حضور ﷺ کی حدیث کے مطابق نماز کے لئے مسجد
جانے والی عورت کو روکنا جائز ہے۔
ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
امام ابو بکر بن ابی شیبہؒ (م۲۸۷ھ) فرماتے
ہیں کہ:
’’حدثنا
أبوبکر بن ابی شیبۃ، ثنازید بن الحباب، عن ابن لھیعۃ، ثنا عبدالحمید بن المنذر
الساعدی، عن ابیہ، عن جدتہ أم حمید، قالت: قلت یارسول اللہ ﷺ:یمنعنا أزواجنا أن
نصلی معک ونحب الصلاۃ معک، فقال رسول اللہ
ﷺ : صلاتکن فی حجرکن أفضل من صلاتکن فی دورکن أفضل من صلاتکن فی الجماعۃ۔‘‘
ام
حمیدؓ نے حضورﷺ سے فرمایا کہ: ہمیں ہمارے شوہر آپ کے ساتھ نماز پڑھنے سے منع کرتے
ہیں ، حالانکہ ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کی بہت چاہت رکھتے ہیں۔
رسول
اللہ ﷺ نے جواب میں فرمایا : تمہاری اندرونی کوٹھری کی نماز تمہارے بڑے کمرے کی نماز
سے بہتر ہے، اور تمہارے بڑے کمرے کی نماز تمہارے جماعت کے ساتھ نماز سے افضل ہے۔ (الآحاد والمثانی: رقم الحدیث،۳۳۷۹، واسنادہٗ حسن)
رواۃ کے بارے میں تفصیل :
(۱) امام
ابوبکر بن ابی عاصم (م۲۸۷ھ)
ثقہ، حافظ ہیں۔ (تاریخ الاسلام: ص۶۸۴ج۶)
(۲) امام
ابو بکر بن ابی شیبہؒ (م۲۳۵ھ)
بھی ثقہ ہیں۔ (تقریب: رقم،۳۳۷۵)
(۳) زید
بن الحبابؒ (م۲۳۰ھ)
بھی صدوق راوی ہیں۔ (تقریب ، رقم: ۲۱۲۴)
(۴) عبد
اللہ بن لہیعہؒ (م ۱۷۴ھ)
جن پر کلام ہے۔
لیکن
غیر مقلدین کے نزدیک یہ راوی حسن درجے کے ہیں، چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحبؒ کہتے
ہیں کہ ابن لہیعہ حسن درجہ کے رایوں میں سے ہے۔
(نزل الابرار: ص۲۴۱)
پھر
ابن لہیعہؒ کی دو دو متابعات موجود ہیں جس کے حوالے آگے آرہے ہیں لہٰذا ان پر اس
روایت میں’’جرح‘‘ بیکار ہے۔
(۵) اس روایت
میں عبدالحمید بن المنذرؒ الساعدی اور ان کے والد
(۶) منذرؒ
موجود ہیں۔
امام
بیہقیؒ نے ان کی روایت کو باستدلال صحیح کہا ہے، جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
اور
غیر مقلدین کے نزدیک یہ اصول ہے کہ جب کوئی مجتہد و محدث کسی حدیث سے استدلال کرتا
ہے تو وہ حدیث اس مجتہد کے نزدیک صحیح ہوتی ہے۔ (فتاویٰ نذیریہ: ص۳۱۶ج۳)
اور
جب کوئی مجتہد و محدث کسی حدیث کو صحیح کہتا
ہے تو اہل حدیثوں کے نزدیک اس محدث کا اس روایت کو صحیح کہنا، اس روایت کے ہر ہر راوی
کی توثیق ہوتی ہے۔ (نماز میں ہاتھ
باندھنے کا حکم اور مقام :ص۱۷،
انوار البدر : ص۲۷)
الغرض
اس طرح یہ دونوں راوی بھی خود اہل حدیث کے اصول سے ہی ’’ثقہ ‘‘ ہیں۔
(۷) اُمّ
حمیدؒ مشہورصحابی ابو حمید الساعدیؒ کی اہلیہ ہیں ۔ (الاصابہ)
لہٰذا
یہ حدیث حسن ہے اور اس روایت کی دوسری سندیں بھی متابعات میں موجود ہیں۔
متابع
نمبر(۱) مثلاً الاحاد والمثانی میں
ہی امام ابو بکر ابن ابی عاصمؒ نے اس کی ایک اور سند بیان کی ہے جو کہ یہ ہے:
’’حدثنا
عقبۃ بن مکرم، ثنا عبد اللہ بن حرب اللیثی، ثنا محمد بن النعمان، ثنا یحیی بن
العلائ، ثنا أسید الساعدی، عن سعید بن المنذر،عن ام حمید، عن النبیﷺ‘‘۔ (الآحاد والمثانی، رقم الحدیث:۳۳۸۰، واسنادہٗ ضعیف)
