’ اباح الغناء وبالغ فیہ حتی ضعف حدیث البخاری فی حرمۃ الغناء وادعی انہ منقطع وھو ما رواہ البخاری فی الاشربۃ من حدیث ابی عامر او ابی مالک الاشعری عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لیکونن فی امتی اقوام یستحلون الحر وا لحریرو الخمر و المعازف۔‘‘

(رسائل مولانا عبد الحق صفحہ۵۸)

            ترجمہ: انہوں نے گانے کو جائز قرار دیا اور اس میں مبالغہ سے کام لیا یہاں تک کہ گانے کی حرمت والی حدیث بخاری کو ضعیف کہہ دیا اور دعوی کیاکہ یہ منقطع ہے ۔یہ حدیث وہ ہے جسے بخاری نے کتاب الاشربۃ میں ابو عامر یا ابو مالک اشعری سے روایت کیا ہے ، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ آپ نے فرمایا : میری امت میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو ریشم، شراب، گانے باجے کے آلات کو حلال قرار دیں گے ۔

            علامہ ابن حزم نے بخاری کی جس حدیث کو ضعیف کہاہے یہ بخاری : ۲؍۸۳۷، کتاب الاشربہ ، باب:

ماجاء فیمن یستحل الخمر ویسمیہ بغیر اسمہٖ میں ہے ۔

مولانا ابو القاسم سیف بنارسی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ اس حدیث کی بابت اب تک کسی نے کوئی اعتراض بھی نہیں کیا سوائے ابن حزم کے کہ انہوں نے غلطی سے اس تعلیق بخاری کو انقطاع سمجھ لیا تھا، اس کا جواب حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں دیا ہے : ھذا الذی قالہ خطأ نشاء عن عدم تامل۔‘‘ (فتح الباری :۱۰؍۵۲) یعنی ابن حزم نے جو اس کو منقطع کہاہے، اس میں ان سے بوجہ عدم تامل خطا ہو گئی ہے۔اور علامہ عینی نے فرمایا : ’’ وھم ابن حزم فی ھذا (۱۰؍۹۲) یعنی اس دعویٰ انقطاع میں ابن حزم کو وہم ہو گیا ہے ۔ اور قاضی شوکانی نے فرمایا : اخطأ ابن حزم فی دعوی الانقطاع من وجوہ۔ یعنی ابن حزم نے جو اس حدیث کے منقطع ہونے کادعوی کیا ہے اس میں کئی وجہوں سے خطاء کی ہے۔ (نیل : ۷؍۳۱۴)معلوم ہوا کہ تعلیق مذکور منقطع نہیں بلکہ متصل ہے ۔ ‘‘

( دفاع صحیح بخاری صفحہ ۱۸۸،۱۸۹)

علامہ ابن حزم ظاہری کی جرح کو اُن کے اپنے زاویہ سے بھی دیکھ لیتے ہیں، انہوں نے کہا:

            ’’ وَاِذَا وَرَدَ حَدِیْثٌ مُرْسَلٌ اَوْ فِیْ اَحَدِ نَاقِلِیْہِ ضُعْفٌ فَوَجَدْنَا ذٰلِکَ الْحَدِیْثَ مُجْمَعًا عَلٰی اَخْذِہٖ وَالْقَوْلُ بِہٖ عَلِمْنَا یَقِیْنًا اَنَّہٗ حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ لَا شَکَّ فِیْہِ۔‘‘

 (توجیہ النظر الی اصول الاثر صفحہ ۵۰، طبع مصر )

            ترجمہ: اور جب کوئی حدیث مرسل ہو یا اس کے راویوں میں سے کسی میں ضعف ہو، پھر ہم نے پایا کہ اس حدیث کے لینے اور اس پہ عمل کرنے پر اجماع ہے تو ہم یقینی طور پہ جان لیں گے کہ وہ صحیح حدیث ہے جس میں کوئی شک نہیں ۔

             تین طلاقوں کے تین ہونے پہ امت کا اجماع رہا ہے۔ ہماری اسی کتاب میں ایک باب: .....قائم ہے جس میں محدثین اور بعض غیرمقلدین کے حوالے اس مسئلہ کے اجماعی ہونے پہ منقول ہیں۔

فائدہ:

            شعیب بن رزیق کو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ثقہ کہا ،امام ابن حبان رحمہ اللہ نے انہیں ثقات میں لکھا مگر

عطاء خراسانی کے طریق میں کلام کیا۔ محدث وحیم فرماتے ہیں لا باس بہٖ تھے ۔

(میزان :۱؍۴۴۷، تہذیب التہذیب :۴؍۳۵۳)

یہاں امام ابن حبان رحمہ اللہ کے کلام کو نقل کرنے کامقصد یہ ہے کہ شعیب مجہول نہیں۔

اعتراض: ۳……اس کی سند کے راوی معلی بن منصور جھوٹے ہیں ۔

            زیر بحث حدیث کی سند کے ایک راوی معلی بن منصور ہیں ۔ مولانا امین محمدی غیرمقلد اُن کے متعلق کہتے ہیں:

            ’’ جب جناب امام احمد سے پوچھا گیا کہ آپ ان سے روایت کیوں نہیں لیتے تو انہوں نے

فرمایا کان یکذب کہ وہ حدیث بیان کرتے ہوئے جھوٹ بولا کرتا تھا۔ ‘‘

(مقالہ )

 حضرت مولانا عبد القدوس خان قارن دام ظلہ نے اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا:

            ’’ جناب محمدی صاحب کا یہ کہنا کہ معلی بن منصور کے بارہ میں امام احمد ؒ نے کہا کہ کان یکذب الخ ۔ تو عرض ہے کہ جناب محمد امین محمدی صاحب کو اگر کسی اور پر اعتماد نہیں تو کم اَز کم اپنے اکابرین پر تو اعتماد کریں۔ اور یہ بات کہنے سے پہلے کاش وہ اپنے محدث مبارک پوری صاحب ؒ سے ہی اس کی حقیقت پوچھ لیتے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ معلی بن منصور الرازی نزیل بغداد ثقۃ سنی فقیہ طلب للقضاء فامتنع اخطأ من زعم ان احمد رماہ بالکذب  (ترجمہ )معلی بن منصور جو بغداد میں آباد ہوا ، ثقہ اور سنی اور فقیہ ہے ۔ اس کو قضاء قبول کرنے کا کہا گیا مگر اس نے نہ مانا ۔ اور جو آدمی یہ خیال کرتا ہے کہ امام احمد ؒ نے اس کی جانب جھوٹ کی نسبت کی ہے (یعنی اس کو جھوٹا کہا ہے ) تووہ آدمی غلطی پر ہے ( تحفۃ الاحوذی ص ۵۹ج ۲)... مبارک پوری صاحب کے اس واضح بیان کے بعد جناب محمدی صاحب کے اعتراض کی کچھ بھی حیثیت نہیں رہتی۔ ‘‘

 (جواب مقالہ صفحہ ۱۲۹)

اعتراض: ۴……اس کی سند میں عطاء خراسانی مجروح ہے ۔

حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد اس مقام پہ یوں اعتراض کرتے ہیں:

            ’’ اس کی سندمیں عطاء خراسانی ہے جس کے بارے میں ابن حبان نے کہا ہے کہ وہ سیء الحفظ اور کثیر الوہم ہے ۔ ‘‘

 ( احسن الابحاث صفحہ ۳۶)

جواب:

            عطاء خراسانی جمہور کے ہاں ثقہ راوی ہے ان کی توثیق پہ مشتمل حوالہ جات حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب کی کتاب ’’ الاعلام المرفوعۃ صفحہ۱۷، ۱۸‘‘ اور حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب کی کتاب ’’عمدۃ الاثات صفحہ ۶۰‘‘ میں منقول ہیں۔ میں یہاں تین باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں ۔

(۱)عطاء خراسانی علی سبیل الاختلاف بخاری کا راوی ہے ۔

(۲)عطاء خراسانی رواۃ مسلم میں سے ہیں ۔

(۳) شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد کی تصریح کے مطابق عطاء خراسانی جمہور کے ہاں ثقہ ہیں۔

 حضرت مولانا محمد سر فراز خاں صفدر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ صحیح بخاری جلد ۲ ص ۷۳۲ اور ص ۷۹۶ میں عطاء کی روایت موجود ہے ۔ محدث ابو مسعود الدمشقی اور ان کے پیرو کار اور علامہ قسطلانی وغیرہ تصریح کرتے ہیں کہ یہ عطاء خراسانی ہے ۔ ‘‘

 (حاشیہ: احسن الکلام صفحہ ۲۲۱)

            امام بخاری رحمہ اللہ نے باب : ’’ ودا ولا سواعا ولا یغوث ویعوق و نسرا‘‘ قائم کیا۔ اس باب کے تحت عطاء کی سند سے حدیث لائے۔(صحیح بخاری: ۲؍۷۳۲، حدیث :۴۹۲۰)

 اس کی بابت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صراحت کی کہ یہ عطاء خراسانی ہے۔ ( فتح الباری :۱۰؍۲۹۳)

علامہ وحید الزمان غیرمقلد نے بھی اسے ’’ عطاء خراسانی‘‘ قرار دیا ہے۔ ( تیسیر الباری :۶؍۴۳۵،تاج کمپنی )

             عطاء کے راوی بخاری ہونے کی بابت اختلاف ہے بعض اسے بخاری کا راوی کہتے ہیں اور بعض نہیں ۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ صحیح مسلم کے راوی ہیں ۔ ( رجالِ مسلم ابن منجویہ:۲؍۱۰۲)

            حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے عطاء خراسانی کی بابت لکھا کہ یہ مسلم ، ابو داود ،نسائی ، ترمذی اور ابن ماجہ کا راوی ہے۔(تہذیب التہذیب :۷؍ ۲۲۲)

 شیخ ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں :

’’ عطاء خراسانی ... صحیح مسلم کے راوی اور صدوق ہیں۔‘‘

( توضیح الکلام صفحہ ۶۱۲)

            اور صحیح مسلم کے راویوں کو تو خود معترض حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلدبھی ثقہ مانتے ہیں چنانچہ انہوں اپنی اسی کتاب میں ایک راوی کے متعلق لکھا:

            ’’ یہ بخاری مسلم کا راوی ہے اور بخاری و مسلم کے رواۃ کا ثقہ ہونا مسلّم ہے۔ ‘‘

( احسن الابحاث صفحہ۷۱)

شیخ ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ حسان تو صحیح بخاری اور مسلم کے راوی بھی ہیں ۔اس لئے انہیں ضعیف قرار دینا محض ہٹ دھرمی ہے ۔ ‘‘

 ( تنقیح الکلام صفحہ ۱۴۲)

             شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے اپنے مضمون’’ اَلسَّعْیُ الْمَشکُوْرُ فِیْمَنْ وَثَّقَہٗ الْجُمْھُوْرُ ،اُن کے متعلق کامیاب کوشش جنہیں جمہور نے ثقہ قرار دیا ‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ عطاء بن ابی مسلم الخراسانی :قال ابن عراق الکنانی : الجمھور علی توثیقہ ۔

(تنزیہ الشریعۃ :۲؍۳۷۲، ح ۲۸)

ترجمہ: عطاء بن ابی مسلم الخراسانی : ابن عراق الکنانی نے کہا: جمہور اس کی توثیق پہ قائم ہیں۔

 ( علمی مقالات :۳؍۳۵۷)

            عطاء خراسانی جمہور محدثین کے ہاں ثقہ ہیں اور غیرمقلدین کو یہ اعتراف بھی ہے کہ جمہور کے مقابلہ میں بعض محدثین کی جرح مرجوح ہوتی ہے۔ لہذ ا جمہور کے مقابلہ میں ابن حبان وغیرہ کی جرح مضر نہیں۔اگر جمہور کے خلاف بعض کی جرح کو اہمیت دے بھی دی جائے تو یہ راوی مختلف فیہ کہلائے گا ۔اور غیرمقلدین کے ’’شیخ الاسلام ‘‘ مولانا محمد گوندلوی غیرمقلد نے لکھا:

’’ جب راوی مختلف فیہ ہو تو اس کی حدیث حسن ہوتی ہے ۔ ‘‘

(خیر الکلام صفحہ ۲۳۸)

             مزید یہ کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے جوعطاء خراسانی میں کلام کیا ہے حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے میزان :۲؍۱۱۹ میں اس کو نقل کرکے یوں فرمایا :’’ فھذا القول من ابن حبان فیہ نظر ‘‘ یعنی ابن حبان کے اس کلام میں نظر و اعتراض ہے ، علاوہ بریں ابن حبان کی سختی حد اعتدال سے بڑھی ہوئی ہے ، اس لئے ان کی جرحیں محدثین کے نزدیک معتبر نہیں ہیں۔ دیکھو الرفع والتکمیل ( صفحہ ۱۸،۱۹)اور القول المسدد اور میزان (جلد ۱صفحہ ۱۲۷)، (جلد ۲ صفحہ ۸۵) اور (جلد ۳صفحہ ۲۲۱)

 ( منقول اَز الاعلام المرفوعۃ صفحہ ۱۶)

            حکیم صاحب نے عطاء خراسانی کی بابت ابن حبان کی جانب سے ’’ کثیر الوہم ‘‘ الفاظ لکھتے ہیں ۔جس کا

جواب اوپر دیا چکا ہے مزید یہ کہ حکیم صاحب نے تو صرف ابن حبان کی طرف سے یہ الفاظ لکھے جب کہ مؤمل بن اسماعیل کو متعدد محدثین نے ’’ کثیر الغلط ‘‘کہا ہے چنانچہ شیخ کفایت اللہ سنابلی غیر مقلد نے مؤمل بن اسماعیل کے جارحین کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا:

            ’’ زیادہ غلطی کرنے کی بات درج ذیل لوگوں نے کہی ہے : ۱۔ امام ابو حاتم :کثیر الخطاء ، زیادہ غلطی کرنے والے تھے ۔ ۲۔امام ابن سعد :کثیر الغلط، زیادہ غلطی کرنے والے تھے ۔ ۳۔ امام مروزی : کثیر الغلط ،زیادہ غلطی کرنے والے تھے۔۴۔ امام نسائی :کثیر الخطاء، زیادہ غلطی کرنے والے تھے۔۵۔ امام ساجی :کثیر الخطاء، زیادہ غلطی کرنے والے تھے ۔ ۶۔ امام ابن عمار الشہید : فیخطئ الکثیر ، یہ زیادہ غلطی کرنے والے تھے ۔ ‘‘

 ( انوار البدر صفحہ ۴۴۷)

            متعدد محدثین کے’’ کثیر الغلط‘‘ قرار دینے کے باوجودسنابلی وغیرہ بہت سے غیرمقلدین نے مؤمل بن اسماعیل کو ثقہ باور کرایا ہے ۔

 مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ راوی شعیب ہے، جس میں محدثین نے کلام کیاہے۔ دوسرا راوی رزیق ہے، جو ضعیف ہے ، تیسرا عطاء خراسانی ہے ، جسے امام بخاری نے شیعہ اور ابن حبان نے ضعیف قرار دیا ۔ سعید بن مسیب اسے جھوٹا بتاتے ہیں ۔‘‘

( ایک مجلس کی تین طلاقیں اوراُن کا شرعی حل صفحہ۶۳)

            کیلانی صاحب کاشعیب اور رزیق کو الگ الگ راوی بتانا درست نہیں بلکہ راوی شعیب ہے رزیق اُن کے والد کا نام ہے ۔

خواجہ محمد قاسم غیرمقلد نے اس حدیث کے راوی عطاء خراسانی کے متعلق لکھا:

            ’’ اس کے راوی صرف شعیب بن رزیق ہیں جنہیں محدثین نے ضعیف کہاہے ۔انہوں نے اسے عطاء الخراسانی سے رروایت کیا ہے وہ بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ،شعبہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن حبان کے نزدیک ضعیف ہے ۔ سعید بن مسیب نے انہیں جھوٹا کہا ہے ۔‘‘

جواب:

             اوپر علی زئی غیرمقلد کی زبانی منقول ہو چکا کہ عطاء خراسانی ثقہ عند الجمہورہے اس لیے بعض محدثین کاکلام مرجوح ہے۔ اس لئے جارح کی الگ الگ جرح کا جواب ضروری تو نہیں مگر اتماما للفائدۃ ہم مذکورہ بالا اقوال کا الگ سے جائزہ لیتے ہیں۔

             امام بخاری رحمہ اللہ نے اگر انہیں شیعہ کہا بھی ہو تو بہ اعتراف غیرمقلدین راوی کا شیعہ وغیرہ بدعتی ہونا اس کے ثقہ ہونے کے منافی نہیں ۔

            شیخ محمد ابراہیم بن بشیر الحسینوی غیرمقلد نے ’’ راوی کا بدعتی ہونا عدالت کے منافی نہیں ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھا:

            ’’ راوی میں اصل عدالت اور ضبط ہے ،اس کا بدعتی مثلا مرجئی ، شیعی اور قدری وغیرہ ہونا مضر نہیں ...امام ذہبی ابان بن تغلب کے ترجمہ میں کہا : ’’ فلنا صدقہ وعلیہ بدعتہ ‘‘ ہم اس کی سچی روایات لیتے ہیں اور اس کی بدعت اس پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ ‘‘

( جرح و تعدیل کے اصول و ضوابط صفحہ ۴۴،ناشر: دار ابن بشیر للنشر و التوزیع )

            شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے ’’ مسلکی تفاوت صحت ِ حدیث کے خلاف نہیں ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھا:

            ’ ’جس راوی کا ثقہ و صدوق ہونا ثابت ہو جائے، اس کا قدری، خارجی، شیعی، معتزلی، جہمی اور مرجی وغیرہ ہونا صحت حدیث کے خلاف نہیں ہے ۔‘‘

(نور العینین صفحہ ۶۳)

             غیرمقلدین کی کتاب میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب ’’میزان الاعتدال :۱؍۶‘‘ سے منقول ہے :

            ’’ ان البدعۃ علی ضربین : فبدعۃ صغری، کغلو التشیع او کالتشیع بلا غلو ولا تحرق، فھذا کثیر فی التابعین و اتباعھم، مع الدین والورع والصدق فلو رد حدیث ھؤلاء لذھب جملۃ من الاثار النبویۃ وھذہ مفسدۃ بینۃ ۔ ‘‘

 ( دفاع صحیح بخاری صفحہ ۱۴۹)

            ترجمہ: بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک بدعتِ صغریٰ جیسے تشیع میں غلو ہونایا بغیر غلو اور

بغیر جلابھلا شیعہ ہونا۔ایسے راوی تابعین اور تبع تابعین میں بہت سے ہیں باوجود اس کے وہ دین، ورع اور صداقت والے ہیں ۔ پس اگر ان راویوں کی حدیث کو رد کر دیا جائے تو احادیث نبویہ کا ایک مجموعہ ضائع ہو جائے گا اور یہ واضح فساد ہے۔

مولانا محمد حسین میمن غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ جہاں تک بات ہے ابو معاویہ کے مرجیہ ہونے کی تو اس اعتبار سے حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ کیوں کہ اگر کسی محدث پر مرجی ، قدری اور شیعہ وغیرہ ہونے کا الزام ہو اور وہ اس عقیدہ کی طرف داعی نہ ہو تو اس کی روایت قابلِ قبول ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحیحین میں بھی اس طرح کے رواۃ موجود ہیں۔ ‘‘

( احادیثِ متعارضہ اور اُن کا حل صفحہ ۷۴، ادارہ تحفظ حدیث فاؤنڈیشن)

 مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ پھر رافضی ہو یا کوئی اور بدعتی راوی ہو جب وہ صادق ہو تو اس کے متعلق خود خطیب کا جوموقف ہے وہ ان کی مشہور کتاب ’’ الکفایۃ ‘‘( ص ۱۲۴، ۱۲۵) میں دیکھا جا سکتا ہے۔جس میں بدعتی سے روایت لینے میں انہوں نے یہاں تک فرمایا ہے کہ : واحتجوا باخبارھم فصار ذلک کالاجماع منھم ‘‘ محدثین نے ان کی روایات سے استدلال کیا ہے اور یہ ایسا ہے جیسا کہ اس پر ان کا اجماع ہے ۔ ‘‘

 ( تنقیح الکلام صفحہ ۷۳)

 امام ابن حبان رحمہ اللہ عطاء خراسانی کو ضعیف کہا ۔اس کے تین جواب ہیں:

۱۔ اوپر شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد کا اعتراف منقول ہے کہ عطاء خراسانی جمہور محدثین کے ہاں ثقہ ہیں ۔ اور غیرمقلدین یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جمہور کی توثیق کے بعد بعض کی تضعیف مرجوح ہوتی ہے ۔

۲۔ غیرمقلدین کو اعتراف ہے کہ جرح غیر مفسر اور غیر مبین السبب معتبر نہیں ہوتی ۔

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے عبد الاعلیٰ کے متعلق لکھا:

            ’’ ابن سعد کاتب الواقدی نے اس پر جرح کی جس کو حافظ ابن حجر نے مردود قرار دیتے

ہوئے کہا: ھذا جرح مردود غیر مبین السبب ... یہ جرح مردود ہے ، غیر واضح ہے ۔ ‘‘

 ( نور العینین صفحہ ۹۴)

یہاں علی زئی صاحب نے ’’ ہدی الساری صفحہ ۴۱۵‘‘ کا حوالہ دیا ہے ۔

مولانا ابو القاسم سیف بنارسی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ وہ جرح مقبول ہوتی ہے ، جو مفسر اور اس میں جرح کے کل اسباب مبین ہوں ، ابی کی جرح میں یہ امر بالکل مفقود ہے ، لہذ ا در حقیقت یہ جرح جرح نہیں ہے ، اس لئے نامقبول ہے ۔ ‘‘

 ( دفاع صحیح بخاری صفحہ ۴۳۸)

سیف بنارسی صاحب نے امام دارقطنی رحمہ اللہ کے قول ’’ تکلموا فیہ ‘‘ کے متعلق لکھا:

            ’’ دار قطنی کا یہ قول محدثین کے نزدیک ان کے اصول کے مطابق غیر مقبول ہے ، حافظ ابن حجر ہدی الساری میں لکھتے ہیں:وقال الدارقطنی (الی قولہ ) ھذا تلیین مبھم لا یقبل یعنی دار قطنی کایہ قول تلیین (تضعیف ) مبہم ہے ،لہذا غیرمقبول !‘‘

(دفاع صحیح بخاری صفحہ ۴۹۳)

 سیف بنارسی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’آپ نے یہاں دو جرحیں نقل کیں ہیں ، ایک ابن حزم کی ،دوسرے امام بخاری کی ،اور لطف یہ کہ وجہ تضعیف کسی کی بھی بیان نہیں کی ۔ ‘‘

(دفاع صحیح بخاری صفحہ ۶۵۵)

مولانا محمد حسین میمن غیرمقلدنے راوی پر جرح کو رَد کرتے ہوئے لکھا:

            ’’ یہاں منکرین حدیث ابو معاویہ پر جر جرح کر رہے ہیں وہ بھی غیر مفسر ہے ۔ ‘‘

( احادیثِ متعارضہ اور اُن کا حل صفحہ ۷۳، ادارہ تحفظ حدیث فاؤنڈیشن)

میمن صاحب نے آگے لکھا:

            ’’ ابو معاویہ پرکی جانے والی جرح غیر مفسر ہے ۔ ‘‘

( احادیثِ متعارضہ اور اُن کا حل صفحہ ۷۴، ادارہ تحفظ حدیث فاؤنڈیشن)

میمن صاحب مزید لکھتے ہیں:

            ’’ قارئین کرام! ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ اگر کسی حدیث کے راوی کو رَد کیا جائے ، اس پر جرح کی جائے تو جرح مفسر ہونی چاہیے۔ لیکن یہ بات شاید منکرین حدیث کے علم میں نہیں ہے۔ ابراہیم بن منذر پرجو جرح نقل کی گئی ہے وہ غیر مفسر ہے ۔ ‘‘

 ( احادیثِ متعارضہ اور اُن کا حل صفحہ ۸۴، ادارہ تحفظ حدیث فاؤنڈیشن)

شیخ عزیز یونس السلفی المدنی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’جرح کے بارے میں جمہور علماء کا راجح موقف یہی ہے کہ کسی راوی کے بارے میں یہ اسی وقت قابل قبول ہوگی جب جرح مفسر ہوگی۔اگر کسی راوی پر جرح کی جائے اور اس کا سبب یا تفصیل نہ بیان کی جائے تو وہ جرح قبول نہیں ہوگی کیوں کہ جرح کے اسباب اہلِ علم کے ہاں مختلف ہیں اور بسا اوقات ایک عالم کسی چیز کو جرح کا سبب سمجھتا ہے تو دوسرے کے نزدیک وہ چیز جرح کا سبب نہیں ہوتی۔’’

( اصول التخریج صفحہ۲۲۰ ، نظرثانی: حافظ محمود احمد تبسم ، مکتبہ دار التوحید الاسلامیۃ )

            غیرمقلدین کے مذکورہ بالا حوالہ جات کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ کا عطاء خراسانی کو ضعیف کہنا جرح مفسر اور مبین السبب نہیں ،اس لئے اس کا اعتبار نہیں ۔

            یہاں ایک بات مزید پڑھتے چلیں کہ مولانا محمد حنیف منجاکوٹی غیرمقلد کی تصریح کے مطابق ’’جرح مبہم ‘‘ قبول کرنا تقلید ہے۔ چنانچہ انہوں نے لکھا:

            ’’ اگر ہم ہر قسم کی جرح قبول کرتے تو پھر اسے تقلید کہا جا سکتا ہے لیکن محدث کی کسی

راوی کے بارے میں جرح مبہم کو ہم قبول نہیں کرتے جب تک اس کے ضعف کی وجہ بیان نہ کرے۔ ‘‘

 ( مرد و زن کی نماز میں فرق ؟ صفحہ ۳۳، طبع توحید پبلی کیشنز بنگلور )

۳۔ غیرمقلدین کہتے ہیں کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ جرح میں متشدد ہیں اور متشدد کی جرح معتبر نہیں ہوتی۔

 مولانا عبد الرحمن مبارک پوری لکھتے ہیں:

            ’’ واما قول ابن حبان المذکور فغیر قادح فانہ متعنت و مسرف بالجرح ۔‘‘

 ( ابکار المنن صفحہ ۲۳۶)

            ترجمہ: اورامام ابن حبان کا مذکورہ قول قابلِ قدح نہیں ہے کیو ں کہ وہ متعنت (متشدد ) ہیں ، اور جرح میں حد سے زیادہ تجاوز کرنے والے ہیں۔

 مولانا محمد گوندلوی نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا :

            ’’ ابن حبان ربما جرح الثقۃ حتی کان لا یدری مایخرج من راسہ ۔ ‘‘

( التحقیق الراسخ صفحہ ۷۹)

            ترجمہ: ابن حبان بسااوقات ثقہ راوی پر جرح کر دیتے ہیں یہاں تک کہ گویا وہ جانتے ہی نہیں کہ اس ( ثقہ راوی ) کے سر سے کیا نکالنا چاہتے ہیں۔

 مولانا محمد ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں:

’’ امام ابن حبان جرح میں متشدد ہیں۔ ‘‘

( توضیح الکلام :۱؍۴۷۴)

 اثری صاحب نے مزید لکھا :

’’ امام ابن حبان کا تشدد معروف ہے ۔ ‘‘

( حوالہ مذکورہ صفحہ ۴۸۰)

تنبیہ: امام ابن حبان رحمہ اللہ کے متشدد ہونے پر غیرمقلدین کے مذکورہ حوالے حضرت مولانا حافظ محمد ظہور احمد الحسینی حفظہ اللہ کی کتاب ’’تلامذۃ امام اعظم ابوحنیفہ کا محدثانہ مقام ‘‘(صفحہ ۳۹۶،۳۹۷) سے منقول ہیں۔

شیخ کفایت اللہ سنابلی غیرمقلد لکھتے ہیں :

            ’’ جرح و تعدیل میں تعارض کے وقت اگر جرح متشددین کی طرف سے ہو تو وہ رد کر دی جاتی ہے ۔‘‘

( انوار البدر صفحہ ۴۴۵)

عطاء خراسانی کی بابت امام ابن حبان رحمہ اللہ کی تضعیف کو حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے نقل کرکے لکھا:

’’ فَھٰذَا الْقَوْلُ مِنِ ابْنِ حِبَّانَ فِیْہِ نَظْرٌ۔‘‘

 ( میزان : ۲؍۱۹۹)

”یعنی ابن حبان کے اس قول میں اعتراض ہے ۔ “

             سعید بن المسیب کی جانب سے عطاء خراسانی کو جھوٹا کہنے کی حقیقت بھی جان لیں ۔ اس کا مدار ایک حکایت پہ ہے ۔ مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’عقیلی نے عطاء کو ضعفا ء میں صرف سعید بن المسیب کی حکایت کی وجہ سے شمار کیا ہے وہ حکایت آگے آئے گی اور وہیں معلوم ہو جائے گا کہ اس حکایت کی وجہ سے عطاء کی تضعیف جائز نہیں ہو سکتی ۔‘‘

 ( الاعلام المرفوعۃ صفحہ ۱۶)

 اعظمی صاحب آگے لکھتے ہیں:

            ’’ سعید بن المسیب کی حکایت یہ ہے ،کسی نے سعید سے کہا کہ عطاء کہتے ہیں کہ مجھ سے سعید بن المسیب نے فلاں حدیث یوں بیان کی ۔سعید نے کہا کذب عطاء یعنی عطاء نے غلط کہا ۔ میں نے ان سے یوں نہیں بیان کیا بلکہ یوں بیان کیا ہے۔ آپ خود غور کیجئے کہ اس حکایت کی بناء پر عطاء کی تضعیف کیوں کر جائز ہو سکتی ہے ۔ابھی ابھی حافظ ذہبی کی زبانی آپ سن چکے ہیں کہ کوئی ثقہ راوی ایسا نہیں ہے جس سے غلطی نہ ہوجاتی ہو ۔ہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ سعید بن مسیب کے قول ’’ کذب عطاء میں کذب بمعنی نسییا غلط ہے، اس لئے کہ اہلِ مدینہ میں یہ محاورہ بہت شائع و ذائع تھا۔(مقدمہ فتح الباری ) نیز سعید بن مسیب جیسے جلیل القدر تابعی اور امام فقہ و حدیث سے نہایت مستعبد ہے کہ غلطی و نسیان کا احتمال ہوتے ہوئے کسی عالم کو جھوٹا کہہ دیں۔ ‘‘

 ( الاعلام المرفوعۃ صفحہ ۱۷)

 خطاء پرکذب کااطلاق ہونا دیگر بھی کئی علماء نے بیان کیا ہے ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ۔ (مقدمہ فتح الباری صفحہ ۱۸۰،وفتح الباری :۸؍۱۱)

 علامہ فتنی رحمہ اللہ ۔ (مجمع بحار الانوار :۴؍۳۹۰)

علامہ ابن الاثیر جزری رحمہ اللہ ۔ ( النھایۃ : ۴؍۱۵۹)

علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ ۔( الاستذکار :۴؍۱۲)

            مذکورہ بالا کتب کی عبارات حافظ ظہور احمد الحسینی صاحب کی کتاب ’’ رکعات تراویح ،ایک تحقیقی جائزہ ‘‘ میں منقول ہیں ۔

             غیرمقلدین بھی کذب کو خطاء پر محمول کیا کرتے ہیں۔ چند حوالے ملاحظہ ہوں۔

 غیرمقلدین کی کتاب میں لکھاہے :

            ’’ امام ابو داود رحمہ اللہ کے قول ’’ کذاب ‘‘ سے عرفی معنی میں کذاب مراد نہیں ، بلکہ اس (کذب ) سے غلطی اور خطاء مراد ہے ، جیسا کہ امام ابن الوزیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ان لفظۃ کذاب قد یطلقھا کثیر ... فی الجرح علی من یھم و یخطئ فی حدیثہ ۔( الروض الباسم : ۱؍۲۸) اور اہلِ حجاز میں یہ امر معروف تھا کہ وہ خطاء پر کذب کا اطلاق کر دیا کرتے تھے ۔ دیکھیں الثقات لابن حبان ( ۶؍۱۱۴) نیز امام صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ولا یغرنک قول المحدثین فلان کذاب ، قد یطلقون ذلک علی من یکذب مخطئا لا متعمدا لان الحقیقۃ اللغویۃ لمسمی الکذب تقتضی انہ کذاب الخ توضیح الافکار : ۲؍۳۴۸‘‘

(حاشیہ :دفاع صحیح بخاری صفحہ ۴۷۴،ناشر:ام القری پبلی کیشینز گوجرانوالہ ، طبع اول : ستمبر؍۲۰۰۹ء )

 مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں :

            ’’ اہلِ حجاز کے علاوہ دوسرے بھی کذب کو خطاء کے معنیٰ میں استعمال کرتے تھے ۔‘‘

 ( تنقیح الکلام صفحہ۲۴۶ ،ناشر: ادارۃ العلوم الاثریۃ فیصل آباد ، تاریخ ِ اشاعت: ستمبر؍۲۰۰۴)

اثری صاحب نے لکھا:

            ’’مزید عرض ہے کہ علامہ ذہبی لکھتے ہیں: فاما قول الشعبی الحارث کذابا فمحول علی انہ عنی بالکذب الخطاء الخ ۔ ( السیر : ۴؍۱۵۳) رہا امام شعبی ؒ کا قول کہ حارث کذاب ہے تو یہ اس پر محمول ہے کہ انہوں نے کذب سے خطا مراد لی ہے...مزید عرض ہے کہ ’’ کذاب‘‘ کا لفظ کبھی راوی کی بدعت کی طرف اشارہ بھی ہوتا ہے جیسا کہ امام یحی قطان ؒ نے عبد المجید بن عبد العزیز کو کذاب کہا ہے ۔ ‘‘

 ( حوالہ مذکورہ صفحہ ۲۴۶)

 اثری صاحب نے اپنی کتاب ’’ توضیح الکلام :۱؍۲۴۰‘‘ میں بھی کذب کو خطاء میں قرار دیا ہے ۔

             اس حدیث کی سند پر کئے گئے سب اعتراضات کا ہم نے اصولی اور خود غیرمقلدین کے مسلمات کی روشنی میں جواب عرض کر دیا ہے جس سے ثابت ہوگیا کہ ان اعتراضات میں کوئی جان نہیں اس لئے اس حدیث سے استدلال کرنا درست ہے ۔

            حافظ عبد اللہ روپڑی غیرمقلد تو جرح کا تھوڑا سا جواب مل جانے کو کافی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے لکھا:

            ’’ یہ چیز اصول ِ حدیث میں مسلّم ہے کہ جس جرح کا تھوڑا بہت جواب ہو سکے ۔ اس سے حدیث حسن درجہ سے نہیں گرتی جیسے مسلم کی دوسرے درجہ کی احادیث جو تائیداً لاتے ہیں۔ ‘‘

 ( مودودیت اور احادیثِ نبویہ صفحہ ۳۲)

یہاں ایک اور زاویہ سے بھی دیکھ لیں ۔ علامہ وحیدالزمان غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’جب مدینہ کے عالم کوئی حدیث روایت کریں اور اس پر عمل کریں تو وہی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہوگی۔ ‘‘

( تیسیرا لباری :۷؍۱۹۴، تاج کمپنی )

             گویا اہلِ مدینہ کے عمل سے حدیث کی صحت میں اضافہ ہوا۔ مسئلہ تین طلاق والی حدیث پہ نہ صرف یہ کہ اہلِ مدینہ کا عمل ہے بلکہ تمام شہروں کے علماء ، فقہاء اور محدثین کا ہے۔ چنانچہ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            ’’فَھٰؤُلَاءِ الصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ قَائِلُوْنَ وَابْنُ عَبَّاسٍ مَّعَھُمْ بِخِلَافِ مَا رَوَاہُ طَاؤسٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَلٰی ذٰلِکَ جَمَاعَاتُ التَّابِعِیْنَ وَاَئِمَّۃُ الْفَتْوٰی فِیْ اَمْصَارِ الْمُسْلِمِیْنَ۔‘‘

 (الاستذکار :۶؍۸)

            ترجمہ: ابن عباس سمیت تمام صحابہ اکٹھی تین طلاقوں کے وقوع کاموقف رکھتے ہیں صرف طاؤس نے ابن عباس سے اس کے خلاف روایت کیا۔ صحابہ کے مذہب پر تابعین کی جماعتیں اور بلادِ مسلمین کا ائمہ فتوی قائم ہیں۔

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے دوسرے پہلو کی بابت لکھا:

            ’’ وَرِوَایَُۃ طَاؤُسٍ وَھْمٌ وَغَلَطٌ لَمْ یُعَرِّجْ عَلیْھِمَا اَحَدٌ مِّنْ فُقَھَاءِ الْاَمْصَارِ بِالْحِجَازِ وَالْعِرَاقِ وَالْمَغْرِبِ وَالْمَشْرِقِ والشَّامِ ۔

 ( الاستذکار : ۶؍۶)

            طاؤس کی روایت وہم اور غلطی ہے حجاز، عراق، مغرب ، مشرق اور شام کے فقہاء میں کسی ایک نے بھی اسے اختیار نہیں کیا ۔

            اَب غیرمقلدین ذرا غور کریں کہ تین طلاقوں کے تین ہونے والی حدیث کے مطابق دنیا بھر کے علماء ، فقہاء اورمحدثین کا نظریہ رہا ہے اور جس حدیث سے تین طلاقوں کے ایک ہونے کی بات لینے کا دعویٰ ہے اس پر مشرق و مغرب اور شام و حجاز کے فقہاء کا عمل نہیں۔اس فرق کے باوجود تین کے ایک ہونے والی روایت کو قبول کر لینا اور تین کے تین ہونے والی حدیث کو رَد کر دینا کہاں تک انصاف ہے ؟ جب کہ اس کے ساتھ غیرمقلدین کو یہ بھی تسلیم ہے کہ اگر کسی روایت میں ضعف ہو تو وہ تقی بالقبول سے رفع ہو جاتا ہے ۔

 فتاویٰ علمائے حدیث میں لکھا ہے :

            ’’ ضعیف حدیث جب کہ قرون مشہود لھا بالخیر (خیر القرون ) میں معمول بہ ہو وہ امت کے ہاں مقبول ہے ۔ ‘‘

 ( فتاویٰ علمائے حدیث : ۶؍۷۶)

            مولانا محمد اسماعیل سلفی غیرمقلد ( سابق امیر جمعیت اہلِ حدیث )نے ابن ماجہ کی ایک روایت پیش کرکے لکھا :

            ’’اس حدیث کی سند بالاتفاق ضعیف ہے لیکن اس زیادت کو تمام امت نے بالاتفاق قبول کیا ہے ۔ ‘‘

( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز صفحہ ۱۲)

سلفی صاحب نے مزید لکھا:

            ’’ ابن ماجہ کی روایت کو ضُعف کے باوجود جمہور امت نے قبول فرمایا ہے ۔‘‘

 ( تحریک آزادی ٔ فکر صفحہ ۴۳۴)

شیخ محمد صالح العثیمین نے شیخ البانی غیرمقلد کے کلام پر تعلیق کرتے ہوئے لکھا:

            ’’ شیخ البانی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس اثر سے حجت پکڑی ہے اور ان کے

علاوہ بھی علمائے دین نے اسے تلقی بالقبول ( قبولیت ) کے شرف سے نوازا ہے اگرچہ اس کی سند کے بارے میں کچھ کلام کیا گیا ہے ۔ ‘‘

( حاشیہ فتنہ تکفیر صفحہ ۱۵)

کتاب ’’ فتنہ تکفیر‘‘ التحذیر من فتنۃ التکفیر ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔

             حاصل یہ کہ تلقی بالقبول کے والے اصول کے مطابق بھی زیر بحث حدیث مقبول حدیثوں میں شمار ہونے کے لائق ہے ۔ اس لئے کہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے تین کے ایک ہونے کی روایت طاؤس کو تلقی بالرد ہوا اور تین کے تین ہونے کو دنیا بھر کے علماء و فقہاء مانتے ہیں۔ ہماری اسی کتاب(اجماع والے باب ) میں خود غیرمقلدین کے حوالہ جات منقول ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے تین ہونے پر امت کا اجماع ہے۔

زیر بحث حدیث کے متن پر اعتراضات کا جائزہ

            زیر بحث حدیث کی سند پر اعتراضات کے بعد اَب ہم اس کے متن پر کئے گئے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں وباللہ التوفیق ۔

پہلا اعتراض:…… فان طلقھا ثلاثاً الفاظ عطاء خراسانی کی زیادتی ہے۔

مولانا عبد الغفور غیرمقلد لکھتے ہیں :

             ’’ اس کے آخری حصہ میں فان طلقھا ثلاثا سے اکٹھی تین طلاق مراد لے لی ہیں حالاں کہ یہ الفاظ قابلِ حجت نہیں ہیں بلکہ عطا خراسانی کی زیادتی ہے ۔‘‘

( الببیان المحکم صفحہ ۷۳)

جواب:

             محدثین کا اصول ہے کہ زیادت ثقہ قبول ہوتی ہے۔ حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر رحمہ اللہ نے ’’احسن الکلام صفحہ ۲۴۱،۲۴۲‘‘ میں محدثین کے متعدد حوالے نقل کر دئیے ہیں ۔

خود غیرمقلدین نے بھی محدثین کے اس اصول کو اپنی کتابوں میں تسلیم کیا ہے ۔

            شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے حدیث ِ نبوی : اذا قرأ فانصتوا، جب امام قراء ۃ کرے تو تم خاموش رہو ‘‘ کی صحت پر ایک مستقل اور مفصل مضمون ’’ صحیح مسلم کی ایک حدیث کا دفاع اور ثقہ راوی کی زیادت ‘‘ لکھا جواُن کی کتاب ’’ علمی مقالات ‘‘ جلد دوم میں صفحہ۲۲۹سے ۲۶۵تک پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے اس میں زیادتِ ثقہ کی قبولیت پر بہت سے محدثین کے حوالے نقل کئے ہیں۔

علی زئی صاحب نے ثقہ کی زیادت کے متعلق اپنا نظریہ یوں لکھا:

             ’’ ثقہ و صدوق راوی کی زیادت کو ہمیشہ ترجیح حاصل ہے مثلاً : ایک ثقہ و صدوق راوی کسی سند یامتن کچھ بیان کرتاہے ۔ فرض کریں یہ اضافہ ایک ہزار راوی بیان نہیں کرتے، تب بھی اسی اضافے کا اعتبار ہوگا اور اسے صحیح یا حسن سمجھا جائے گا۔ ایسی صورت میں یہ کہنا کہ فلاں فلاں راوی نے یہ الفاظ بیان نہیں کئے ، مخالفت کی ہے ، مردود ہے۔ ‘‘

( علمی مقالات: ۲؍۱۱۱)

             علی زئی صاحب کی بعینہ یہی عبارت ’’ ماہ نامہ الحدیث ،شمارہ : ۳۴‘‘ ... اور ...’’ اشاعۃ الحدیث حضرو ،بیاد شیخ زبیر علی زئی صفحہ ۱۱۵‘‘ میں بھی ہے ۔

علی زئی نے لکھا:

            ’’ محمد بن یحی الصفار (راوی ) کے زبر دست تفرد والی اس روایت کے بارے میں مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ علانیہ لکھتے ہیں:’’ الغرض اس حدیث پر اعتراضات کی تمام شقیں باطل ہیں ۔ امام بیہقی اور علامہ سیوطی اور علامہ متقی حنفیہ کا فیصلہ ہی صحیح ہے کہ اس کی سند بالکل صحیح ہے اور یہ زیادت متعدد طرق سے مروی ہے اور صحیح ہے ۔ ‘‘ ( توضیح الکلام جدید ص ۳۶۰) معلوم ہوا کہ بہت سے ثقہ راوی اگر کوئی زیادت متن میں ذِکر نہ کریں اور صرف ایک ( ثقہ و صدوق ) راوی وہ زیادت ذِکر کرے تو مولانا اَثری اور امام بیہقی کے نزدیک وہ سند صحیح ہوتی ہے ۔ والحمد للہ۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں مگر خبیب صاحب [غیرمقلد اور مولانا عبد الغفور وغیرہ دیگر کئی غیرمقلدین ( ناقل )] اس کی بالکل مخالف سمت پر تیزی سے رواں دواں ہیں۔‘‘

( علمی مقالات :۲؍۲۵۱)

            مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد نے حدیث ِنبوی ’’ اذا قرأ فانصتوا۔جب امام قراء ت کرے تو تم خاموش رہو ۔‘‘ زیادت کو شاذ قرار دے کر رَد کیا تو علی زئی صاحب نے اس کاجواب دیتے ہوئے یہ بھی لکھا:

             ’’ اگر ثقہ کی سنداور متن میں زیادت کو شاذ قرار دیا جائے تو بہت سی صحیح احادیث کا انکار لازم آتا ہے ۔ ‘‘

( فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام :۲؍۲۹۵)

ابو محمدخرم شہزاد غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ امام المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اور زیادت (ثقہ کا متن یا سند یعنی موقوف کو مرفوع بیان کرنا ) مقبول ہوتی ہے بشرطیکہ ( اس کی عدالت و ثقاہت ) ثابت ہو جائے۔ مزید امام المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : بعض نے ( جو الفاظ زیادہ سنے تھے یا زیادہ عمل دیکھا تھا ) بعض پر ( روایت میں ) اضافہ کر دیا ۔ اور اہلِ علم ( محدثین ) کے نزدیک (ثقہ کی ) زیادت مقبول ہوتی ہے ۔ ‘‘

 ( اصول ِ حدیث و اصول تخریج صفحہ ۲۶۹، مکتبۃ التحقیق و التخریج ، اشاعتِ اول : اپریل ؍ ۲۰۱۷ء )

 مولانا عبدالمنان راسخ غیرمقلد نے لکھا:

            ’’یہ صحیحین کی روایت میں زیادہ ہے اور زیادۃ ثقۃ مقبولۃ کے تحت اسے قبول کیا جائے گا اور اسے ہی ترجیح حاصل ہوگی ۔ ‘‘

 (فوائد : سنن دارمی مترجم :۲؍۱۹۵،تحت حدیث ۲۳۰۹، انصار السنۃ پبلی کیشنز لاہور )

غیرمقلدین کے امام علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں:

            ’’ بلال ؓ کی حدیث میں ایک زیادتی تھی اور اس کے راوی ثقہ ہیں،اس لئے وہ قبول کی گئی اصول حدیث میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ثقہ اور ضابط شخص کی زیادتی مقبول ہے۔ ‘‘

( تیسیر الباری :۲؍۴۱۲، تحت : حدیث : ۵۶۰، کتاب الزکوۃ ،باب العشر فیما یسقی من ماء السماء ،تاج کمپنی )

علامہ صاحب نے اسی صفحہ میں آگے لکھا:

’’ یہ زیادتی ہے اور زیادتی ثقہ اور معتبر راوی کی مقبول ہے ۔ ‘‘

( حوالہ مذکورہ )

             حاصل یہ کہ غیرمقلدین کی طرف سے اس زیادت کو رَد کرنا درست نہیں ۔ اور علی زئی صاحب کے بقول ثقہ کی زیادت کو رَد کرنے سے بہت سی صحیح احادیث کا انکار لازم آتا ہے ۔

دوسرا اعتراض: صحیح روایت میں باقی دو طلاقوں کاذِکر نہیں ۔

حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ صحیح روایت میں ہے کہ ابن عمر ؓ کی طلاق حیض میں شمار کی گئی لیکن اس میں باقی دو دینے کا ذِکر نہیں ہے۔‘‘

( احسن الابحاث صفحہ ۳۷)

جواب:

            ۱۔حکیم صاحب کو تسلیم ہے کہ صحیح روایت کے مطابق حالتِ حیض میں دی گئی طلاق کو شمار کیا گیا۔ جب کہ غیرمقلدین کا ایک گروہ حالتِ حیض میں دی جانے والی طلاق کو واقع نہیں مانتا۔ اس فریق کی رائے’’ صحیح روایت میں ہے کہ ابن عمر ؓ کی طلاق حیض میں شمار کی گئی۔‘‘ کے خلاف ہے ۔حالت ِ حیض میں دی گئی طلاق کو غیر واقع کہنے والے غیرمقلدین کے حوالہ جات آئندہ صفحات میں منقول ہوں گے ان شاء اللہ ۔

            مزید یہ کہ ایک سے زائد غیرمقلدین نے دعوی کیا ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حالت ِ حیض میں تین طلاقیں دی تھیں تو انہیں رجوع کا حکم ہوا۔ ( نکاح محمدی صفحہ ۱۰۳،تالیف مولانا محمد جونا گڑھی ،ناشر اہل حدیث اکیڈمی مؤ ناتھ بھنجن یوپی... ایک مجلس کی تین طلاقیں اوراُن کا شرعی حل صفحہ۶۳،مولانا عبد الرحمن کیلانی )

جونا گڑھی اور کیلانی وغیرہ غیرمقلدین کی بات بھی حکیم صاحب کی بیان کردہ صحیح حدیث کے مخالف ہے ۔

            ۲۔حدیثیں دو طرح کی ہیں ۔ ایک یہ کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حالتِ حیض میں ایک طلاق دی جسے شمار کیا گیا ۔

             دوسری زیر بحث حدیث’’ لَوْ اَنِّیْ طَلَّقْتُھَا ثَلَاثًا کاَنَ لِیْ اَنْ اُرَاجِعَھَا قَالَ لا ‘‘ ہے ۔ یعنی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اگر میں نے تین طلاقیں دی ہوتیں تو میرے لئے رجوع جائز ہوتا ؟ آپ نے فرمایا: نہیں ۔

             پہلے مضمون کی حدیث میں تو ایک طلاق دینے اور واقع ہونے کی بات ہے ۔ مگر دوسرے مضمون کی جو حدیث ہے اس کے مطابق سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقیں دی نہیں تھیں صرف پوچھا تھا کہ اگر میں تین طلاقیں دے دیتا تو رجوع کا حق ہوتا ؟جواب ملا : نہیں ۔یعنی ایسا نہیں کہ ایک حدیث میں یہ ہے کہ ابن عمر نے حالتِ حیض میں ایک طلاق دی تھی اور دوسری میں یوں مذکور ہو کہ حالتِ حیض میں تین طلاقیں دی تھیں ۔

             حاصل یہ کہ دو الگ الگ حدیثیں ہیں ایک میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے طلاق دے چکنے کی بات ہے اور دوسری میں طلاق دے چکنے کی بجائے مسئلہ پوچھنے کی بات ہے کہ اگر میں تین طلاقیں دے دیتا تو کیا حکم ہوتا ؟ پہلی کو اصل بنا کر دوسری کو رَد کردینا غلط فیصلہ ہے۔

۳۔ حکیم صاحب کہتے ہیں :

’’ اس میں باقی دو دینے کا ذِکر نہیں ہے۔‘‘

حکیم صاحب اس کا جواب اپنی جماعت کے ’’محدث العصر ‘‘ شیخ زبیر علی زئی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں وہ لکھتے ہیں:

’’ عدم ِ ذکر نفی ذِکر کی دلیل نہیں ہوتا۔ ‘‘

 ( نور العینین صفحہ ۹۵)

علی زئی صاحب نے مزید لکھا:

            ’’ ہم شروع میں واضح کر آئے ہیں کہ (ثبوت ذِکر کے بعد ) عدم ذکر سے نفی ذِکر لازم نہیں ،لہٰذا یہ استدلال بالکیہ مرودو ہے ۔ ‘‘

( نور العینین صفحہ ۱۵۵)

ایک صاحب نے لکھا:

            ” عدم ذکر یا عدم علم سے عدم شئ لازم نہیں آتی۔“

(تذکرۃ المناظرین صفحہ ۳۶۵ ، دارالنوادر اردو بازار لاہور ، مرتبہ: مولانا مقتدی اثری استاذ جامعہ اثریہ دار الحدیث مئو)

تیسرا اعتراض : اس میں اکٹھی تین طلاقوں کاذِکر نہیں۔

مفتی عبید اللہ عفیف خان غیرمقلد لکھے ہیں:

            ’’ َ لَوکُنْتُ طَلَّقْتُھَا ثَلَاثًا کاَنَ یَحِلُّ لِیْ اَنْ اُرَاجِعَھَا قَالَ کَانَتْ تَبِیْنُ ۔سے استدلال کیا جاتا ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے طلاق مغلظ پڑ جاتی ہے ۔جواب... اس ٹکڑے سے استدلال درست نہیں: کیوں کہ یہ ٹکڑا اس مفہوم میں صریح نہیں ۔کیوں کہ ’’ طَلَّقْتُھَا ثَلَاثًا ‘‘کا مفہوم تین بار طلاق بھی ہو سکتا ہے ۔ ‘‘

( فتاویٰ محمدیہ صفحہ ۷۷۴)

 حکیم صفدر عثمانی غیرمقلد نے زیر بحث کے متعلق لکھا:

 ’’ اس میں اکٹھی تین طلاق دینے کا ایک حرف بھی نہیں ہے ۔ ‘‘

( احسن الابحاث صفحہ ۳۷)

جواب:

            اس حدیث میں یہ الفاظ ہیں کہ تین طلاقیں دینے کی صورت میں گناہ ہوتا۔ اور ہم اہلِ سنت احناف اور غیرمقلدین دونوں فریقوں کا اتفاقی مسئلہ ہے کہ گناہ اکٹھی تین طلاقیں دینے کی صورت میں ہے، نہ کہ الگ الگ ۔ اس لئے یہ کہنا بجا ہے کہ اس میں اکٹھی تین طلاقوں کی بات ہے۔ مزید یہ کہ ایک سے زائد غیرمقلد ین نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اس میں اکٹھی تین طلاقوں کی بات ہے ۔

چنانچہ مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’یہ اثر اگر صحیح ثابت ہوجاتا تو قطع نزاع کے کا م آ سکتا تھا۔ ‘‘

( ایک مجلس کی تین طلاقیں اوراُن کا شرعی حل صفحہ۶۳)

 یعنی کیلانی صاحب کو تسلیم ہے کہ اس حدیث میں اکٹھی تین طلاقوں کامسئلہ بیان ہوا ۔

مولانا عبد الغفور غیرمقلد لکھتے ہیں :

            ’’ متن میں جو الفاظ ہیں لوطلقتھا الخ یہ عطاء خراسانی کی زیادتی ہے .. . وہ زیادت جومحل حجت ہے اس میں عطاء متفرد ہے ۔‘‘

( الببیان المحکم صفحہ ۷۲)

            لوطلقتھا الخ کو محل حجت تسلیم کیا ہے ۔انہوں نے اس پہ تفرد کا اعتراض تو کیا جس کا جواب پہلے دیا چکا مگر یہ نہیں کہا کہ یہ حدیث اکٹھی تین طلاقوں کے وقوع کی دلیل نہیں بلکہ ’’ لوطلقتھا الخ کی زیادت محل حجت ہے‘‘ لکھ کر تسلیم کیا کہ اس حدیث میں مجلس واحد کی تین طلاقوں کی بات ہے۔

            حاصل یہ کہ عفیف صاحب اور حکیم صاحب کا یہ کہنا کہ اس حدیث میں اکٹھی تین طلاقوں کا مسئلہ مذکور نہیں،خلاف واقعہ ہے۔

چوتھا اعتراض : یہ حدیث دوسری حدیث کے معارض ہے ۔

مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد نے زیر بحث حدیث پہ تبصرہ کرتے ہوا لکھا:

             ’’ اَب اس اثر کے بالکل برعکس ایک روایت تفسیر قرطبی میں یوں ہے کہ: عبد اللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو ایک مجلس تین طلاقیں دیں تور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا اور یہ تین طلاقیں ایک طلاق شمارہوئی ۔ ‘‘

( ایک مجلس کی تین طلاقیں اوراُن کا شرعی حل صفحہ۶۳،مولانا عبد الرحمن کیلانی)

جواب:

            کیلانی صاحب کی پیش کردہ روایت ضعیف ہے، اسے مولانا رئیس محمد ندوی غیرمقلد ضعیف کہا ہے ۔

 ( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۳۷۸)

            اور مولانا داود ارشد غیرمقلد نے کہا کہ یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ صحیح حدیثوں کے خلاف بھی ہے ۔ (دین الحق :۲؍۶۶۶، مکتبہ غزنویہ لاہور ، تاریخ اشاعت:دسمبر ۲۰۰۱ء)

            مزید تفصیل کے لئے ہماری اسی کتاب کے باب : ۱۵، غیرمقلدین کے چند مزید شبہات کا ازالہ ‘‘کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ۔

            حاصل یہ کہ کیلانی صاحب کااس ضعیف روایت کو پیش کرکے اپنا مطلب نکالنا اور صحیح حدیث کو رَد کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔

 نویں حدیث

سیدنا نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

            ’’ کَانَ ابْنُ عُمَرَ اِذَا سُئِلَ عَمَّنْ طَلَّقَ ثَلَاثًا قَالَ طَلَّقْتَ مَرَّۃً اَوْ مَرَّتَیْنَ فَاِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمّ اَمَرَنِیْ بَھٰذَا فَاِن طَلَّقْتَ ثَلَاثًا حَرُمَتْ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ‘‘

            ابن عمر رضی اللہ عنہ سے جب کسی ایسے شخص کے متعلق سوال کیا جاتا جس نے اپنی

بیوی کو تین طلاقیں دی ہوتیں تو آپ فرماتے اگر تم ایک یا دو طلاقیں دیتے تو تمہیں رجوع کا حق ہوتا کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی کا حکم دیا تھا لہٰذا جب تو نے تین طلاقیں دے دیں تو اب وہ عورت تجھ پر حرام ہو گئی یہاں تک کہ وہ تیرے سوا کسی اور سے نکاح کرے۔

 (بخاری :۲؍۷۹۲)

دسویں حدیث:

             حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے جب اسی قسم کے مسئلہ کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ قَالَ لِاَحَدِھِمْ اَمَّا اَنْتَ طَلَّقْتَ امْرَأَتَکَ مَرَّۃً اَوْ مَرَّتَیْنِ فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَرَنِیْ بِھٰذَا وَ اِنْ کُنْتَ طَلَّقْتَھَا ثَلَاثًا فَقْدْ حَرُمَتْ عَلَیْکَ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَکَ وَعَصَیْتَ اللّٰہَ فِیْمَا اَمَرَکَ مِنْ طَلَاقِ امْرَأَتِک۔

( مسلم :۱؍۴۷۶ واللفظ لہ بخاری : ۲؍۸۰۳و سنن الکبری :۷؍۳۳۱)

            ان سے فرماتے اگر تم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی ہیں تو بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اس صورت میں ) مجھے رجوع کا حکم دیا تھا اور اگر تم نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو یقینا وہ تم پر حرام ہو گئی ہے جب تک کہ وہ تیرے بغیر کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے اور اس طرح تو نے اپنی بیوی کو طلاق دینے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرنانی بھی کی ہے۔

حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ مذکورہ حدیث درج کرکے لکھتے ہیں:

            ’’ اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ تین طلاقو ں کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور عورت اپنے خاوند پر حرام ہو جاتی ہے اور اس سے یہ بھی معلوم کہ ایک اور دو طلاق کے بعد رجوع کرنے کا حکم تو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ثابت ہے لیکن تین طلاقوں کے بعد رجوع کرنے کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ورنہ حضرت ابن عمر ؓ اس کا حوالہ دیتے اور اس کے خلاف فتوی دینے کی ہرگز جرأت نہ کرتے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس شخص نے دفعۃ ً تین طلاقیں دے دی تھیں اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ یہ نہ فرماتے کہ تو نے طلاق کے سلسلہ میں اپنے رب کی نافرمانی کی ہے کیوں کہ ہر طہر پر ایک ایک طلاق دینے سے تعمیل حکم

ہوتی ہے، نہ کہ رب کی نافرمانی جیسا کہ ظاہر ہے ۔‘‘

 ( عمدۃ الاثاث صفحہ۶۶)

اعتراض:اس میں اکٹھی تین طلاقوں کا مسئلہ نہیں ۔

 حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ابن عمر ؓ کا نافرمانی والا فتوی بھی طلاق حیض کے متعلق ہے کہ پہلی اور دوسری کے بعد تو رجوع ہو سکتا ہے البتہ تیسری کے بعد رجوع بھی نہ ہوگا اور حیض میں طلاق دینے کی وجہ سے نافرمانی بھی ہوگی ۔ ‘‘

( احسن الابحاث صفحہ ۴۲)

             حکیم صاحب کی عبارت کا حاصل یہ ہے کہ رب کی نافرمانی حالتِ حیض میں طلاق دینے کی وجہ سے ہے، نہ کہ اکٹھی تین طلاقیں دینے سے۔ لہذا اس سے اکٹھی تین طلاقوں کا مسئلہ لینا غلط ہوا۔

جواب:

حکیم صاحب کی بیان کردہ یہ تاویل غیرمقلدین کو دو وجہ سے مفید نہیں ۔

(۱) حدیث میں یہ الفاظ ہیں تین طلاقیں دینا رب کی نافرمانی ہے، اس حدیث میں یہ الفاظ نہیں کہ تیرا حالت حیض میں طلاق دینا رب کی نافرمانی ہے۔ اگرچہ حالت حیض میں طلاق دینے کی ممانعت دوسری حدیثوں سے ثابت ہے مگر یہاں نافرمانی کی نسبت تین طلاقیں دینے کی طرف ہے۔ مزید یہ کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مسئلہ پوچھنے والے نے تو حالتِ حیض میں طلاق دینے کا ذِکر ہی نہیں کیا۔

            نیز جس طرح حالتِ حیض میں طلاق دنیا ممنوع ہے ،اسی طرح بہ اعتراف آلِ غیرمقلدیت اکٹھی تین طلاقیں دینا بھی منع ہے ۔تو سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ کا قول ’’آپ نے اپنے رب کی نافرمانی کی ‘‘ اکٹھی تین طلاقیں دینے والے کو شامل کیوں نہیں؟ اس کے خارج کرنے کی تمہارے پاس دلیل کیا ہے ؟

            غیرمقلدین کے بزرگ مولانا عبد التواب ملتانی نے مذکورہ بالا دونوں ممنوع طلاقوں کو اِس جملہ کا مصداق قرار دیا۔چنانچہ وہ حدیث میں مذکور ’’ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرنانی کی ہے ۔‘‘ کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

’’یعنی سورہ طلاق میں کہ فرمایا فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتھِنَّ الآیۃ جو بتلاتی ہے کہ عورت کو ہر ایک پاکی کے

ایام میں ایک طلاق جماع سے پہلے دی جاوے اور تو نے طلاق دے دی حیض میں اور یکجا تین۔‘‘

 ( شرح بلوغ المرام اردو صفحہ ۳۴۷، فاروقی کتب خانہ ملتان ، سن اشاعت: ۱۹۷۹ء )

ملتانی صاحب نے تسلیم کر لیا کہ اللہ کی نافرمانی میں ’’یک جا تین طلاقیں ‘‘ دینا بھی ہے ۔

             یہاں ایک اور بات کی طرف بھی توجہ کریں۔ حالتِ حیض میں طلاق دینا اور اکٹھی تین طلاقیں دینا دونوں

از روئے حدیث ممنوع اور گناہ ہیں مگر جتنا عتاب اکٹھی تین طلاقیں دینے پر ثابت ہے، اتنا حالتِ حیض میں طلاق دینے پر نہیں۔ حدیث میں ہے کہ کسی آدمی نے اکٹھی تین طلاقیں دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر غضب ناک ہوئے کہ ایک بندہ کہنے لگا کہ مجھے اجازت دیں کہ میں اس بندہ کو قتل کردوں۔(نسائی )

            جب کہ میری معلومات کے مطابق حالتِ حیض میں طلاق دینے پہ اتنا شدید غضب ثابت نہیں کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عتاب کو دیکھ کر طلاق دینے والے کو قتل کردینے کی اجازت مانگی ہو۔ پھر کیا وجہ ہے جونسبۃً کم جرم ہو اسے تو رب کی نافرمانی کا نام دیں اور جو شدید تر گناہ ہو اسے رب کی نافرمانی کا مصداق قرار نہ دیں ۔

            حاصل یہ کہ رب کی نافرمانی کا اعلیٰ مصداق اکٹھی تین طلاقیں دینا ہے۔ اسے نافرمانی کا مصداق قرار نہ دینا اور صرف حالتِ حیض میں طلاق دینے کو ہی نافرمانی سمجھنا بے دلیل اور غلط ہے ۔

 (۲) حکیم صاحب کو اصرار ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حالتِ حیض میں دی گئی طلاق واقع تو ہو جائے گی مگر یہ رب کی نافرمانی ہوگی ۔

            حکیم صاحب یہ توجیہ کس طرح پیش کر سکتے ہیں جب کہ وہ اہلِ سنت پر اعتراض کر چکے کہ اگر اکٹھی تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں تو یہ ممنوع ، گناہ اور بدعت کیوں ہیں اور اگر منع،گناہ اور بدعت ہیں تو واقع کیوں ہوتی ہیں ۔ حکیم صاحب کی توجیہ پہ انہیں کا اعتراض وارد ہوتا ہے کہ حالت حیض میں طلاق دینا رب کی نافرمانی ہے تو واقع کیوں ہوتی ہے ۔ اگر واقع ہوجاتی ہے تو یہ اللہ کی نافرمانی کیوں ہے ؟

            مزید یہ کہ حکیم صاحب نے اعتراف کیا کہ اس حدیث کے مطابق حالتِ حیض میں دی جانے والی طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔ہم کہتے ہیں اس اعتبار سے بھی یہ حدیث غیرمقلدین کے اس گروہ کے خلاف ہے جن کی رائے یہ ہے کہ حالتِ حیض میں دی جانے والی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔

            علامہ وحید الزمان غیرمقلد نے اپنی کتاب ’’نزل الابرار فی فقہ النبی المختار :۲؍۸۱،۸۳‘‘میں لکھا کہ حالت ِ حیض میں دی جانے والی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔

 وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ اب وہ طلاق جو حالت ِحیض میں دی تھی اہلِ حدیث کے نزدیک لغو ہے لیکن ائمہ

اربعہ کے نزدیک اس کا شمار بھی ہوگا۔ ‘‘

( تیسیر الباری شرح بخاری :۷؍۱۶۴ طبع تاج کمپنی )

وحید الزمان صاحب نے حالتِ حیض میں دی گئی طلاق کے متعلق مزید لکھا:

            ’’ ائمہ اربعہ اور اکثر فقہاء تو اس طرف گئے ہیں کہ شمار ہوگا اور ظاہریہ اور اہلِ حدیث اور امامیہ اور ہمارے مشائخ میں سے امام ابن تیمیہ، ابن قیم ، امام ابن حزم علیہم الرحمۃ اور محمد باقراور جعفر صادق اور ناصر علیہم السلام اہلِ بیت کایہ قول ہے کہ اس طلاق کا شمار نہ ہوگا اس لیے کہ بدعی اور حرام تھا شوکانی اور محققین اہلِ حدیث نے اسی کو ترجیح دی ہے ۔ ‘‘

 (حوالہ مذکورہ )

            مولانا داؤد راز غیرمقلد نے علامہ وحیدالزمان کی اسی عبارت کو نقل کرکے اتفاق کیا ہے ۔ بلکہ اپنی  رائے کے پیش نظر انہوں نے صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب کو مشکوک بنادیا ۔ بخاری میں ہے: ’’ اِذَا طُلِّقَتْ الْحائِضُ تُعْتَدُّ بِذٰلِکَ الطَّلَاقُ ، جب حائضہ عورت کو طلاق دی جائے تو یہ طلاق شمار کی جائے گی ۔‘‘

راز صاحب نے اس کایوں ترجمہ کیا:

            ’’ اگر حائضہ کو طلاق دے دی جائے تو یہ طلاق شمار ہوگی یا نہیں؟ ‘‘

( شرح بخاری اردو :۷؍۲۸)

میر نور الحسن غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ طلاق سنی آنست کہ زن حائض نباشد ہم چنیں نفساء نبود زیرا کہ طہر را دراں شرط کردہ و نفاس طہر نیست و دراں طہر کہ طلاق دادہ جماع نکرد باشد نہ زیادہ بریک طلاق ندادہ زیرا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بر سہ طلاق جمیعا حشمناک شد ... وبالجملۃ اتفاق کائن است بر انکہ طلاق مخالف طلاق سنت را طلاق بدعت گویند ... وآنچہ خلاف شرع خدا و رسول است مردود باشد بحدیث عائشہ رضی اللہ عنہا عنہ صلی اللہ علیہ وسلم کل عمل لیس علیہ امرنا فھورد ایں حدیث متفق علیہ است شوکانی گفتہ فمن زعم ان ھذہ البدعۃ یلزم حکمھا وان ھذا الامر الذی لیس من امرہ صلی اللہ علیہ وسلم یقع من فاعلہ ویعتد بہ لم یقبل منہ ذلک الا بدلیل ۔‘‘

 ( عرف الجادی من جنان ھدی الھادی صفحہ ۱۱۸،۱۱۹)

            ترجمہ: طلاق شرعی یہ ہے کہ عورت حیض و نفاس کی حالت میں نہ ہو،کیوں کہ طلاق کے لئے عورت کا طہر میں ہونا شرط ہے اور جس طہر میں طلاق دے اس میں جماع نہ کیا ہو اور ایک سے زیادہ طلاق بھی نہ دے کیوں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکٹھی تین طلاقوں پرناراض ہوگئے تھے اور اس پر اتفاق ہے کہ جو طلاق شرعی طریقہ کے خلاف ہو وہ طلاق بدعت ہے اور جو چیز خدا اور رسول کی شریعت کی خلاف ہو وہ مردود ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث نقل کی ہے کہ ہروہ عمل جو ہمارے دین کے موافق نہ ہو، وہ مردود ہے ۔یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ اور امام شوکانی فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ اس غیر شرعی طلاق کا حکم لازم ہو جاتا ہے اور یہ طلاق جو امر رسول کے خلاف ہے ، واقع ہو جاتی ہے اور اس کا اعتبار کیا جائے گا ا س کی یہ بات بغیردلیل کے قبول نہیں کی جائے گی ۔

 رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ طلاق حیض کو بھی مردود و باطل و کالعدم ہوناچاہیے ۔‘‘

( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۱۸۰)

اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھا:

            ’’ حالتِ حیض کی طلاق بالکل واقع نہ ہوگی خواہ سو مجالس و اوقات میں سو بار دی گئی ہو۔ ‘‘

 ( صفحہ ۵۱۲)

 ندوی صاحب آگے لکھتے ہیں:

            ’’ حضرت ابن عمر کی طلاق حیض کے باطل و کالعدم ہونے ہی کے باعث ان کو رسول اللہ

صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ اگر واقعۃ ً تمہیں طلاق دینے کا ارادہ ہی ہو تو بحالت طہر دے دینا کیوں کہ حیض والی طلاق تو مردود و باطل و لاشئی ہے ۔ ابن عمر کو دوبارہ طلاق دینے کی تعلیم بذاتِ خود اس امر کی دلیل ہے کہ حالت حیض کی طلاق واقع نہیں ہوئی تھی۔ ‘‘

( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۴۳۶)

مولانا عبد القادر حصاروی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ ایک روایت میں ہے وَلَمْ یَرَاھَا شَیْئًا کہ اس کو کوئی شی تصور نہ کیا ۔ دوسری روایت میں ہے کہ لَیْسَ ذٰلِکَ بِشَیءٍ کہ یہ کوئی چیز ہی نہیں ہے ۔ تیسری روایت میں ہے : لَا یُعْتَدُّ بِذٰلِکَ الطَّلَاق کہ اس کا شمار ہی نہیں کیا جائے۔ اس سے ثابت ہوا کہ غیرمشروع اور غیر مسنون اور غیر ماذون طلاق ناقابل اعتبار ہے ۔پس اسی طرح تین طلاق اکٹھی حرام اور بدعت ہیں ۔ ان میں سے دو کو واپس کرنا چاہیے ، وہ ناقابل اعتبار ہیں ، صرف ایک شمار کرنی ہوگی ۔ بعض روایتوں میں حالت ِ حیض کی طلاق کو شمار کرنا ظاہر ہوتا ہے لیکن علامہ شوکانی عالم ربانی نے اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا ہے کہ اس بارہ میں کوئی شک نہیں ہے حائضہ کی طلاق نہ شمار کرنے کی روایت اس روایت سے بہت راجح ہے ، جو طلاق شمارکرنے کے بارے میں ہے ۔ جب موافقت کے منعقد ہونے کی وجہ سے ہم ترجیح کی طرف پھرتے ہیں تو روایت نہ شمار کرنے کی شمار والی سے بہت راجح ہے اس وجہ سے جو گذر چکی ہے۔ ‘‘

(فتاویٰ حصاریہ :۶؍۳۴۲، ناشر :عبد اللطیف ربانی مکتبہ اصحاب الحدیث اردو بازار لاہور ، طبع اول ۲۰۱۲ء)

خواجہ محمد قاسم غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ جہاں تک عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت کا تعلق ہے کہ انہوں نے بیوی کو حالتِ حیض میں

طلاق بدعی دی جو باوجود بدعی ہونے کے حُسِبَتْ عَلَیَّ تَطْلِیْقَۃ،( بخاری و مسلم ) ایک طلاق سمجھی گئی۔اس میں استدلال والی کوئی بات نہیں کیوں کہ ایک حدیث میں یوں بھی ہے : فَرَدَّھَا عَلٰی وَلَمْ یَرَھَا شَیْئًا۔(ابوداود ص۲۲۲ وغیرہ)حضور ؐ نے بیوی کو میرے پاس لوٹا دیا اور طلاق کو کچھ خیال نہ کیا ۔چنانچہ حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ ، حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ، حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کا یہی مسلک ہے کیوں کہ ولم یرھا شیئا کا فاعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور حُسِبَتْ کا فاعل نہ جانے کون ہے .. . اگر طلاق کا وقوع مان بھی لیا جائے تو اس میں یہ ارشاد ہے : مُرْہُ فَلْیُرَجِعْھَا [بخاری : ۵۲۵۱] اسے کہو کہ رجوع کرے ۔‘‘ وہ طلاق ہی کیا جس کے بعد رجوع واجب ہو۔ یہ طلاق اپنی مثال آپ نظر آتی ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے غلطی کی تائید کرکے مزید غلطی کا ثبوت نہیں دینا چاہیے جتنی بات غلط ہو اسے زائل کر دینا چاہیے ‘‘

( تین طلاقیں ایک مجلس کی ایک ہوتی ہے صفحہ ۳۵)

             یاد رہے کہ حالت ِ حیض میں دی جانے والی طلاق کو واقع نہ ماننے والے غیرمقلدین کا یہ فریق صرف مسلم کی زیر بحث حدیث کے خلاف نہیں بلکہ بخاری وغیرہ کی حدیثوں کے بھی خلاف ہے ۔ خود حکیم صاحب نے لکھا:

’’ حیض میں ایک طلاق واقع ہونے کی دلیل صحیح بخاری و دیگر کتب احادیث میں موجود ہے۔‘‘

( احسن الابحاث صفحہ ۱۲)

(جاری)

ماخوذ  : مجلہ  راہ     ہدایت    شمارہ 24

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...