نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث (قسط:۲), باب نمبر: ۱ تین طلاقوں کے تین ہونے پر قرآن وحدیث سے کچھ دلائل


مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث

 مفتی رب نواز صاحب حفظہ اللہ، احمد پور شرقیہ                                                               (قسط:۲)

 باب نمبر: ۱

تین طلاقوں کے تین ہونے پر قرآن وحدیث سے کچھ دلائل

ماخوذ  : مجلہ  راہ     ہدایت    شمارہ 22

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

حضرت مولانا عبد الحی لکھنوی صاحب ؒ (المتوفی : ۱۳۰۴ھ) لکھتے ہیں:

            ’’اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اسی امر پر اہتمام کرنا اور تینوں طلاق کے وقوع کا حکم دینا اگرچہ ایک جلسہ میں ہوں صحیح مسلم وغیرہ میں مروی ہے اوریہی قول موافق ظاہر قرآن ہے۔‘‘

 ( مجموعہ فتاوی :۱؍۴۹۵)

حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلدنے اس پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا:

            ’’ اگر یہی قول موافق ظاہر قرآن تھا تو پھر آپ کو اسے بدعت ، حرام اور گناہ کہنے کی کس دلیل نے جرأت عطاء کی ہے اور خود ہی اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ ‘‘

( احسن الابحاث صفحہ ۲۴)

الجواب:

             دو مسئلے الگ الگ ہیں: ایک ہے اکٹھی تین طلاقیں دینا اور دوسرا ہے اُن کا واقع ہوجانا ۔ لکھنوی صاحب اور دیگر علماء کے ہاں تین طلاقوں کاوقوع قرآن و حدیث کے موافق ہے ، نہ کہ تین طلاقیں دینا۔ اور یہ کوئی انوکھی چیز نہیں۔ خود غیرمقلدین کی اکثریت کے نزدیک طلاق ِ بدعت دینا گناہ و حرام بھی ہے مگر اس کا وقوع بھی مانتے ہیں جیسے کہ حالتِ حیض میں طلاق دینا ۔ خود حکیم صاحب کے ہاں بھی حالتِ حیض میں دی جانے والی طلاق ممنوع ہونے کے باوجود واقع ہو جاتی ہے ۔ چنانچہ انہوں نے لکھا:

’’ حیض میں ایک طلاق واقع ہونے کی دلیل صحیح بخاری و دیگر کتب احادیث میں موجود ہے۔ ‘‘

( احسن الابحاث صفحہ ۱۲)

مگر یوں بھی لکھ دیا:

            ’’ افسوس اور حیرانی اس پر ہے کہ جس بات کو حرام ، گناہ اور بدعت کہتے ہیں اس کی صحت بھی قرآن وحدیث سے ثابت کرتے ہیں ، اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے۔ حالاں کہ یہ معمولی عقل و فہم والا بھی جانتا ہے کہ حرام، گناہ اور بدعت وہی کام ہوتا ہے جس کا کتاب و سنت میں ثبوت نہ ہو۔ اگر کتاب و سنت سے ثابت بھی ہو اور اسے بدعت ، حرام اور گناہ بھی کہا جائے تو یہ ظلم عظیم ہے کیوں کہ بدعت، حرام اور گناہ کے ارتکاب کا کتاب وسنت میں حکم نہیں آسکتا ۔اس کے برعکس شریعت نے بدعت کو گمراہی اور جہنم کا سبب بتایا ہے ۔‘‘

( احسن الابحاث صفحہ ۱۲)

            حکیم صاحب نے مذکورہ عبارت اپنے مخالفین کے لیے بطور طعن لکھی ہے مگر یہ غور نہیں کیا کہ یہ سار ی عبارت بہ شمول اُن کے غیرمقلدین پر چسپاں ہوتی ہے کہ وہ غیرشرعی طلاق کو بدعت ،گناہ اور حرام بھی کہتے ہیں مگر اس کا وقوع بھی مانتے ہیں۔ ہم نے اپنی اسی کتاب میں اس پہ اک پورا باب (’’باب:۱۶، غیر شرعی؍ بدعی طلاق کا وقوع غیرمقلدین کی زبانی ‘‘) شامل کیا ہے جس میں غیرمقلدین کے فتاوی نقل کئے ہیں کہ بدعی (مثلاًحائضہ کو دی جانے والی) طلاق ممنوع، گناہ اور حرام ہونے کے باوجو دواقع ہو جاتی ہے ۔

 غیرمقلد ین کے ’’امام العصر ‘‘ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (المتوفی ۱۳۷۵ھ) لکھتے ہیں:

             حضرت عمر رضی اللہ عنہ کایہ حکم (کہ تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں) قرآن وحدیث سے ماخوذ ہے ۔

 (اخبار اہلِ حدیث ۱۵؍نومبر ۱۹۲۹ء )

حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد نے اس حوالہ کا انکار نہیں کیا البتہ یوں کہا:

            ’’میر صاحب خود اسی پرچہ کے صفحہ نمبر۶ کالم نمبرا میں فرماتے ہیں (عمر ؓ نے ) صرف یہ کیا ہے کہ اس کے ایک ہی دفعۃًتین طلاق دینے پر تین طلاق ہی کا حکم جاری کر دیا۔ اگر مولانا کی پہلی بات قرآن و حدیث سے ماخوذ والی صحیح ہوتی تو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ عمر ؓ نے تین طلاق دینے پر تین طلاق ہی کا حکم دیا۔بلکہ یوں کہنا چاہیے تھا کہ قرآن وحدیث نے تین کو تین کہا ہے ...نیز میر صاحب ؒ نے قرآن کی کسی آیت یا حدیث میں سے کسی حدیث کا حوالہ نہیں دیا جس میں دفعۃً تین کو تین کہا ہے ۔‘‘

 ( احسن الابحاث بجواب عمدۃ الاثات صفحہ ۲۶، ادارہ تحقیقات عثمانیہ اہلِ حدیث گوجرانوالہ، سن اشاعت: ۲۰۰۴ء )

            حکیم صاحب ’’جاری کردیا ‘‘ سے یہ سمجھ رہے کہ تین طلاقوں کو تین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ از خود بنالیایا اجتہاد کر لیا ،حالاں کہ اس کامطلب یہ ہے کہ انہوں نے تین طلاقوں کے تین ہونے کو سرکاری سطح پہ نافذ کر دیا، نہ یہ کہ اَز خود یہ بات بنا لی یا اجتہاد کرلی ۔لہذا میر صاحب کا ’’ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ حکم قرآن و حدیث سے ماخوذ ہے ‘‘ کا جملہ ’’جاری کردیا ‘‘ کے خلاف نہیں۔ میر صاحب کہنا یہ چاہتے ہیں کہ تین طلاقوں کو تین کہنا تو قرآن وحدیث سے ماخوذ ہے مگر اس کا سرکاری سطح پہ نفاذ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اسی کو ’’ جاری کر دیا‘‘ الفاظ سے تعبیر کیاگیا۔حاصل یہ کہ میرصاحب کی اس عبارت میں کسی قسم کا تضاد نہیں ۔ حکیم صاحب خوامخواہ اپنے بزرگ کی عبارت میں تضاد ثابت کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔

            حکیم صاحب کہتے ہیں کہ میر صاحب نے تین طلاقوں کے تین ہونے پہ قرآن کی آیت یا حدیث تحریر نہیں کی۔ عرض ہے کہ انہوں نے اگرچہ قرآن کی آیت یا حدیث نہ لکھی ہو مگر یہ تو تسلیم کیا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا تین طلاقوں کو تین قرار دینا قرآن وحدیث سے ماخوذ ہے۔ ہمارا بھی یہی مدعا ہے کہ غیرمقلدین کے ’’امام العصر ‘‘مولانا میر محمد ابراہیم سیالکوٹی نے تسلیم کیا ہے کہ تین طلاقوں کو تین کہنا قرآن وحدیث سے ماخوذ ہے ۔ ہمارا جو مدعا ہے حکیم صاحب اس کا انکار یا اس کی تردید نہیں کر سکے۔ ہاں اتنا ضرور کیا کہ اپنے ہی بزرگ کو تضاد بیانی کا شکار باورکرایا ۔

 حکیم صفدر عثمانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ خلاصہ یہ ہے کہ مولانا میر صاحب کا یہ کہنا حضرت عمر ؓ کا فتویٰ قرآن وحدیث سے ماخوذ ہے، محض اُن کی اپنی ذاتی رائے ہے ۔ ‘‘

 ( احسن الابحاث صفحہ ۲۷)

 سیالکوٹی صاحب کی اپنی تحریر میں اس کا رَدموجود ہے انہوں نے لکھا:

            ’’آخر میں ہم پھر دہراتے ہیں کہ متقدمین میں سے امام مالک ؒ کا مؤطا، پھر امام شافعی ؒ کی کتاب ُالام، پھر متاخرین میں سے شاہ ولی صاحب ؒ کی اَزالۃ الخفاء ملاحظہ فرمائیے جن کے بعد اس وقت ہندوستان میں تو ایسا شخص ہوا نہیں کہ اُسے امام کہہ سکیں اور دوسرے ممالک کا حال خدا جانے۔ان سب کتب میں حضرت عمرؓ کی موافقت دلائلِ شرعیہ سے کی گئی ہے۔ ‘‘

 ( اخبار اہلِ حدیث ۱۵ نومبر ۱۹۲۹ء بحوالہ عمدۃ الاثاث صفحہ ۹۸ )

            سیالکوٹی صاحب تو لکھ گئے کہ’’ان سب کتب میں حضرت عمرؓ کی موافقت دلائلِ شرعیہ سے کی گئی ہے‘‘ مگر حکیم صاحب کہہ رہے ہیں کہ یہ سیالکوٹی صاحب کی ذاتی رائے ہے۔

            مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد نے حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما پر بحث کرتے ہوئے لکھا :

            ’’مسلم کی یہ حدیث امام حازمی و تفسیر ابن جریر و ابن ِ کثیر وغیرہ کی تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ حدیث بظاہرہ کتاب و سنت صحیحہ و اجماع صحابہ ؓ وغیرہ ائمہ محدثین کے خلاف ہے لہٰذا حجت نہیں ہے۔‘‘

(فتاویٰ ثنائیہ ۲؍۲۱۹...دوسرا نسخہ صفحہ ۴۶)

دہلوی صاحب نے مزید لکھا:

            ’’ پس آیت اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ نے واضح کر دیا کہ مطلِّق[طلاق دینے والے ( ناقل ) ] کو رجوع کا حق ایک یا دو طلاق کے بعد ہے ، اس کے بعد نہیں۔ ‘‘

( فتاویٰ ثنائیہ ۲؍۲۱۹ )

            دہلوی  صاحب کی مذکورہ عبارت بلکہ اُن کا مکمل فتوی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی کتاب ’’عمدۃ الاثاث ‘‘ میں منقول ہے۔ حکیم صاحب نے اگرچہ اپنی کتاب کا نام ’’ احسن الابحاث بجواب عمدۃ الاثات ‘‘ رکھا مگر ’’عمدۃ الاثاث‘‘ میں منقول مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد کے فتوی کا کوئی جواب نہیں دیا۔البتہ تین طلاقوں کے ایک ہونے پر اپنے مزعومہ دلائل کو ’’ احادیث پر اعتراضات کا جائزہ ‘‘ عنوان کے تحت ذِکر کیا ۔

( احسن الابحاث صفحہ ۵۱)

            جس یہ تاثر ملتا ہے کہ غیرمقلدین کے ’’بیہقی وقت ‘‘ مولانا شرف الدین دہلوی حدیثوں پر اعتراض کرنے والے ہیں۔

            حاصل یہ کہ میر سیالکوٹی صاحب نے بھی تسلیم کیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا تین طلاقوں کو تین قرار دینا دلائل شرعیہ کے موافق ہے اور دلیل شرعیہ میں پہلے نمبر پر قرآن ہے اور دوسرے پر سنت نبوی۔

             اسی طرح دہلوی صاحب نے مذکورہ عبارت میں اعتراف کیا ہے کہ تین طلاقوں کو ایک قرار دینا کتاب و سنت اور اجماع صحابہ وغیرہ کے خلاف ہے۔لہٰذاان غیرمقلدوں کی تصریح سے ثابت ہوا کہ تین طلاقوں کو تین کہنے پرکتاب و سنت کی صورت میں دلائل موجود ہیں۔اب ہم کتاب و سنت سے بعض دلائل درج کرتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی شخص نے تین طلاقیں دے دیں تو وہ واقع ہو جائیں گی۔

 طلاقِ ثلاثہ کے وقوع پر قرآن سے دلائل

پہلی آیت

اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ۔( سورۃ بقرۃ ،آیت: ۲۲۹)

            طلاق ( زیادہ سے زیادہ ) دو بار ہونی چاہیے اس کے بعد(شوہر کے لیے دو ہی راستے ہیں) یا تو قاعدے کے مطابق( بیوی ) کو روک رکھے ( یعنی طلاق سے رجوع کر لے ) یا خوش اسلوبی سے چھوڑ دے ( یعنی رجوع کے بغیر عدت گزر جانے دے)۔

( آسان ترجمہ قرآن صفحہ ۱۴۳، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دام ظلہ)

            امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری :۲؍ ۱۹۱ پہ تین طلاقوں کے وقوع کا باب قائم کیا ۔پھر اس کے ثبوت میں جو دلائل ذِکر کئے اس میں یہی آیت ’’ اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ۔۔۔الخ ہے ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح میں لکھا:

            ’’ وَھِیَ بِاِیْقَاعِ الثَّلَاثِ اَعَمُّ مِنْ اَنْ تَکُوْنَ مَجْمُوْعَۃً اَوْ مُفَرَّقَۃً، طلاق مغلظہ تین طلاقوں سے واقع ہوتی ہے خواہ تین طلاقیں اکٹھی ہوں یا متفرق ۔

( فتح الباری : ۹؍۴۵۳)

            خواجہ محمد قاسم غیرمقلدکو تسلیم ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے چنانچہ انہوں نے لکھا :

            ’’امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو طلاقِ ثلاثہ واقع ہو جانے کے حق میں باب باندھا تو کیا ہوا؟... ہو سکتا ہے امام صاحب کی اپنی تحقیق یہی ہو ۔ آپ نے ایک تو الطلاق مرتان سے استدلال کیا ہے ... بے شک وہ امام اہلِ سنت اور رئیس المحدثین ہیں۔‘‘

(ایک مجلس تین طلاقیں ایک ہوتی ہے صفحہ ۷۹،۸۰)

غیرمقلدین کی کتاب میں امام بخاری ؒ کے بارے میں لکھا ہے :

            ’’ آپ کی بالغ نگاہ احادیث کی روشنی میں وہاں تک پہنچتی ہے،جہاں دوسرے علماء کی نگاہیں کم پہنچتی ہیں۔‘‘

( شرح بخاری اردو مترجم داود راز :۱؍۵۰۲)

مولانا داود راز غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ ہم پھر ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ فن حدیث شریف میں حضرت امام بخاری قدس سرہ امت کے اندر کے وہ مقام رکھتے ہیں جہاں آپ کا کوئی مثیل و نظیر نہیں ہے ۔ ‘‘

( شرح بخاری اردو مترجم داود راز :۱؍۳۶۲)

            امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال اس آیت سے دو طرح پر ہے : ایک یہ کہ رجعی طلاقیں دو ہیں ، خواہ جدا جدا ہوں خواہ اکٹھی۔ اور اگر یہ معنی ہو کہ طلاق رجعی دو مرتبہ ہے تو بھی عام ہے کہ دو مرتبہ دو طہروں میں ہوں یا ایک ہی مجلس میں دو مرتبہ ہوں مثلاً یوں کہے تجھے طلاق، تجھے طلاق تو یہ ایک مجلس میں دو مرتبہ ہیں اور ایک مجلس میں اکٹھی بھی ہیں لہذا یہ واقع ہو جائیں گے ۔اور جیسے دو اکٹھی واقع ہو جاتی ہے اسی طرح تین بھی اکٹھی واقع ہوجاتی ہیں ۔

             دوسرا یہ کہ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ(خوش اسلوبی سے چھوڑ دینا ) یہ معنی عام ہے جو متفرق تین طلاقوں کو بھی شامل ہے اور اکٹھی تین طلاقوں کو بھی ۔ پس دونوں صورتوں میں اکٹھی تین طلاقوں کا واقع ہونا ثابت ہے ۔ اس صورت میں فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ الخ اللہ تعالیٰ کے فرمان تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَان ٍکی تفسیر ہوگی۔

علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            ’’وَجْہُ الْاِسْتِدْلَالِ اَنَّ قَوْلَہٗ تَعَالٰی اَلطَّلَاقُ مَرَّتَان مَعْنَاہُ مَرَّۃً بَعْدَ مَرَّۃٍ فَاِذَا جَازَ الْجَمْعُ بَیْنَ اثْنَتَیْنِ جَازَ بَیْنَ الثَّلٰثِ وَاَحْسَنُ مِنْہُ اَنْ یُّقَالَ اَنَّ تَسْرِیْحٌ بِالْاِحْسَانِ عَامٌ مُتَنَاوِلٌ لِاِیْقَاعِ الثَّلٰثِ دَفْعَۃً وَّاحِدَۃً۔‘‘

( عمدۃ القاری:۲۰؍۳۳۲)

             ترجمہ: اس آیت سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اَلطَّلَاقُ مَرَّتَان  کا معنی ہے طلاق ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ ہے (جیسے تجھے طلاق ہے ، تجھے طلاق ہے ، تجھے طلاق ہے ) پس جب دو طلاقوں کا جمع کرنا جائز ہے تو تین کو جمع کرنا بھی جائز ہے اور اس سے بہتر دوسرا طریقہ ہے وہ یہ کہ تَسْرِیْحٌ بِالْاِحْسَانِِ عام ہے یہ تین طلاقیں اکٹھی واقع کرنے کو بھی شامل ہے ۔

امام جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

            ’’قولہ تعالیٰ ’’ اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانِ یَدُلُّ عَلٰی وُقُوْعِ الثَّلَاثِ مَعًا مَّعَ کَوْنِہٖ مَنْھَیًا عَنْھَا۔

( احکام القرآن للجصاص : ۱؍۵۲۷)

            ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا قول : ’’ اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ۔‘‘ اکٹھی تین طلاقوں کے وقوع پر دلالت کرتا ہے اگرچہ اکٹھی تین طلاق دینے سے روکا گیا ہے۔

امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

            ’’ اِتَّفَقَ اَئِمَُّۃُ الْفَتْوٰی عَلٰی لُزُوْمِ اِیْقَاعِ الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ فِیْ کَلِمَۃٍ وَّاحِدَۃٍ۔‘‘

(الجامع لاحکام القرآن :۱؍۴۹۲)

ترجمہ : ایک کلمہ کے ساتھ دی گئی تین طلاقوں کے وقوع پر ائمہ فتویٰ متفق ہیں ۔

علامہ عصام الدین اسماعیل بن محمد رحمہ اللہ (وفات: ۱۱۹۵) لکھتے ہیں:

’’ اَلتَّطْلِیْقُ اِثْنَانِ مُطْلَقًا سَوَاءٌ وَقَعَا دَفْعَۃً مُتَفَرِّقًا لِمَا عَرَفْتَ اَنَّہٗ یَقَعُ الطَّلَاقُ وَاِنْ کَانَتْ دَفْعَۃً ۔

(حاشیۃ القونوی علی التفسیر البیضاوی :۵؍۲۵۴)

            ترجمہ: طلاق رجعی دو ہیں خواہ اکٹھی ہوں یا جدا جدا ہوں کیوں کہ آپ جان چکے ہیں کہ طلاقیں اکٹھی بھی واقع ہو جاتی ہیں ۔

            فائدہ: اس آیت سے اکٹھی تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کرنے والے علماء میں امام بخاری رحمہ اللہ ، الشیخ محمد الامین الشنقیطی ، امام قرطبی ، علامہ عینی رحمہم اللہ شامل ہیں ۔‘‘

 (مجلۃ البحوث الاسلامیۃ جلد ۱ شمارہ نمبر۳، سن ۱۳۹۷ھ صفحہ ۳۴، ۳۵ بعنوان الطلاق الثلاث )

          فائدہ: یاد رہے کہ یہاں آیت میں ’’ مَرَّتَانِ ‘‘ اِثْنَتَانِ کے معنیٰ میں ہے ۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

            ’’ وَھٰذَا یَدُلُّ عَلٰی اَنَّ مَعْنٰی مَرَّتَانِ اِثْنَتَانِ،یعنی طلاق دو بار دینی ہے ۔

( روح المعانی : ۲؍۱۳۵)

اگر ایک مجلس میں کسی کام کو دو بار کیا جائے تو اس پر بھی مَرَّتَان کا لفظ بولا جاتا ہے ۔

 بخاری میں حدیث ہے:

 ’’ تَوَضَّأَ مَرَّتَیْنِ مَرَّتَیْنِ۔(صحیح بخاری : ۱؍۲۷ بَابُ الْوُضُوْ ءِ مَرَّتَیْنِ مَرَّتَیْنِ )

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا دو دو مرتبہ ۔ یعنی ہر عضو کو دو دو بار دھویا ۔

یہاں حدیث میں ایک ہی مجلس میں دو دو بار دھونا مراد ہے ، نہ کہ الگ الگ دو مجلسوں میں ۔

اسی طرح بخاری کی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ؤضو بیان ہوا :

             فَاَفْرَغَ کَفَیْہِ ثَلَاثَ مِرَارٍ ...ثُمَّ غَسَلَ وَجْھَہٰ ثَلَاثَ مِرَارٍ...ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَیْہِ ثَلَاثَ مِرَار۔‘‘

(بخاری ، باب الوضو ء ثلاثا ثلاثا، حدیث : ۱۵۹)

             ترجمہ:انہوں نے اپنی ہتھیلیوں پہ پانی بہایا تین بار ،پھر اپنا چہرہ دھویا تین بار ، پھر اپنے پاؤں دھوئے تین بار ۔

            یہاں بھی ایک ہی مجلس میں ہر عضو کو تین بار دھونامرادہے ۔ پھر اگرغیرمقلدین کے اصول کو مد نظر رکھا جائے کہ پے در پے وضو کرنا ضروری ہے تب تو بات مزید پختہ تصور ہوگی کہ اعضائے مغسولہ میں سے ہر عضو کو تین بار دھونا ایک ہی مجلس ماننا لازمی ہے، تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ نوبار دھونایقینا ایک ہی مجلس میں پایا گیا ۔

            سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے ہاں حاضر ہوئے اور باہر کھڑے ہو کر تین دفعہ سلام کیا اور اجازت مانگی مگر جواب نہ ملا تو واپس ہوئے ۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بلا کر پوچھا تو انہوں نے عرض کیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تین دفعہ کے بعد بھی اجازت نہ ملے تو واپس ہو جاؤ ۔

 ( ترمذی:۲؍۹۸)

مولانا عبد الرحمن مبارک پوری غیرمقلد اِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

’’ بَلْ اسْتَأْذَنَ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍفَلَمْ یُؤْذَنْ لَّہٗ فَرَجَعَ۔ ‘‘

( تحفۃالاحوذی :۳؍۳۸۵)

ترجمہ: انہوں نے ہرمرتبہ اجازت مانگی ،جب اجازت نہ ملی تو واپس لوٹ آئے۔

اس سے معلوم ہوا کہ معمولی وقفہ وقفہ سے یکے بعد دیگرے کئے گئے کام پر مرۃ ً بعدَ مرۃً کا اطلاق ہوتا ہے۔

مبارک پوری صاحب ایک مسئلہ میں اپنے مخالف کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

            ’’ وَاَیْضًا لَوْ فَرَضْنَا اشْتِرَاطَ کَوْنِ الْاِقْرَارِ اَرْبَعًا یَسْتَلْزِمُ کَوْنَ مَوَاضِعِہٖ مُتَعَدَدَۃً اِمَّا عَقْلًا لِاَنَّ الْاِقْرَارَ اَرْبَعَ مَرَّاتٍ اَوْ اَکْثَرَمِنْھَا فِیْ مَوْضِِعٍ وَّاحِدٍ مِنْ غَیْرِ انْتِقَالٍ مِّمَّا لَا یُخَالِفُ فِیْ امْکَانِہٖ عَاقِلٌ ۔‘‘

( تحفۃ الاحوذی : ۲؍۳۲۱،بحوالہ جواب مقالہ صفحہ ۷۰)

             ترجمہ: اربع مرات کے لیے چار مختلف جگہوں کا ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اربع مرات یا اس سے زائد کا ایک ہی جگہ میں ہونے کی کوئی بھی عقل مند مخالفت نہیں کر سکتا ۔

            مبارک پوری صاحب اصرار کر رہے ہیں کہ چار مرتبہ کے لیے چار جگہوں کاہونا ضروری نہیں بلکہ ایک ہی جگہ میں چار مرتبہ بلکہ زائد مرتبہ کا اطلاق ہو سکتا ہے ۔

 دوسری آیت

اللہ تعالیٰ نے طلاق کا ضابطہ بیان فرمایا کہ دو طلاقوں کے بعد رجوع کا حق ہے لیکن:

            ’’ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔پس اس نے اسے اور طلاق

  دے دی تو اب وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح کرلے ‘‘

(سورۃ بقرۃ)

حضرت مولانا منیر احمد منور صاحب دام ظلہ اس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

            ’’ اس میں حرف ’’فا‘‘ ہے اور عربی میں’’فا‘‘ کا معنی تقیب مع الوصل یعنی ایک چیز کا دوسری چیز کے پیچھے فورًا اور متصل آنا۔ مثال کے طور پر اگر زید آیا اور اس کے آمد کے فورًا بعد بغیر وقفہ کے خالد چلا گیا تو اس کو عربی میں یوں ادا کریں گے جَآءَ زَیْدٌ فَذَھَبَ خَالِدٌزید آیا تو فورا خالد چلا اور اگر زید کی آمد کے بعد کچھ وقفہ اور تاخیر کرکے خالد گیا تو اس کو عربی میں یوں کہیں گے جَآءَ زَیْدٌ ثُمَّ ذَھَبَ خَالِدٌ زیا آیا اس کے کچھ دیر اور وقفہ کے بعد خالد چلاگیا ،لہٰذا فَا ِ نْ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا فَلَا تَحِلُّ لَہ ٗکا معنی یہ ہوگا کہ اگر دو رجعی طلاقوں کے بعد فورا اور متصل تیسری طلاق دیے دے تو وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ۔اس کامطلب یہ ہوا کہ اگر دوسری اور تیسری طلاق خاوند بغیر وقفہ کے اکٹھی دے دے تو یہ دونوں واقع ہو جاتی ہیں حالاں کہ یہ ایک مجلس میں اکٹھی دی گئی ہیں پس اس طرح اگر تین طلاقیں اکٹھی دی جائیں تو وہ بھی واقع ہو جاتی ہیں۔‘‘

(حرام کاری سے بچئے صفحہ ۷۷)

حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            ’’اس سے پہلے اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ الایۃ کا ذکر ہے یعنی طلاق رجعی دو دفعہ ہے اس کے بعد فَاِنْ طَلَّقَھَا الایۃ میں حرف فا کے ساتھ (جو اکثر تعقیب بلا مہملہ کے لیے آتا ہے ) یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر دو مرتبہ طلاق دے چکنے کے بعد فوری طور پر یعنی تیسری طلاق دے دِی تو اب وہ عورت اس مرد کے لیے حلال نہیں تاوقتیکہ وہ شرعی قاعدہ کے مطابق کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے اور پھر وہ اپنی مرضی سے طلاق دے ( یا فوت ہو جائے ) اور عدت گزر جائے، اس جگہ اگر حرف ثُمَّ یا اسی قسم کا کوئی اور حرف ہوتا جو مہملت اور تاخیر پر دلالت کرتا تو ا س کا مطلب متعین ہو سکتا تھا کہ ایک طہر میں ایک طلاق اور دوسرے طہر میں دوسری طلاق پھر تیسرے طہر میں تیسری طلاق ہی متعین ہے مگر واقعۃً یوں نہیں ہے یہاں حرف ِ فا ہے جس کا مطلب بظاہر یہ ہے کہ دو طلاق کے بعد اگر فی الفور تیسری طلاق بھی کسی نادان نے دے دی تو اب اس کی بیوی اس کے لیے حلال نہیں ہے جب تک وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے۔

 (عمدۃ الاثاث صفحہ ۵۲)

اعتراض:

            حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد نے اس جگہ اعتراض کیا جس کا حاصل یہ ہے کہ مولانا عبد الرحمن مبارک پوری نے ایک جگہ فا کو تعقیب بلا مہملہ کہا تو مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے احسن الکلام صفحہ۳۱۵ میں اس کا رَد کیا جب کہ اس جگہ فا کو تعقیب بلامہملہ قرار دے کر استدلال کیا یہ اُن کی تضاد بیانی ہے ۔

جواب:

             حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ ’’احسن الکلام‘‘ میں فاء والی چند مثالیں پیش کرکے لکھتے ہیں:

            ’’اگر ان مقامات میں حرف فاء تفصیل کے لیے یا کسی اور مناسب معنی میں مستعمل ہوا ہے تو فخرج میں حرف فاء سے کوئی ایسا مناسب اور موزوں معنی کیوں نہیں لیا جاسکتا تاکہ دوسری صحیح روایات سے تعارض پیدا نہ ہواور اگر مبارک پوری صاحب اس پر بضد ہیں کہ حرف فاء تعقیب بلامہملہ کے لیے ہی ہوتا ہے تو کامیابی پھربھی جمہور کی ہوگی ۔ کیوں کہ قرآن کریم کی آیت واذا قرئ القرآن فاستمعوالہ... الآیۃ اور حدیث اذا قرأ فانصتوا میں بھی ان کے اصول کے تحت حرف فاء تعقیب بلا مہملہ کے لیے ہوگا ۔ اور مطلب یہ ہوگا کہ امام کی قراء ت شروع کرنے کے فورا بعد مقتدیوں پر استماع اور انصات واجب ہے۔اور سبھی جانتے ہیں کہ امام کی قراء ت سورۃ فاتحہ سے شروع ہوتی ہے ، نہ کہ مازاد علی الفاتحہ سے ۔لہذا مقتدیوں پر سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ممنوع ٹھہرا ۔ اور قراء ت کو مازاد علی الفاتحۃ پر حمل کرنے کی رٹ باطل ہو گئی ؂

 خوش نوایانِ چمن کو غیب سے مژدہ ملا

 دام میں صیاد اپنے مبتلا ہونے کو ہے ۔‘‘

 ( احسن الکلام صفحہ ۳۱۶)

            حضرت صفدر رحمہ اللہ نے مولانا عبد الرحمن مبارک پوری کو ان کے مسلمہ اصول سے جواب دیا کہ اس اصول کے مطابق مقتدی کے لیے ضروری ہے کہ جب امام سورت فاتحہ پڑھ رہا تب خاموش رہا جائے ۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ صحیح مسلم :۱؍۱۷۴ وغیرہ میں درج حدیث نبوی اِذَا قَرَأَ فَاَنْصِتُْوْا کو شیخ البانی غیرمقلد نے نہ صرف صحیح قرار دیا بلکہ اُن دلائل میں ذِکرکیا جن کی وجہ سے جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قراء ت کرنا منسوخ ہے۔ دیکھئے صفۃ صلوۃ النبی عربی صفحہ ۸۰۔

            حضرت صفدر رحمہ اللہ کی اس عبارت کو غور سے دیکھئے کیا اُن کی عبارت عمدۃ الاثاث والی عبارت کے خلاف ہے ؟ہرگز نہیں ۔ یہ اس کے خلاف تو تب ہوتی جب حضرت یوں فرماتے کہ فاء ہر جگہ تقیب بلا مہملہ کے لیے ہوتا ہے جب کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ ایسا نہیں کہا بلکہ ’’ مبارک پوری صاحب اس پر بضد ہیں کہ حرف فاء تعقیب بلامہملہ کے لیے ہی ہوتا ہے ‘‘ کہہ کر مبارک پوری صاحب کا تعاقب کیا ۔ جب بات یونہی ہے تو ان پر تضاد بیانی کا الزام غلط ہوا۔

             مسئلہ طلاق والی آیت فَا ِ نْ طَلَّقَھَامیں فاء کو تعقیب بلا مہملہ کا قراردینا اس لیے درست ہے کہ محدثین نے اس آیت میں اکٹھی تین طلاقوں کو شامل مانا ہے ۔اور اس آیت میں اکٹھی تین طلاقوں کا شمول تب ہو سکتا ہے جب فاء کو تعقیب بلا مہملہ کاتسلیم کریں ۔ حاصل یہ کہ محدثین کے استدلال کے پیش ِنظر اس آیت میں مذکور فاء کو تعقیب بلا مہملہ قرار دینا بالکل بجا ہے۔ اب چند محدثین کے حوالہ جات ملاحظہ ہوں جنہوں نے اس آیت سے اکٹھی تین طلاقوں کو شامل مانا ہے ۔

علامہ احمد بن محمد الصاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            ’’ فَاِنْ طَلَّقَھَا اَیْ طَلْقَۃً ثَالِثَۃً سَوَاءٌ وَقَعَ الْاِثْنَتَانِ فِیْ مَرَّۃٍ اَوْ مَرَّتَیْنِ فَاِنْ ثَبَتَ طَلَاقُھَا ثَلَاثًا فِیْ مَرَّۃٍ اَوْ مَرَّاتٍ فَلَا تَحَلُّ الخ کَمَا اِذَا قَالَھَا لَھَا اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا وَھٰذَا ھُوَ الْمُجْمَعُ عَلَیْہِ۔

( تفسیر الصاوی :۱؍۱۷۲)

             ترجمہ:فَاِنْ طَلَّقَھَا یعنی اگر شوہر نے تیسری طلاق دی خواہ پہلی دو طلاقیں اکٹھی ہوں دیں ہوں یا دو بار دوی ہوں ۔اسی طرح اگر عورت کو تین طلاقیں اکٹھی دی یا متفرق جیسے مرد کہے تجھے تین طلاقیں ہیں تو وہ عورت اس آدمی کے لیے حلال نہیں اس پر اجماع ہے ۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            ’’ قَالَ اْلْقُرْطَبِیُّ وَحُجَّۃُ الْجُمْھُوْرِ فِی اللُّزُوْمِ حَیْثُ النَّظْرُ ظَاھِرَۃٌ جِدًّا وَھُوَ اَنَّ الْمُطَلَّقَۃَ ثَلَا ثًا لَا تَحِلُّ لِلْمُطَلِّقِ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ وَلَا فَرْقَ مَجْمُوعِھَا وَمُفَرَّقِھَا لُغَۃً وَّشَرْعًا۔‘‘

( فتح الباری :۹؍۴۵۶)

            ترجمہ: اکٹھی تین طلاقوں کے لازم ہونے پر جمہور کی دلیل یہ ہے جس عورت کو تین طلاقیں ہو جائیں وہ طلاق دہندہ کے لئے حلال نہیں جب تک دوسرے آدمی سے وہ عورت نکاح نہی کرے ۔ اورلغۃً و شرعًا اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ تین طلاقیں اکٹھی ہوں یا متفرق ہوں۔

            اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت کریمہ کی تفسیر اورمفہوم میں دفعۃً تین طلاقیں دینابھی داخل ہے اور یہ متفرق طور پر ہی تین طلاقوں کے لیے ہی متعین نہیں اور نہ اس میں یہ نص ہے کہ دفعۃً تین طلاقوں کو یہ شامل نہ ہو ۔

            حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ( المتوفی :۶۸ھ ) اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

            ’’ اِنْ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ۔

 (سنن الکبری :۷؍۳۷۶)

            ترجمہ:اگر کسی نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دے دی ہوں تو وہ اس کے لیے حلال نہیں حتی کہ وہ کسی او ر مرد نکاح نہ کرے ۔

حافظ ابن ِ حزم ظاہری مذکورہ بالا آیت کے متعلق لکھتے ہیں:

            ’’ فَھٰذَا یَقَعُ عَلَی الثَّلَاثِ مَجْمُوْعَۃً وَّ مُفَرِّقَۃً وَّلَا یَجُوْزُ اَنْ یُخَصَّصَ لِھٰذِہِ الْآیَۃِ بَعْضٌ ذَالِکَ دَوْنَ بَعْضٍ بِغَیْرِنَصٍ۔

            ترجمہ: یہ مضمون ان تین طلاقوں پر بھی سچا آتا ہے جو اکٹھی ہوں اور ان پر بھی جو الگ الگ ہوں اور بغیر کسی نص کے اس آیت کو تین اکٹھی طلاق کو چھوڑ کر صرف متفرق کے ساتھ خاص کر دینا صحیح نہیں ہے ۔

(محلی ابن حزم ۱۰؍۲۰۷،دوسرا نسخہ صفحہ ۱۷۵۶ ،مسئلہ: ۱۹۰۵)

علامہ ابن حزم ظاہری کو غیرمقلدین اپنا ہم مسلک غیرمقلدو اہلِ حدیث قرار دیتے ہیں ۔

حکیم فیض عالم صدیقی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ بعض اہلِ علم نے انہیں مذہب ظاہریہ یعنی محمد بن اسحاق راہویہ کا مقلد قرار دیا ہے مگر جس حد تک ان کی تحقیق کا تعلق ہے اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غیر مقلد اور پکے اہلِ حدیث تھے ۔ ‘‘

 (اختلاف ِ امت کا المیہ صفحہ ۱۳۲ ، بحوالہ مقدمہ رسائل اہلِ حدیث ۲؍۱۱۰ )

امام ِ آلِ غیرمقلدیت وحید الزمان لکھتے ہیں:

            ’’ قَالَ ابْنُ حَزْمٍ مِّنْ اَصْحَابِنَا ،ہمارے اصحاب میں سے ابن حزم نے کہا۔‘‘

 (نزل الابرار:۱؍۱۲۵)

حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’مشہور غیرمقلد عالم اور منجلیق الغرب حافظ ابن حزم الظاہری۔ ‘‘

 (علمی مقالات:۲؍۲۴۵)

دوسری جگہ لکھتے ہیں:

            ’’علامہ ابن ِ حزم اندلسی نے اپنی ’’ غیرمقلدیت ‘‘ تلوّن مزاجی کے باوجود اجماع صحابہ کو حجت قرار دیا ہے ۔ ‘‘

( الحدیث : شمارہ:۹۱صفحہ ۳۸)

مولانا محمد اسماعیل سلفی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’حافظ ابن حزم اندلسی الظاہری گو ظاہری ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو اہلِ حدیث شمار فرماتے ہیں۔‘‘

( تحریک آزادئ فکر صفحہ ۳۵۱)

            یہاں مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد کی عبارت پڑھتے چلیں۔وہ قرآن کی ایک آیت کی بابت لکھتے ہیں:

            ’’ آیت زیر ِ بحث کی تفسیر ایک جلیل القدر تابعی سے منقول ہو اور ان کی تائید امام ابن

  جریر ؒ اور علامہ ابن حزم ایسے مقتدر ائمہ دین کر رہے ہوں ، پھر اس تفسیر کے مطابق صحابہ کرام کی اور تابعین عظام کی ایک جماعت کا عمل بھی ہو مگر بایں ہمہ غیر مقبول ہو ، آخر ناانصافی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔‘‘

 ( توضیح الکلام صفحہ ۱۲۳)

            غیرمقلدین کا دعوی ہے کہ قرآن میں تین طلاقوں کے ایک ہونے کی بات مذکور ہے۔( دین الحق :۲؍۶۴۶) مگر اس کی تائید میں صحابی، تابعی بلکہ اسلام کی پہلی سات صدیوں میں سے کسی مستند عند الفریقین شخصیت کا قرآن سے استدلال پیش نہیں کیا۔ پھر بھی یہ استدلال ان کے ہاں مقبول ہے لیکن آیت زیر بحث سے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،امام قرطبی رحمہ اللہ ، علامہ ابن حزم ظاہری اور علامہ احمد بن محمد الصاوی رحمہ اللہ نے استدلال کیا،پھر صحابہ کرام اور تابعین عظام بلکہ بعد کی صدیوں کے محدثین و فقہاء کا مسلک بھی تین طلاقوں کے تین ہونے کا ہے ’’ مگر بایں ہمہ غیر مقبول ہو ، آخر ناانصافی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔‘‘

مولانا امین محمدی غیرمقلدنے یہاں اعتراض کرتے ہوئے کہا:

            ’’اگر اس بات کو تسلیم کرلیا جائے تو لازماًیہ کہنا پڑے گا کہ اگر کوئی شخص دو طلاقوں کے فورا بعد تیسری طلاق نہیں دیتا بلکہ کچھ دن بعد دیتا ہے تو اس کی بیوی تیسری طلاق کے بعد بھی اس کے لئے حرام نہیں ہوگی ۔ فوراً بعد دینے سے حرام ہوگی ، فورا بعد نہیں دیتا تو پھر حرام نہیں ہوگی۔‘‘

(مقالہ )

 حضرت مولانا حافظ عبد القدوس خان قارن دام ظلہ نے اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا:

            ’’ محمدی صاحب اس قاعدے سے بھی ناواقف نظر آتے ہیں کہ احناف کے نزدیک تو مفہوم مخالف کا اعتبار نہیں ہوتا اس لئے جتنی بات عبارت سے ثابت ہوگی ،اس کا اعتبار ہوگا اور اس کا دوسرا پہلو مستقل مسئلہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔جیسے جب یہاں کہا کہ فی الفور تیسری طلاق دے دے تو اس سے اسی کا حکم اخذ ہوگا باقی رہا یہ کہ اگر فی الفور نہ دے تو یہ اس کا مفہوم مخالف ہے اور یہ مستقل مسئلہ ہے ،اس سے اس کی نفی نہیں ہوتی ۔ اسی لئے عمدۃ الاثاث میں واضح کیا گیا ہے :’’ ہاں عموم الفاظ اور دیگر دلائل کے پیش نظر ہر ہر طہر پر دی گئی طلاق بھی اس کے عموم میں شامل ہے ۔‘‘

( جواب مقالہ صفحہ ۱۱۸)

مولانا امین محمدی غیرمقلدنے اس جگہ ایک مزید اعتراض کیا :

             ’’اور پھر یہی حرف فاء آگے آنے والے فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یتراجعا میں موجود ہے تو پھر اس کا مطلب یہ کرنا پڑے گا کہ دوسرا خاوند ہاں اگر دوسرا خاوند طلاق دے دے یہاں بھی ہے فان طلقھا نکاح کے بعد فان طلقھا یعنی نکاح کے بعد اگر خاوند فورا نکاح کے بعد طلاق دے تو پھر پہلے خاوند کے لیے حلال ہوگی ۔اگر دو چار ،دس دن بعد میں دے تو پھر ؟ لیکن پھر نہیں حلال ...اپنا استدلال دیکھیں اور آئینہ بھی دیکھیں کہ کہیں کوئی شرمندگی کے آثار ہیں یا نہیں ۔‘‘

(مقالہ )

قارن صاحب نے اس کا یوں جواب دیا:

            ’’باقی جناب محمدی صاحب کا یہ کہنا کہ فان طلقھا فلاجناح علیھما میں بھی فاء الخ تو عرض ہے کہ اس میں فا تعقیب کے لیے نہیں ہو سکتا اس لئے کہ صحیح روایات میں ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب ایک عورت نے پہلے خاوند کی جانب لوٹنے کا ارادہ ظاہرکیا تو آپ نے فرمایا کہ جب تک دوسرا خاوند ہم بستری نہ کرے اس وقت لوٹنے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپ نے فرمایا جب تک دوسرا خاوند ہم بستری نہ کرے اس وقت تک پہلے خاوند کے لئے یہ عورت حلال نہیں ہوسکتی ۔ (بخاری ص ۷۹۱ج ۲ و مسلم ص ۴۶۳ ج ۱) اگریہاں فاء تعقیب کے لیے ہوتی تو ہم بستری کو شرط قرار دیا جاتا ۔پھر جناب محمدی صاحب فرماتے ہیں اپنے استدلال دیکھیں اور آئینہ بھی دیکھیں کہ کہیں کوئی شرمندگی کے آثار ہیں کہ نہیں تو عرض ہے کہ استدلال تو امام شافعی ؒ اور امام بیہقی ؒ نے کیا ہے ۔ مولانا صفدر صاحب دام مجدہم ( رحمہ اللہ ) نے تو اس استدلال کی وضاحت کی ہے ۔ اگر محمدی صاحب امام شافعی ؒ او ر امام بیہقی ؒ کو آئینہ دکھاناکر شرمندگی کے آثار دیکھنا چاہتے ہیں تو اس سے بہتر ہے کہ وہ آئینہ میں خود جھانک لیں اگر ’’ ہر چہ خواہی کن ‘‘ تک نوبت نہ پہنچ گئی ہو تو جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں ان کو وہاں ضرور نظر آجائے گا۔ ‘‘

( جواب مقالہ صفحہ ۱۱۸، ۱۱۹)

            قرآن سے استدلال کے حوالہ سے غیرمقلدین کا طرز عمل بھی جانتے چلیں۔ مولانا داود ارشد غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ مردکوعدت کے دَوران رجوع کا حق قرآن نے دیا ہے اور یہ حکم عام ہے جس میں ہر طلاق دینے والا اور ہر مطلقہ عورت داخل ہے ۔ ‘‘

( دین الحق : ۲؍۶۴۷)

            پھر اس عموم پہ اُن کا اپنا عمل بھی نہیں اس لئے کہ وہ بھی شرعی طریقہ پہ دی جانے والی متفرق تین طلاقوں کے بعد رجوع کے قائل نہیں۔

            مگر دوسروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کا تین ہونا دکھاؤ۔ بلکہ اس سے بڑھ کروہ بالکل غیرمتعلقہ آیت سے بھی استدلال کرلیا کرتے ہیں مثلا وان لیس للانسان الا ماسعی سے مقتدی کی فرضیت مراد لیتے ہیں ۔ ( توضیح الکلام صفحہ ۱۱۷)

 حالاں کہ اس آیت میں نہ نماز کی بات ہے ، نہ فاتحہ کی اور نہ مقتدی کی ۔

 تیسری آیت:

            اللہ تعالیٰ نے فرمایا :وَمَن یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ لَا تَدْرِیْ لعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا ۔

( سپارہ : ۲۸ ، سورہ الطلاق ، آیت: ۱)

            ترجمہ: اور جو کوئی اللہ کی (مقرر کی ہوئی ) حدود سے آگے نکلے ، اُس نے خود اپنی جان پر ظلم کیا ۔ تم نہیں جانتے ، شاید اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے ۔

امام قاضی عیاض رحمہ اللہ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

            ’’ وَالرَّدُّ عَلٰی ھُؤُلَاءِ قَوْلُہٗ تَعَالٰی وَمَنْ یَتَعَدّ حُدُوْدَ اللّٰہِ الخ یَعْنِیْ اَنَّ الْمُطَلِّقَ قَدْ یَکُوْنَ

 لَہٗ نَدَمٌ فَلَا یُمْکِنُ تَلَافِیْہِ لِوُقُوْعِ الْبَیْنُوْنَۃِ ۔‘‘

 ( اکمال المعلم :۵؍۲۰)

            ترجمہ: تین طلاقوں کو ایک قرار دینے پر اللہ تعالیٰ کے اس قول میں رد ہے یعنی کبھی طلاق دینے والا نادم ہوتا ہے کیوں کہ جدائی واقع ہونے کی وجہ سے اس کے لیے تدارک کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔ (اور اگر تین طلاقوں سے ایک طلاق رجعی واقع ہو تو تدارک ہو سکتا ہے تو اس میں ندامت نہ ہوگی )

            امام محمد بن حذیفہ الوشنانی الابی المالکی (وفات : ۸۲۷ یا ۸۲۸) مسلم شریف کی شرح میں اکٹھی تین طلاق کے ایک طلاق رجعی ہونے کو خلاف قرآن ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

            ’’ وَیُرُدُّ عَلَیْھِمْ قَوْلُہٗ تَعَالٰی ﴿لَا تَدْرِیْ لعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا لِاَنَّ الْمَعْنٰی لَا تَدْرِیْ اَیَّھَا الْمُطَلِّقُ ثَلَاثًا لعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا اَیْ یُحِدِثُ لَکَ نَدَمًا فَلَا تَتَمَکَّنُ مِنَ الرَّجْعَۃِ لِوُقُوْعِ الْبَیْنُوْنَۃِ فَلَوْ کَانَ اِنَّمَا یَلْزَمُ الْوَاحِدَۃُ لَمْ یَکُنْ لِلنَّدْمِ وَجْہٌ۔‘‘

( اکمال اکمال المعلم :۴؍۱۰۹)

             ترجمہ: اکٹھی تین طلاقوں کو ایک طلاق رجعی قرار دینا قرآن کے خلاف ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے اکٹھی تین طلاقیں دینے والے !تو نہیں جانتا کہ شاید اللہ تعالیٰ تیرے دل میں ندامت پیدا کر دیے اور جدائی واقع ہوجانے کی وجہ سے تیرے لئے رجوع کرنا ممکن نہ ہوگا تو اسے طلاق دینے والے تو ہمیشہ نادم رہے گا اور اگر ایک طلاق رجعی واقع ہو تو ندامت کی کوئی وجہ نہیں۔

علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

             ’’ وَاحْتَجَّ الْجُمْھُوْرُ بَقَوْلِہٖ تَعَالٰی( وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ لَا تَدْرِیْ لعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا )قَالُوْامَعْنَاہُ اَنَّ الْمُطَلِّقَ قَدْ یَحْدُثُ لَہْ نَدَمٌ فَلَا یُمْکِنُہٗ تَدَارُکُہٗ لِوُقُوْعِ الْبَیْنُوْنَۃِ فَلَوْ کَانَتِ الثَّلَاثُ لَا تَقَعُ لَمْ یَقَعْ طَلَاقُہٗ ھٰذَا اِلَّا رَجْعِیًّا فَلَا یَنْدَمُ۔‘‘

( شرح مسلم :۱؍۴۷۸)

            ترجمہ: جمہور نے تین طلاقوں کے واقع ہونے پر اللہ کے اس ارشاد سے دلیل پکڑی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس نے اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کیا تحقیق اس نے اپنے اوپر ظلم کیا تو نہیں جانتا کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعد اس کے دل میں ندامت پیدا کرے ۔ انہوں نے کہا : اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کہ (اگرکسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو ا س) طلاق دینے والے کو ندامت ہوگی اور اس ندامت کا اس کے لیے تدارک کرنا ناممکن ہوگا کیوں کہ تین طلاقوں سے بینونت کبری واقع ہوچکی ہے پس اگر تین طلاقیں واقع نہ ہوں تو یہ طلاق رجعی واقع ہوگی تو اس کو ندامت نہ ہو (کیوں کہ وہ رجوع کر سکتا ہے )

ملاعلی قاری رحمہ اللہ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

            ’’ یَعْنِیْ اَنَّ الْمُطَلِّقَ ثَلَاثًا قَدْ یَحْدُثُ لَہْ نَدَمٌ فَلَا یُمْکِنُہٗ التَّدَارُکُ لِوُقُوْعِ الْبَیْنُوْنَۃِ فَلَوْ کَانَتِ الثَّلَاثُ لَا تَقَعُ اِلَّا رَجْعِیًّا فَلَا یُتَوَجَّہُ ھٰذَا التَّھْدِیْدُ۔‘‘

( مرقاۃ المفاتیح :۶؍۲۹۳)

            ترجمہ: تین طلاق دینے والے کے دل میں کبھی ندامت پیداہوتی ہے لیکن خاوند بیوی کے درمیان جدائی کی وجہ سے تدارک ممکن نہیں ہوتا پاس اگر تین طلاقوں سے ایک طلاق رجعی واقع ہو تو یہ وعید بے موقع ہوجاتی ہے ۔

مجلۃ البحوث الاسلامیۃ میں ہے:

            ’’ عَلٰی اَنَّ فِیْ فَحْوَی الْآیَۃِ الَّتِیْ ذِکْرُ الطَّلَاقِ لِلْعِدَّۃِ دَلَالَۃً عَلٰی وُقُوْعِھَا اِذَا طَلَّقَ لِغَیْرِ الْعِدَّۃِ وَھُوَ قَوْلُہٗ تَعَالٰی وَتَلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَمَن یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ فَلَوْلَا اَنَّہٗ اِذَا طَلَّقَ لِغَیْرِ الْعِدَّۃِ وَقَعَ مَا کَانَ ظَالِمًا لِنْفْسِہٖ بِاِیْقَاعِہٖ وَلَا کَانَ ظَالِمًا لِنَفْسِہٖ بِطَلَاقِہٖ وَفِیْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ دَلَالَۃً عَلٰی وُقُوْعِھَا اِذَا طَلَّقَ لِغَیْرِ الْعِدَّۃِ ۔‘‘

 (مجلۃ البحوث الاسلامیۃ جلد ۱ شمارہ نمبر۳، سن ۱۳۹۷ھ بعنوان الطلاق الثلاث )

            ترجمہ: علاوہ اَزیں جس آیت میں عدت سے پہلے طہر میں طلاق دینے کا حکم ہے اس کے بعد والے فرمان ِالہی سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی آدمی قرآن کے مذکورہ بالا طریقہ کے خلاف طلاق دے تو وہ واقع ہو جاتی ہے وہ اللہ کا فرمان یہ ہے کہ ، یہ اللہ کی حدود ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو وہ اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے پس اگر معصیت والے طریقہ سے طلاق دینے طلاق واقع نہ ہوتو اس طلاق کے واقع کرنے سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا نہ ہوگا ۔ پس اس آیت میں دلیل ہے کہ خلاف شرع طریقہ سے طلاق واقع ہو جاتی ہے

تنبیہ: قرآن کریم کی آیات کی تفسیرکی بابت پچھلے صفحات میں مذکور بہت سا حصہ حضرت مولانا منیر احمد منور صاحب دام ظلہ کی کتاب ’’ حرام کاری بچئے ‘‘ سے ماخوذ ہے۔

(جاری) 

ماخوذ  : مجلہ  راہ     ہدایت    شمارہ 22

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...