عدم وجوب غسل الیدین و المضمضۃ
والاستنشاق فی الوضوء
مفتی ابن
اسماعیل المدنی
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں۔
رئیس احمد ندوی صاحب
اپنی کتاب رسول اللہ ﷺ کا صحیح طریقہ
نماز : صفحہ ۸۷ پر لکھتے ہیں کہ وضو ء میں سب سے پہلے ہاتھ دھونا فرض
ہے ۔ اور دلیل میں رئیس صاحب نے ان روایات کو
پیش کیا ہے ، جن میں نبی ﷺ نے ہاتھ دھونے اور کلّی کرنے و ناک میں پانی
ڈالنے کا حکم دیا ہے ۔
الجواب :
وضو کے شروع میں
ہاتھوں کے دھونے کو فرض کہنا مردود ہے
۔کیوں کہ خود غیر مقلدین کا اصول ہے کہ حدیث خود حدیث کی وضاحت کرتی ہے ۔ چنانچہ ،
علی زئی صاحب لکھتے ہیں کہ حدیث ، حدیث کی شرح وتفسیر بیان کرتی ہے ۔ (مقالات : جلد ۱ : صفحہ ۲۴۳)اور یہی اصول ابوصہیب
داؤد ارشد صاحب نے بھی دین الحق :جلد ۱:صفحہ۳۲۱پر بتایا ہے ۔
لہذا ہم کہتے ہیں کہ
خود آپ کے اصول کی روشنی میں اس حدیث کی وضاحت دوسری حدیث کر رہی ہے کہ رئیس صاحب
کی پیش کردہ روایت میں جو امر ہے ، وہ استحباب کے معنی میں ہے اور اہل حدیث خود
بھی تسلیم کرتے ہیں کہ امر استحباب کے معنی ٰ میں بھی آتا ہے ۔ دیکھئے :
فتاویٰ اہل حدیث : جلد ۲:صفحہ۲۵۔
رفاعہ بن رافع ؓ سے
مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ایک اعرابی صحابی سے فرمایا کہ : ’’توضأ
کما أمرک اللہ جل وعز ‘‘ وضو کرو ، جیسا
کہ اللہ تعالیٰ نے وضو کا حکم دیا ہے ۔ (سنن ترمذی : حدیث نمبر ۳۰۲،امام
ترمذی ؒ نے حسن اور امام ابن خزیمہ ؒ اور امام نووی ؒ نے صحیح کہا ہے ، صحیح
ابن خزیمہ:حدیث ۵۴۵، المجموع:جلد۱:صفحہ۳۵۳)
ایک روایت میں موجود
ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : کہ ’’إنھا لا تتم
صلاۃ أحدکم حتی یسبغ الوضوء کما أمرہ اللہ عزوجل، فیغسل وجھہ ویدیہ إلیٰ المرفقین
، ویمسح برأسہ ورجلیہ إلی الکعبین‘‘ کسی کی نماز اس وقت
تک پوری نہیں ہوتی ، جب تک وہ اچھی طرح وضو نہ کرے ، جیسا کہ اللہ نے وضو کا حکم
دیا ہے ۔ اپنے چہرے کو دھوئے ، دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھوئے، اپنے سر کا مسح کرے
اور دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھوئے ۔ (ابو داؤد : حدیث نمبر ۸۵۸،اس کی تصحیح
کی لئے دیکھئے صفحہ :۱)
اب یہ حدیث وضاحت
کررہی ہے کہ نماز اسی وقت مکمل ہوگی ، جب بندہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق وضو
کرے گا اور پھر حدیث ہی میں ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ۳ اعضاء کو
دھونے کا اور ایک پر مسح کرنے کا حکم دیا ہے ۔ معلوم ہوا کہ ان چار چیزوں سے وضو
ہوجاتا ہے ، باقی تمام چیزیں سنت اور مستحب ہیں ۔
لہذا یہ حدیث وضاحت
کر رہی ہے کہ رئیس صاحب کی پیش کردہ روایت میں امر استحباب کے معنیٰ میں ہے، امر
کا استحباب کے معنیٰ میں آنے کا اقرار اہل حدیث علماء کرچکے ہیں ۔ نیز اسی حدیث کے تحت
(۱) امام ابو
اسحٰق ابراہیم بن علی الشیرازی ؒ (م
۴۷۶ھ ) فرماتے ہیں کہ : ’’فإن
ترک المضمضۃ والاستنشاق جائز لقولہ ﷺ للأعرابی : توضأ کما أمرک اللہ ولیس فیما أمر
اللہ تعالیٰ المضمضۃ ولا استنشاق ‘‘ کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کا ترک جائز ہے اس لئے
کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے ایک دیہاتی صحابی سے ارشاد فرمایا تھا:اس طرح وضو کرو جس
طرح اللہ نے آپ کو وضو کرنے کا حکم دیا ہے ، اور جن چیزوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم
دیا ہے ان میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا نہیں ہے ۔(المہذب للشیرازی :صفحہ ۳۸)
(۲) امام
ابو الحسین یحیٰ بن ابی الخیر العمرانی ؒ (م ۵۵۸ھ) فرماتے ہیں کہ : ’’وروي : أن النبی ﷺ قال للأعرابی ’’ توضأ کما أمرک
اللہ ‘‘ ۔ ولیس فیما أمرہ اللہ :المضمضمۃ والاستنشاق‘‘ روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ
نے ایک دیہاتی صحابی سے ارشاد فرمایا تھا:اس طرح وضو کرو جس طرح اللہ نے آپ کو
وضو کرنے کا حکم دیا ہے ، اور جن چیزوں کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان میں کلی
کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا نہیں ہے ۔(البیان فی مذہب للعمرانی :جلد ۱ : صفحہ ۱۱۳)
(۳)
امام نووی ؒ (م ۶۷۶ھ) فرماتے
ہیں کہ : ’’قال ﷺ توضأ کما أمرک
اللہ ولم یذکر لہ سنن الصلاۃ والوضوء لئلا یکثر علیہ فلا یضبطھا فلو کانت المضمضۃ
والإستنشاق واجبتین لعلّمہ إیاھما فإنہ مما یخفیٰ لا سیّما فی حق ھذا الرجل خفیت
علیہ الصلاۃ التی تشاھد فکیف الوضوء الذی یخفیٰ ‘‘ نبی کریم ﷺ نےارشاد
فرمایا : اس طرح وضو کرو جس طرح اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے، اور ان کے سامنے وضو
اور نماز کی سنتوں کو ذکر نہیں کیا، کہیں زیادہ ہوجانے کی وجہ سے وہ ان کو ٹھیک سے
یاد نہ رکھ پائیں ، تو اگر کلی اور ناک میں پانی ڈالنا واجب ہوتا تو نبی کریم ﷺ
انہیں ضرور سکھاتے ، خاص کر کے اس شخص کو، اس لئے کہ نماز کا تو (مسجد وغیرہ میں )
مشاہدہ ہوتا ہے، جبکہ وضو (گھر میں کئے جانے کی وجہ سے ) مخفی رہتا ہے ۔ (المجموع للنووی :جلد ۱: صفحہ۳۶۴-۳۶۵) میں (ابن
اسماعیل) کہتا ہوں کہ ان حدیثوں میں ہاتھ
دھونے کا (بھی ) ذکر نہیں ہے ، لہذا اس کے بغیر بھی وضو ہوجاتا ہے ۔
اور پھر قرآن میں
اللہ تعالیٰ بھی فرماتے ہیں : کہ ’’يٰأَيُّهَا الَّذِينَ
آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ
إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ‘‘۔(سورۃ المائدۃ :۶)
ترجمہ:اے ایمان والو! جب تم نماز کیلئے اٹھو تو اپنے چہرے ، اور
کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھولو، اور اپنے سروں کا مسح کرو، اور اپنے پاؤں (بھی ) ٹخنوں
تک (دھولیا کرو)۔ (آسان ترجمہ قرآن ، مفتی تقی عثمانی صاحب )
اس کے ذیل میں
(۴) امام ماوردی ؒ (م۴۵۰ھ)فرماتے
ہیں کہ : ’’دَلِيلُنَا قَوْله
تَعَالَى: {إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا
وُجُوهَكُمْ}، وَقَوْلُهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ - للأعرابي:
" تَوَضَأْ كَمَا أَمَرَكَ اللَّهُ اغْسِلْ وَجْهَكَ وَذِرَاعَيْكَ "،
فَلَمْ يُقَدَّمْ فِي الْآيَةِ‘‘ (عدم وجوب غسل الیدین فی ابتداء الوضو کے سلسلہ میں ) ہماری
دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب تم نماز کیلئے کھڑے ہو، تو اپنے چہرے کو
دھولواور نبی ﷺ کا ایک اعرابی کو ارشاد کہ تم وضو کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تم
کو حکم دیا ، اور اپنے چہرہ اور ہاتھوں کو دھوو، یہ حدیث بھی آیت کے آگے نہیں
بڑھی ۔ (الحاوی الکبیر: جلد ۱:صفحہ ۱۰۲) یعنی امام ماوردیؒ فرماتے ہیں کہ
اس آیت اور حدیث (دونوں) میں بھی ہاتھ
دھونے کا ذکر نہیں ہے ۔
اگر رئیس صاحب کی بات
کو صحیح تسلیم کرلیا جائے کہ وضو میں ہاتھ دھونا اور کلّی کرنا فرض ہیں ، تو امام
ابو الحسین یحییٰ بن ابی الخیر العمرانی ؒ (م۵۵۸ھ) فرماتے ہیں کہ’’دليلنا: قَوْله تَعَالَى: {إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ
فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ} فمن قال: يجب غسل اليدين قبل الوجه.. فقد خالف ظاهر القرآن‘‘ ہماری
دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی ہے کہ : جب تم نماز کیلئے کھڑے ہو تو اپنے چہرہ کو
دھوؤ، پس جو یہ کہے کہ ہاتھوں کا چہرہ سے پہلےدھونا واجب ہے ، اس نے قرآن کے ظاہر
کی مخالفت کی ۔(البیان
فی المذہب للعمرانی :جلد
۱:صفحہ۱۱۰)
قرآن کے خلاف کیسےہے
، امام ابو بکر جصاص الرازیؒ اس کی وضاحت فرماتے ہیں کہ : ’’کان
زیادۃ فی النص‘‘نص قرآنی پر اضافہ ہوگا ۔ (شرح مختصر
الطحاوی للجصاص :جلد۱ :صفحہ ۳۳۸) نص میں زیادتی کی تصریح ، امام ماوردی ؒ نے
کی ہے کہ (قرآن پاک کی آیت میں ) ہاتھ دھونے کا ذکر نہیں ہے۔ اسی طرح اس آیت میں کلّی اور ناک میں پانی
ڈالنے کا بھی ذکر نہیں ہے ۔
معلوم ہوا کہ اللہ
تعالیٰ نے قرآن پاک میں صرف ۴چیزوں کا ذکر فرمایا ہے :
۱۔ چہرہ دھونا ۔
۲۔ہاتھوں اور
۳۔پاؤں کا دھونا۔
۴۔ مسح کرنا۔
ان کے علاوہ کوئی
پانچویں چیز بھی فرض ہوتی ، تو اس کا ذکر ضرور بضرور قرآن میں ہوتا ، لیکن اس کا
ذکر نہ ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے علاوہ باقی تمام وضو کے ارکان سنت
ومستحب ہیں۔
نیز، سلف وصالحین کے
نزدیک بھی وضو میں ہاتھ دھونا اور ناک میں پانی ڈالنا واجب نہیں ۔
چنانچہ ، امام شافعیؒ
(م۲۰۴ھ)، امام عبد اللہ بن ابی زید ؒ (م ۳۸۶ھ) ،امام ابو عبد البر
ؒ(م۴۶۳ھ) ،امام کرخی ؒ (م۳۳۴ھ)، امام ابو محمد عبد الوھاب الصلابی
ؒ (م۴۲۲ھ) ،امام مزنی ؒ (م۲۶۴ھ) ،امام ماوردی ؒ(م۴۵۰ھ)،
امام ابو الحسن احمد بن محمد ابن المحاملی ؒ (م۴۱۵ھ ) ،امام ابو اسحٰق
ابراہیم بن علی الشیرازی ؒ (م ۴۷۶ھ)،امام الحرمین عبد الملک بن عبد اللہ ؒ
(م ۴۷۸ھ) ،امام غزالیؒ (م۵۰۵ھ)،امام فخر الاسلام ابوبکر الشاشیؒ (م
۵۰۷ھ)، امام ابو الحسین یحییٰ بن ابی الخیر ؒ (م ۵۵۸ھ) ، امام
رافعیؒ (م۶۲۳ھ) ، امام ابن الحاجب ؓ(م۶۴۶ھ) ، امام نووی ؒ (م
۶۷۶ھ) ، علامہ شہاب الدین احمد ادریس القرافی ؒ (م ۶۸۴ھ) ، امام ابن
الملقنؒ (م۸۰۴ھ) ،امام تقی الدین ابوبکر بن محمد الحسینی ؒ (م۸۲۹ھ) وغیرہ
سلف صالحین نے وضو میں ہاتھ دھونے اور کلّی اور ناک میں پانی ڈالنے کو سنت ومستحب قرار دیا ہے ۔
(کتاب الام : جلد ۱:صفحہ ۳۹،الرسالۃ :
صفحہ ۱۴، ۱۵،الکافی للابن عبد البر :جلد ۱ : صفحہ ۱۶۶، ۱۷۰،مختصر الکرخی:صفحہ ۱۲،التلقین
للصلابی:جلد ۱ :صفحہ۱۷،مختصر المزنی :صفحہ ۹۴،الاقناع للماوردی:صفحہ ۲۳،اللباب
للمحاملی:صفحہ ۶۰،المہذب :صفحہ ۴۴،نہایۃ المطلب :جلد ۱:صفحہ ۶۴،۶۶،الوسیط للغزالی
