نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

علماء احناف کے نزدیک اقامت کا طریقہ : کیا حضرت بلال ؓ سے دوہری اقامت ثابت نہیں ؟

 


علماء احناف کے نزدیک اقامت کا طریقہ :

کیا حضرت بلال ؓ سے دوہری اقامت ثابت نہیں ؟

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 7

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں



ہمارا کہنا ہے کہ حضرت بلال ؓ سے دوہری اقامت کہنا ثابت ہے۔

پہلی دلیل :

اس کی پہلی دلیل تو یہی’ملک نازم من السماء‘کی حدیث ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زید ؓ نے جب فرشتہ کو اذان واقامت کہتے دیکھا اور نبی اکرم ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’علمه بلالا‘‘، یہ بلال کو سکھا دو  ، اس کے بعد ہے کہ پس حضرت حضرت بلالؓ نے دوہری اذان اور دوہری اقامت کہی ۔ فأذن مثنى مثنى , وأقام مثنى مثنى۔

لہذا اس صحیح ترین حدیث  یہ بات صراحۃً ثابت ہوتی ہے کہ حضرت بلالؓ نے دوہری اقامت کہی ۔

آگے ہم مزید چند حدیثیں ذکر کرتے ہیں جن سے حضرت بلال ؓ کا دوہری اقامت کہنا ثابت ہوتا ہے :

دوسری دلیل :

امام عبد الرزاق ؒ (م۲۱۱؁ھ) نے کہا :

أخبرنا معمر، عن حماد، عن إبراهيم، عن الأسود بن يزيد: أن بلالا كان يثني الأذان، ويثني الإقامة۔

حضرت اسود بن یزید ؒ کہتے ہیں کہ حضرت بلال ؓ دوہری اذان اور دوہری اقامت کہا کرتے تھے ۔ (مصنف عبد الرزاق : جلد۱ : صفحہ ۴۶۲، رقم ۱۷۹۰)

اس کی سند کا حال :

۱-           امام عبد الرزاقؒ  :  ثقہ حافظ ۔ (تقریب : ۴۰۶۴)

۲-          معمر بن راشدؒ  :  ثقۃ ثبت ۔ (تقریب : ۶۸۰۹)

۳-          حماد بن ابی سلیمانؒ  :  صدوق لہ أوھام ، تقریب ۱۵۰۰ ، وقال الذھبیؒ : ثقة إمام مجتهد كريم جواد: الکاشف : رقم  ۱۲۲۱)

۴-          امام ابراہیم بن یزید النخعی :  ثقۃ إلا أنہ یرسل کثیرا ،ثقہ ہیں مگر ارسال بہت کرتے ہیں ۔ ( تقریب : ۲۷۰) لیکن امام علائیؒ (م۷۶۱؁ھ) :فرماتے ہیں کہ’’ وجماعة من الأئمة صححوا مراسيله ‘‘  ائمہ کی ایک جماعت نے آپ (ابراہیم نخعی )کی مراسیل کی تصحیح کی ہے۔  (جامع التحصیل: صفحہ ۱۴۱ ، رقم الترجمہ ۱۳) اس کا مزیدایک حوالہ ،ابن معین ؒ سے اگلی حدیث کے تحت  منقول ہے۔

۵-          اسود بن یزید النخعی  : ثقہ مکثر فقیہ ۔ ( تقریب : ۵۰۹)

۶-          بلال بن رباح ؓ مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں۔

معلوم ہوا اس سند کے تمام روات ثقہ ہیں ۔ اور اسکی سند صحیح ہے۔[1]

دوسری دلیل :

امام ابوبکر ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ

حدثنا أبو بكر قال: نا أسامة، عن سعيد، عن أبي معشر، عن إبراهيم، قال: «إن بلالا، كان يثني الأذان والإقامة۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ج۲ : ص ۳۲۱)

اس کی سند کا حال :

۱-           ابو بکر ابن ابی شیبہؒ : ثقہ حافظ ۔ (تقریب : ۳۵۷۵)

۲-          ابو اسامہؒ (حماد بن اسامۃ)  : ثقہ ثبت ربما دلس ۔ (تقریب : ۱۴۸۷)

۳-          سعید بن ابی عروبۃ ؒ : ثقہ حافظ ۔ (تقریب : ۲۳۶۵)  اور ان سے قبل الاختلاط  ابو اسامہؒ  نے سماع کیا ہے۔(مقالات زبیر علی زئی : ج۴ :ص ۳۶۴)

۴-          ابومعشر زیاد بن کلیب : ثقہ ۔ (تقریب ۲۰۹۶) ابو حاتم ؒ کہتے ہیں کہ ’’من قدماء أصحاب إبراهيم‘‘ ابومعشرؒ ، ابراھیم نخعیؒ کے قدیم شاگردوں میں سے ہیں۔ (تہذیب الکمال : جلد۳۴ : صفحہ ۳۰۷)

۵-          امام ابراہیم بن یزید النخعی :  ثقۃ إلا أنہ یرسل کثیرا ،ثقہ ہیں مگر ارسال بہت کرتے ہیں ۔ ( تقریب : ۲۷۰) ان کی جمہور محدثین کے نزدیک  مراسیل حجت ہیں۔(مجلہ الاجماع : ش ۳ : ص ۲۵۱)

اس سے معلوم ہوا کہ اس سند کے بھی تمام روات  ثقہ ہیں ۔نیز اگر  چہ یہ سند مرسل ہے۔لیکن  حدیث  صحیح ،متصل اور حجت ہے۔کیونکہ عبد الرزاق میں   یہ روایت ’’ عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ بِلَالٍ ‘‘ کی سند سے آئی ہے جس کی تفصیل  دلیل نمبر ۴ میں آرہی ہے۔ دلیل نمبر ۲ کے تحت  حمادؒ کی  متصل روایت  بھی  اس کے متابع میں  موجود ہے۔

دلیل نمبر ۴ :

امام عبد الرزاق الصنعانی ؒ (م۲۱۱؁ھ) نے کہا :

              عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ بِلَالٍ قَالَ: كَانَ أَذَانُهُ، وَإِقَامَتُهُ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ۔ (مصنف عبد الرزاق : حدیث نمبر ۱۷۹۱)

روات کی تفصیل :

۱-           امام عبد الرزاقؒ  :  ثقہ حافظ ۔ (تقریب : ۴۰۶۴)

۲-          سفیان بن سعید الثوری ؒ :  ثقة حافظ فقيه عابد إمام حجة ، و كان ربما دلس۔ (تقریب : ۲۴۴۵)

۳-          ابومعشر زیاد بن کلیبؒ

۴-          امام ابراہیم بن یزید النخعیؒ

۵-          اسود بن یزید النخعیؒ کی توثیق گزرچکی۔

۶-          بلال بن رباح ؓ مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں۔

معلوم ہوا اس سند کے تمام روات ثقہ ہیں ۔ اور(متابعات کی وجہ سے)  یہ حدیث صحیح ہے۔[2]

دلیل نمبر ۵ :

امام طحاویؒ (م۳۲۱؁ھ) فرماتے ہیں :

محمد بن خزيمة، قال: ثنا محمد بن سنان، قال: ثنا شريك، ح وحدثنا روح بن الفرج، قال: ثنا محمد بن سليمان لوين , قال: ثنا شريك، عن عمران بن مسلم، عن سويد بن غفلة، قال: «سمعت بلالا، يؤذن مثنى , ويقيم مثنى»

حضرت سوید بن غفلہ ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت بلالؓ کو دوہری اذان اور دوہری اقامت کہتے ہوئے سنا۔ (شرح معانی الآثار : جلد۱ : صفحہ ۱۳۴ ، حدیث ۸۲۸)

اس کی سند کا حال :

۱-           امام طحاویؒ (م۳۲۱؁ھ) مشہور ثقہ،ثبت   حافظ الحدیث ہیں   ۔ (کتاب الثقات  للقاسم : ج۲ : ص ۳۶)

۲-          محمد بن خزیمہ بن راشد ابو عمرو البصری : ثقہ ۔ (الثقات للقاسم : جلد۸ : صفحہ ۲۶۷، رقم ۹۷۰۰، التذییل کتب الجرح والتعدیل : جلد۱ : صفحہ ۲۷۰ ، رقم ۷۲۶) اور ان کے متابع میں روح بن الفرج (ابو الزنباع المصری) : ثقہ ۔ (تقریب : ۱۹۶۷) موجودہے۔

۳-          محمد بن سنان (وھو العوقی ) : ثقہ ثبت ۔ (تقریب : ۵۹۳۵) اور ان کے متابع میں محمد بن سلیمان لوین : ثقہ ۔ (تقریب : ۵۹۲۵) موجود ہے۔

۴-          شریک  النخعی : صدوق يخطىء كثيرا ، تغير حفظه منذ ولى القضاء بالكوفۃ۔ (تقریب : ۲۷۸۷) اور وہ خود غیرمقلدین کے نزدیک حسن الحدیث ہے۔[3]

۵-          عمران بن مسلم (الجعفی الکوفی النخعی ) : ثقہ ۔ (تقریب : ۵۱۶۹)

۶-             سوید بن غفلہ  : ثقہ ، امام ۔ (الکاشف)

اس روایت کے  تمام راوی ثقات ہیں ، شریکؒ بھی اہل حدیثوں کے نزدیک حسن الحدیث ہے۔الغرض یہ سند حسن ہے۔ نیز حضرت سوید بن غفلہ ؓ نے حضرت بلال ؓ سے سماع کی تصریح بھی کی ہے۔[4]

ان تمام روایتوں سے معلوم ہوا کہ حضرت بلالؓ سے اکہری اقامت کی طرح دوہر اقامت کہنا ثابت ہے ۔

 بغیر ترجیع کی اذان کے ساتھ دوہری اقامت کے قائلین :

-             امام ترمذیؒ  فرماتے ہیں  ’’وبه يقول سفيان الثوري، وابن المبارك، وأهل الكوفة‘‘ یہ سفیان ثوریؒ ، ابن المبارک ؒ اور اہل کوفہ کا قول ہے۔  (سنن ترمذی : جلد۱ : صفحہ ۲۶۷ ، حدیث ۱۹۴)

-            امام ابن عبد البر مالکیؒ فرماتے ہیں  

’’وقال أبو حنيفة وأصحابه والثوري والحسن بن حي وعبيد الله بن الحسن الأذان والإقامة جميعا مثنى مثنى والتكبير عندهم في أول الأذان وأول الإقامة الله أكبر أربع مرات قالوا كلهم ولا ترجيع في الأذان وإنما يقول أشهد أن لا إله إلا الله مرتين أشهد أن محمدا رسول الله مرتين ثم لا يرجع إلى الشهادة بعد ذلك ولا يمد صوته۔

وحجتهم في ذلك حديث عبد الرحمن بن أبي ليلى قال حدثنا أصحاب محمد عليه السلام أن عبد الله بن زيد جاء إلى النبي عليه السلام  فقال يا رسول الله! رأيت في المنام كأن رجلا قام وعليه بردان أخضران على جذم حائط فأذن مثنى مثنى وأقام مثنى مثنى وقعد قعدة بينهما قال فسمع بذلك بلال فقام فأذن مثنى وقعد قعدة وأقام مثنى۔يشفعون الأذان والإقامة وهو قول جماعة التابعين والفقهاء بالعراق ۔قال أبو إسحاق السبيعي كان أصحاب علي وعبد الله يشفعون الأذان والإقامة۔فهذا أذان الكوفيين متوارث عندهم به العمل قرنا بعد قرن أيضا كما توارث الحجازيون  في الأذان زمنا بعد زمن على ما وصفنا ‘‘

امام ابو حنیفہ ؒ ، آپ کے شاگرد ، امام سفیان ثوریؒ ، امام حسن بن حي ، اور عبید اللہ بن حسن ، کہتے ہیں کہ اذان اور اقامت دونوں دوہری کہی جائیں گی ، اور ان کے نزدیک اذان واقامت کے شروع میں تکبیر کے کلمات بھی چار مرتبہ کہیں جائیں گے ، نیز یہ تمام حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ اذان میں ترجیع نہیں ہوگی۔

        ان کی دلیل حضرت عبد اللہ بن زیدؓ کی حدیث ہے   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  

یہ لوگ اذان واقامت دونوں دوہری کہتے ہیں ۔یہی تابعین کی ایک جماعت اور فقہاء عراق کا بھی قول ہے۔ ابو اسحاق السبیعیؒ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے کے شاگرد ، اذان و اقامت دوہری کہا کرتے تھے۔پس یہی کوفہ والوں کی اذان ہے،ہر زمانہ میں ان کے یہاں اسی پر عمل ہوتا چلا آیا ہے۔

جیسا کہ اہل حجاز توارث کے ساتھ اس اذان پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں جو ہم نے بیان کی ۔  (الاستذکار : جلد۱ : صفحہ ۳۶۹)

-            یہی بات امام ابو عبد اللہ قرطبیؒ (م۶۷۱؁ھ) بھی کہتے ہیں ۔ ( الجامع لأحکام القرآن : جلد۶ : صفحہ ۲۲۷)

اس سے معلوم صحابہ کرام ؓ اور تابعینؒ کے زمانہ سے اس پر عمل ہورہا ہے۔

-            شیخ الاسلام ، امام ابوبکر بن عیاشؒ کا قول : 

سنن دار قطنیؒ میں حضرت عبد اللہ بن زیدؓ کی روایت نقل کرتے ہوئے ایک راوی شیخ الاسلام مقرئ فقیہ محدث ،  امام ابوبکر بن عیاش اسدیؒ، جو کوفہ کے رہنے والے ہیں ، اور قرآت کے سات اما موں میں سےامام حمزہ الزیّاتؒ کے دوشاگردوں میں سے ایک ہیں  ،اوران کی ولادت   ۹۶    ؁ھ سے  ۱۰۰؁ھ کے درمیان ہے، حضرت فرماتے ہیں: ’علی نحو من اذاننا الیوم‘  جیسے آج ہماری اذان ہے۔ (سنن دار قطنی: جلد۱ : صفحہ ۴۵۲، حدیث ۹۳۷)

اس سے معلوم ہوا کہ تبع تابعین کے زمانہ میں بھی کوفہ میں اسی طرح اذان واقامت ہوتی تھی ۔

-            سفیان ثوری ؒ کا خود دوہری اقامت کہتے ہیں جیسا کہ تفصیل گزرچکی۔(مصنف عبد الرزاق : جلد۱ : صفحہ ۴۶۱، رقم ۱۷۸۸)

-             امام قاضی عیاض مالکیؒ فرماتے ہیں :  اہل کوفہ دوہری اذان و اقامت کہتے ہیں اور یہ بعض سلف کا قول ہے ۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم : ج۲ : ص۲۴۱)  اس سے معلوم ہوا دوہری اذان و اقامت بھی سلف کا ہی قول ہے۔

ان تمام علماء کے اقوال سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ، ظہیرامن   پوری نے احناف دشمنی میں صرف اپنے مطلب کا قول نقل امام نوویؒ سے نقل کردیا کہ  امام نوویؒ فرماتے ہیں :امام ابو حنیفہؒ کہتے ہیں کہ اقامت کے سترہ کلمات ہیں ، پس وہ سب کو دو دو بار کہتے ہیں ، اور یہ مذھب شاذ ہے۔ (ضرب حق : ش۱۱ : ص ۳۱)

اس کا  جواب ہم خود  دینے کے بجائے سلفی علماء سے نقل کردیتے ہیں :

  سلفی عالم شیخ ابراہیم بن ابراہیم قریبی ، امام نوویؒ کا قول نقل کرکے کہتے ہیں :

’’شوکانی ؒ (جو کہ غیرمقلدین کے بڑے علماء میں ہیں ) کہتے ہیں کہ حنفیہ، ہادویہ ، ثوریؒ ، ابن مبارکؒ اور اہل کوفہ کے نزدیک اقامت کے الفاظ اذان کی طرح ہیں ،مع اضافہ قدقامت الصلاۃ ، ان کا استدلال حضرت عبد اللہ بن زید ؓ کی حدیث سے ہے، جسے امام ترمذیؒ اور امام ابوداؤدؒ نے روایت کیا ہے، جس کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اذان واقامت دوہری تھی ، اور یہی معنی حضرت بلالؓ سے بھی مروی ہے۔ ‘‘

شیخ قریبی کہتے ہیں :

علماء نے اس میں علت بیان کی ہے ۔

آگے شیخ قریبی کہتے ہیں :

 مگر شوکانیؒ نےان علتوں کو دفع کیا (ان کا جواب دیا) ہے، اور اس کی تائید حضرت ابومحدوذہ ؓ کی حدیث سے بھی کی ہے ، جس میں یہ  آیا ہے کہ نبی کریم ﷺنے انہیں اذان  ۱۹انیس کلمات اور اقامت ۱۷کلمات سکھائے،نیز کہتےہیں : امام ترمذیؒ اور دوسرے محدثین نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے، پس (ابومحذورہؓ کی ) یہ حدیث ، اس حدیث کیلئے ناسخ ہے جس میں یہ ہے کہ حضرت بلال ؓ کو حکم دیا گیا کہ اذان دوہری اور اقامت اکہری کہیں ، اس وجہ سے(ناسخ ہے) کیونکہ یہ (حدیث ابو محذورہ) ، حضرت بلالؓ کی حدیث کے بعد ہے، اس لئے کہ حضرت ابو محذورہؓ فتح مکہ کے وقت اسلام لائے اور بلال ؓ  کو اقامت اکہری کہنے کا حکم ، اذان کی مشروعیت  کے شروع میں دیا گیا تھا۔

شوکانیؒ  آگے کہتے ہیں :              

یہ جان لینے کے بعد تم پر واضح ہوگیا کہ دوہری اقامت کی حدیثیں اس لائق ہیں کہ ان سے حجت پکڑی جائے ، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا۔

اور اکہری اقامت کی احادیث اگر چہ زیادہ صحیح ہیں ، اسلئے کہ ان کی سندیں زیادہ ہیں ، اور چونکہ وہ صحیحین میں ہیں ، لیکن دوہری اقامت کی حدیثیں اضافہ پر مشتمل ہیں ، پس اسے اختیار کرنا لازم ہے ، خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ ان میں سے بعض مؤخر ہیں ، جیسا کہ ہم نے تمہیں بتایا۔(امام شوکانیؒ کی بات مکمل ہوئی)

شیخ قریبی کہتے ہیں : 

اس سے معلوم ہوا کہ اکہری اقامت کی حدیثیں زیادہ صحیح اور تعداد میں بھی زیادہ ہیں ، اور اس کے قائلین بھی جمہور علماء ہیں ، امام احمد بن حنبلؒ سے کہا گیا :

کیا ابو محذورہؓ کی حدیث حضرت عبداللہ بن زیدؓ کی حدیث کے بعد نہیں ہے ، اس لئےکہ ابو محذورہؓ کی حدیث  فتح مکہ کے بعد کی ہے ؟

 اور امام احمدؒ نے فرمایا : کیا رسول اللہ ﷺ نے (اس سفر سے ، جس میں ابو محذورہ ؓ کو اذان سکھلائی تھی ) مدینہ واپس آنے کے بعد حضرت بلالؓ کو حضرت عبد اللہ بن زیدؓ کی اذان پر باقی  نہیں رکھا تھا؟

امام شوکافی ؒ (امام احمدؒ کے اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے ) کہتے ہیں :

(امام احمد ؒ کا )یہ (اس استدلال ) اس بات پر موقوف ہے کہ صحیح طور پر منقول ہو کہ نبی اکرمﷺکے مدینہ منورہ واپس آنے کے بعد حضرت بلالؓ نے اکہری اقامت کہی ، صرف امام احمد بن حنبل ؒ کا کہہ دینا کافی نہیں ، اور اگر یہ ثابت (بھی ) ہو کہ (نبی اکرم ﷺ کے مدینہ منورہ واپس آنے کے بعد حضرت بلال ؓ نےاکہری اقامت کہی) تب بھی یہ ان علماء کے مذہب کی دلیل ہوگی جن کا کہنا ہے کہ (اکہری اقامت ودوہری اقامت) سب جائز ہے ، اور اس کو (یعنی اکہری ودوہری  اقامت ، دونوں کے جواز کے قول کو) اختیار کرنا لازم ہوتا، اس لئے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک  چیز ایک دوسرے کے بعد کی گئی جو تمام کے جواز کا پتہ دیتی ہے نہ کہ نسخ کا ۔

آگے شیخ ابراہیم قریبی کہتے ہیں :

اور میں کہتا ہوں کہ اس معاملہ میں زیادہ سلامتی تمام (طریقہ اقامت ) کے جواز کے قول میں ہے، جبکہ یہ تمام رسول اللہ ﷺ سے وارد ہے، اور ابن خزیمہؒ اور ابن حبانؒ نے اس کو اختلاف مباح میں سے شمار کیا ہے۔

شیخ قریبی کہتے ہیں :

ابن عبد البرؒ کہتے ہیں : امام احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، داؤد بن علی ، محمد بن جریر طبری ان تمام چیزوں کے جواز کے قائل ہیں جو اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے، اور اس (اختلاف) کو اباحت وتخییر پر محمول کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ سب جائز ہے، اس لئے کہ یہ تمام (طریقے) نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہیں ، اور ان پر آپﷺ کے صحابہ ؓ نے عمل کیا ، پس جو چاہے اذان کے شروع میں  چار مرتبہ  اللہ اکبر کہے اور جو چاہے دو مرتبہ ،  اور جو چاہے دوہری اقامت کہے اور جو چاہے کہ اکہری ، البتہ قد قامت الصلاۃ بہر حال دو مرتبہ کہا جائے گا۔ (امام عبد البرؒ کی بات پوری ہوئی)

شیخ قریبی آگے کہتے ہیں :

               ابن القیمؒ نے بھی اس  مسئلہ اور اس جیسے ( دوسرے  مسائل ) کی طرف اشارہ کیا ہے جو مباح خلافات  میں سے ہے، جس میں نہ کرنے والے پر سختی کی جاتی ہے  ، نہ چھوڑنے والے پر۔ شیخ ابرہیم قریبی کی بات ختم ہوئی۔ (مرویات  غزوہ حنین وحصار طائف : جلد۲ : صفحہ ۵۸۹،نیل الاوطار :ج ۲:ص۵۱) اس کتاب کو مدینہ منورہ کی اسلامی یونیورسٹی نے خود شائع کیا ہے ۔ [5]

اسی طرح  سابق مفتی مملکہ  شیخ المشایخ  علامہ عبد العزیز ابن بازؒ سے پوچھا گیا کہ:

               ہم ایک ایسی کمپنی میں رہتے ہیں جہاں بہت سے کام کرنے والے ترک حضرات ہیں ، جو مسلمان ہیں ، ہمیں نماز کیلئے بلاتے ہیں ، اور اذان واقامت کہتے ہیں ، البتہ ان کا مؤذن ، اقامت بالکل اذان  کی طرح کہتا ہے۔ (خلاصہ)

شیخ ؒ جواب میں کہتے ہیں :

اس میں کوئی حرج نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اقامت، اذان کی طرح کہے اس میں کوئی حرج نہیں  (خلاصہ)۔ (فتاویٰ نور علی الدرب : جلد۶ : صفحہ ۳۴۳)[6]  اس سے معلوم ہوا کہ خود سلفی علماء کے نزدیک  امام نووی ؒ کے اس قول (یہ مذھب شاذہے ) سے صحیح نہیں ہیں ۔

حضرت ابو محذورہ ؓ کی حدیث سے استدلال پر ایک اعتراض اور اس کا جواب :   (آذان میں ترجیع  کا مسئلہ )

               شیخ البانی ؒنےمذہبی تعصب کا طعنہ  دے کر(الثمر المستطاب : جلد۱ : صفحہ ۲۰۷- ۲۰۸) اور امن پوری صاحب نے تعجب خیز دلیل کہہ کر،(ضرب حق : ش ۱۱: ص ۲۹-۳۰) یہ اعتراض کیا ہے کہ

 احناف ، حضرت ابو محذورہ ؓ کی حدیث سے آدھا حصہ لیتے ہیں ، اور آدھاحصہ چھوڑ دیتے ہیں ، کیونکہ ان کی حدیث میں مذکور اذان ،۱۹ کلمات پرمشتمل یعنی مع ترجیع ہے ، اسکو تو نہیں لیتے ، البتہ انکی  اقامت جو ۱۷ کلمات پر مشتمل ہے، اس کو لے لیتے ہیں ، یعنی ایک ہی حدیث کے آدھے حصہ کو لیتے ہیں اور آدھے کو چھوڑ دیتے ہیں ۔

 جواب :

 (اول)     اس میں اصل غلطی یاتجاہل عارفانہ مسلکِ احناف کوسمجھنے میں ہے:

اذان واقامت کے باب میں احناف کی اصل دلیل’ملَک نازل من السماء ‘کی اذان واقامت کی حدیث(یعنی عبداللہ بن زید ؓ کی روایت) ہے۔حضرت مولانا انورشاہ کشمیریؒ (م۱۳۵۳؁)  فرماتے ہیں  ’’قلت: والأجود عندي ما عبر به صاحب الهداية : أن حجتنا أذان الملك النازل من السماء وإقامته۔‘‘میں کہتا ہوں کہ میرے نزدیک صاحب ہدایہؒ کی تعبیر بہترین ہے کہ ہماری  دلیل ،آسمان سے اترنے والے فرشتہ کی اذان واقامت ہے۔ (فیض الباری: جلد۲ : صفحہ ۲۰۴)

(دوم)     علماء احناف ترجیع کو ناجائز ، کلماتِ اذان میں اضافہ اور بدعت نہیں سمجھتے ، بلکہ مع ترجیع اذان بھی جائز ہے ، دلیل جوازِ ترجیع ابو محذورہؓ  کی حدیث ہے ،البتہ افضل بلاترجیع اذان ہے ،جوکہ ملَک نازل من السماء کی اذان ہے۔

-            حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ؒ نے بھی تحریر فرمائی ہے : ’’وحاصل الكلام: أن بلالا رضي الله عنه لم يثبت عنه الترجيع في الأذان، وكذلك الملك النازل من السماء، نعم ثبت في أذان أبي محذورة، فلا بد أن يقر بالأمرين، أي الترجيع وعدمه، ويجري الكلام في الاختيار فقط ‘‘۔ (فیض الباری : جلد۲ : صفحہ ۲۰۷، حدیث ۶۰۸)

-            شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی  صاحب بارک اللہ فی علمہ وعمرہ فرماتے ہیں :

’’حنابلہ اور حنفیہ کے ہاں اذان کے کلمات پندرہ ہیں ، جس میں ترجیع نہیں ہے، اور اذان کے شروع میں تکبیر چار مرتبہ ہے، لیکن یہ اختلاف محض افضلیت  میں ہے، چنانچہ حنفیہ کے نزدیک بھی ترجیع جائز ہے، اور امام سرخسیؒ  اور بعض دوسرے فقہاء حنفیہ نے ترجیع کو جو مکروہ لکھا ہے اس سے مراد خلافِ اولیٰ ہےاور لفظِ مکروہ  بعض  اوقات خلافِ اولیٰ کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوجاتا ہے، جیسا کہ علامہ شامیؒ نے لکھا ہے کہ صومِ عاشوراء کو تنہا رکھنا بعض فقہاء نے مکروہ کہا ہے، لیکن اس سے مراد خلافِ اولیٰ ہے۔‘‘ (درسِ ترمذی : جلد۱ : صفحہ ۴۵۳)

شامی میں ہے :

قال فی الدر: (ولا ترجيع) فإنه مكروه ملتقى ۔

قال ابن عابدینؒ :  (قوله: فإنه مكروه ملتقى) ومثله في القهستاني، خلافا لما في البحر من أن ظاهر كلامهم أنه مباح لا سنة ولا مكروه. قال في النهر: ويظهر أنه خلاف الأولى. وأما الترجيع بمعنى التغني فلا يحل فيه اهـ وحينئذ فالكراهة المذكورة تنزيهية۔ (الدر المختارمع رد المحتار  : جلد۱: صفحہ ۳۸۶)

-       حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں :

اور عبد اللہ بن زید ؓ کی روایت جو بابِ اذان میں اصل کی حیثیت رکھتی ہے وہ بغیر ترجیع کے ہے، لہذا عدم ترجیع راجح ہے، البتہ ترجیع کے جواز میں کوئی کلام نہیں ہے۔ (انعام الباری : جلد۳ : صفحہ ۳۹۹)

-       مفتی احمد ابراہیم بیمات صاحب رحمہ اللہ فتاویٰ فلاحیہ میں فرماتے ہیں:

احناف کے نزدیک ترجیع نہ کرے ، لیکن یہ صرف اولیٰ وغیر اولیٰ کا اختلاف ہے ۔ (فتاویٰ فلاحیہ : ج۲ : ص ۲۳۶)

-       سلفی عالم ڈاکٹر عبد اللہ بن محمد الطیارصاحب نے بھی یہی بات احناف کی طرف منسوب کی ہے:

حكمه: اختلف الفقهاء في حكم الترجيع على ثلاثة أقوال:

القول الأول: يكره تنزيهًا. وهو رأي عند الحنفية ، وقيل بأنه الراجح عندهم. واحتجوا لذلك بأن بلالًا لم يكن يرجع في أذانه. ولأنه ليس في أذان الملك النازل من السماء.

القول الثاني: أن الترجيع سنة وهو قول عند المالكية ، وهو الصحيح عند الشافعية ورواية عند الحنابلة.

القول الثالث: أنه مباح فليس بسنة وليس بمكروه. وهو قول الحنفية والصحيح عند الحنابلة۔ (الفقہ المیسر : جلد۱ : صفحہ ۱۷۰)

موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں بھی احناف کا یہی موقف نقل کیاگیا ہے ۔[7]

غور فرمائیں :

ان عبارتوں  سے واضح ہورہا ہے کہ احناف نے حضرت ابو محذورہؓ کی حدیث کی ترجیع  والی بات کو بالکل ترک کردیا ہو، ایسا نہیں ہے ، بلکہ حدیث ابی محذورہ ؓ کی وجہ سے علماء احناف بھی ترجیع کے جواز کے قائل ہیں ، البتہ اسے خلافِ اولیٰ سمجھتے ہیں ۔

لہذا شیخ البانیؒ  اور دیگرکا علماء احناف کو مذہبی تعصب کا طعنہ دینا درست نہیں ہے۔

(سوم)     ترجیع سے متعلق احناف کا جو موقف (جائز ،مگر خلاف اولیٰ) ہے، یہی موقف،سلفی علماء کرام  کا بھی ہے:

(۱)         سعودیہ کے بڑے علماء میں سے ایک بڑے عالم، شیخ عبد اللہ البسامؒ تحریر فرماتے ہیں :

’’الأفضل ترك الترجيع‘‘

افضل ترک ترجیع ہے۔  (تو ضیح الاحکام من بلوغ المرام : جلد۱ : صفحہ ۵۱۲، ما یؤخذ من الحدیث ، رقم ۶)  اور حضرت ابو محذورہ ؓ کی حدیث سے مستفاد باتوں کے ضمن میں فرماتے ہیں : ’’۵ - مشروعية الترجيع‘‘  (ترجیع کی مشروعیت[جواز])۔ (تو ضیح الاحکام من بلوغ المرام : جلد۱ : صفحہ ۵۱۵، ما یؤخذ من الحدیث ، رقم ۵)

غور فرمائیے!

شیخ بسام ؒ حضرت ابو محذورۃؓکی حدیث سے ترجیع کی ’’مشروعیت‘‘ اخذ کر رہے ہیں ،’’ سنّیت‘‘ نہیں، نیزیہ بھی کہہ رہے ہیں کہ افضل ترک ترجیع ہے۔

(۲)          اسی طرح سعودیہ کے بڑے علماء میں سے ایک اور بڑے عالم، شیخ عبد العزیز راجحی لکھتے ہیں :

               ’’ وأما أذان بلال فليس فيه ترجيع، وأذان بلال أفضل؛ لأنه كان هو الذي يؤذن به بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم، وإذا عمل بأذان أبي محذورة فلا حرج ‘‘

بلالؓ کی اذان میں ترجیع نہیں ، بلال ؓ کی اذان افضل ہے ، چونکہ نبی کریم ﷺ کے سامنے وہی اذان دیا کرتے تھے، البتہ اگر ابو محذورہؓ کی اذان پر عمل کرے تو کوئی حرج نہیں ۔ (فتاویٰ متنوعہ : ۱۳/۸)

(۳)         اسی طرح سعودیہ کبارِ علماء میں سے ایک اور بڑے عالم، شیخ عبد اللہ بن جبرین تحریر فرماتے ہیں :

’’ونحن نقول: لا بأس بذلك، ولكن أذان بلال الذي ليس فيه ترجيع أصح، فإنه كان مع النبي صلى الله عليه وسلم ولم يأمره بالترجيع‘‘

 ہم کہتے ہیں اس (یعنی ترجیع) میں کوئی حرج نہیں ، لیکن بلال رضی اللہ عنہ کی اذان جس میں ترجیع نہیں ہے، زیادہ صحیح ہے، اس لئے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے ، لیکن آپ ﷺ نے ان کو ترجیع کا حکم نہیں فرمایا ۔   (شرح عمدۃ الاحکام لابن جبرین : ۱۰/۴)

(۴)        سابق مفتی مملکہ، شیخ عبد العزیزابن باز ؒ اپنے فتوی میں تحریر فرماتے ہیں :

’’هذا يقال له: الترجيع وهذا علمه النبي صلى الله عليه وسلم أبا محذورة رضي الله عنه وكان يؤذن به في مكة رضي الله عنه، فمن فعله فلا بأس، فهو نوع من أنواع الأذان الشرعي، ولكن الأفضل هو أذان بلال رضي الله عنه الذي كان يؤذن به بين يدي النبي عليه الصلاة والسلام، كان بلال رضي الله عنه يؤذن بدون ترجيع بين يدي النبي عليه الصلاة والسلام في المدينة حتى توفاه الله، وكلا النوعين بحمد الله مشروع إلا أن الأفضل هو ما كان يفعل بين يديه عليه الصلاة والسلام وهو عدم الترجيع، ومن رجع فلا بأس‘‘

۔۔۔۔۔۔ اس کو ترجیع کہتے ہیں ، یہ نبی کریم ﷺ نے ابو محذورہ ؓ کو سکھلائی تھی، آپؓ اس طرح مکہ میں اذان دیا کرتے تھے، پس جو ایسے (ترجیع کے ساتھ) اذان دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ بھی شرعی اذان کی قسموں میں کی ایک قسم ہے، لیکن افضل بلال ؓ کی اذان ہے، جو اذان وہ نبی کریم ﷺ کے سامنے دیا کرتے تھے، بلال ؓ مدینہ منورہ میں نبی کریم ﷺکے روبرو بدون ترجیع اذان دیا کرتے تھے ، یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی ، الحمد للہ (اذان کی ) دونوں قسمیں (مع ترجیع و بدون ترجیع) مشروع ہیں ، لیکن افضل وہ ہےجو نبی کریم ﷺکے روبرو کیا جاتا تھا اور وہ عدم ترجیع ہے، اور اگر کوئی ترجیع کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔  (فتاویٰ نور علی الدرب : ۶/۳۱۷)

ان تمام سلفی کبارِ علماء کے فتاویٰ سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ ابو محذورہ ؓ کی ترجیع والی اذان کے مقابلہ میں ، حضرت بلال ؓ کی اذان ، جو بغیر ترجیع کے تھی ، افضل ہے ، یہی بات علماء احناف بھی کہتے ہیں ۔

(چہارم)    علماء احناف حضرت ابو محذورہؓ کی حدیث سے ترجیع کی سنّیت اخذ کرنے کے بجائے ،جواز اخذ کرنے کی، جووجہ ذکر کرتے ہیں ، وہی وجہ سلفی علماء بھی ذکر کرتے ہیں :

فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے : ’’یہ ترجیع ہے،  جو حنفیہ کے نزدیک  اذان میں سنت نہیں ہے، یہ ابو محذورہ ؓ کی حدیث میں وارد ہے، ان کو آنحضرت ﷺنےبغرضِ تعلیم شہادتین کے اعادہ کا حکم فرمایا تھا، اور حضرت بلالؓ کی اذان اور ملکِ نازل من السماء کی اذان میں ترجیع نہ تھی ، اس پر حنفیہ کا عمل ہے‘‘۔ (فتاویٰ دار العلوم : جلداول : صفحہ ۷۴)

یہی بات سلفی عالم شیخ محمدعریفی حفظہ اللہ تحریر کرتے ہیں :

سوال - أيهما أفضل في الأذان الترجيع أم عدمه؟

ج: الأفضل عدم الترجيع،وذلك لأنه لم يذكر إلاّ في حديث محتمل وهو حديث أبي محذورة وفيه «أنّ النبي صلى الله عليه وسلم علّمه الأذان وذكر له الترجيع فيه» ولكن الذي نرى أنّ النبي صلى الله عليه وسلم ذكر له الترجيع تلقينا له بالشهادة لأنه كان حديث عهد بإسلام فأراد أن تستقرّ الشهادتان في قلبه۔(المفید فی تقریب أحکام الاذان  : ۱/۳۴)

(سوال)     اذان میں کیا افضل ہے ترجیع یا عدم ترجیع ؟

جواب :     افضل عدم ترجیع ہے ، اسلئے کہ ترجیع کا تذکرہ صرف ایک محتمل حدیث میں ہے،  وہ حدیث ابی محذورہؓ ہے،

اس میں یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو اذان کی تعلیم دی اور اس میں ترجیع کا ذکر کیا، لیکن ہمارا خیال ہے کہ نبی کریم ﷺ نے  ان کے سامنے ترجیع کا تذکرہ شہادت کی تلقین کی غرض سے کیا ، اسلئے کہ وہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ شہادتین ان کے دل میں راسخ ہوجائیں ۔

معلوم ہوا:

بالترجیع اذان کے، خلاف اولیٰ ہونے کے قائل، صرف علماء احناف نہیں  بلکہ بڑے بڑے سلفی علماء کرام بھی ہیں ، اور حدیث ابی محذورہ ؓ کا جو محمل احناف بیان کرتے ہیں ، وہی محمل سلفی علماء نے بھی بیان کیا ، لیکن شیخ البانیؒ نے ہدفِ ملامت صرف احناف اور شوافع کو بنایا۔

حضرت شیخ البانیؒ  اور امن پوری صاحب کو – جو ترجیع کی سنیت کے قائل ہیں – چاہیے تھا کہ وہ پہلے سلفی کبارِ علماء پر رد فرماتے ،پھر احناف و شوافع کو مذہبی تعصب کا طعنہ دیتے،بلکہ ہمارا کہنا ہے کہ شیخ البانیؒ ، حکومتِ سعودیہ سے درخواست فرماتے  کہ جس طرح نبی کریمﷺکے زمانہ میں  مکہ مکرمہ میں ترجیع کے ساتھ،  اورمدینہ منورہ میں بغیر ترجیع کے اذان  ہوتی تھی اب بھی اسی پر عمل کرکے ایک مہجور سنت کو زندہ کیا جائے۔

امام الائمہ ابوبکرمحمد بن اسحاق بن خزیمہؒ کی عبارت اور اس کا جواب :

ظہیر صاحب ایک قول امام الائمہ ابوبکرمحمد بن اسحاق بن خزیمہؒ  کا  ذکر کیا کہ :

’’نبی کریمﷺسے اذان واقامت دو ہی طرح ثابت ہے،  بغیر ترجیع اذان کے ساتھ اکہری اقامت اور  مع ترجیع اذان کے ساتھ  دوہری اقامت ، لیکن بغیر ترجیع کی اذان کے ساتھ دوہری اقامت کا حکم کرنا ،  نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ‘‘۔(خلاصہ)   (ضرب حق : ش۱۱ : ص ۳۰)

اس کے جوابات درجِ ذیل ہیں :

(الف )    اس قول کا سلف صالحین اور فقہاء امصار میں سے کوئی  قائل نہیں :

               شافعیہ اور مالکیہ اذان میں ترجیع کی سنیت اور اکہری اقامت کے قائل ہیں، جبکہ  حنفیہ ، حنابلہ اور خود سلفی علماء ، اذان میں ترجیع وعدم ترجیع ، اور اکہر ی ودوہری اقامت تمام کے جواز کے قائل ہیں ، البتہ علماء حنفیہ اور سلفی علماء میں صرف اتنا فرق ہے کہ حنفیہ دوہری اقامت افضل سمجھتے ہیں جبکہ سلفی علماء اکہر ی اقامت ۔

یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں  ’’وقيل لم يقل بهذا التفصيل أحد قبله‘‘ کہا گیا ہے کہ امام ابن خزیمہ ؒ سے پہلے یہ بات کسی نے نہیں کہی(یعنی سلف میں سے کوئی اس کا قائل نہیں )۔(فتح الباری :۲/۸۴)

البتہ غیرمقلدین  کی شذوذپسندی ، اوربغضِ احناف نے انہیں اس قول کو اختیار کرنے پر مجبور کیا۔  اس سے  غیرمقلدین کے دعوائے سلفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

(ب)      حدیثی ناحیہ سے اسکا جواب ،ہم خود دینے کی بجائے غیرمقلدین کے محدث العصر سے  ہی نقل کر دیتے ہیں :

قلت: وفيما قاله ابن خزيمة نظر لأن الحديث الثاني - وهو حديث عبد الله ابن زيد الأنصاري في الرؤيا - فيه تثنية الإقامة وليس فيه الترجيع اتفاقا ۔۔۔۔۔۔۔ فكيف يقال: إن تثنية الأذان بلا ترجيع مع تثنية الإقامة لم تثبت عنه صلى الله عليه وسلم؟ مع أن ابن خزيمة ممن روى ذلك كما سبق في الأذان۔

’’امام ابن خزیمہ ؒ کا یہ قول محل ِ نظر ہے ، اس لئے کہ یہ خود ان کی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہے، (ان کے اس قول کےمحل نظر ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ) حضرت عبد اللہ بن زیدؓ کی روایت میں اذان بالاتفاق بلا ترجیع  ہے اوراسکے ساتھ اقامت دوہری منقول ہے، لہذا یہ کہنا کہ’’ بلا ترجیع اذان کے ساتھ دوہری اقامت ،نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ‘‘ محلِ نظر ہے۔ (الثمر المستطاب : ج۱: ص ۲۰۹)

اخیراً :

یہ مسئلہ حلال وحرام  یا جائز وناجائز کا نہیں تھا بلکہ زیادہ سے زیادہ اولیٰ و خلاف اولیٰ کا  تھا ،  مگر غیرمقلدین کے مشہور محدث ، شیخ زبیر علی زئی صاحب کے شاگرد غلام مصطفی ظہیر امن پوری صاحب نے حق وخلاف حق،  اور اہل حق و بعض الناس کا مسئلہ بناکر اسے پیش کیا ،علامہ ابن تیمیہ ؒ  کے چند جملہ لکھ کر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں :

۔۔۔۔۔۔۔ فالصواب مذهب أهل الحديث، ومن وافقهم، وهو تسويغ كل ما ثبت في ذلك عن النبي - صلى الله عليه وسلم -. لا يكرهون شيئا من ذلك، إذ تنوع صفة الأذان والإقامة، كتنوع صفة القراءات والتشهدات، ونحو ذلك، وليس لأحد أن يكره ما سنه رسول الله - صلى الله عليه وسلم – لأمته۔ وأما من بلغ به الحال إلى الاختلاف والتفرق حتى يوالي ويعادي ويقاتل على مثل هذا ونحوه مما سوغه الله تعالى، كما يفعله بعض أهل المشرق، فهؤلاء من الذين فرقوا دينهم، وكانوا شيعا۔

۔۔۔۔ پس  صحیح مذہب اہل حدیث اور ان کے موافقین کا ہے ، اور وہ یہ کہ نبی اکرم ﷺ سے جو کچھ ثابت ہے، تمام کی گنجائش ہے ، اس میں سے وہ کسی چیز کو مکروہ نہیں سمجھتے ، اس لئے کہ اذان  واقامت کے الگ الگ طریقے  قرآت اور تشہد کے مختلف طریقوں کی طرح ہیں ،  اور کسی کو یہ حق نہیں کہ اس چیز کو ناپسند کرے جو نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کیلئے سنت قرار دیا ہے۔

اور جو اختلافات وتفرقہ بازی میں یہاں تک پہنچ جائے کہ اس جیسےمسائل جس میں اللہ تعالی نے گنجائش دی ہے، دوستی ، دشمنی اور لڑائی جھگڑے  کرے ، جیسے کہ بعض اہل مشرق کرتے ہیں ، تو یہ لوگ ان لوگوں میں سے ہیں ، جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہوں میں بٹ گئے ۔  (الفتاویٰ الکبریٰ  : جلد۲ : صفحہ ۴۲)

اس سے غلام مصطفی ظہیر امن پوری اور ان جیسے نام نہاد محققین کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح فتنہ فساد سے محفوظ رکھے ، ایمان و اعمال صالحہ کی زندگی اور شہادت کی موت عطاء فرمائیں۔

آمین وصلی اللہ وسلم علی سیدنا ونبینا محمد وعلیٰ آلہ وأصحابہ اجمعین۔



[1]  اعتراض نمبر ۱ :

ظہیر صاحب کہتےہیں کہ  یہ روایت  ’’منقطع‘‘ ہونے کی وجہ سے بھی ’’ضعیف‘‘ ہے۔اور نقل کرتے ہیں کہ اسود بن یزید نے بلال ؓ کا زمانہ نہیں پایا۔(ضرب حق : ش ۱۱ : ص ۲۶)

جواب نمبر ۱ :

امام ذہبیؒ (م۷۴۸؁) کہتے ہیں  ’’واسود بن یزید ، مخضرم ادرک الجاھلیۃ والإسلام ‘‘ یعنی حضرت اسود بن یزیدؒ  مخضرم ہیں ، یعنی زمانہ جاہلیت اور نبی کریم ﷺ کا زمانہ ، دونوں پایا ہے۔ (سیراعلام النبلاء : جلد ۴: صفحہ ۵۰ )

                   مگر نبی کریمﷺ سے ملاقات  نہیں ہوئی، البتہ حضرت ابوبکرؓ سےملاقات ثابت ہے۔اور کہتے ہیں کہ  ’’وروى عن: الصديق أنه جرد معه الحج‘‘ (سیر)

 لہذا حضرت بلال ؓ سے ،حضرت  اسود بن یزید ؓ کے لقاء کا امکان ہے ۔  یہی وجہ ہے کہ غیرمقلد عالم شیخ البانیؒ نے اسود بن یزید عن بلالؓ کی سند سے آئی ہوئی حدیث کو صحیح الاسناد کہا ہے ۔ (سنن نسائی : حدیث نمبر  ۶۴۹ - ۶۵۰)

جواب نمبر ۲ :

              اسود بن یزید نے  خود بلال ؓ سے سماع کی تصریح کر دی ہے۔چنانچہ امام ابو الحسن الزعفرانی ؒ  (م۲۶۰؁ھ)  فرماتے ہیں کہ

حَدَّثَنَا عَفَّانُ، ثنا شُعْبَةُ، قَالَ مَنْصُورٌ وَسُلَيْمَانُ أَخْبَرَانِي عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ بِلَالٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ "يُؤَذِّنُ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ "۔ (مسند بلال بن رباح للزعفرانی :ج۲: ص ۱۹۸،طبع  مع الفوائد لابن مندہ الاصبہانی،دار الکتب علمیہ،بیروت)

اعتراض نمبر ۲ :

ظہیر صاحب کہتے ہیں کہ حماد بن ابی سلیمان راوی ’’مختلط‘‘ہے۔اور ہیثمی ؒ   کا نقل کرتے ہیں کہ حماد بن ابی سلیمان کی وہی حدیث قبول کی جائے گی، جو اس سے پرانے شاگرد، یعنی شعبہؒ، سفیان الثوری ؒ ،ہشام دستوائی ؒ بیان کریں اور جو ان کے علاوہ شاگرد ہیں،انہوں نے حماد سے اختلاط کے بعد روایات بیان کی ہیں۔(ضرب  حق : ش۱۱ : ص ۲۶)

الجواب :

امام حماد بن ابی سلیمان ؒ کا حال :

شیخ البانیؒ کہتے ہیں :

قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم غير أن حماداً وهو ابن أبي سليمان الأشعري مولاهم أبو إسماعيل الكوفي الفقيه- قد تكلم فيه بعضهم من قبل حفظه. وقال الحافظ في "التقريب ": " صدوق له أوهام ". فهو حسن الحديث على أقل الدرجات. وقد أورده الذهبي في "الميزان " ، وقال: " تكُلمَ فيه للإرجاء، ولولا ذكر ابن عدي له في "كامله "  لما أوردته ". وهذا إشارة منه إلى توثيقه۔

میں کہتا ہوں یہ سند حسن ہے ، اس کے تمام رواۃ ثقہ اورمسلم کے رجال ہیں ، سوائے حماد ؒ کے ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ، بعض لوگوں نےانکے حافظہ پر کلام کیا ہے، حافظ ؒ کہتے ہیں ’صدوق لہ اوھام‘پس وہ کم سے کم درجہ میں حسن الحدیث ہیں ، ذہبیؒ نے انکو میزان میں ذکر کیا اور کہا ان پر ارجاء کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے، اور اگر ابن عدیؒ نے ’الکامل‘ میں ان کو ذکر نہ کیا ہوتا تو میں ان کو میزان میں ذکر نہ کرتا ،(شیخ البانیؒ کہتے ہیں ) یہ ان کی توثیق کی طرف اشارہ ہے۔ (صحیح ابی داؤد الام : ۲/ ۲۱۷ ، حدیث ۳۹۸)

غیر مقلد عالم شیخ زکریا غلام قادر پاکستانی کہتے ہیں :  ’’ وحماد هو ابن أبي سليمان وهو حسن الحديث ‘‘ حماد بن ابی سلیمان حسن الحدیث ہیں ۔ (ماصح من آثار الصحابہ : جلد۱ : صفحہ ۴۸۵)

اس سے معلوم ہوا امام حماد بن ابی سلیمانؒ خود غیر مقلدین کے نزدیک حسن الحدیث ہیں ۔

’’معمر عن حماد بن ابی سلیمان ‘‘ کی سند کا حال :

’’معمر عن حماد‘‘ سے مروی حدیث کو حافظ عبد الغنی  بن سعید ؒ (م۴۰۹؁ھ)،حافظ ابو احمد بن عدی ؒ (م۳۶۵؁ھ) ،امام ابو الحسن الدارقطنی ؒ (۳۸۵؁ھ)،حافظ ابو علی  ابن السکن ؒ (م۳۵۳؁ھ) ، حافظ ابو علی النیساپوریؒ(م۳۴۹؁ھ)، امام ابن مندہ ؒ (م۳۹۵؁ھ)،امام ابو یعلی  خلیلیؒ (م۴۴۵؁ھ) اور امام حاکم ؒ (م۴۰۵؁ھ) ، حافظ المشرق خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ)  اور امام،حافظ ابو طاہر السلفی ؒ (م۵۷۱؁ھ) وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہیں۔

اسی طرح غیر مقلدین  کےشیخ الابانی ؒ، شیخ زبیر  علی زئی صاحب اور  سلفی محقق شیخ حسین سلیم اسد نے  بھی ’’معمر عن حماد ‘‘کی سند کو صحیح کہا ہیں  ۔  (سنن نسائی : حدیث  نمبر ۳۸۶۰،تحقیق الابانی،سنن نسائی ،تحقیق زبیر علی زئی : حدیث نمبر ۳۸۹۱،ذخیرۃ العقبی از شیخ محمد بن علی  الاثیوبی ،ج: ۳۱ : ص ۱۰۱،   اختصار  فی علوم الحدیث مترجم  زبیر علی زئی : ص۲۲،مسئلہ فاتحہ خلف الاماماز  زبیر علی زئی : ص ۵۲، النکت لا بن حجر : ج۱ : ص ۴۸۱، سنن دارمی : جلد۴ : صفحہ ۱۹۵۷، حدیث ۳۰۴۷)

اسی طرح حافظ ابن حزم ؒ (م۴۵۶؁ھ) نے بھی ’’معمر عن حماد‘‘  سے مروی حدیثوں کو صحیح قرار دیا ہے۔(المحلی : ج۱ : ص ۲۱۱،ج۳ : ص ۲۸۵،۳۴۹، ماہنامہ اہل السنہ ممبئی، ستمبر ۲۰۱۷: ش ۷۰ : ص ۱۶)

اور پھر خود غیر مقلدین  کا اصول ہے کہ محدثین  کی تصحیح و تحسین  سے، راوی کا اپنے مختلط شیخ  سے قبل الاختلاط سماع ثابت ہوتا ہے۔(مقالات زبیر علی زئی : ج۶ : ص ۱۳۳،دین میں تقلید کا مسئلہ : ص ۳۶) اتنا ہی نہیں، بلکہ حافظ ذہبی ؒ (م۷۴۸؁ھ) اور حافظ ابن حجر ؒ (م۸۵۲؁ھ)  وغیرہ نے  ’’معمر عن حماد‘‘ کی سند سے مروی اقوال کو امام حمادبن ابی سلیمان ؒ (م۱۲۰؁ھ) سے ثابت مانا ہے۔ (سیراعلام النبلاء : ج۵:ص ۲۳۳،فتح الباری : ج۱ : ص ۳۴۳)

الغرض خود غیر مقلدین کے اصول سے  ثابت ہوا کہ  معمر ؒ (م۱۵۳؁ھ) نے اپنے شیخ  حماد بن ابی سلیمان ؒ(م۱۲۰؁)  سے   ان کے  الاختلاط  سے پہلے کا سماع کیا  تھا ۔ لہذاظہیر صاحب کا اعتراض باطل اور مردود ہے۔پھر اس  سند کی متابعات بھی موجود ہیں۔

نیز ظہیر صاحب نے امام ابراہیم نخعی ؒ کی عنعنہ  پر بھی  اعتراض کیا ہے۔لیکن محدثین نے واضح کیا کہ وہ ثقہ سے روایت کرتے تھے اور ان کی تدلیس مقبول ہے۔(الاجماع : ش ۳  : ص ۲۵۴، طبقات المدلسین : ص ۲۸) نیز خود  اہل حدیث مسلک کے ارشاد الحق اثری صاحب اور خبیب احمد صاحب نے بھی امام ابراہیم نخعی ؒ کی عنعنہ کو قبول کیا ۔(مقالات اثریہ : ص ۲۵۹)

لہذاظہیر صاحب کا یہ اعتراض بھی  باطل اور مردود ہے۔

[2]  اعتراض نمبر ۱ :

اس  کے بارے میں امام ابوبکر احمد بن منصور الرمادیؒ (م ۲۶۵؁ھ) کہتے ہیں کہ سفیان نے ابو معشر سے نہیں سنا ہے ۔

الجواب نمبر ۱ :

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ امام سفیان ثوریؒ اور ابو معشر زیاد بن کلیبؒ دونوں کوفی ہیں ، ابومعشر کے انتقال (  ۱۱۹ ؁ھ) کے وقت سفیان ثوریؒ تقریبا ۲۲ سال کے تھے ، نیز امام ثوریؒ نے کم عمری سےحصولِ علم  شروع کردیا تھا ،  اس لئے امکانِ لقاء موجود ہے۔

الجواب نمبر ۲ :

نیز سعید بن ابی عروبہؒ عن ابی معشر اور اس سے پہلے معمرعن حماد کی روایت سے اس کی متابعت ہوتی ہے ۔  لہذا متابعات کی وجہ سے اسود ؒ کی یہ حدیث متصل ہوگی  اور سلفی محقق شیخ نبیل سعد الدین سلیم جرار نے اس حدیث کی تصحیح نقل کی ہے ۔ (الایماء إلی زوائد الأمالی والأجزاء : جلد۲: صفحہ ۶۵ ، رقم الحدیث ۱۰۰۷، حاشیہ ۳) نیز دیکھئے  (الایماء : جلد ۱ ، مقدمہ : صفحہ ۱۰)

 سفیان ثوری ؒ کا خود دوہری اقامت کہنا :

مذکورہ بالا روایت کی  متابعت اس سے بھی ہوتی ہےکہ خود امام سفیان ثوریؒ (م۱۶۱؁ھ) سید العلماء العاملین فی زمانہ(سیر) نے  ’’ قال عبد الرزاق: سمعت الثوري، وأذن لنا بمنى فقال: " الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله مرتين، أشهد أن محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم مرتين، فصنع كما ذكر في حديث عبد الرحمن بن أبي ليلى في الأذان، والإقامة تمام مثل الحديث‘‘ مقام منیٰ میں ،جہاں حاجیوں کا جم غفیر ہوتا ہے ، بلا خوف تردید ،دوہری اقامت کہی ۔ (مصنف عبد الرزاق : جلد۱ : صفحہ ۴۶۱، رقم  ۱۷۸۸، و اسنادہ صحیح)

اعتراض نمبر ۲ :

ظہیر صاحب  کہتے ہیں کہ یہ سند سفیان ثوری ؒ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔(ضرب حق : ش۱۱ : ص ۲۶)

الجواب :

              تدلیس کے مسئلہ پر  ظہیر صاحب جیسے حضرات کا رد ،سفیان ثوری ؒ کی تدلیس کا دفاع اور ان  کی عنعنہ کو قبول خود اہل حدیث علماء نے کیا ہیں۔(انوار  البدر : ص ۱۴۷، مقالات اثریہ : ص  ۲۵۳) لہذا یہ اعتراض بھی مردود ہے۔

[3] مشہورسلفی محقق شیخ احمد شاکرؒان کی توثیق کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ’’ تكلم فيه بعضهم  بغير حجة، إلا أنه كان يخطئ في بعض حديثه ‘‘ بعض لوگوں نے بلا دلیل ان پر کلام کیا ہے، ہاں اتنا ہے کہ ان سے بعض حدیثوں میں غلطی ہوئی ہے۔ (مسند  أحمد :ت شاکر : ج۵ : ص۳۱۷، حدیث ۵۹۶۶)، اسی طرح دوسری سلفی محقق شیخ حسین سلیم اسد دارانی، نے کئی صفحات میں شریکؒ پر بحث کی ہے، اور ان پر کی گئی تمام جروحات ، تدلیس ، اختلاط ، سوء حفظ اور کثرت خطاء ، تولیتِ قضاء پر مفصل بحث کی  اور ان کا جواب دیا ہے،  پھر اخیر میں ان کی حدیث کو حسن کہا ہے ۔ (موارد الظمآن إلی زوائد صحیح ابن حبان ، ت حسین أسد : جلد۵ : صفحہ ۳۳۸تا ۳۴۲)

[4] اعتراض :

ظہیر صاحب کہتے ہیں کہ  اس کی سند میں شریک ؒ مدلس  ہیں لہذا سند ضعیف ہے۔(ضرب حق)

الجواب :

                  حافظ سیوطی ؒ (م۹۱۱؁ھ) نے کہا :  ’’كان قليل التدليس ‘‘ شریک ؒ کم  تدلیس کرتے تھے۔(اسماء المدلسین  : ص۵۸)، حافظ ابن العراقی ؒ (م۸۲۶؁ھ)  اور حافظ ابن العجمی ؒ (م۸۴۱؁ھ) نے کیا : ’’ ليس تدليسه بالكثير ‘‘ ان کی تدلیس زیادہ نہیں ہے۔(المدلسین : ص ۵۸، التبيين لأسماء المدلسين ص ۳۳) اور حافظ ابن حجر ؒ (م۸۵۲؁ھ) نے کہا : ’’ كان يتبرأ من التدليس ‘‘۔(طبقات المدلسین : ص ۳۳) اور قلیل التدلیس خود غیر مقلدین کے نزیک قابل قبول ہے۔(انوار  البدر : ص ۱۴۵، مقالات اثریہ : ص  ۲۵۰) لہذا یہ اعتراض باطل ہے۔

حضرت بلالؓ اورحضرت سوید بن غفلہؒ  کے لقاء کا ثبوت :

حضرت سوید بن غفلہؒ ، نبی اکرم ﷺکے تقریباً ہم عمر ہیں ، البتہ نبی اکرم ﷺسے ملاقات میں اختلاف ہے،   ۱۰۰سال سے زیادہ عمر ہوئی، ۸۲  ؁ھ میں وفات پائی ،انتہائی زاہدانہ زندگی گزارنے کے باوجود قوت کا یہ عالم تھا کہ کبھی ٹیک لگاکر یا کپڑا باندھ کر (حبوہ قبوہ لگاکر) بیٹھے،نہیں دیکھے گئے ،وفات کے سال  کنواری عورت سے نکاح کیا ، حضرت ابوبکر سے ملاقات ثابت ہے، نیز کئی روایتوں میں حضرت بلالؓ سے لقاء کا صریح ثبوت موجود ہے، مثلاً:

مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت ہے :  حدثنا ابن نمير عن الأعمش عن عمران عن سويد عن بلال قال: كان يسوي مناكبنا وأقدامنا في الصلاة۔ (مصنف ابن ابی شیبہ :۳۵۳۴) اس اثر کو غیر مقلد عالم شیخ زکریا غلام قادر پاکستانی نے صحیح کہا ہے۔ (ماصح من آثار الصحابہ فی الفقہ : ۱/۳۶۱)

اعتصام للشاطبی کی تحقیق میں سلفی محقق شیخ  سعد بن عبد اللہ آل حمید نے’سوید بن غفلہ قال سمعت بلالا‘ کی سند کو صحیح کہا ہے۔

وقال بلال: لا أبالي أن أضحي بكبش أو بديك (5)۔ (وفی الحاشیۃ) (۵) : أخرجه عبد الرزاق (۸۱۵۶)، وابن حزم في "المحلى" (۷/ ۳۵۸) من طريق سويد بن غفلة؛ سمعت بلالا ۔ ۔ ۔ ، فذكره ولم يذكر قوله: "بكبش". وإسناده صحيح

اور اس طحاوی والی روایت میں سوید ؒ نے سماع کی تصریح فرمائے ہے۔لہذا یہ روایت متصل اور حسن ہے۔واللہ اعلم

[5]  الفاظ یہ ہیں :

قال النووي: وهذا المذهب شاذ۔

وقال الشوكاني: وذهبت الحنفية والهادوية والثوري وابن المبارك وأهل الكوفة إلى أن ألفاظ الإقامة ، مثل الأذان عندهم مع زيادة قد قامت الصلاة مرتين، واستدلوا بما في رواية عبد الله بن زيد عند الترمذي، وأبي داود، بلفظ: "كان أذان رسول الله صلى الله عليه وسلم شفعاً شفعاً في الأذان والإقامة ، وروي معنى ذلك عن بلال.

وقد أعلها العلماء۔

غير أن الشوكاني: دافع عنها وأيدها بحديث أبي محذورة الوارد فيه "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم علمه الأذان تسع عشرة كلمة والإقامة سبع عشرة كلمة" قال: وهو حديث صححه الترمذي وغيره". فيكون ناسخا لحديث "أمر بلال أن يشفع الأذان ويوتر الإقامة" لتأخره عن حديث بلال، لأن أبا محذورة من مسلمة الفتح، وبلالاً أمر بإفراد الإقامة أول ما شرع الأذان۔

ثم قال: وإذا عرفت هذا تبين لك أن أحاديث تثنية الإقامة صالحة للاحتجاج كما أسلفناه۔

وأحاديث إفراد الإقامة وإن كانت أصح منها لكثرة طرقها وكونها في الصحيحين، ولكن أحاديث التثنية مشتملة على الزيادة، فالمصير إليها لازم لا سيما مع تأخر تاريخ بعضها كما عرفناك۔ إهـ.

فقد تبين من هذا أن أحاديث إفراد الإقامةأصح وأكثر وأن القائلين بها هم جماهير العلماء، وقد قيل للإمام أحمد بن حنبل:

أليس حديث أبي محذورة بعد حديث عبد الله بن زيد، لأن حديث أبي محذورة بعد فتح مكة، قال: أليس قد رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المدينة فأقر بلالاً على أذان عبد الله بن زيد.

قال الشوكاني: ولكن هذا متوقف على نقل صحيح أن بلالاً أذن بعد رجوع النبي صلى الله عليه وسلم المدينة وأفرد الإقامة، ومجرد قول أحمد بن حنبل لا يكفي، فإن ثبت ذلك، كان دليلاً لمذهب من قال بجواز الكلّ ويتعين المصير إليهما؛ لأن فعل كل واحد من الأمرين عقب الآخر مشعر بجواز الجميع لا بالنسخ۔

وأقول لعل الأسلم في ذلك هو القول بجواز الكل ما دام أن الجميع قد ورد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد جعله ابن خزيمة وابن حبان من الاختلاف المباح.

وقال ابن عبد البر: ذهب أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه وداود بن علي، ومحمد بن جرير الطبري إلى إجازة القول بكل ما روى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك وحملوه على الإباحة والتخيير، قالوا: "كل ذلك جائز لأنه قد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم جميع ذلك وعمل به أصحابه، فمن شاء قال: الله أكبر أربعا في أول الأذان، ومن شاء ثنى الإقامة, ومن شاء أفرد، إلا قوله:"قد قامت الصلاة"فإن ذلك مرتان على كل حال.إهـ.

وأشار ابن قيم الجوزي أيضا إلى أن هذا ونحوه من الخلاف المباح الذي لا يعنف فيه من فعله , ولا من تركه۔

[6]  الفاظ یہ ہیں :

بيان جواز أن يأتي بلفظ الإقامة كالأذان

س: إننا نعيش في مؤسسة وكثير من العاملين فيها من الأتراك المسلمين جزاهم الله عنا خيرا، هؤلاء الأتراك مسلمون بمعنى الكلمة يحضوننا على الصلاة، ويؤذنون ويقيمون ويؤموننا في الصلاة، لكن المؤذن عندهم يقيم الصلاة كالأذان - أي إنه يأتي بالإقامة كالأذان بالضبط - فهل هذا جائز أم لا؟ وفقكم الله

ج: لا حرج في ذلك؛ لأن الأذان جاء على نوعين: نوع بالتكبير في أوله أربع والشهادتين، الشهادة مرتين مرتين، والتكبير في آخره مرتين، والحيعلة كل واحدة مرتين، وجاءت الإقامة على نحوه في حديث أبي محذورة وجاء في حديث أنس في أذان بلال الإيتار في الإقامة، فمن أوتر الإقامة فهو أفضل على حديث بلال، وإقامة بلال: الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله حي على الصلاة، حي على الفلاح، قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله.

هذا هو الأفضل كما جاء في أذان بلال وفيما رواه عبد الله بن زيد لما أري الأذان فمن أتى بالإقامة على شبه الأذان فلا بأس؛ لأن هذا جاء في حديث أبي محذورة: علمه الإقامة كما علمه الأذان عليه الصلاة والسلام فالأمر في هذا واسع من باب اختلاف التنوع، والأذان كذلك تنوع لأنه جاء فيه كما تقدم، وجاء فيه إعادة الشهادتين مرة أخرى يأتي بها بصوت خفي ليس بجهوري وليس برفيع جدا ثم يأتي برفع الصوت بذلك مرة أخرى بالشهادتين أرفع من اللفظ الأول، وهذا يسمى ترجيعا۔

 

[7] الفاظ یہ ہیں :

الترجيع في الأذان:

۱۱ - الترجيع هو أن يخفض المؤذن صوته بالشهادتين مع إسماعه الحاضرين، ثم يعود فيرفع صوته بهما۔

وهو مكروه تنزيها في الراجح عند الحنفية؛ لأن بلالا لم يكن يرجع في أذانه، ولأنه ليس في أذان الملك النازل من السماء۔

وهو سنة عند المالكية وفي الصحيح عند الشافعية؛ لوروده في حديث أبي محذورة، وهي الصفة التي علمها له النبي صلى الله عليه وسلم، وعليها السلف والخلف۔

وقال الحنابلة: إنه مباح ولا يكره الإتيان به لوروده في حديث أبي محذورة. وبهذا أيضا قال بعض الحنفية والثوري وإسحاق ، وقال القاضي حسين من الشافعية: إنه ركن في الأذان۔ (الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ : ۲/۳۶۰)



ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 7

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...