بغیر ترجیع کی اذان کے ساتھ دوہری اقامت کے قائلین : علماء احناف کے نزدیک اقامت کا طریقہ :
بغیر
ترجیع کی اذان کے ساتھ دوہری اقامت کے قائلین :
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 7
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
-
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں
’’وبه يقول سفيان الثوري، وابن المبارك، وأهل
الكوفة‘‘ یہ سفیان ثوریؒ ، ابن المبارک ؒ اور اہل
کوفہ کا قول ہے۔ (سنن
ترمذی : جلد۱ : صفحہ ۲۶۷ ، حدیث ۱۹۴)
- امام ابن عبد البر مالکیؒ فرماتے ہیں
’’وقال أبو
حنيفة وأصحابه والثوري والحسن بن حي وعبيد الله بن الحسن الأذان والإقامة جميعا
مثنى مثنى والتكبير عندهم في أول الأذان وأول الإقامة الله أكبر أربع مرات قالوا
كلهم ولا ترجيع في الأذان وإنما يقول أشهد أن لا إله إلا الله مرتين أشهد أن محمدا
رسول الله مرتين ثم لا يرجع إلى الشهادة بعد ذلك ولا يمد صوته۔
وحجتهم في ذلك
حديث عبد الرحمن بن أبي ليلى قال حدثنا أصحاب محمد عليه السلام أن عبد الله بن زيد
جاء إلى النبي عليه السلام فقال يا رسول
الله! رأيت في المنام كأن رجلا قام وعليه بردان أخضران على جذم حائط فأذن مثنى
مثنى وأقام مثنى مثنى وقعد قعدة بينهما قال فسمع بذلك بلال فقام فأذن مثنى وقعد قعدة
وأقام مثنى۔يشفعون الأذان والإقامة وهو قول جماعة التابعين والفقهاء بالعراق ۔قال
أبو إسحاق السبيعي كان أصحاب علي وعبد الله يشفعون الأذان والإقامة۔فهذا أذان
الكوفيين متوارث عندهم به العمل قرنا بعد قرن أيضا كما توارث الحجازيون في الأذان زمنا بعد زمن على ما وصفنا ‘‘
امام ابو حنیفہ ؒ ، آپ کے شاگرد ، امام
سفیان ثوریؒ ، امام حسن بن حي ، اور عبید اللہ بن حسن ، کہتے ہیں کہ اذان اور
اقامت دونوں دوہری کہی جائیں گی ، اور ان کے نزدیک اذان واقامت کے شروع میں تکبیر
کے کلمات بھی چار مرتبہ کہیں جائیں گے ، نیز یہ تمام حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ
اذان میں ترجیع نہیں ہوگی۔
ان کی دلیل حضرت عبد اللہ بن زیدؓ کی حدیث
ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ لوگ اذان واقامت دونوں دوہری کہتے ہیں ۔یہی
تابعین کی ایک جماعت اور فقہاء عراق کا بھی قول ہے۔ ابو اسحاق السبیعیؒ کہتے ہیں
کہ حضرت علیؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے کے شاگرد ، اذان و اقامت دوہری کہا کرتے تھے۔پس یہی کوفہ
والوں کی اذان ہے،ہر زمانہ میں ان کے یہاں اسی پر عمل ہوتا چلا آیا ہے۔
جیسا کہ اہل حجاز
توارث کے ساتھ اس اذان پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں جو ہم نے بیان کی ۔ (الاستذکار : جلد۱ : صفحہ ۳۶۹)
- یہی
بات امام ابو عبد اللہ قرطبیؒ (م۶۷۱ھ) بھی کہتے ہیں ۔ ( الجامع لأحکام
القرآن : جلد۶ : صفحہ ۲۲۷)
اس سے معلوم صحابہ کرام ؓ اور تابعینؒ کے
زمانہ سے اس پر عمل ہورہا ہے۔
- شیخ الاسلام ، امام ابوبکر بن عیاشؒ
کا قول :
سنن دار قطنیؒ میں حضرت عبد اللہ بن زیدؓ
کی روایت نقل کرتے ہوئے ایک راوی شیخ الاسلام مقرئ فقیہ محدث ، امام ابوبکر بن عیاش اسدیؒ، جو کوفہ کے رہنے
والے ہیں ، اور قرآت کے سات اما موں میں سےامام حمزہ الزیّاتؒ کے دوشاگردوں میں
سے ایک ہیں ،اوران کی ولادت ۹۶ ھ سے
۱۰۰ھ کے درمیان ہے، حضرت فرماتے ہیں: ’علی نحو
من اذاننا الیوم‘ جیسے آج ہماری اذان ہے۔ (سنن دار قطنی: جلد۱
: صفحہ ۴۵۲، حدیث ۹۳۷)
اس
سے معلوم ہوا کہ تبع تابعین کے زمانہ میں بھی کوفہ میں اسی طرح اذان واقامت ہوتی
تھی ۔
- سفیان ثوری ؒ کا خود دوہری اقامت کہتے
ہیں جیسا کہ تفصیل گزرچکی۔(مصنف عبد الرزاق : جلد۱ : صفحہ ۴۶۱، رقم ۱۷۸۸)
-
امام قاضی عیاض مالکیؒ فرماتے
ہیں : اہل کوفہ دوہری اذان و اقامت کہتے
ہیں اور یہ بعض سلف کا قول ہے ۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم : ج۲ : ص۲۴۱) اس سے معلوم ہوا دوہری اذان و اقامت بھی سلف کا
ہی قول ہے۔
ان تمام علماء کے اقوال سے صرفِ نظر کرتے
ہوئے ، ظہیرامن پوری نے احناف دشمنی
میں صرف اپنے مطلب کا قول نقل امام
نوویؒ سے نقل کردیا کہ امام نوویؒ فرماتے
ہیں :امام ابو حنیفہؒ کہتے ہیں کہ اقامت کے سترہ کلمات ہیں ، پس وہ سب کو دو دو
بار کہتے ہیں ، اور یہ مذھب شاذ ہے۔ (ضرب حق : ش۱۱ : ص ۳۱)
اس کا جواب ہم
خود دینے کے بجائے سلفی علماء سے نقل
کردیتے ہیں :
سلفی
عالم شیخ ابراہیم بن ابراہیم قریبی ، امام نوویؒ کا قول نقل کرکے کہتے ہیں :
’’شوکانی ؒ (جو کہ غیرمقلدین کے بڑے علماء
میں ہیں ) کہتے ہیں کہ حنفیہ، ہادویہ ، ثوریؒ ، ابن مبارکؒ اور اہل کوفہ کے نزدیک
اقامت کے الفاظ اذان کی طرح ہیں ،مع اضافہ قدقامت الصلاۃ ، ان کا استدلال حضرت عبد
اللہ بن زید ؓ کی حدیث سے ہے، جسے امام ترمذیؒ اور امام ابوداؤدؒ نے روایت کیا ہے،
جس کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اذان واقامت دوہری تھی ، اور یہی معنی حضرت
بلالؓ سے بھی مروی ہے۔ ‘‘
شیخ
قریبی کہتے ہیں :
علماء نے اس میں علت بیان کی ہے ۔
آگے
شیخ قریبی کہتے ہیں :
مگر شوکانیؒ نےان علتوں کو دفع کیا (ان کا جواب
دیا) ہے، اور اس کی تائید حضرت ابومحدوذہ ؓ کی حدیث سے بھی کی ہے ، جس میں یہ آیا ہے کہ نبی کریم ﷺنے انہیں اذان ۱۹انیس کلمات اور اقامت ۱۷کلمات سکھائے،نیز
کہتےہیں : امام ترمذیؒ اور دوسرے محدثین نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے، پس
(ابومحذورہؓ کی ) یہ حدیث ، اس حدیث کیلئے ناسخ ہے جس میں یہ ہے کہ حضرت بلال ؓ کو
حکم دیا گیا کہ اذان دوہری اور اقامت اکہری کہیں ، اس وجہ سے(ناسخ ہے) کیونکہ یہ
(حدیث ابو محذورہ) ، حضرت بلالؓ کی حدیث کے بعد ہے، اس لئے کہ حضرت ابو محذورہؓ
فتح مکہ کے وقت اسلام لائے اور بلال ؓ کو
اقامت اکہری کہنے کا حکم ، اذان کی مشروعیت
کے شروع میں دیا گیا تھا۔
شوکانیؒ
آگے کہتے ہیں :
یہ جان لینے کے بعد تم پر واضح ہوگیا کہ
دوہری اقامت کی حدیثیں اس لائق ہیں کہ ان سے حجت پکڑی جائے ، جیسا کہ ہم نے پہلے
بیان کیا۔
اور اکہری اقامت کی احادیث اگر چہ زیادہ
صحیح ہیں ، اسلئے کہ ان کی سندیں زیادہ ہیں ، اور چونکہ وہ صحیحین میں ہیں ، لیکن
دوہری اقامت کی حدیثیں اضافہ پر مشتمل ہیں ، پس اسے اختیار کرنا لازم ہے ، خاص طور
پر اس وجہ سے بھی کہ ان میں سے بعض مؤخر ہیں ، جیسا کہ ہم نے تمہیں بتایا۔(امام
شوکانیؒ کی بات مکمل ہوئی)
شیخ
قریبی کہتے ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ اکہری اقامت کی حدیثیں
زیادہ صحیح اور تعداد میں بھی زیادہ ہیں ، اور اس کے قائلین بھی جمہور علماء ہیں ،
امام احمد بن حنبلؒ سے کہا گیا :
کیا ابو محذورہؓ کی حدیث حضرت عبداللہ بن
زیدؓ کی حدیث کے بعد نہیں ہے ، اس لئےکہ ابو محذورہؓ کی حدیث فتح مکہ کے بعد کی ہے ؟
اور امام احمدؒ نے فرمایا : کیا رسول اللہ ﷺ نے
(اس سفر سے ، جس میں ابو محذورہ ؓ کو اذان سکھلائی تھی ) مدینہ واپس آنے کے بعد
حضرت بلالؓ کو حضرت عبد اللہ بن زیدؓ کی اذان پر باقی نہیں رکھا تھا؟
امام
شوکافی ؒ (امام احمدؒ کے اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے ) کہتے ہیں :
(امام احمد ؒ کا )یہ (اس استدلال ) اس بات
پر موقوف ہے کہ صحیح طور پر منقول ہو کہ نبی اکرمﷺکے مدینہ منورہ واپس آنے کے بعد
حضرت بلالؓ نے اکہری اقامت کہی ، صرف امام احمد بن حنبل ؒ کا کہہ دینا کافی نہیں ،
اور اگر یہ ثابت (بھی ) ہو کہ (نبی اکرم ﷺ کے مدینہ منورہ واپس آنے کے بعد حضرت
بلال ؓ نےاکہری اقامت کہی) تب بھی یہ ان علماء کے مذہب کی دلیل ہوگی جن کا کہنا ہے
کہ (اکہری اقامت ودوہری اقامت) سب جائز ہے ، اور اس کو (یعنی اکہری ودوہری اقامت ، دونوں کے جواز کے قول کو) اختیار کرنا
لازم ہوتا، اس لئے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک
چیز ایک دوسرے کے بعد کی گئی جو تمام کے جواز کا پتہ دیتی ہے نہ کہ نسخ کا
۔
آگے
شیخ ابراہیم قریبی کہتے ہیں :
اور میں کہتا ہوں کہ اس معاملہ میں زیادہ
سلامتی تمام (طریقہ اقامت ) کے جواز کے قول میں ہے، جبکہ یہ تمام رسول اللہ ﷺ سے
وارد ہے، اور ابن خزیمہؒ اور ابن حبانؒ نے اس کو اختلاف مباح میں سے شمار کیا ہے۔
شیخ
قریبی کہتے ہیں :
ابن عبد البرؒ کہتے ہیں : امام احمد بن
حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، داؤد بن علی ، محمد بن جریر طبری ان تمام چیزوں کے جواز
کے قائل ہیں جو اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے، اور اس (اختلاف) کو اباحت
وتخییر پر محمول کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ سب جائز ہے، اس لئے کہ یہ تمام (طریقے)
نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہیں ، اور ان پر آپﷺ کے صحابہ ؓ نے عمل کیا ، پس جو چاہے اذان
کے شروع میں چار مرتبہ اللہ اکبر کہے اور جو چاہے دو مرتبہ ، اور جو چاہے دوہری اقامت کہے اور جو چاہے کہ
اکہری ، البتہ قد قامت الصلاۃ بہر حال دو مرتبہ کہا جائے گا۔ (امام عبد البرؒ کی
بات پوری ہوئی)
شیخ
قریبی آگے کہتے ہیں :
ابن
القیمؒ نے بھی اس مسئلہ اور اس جیسے (
دوسرے مسائل ) کی طرف اشارہ کیا ہے جو
مباح خلافات میں سے ہے، جس میں نہ کرنے
والے پر سختی کی جاتی ہے ، نہ چھوڑنے والے
پر۔ شیخ ابرہیم قریبی کی بات ختم ہوئی۔ (مرویات غزوہ حنین وحصار طائف : جلد۲ : صفحہ ۵۸۹،نیل
الاوطار :ج ۲:ص۵۱) اس کتاب کو مدینہ منورہ کی اسلامی
یونیورسٹی نے خود شائع کیا ہے ۔ [1]
اسی
طرح سابق مفتی مملکہ شیخ المشایخ
علامہ عبد العزیز ابن بازؒ سے پوچھا گیا کہ:
ہم
ایک ایسی کمپنی میں رہتے ہیں جہاں بہت سے کام کرنے والے ترک حضرات ہیں ، جو مسلمان
ہیں ، ہمیں نماز کیلئے بلاتے ہیں ، اور اذان واقامت کہتے ہیں ، البتہ ان کا مؤذن ،
اقامت بالکل اذان کی طرح کہتا ہے۔ (خلاصہ)
شیخ
ؒ جواب میں کہتے ہیں :
اس میں کوئی حرج نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اقامت،
اذان کی طرح کہے اس میں کوئی حرج نہیں (خلاصہ)۔ (فتاویٰ نور علی الدرب : جلد۶ :
صفحہ ۳۴۳)[2] اس سے معلوم ہوا کہ خود سلفی علماء کے نزدیک امام نووی ؒ کے اس قول (یہ مذھب شاذہے ) سے صحیح
نہیں ہیں ۔
[1] الفاظ
یہ ہیں :
قال النووي: وهذا المذهب
شاذ۔
وقال الشوكاني: وذهبت
الحنفية والهادوية والثوري وابن المبارك وأهل الكوفة إلى أن ألفاظ الإقامة ، مثل
الأذان عندهم مع زيادة قد قامت الصلاة مرتين، واستدلوا بما في رواية عبد الله بن
زيد عند الترمذي، وأبي داود، بلفظ: "كان أذان رسول الله صلى الله عليه وسلم
شفعاً شفعاً في الأذان والإقامة ، وروي معنى ذلك عن بلال.
وقد
أعلها العلماء۔
غير أن الشوكاني: دافع عنها
وأيدها بحديث أبي محذورة الوارد فيه "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم علمه
الأذان تسع عشرة كلمة والإقامة سبع عشرة كلمة" قال: وهو حديث صححه الترمذي
وغيره". فيكون ناسخا لحديث "أمر بلال أن يشفع الأذان ويوتر
الإقامة" لتأخره عن حديث بلال، لأن أبا محذورة من مسلمة الفتح، وبلالاً أمر
بإفراد الإقامة أول ما شرع الأذان۔
ثم قال: وإذا عرفت هذا
تبين لك أن أحاديث تثنية الإقامة صالحة للاحتجاج كما أسلفناه۔
وأحاديث إفراد الإقامة وإن
كانت أصح منها لكثرة طرقها وكونها في الصحيحين، ولكن أحاديث التثنية مشتملة على
الزيادة، فالمصير إليها لازم لا سيما مع تأخر تاريخ بعضها كما عرفناك۔ إهـ.
فقد تبين من هذا أن أحاديث
إفراد الإقامةأصح وأكثر وأن القائلين بها هم جماهير العلماء، وقد قيل للإمام أحمد
بن حنبل:
أليس حديث أبي محذورة بعد
حديث عبد الله بن زيد، لأن حديث أبي محذورة بعد فتح مكة، قال: أليس قد رجع رسول
الله صلى الله عليه وسلم إلى المدينة فأقر بلالاً على أذان عبد الله بن زيد.
قال الشوكاني: ولكن هذا
متوقف على نقل صحيح أن بلالاً أذن بعد رجوع النبي صلى الله عليه وسلم المدينة
وأفرد الإقامة، ومجرد قول أحمد بن حنبل لا يكفي، فإن ثبت ذلك، كان دليلاً لمذهب من
قال بجواز الكلّ ويتعين المصير إليهما؛ لأن فعل كل واحد من الأمرين عقب الآخر مشعر
بجواز الجميع لا بالنسخ۔
وأقول
لعل الأسلم في ذلك هو القول بجواز الكل ما دام أن الجميع قد ورد عن رسول الله صلى
الله عليه وسلم، وقد جعله ابن خزيمة وابن حبان من الاختلاف المباح.
وقال ابن عبد البر: ذهب
أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه وداود بن علي، ومحمد بن جرير الطبري إلى إجازة
القول بكل ما روى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك وحملوه على الإباحة
والتخيير، قالوا: "كل ذلك جائز لأنه قد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم جميع
ذلك وعمل به أصحابه، فمن شاء قال: الله أكبر أربعا في أول الأذان، ومن شاء ثنى
الإقامة, ومن شاء أفرد، إلا قوله:"قد قامت الصلاة"فإن ذلك مرتان على كل
حال.إهـ.
وأشار ابن قيم الجوزي أيضا إلى أن هذا ونحوه من
الخلاف المباح الذي لا يعنف فيه من فعله , ولا من تركه۔
[2] الفاظ
یہ ہیں :
بيان جواز أن يأتي بلفظ
الإقامة كالأذان
س:
إننا نعيش في مؤسسة وكثير من العاملين فيها من الأتراك المسلمين جزاهم الله عنا
خيرا، هؤلاء الأتراك مسلمون بمعنى الكلمة يحضوننا على الصلاة، ويؤذنون ويقيمون
ويؤموننا في الصلاة، لكن المؤذن عندهم يقيم الصلاة كالأذان - أي إنه يأتي
بالإقامة كالأذان بالضبط - فهل هذا جائز أم لا؟ وفقكم الله
ج: لا حرج في ذلك؛
لأن الأذان جاء على نوعين: نوع بالتكبير في أوله أربع والشهادتين، الشهادة مرتين
مرتين، والتكبير في آخره مرتين، والحيعلة كل واحدة مرتين، وجاءت الإقامة على نحوه
في حديث أبي محذورة وجاء في حديث أنس في أذان بلال الإيتار في الإقامة، فمن أوتر
الإقامة فهو أفضل على حديث بلال، وإقامة بلال: الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله
إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله حي على الصلاة، حي على الفلاح، قد قامت الصلاة
قد قامت الصلاة الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله.
هذا هو الأفضل كما جاء في
أذان بلال وفيما رواه عبد الله بن زيد لما أري الأذان فمن أتى بالإقامة على
شبه الأذان فلا بأس؛ لأن هذا جاء في حديث أبي محذورة: علمه الإقامة كما
علمه الأذان عليه الصلاة والسلام فالأمر في هذا واسع من باب اختلاف التنوع،
والأذان كذلك تنوع لأنه جاء فيه كما تقدم، وجاء فيه إعادة الشهادتين مرة أخرى يأتي
بها بصوت خفي ليس بجهوري وليس برفيع جدا ثم يأتي برفع الصوت بذلك مرة أخرى
بالشهادتين أرفع من اللفظ الأول، وهذا يسمى ترجيعا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں