بھینس کی قربانی کو گائے پرقیاس
مفتی رب نواز صاحب، احمد پور شرقیہ
ماخوذ : مجلہ راہ ہدایت شمارہ 21
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
بہت
سے غیر مقلدین بھینس کی قربانی کو جائز کہتے ہیں، ثبوت کے لئے میرا مضمون ’’بھینس
کی قربانی، غیر مقلدین کی زبانی‘‘ شائع شدہ مجلہ صفدر گجرات شمارہ۹ملاحظہ فرمائیں۔
بھینس کی قربانی کے جواز پر غیرمقلدین کی مستقل کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اُن
میں سے مفصل اور جامع کتاب مولانا نعیم الحق ملتانی کی ’’ بھینس کی قربانی کا
تحقیقی جائزہ ‘‘ ہے ۔
اس کے ساتھ یہ بھی جانیں کہ غیرمقلد
مصنفین نے بھینس کی قربانی کے جواز کو قیاسی مسئلہ باور کرایا ہے یعنی ان کے بقول
اس کا جواز گائے پر قیاس ہے ،جیسے گائے کی قربانی بالاتفاق جائز ہے تو اس پر قیاس
کرکے بھینس کی بھی جائز ہونی چاہیے۔
چنانچہ بشیر
احمد حسیم غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’بحالتِ مجبوری جس علاقہ میں گائے دستیاب نہ ہو، گائے پر
قیاس کرتے ہوئے بھینس کی قربانی کی جا سکتی ہے۔‘‘
(عیدین اور قربانی کے مسائل صفحہ۲۵)
مولانا عبد المنان نور پوری غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’جو لوگ بھینس کی قربانی کے جواز کے قائل ہیں ان کے ہاں
دلیل بس یہی ہے کہ لفظ بقر اس کو بھی شامل ہے یا پھر اس کو بقر (گائے، ناقل) پر
قیاس کرتے ہیں۔‘‘
(احکام ومسائل :۱ ؍ ۴۳۴)
مولانا نظر
احمد سہسوانی غیرمقلد
لکھتے ہیں:
’’ حجاز میں بھینس کا وجود ہی نہ تھا پس اس کی قربانی نہ
سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتی ہے ، نہ تعامل ِ صحابہ سے ۔ ہاں
اگر اس جنس کو بقر سے مانا جائے جیساکہ حنفیہ کا قیاس ہے ۔( کما فی الھدایۃ ) یا
عموم بھیمۃ الانعام پر نظرڈالی جائے تو حکم جواز قربانی کے لئے یہ علت کافی
ہے۔‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ
:۲؍۸۱۰)
بعضے غیرمقلدین بھینس کی قربانی
کو قیاسی کہہ کر اس کا رد بھی کیا کرتے ہیں ۔
مولانا محمد اسحاق غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’بعض فقہاء نے بھینس کو گائے کی جنس قرار دیتے ہوئے بھینس
اور بھینسے کی قربانی جائز قرار دی ہے۔مگر یہ قیاس ہی ہے ۔ قرونِ اولی ٰ سے اس کا
ثبوت نہیں ملتا ۔ ‘‘
( الاعتصام لاہور۸؍مارچ ۱۹۶۸ صفحہ۷)
حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ جو اَہلِ علم بھینس کی قربانی کے قائل و فاعل ہیں وہ صرف
یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ بھینس کو گائے کی جنس کہتے ہیں یا گائے پر اسے قیاس کرتے
ہیں ۔ حالاں کہ بھینس ایک الگ جنس ہے، ان کے دودھ اور گوشت کی تاثیر بھی الگ الگ
ہے پھر قیاس کے لیے کوئی علت مشترک ہونی چاہیے ان میں نہیں پائی جاتی ۔ ‘‘
(فتاویٰ اصحاب الحدیث :۳؍۴۰۴)
حماد صاحب
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’ پھر قیاس کے لیے کوئی علت
مشترک ہونی چاہیے جو اِن میں نہیں پائی جاتی ۔ ‘‘
( فتاویٰ اصحاب الحدیث : ۴؍۳۵۹)
فوت شدہ کی طرف سے قربانی کا جواز حج پر قیاس
مولانا بشیر
احمد حسیم غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’حج پر قیاس کرتے ہوئے اپنے فوت شدہ رشتہ دار کی طرف سے
قربانی کرنا، جائز ہے۔‘‘
(عیدین اور قربانی کے مسائل صفحہ۳۳)
ان کی مراد یہ ہے کہ جیسے فوت شدہ کی
طرف سے حج کرنا درست ہے، ایسے ہی اس کی طرف سے قربانی کرنا بھی درست ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر مہتمم و مدرس کو
قیاس ،قربانی کی کھال کا مسئلہ
ایک غیر مقلد
نے فتویٰ دیا:
’’حضرت علی ؓ کونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں پر
(کھالیں) تقسیم کرنے کے لئے اپنا وکیل مقرر کر دیا تھا، بعینہ اس طرح کسی ادارہ
خاص کے ناظم اور مہتمم کو بھی وکیل بنا دیا جاتا ہے ،نہ یہ کہ اس کی ذات کے لئے
کھال دی جاتی ہے۔ ‘‘
فتاویٰ علمائے حدیث میں اس فتویٰ کو
نہ صرف قیاسی کہا گیا،بلکہ اسے غلط اور بے جا قیاس کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ پڑھئے!
لکھا ہے:
’’جواباً عرض ہے کہ مولانا نے جو حضرت علیؓ پر مہتمم ومدرس
وناظم کو قیاس کر کے وکیل بنایا ہے، یہ آپ کاقیاس قیاس مع الفارق ہے۔‘‘
(فتاویٰ علمائے حدیث :۱۳؍ ۱۶۲)
بڑے جانور میں عقیقہ کے جوازکو
قربانی پہ قیاس
بہت سے غیر مقلد علماء، بڑے جانور میں عقیقہ
کوجائز مانتے ہیں، ثبوت کے لئے ’’فتاویٰ علمائے حدیث جلد۱۳ صفحہ۱۹۶ تا ۱۹۸‘‘ کا
مطالعہ فرمائیں۔
غیرمقلدین نے یہ بھی تاثر دیا ہے کہ
بڑے جانور میں عقیقہ کا مسئلہ قیاسی ہے جیسا کہ درج ذیل حوالوں سے ثابت ہے ۔
مولانا عبید
اللہ رحمانی غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’جو لوگ سات مل کر (عقیقہ) کرتے ہیں وہ قربانی پر قیاس
کرتے ہیں۔‘‘
(فتاویٰ علمائے
حدیث :۱۳ ؍۴۴)
ایک صاحب نے
سوال کیا:
’’کیا دو لڑکے اور تین لڑکیوں کے عقیقے میں ایک گائے جائز
ہے کہ نہیں ؟‘‘
مولانا ابو البرکات احمد غیرمقلد
نے مذکورہ سوال کا یہ جواب دیا:
’’ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے یہ ثابت
نہیں ہے۔بعض علماء قیاس اُضحیہ پرکرکے اس طرح جائز سمجھتے ہیں۔الراقم ابو البرکات
احمد، تصدیق: حضرت العلام حافظ محمد گوندلوی ؒ۔‘‘
( فتاوی برکاتیہ صفحہ ۲۴۹، ۲۵۰)
اس عبارت میں مذکورہ بالا قیاسی مسئلہ
کو بعض علماء کی طرف منسوب کیا ہے قارئین کو ہم اگاہ کرتے چلیں کہ اس فتویٰ کی
تصدیق کرنے والے بزرگ مولانا حافظ محمد گوندلوی نے بھی یہی قیاسی مسئلہ اختیارکیا
بلکہ دوسروں کے عمل کے لیے اسے لکھ بھی دیا ہے ۔
چنانچہ غیر
مقلدین کے فتاویٰ میں لکھا ہے :
’’ گائے یا اونٹ میں عقیقہ کا ذکر صحیح حدیث میں نہیں آیا،
صرف قیاس ہے اور قیاس صحیح ہے، کیوں کہ اونٹ گائے کا ہر حصہ ایک بکری کی طرح ہے۔
حافظ محمد گوندلوی گوجرانوالہ۔‘‘
(فتاویٰ علمائے حدیث :۱۳؍۱۹۶)
عقیقہ کی شرائط کو قربانی کی
شرائط پہ قیاس
بہت سے غیر مقلد علماء کا فتویٰ ہے کہ
’’عقیقہ کے جانور میں قربانی کے جانور والی شرائط ہونی چاہئیں۔
مولاناعلی
محمد سعیدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ جو شرائط جانور قربانی کے ہیں وہ ہی شرائط جانور عقیقہ
میں ہونے افضل ہیں کیوں کہ عقیقہ کوبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی فرمایا
ہے جیسا کہ حدیث میں مَنْ اَرَادَ اَنْ یَّنْسُکَ فَلْیَنْسُکْ ۔اور علامہ
شمس الحق ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ نے عقیقہ پر ایک رسالہ لکھا ۔اس کا نام رکھا ہے نسیکہ۔ جب حدیث اور علماء کرام کی
اصطلاح میں عقیقہ کو نسیکہ یعنی قربانی
فرمایاہے تو عقیقہ میں قربانی کے شرائط ہونے ضروری ہیں ۔‘‘
( فتاویٰ علمائے حدیث ؍۲۹۹)
یہاں یوں بھی غور فرما لیں کہ سعیدی
صاحب اس عبارت کے شروع میں کہتے ہیں کہ عقیقہ کے جانور میں قربانی والی شرائط ہونا
افضل ہیں اورآخر میں لکھا کہ یہ شرائط ضروری ہیں۔
مولانا ابو
البرکات احمد غیرمقلد لکھتے ہیں :
’’ افضل و بہتر یہی ہے کہ شرائط
پائی جائیں ۔‘‘
( فتاویٰ
برکاتیہ صفحہ ۲۵۱)
سبل السلام کے مصنف علامہ یمانی کے
بقول عقیقہ میں قربانی کے جانوروں کی شرائط قیاس سے ثابت ہیں، حدیث صحیح سے
نہیں،حکیم محمد یوسف صاحب لکھتے ہیں:
’’صاحب سبل السلام نے کہا ہے کہ شرائط اس کے صحیح حدیث (سے
) ثابت نہیں، بالقیاس ہیں۔‘‘
(فتاویٰ علمائے
حدیث :۱۳؍۲۱۲)
صحیفہ اہلِ حدیث میں لکھاہے :
’’ عقیقہ کے لیے وہ شرطیں نہیں ہیں جو قربانی کے لیے ہیں
اور شرط لگانے والے کے پاس قیاس ہی قیاس ہے کوئی شرعی دلیل نہیں۔ ‘‘
(صحیفہ اہل حدیث دہلی :ربیع الاول ۱۳۵۸ ھ صفحہ ۲۱)
صحیفہ کی اس
عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اُن کے نزدیک قیاس شرعی دلیل نہیں ہے ۔
حافظ عبد
اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ بعض علماء عقیقہ کو قربانی پرقیاس کرتے ہیں ان کے نزدیک
سات حصے ہوں گے۔ چنانچہ نیل الاوطار میں کہا ہے کہ اونٹ کی قربانی میں دس حصے ہو
سکتے ہیں اور جو عقیقہ کو قربانی پر قیاس کرتا ہے وہ شاید عقیقہ میں اونٹ کے دس
حصے کا بھی قائل ہو ۔ غرض اس قسم کے خیالات ہیں اس لئے پورا اطمینان نہیں کیوں کہ
شارع کا مقصد دو جانیں ہوں ۔ ‘‘
( فتاوی اہلِ حدیث :۲؍۵۴۵، ادارہ احیاء السنۃ ڈی بلاک
سرگودھا)
مولانا عبد
الرحمن مبارک پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ کسی بھی صحیح حدیث سے عقیقہ کے جانور میں قربانی کی
شرائط عائد کرنا ثابت نہیں ہوتا،بلکہ کسی ضعیف حدیث سے بھی ان شرائط کا ثبوت نہیں
ملتا جو حضرات شرائط لگاتے ہیں ان کے پاس قیاس کے علاوہ اور کوئی دلیل نہیں ہے ۔
( تحفۃ الاحوذی : ۵؍۹۹بحوالہ فتاوی اصحاب الحدیث :۲؍۳۹۵)
حافظ عبد
الستار حماد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ کسی بھی صحیح حدیث سے عقیقہ کے جانور پر قربانی کی شرائط
عائد کرنا ثابت نہیں ہوتا اور جو لوگ یہ شرائط عائد کرتے ہیں ان کے پاس قیاس کے
علاوہ اور کوئی دلیل نہیں ہے ، تاہم عقیقہ کے جانور میں متقارب اور مساوی کی قید
اس بات کی متقاضی ہے کہ شریعت نے قربانی کے جانور میں جن عیوب و نقائص سے بچنے کا
حکم دیا ہے انہیں عقیقہ کے جانور میں بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ چنانچہ ابن قدامہ
رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ عقیقہ کے جانور میں بھی ان عیوب سے اجتناب کرنا چاہیے
جن سے قربانی کے جانور میں احتراز کیا جاتا ہے ۔ [مغنی ابن قدامہ ، ص : ۳۹۹، ج ۲۳]
بہرحال یہ بات اپنی جگہ پر مبنی بر حقیقت ہے کہ عقیقہ کے جانور کا دو دانتہ ہونا
ضروری نہیں ہے لیکن موٹا تازہ ہونا چاہیے ، جسے بکرا یا مینڈھا کہا جا سکے ۔‘‘
( فتاویٰ اصحاب الحدیث : ۲؍۳۸۳)
بغیر دانت والے کو دو دانت والے
بکرے پہ قیاس
کسی نے سوال
کیا:
’’ ہمارے ہاں ایک بکرا ہے جس کے پیدائشی طور پر دانت نہیں
ہیں تو ا س کے متعلق دو دانتہ ہونے کا کیسے پتہ چلا یا جائے ؟ ‘‘
حافظ عبد الستار حماد غیرمقلدنے
اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا:
’’صورت مسؤلہ بہت ہی شاذ و نادر ہے ہمارے
رجحان کے مطابق اس کے لیے دو طریقے ہو سکتے ہیں(۱)اس سے ملتے جلتے بکرے جب دو
دانتہ ہو جائیں تو بغیر دانت والا بکرا ان پر قیاس کرتے ہوئے قربانی کے طور پر ذبح
کیا جا سکتا ہے۔ (۲) اگر اس کا اندازہ نہ ہو سکے تو وہ ایک سال مکمل ہونے کے بعد
جب دوسرے سال میں ہو جائے تو اس کی قربانی ان شاء اللہ جائز ہوگی واللہ اعلم ۔‘‘
( فتاوی اصحاب
الحدیث : ۳؍۴۰۵)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں