نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کیا وضو میں ایک ہی پانی سے کلّی کرے اور ناک میں پانی ڈالے یا دونوں کیلئے الگ الگ پانی استعمال کرے؟

 

مسئلۃ الفرق بین المضمۃ والاستنشاق

مفتی ابن اسماعیل المدنی

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں۔

کیا وضو میں ایک ہی پانی سے کلّی کرے اور ناک میں پانی ڈالے یا دونوں کیلئے الگ الگ پانی استعمال کرے؟

غیر مقلد عبد الرؤف سندھو صاحب لکھتے ہیں کہ :ایک چلّو سے کلّی کرنا اور پھر دوسرے چلّو سے ناک میں پانی ڈالنا، یہ طریقہ صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔ (مسنون نماز: صفحہ۴۵)

الجواب :

اس کا جواب خود علماء اہل حدیث سے سن لیجئے :

(۱)        شیخ عبد الرحمن عزیز صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں کہ :  منہ اور ناک کے لئے علیحدہ علیحدہ پانی لینا بھی جائز ہے ۔ (صحیح نماز نبوی : صفحہ ۴۲)

(۲)         غیر مقلدین کے حکیم صادق سیالکوٹی ؒ نے لکھا ہے کہ :   پورے ۳ چلّو سے ۳ مرتبہ کلی کرنا ، پھر ۳ چلّو سے ۳ بار ناک میں پانی ڈالنا بھی درست ہے ۔ (القول المقبول :صفحہ ۱۶۷)

 (۳)        اہل حدیثوں کے محدث العصر ، حافظ زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں کہ کلی کرتے وقت منہ علیحدہ پانی ڈالنا بھی جائز ہے ۔ اور علی زئی صاحب دلیل ذکر کرتے ہیں کہ :

رأيت عليا وعثمان توضآ ثلاثا ثلاثا" ثم قالا: "هكذا توضأ النبي صلى الله عليه وسلم" وذكر أنهما أفردا المضمضة والاستنشاق.

شقیق بن سلمہ ؒ نے کہا کہ : میں نے علی ؓ اور عثمان ؓ کو دیکھا: انہوں اعضاء وضو کو ۳،۳ بار دھویا اور پھر فرمایا کہ نبی ﷺ نے اسی طرح وضو کیا تھا۔  (شقیق نے) بیان کیا کہ ان دونوں نے کلی علیحدہ کی اور ناک میں پانی علیحدہ پانی ڈالا تھا۔  (تاریخ ابن ابی خیثمہ :صفحہ ۵۸۸، حدیث نمبر ۱۴۱۰)،آگے علی زئی کہتے ہیں کہ اس کی سند حسن لذاتہ ہے ۔ (فتاویٰ علمیہ :جلد۱:صفحہ ۲۱۴)

اسکین :

معلوم ہوا کہ خود اہل حدیث علماء کی نظر میں عبد الرؤف سندھو  صاحب کا دعویٰ باطل ومردود ہے ۔

اور اسی طرح ابو داؤد کی روایت میں بھی کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کے لئے الگ الگ پانی لینے کا ذکر ہے ۔  امام ابو داؤد ؒ            (م ۲۷۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا معتمر، قال: سمعت ليثا، يذكر عن طلحة، عن أبيه، عن جده، قال: دخلت - يعني - على النبي صلى الله عليه وسلم وهو يتوضأ، والماء يسيل من وجهه ولحيته على صدره، فرأيته يفصل بين المضمضة والاستنشاق

ترجمہ:

            طلحہ اپنے والد سے اور وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺکے پاس آیا اس وقت آپ وضو فرمارہے تھے اور پانی آپ کے چہرے اور ڈاڑھی سے سینے پر بہہ رہا تھا ، تو میں نے دیکھا کہ آپ نے مضمضہ اور استنشاق میں فرق کیا۔  (سنن ابی داؤد :حدیث نمبر ۱۳۹) [1]

صحابہ کرامؓ کا عمل:

تاریخ ابن ابی خیثمہ ؒ کی کتاب سے گزر چکا کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ اور حضرت علی ؓ بھی وضو کرتے وقت ایک چلّو سے کلّی

کرتے اور دوسرے چلّو سے ناک میں پانی ڈالتے تھے ۔ معلوم ہوا کہ صحابہ کرام ؓ کا بھی یہی عمل ہے ۔

تابعین ؒ اور ائمہ مجتہدین کا عمل :

(۱)         حسن بصری ؒ (م۱۲۰؁ھ)بھی کلّی اور ناک میں پانی ڈالنے کے لئے الگ الگ پانی استعمال فرماتے تھے ۔ [2]

(۲)         امام محمد بن ادریس الشافعیؒ (م۲۰۴؁ھ) فرماتے ہیں کہ : ’’إِنْ جَمَعَهُمَا فِي كَفٍّ وَاحِدٍ فَهُوَ جَائِزٌ، وَإِنْ فَرَّقَهُمَا فَهُوَ أَحَبُّ إِلَيْنَا‘‘ اگر ایک ہی چلّو میں کلّی اور ناک میں پانی ڈالنے کو جمع کردیا جائے ، تو جائز ہے اور اگر دونوں کو الگ الگ کردیا جائے ، تو وہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے ۔ (سنن ترمذی :حدیث نمبر ۲۸) اور احناف کے نزدیک دونوں طرح جائز ہے ، لیکن الگ الگ پانی لینا افضل اور زیادہ صحیح ہے۔ (انوار الباری : ج ۷: ص ۵۱۵)

 

 

 

 



[1] رواۃ کی تحقیق یہ ہے :

۱-امام ابو داؤد ؒ (م۲۷۵؁ھ) مشہور حافظ ، ثقہ اور صاحب  مصنفات ہیں۔ (تقریب :رقم ۲۴۳۳)

۲-حمید بن مسعدۃ ؒ (م۲۴۴؁ھ) صحیح مسلم کے راوی ہیں اور صدوق ہیں ۔ (تقریب :رقم ۱۵۵۹)

۳-معتبر بن سلیمان ؒ (م۱۸۷؁ھ)صحیح کے راوی اور ثقہ ہیں۔ (تقریب :رقم ۶۷۸۵)

 ۴-لیث بن ابی سلیم ؒ (م ۱۴۸؁ھ) پر تفصیل آگے آرہی ہے ۔

۵-طلحہ بن مصرف ؒ(م ۱۱۲؁ھ) بھی صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ ، فاضل اور قاری ہیں ۔ (تقریب : رقم ۳۰۳۴)

۶-طلحہ ؒ کے والد مصرف ؒ بھی ثقہ ہیں ، امام ابو زرعہ ؒ نے ان کو ثقہ کہا ہے ۔ (مختصر تہذیب الکمال ، بحوالہ البنایۃ شرح ہدایہ : جلد ۱: صفحہ ۲۱۳)،حافظ ابن الصلاح ؒ (م ۶۴۳؁ھ)نے آپ کی روایت کو حسن اور  حافظ المغرب ابن عبد البر ؒ(م ۴۶۳؁ھ) ’أصح‘کہہ کر آپؒ کومعتبر قرار دیا ہے ۔  (النکت علی المہذب لابن الصلاح ، بحوالہ السیل الجرار للشوکانی : صفحہ۵۷،التمہید لابن عبد البر : جلد ۲۰ :صفحہ ۱۲۵)اورکسی حدیث کی تصحیح وتحسین غیر مقلدین کے نزدیک اس حدیث کے راویوں کی توثیق ہوتی ہے ۔(دیکھئے ،ص: ۹۶)

لہذا ثابت ہوا کہ حافظ المغرب اور ابن الصلاح ؒ کے نزدیک بھی مصرّف ؒ ثقہ ہیں۔

۷- کعب بن عمرو ؓ صحابی رسول ہیں ۔ (تقریب : رقم ۵۶۴۵)

طلحہؒ کے دادا کعب بن عمرو ؓ صحابی رسول ہیں ، بعض نے آپ ؓ کا نام عمرو بن کعب بتایا ہے ، حافظ ابن حجر ؒ (م ۸۵۲؁ھ)نے تقریب میں انہیں صحابی بتایا ہے ۔ (رقم ۵۶۴۵)امام مزی ؒ (م۷۴۲؁ھ) اور امام ذہبی ؒ (م۷۴۸؁ھ)نے بھی ان کے صحابی ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (تہذیب الکمال :جلد ۲۴:صفحہ ۱۸۴، الکاشف :رقم ۴۶۵۹)امام ابن ابی حاتم ؒ (م۳۲۷؁ھ)کہتے ہیں کہ ’روی عن النبی ﷺ‘انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے ۔ (الجرح والتعدیل :جلد ۷:صفحہ ۱۶۱)امام ابو القاسم البغویؒ (م۳۱۷؁ھ)، امام ابن عبد البر ؒ (م۴۶۳؁ھ) ، امام ابو نعیم ؒ (م۴۳۰؁ھ)وغیرہ نے آپ کو اپنی اپنی کتاب الصحابہ میں شمار کیا ہے ۔(معجم الصحابہ :جلد ۵ :صفحہ ۱۳۱، الاستیعاب لابن عبد البر :جلد۳:صفحہ۱۱۹۹، معرفۃ الصحابہ:جلد۴:صفحہ ۲۰۱۶)امام ابن حبان ؒ (م۳۵۴؁ھ)اور حافظ صلاح الدین صفدیؒ نے بھی انہیں صحابی قرار دیا ہے ۔ (کتاب الثقات: رقم۱۱۶۴، الوافی بالوفیات للصفدی :جلد ۲۴:صفحہ۲۶۴)، امام یحییٰ بن معین ؒ(م۲۳۳؁ھ)کہتے ہیں کہ’’المحدثون يقولون: قد رآه، وأهل بيت طلحة يقولون: ليست له صحبة‘‘ محدثین کہتے ہیں کہ کعب ؓ نے حضور ﷺ کو دیکھا ہے اور طلحہ کے گھر والے کہتے ہیں کہ نہیں دیکھا ۔ امام عبد الرحمن بن مہدی ؒ(م۱۹۸؁ھ) بھی کہتے ہیں کہ وہ صحابی ہیں ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی :حدیث نمبر ۲۳۴)، امام ذہبی ؒ نے آپ کو تجرید اسماء الصحابہ میں شمار کیا ہے ۔ (جلد ۲:صفحہ ۳۲)اسی طرح شیخ  دسمان یحییٰ معالي اور شیخ  عباس صخر الحسن نے  (اسد الغابۃ :جلد ۴:صفحہ۱۸۵، الاصابۃ :جلد۳:صفحہ ۳۰۰، تہذیب التہذیب :جلد ۸:صفحہ ۳۹۱اور تقریب:جلد ۱ :صفحہ ۴۶۱کے حوالہ سے کہا ہے کہ ’أثبت لہ ابن الأثیر وابن حجر الصحبۃ ‘ ابن الاثیر ؒ اور ابن حجر ؒ نے ان کی صحابیت کو ثابت کیا ہے ۔ (الطیوریات :جلد ۳:صفحہ ۸۳۱، طبع مکتبۃ السلف ، الریاض)حافظ مغلطائی ؒ (م۷۶۲؁ھ) بھی انہیں صحابی کہتے ہیں، امام ابو الفضل  محمد بن طاہر المقدسیؒ (م ۵۰۷؁ھ) عمران بن محمد الحمدانی ؒ امام ابو حاتم الرازی ؒ (م۲۷۷؁ھ) امام احمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱؁ھ ) ، امام طبرانی ؒ(م۳۶۱؁ھ)امام ابن سعد (م۲۳۰؁ھ) وغیرہ نے بھی آپ صحابی تسلیم کیا ہے ۔  اسی طرح امام ابو احمد العسکری (م۳۸۲؁ھ)حافظ ابو محمد الرشاتی (م۵۴۲؁ھ)اور امام ابو عمرو خلیفہ بن خیاطؒ (م۲۴۰؁ھ)نے آپ ؓ کو صحابہ میں شمار کیا ہے ۔ (الابانۃ للحافظ المغلطائی : جلد۲:صفحہ۱۲۱)امام ابن قانع ؒ (م۳۵۱؁ھ) نے آپ کا ذکر معجم الصحابہ میں کیا ہے ۔ دیکھئے :جلد۲:صفحہ ۲۲۱۔

لہذا صحیح اور راجح قول یہی ہے کہ آپ ؓ صحابی ہیں۔

اعتراض:

علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند لیث بن ابی سلیم ؒ کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ (فتاویٰ علمیہ :جلد۱:صفحہ۲۱۴)

الجواب:

لیث بن ابی سلیم ؒ (م ۱۴۸؁ھ)پر جرح موجود ہے ، لیکن ان کے بارے میں غیر مقلد ارشاد الحق اثری صاحب اپنا موقف ابن حجرؒ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ :

’’وليث وإن كان ضعيف الحفظ فإنه يعتبر به ويستشهد  ‘‘ اورلیث اگر چہ حافظہ میں کمزور ہیں، لیکن اعتباراً اور استشہاداً اسے قبول کیا جائے گا۔ (اعلاء السنن فی المیزان : صفحہ ۳۵۱) ، نیز توضیح الکلام:صفحہ۴۴۵پر تحریر کرتے ہیں کہ اس کی (یعنی لیث ؒ کی ) روایت کو متابعت میں قبول نہ کرنا ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے ؟

اسکین :  توضیح الکلام:صفحہ۴۴۵

اسی طرح اہل حدیث مسلک کے محدث ، یحییٰ گوندلوی صاحب لیث کے بارے میں لکھتے ہیں کہ (وہ) متابعت  میں قابل ذکر ہے۔  (خیر الکلام :صفحہ ۲۳۳) ثابت ہوا کہ لیث بن ابی سلیم ؒ کی جب شاہد یا متابع مل جائے، تو خود اہل حدیث حضرات کے اصول کی روشنی میں ان کو قبول کیا جائے گا۔

اور یہاں پر بھی لیث ؒ کی روایت کا شاہد تاریخ ابن ابی خیثمہ کی روایت ہے ، جس کی سند کو خود زبیر علی زئی صاحب معتبر تسلیم کردچکے ہیں ، جس کی تفصیل گزر چکی ۔  لہذا زبیر صاحب کا یہ اعتراض خود ان کے مسلک کے اصول کی روشنی میں مردود ہے اور شاہد کی وجہ سے لیث بن ابی سلیم ؒ کی یہ روایت مقبول ہے ۔

نوٹ:

بعض لوگ لیث بن ابی سلیم ؒ پر مدلس ہونے کا بھی اعتراض کرتے ہیں، تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ انہوں نے سماع کی صراحت کردی ہے ۔  امام طبرانیؒ (م۳۶۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

حدثنا الحسين بن إسحاق التستري، ثنا شيبان بن فروخ، ثنا أبو سلمة الكندي، ثنا ليث بن أبي سليم، حدثني طلحة بن مصرف، عن أبيه، عن جده،: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ فمضمض ثلاثا واستنشق ثلاثا، يأخذ لكل واحدة ماء جديدا، وغسل وجهه ثلاثا، فلما مسح رأسه قال: هكذا، وأومأ بيده من مقدم رأسه حتى بلغ بهما إلى أسفل عنقه من قبل قفاه۔(المعجم الکبیر للطبرانی : جلد ۱۹: صفحہ ۱۸۰) یہی وجہ ہے کہ ابن الصلاح ؒ نے اس روایت کی سند کو حسن اور حافظ المغرب ؒنے’أصح‘کہا ہے ، جس کے حوالے گزر چکے۔

[2] روایت یہ ہے : حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، أنَا الرَّبِيعُ عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّهُ كَانَ يُفْرِدُ الْمَضْمَضَةَ مِنَ الِاسْتِنْشَاقِ۔ (مسند ابن الجعد:صفحہ ۴۶۰، حدیث نمبر ۳۱۵۹،واسنادہ حسن )

 ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...