متابع
نمبر (۲) امام بیہقیؒ(م۴۵۸ھ)فرماتے
ہیں کہ:
’’اخبرنا
ابو الحسن علی بن محمد بن عبد اللہ بن بشران العدل ببغداد، أنبا ابو الحسن علی بن
محمد بن احمد المصری، ثنا یحییٰ بن عثمان بن صالح، ثنا ابراھیم بن مروان ابو بکر،
ثنا عبد المؤمن بن عبد اللہ الکنانی، عن عبد الحمید بن المنذر بن ابی حمید
الساعدی عن أبیہ، عن جدتہ ام حمید، أنھا قالت: یارسول اللہ، انا نحب الصلاۃ تعنی
معک فیمنعنا ازواجنا، فقال رسول اللہ ﷺ: صلاتکن فی حجرکن أفضل من صلاتکن فی دورکن
أفضل من صلاتکن فی الجماعۃ۔‘‘
اس
روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام بیہقیؒ فرماتے ہیں کہ :
قال
الشیخ: تابعہ ایضا ابن لھیعۃ، عن عبد الحمید، وفیہ دلالۃ علی ان الامر بأن لا
یمنعن امر ندب واستحباب، لا امرفرض وایجاب، وھو قول العامۃ من اھل العلم۔
اس
روایت میں عبد اللہ بن لہیعہؒ عبد المومن بن عبداللہؒ کے متابع ہیں اور یہ روایت دلالت
کر تی ہے کہ حضور ﷺکا حکم عورتوں کو مسجد میں آنے سے روکو (جو کہ غیر مقلدین کی دلیل
ہے ، وہ)ایک جائز اور مستحب درجہ کا حکم ہے نہ فرض اور واجب کے درجہ کا، یہی عام اہلِ
علم کا قول ہے۔ (السنن الکبریٰ: ص۱۹۰، رقم الحدیث:۵۳۷۱)
غورفرمائیے ! امام
بیہقیؒ نہ صرف اس سے استدلال کرتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ اس روایت کی وجہ ہے کہ حضور
ﷺ نے یہ جو فرمایا ہے کہ عورتوں کو مسجد میں آنے سے نہ روکو، یہ حکم صرف جائز اور
مستحب کے درجہ کا ہے، کوئی فرض اور واجب حکم نہیں ہے ، کیونکہ خود آپ ﷺ کے سامنے جب
یہ بات آئی کہ صحابہ کرامؓ اپنی عورتوں کو مسجد آنے سے روکتے تھے، تو اس پر آپ ﷺ
نے انہیں کچھ نہیں فرمایا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز کے لئے عورتوں کا مسجد نہ جانا
حضور ﷺکے منشاء کے مطابق ہے۔
حضورﷺ نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ زینت کے
سا تھ آنے والی عورتوں کو مسجد سے روکو
امام ابن ماجہؒ (م۲۷۳ھ)
فرماتے ہیں کہ:
حدثنا
ابوبکر بن أبی شیبۃ،وعلی بن محمد قالا: حدثنا عبید اللہ ابن موسیٰ، عن موسی بن
عبیدۃ، عن داود بن مدرک، عن عروۃ بن الزبیر عن عائشۃؓ قالت:بینما رسول اللہ ﷺجالس
فی المسجد، اذ دخلت امرأۃ من مزینۃترفل فی زینۃ لھا فی المسجد، فقال النبیﷺ: ’’یا
أیھاالناس ! انھوا نساء کم عن لبس الزینۃ، والتبختر فی المسجد، فان بنی اسرائیل
لم یلعنوا حتی لبس نساؤھم الزینۃ، وتبخترن فی المساجد۔
حضرت
عائشہؓ (م۵۸ھ)
فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ قبیلۂ مزینہ کی ایک عورت خوبصورت
کپڑوں میں مزین ناز و نخرے کے ساتھ مسجد میں داخل ہوئی، (اس کی یہ ناپسندیدہ کیفیت
دیکھ کر )رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’اے
لوگو ! اپنی عورتوں کو زینت سے آراستہ ہوکراور خوش رفتاری کے ساتھ مسجد میں آنے سے
روکو، بنی اسرائیل اسی وقت ملعون کئے گئے جب ان کی عورتیں سج دھج کر ناز ونخرے سے مسجدوں
میں آنے لگیں۔(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث:۴۰۰۱، واسنادہٗ حسن)
اس روایت کے راویوں کا تعارف درج ذیل ہے:
(۱) امام
ابن ماجہؒ (م۲۷۳ھ)
مشہور امام، ثقہ، حافظ ہیں۔ (تاریخ الاسلام:ص۶۲۵؍۶۲۶ج۶)
(۲) امام
ابو بکر ابن ابی شیبہؒ (م۲۳۵ھ)مشہور
امام، ثقہ،حافظ اور صاحبِ تصنیفات ہیں۔ (تقریب:رقم،۳۵۷۵)
اسی طرح امام ابن ماجہؒ کے ایک اور استاد امام علی بن محمدالطنافسیؒ(م۲۳۵ھ) بھی ثقہ ہیں۔ (تقریب: رقم:۴۷۹۱)
(۳) موسی
بن عبید اللہ بن ابی مختارؒ (م۲۱۳ھ)
صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔ (تقریب ، رقم:۴۳۴۵)
(۴) موسیٰ
بن عبیدؒ کے بارے میں ائمہ ٔ محدثین کا اختلاف ہے۔
امام
عجلیؒ، امام وکیع ؒ ، امام ابن سعدؒ، فرماتے ہیں کہ ا ٓپ ثقہ ہیں۔امام احمد بن حنبلؒ
فرماتے ہیں کہ آپ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔امام بزارؒفرماتے ہیں کہ آپ ؒمعتبر آدمی
ہیں۔امام ابو داؤدؒ فرماتے ہیں کہ ان کی احادیث درست ہیں ، لیکن جب وہ عبید اللہ بن
دینار سے روایت کریں(یعنی ان کی عبید اللہ بن دینار سے مروی احادیث درست نہیں ہیں،
اس روایت میں عبید اللہ بن دینار نہیں ہیں۔)
(اکمال تہذیب الکمال: ص۲۸ج۱۲، تہذیب التہذیب: ص ۳۵۸؍۳۶۰)
پر
بعض محدثین نے ان پر جرح بھی کی ہے، لیکن اس روایت میں ان پر جرح مردود ہے، کیونکہ
اسی حدیث کی دوسری سند میں زید ابن الحبابؒ نے ان کی متابعت کر رکھی ہے۔
نیز
اس روایت کے سپورٹ میں ایک مرسل روایت بھی موجود ہے ، جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ لہٰذا
موسیٰ بن عبیدؒ پر جرح بے کار ہے ، اور اس روایت میں وہ متابع و شاہد کی وجہ سے ’’حسن
الحدیث‘‘ ہے۔
(۵) داؤد
بن مدرکؒ بھی مقبول راوی ہیں، کیونکہ ان سے دو دو راوی نے روایت کیا ہے۔[1]
(الف) امام ابو بکر ابن ابی شیبہؒ(م۲۵۳ھ)جو کہ ثقہ محدث اور حافظ
الحدیث ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ص۳۳۷ج۷، رقم الحدث:۱۱۸۳۹)
(ب) زید بن الحبابؒ (م۲۳۰ھ)
(جو کہ صحیح مسلم کے راوی ہیں) ۔ (الکامل:
ص۱۶۶ج۴)
اور
جیسا کہ پہلے بات آچکی ہے کہ جس سے دو راوی روایت کریں تو مجہول نہیں ہوتا، پس داؤد
بن مدرک ؒ بھی مقبول ہیں۔
(۶) امام
عروہ بن الزبیرؒ (م۹۴ھ)
بھی ثقہ ہیں۔ (تقریب:رقم:۴۵۶۱)
(۷) حضرت
عائشہؓ مشہور صحابیہ آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات میں سے ہیں۔ (تقریب) لہٰذا یہ سند حسن ہے۔
متابع نمبر(۱) امام ابن عدیؒ(م۳۶۵ھ)
فرماتے ہیں کہ :
حدثنااسحاق
بن احمد بن جعفر الکاغدی، حدثنا ابو سعید الاشج، حدثنا زید بن الحباب عن داؤد بن
مدرک عن عروۃ عن عائشۃ أن رسول اللہ ﷺمرّ بامرأۃ من مزینۃ تر تفل فی زینۃ لھا فی
المسجد فقال: انما لعن بنو اسرائیل حیث زینوا نساء ھم و تبخترن فی المساجد۔ (الکامل لابن عدی: ص۱۶۶ج۴)
اس
روایت میں زید بن الحباب ؒ موسیٰ بن عبیدؒ کی متابعت کر رہے ہیں،جس کی وجہ سے ان پر
اس روایت میں ’’جرح‘‘ مردود ہے۔
متابع نمبر(۲) یہی
روایت مرسلاً امام اوزاعیؒ (م۱۵۷ھ)
سے ثابت ہے، امام ابو شعیب الحرانیؒ (م۲۹۵ھ)
فرماتے ہیں:
حدثنا
ابوشعیب، قال:حدثنی یحییٰ، ثنا الاوزاعی، قال: بصر رسول اللہ ﷺ بامرأۃمتزینۃ، قد
لبست زینتھا، وھی تبختر فی المسجد، فقال رسول اللہ ﷺ: یا ایھا الناس ! انھوا نساء
کم عن الزینۃ والتبختر فی المساجد، انما لعنت بنو اسرائیل حیث لبست نساء ھم الزینۃ
و تبخترن فی المساجد۔
سند کے رواۃ کی تفصیل یہ ہے کہ:
(۱) امام
ابو شعیب الحرانیؒ(م۲۹۵ھ)
ثقہ محدث اور امام ہیں۔ (لسان المیزان: ص۴۵۴ج۴)
(۲) اس
کی سند میں یحییٰ سے مراد یحییٰ ابن عبداللہ بن الضحاک البابلتیؒ (م۲۱۸ھ) ہیں۔
ان
کے بارے میں امام ابن عدیؒ فرماتے ہیں کہ : ’’یحییٰ البابلتی عن الاوزاعی
احادیث صالحۃ‘‘ یحییٰ البابلتیؒ کی امام اوزاعیؒ سے مروی احادیث
درست ہیں۔ (الکامل لابن عدی: ص۱۲۰ج۹)
زئی
صاحب کے اصول کے مطابق معلوم ہواکہ امام اوزاعیؒ سے مروی احادیث میں یحییٰ البابلتیؒ
ثقہ ہیں ۔ (نور العینین: ص۶۱) اور ہماری روایت میں بھی یحییٰؒ
نے امام اوزاعیؒ سے ہی روایت کی ہے۔ لہٰذا ان پر ’’جرح‘‘ مردود ہے اور یہ راوی امام
اوزاعیؒ کی روایت میں ’’ثقہ‘‘ ہے۔
(۳) امام
اوزاعیؒ (م۱۵۷ھ)
مشہور ، ثقہ، فقیہ، اور بڑی شان والے ہیں۔
(تقریب: رقم: ۳۹۶۷) لہٰذا یہ سند صحیح مرسل ہے۔
نوٹ : غیر مقلدین کا اصول ہے کہ مرسل کی تائید جب کسی
متصل روایت سے ہو جائے ، اگرچہ وہ متصل روایت ضعیف ہی کیوں نہ ہو تو غیر مقلدین کے
نزدیک بھی مرسل روایت مقبول ہوتی ہے۔
وکیل
سلفیت رئیس احمد ندوی سلفی لکھتے ہیں کہ’’یہ معلوم ہے کہ مرسل حدیث احناف و مالکیہ
کے نزدیک مطلقاً حجت ہے، اور دوسرے اہلِ علم کے نزدیک بعض شرائط کے ساتھ حجت ہے ، جن
میں سے ایک یہ ہے کہ وہ دوسری متصل سند سے خود ضعیف ہو ، مروی ہو، اور یہ معلوم ہے
کہ معنوی طور پر یہ حدیث دوسری بہت ہی متصل سندوں کے ساتھ مروی ہے۔‘‘ (نمازِ جنازہ اور اس کے مسائل: ص۴۶)
اس
لحاظ سے بھی یہ روایت اپنے متابع وشاہد کے ساتھ مل کر مقبول ہوجاتی ہے۔ اور یہی وجہ
امام منذریؒ (م۶۵۶ھ)
نے اس روایت پر سکوت اختیار فرمایا ہے۔ (الترغیب
والترھیب: ص۲۵ج۳) جوکہ
غیر مقلدین کے اصول کے مطابق روایت کو معتبر ہونے کی دلیل ہے۔دیکھئے الاجماع شمارہ نمبر ۱ : ص ۵۳
وضاحت: متابع و شاہد کے ساتھ مل کر یہ روایت مزید قوی اور
مضبوط ہوجاتی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہؓ کو حکم دیا تھا کہ عورتیں
اگر زینت اور آرائش کے ساتھ مسجدوں میں آنے لگیں تو ان کو روک دو۔
ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین کیلئے الاجماع (PDF ) دیکھیں
[1] جس راوی سے دو یا دو سے زیادہ راوی روایت کریں
تو راوی وہ مجہول نہیں بلکہ مقبول ہوتا ہے۔ دیکھئے الاجماع شمارہ نمبر ۱ : ص ۴۴
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں