نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جمہور محدثین کے نزدیک امام ابراہیم النخعی ؒ (م ۹۶؁ھ) کی مراسیل حجت ہیں۔

 

جمہور محدثین  کے نزدیک امام ابراہیم النخعی ؒ ۹۶؁ھ) کی مراسیل حجت ہیں۔


مفتی ابن اسماعیل المدنی

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

جمہور محدثین  کے نزدیک امام ابراہیم النخعی ؒ ۹۶؁ھ) کی مراسیل حجت ہیں۔دلائل درج ذیل ہیں :

۱)           امام العلل امام الجرح والتعدیل یحی بن معین ؒ (م ۲۳۳؁ھ) فرماتے ہیں کہ  

’’مرسلات ابراہیم صحیحۃ الا حدیث تاجر البحرین وحدیث الضحک فی الصلاۃ ‘‘

 ابراہیم نخعی ؒ کی مراسیل صحیح ہیں سوائے حدیث تاجر البحرین اور حدیث الضحک فی الصلا ۃ کے ۔(تاریخ یحی بن معین بروایت الدوری رقم :۹۵۸) اسکین ملاحظہ فرمائے

ابن محرز ؒ کی روایت میں ابن معین ؒ کہتے ہیں کہ :

              ’’مرسلات ابراہیم اصح من مرسلات سعید بن المسیب والحسن ‘‘

ابراہیم نخعی ؒ کی مرسل روایات ،سعید بن المسیب ؒ اور حسن بصری ؒ کی مرسل روایات سے زیادہ صحیح ہے ۔(تاریخ یحی بن معین بروایت ابن محرز ج:۱ص:۱۲۰) اسکین ملاحظہ فرمائے

معلوم ہواکہ ابن معین ؒ کے نزدیک امام ابراہیم النخعی ؒ کی مرسل روایا ت صحیح اور حجت ہیں ۔

۲)          امام عبدالحق اشبیلی ؒ (م ۵۸۱؁ھ) نے ابراہیم النخعی ؒ کی ایک مرسل روایت نقل کرکے،امام ابن معین ؒ کا یہی قول نقل کیا ہے :

              أبوداؤد  عن ابراہیم بن یزید النخعی عن عائشۃ قالت : کانت ید رسول اللہ    الیمنی لطہورہ وطعامہ ،وکانت یدہ الیسری لخلا ئہ وما کا ن من أذی ً۔

قال أبو العباس الدوری : لم یسمع ابراہیم بن یزید النخعی من عائشۃ ومراسیلہ صحیحۃ الا حدیث تاجر البحرین ۔ (احکام الوسطی ج:۱ص: ۱۳۲)

معلوم ہواکہ امام عبدالحق اشبیلی ؒ کے نزدیک امام ابراہیم النخعی کی مرسل روایات صحیح اور قابل حجت ہیں ۔

۳)          الامام الحافظ ابن سید الناس ؒ ۷۳۴؁ھ) کے نزدیک بھی امام ابراہیم النخعی ؒ کی مرسل روایات صحیح اور حجت ہیں ۔

انہوں نے بھی ابراہیم النخعی ؒ کی ایک مرسل روایت نقل کرکے امام ابن معین ؒ کا یہی قول نقل کر کے بتایا کہ ان کے نزدیک ابراہیم النخعی کی مرسل روایا ت حجت ہیں ۔چنانچہ فرماتے ہیں کہ :

              وحدیث عائشۃ :رواہ الامام  أحمد وأبوداؤد من حدیث ابراہیم وہوابن یزید النخعی عن عائشۃقالت : کانت ید رسول اللہ  ﷺ الیمنی لطہورہ وطعامہ وکانت یدہ الیسری لخلا ئہ وما کان من أذی ۔

         قال العباس بن محمد الدور ی عن ابن معین : لم یسمع ابراہیم من عائشۃ ،ومراسیلہ صحیحۃ الا حدیث تاجر البحرین ۔(النفح الشذی شرح جامع الترمذی ج:۱ص: ۱۷۷)

۴)          امام اہل السنۃ امام احمد بن حنبل ؒ ۲۴۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’مرسلات ابراہیم النخعی لا بأس بہا‘‘ امام ابراہیم النخعیؒ کی مرسل روایات میں کوئی حرج نہیں ہے۔(التاریخ والمعرفہ ج:۳ص: ۲۳۹،واسنادہ صحیح ) اسکین ملاحظہ فرمائے

 معلوم ہواکہ امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک ابراہیم نخعی ؒ کی مرسل روایات صحیح ہیں ۔

۵)          حافظ المغرب ابو عمر بن عبد البر ؒ (م ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں کہ :

              وکل من عرف أنہ لا یأخذ الا عن ثقۃ فتدلیسہ ومرسلہ مقبول فمراسیل سعید بن المسیب ،ومحمد بن سیرین وابراہیم النخعی عندہم صحاح ۔

ہر وہ راوی جس کے بارے میں یہ مشہور ہو کہ وہ صرف ثقہ راویوں سے ہی روایات لیتا ہے تو اسکی تدلیس اور مرسل روایت مقبول ہے ۔اس لئے سعید ابن المسیب ،اور محمد بن سیرین اور ابراہیم نخعی رحمہم اللہ کی مرسل روایات محدثین کے نزدیک صحیح ہیں۔(التمہید لابن عبدالبر ج: ۱ص: ۳۰ ، واللفظ لہ ،الاستذکار ج:۸ص: ۱۳)

اسکین : التمہید لابن عبدالبر

اس سے تین باتیں معلوم ہوئیں :

۱)           امام ابراہیم نخعی ؒ صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے ۔[1]

۲)          ابراہیم النخعی ؒ کی تدلیس مقبول ہے ۔

۳)          ان کی مراسیل بھی صحیح ہیں ۔

بلکہ الاستذکار میں یہاں تک تحریر فرمایا ہے کہ ’’اجمعوا أن مراسیل ابراہیم صحاح ‘‘ محدثین کا اتفاق ہے کہ ابراہیم نخعی کی مراسیل صحیح ہیں ۔(ج:۶ص: ۱۳۷)

۶)          نیز حافظ المغرب ابن عبدالبرؒ ۴۶۳؁ھ) یہ بھی کہتے ہیں کہ:

              عن سلیما ن عن الاعمش قال قلت لابراہیم اذا حدثنی حدیثا فأسندہ فقال اذا قلت عن عبداللہ یعنی ابن مسعود فاعلم أنہ عن غیر واحد ،واذا سمیت لک أحدا فہو الذی سمیت قال أبو عمر الی ہذا نزع من  اصحابنا من زعم أن مرسل الامام أولی من مسندہ لان فی ہذا الخبر ما یدل علی ان مراسیل ابراہیم النخعی أقوی من مسانیدہ وہو لعمری کذلک ۔

امام اعمشؒ سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام ابراہیم النخعی سے کہا کہ جب آپ مجھے کوئی حدیث بیان کریں تو اس کی سند بھی بیان کردیں ،تو انہوں فرمایا کہ :میں جب کہوں کہ عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے ،تو تم جان لو کہ وہ کئی لوگوں سے مروی ہے ۔(یعنی کئی لوگوں سے میں نے اس روایت کو سنا ہے ) اورجب میں تم سے کسی ایک کا نام بیان کروں تو میں نے وہ روایت انہیں سے سنی ہے ۔(یہ قول صحیح سند سے ثابت ہے ۔)

امام ابن عبدالبر ؒ  (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ اس قول سے ہما رے اصحب نے دلیل پکڑی ہے ،جنکا  یہ ماننا ہے کہ امام ابراہیم النخعی ؒ کی مرسل روایات ان کی مسند روایات سے بہتر ہے ۔،اس لئے کہ اس روایت میں دلیل ہے کہ ابراہیم نخعی ؒکی مرسل روایات ان کی مسند روایات سے زیادہ اقوی ہیں ۔آگے ابن عبدالبر ؒ تائید میں کہتے ہیں کہ یقینا مراسیل ابراہیم اسی طرح ہیں۔ (التمہید لابن عبدالبر ج:۱ص: ۳۷،۳۸)

۷)          امام الجرح والتعدیل یحی بن سعید القطان ؒ ۱۹۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ

              ’’ان مراسیل ابراہیم عن ابن مسعود وعمر صحاح کلہا وما ارسل منہا أقوی من الذی أسند ‘‘

یقیناابراہیم نخعی ؒ کی ابن مسعود ؓ اور عمر ؓ سے تمام کی تمام مرسل روایات صحیح ہیں اور ان کی مرسل حدیث مسند حدیث سے زیادہ قوی ہے ۔(التمہید لابن عبدالبر ج:۱۵ص: ۹۴)

اسکین :

امام ترمذی ؒ (م ۲۷۹؁ھ) نے بھی یہی امام ابراہیم نخعی ؒ کا کلام نقل کیا ہے ،اور۔۔

۸)          حافظ ابن رجب ؒ (م۷۹۵؁ھ)  اس کی شرح میں کہتے ہیں کہ ’’ہذا یقتضی ترجیح المرسل علی المسند ‘‘ ابراہیم نخعی ؒ  کا یہ قول ان کی مرسل روایت کا ان کی مسند روایت پر ترجیح کا تقاضا کرتا ہے ۔(شرح علل ترمذی ص: ۵۴۲)

پھر آگے وضاحت کرتے ہیں کہ مر سل کی مسند پر ترجیح والی بات ابراہیم عن ابن مسعود کے ساتھ خاص ہے ۔

۹)           امام ذہبی ؒ ۷۴۸؁ھ) کہتے ہیں کہ :

              ’’ان اصح الاسناد الی تابعی متوسط الطبقۃ کمراسیل مجاہد وابراہیم والشعبی فہو مرسل جید لا بأس بہ ‘‘

 اگر (مرسل روایت کی )متوسط تابعی تک سند صحیح ہے ،جیسے مجاہد ؒ ،ابراہیم  النخعی ؒ اور شعبی ؒ کی مراسیل ،تو وہ مضبوط مرسل ہے ۔اور ان میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔(الموقظۃ ص: ۴۰)

اسکین :

معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک بھی مراسیل ابراہیم النخعی میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔

۱۰)         حافظ ابو العباس ابن تیمیہ الحرانی  ؒ ۷۲۸؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ان مراسیل ابراہیم من احسن المراسیل ‘‘ یقینا ابراہیم نخعی ؒ کی مراسیل سب سے اچھی مراسیل میں سے ہیں ۔(مجوع الفتاوی ج:۳۱ص: ۳۵۳)

مزید کہتے ہیں کہ’’مراسیل ابراہیم جیاد ‘‘ ابراہیم نخعی ؒ کی مراسیل بہترین اور عمدہ ہیں ۔(الصارم المسلول ص: ۵۸۴)

۱۱)           حافظ ابن القیم ؒ(م۷۵۱؁ھ)نے بھی ابراہیم النخعی ؒ عن ابن مسعود ؓ کی ایک مرسل روایت پر ابن حزم ؒکے اعتراض کا بہترین جواب دیا ہے اور ثابت کیاہے کہ ابراہیم النخعی عن ابن مسعود کی روایت مقبول ہے۔

ان کے الفاظ یہ ہیں :

              ابراہیم لم یسمع من عبداللہ ،ولکن الواسطۃ بینہ وبین اصحاب عبداللہ کعلقمہ ونحوہ۔وقد قال ابراہیم :اذا قلت قال عبداللہ فقد حدثنی بہ غیر واحد عنہ واذا قلت :قال فلان عنہ فہو عمن سمیت اوکما قال ،ومن المعلوم ان بین ابراہیم وعبداللہ ائمۃ ثقات لم یسم قط منہما ولا مجروحا ولا مجہولا فشیوخہ الذین أخذ عنہم عن عبداللہ أئمۃ أجلاء  نبلاء  وکانوا کما قیل : سرج الکوفۃ وکل من لہ ذوق فی الحدیث اذا قال ابراہیم :قال عبداللہ لم یتوقف فی ثبوتہ عنہ ،وان کان غیرہ ممن فی طبقتہ لوقال :قال عبداللہ لا یحصل لنا الثبت بقولہ ،فابراہیم عن عبداللہ نظیر ابن المسیب عن عمر ونظیر مالک عن ابن عمر ،فان الوسائط بین ہؤلاء وبین الصحابۃ رضی اللہ عنہم اذا سموہم وجدوا من اجل الناس وأوثقہم وأصدقہم ،ولا یسمون سواہم البتۃ ،ودع ابن مسعود فی ہذہ المسألۃ ۔(زاد المعاد ج:۵ص: ۵۸۰)[2]

۱۲)         امام ابو داؤد ؒنے بھی ابراہیم نخعی ؒ کی مراسیل کو ابو اسحق سبیعی کی مراسیل پر ترجیح دی ہے ۔(اکمال تہذیب الکمال للمغطائی ج: ۱ص: ۳۲۰)

خلاصہ یہ ہے کہ جمہور محدثین کے نزدیک امام ابراہیم النخعی ؒ ۹۶؁ھ)کی مرسل روایات صحیح اورحجت ہیں ،لہذا ان کی مراسیل کا انکار کرنا باطل ومردود ہے ۔

 

 

کلام قوي فی سماع الحسن البصری ؒ من علی ؓ

مفتی ابن اسماعیل المدنی

امام حسن البصری ؒ (م ۱۱۰؁ھ)کا سماع حضرت علی ؓ (م۴۰؁ھ) سے ثابت ہے ۔

دلائل درج ذیل ہیں :

۱۔            امام ابو یعلیٰ الموصلی ؒ (م۳۰۷؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

حدثنا حوثرة بن أشرس قال أخبرنا عقبة بن أبي الصهباء الباهلي قال سمعت الحسن يقول سمعت عليا يقول قال رسول الله صلى الله عليہ مثل أمتی مثل المطر۔

امام حسن البصری ؒ (م۱۱۰؁ھ)کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی ؓ کو کہتے ہوئے سنا ، وہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا : میری امت کی مثال بارش کی طرح ہے ۔ (مسند ابی یعلیٰ الموصلی ، بحوالہ تحفۃ الاحوذی :جلد ۴:صفحہ ۵۷۱)[3] اسکین ملاحظہ فرمائے

 

اس سند کے تمام روات ثقات ہیں [4]،اس کی سند بالکل صحیح ہے ۔ غور فرمائیے ! اس میں امام حسن البصری ؒ نے ’سمعت‘ کہہ کر یہ وضاحت کردی کہ انہوں نے خود حضرت علی ؓ سے یہ حدیث سنی ہے ۔

معلوم ہوا کہ ان کے سماع حضرت علی ؓ سے صحیح اور ثابت ہے ۔

اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد ، حافظ تقی الدین محمد بن الحسن ابن الصیرفی ؒ (م ۷۳۸؁ھ)کہتے ہیں کہ هو نصُّ صریح فی سماعہ منہ ، ورواتہ ثقاۃ، متصل بالإخبار والتحدیث والسماع یہ حسن بصری ؒ کے حضرت علی ؓ سے سماع میں صریح دلیل ہے ، اور اس کے رواۃ ثقات ہیں ، (اور یہ روایت ) إخبار ، تحدیث اور سماع کے ذریعہ متصل ہے ۔ (الجواھر الدرر للسخاوی : جلد ۲: صفحہ ۹۳۸، واللفظ لہ ، الحاوی للفتاویٰ للسیوطی : جلد ۲:صفحہ ۱۰۴)،اسی طرح شیخ مبارک بن سیف الھاجری کہتے ہیں کہ وجاء فی مسند أبی یعلیٰ بإسناد حسن تصریحہ بالسماع منہ ، فثبت بھذا سماعہ منہ فی الجملۃ مسند ابی یعلیٰ موصلی میں ایک روایت حسن سند کے ساتھ آئی ہے، جس میں حسن البصری ؒ نے حضرت علی ؓ سے سماع کی تصریح کی ہے ، تو فی الجملہ اس روایت حسن البصریؒ کا حضرت علیؓ سے سماع ثابت ہوگیا ۔ (التابعون الثقات : جلد۱:صفحہ ۳۰۵)

۲۔          امام ہبۃ اللہ لالکائی (م۴۱۸؁ھ)کہتے ہیں کہ :

 أنا أَحْمَدُ بن محمد الفقیہ، أنا محمد بن أحمد بن حمدان ، قال : نا تمیم بن محمد ، قال : نا نصر بن علی ، قال : نا محمد بن سواء، قال : نا سعید بن أبی عروبۃ ، عن عامر الاحول ، عن الحسن، قال : شھدت علیا بالمدینۃ وسمع صوتا قال : شھدت علیا بالمدینۃ وسمع صوتاً ، فقال : ماھذا؟ قالوا: قتل عثمان، قال: اللہم إنی أشھدک إنی لم أرض ولم أمالی ، مرتین أو ثلاثاً۔  

حضرت حسن بصری ؒ کہتے ہیں کہ میں حضرت علی ؓ کے ساتھ مدینہ میں تھا، آپ ؓ نے ایک آواز سنی ، فرمایا یہ کیسی آواز ہے ؟ لوگوں نے کہا : حضرت عثمان ؓ شہید کردئیے گئے ، اس پر حضرت علیؓ نے دو یا تین مرتبہ فرمایا اے اللہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ نہ میں اس پر راضی ہوں نہ اس طرف مائل ہوں ۔ (شرح اعتقاد اصول اہل السنۃ : جلد۸: صفحہ ۱۴۶۴، حدیث نمبر ۲۶۵۱، واسنادہ صحیح )[5]

نوٹ:       شرح اعتقاد اصول اہل سنہ میں یہ روایت موجود ہے ، لیکن کتاب کی غلطی کی وجہ سے تمیم بن محمد ؒ کے بجائے ، عثمان بن محمد چھپ چکا ہے ۔

اسی طرح محمد بن سوا ء کی جگہ محمد بن سوار آچکا ہے ، جبکہ شرح اعتقاد للالکائی کے مخطوطہ میں تمیم بن محمد اور محمد بن سواء ہی موجود ہے ۔ [6] اسی طرح علامہ سیوطی ؒ (م۹۱۱؁ھ)نے بھی یہی روایت شرح اعتقاد سے نقل کی ہے اور وہاں بھی تمیم بن محمد اور محمد بن سواء موجود ہے ۔ دیکھئے الحاوی للفتاویٰ :جلد ۲:صفحہ ۱۰۴)

اسکین :

لہذا صحیح راجح تمیم بن محمد اور محمد بن سواء ہی ہے ۔ واللہ اعلم  

الغرض اس روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حسن البصری ؒ نے حضرت علی ؓ سے سنا ہے ۔

۳۔           الامام الحافظ المحدث امیر المؤمنین فی الحدیث ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری ؒ (م ۲۵۶؁ھ)فرماتے ہیں کہ :

سُلَيْمَان بن سَالم بن الْقُرَشِيُّ أَبُو دَاوُدَ الْقُرَشِيُّ الْقَطَّانُ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ زَيْدٍ عَنِ الْحَسَنِ رَأَى عَلِيًّا وَالزُّبَيْرَ الْتَزَمَا وَرَأَى عُثْمَانَ وَعَلِيًّا الْتَزَمَا وَلا يُتَابَعُ عَلَيْهِ سَمِعَ مِنْهُ إِسْحَاقُ۔

امام حسن البصری ؒ کہتے ہیں میں نے حضرت علی ؓ اور حضرت زبیر ؓ کو آپس میں گلے ملتے دیکھا اور (اسی طرح ) حضرت عثمان اور حضرت علی کو بھی گلے ملتے دیکھا ۔ (التاریخ الاوسط : جلد ۲:صفحہ ۱۹۹واسنادہ حسن بالشاھد)[7]

اس روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت حسن البصری ؒ نے حضرت علی ؓ کو دیکھا ہے اور ان سے روایت کیا ہے ۔

۴۔          امام ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری ؒ (م ۲۵۶؁ھ) کہتے ہیں کہ :

قَالَ ابن حُجر : حدثنا حکام ، عن أبی حمزۃ عبد اللہ بن جابر ، عن الحسن رضی اللہ عنہ إنی عند علی رضی اللہ عنہ ، إذ جاءت الصیحۃ من دار عثمان ۔

حسن البصری ؒ کہتے ہیں کہ میں حضرت علی ؓ کے پاس تھا کہ اچانک حضرت عثمان ؓ کے گھر سے چیخ سنائی دی ۔ (التاریخ الکبیر للبخاری :جلد ۵:صفحہ ۶۰،واسنادہ صحیح [8])

اسکین :

اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ حسن البصری ؒنے  نہ صرف حضرت علی ؓ کو دیکھا بلکہ وہ ان کی خدمت اور صحبت میں بھی رہتے تھے ۔

بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت حسن البصری ؒ نے کسی بھی بدری صحابی کو نہیں دیکھا ، حالانکہ یہ بات مردود ہے ، کیونکہ ان کی ۷۰ بدری صحابہ سے ملاقات ثابت ہے ۔

۵۔           امام ابو نعیم اصبہانی ؒ (م ۴۳۰؁ھ)کہتے ہیں کہ :

حدثنا أبوبکر بن مالک ، ثنا عبد اللہ بن أحمد ، قال : ثنا علي بن مسھر ، ثنا سیار ، ثنا ریاح ، قال : ثنا حسان ، قال : سمعت الحسن ، یقول أدرکت سبعین بدریا وصلیت خلفھم وأخذت بحجزھم ۔

امام حسن البصری ؒ کہتے ہیں کہ میں نے ۷۰ بدری صحابہ کو پایا ہے، ان کے پیچھے نمازیں پڑھی اور ان کا دامن تھاما۔ (حلیۃ الاولیاء :جلد ۶:صفحہ ۱۹۶، واسنادہ حسن [9])

اسکین :

معلوم ہوا کہ امام حسن البصری ؒ (م ۱۱۰؁ھ)نے ۷۰ بدری صحابہ کی زیارت کی ہے ، اور ان میں حضرت علی ؓ بھی شامل ہیں ، جیسا کہ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے ۔  لہذا یہ کہنا کہ انہوں نے کسی بھی بدری صحابی سے ملاقات نہیں ، باطل ومردود ہے ۔

۶۔           امام بیھقی ؒ (م ۴۵۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

أنبأ أبوعبد اللہ الحافظ ، وأبوبکر بن الحسن القاضی قالا: ثنا أبو العباس محمد بن یعقوب ، ثنا العباس الدوری ، ثنا الحسن بن بشر ، ثنا الحکم بن عبد الملک عن الحسن ، قال :’’ أمنا علي بن أبی طالب فی زمن عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ عشرین لیلۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت حسن البصری ؒ کہتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں ۲۰ دن تک ہماری امامت کی ۔۔۔۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی :حدیث ۴۳۰۲واسنادہ حسن بالشواھد)[10]

آخری بات :

حسن البصری ؒ کا حضرت علی ؓ کو دیکھنا تو منکرین سماع بھی تسلیم کرتے ہیں ، چنانچہ امام علی بن المدینی ؒ (م ۲۳۴؁ھ)امام ابو زرعہ رازی ؒ (م۲۶۱؁ھ) امام مزّی ؒ (م ۷۴۲؁ھ)وغیرہ نے صراحت کی ہے کہ انہوں نے حضرت علی ؓ کو دیکھا ہے ۔ (تہذیب الکمال : جلد ۶:صفحہ ۹۷، المراسیل لابن ابی حاتم :صفحہ ۳۱، العلل لابن المدینی : صفحہ ۵۳، ۵۴) لہذا بعض علماء کا مطقاً ان کی ملاقات کا ہی انکار کرنا صحیح نہیں ہے۔

پھر تحقیق اور دلائل سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ امام حسن البصری ؒ نے حضرت علی ؓ سے روایتوں کو سنا بھی ہے ، جیسا کہ مسند ابی یعلیٰ الموصلی اور شرح اعتقاد للالکائی سے معلوم ہوتا ہے ۔

نیز، متعدد بار علیؓ کو دیکھنا اور ان کی خدمت میں رہنے کا بھی ثبوت امام بخاری ؒ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے ۔  لہذا صحیح اور راجح یہی ہے کہ انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت سنی ہے اور ان کا حضرت علی ؓ سے سماع بھی ثابت ہے ۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ (م۲۵۶؁ھ)  بھی ’الحسن عن علی بن ابی طالب ‘ کی سند کو متصل مانتے ہیں ۔

چنانچہ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ :’ الْحَسَنُ قد أدرک علیاً ، وھو عندی حدیث حسن  حسن بصری ؒ نے حضرت علی ؓ کو پایا ہے ، اور ان کی حدیث میرے نزدیک حسن ہے ۔ (العلل الکبیر للترمذی : صفحہ ۲۵۵)، یہی قول حافظ ابن الصیرفی ؒ (م ۷۳۸؁ھ) اور شیخ مبارک بن سیف الھاجری کا بھی ہے ، جیسا کہ تفصیل گزر چکی ۔

الغرض خلاصہ کلام یہ ہے کہ دلائل اور تحقیق کی روشنی میں الحسن البصری عن علی بن ابی طالب  کی سند متصل ہے ۔ واللہ اعلم

 



[1]        تقریبا یہی بات حافظ ابن تیمیہ ؒ (م ۷۲۸ھ) نے بھی کہی ہے کہ ’’لا یرسل الا عن ثقۃ ،کسعید بن المسیب ،وابراہیم النخعی ،ومحمد بن سیرین ‘‘ جس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ وہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں۔(اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم ج:۲ص:۳۵۰) حافظ صلاح الدین علائی ؒ ۷۶۱؁ھ)نے امام شافعی ؒ کے حوالے سے یہی قول نقل کیا ہے کہ ’’کان ابن سیرین  وعروۃ بن الزبیر وطاووس وبراہیم النخعی وغیر واحد من التابعین یذہبون الی ان لا یقبلو ا الحدیث الا عن ثقۃ ‘‘۔(جامع التحصیل ص: ۶۸،۶۹) 

[2]         ابن قیم ؒ کی عبارت میں امام بیہقی  ؒ کے اعتراض ’’ابراہیم النخعی وان کان ثقۃ فانا نجدہ یروی عن قوم مجہولین لا یروی عنہم غیرہ مثل ہنی بن نویرۃ وحزافۃ الطائی وفرثع الضبی ویزید بن اویس وغیرہم ‘‘ کا بھی جواب آچکا ہے ۔لہذا امام بیہقی  ؒ کا اعتراض صحیح نہیں ہے ۔

نیز خود محدثین (جن میں امام شافعی ؒ بھی شامل ہیں انہوں) نے بھی واضح کیا ہے کہ امام ابراہیم النخعی ؒ صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں ۔جس کی تفصیل گزر چکی ۔لہذا یہ کہنا کہ امام ابراہیم نخعی  ؒ مجہولین سے روایت کرتے ہیں صحیح نہیں ہے ۔

[3] یاد رہے ، مولانا عبد الرحمن مبارکپوری ؒ غیر مقلد نے یہ روایت مسند ِ ابی یعلیٰ الموصلی سے نقل کی ہے،  ثابت ہوا کہ مسند ابی یعلیٰ میں یہ روایت موجود ہے ، لہذا علی زئی صاحب کا اس روایت کا انکار کرنے کیلئے فضول اعتراضات کرنا باطل ومردود ہے ۔                    

[4]  امام ابو یعلیٰ احمد بن علی الموصلی ؒ (م۳۰۷؁ھ)مشہور حافظ حدیث اور ثقہ ، امام ہیں ۔ (تاریخ الاسلام :جلد ۷:صفحہ ۱۱۲)،

 - حوثرۃ بن أشرس (م۲۸۱؁ھ)بھی ثقہ ہیں ۔ (کتاب الثقات للقاسم :جلد ۴:صفحہ ۶۸، تاریخ الاسلام :جلد۵: صفحہ ۸۱۶، سیر اعلام النبلاء :جلد ۱۰:صفحہ ۶۶۸)،

- عقبہ بن ابی الصہباء ؒ بھی ثقہ راوی ہیں ، کئی ائمہ نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے ۔ (کتاب الثقات للقاسم :جلد ۷:صفحہ ۱۶۰ ، التذییل علی کتب الجرح والتعدیل :صفحہ ۲۰۲)

- امام حسن البصریؒ مشہور امام ، فقیہ ، زاہد اور ثقہ فاضل ہیں ۔ (تقریب : رقم ۱۲۲۷)،

- حضرت علی ؓ صحابی جلیل اور امیر المؤمنین ہیں ۔ معلوم ہوا کہ اس سند کے رواۃ ثقہ ہیں ، لہذا یہ سند صحیح ہے ۔

اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد ، حافظ تقی الدین محمد بن حسن ابن الصیرفی ؒ (م۷۳۸؁ھ) کہتے ہیں کہ ’ھو نص صریح فی سماعہ منہ ، ورواۃہ ثقاۃ ، متصل بالإخبار والتحدیث والسماع ‘  یہ حسن البصری ؒ کے حضرت علی ؓ سے سماع میں صریح دلیل ہے ، اور اس کے رواۃ ثقہ ہیں، (اور یہ روایت ) اخبار ، تحدیث اور سماع (کی تصریح ) کے ساتھ متصل ہے ۔ (الجواھر والدرر للسخاوی :جلد ۲:صفحہ ۹۳۸،واللفظ لہ الحاوی للفتاویٰ للسیوطی :جلد ۲ :صفحہ ۱۰۴)،

[5] اس حدیث کے تمام رواۃ ثقہ ہیں :

۱۔           امام ہبۃ اللہ لالکائی ؒ (م ۴۱۸؁ھ)مشہور حافظ الحدیث اور ثقہ محدث ہیں ۔ (السلسبیل النقی فی تراجم شیوخ البیھقی : صفحہ ۶۳۹)

۲۔          احمد بن محمد الفقیہ بھی ثقہ ہیں ۔

اعتراض نمبر۱:

زبیر علی زئی کہتے ہیں کہ احمد بن محمد الفقیہ کا تعین مطلوب ہے۔ (فتاویٰ علمیۃ : جلد۲: صفحہ ۵۱۳)

الجواب :

احمد بن محمد بن احمد بن غالب الفقیہ المعروف حافظ ابو بکر البرقانی ؒ (م۴۲۵؁ھ)ہیں ، جو کہ مشہور ثقہ، مضبوط حافظ الحدیث  ہیں ، دلیل یہ ہے کہ :

حافظ لالکائی ؒ نے شرح اعتقاد میں ایک جگہ حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ :

أخبرنا أحمد بن محمد بن أحمد الفقیہ ، أنبأنا عمر بن أحمد ، ثنا أبی ، ثنا أحمد بن الخلیل ، ثنا أبو النضر ، ثنا شیخ من مذحج ، أنا وقاء بن إیاس عن سعید بن جبیر ۔۔۔۔۔ (شرح اعتقاد اصول اھل السنۃ : جلد۱:صفحہ ۶۳، حدیث نمبر ۲۰) ،

 اس میں عمر بن احمد سے مراد عمر بن احمد الواعظ ہے ، جو کہ ثقہ ، حافظ امام ابن شاہین ؒ (م ۳۸۵؁ھ) ہیں اور احمد بن محمد بن احمد الفقیہ سے مراد امام ابوبکر البرقانی ؒ ہیں ۔ (تاریخ الاسلام : جلد۸: صفحہ ۵۸۰) اسی طرح حدیث نمبر ۲۶۶۳میں لالکائی ؒ کہتے ہیں کہ :

أنا أحمد بن محمد بن غالب ، أنا محمد بن أحمد بن حمدان ، قال نا محمد بن أحمد بن أیوب ، قال نا رجاء أبو عمر ، قال : نا الحسن بن الربیع ، قال : نا قبیصۃ بن عقبۃ ، عن عبادۃ ۔ ۔ ۔ ۔

یہاں پر امام لالکائی ؒ نے وضاحت کی ہے کہ احمد بن محمد الفقیہ سے مراد احمد بن محمد بن غالب ہیں ، اور جب امام برقانی ؒ کا نسب دیکھتے ہیں تو ان کا پورا نام :

 احمد بن محمد بن احمد بن غالب ، امام ابو بکر البرقانیؒ(م ۴۲۵؁ھ)ہے، تو اس سے بھی ثابت ہورہا ہے کہ احمد بن محمد الفقیہ سے مراد امام برقانی ؒ ہیں ، پھر حدیث نمبر ۲۶۶۳  کی سند میں جو محمد بن احمد بن حمدان ؒ ہیں ، ان کے تلامذہ میں بھی امام احمد بن محمد الفقیہ ابو بکر البرقانی ؒ موجود ہیں ، جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ، لہذا یہ تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ احمد بن محمد الفقیہ سے امام ابو بکر البرقانی ؒ مراد ہیں ، جو کہ ثقہ حافظ الحدیث ہیں ۔

۳۔          محمد بن احمد بن حمدان ؒ بھی معتبر راوی ہیں ۔

اعتراض نمبر ۲:

زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ محمد بن احمد بن حمدان ؒ نا معلوم ہیں ۔ (ایضاً)

الجواب :

محمد بن احمد بن حمدان ؒ سے مراد حافظ محمد بن احمد بن حمدان ابو العباس الحیری ؒ (م۳۵۶؁ھ) ہیں ، کیونکہ یہ تمیم بن محمد ؒ کے شاگرد ہیں اور حافظ ابوبکر البرقانی ؒ کے استاد ہیں ۔ دیکھئے :  (سیر اعلام النبلاء : جلد ۱۶:صفحہ ۱۹۳، ۱۹۴، اور یہ ثقہ ، حافظ ، محدث اور امام بھی ہیں ۔ تاریخ الاسلام : جلد۸:صفحہ ۱۰۷)،  لہذا علی زئی صاحب کا یہ اعتراض مردود ہے ۔

۴۔           تمیم بن محمد بھی ثقہ ، حافظ الحدیث ہیں ۔

اعتراض نمبر ۳:

               زبیر صاحب لکھتے ہیں کہ تمیم بن محمد کی توثیق مطلوب ہے ۔ (ایضاً)

الجواب :

یہ اعتراض کرکے ، موصوف نے احناف سے بغض کا ثبوت دیا ہے، کیونکہ تمیم بن محمد الطوسی ؒ کا ترجمہ ، ان کی توثیق اور ان کا ثقہ ہونا کتب ِ رجال کی مشہور کتابیں سیر اعلام النبلاء :جلد ۱۳: صفحہ ۴۹۶، تاریخ الاسلام : جلد ۶:صفحہ ۷۲۶وغیرہ میں موجود ہے ، کم سے کم اہل حدیثوں کے محدث کو تو، یہ اعتراض کرنے سے پہلے ان بنیادی کتابوں کو دیکھ لینا چاہیے تھا۔  

لہذا علی زئی صاحب کا اس بے بنیاد علت کی وجہ سے یہ روایت کو ضعیف کہنا ، باطل ومردود ہے ۔

۵۔          نصر بن علی سے مراد امام نصر بن علی بن نصر الجہضمی ؒ (م۲۵۰؁ھ)ہیں ، صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ مضبوط ہیں ۔ (تقریب : رقم ۷۱۲۰)

۶۔           محمد بن سواء السدوسی ؒ (م ۱۸۹؁ھ)بھی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے راوی ہیں اور صدوق ہیں ۔ (تقریب : رقم ۵۹۳۹)

۷۔          امام سعید بن ابی عروبہ ؒ (م ۱۵۷؁ھ)بھی ثقہ حافظ ہیں ۔ (تقریب : رقم ۲۳۶۵)

اعتراض نمبر ۴:

زبیر صاحب کہتے ہیں کہ سعید بن ابی عروبہ مدلس ہیں اور روایت عن سے ہے ۔ (ایضاً)

الجواب :

امام سعید بن ابی عروبہ ؒ (م۱۵۷؁ھ) طبقات ثانیہ کے مدلس ہیں، جن کی تدلیس قابل قبول ہے ۔ (طبقات المدلسین : صفحہ ۳۱)، لہذا یہ اعتراض ہی مردود ہے ۔

نوٹ:    محمد بن سواء حدثنا سعیدکی سند بخاری اور مسلم میں موجود ہے ۔ (صحیح بخاری : حدیث نمبر ۳۶۸۶، صحیح مسلم : حدیث نمبر ۳۴۴۸)اور زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ محمد بن سواء کا سماع سعید بن ابی عروبہ ؒ سے ان کے اختلاط سے پہلے کا ہے ۔ (مقالات زبیر علی : جلد ۴:صفحہ ۳۶۴ ـ ۳۶۵) اور کہتے ہیں کہ صحیحین میں جس کو بطور حجت نقل کیا گیا ہے ، اس میں شاگرد کا اپنے استاد سے سماع اختلاط سے پہلے کا ہے ۔ (جلد ۴: صفحہ ۳۶۶) لہذا خود غیر مقلدین کے اصول سے ثابت ہوا کہ محمد بن سواء کا سماع سعید بن ابی عروبہ ؒ سے ان کے اختلاط سے پہلے ہوا تھا ۔

۸۔               عامر بن عبد الواحدالاحول ؒ صحیح مسلم کے راوی ہیں ، اور جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ۔ (اکمال تہذیب الکمال :جلد ۷:صفحہ ۱۴۴)

۹۔                امام حسن البصری ؒ (م ۱۱۰؁ھ) مشہور ثقہ ، حافظ، امام اور مشہور فاضل ہیں ۔ (تقریب :رقم ۱۲۲۷)

۱۰۔               حضرت علی ؓ مشہور صحابی رسول ہیں۔

اعتراض نمبر ۵:

                     امام لالکائی ؒ کی کتاب السنۃ (یعنی شرح اعتقاد اصول اہل السنہ ) میں یہ روایت نہیں ملی ۔

الجواب :

                     یہ روایت شرح اعتقاد :جلد۸:صفحہ ۱۳۸۶، حدیث نمبر ۲۶۵۱پر موجود ہے ۔  لہذا یہ اعتراض بھی مردود ہے ۔

اسکین :

 

[6] یہ مخطوطہ مکتبہ لائپزگ ، جرمنی (مکتبہ لایبزیک ، بالمانیا) کے رقم ۳۱۸ میں موجود ہے ، اس کے ناسخ (یعنی لکھنے والے ) حافظ عبد الرزاق بن شیخ عبد القادر الحنبلی البغدادی ؒ (م۶۰۳؁ھ)ہیں ، اس مخطوطہ کے صفحہ : ۲۶۵ پر تمیم بن محمد ؒ کا نام موجود ہے ، اسی طرح محمد بن سواء کا نام بھی نظر آرہا ہے ، لیکن ہمزہ کو لمبا کر دیا گیا ، جس طرح تیم کی میم کو اور دوسرے الفاظ کے آخری حرف کو لمبا کیا گیا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کاتب کے لکھنے کا انداز ہے ۔ (مخطوطے کا اسکین ملاحظہ فرمائے)

لیکن کاتب کے اس انداز کی وجہ سے ، ہمزہ اب راء نظر آرہا ہے ، لیکن جیسا کہ ہم نے واضح کیا کہ یہاں آخر میں ہمزہ ہے ، جو کہ محمد بن سواءبنتا ہے ، اور امام سعید بن ابی عروبہ کے شاگردوں میں بھی محمد بن سواء السدوسی کے نام سے ایک راوی موجود ہے، علامہ سیوطی ؒ نے بھی الحاوی میں یہی روایت کو محمد بن سواء سے ہی نقل کیا ہے ۔ (جلد ۲:صفحہ ۱۰۴) لہذا راجح محمد بن سواء ہی ہے ۔

[7] تفصیل یہ ہے کہ :

۱۔           امام بخاری ؒ کی ذات تعارف کی محتاج  نہیں۔

۲۔           اسحاق بن ابی اسرائیل ؒ بھی جمہور کے نزدیک ثقہ صدوق ہیں ۔ (تقریب : رقم ۳۳۸، الکاشف)

۳۔           سلیمان بن سالم ابو داؤد القرشی ؒ بھی ثقہ ہیں ۔ (کتاب الثقات للقاسم : جلد۵:صفحہ ۱۰۸، تاریخ الاسلام :جلد۴ : صفحہ ۳۳، ۸۶۰)

۴۔           علی بن زید بن جدعان ؒ اس روایت میں مقبول ہیں ۔

اعتراض :

زبیر علی زئی صاحب اعتراض کرتے ہیں کہ علی بن زید بن جدعان ؒ جمہور کے نزدیک ضعیف ہیں ۔ (فتاویٰ علمیہ :جلد ۲:صفحہ ۵۱۳)

الجواب :

علی بن زید پر کلام تو موجود ہے ، لیکن خود غیر مقلدین کے شیخ ابو اسحاق الحوینی ؒ کے نزدیک شاہد کی وجہ سے ان کی حدیث حسن ہوگی ، حافظ ابن کثیر ؒ کا بھی قریب قریب یہی موقف ہے ۔ (دو ماہی الاجماع مجلہ : شمارہ  نمبر ۱ :صفحہ ۲)اور پچھلی ۲ روایتیں علی بن زید ؒ کی اس روایت کی شاہد ہیں ، جس کی وجہ سے خود اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں علی زئی صاحب کا یہ اعتراض باطل ومردود ہے ۔

۵۔          حسن البصری ؒ کی توثیق گزرچکی ۔

۶۔          حضرت عثمانؓ، حضرت علی ؓ، حضرت زبیرؓ، اصحاب رسول میں سے ہیں ، ثابت ہوا کہ شاہد کی وجہ سے یہ روایت حسن درجہ کی ہے۔

[8]  اس کے رواۃ میں ثقہ ہیں :

۱۔           امام بخاری ؒ (م ۲۵۶؁ھ)  مشہور ثقہ امام ، حافظ ، امیر المؤمین فی الحدیث ہیں ۔

۲۔           حافظ علی بن حُجر ؒ (م ۲۴۴؁ھ)بھی صحیحین کے رواۃ میں سے ہیں اور ثقہ، حافظ ہیں ۔ (تقریب :رقم ۴۷۰۰)

۳۔          حکّام بن سلم ؒ (م۱۹۰؁ھ) بھی صحیح مسلم کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں ۔ (تقریب : رقم ۱۴۳۷)

۴۔          عبد اللہ بن جابر البصری ؒ بھی ثقہ راوی ہیں ، امام ذہبی ؒ ، امام ابن معین ؒ انہیں ثقہ کہتے ہیں ، امام بزار ؒ کہتے ہیں کہ ان میں کوئی خرابی نہیں ہے ، امام ابن حبان ؒ نے انہیں ثقات میں شمار کیا ہے ۔ (الکاشف : رقم ۲۶۵۹، تہذیب التہذیب :جلد ۵:صفحہ ۱۶۷)

۵۔           حسن البصری ؒ کی توثیق گزرچکی ہے ۔

۶۔          حضرت علی ؓ ، صحابی رسول ہیں ۔    

لہذا یہ سند صحیح ہے ۔

[9] اس روایت کے رواۃ معتبر ہیں، تفصیل یہ ہے ؛

۱۔           امام ابو نعیم ؒ (م۴۳۰ ؁ھ ) مشہور محدث ، حافظ اور ثقہ ، امام ہیں ۔ (کتاب الثقات للقاسم : جلد ۱:صفحہ ۲۶۵)

۲۔          امام ابو بکر بن مالک القطیعی ؒ (م۳۶۷؁ھ) بھی ثقہ ، حافظ ہیں ۔ (کتاب الثقات للقاسم : جلد ۱:صفحہ ۲۹۳)

 ۳۔           امام عبد اللہ بن احمد بن حنبل ؒ (م ۲۹۰؁ھ) بھی ثقہ حافظ ہیں ۔ (تقریب : رقم ۳۲۰۵)

۴۔           علی بن مسلم ؒ (م ۲۵۳؁ھ) صحیح بخاری کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں ۔ (تقریب : رقم ۴۷۹۹)

۵۔           سیار بن حاتم ؒ (م۲۰۰؁ھ)بھی جمہور کے نزدیک ثقہ اور حسن الحدیث ہیں ۔ (اکمال تہذیب الکمال : جلد ۶:صفحہ ۱۸۴)

۶۔          ریاح بن عمرو البصری ؒ بھی ثقہ راوی ہیں ، امام ابن حبان ؒ ، امام قاسم بن قطلوبغاؒ نے ثقات میں شمار کیا ہے اور امام ابو زرعہ ؒ نے صدوق کہا ہے ۔ (کتاب الثقات لابن حبان : جلد :۶:صفحہ ۳۱۰، کتاب الثقات للقاسم :جلد۴:صفحہ ۲۸۰)

۷۔         حسان بن ابی سنان ؒ بھی صدوق عابد ہیں ۔ (تقریب : ۱۲۰۰)

۸۔           حسن البصری ؒ کی توثیق گزر چکی۔

لہذا یہ سند حسن درجہ کی ہے ۔

[10] اس روایت کے تمام رواۃ ثقہ ہیں ، مگر حکام بن عبد الملک البصری ؒ ضعیف ہیں ۔ (تقریب : رقم ۱۴۵۱)،  لیکن چونکہ پچھلی روایات سے حضرت حسن البصری ؒ کا حضرت علی ؓ کو دیکھنا اور ان سے سماع ثابت ہوتا ہے ۔

لہذا شاہد کی وجہ سے یہ روایت حسن درجہ کی ہے ۔ واللہ اعلم

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...