:جلد ۱ :صفحہ ۲۸۱، ۲۸۲،حلیۃ العلماء: جلد ۱:صفحہ۱۱۵،۱۱۶،بیان المذھب :جلد۱:صفحہ
۱۰۹ ،۱۱۱،الشرح الکبیر للرافعی :جلد۱:صفحہ ۳۹۵، ۳۹۶،جامع
الأمھات :جلد ۱:صفحہ ۸۲،روضۃ الطالبین للنووی :صفحہ۵۸،الذخیرۃ
:جلد۱:صفحہ۲۷۳،۲۷۴،۲۷۵،التذکرۃ لابن الملقن :صفحہ ۱۳،کفایۃ الاخیار:صفحہ۲۷،۲۸)
بلکہ امام شافعی ؒ (م۲۰۴ھ)فرماتے
ہیں کہ : ’’وَلَمْ أَعْلَمْ الْمَضْمَضَةَ
وَالِاسْتِنْشَاقَ عَلَى الْمُتَوَضِّئِ فَرْضًا وَلَمْ أَعْلَمْ اخْتِلَافًا فِي
أَنَّ الْمُتَوَضِّئَ لَوْ تَرَكَهُمَا عَامِدًا أَوْ نَاسِيًا وَصَلَّى لَمْ
يُعِدْ‘‘ وضو کرنے والے کیلئے ،کلی کرنے اور ناک
میں پانی ڈالنے کو ،میں فرض نہیں جانتا ، اور نہ اس بات میں کسی کا اختلاف مجھے
پتہ ہے کہ اگر وضو کرنے والا جان بوجھ کر یا بھولے سے کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا بھول جائے تو وہ نماز کو
نہیں لوٹائے گا۔(کتاب الام :جلد ۱:صفحہ۳۹)
امام شعبیؒ (م۱۰۳ھ)سےاسی طرح کا سوال کیا گیا تو
انہوں نے فرمایا ’’إِذَا
نَسِيَ الْمَضْمَضَةَ وَالِاسْتِنْشَاقَ فِي الْجَنَابَةِ أَعَادَ، وَإِذَا نَسِيَ
فِي الْوُضُوءِ أَجْزَأَهُ‘‘ اگر غسلِ جنابت میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھول
جائے تو لوٹانا ہوگا اور وضو میں بھول جائے تو لوٹانے کی ضرورت نہیں۔(مصنف
ابن ابی شیبہ :حدیث نمبر ۲۰۷۶، واسنادہ صحیح )
امام حسن البصریؒ (م۱۱۰ھ) سے بھی
نقل کیا گیا ہے : ’’عَنِ
الْحَسَنِ، فِي الرَّجُلِ نَسِيَ الْمَضْمَضَةَ وَالِاسْتِنْشَاقَ حَتَّى صَلَّى،
قَالَ: لَا يُعِيدُ بِذَلِك‘‘ حضرت حسن بصری ؒ سے اس
شخص کے متعلق مسئلہ معلوم کیا گیا جو کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھول گیا
یہاں تک کہ نماز بھی پڑھ لی ، تو آپ نے فرمایا کہ اس کی وجہ سے نماز نہیں لوٹائے
گا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ :حدیث نمبر
۲۰۷۷،واسنادہ صحیح)
امام ابراہیم النخعی ؒ (م۹۶ھ) سے
منقول ہے ’’ ليس المضمضة والاستنشاق من واجب الوضوء‘‘ ابراہیم نخعی ؒ فرماتے ہیں کہ کلی اور ناک میں پانی ڈالنا وضو
کے فرائض میں سے نہیں ہے۔ (تفسیر الطبری
:جلد۱۰:صفحہ ۲۹، حدیث نمبر ۱۱۳۶۳،واسنادہ حسن )[1]
مفتی کوفہ امام حماد بن ابی سلیمان ؒ (م
۱۲۰(م ۱۲۰ھ)فرماتے ہیں کہ : ’’إِذَا
نَسِيَ الرَّجُلُ الْمَضْمَضَةَ وَالاسْتِنْشَاقَ فَلاَ يُعِيدُ‘‘اگرکوئی
شخص مضمضہ اور استنشاق بھول جائے تو وضو کو نہیں لوٹائےگا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: حدیث
نمبر ۲۰۷۹)
امام شعبہؒ (م۱۶۰ھ)فرماتے ہیں کہ
میں نے امام قتادہ ؒ (م۱۰۰ھ)اور امام حکم بن عتبہؒ(م۱۱۳ھ)سے سوال
کیا : ’’سألت الحكم وقتادة عن رجل
ذكر وهو في الصلاة أنه لم يتمضمض ولم يستنشق، فقال: يمضي في صلاته‘‘میں
نےحکم اور قتادہ سے اس شخص کے بارے میں معلوم کیا جسےنماز میں یاد آیا کہ اس نے
وضو میں مضمضہ اور استنشاق نہیں کیا ہے ، تو انہوں نےکہا نماز وہ اپنی نماز جاری
رکھے گا ۔(تفسیرالطبری ؛جلد ۱۰:صفحہ ۳۰، حدیث نمبر ۱۱۳۶۶،واسنادہ صحیح )
اور وضو کی ابتداء میں ہاتھ دھونے کے سلسلہ
میں ، امام ابن قدامہ ؒ (م۶۲۰ھ) فرماتے ہیں کہ : ’’وَرُوِيَ أَنَّ ذَلِكَ مُسْتَحَبٌّ، وَلَيْسَ بِوَاجِبٍ. وَبِهِ
قَالَ عَطَاءٌ وَمَالِكٌ وَالْأَوْزَاعِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَإِسْحَاقُ،
وَأَصْحَابُ الرَّأْيِ، وَابْنُ الْمُنْذِرِ؛ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ:
{إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ} الْآيَةَ‘‘۔(المغنی
:جلد۱:صفحہ۷۳)
الغرض یہ ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ رئیس
صاحب کی پیش کردہ احادیث کی تصریح خود حضرت رفاعۃ بن رافعؓ کی حدیث کر رہی ہے کہ
وضو میں ہاتھ دھونا اور کلّی وناک میں پانی ڈالنا فرض نہیں ہے ، بلکہ احادیث میں
موجود امر استحباب کے درجہ میں ہے۔
اسی طرح محدثین نے بھی اس حدیث کی یہی
تشریح فرمائی ہے اور قرآن پاک کی آیت مع تفسیر بھی یہی تقاضہ کر رہی ہے کہ وضو
میں ہاتھ دھونا ، کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا سنت ہو۔ نیز جمہور سلف ِ صالحین
، فقہاء ومحدثین کا بھی یہی مسلک ہے ۔
یہی
وجہ ہے کہ ، امام اعظم ابو حنیفہ ؒ(م۱۵۰ھ) بھی فرماتے ہیں کہ وضو میں کلّی
نہ کرے اور ناک میں پانی نہ ڈالے تو بھی نماز ہوجاتی ہے ۔ (الحجۃ علی اھلِ المدینۃ :صفحہ ۱۸،المبسوط
للامام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ: جلد
۱:صفحہ۴۰)
اور امام طحاویؒ(م۳۲۱ھ) نے بھی کلّی اور ناک میں پانی ڈالنے کو سنت اور
اس کو چھوڑنے کو مکروہ کہا ہے۔ (مختصر
الطحاوی :صفحہ ۱۸) واللہ اعلم ۔
عدم وجوب
الترتیب فی الوضوء
مفتی ابن اسماعیل المدنی
رئیس احمد ندوی سلفی صاحب لکھتے ہیں کہ : وضو میں ترتیب
واجب ہے (رسول اللہ ﷺ کا صحیح طریقہ نماز : صفحہ ۹۵)اور دلیل کے طور پر یہ
روایت پیش کی ہے ۔
حدثنا حسن وأحمد بن عبد الملك
قالا: حدثنا زهير عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة قال: قال رسول الله -صلي الله عليه وسلم -:
"إذا لبستم وإذا توضأتم فابدأوا بأيامنكم۔(مسند احمد : جلد ۱۴: صفحہ ۲۹۳)
اسکین :
الجواب نمبرا:
غور فرمائیے ! اس روایت کو امام اعمش ؒ مدلس اور خود رئیس
صاحب نے ایک روایت کو امام اعمش کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے ۔ چنانچہ وہ
خود لکھتے ہیں کہ اعمش مدلس واقع ہے ، جنہوں نے بلاتصریح تحدیث روایت معنعن نقل کی
یعنی یہ روایت ضعیف ہے۔ (رسول اللہ ﷺ کا صحیح طریقہ نماز : صفحہ ۱۵۳، ۱۴۶)
اسکین :
لیکن چونکہ امام اعمش ؒ کی عن والی روایت یہاں ان کے مسلک کی تائید میں ہے، تو اس لئے
انہوں نے ان کی عنعنہ والی روایت کو صحیح کہہ کر دوغلی پالیسی کا ثبوت دیا ہے ۔ (رسول
اللہ ﷺ کا صحیح طریقہ نماز : صفحہ ۹۵) اسکین ملاحظہ فرمائے
نیز ابو صہیب داؤد ارشد ، کفایت اللہ سنابلی ، زبیر علی زئی
، خبیب احمد اور ارشاد الحق صاحب نے بھی امام اعمش ؒ کی عنعنہ والی روایت کو ضعیف
کہا ہے ۔ (حدیث اور اہل تقلید : جلد ۱:
صفحہ ۳۵۰، مسنون تراویح:۱۰۶، تعدادِ قیام کا تحقیقی جائزہ : صفحہ ۸۱، مقالات اثریہ
:صفحہ ۲۵۷)
لہذا یہ روایت خود غیر مقلدین کے نزدیک مردود ہے ۔
الجواب نمبر ۲:
اہل حدیث حضرات مجتہد العصر حافظ عبد اللہ روپڑی صاحب تحیۃ
الوضو کے سلسلہ میں ابن بطال ؒ کے قول سے دلیل پکڑتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ : صیغہ امر ’فلیرکع رکعتین‘ استحباب پر محمول ہے ، اس لئے کہ جلیل القدر صحابہ مسجد میں داخل ہوتے اور
نکلتے اور نماز پڑھتے ، اس سے ثابت ہوا کہ تحیۃ المسجد مستحب ہے ۔ (فتاویٰ اہل
حدیث :۲:صفحہ ۲۷) معلوم ہوا کہ اہل حدیث حضرات کے نزدیک امر کا استحباب کے
معنیٰ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔
تو پھر اس روایت سے رئیس صاحب کا وضو میں ترتیب کا واجب
کہنا باطل ومردود ہے، نیز دوسری روایت اور اصحاب رسول ﷺ کے ارشادات بھی موجود ہیں،
جس سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہاں پر امر استحباب کے معنیٰ میں ہے اور وضو میں ترتیب
واجب نہیں ہے ۔
احناف کے دلائل : (دلیل نمبر ۱)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ :
يَا أَيُّهَا
الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ
وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ
إِلَى الْكَعْبَيْنِ۔ (سورہ
مائدہ :۶)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے چار چیزوں کا ذکر فرمایا ہے ،
اور ان کے علاوہ پانچویں چیز بھی فرض ہوتی، تو اس کا ذکر بھی ضرور ہوتا، پس یہی
وجہ ہے کہ وضو میں ترتیب فرض نہیں ہے اور امام ابوبکر الجصاص الرازیؒ (م۳۷۰ھ) بھی
فرماتے ہیں کہ
’’أما جواز التفريق؛ فلأنه مطابق للفظ الآية، إذ ليس فيها إيجاب
المتابعة‘‘ وضو
میں ، ایک عضو کو دھونے کے بعد دوسرے کو دھونے
میں کچھ تاخیر کا جواز اس لئے ہے کیونکہ یہ آیت کے الفاظ کے مطابق ہے ،
چونکہ آیت میں پے در پے دھونے کو واجب نہیں کہا گیا ہے ۔ (شرح مختصر الطحاوی للجصاص : جلد ۱:صفحہ ۳۲۷) معلوم ہوا کہ وضو میں ترتیب ضروری نہیں ہے ۔
دلیل نمبر ۲:
امام احمد ؒ (م ۲۴۱ھ)فرماتے ہیں :
حَدَّثَنَا أَبُو
الْمُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَرِيزٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ
بْنُ مَيْسَرَةَ الْحَضْرَمِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِي
كَرِبَ الْكِنْدِيَّ، قَالَ: " أُتِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ بِوَضُوءٍ، فَتَوَضَّأَ، فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثَلَاثًا ، وَغَسَلَ
وَجْهَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، ثُمَّ مَضْمَضَ
وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا ، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ وَأُذُنَيْهِ ظَاهِرِهِمَا
وَبَاطِنِهِمَا، وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا۔
حضرت مقدام ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے پاس
وضو کا پانی لایا گیا ، آپ ﷺ نے اس سے وضو کیا ۔ دونوں ہاتھوں کو ۳ مرتبہ دھویا ،
چہرہ کو تین مرتبہ ، دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا ، پھر تین مرتبہ کلّی کی اور
تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا۔۔۔۔ (مسند احمد : جلد ۲۸: صفحہ ۴۲۵، حدیث نمبر
۱۷۱۸۸،واسنادہ صحیح و
رجالہ کلہم ثقات ) یہ حدیث ذکر کرنے
کے بعد قاضی شوکانیؒ (م۱۲۵۰ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’هُوَ يَدُلُّ عَلَى
عَدَمِ وُجُوبِ التَّرْتِيبِ‘‘ یہ حدیث (وضو میں ) ترتیب کے واجب نہ ہونے پر دلالت کر رہی
ہے ۔ (نیل الاوطار :جلد۱ :صفحہ ۱۸۳، حدیث نمبر۱۷۲)
دلیل نمبر ۳:
امام دارقطنی ؒ (م۳۸۵ھ) نے حضرت ربیّع ؓ
سے ایک روایت نقل فرمائی ہے اور اس میں بھی یہی ذکر ہے :
فَيَبْدَأُ فَيَغْسِلُ يَدَيْهِ
قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهُمَا ثَلَاثًا , ثُمَّ يَتَوَضَّأُ فَيَغْسِلُ وَجْهَهُ
ثَلَاثًا , ثُمَّ يُمَضْمِضُ ثَلَاثًا , وَيَسْتَنْشِقُ ثَلَاثًا , ثُمَّ يَغْسِلُ
يَدَيْهِ
کہ آپ نے وضو کے آغاز میں دونوں ہاتھوں کو برتن میں داخل
کرنے سے پہلے ۳ مرتبہ دھویا ، پھر آپ ﷺ نے وضو شروع کیا اور اپنے چہرہ کو ۳ مرتبہ
دھویا ، پھر تین مرتبہ کلّی کی ، پھر ۳ مرتبہ ناک میں پانی ڈالا، پھر دونوں ہاتھوں
کو دھویے۔ (سنن دارقطنی : جلد۱:صفحہ ۱۶۸، حدیث نمبر ۳۲۰،واسنادہ حسن)[2]
دلیل نمبر ۴ اور ۵:
حضرت زیادؒ(ثقہ) فرماتے ہیں کہ :
نا ابْنُ صَاعِدٍ ,
نا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ , ثنا مَرْوَانُ , نا إِسْمَاعِيلُ , عَنْ زِيَادٍ
, قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَسَأَلَهُ عَنِ الْوُضُوءِ
, فَقَالَ: أَبْدَأُ بِالْيَمِينِ أَوْ بِالشِّمَالِ؟ , «فَأَضْرَطَ عَلِيٌّ بِهِ
ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَبَدَأَ بِالشِّمَالِ قَبْلَ الْيَمِينِ»
ایک شخص حضرت علی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے وضو
کرنے کے بارے میں دریافت کیا اور کہا : میں (وضو) کا آغاز دائیں ہاتھ کے ذریعہ
کروں یا بائیں ہاتھ کے ذریعہ ؟تو حضرت علی ؓ نے اسے ڈانٹااور پھر آپؓ نے پانی
منگوایا اور (وضو کرتے ہوئے ) دائیں ہاتھ سے پہلے بائیں ہاتھ کو دھولیا۔ (سنن
دارقطنی : حدیث ۲۹۰،واسنادہ صحیح )[3]
اسی طرح دوسری روایت میں ذکر ہے کہ سائل نے پوچھا : کیا میں
وضو کے دوران اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ سے پہلے دھوسکتا ہوں؟ تو حضرت علیؓ نے
پھر آپ ؓ نے پانی منگوایا اور (وضو کرتے ہوئے)دائیں ہاتھ سے پہلے بائیں ہاتھ کو
دھولیا۔ (سنن دارقطنی: حدیث ۲۹۱، واسنادہ
حسن)
دلیل نمبر ۶ :
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے ایسے شخص کے بارے میں دریافت
کیا گیا، جو وضو کرتے ہوئے بائیں اعضاء پہلے دھولیتا ہے ، تو ابن مسعود ؓ نے فرمایا : اس میں کوئی
حرج نہیں، امام دارقطنی ؒ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد ، اسے صحیح قرار دیتے ہیں۔ (سنن
دارقطنی :جلد۱: صفحہ ۱۵۴، حدیث ۲۹۷)[4]
اسی طرح ایک روایت حضرت عثمان بن عفان ؓ سے بھی مروی ہے ۔ دیکھئے
، مسند بزار:جلد۲:صفحہ ۴۹، حدیث نمبر ۳۹۳، سنن دارقطنی:جلد۱:صفحہ ۱۴۸، حدیث
نمبر ۲۸۶، واسنادہ حسن۔
ان سب دلائل کے ہوتے ہوئے ، رئیس صاحب کا یہ کہنا کہ وضو
میں ترتیب ِنبوی کا غیر واجب ہونا ، کسی بھی دلیل شرعی سے ثابت نہیں ہے۔ (صفحہ
:۹۵)مردود ہے۔
الغرض یہ چند دلائل تھے جن کی وجہ سے احناف کہتے ہیں کہ وضو
میں ترتیب واجب نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ امام طحاوی ؒ(م۳۲۱ھ) فرماتے ہیں
کہ : ’’ومن
والى وضوءه، أو
فرقه،
أو قدم شيئا على شيء: لم يضره‘‘ اور جس نے ترتیب سے وضو کیا یا اس کو غیر مرتب کیا یا کسی
عضو کو دوسری عضو پر مقدم کردیا ،تو اس (کے وضو) کو نقصان نہیں ہوگا۔(مختصر الطحاوی :صفحہ ۱۸)
امام دارقطنی ؒ (م۳۸۵ھ) بھی فرماتے ہیں کہ ’’ بَابُ مَا
رُوِيَ فِي جَوَازِ تَقْدِيمِ غَسْلِ الْيَدِ الْيُسْرَى عَلَى الْيُمْنَى‘‘ باب: (وضو کے
دوران ) دائیں ہاتھ سے پہلے بائیں ہاتھ کو دھولینا جائز ہے ۔ (سنن دارقطنی :جلد۱:صفحہ ۱۵۱)
واللہ اعلم
[1] تنبیہ:
اگرچہ مغیرہ ؒ اور ہشیم ؒ مدلس ہیں، اور اس
روایت میں عن سے روایت کیا ہیں لیکن مصنف ابن ابی شیبہ:حدیث نمبر ۲۰۷۸میں
ابو الھیثم ؒ(ثقہ،تقریب :رقم۸۴۳۱)اور شریک بن عبد اللہ ؒان دونوں کے متابع
ہیں۔ دیکھئے : ’’حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ
مُغِيرَةَ وَأَبِي الْهَيْثَمِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ : لَيْسَ
الِاسْتِنْشَاقُ بِوَاجِبٍ‘‘ ابراہیم نخعی ؒ فرماتے ہیں کہ ناک
میں پانی ڈالنا فرض نہیں۔
نیز،مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر
۲۰۸۰میں ابراہیم نخعی ؒ کا یہی قول مختلف الفاظ
کے ساتھ صحیح سند سے ثابت ہے۔ وہ الفاظ یہ
ہیں : حَدَّثَنَا حُسَينُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ مَنْصُورٍ
، قَالَ : قُلْتُ لإِبْرَاهِيمَ : الرَّجُلُ يَنْسَى الاسْتِنْشَاقَ فَيَذْكُرُ
فِي الصَّلاَةِ أَنَّهُ نَسِيَ ؟ قَالَ : قَالَ إِبْرَاهِيمُ : يَمْضِي فِي
صَلاَتِهِ ، قَالَ : وَقَالَ مَنْصُورٌ : وَالْمَضْمَضَةُ مِثْلُ ذَلِكَ.منصور
ؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعیؒ سے پوچھا کہ ایک شخص کلی کرنا بھول گیا ، پھر
نماز میں اسے یاد آتا ہے کہ وہ کلی کرنا بھول گیا ہے ، امام منصور کہتے ہیں کہ
ابراہیم نخعی ؒ نے فرمایا : وہ اپنی نماز جاری رکھے گا، امام منصورؒ فرماتے ہیں کہ
کلی کرنے کا بھی یہی حکم ہے ۔
لہذا ان دونوں پر تدلیس کا اعتراض باطل ہے ۔
[2] ان ہی حسن اور صحیح روایات کی بنیاد پر حضرت مولانا
اشرف علی تھانوی
ؒ لکھتے ہیں کہ ’’سنت یہ
یہی ہے کہ اسی طرح (ترتیب)سے وضو
کرے جن طرح ہم نے اوپر بیان کیاہے۔اور اگر کوئی الٹا وضو کرلے۔۔۔۔۔تو بھی وضو
ہوجاتا ہے۔لیکن سنت کے موافق وضو نہیں ہوتا اور گناہ کا خوف ہے۔‘‘ (بہشتی زیور
: حصہ اول: ص ۷۸،طبع
مکتبہ البشرٰی) معلوم ہو ا کہ
حضرت تھانوی ؒ کا یہ مسئلہ احادیث سے ثابت ہے۔
[3] اس کی سند میں ایک
راوی زیاد مولی بنی مخزوم ہے ، آپؒ کو امام شافعیؒ ، امام ابن حبان ؒ، اور امام
قاسم بن قطلوبغا ؒنے ثقہ قرار دیا ہے ، مسند شافعی:۲:صفحہ ۲۲۶، حدیث نمبر ۸۹۱،
کتا ب الثقات لابن حبان :جلد ۴: صفحہ ۲۵۹، کتاب الثقات للقاسم :جلد ۴ :صفحہ ۳۶۷، لہذا
یہ سند صحیح ہے )
[4] نوٹ:اگر چہ اس روایت میں
ہشیم ؒ نے عن سے روایت کی ہے، لیکن کتاب الطہور للقاسم بن سلّام ؒ (صفحہ ۳۵۳-۳۵۴پر
انہوں نے سماع کی تصریح کردی ہے ، لہذا اس روایت میں ان پر تدلیس کا الزام باطل
ومردود ہے ۔
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں