نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

غیر مقلدین کی ثقہ کی زیادتی کے مسئلہ میں دوغلی پالیسی۔

 

غیر مقلدین  کی ثقہ کی زیادتی کے مسئلہ میں دوغلی پالیسی۔

- مولانا نذیر الدین قاسمی

غیر مقلدین  نےاکثر  ثقہ کی زیادتی کے مسئلہ میں دوغلی پالسی کا ثبوت دیا ہے۔مثلاً

(۱)         مشہور حدیث  : ’’ لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب ‘‘ میں’’فصاعدا‘‘  کی زیادتی کو معمر ؒ   ،ابن عیینہؒ ،عبد الرحمٰن بن اسحاق المدنی ؒ وغیرہ   جیسے ثقہ،ثبت،صدوق روات نے بیان کیا ہیں۔(صحیح مسلم : ج۱: ص ۲۹۵،ابو داود : حدیث نمبر ۸۲۲، كتاب القراءة خلف الإمام : ص ۲۴) لیکن  ارشاد الحق اثری ،یحیی گوندلوی وغیرہ غیرمقلدین نے اس ثقہ،حافظ کی زیادتی کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور اس کو شاذ  قرار دیا۔(توضیح الکلام : ص ۱۳۳،خیر الکلام : ص ۷۳) صرف اس وجہ سے کہ یہ زیادتی  اس حدیث کو  ان  کے مسلک کے خلاف کردیتی۔ اور وجہ یہ بیان کی کہ یہ زیادتی  اکثرثقات نے بیان نہیں کی۔(توضیح الکلام : ص ۱۳۱، خیر الکلام : ص ۷۳)

              دوسری طرف  ابن خزیمہ کی   روایت میں  مومل بن اسماعیلؒ (م۲۰۶؁ھ) نے  وائل بن حجر ؓ کی حدیث میں  ’علی صدرہ‘ کا اٖضافہ ذکر کیا۔جس کو یحیی گوندلوی نے صحیح تسلیم کیا ہے۔(مقالات گوندلوی : ص ۵۷۰) جب کہ اس زیادتی کو کئی ثقہ حفاظ     [مثلاً حسین بن حفصؒ[ثقہ،جلیل]،عبداللہ بن الولیدؒ[ثقہ،مامون][1] اور محمد  بن یوسف الفریابی[ثقہ][2]]نے بیان  نہیں کیا۔ (الخلافیانت للبیہقی : ج ۲ : ص ۴۰۱، مسند احمد : حدیث نمبر ۱۸۸۷۱،معجم الکبیر للطبرانی: ج۲۲: ص۳۳) اور امام بیہقی ؒ (م۴۵۸؁ھ) نے  یہاں تک لکھا کہ اس زیادتی ’علی صدرہ‘ کو مومل  کے علاوہ کس نے بیان نہیں کیا۔(الخلافیات:ج۱: ص۲۵۲)  اور وائل بن حجر ؓ کی حدیث میں  ’علی صدرہ‘ بیان کرنے میں مومل کا کوئی ثقہ متابع بھی نہیں ہے۔ لیکن چونکہ یہ روایت  غیر مقلدین کے مسلک کے موافق تھی۔اس لئے  یحیی گوندلوی نے ابنا اصول بھلادیا اور اس زیادتی کو صحیح  مان کر،اسے  قبول کرلیا ۔جیسا کہ  حوالہ گزرچکا۔

ارشاد الحق اثری صاحب نے بھی مؤمل بن اسماعیل کو ثقہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ (تنقیح الکلام :  ۱۲۲)،  مگر انوار البدر کے مقدمہ میں تو موصوف  نے احناف  کی روایت پر تو کلام کیا لیکن ابن خزیمہ کی  روایت پر مؤمل کے تفرد پر خاموشی میں  ہی عافیت  سمجھی ۔ (انوار البدر : ۳۰-۳۳)

مزید تعجب اس بات پر بھی ہوتا ہے ،  معمر ؒ نے ’ لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب ‘ کی روایت میں ’’ فصاعدا ‘‘کی زیادتی بیان کی ، اور معمر بذاتِ خودثقہ، ثبت ہیں، جس کا اقرار خود غیر مقلدین  کرچکے ہیں ۔ (توضیح الکلام : صفحہ ۱۳۰)،  پھر ان کے متابعات میں ثقہ  راوی  ابن عیینہ  اور عبد الرحمن بن اسحق ؒ وغیرہ موجود ہیں، جس کی تفصیل گزر چکی ، لیکن غیر مقلدین نے اس زیادتی  کا انکار کیا ، اور دوسری طرف  ابن خزیمہ ؒ کی روایت کا راوی مؤمل نہ پختہ ہے اور نہ ہی مضبوط ہے، اس پر کئی محدثین مثلاً : امام دارقطنیؒ ، امام احمد ؒ ، امام ابن سعد ؒ ، امام ساجیؒ ، امام ابن قانعؒ ، امام ابو داؤدؒ ، امام نسائی ؒ ، امام ابن حبان ؒ ، وغیرہ نے مؤمل بن اسماعیل کوخطاکار اور وہمی بتایا ہے، بلکہ امام ابو نصر المروزی ؒ نے کثیر الخطا کے ساتھ ساتھ یہاں تک کہا کہ جس روایت میں وہ منفرد ہوں اس سے بچیں ۔ ( انوار البدر : صفحہ ۱۸۰ – ۱۸۵)،  اور یہاں بھی  مؤمل بن اسماعیل منفرد ہیں ، جیسا کہ امام بیہقی ؒ  نے وضاحت کی ہے ، جس کا حوالہ گزر چکا ، پھر وائل ؓ کی  کی حدیث میں مؤمل کا کوئی ثقہ متابع بھی نہیں ہے۔

لیکن  چونکہ یہ روایت غیر مقلدین کے مسلک کے موافق تھی ، اس لئے انہوں ان سب علتوں کو نظر انداز کرکے ، اس روایت کو قبول کرلیا۔

نوٹ:  

یہی حال مسندِ احمد کی ہلب ؓ کی حدیث کا بھی ہے ، جس کی تفصیل آگے کسی شمارے میں آئے گی ، تو کیا غیر مقلدین اس روایت کو بھی شاذ تسلیم کرلیں گے؟[3]

۲ –          زبیر علی زئی صاحب  نے حافظ ابن کثیر ؒ کا رد کرتے ہوئے نقل کیا : کہ جمہور کے نزدیک ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے ۔ ( اختصار فی علوم الحدیثترجمہ زبیر علی زئی : صفحہ ۴۸) اور کہا کہ ثقہ کی زیادتی مقبول ہے ۔ (فتاویٰ علمیہ : جلد۲ : صفحہ ۲۹۵)

لیکن زبیر صاحب نے بھی اس مسئلہ میں دوغلی پالیسی کا ثبوت دیا ہے ۔ کیونکہ ایک طرف موصوف نے دعویٰ کیا کہ وہ ثقہ کی زیادتی  کو مانتے ہیں ۔

لیکن دوسری طرف جب ان کے سامنے  حضرت علی ؓ کا اثر  پیش کیا گیا کہ وہ صرف تکبیرِ تحریمہ کے وقت ہی رفع الیدین  کرتے تھے، تو اس کے  جواب میں موصوف  نے جتنے کچھ حوالے پیش کئے ہیں ، وہ سب کے سب جرح غیر مفسر ہونے کی وجہ سے مردود ہیں، اور ایک حوالہ امام احمد ؒ کا دیا کہ انہوں نے اس کا انکار کیا، (نور العینین : صفحہ ۱۶۵) تو جب اصل حوالے کی طرف رجوع کیا گیا تو امام احمد ؒ کے الفاظ تھے کہ : ابوبکر نہشلی ؒ کے علاوہ عاصم بن کلیب ؒ سے کسی نے یہ حضرت علیؓ کا اثر ذکر نہیں کیا یعنی امام احمد ؒ نے ان کے تفرد کی  طرف اشارہ کیا ۔

نوٹ:

 امام احمد ؒ نے خود ابو بکر نہشلی ؒ کو ثقہ کہا  ہے۔ (سوالات ابی داؤد : رقم ۴۱۵)

  غور فرمائیے !  یہاں پر امام احمد ؒ نے ثقہ کی زیادتی کو قبول نہیں کیا۔

لیکن ثقہ کی زیادتی  کو قبول کرنے کا دعویٰ کرنے والے حضرات کے ذمہ تھا کہ وہ اس کو پیش نہ کرتے ، لیکن یہ روایت چونکہ ان کے مسلک کے خلاف تھی، اس لئے موصوف زبیر علی زئی صاحب نے اپنا اصول بھلایا اور الفاظ سے کھیل کر کہا  کہ امام احمد ؒ نے اس اثر  کا انکار کیا ، تاکہ حضرت علی ؓ کے اثر کو  ضعیف ثابت کر سکے۔

اسی طرح زبیر علی صاحب نے حضرت عمر ؓ کے اثر کو ضعیف  ثابت کرنے کے لئے ، امام ابو زرعہ ؒ کا قول پیش کیا کہ انہوں نے حسن بن عیاش ؒ کے مقابلہ میں سفیان ثوری ؒ کی اس روایت کو زیادہ صحیح کہا ، جس میں پھر نہ کرنے  کا ذکر نہیں ہے ۔ (نور العینین : صفحہ ۱۶۳)

               لیکن یہ جرح بھی  زبیر صاحب کے منہج کے خلاف تھی ، کیونکہ یہاں بھی ثقہ کی زیادتی کا مسئلہ تھا ، جیسا کہ متن سے ظاہر ہے، مگر موصوف نے اس مقام پر بھی وہی حرکت کی اور اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کیلئے ، اپنا اصول ومنہج نظر انداز کر دیا ۔

۳ –          ترک ِ رفع الیدین کے مسئلہ میں ابن مسعود ؓ کی حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے ، موصوف نے امام یحییٰ بن آدم ؒ ، امام احمد بن حنبل ؒ ، امام  ابو داؤد ؒ وغیرہ کا حوالہ دیا ہے۔

حالانکہ یہ تمام حوالوں میں ان ائمہ نے کہا کہ : ابن ادریس ؒ نے ’ ثم لا یعود ‘کے الفاظ کا ذکر نہیں کیا ، ابن داسہ ؒ کے نسخہ میں امام ابو داؤد ؒ نے بھی اصلا یہی وجہ سے ثوری ؒ کی حدیث کو غیر صحیح کہا ۔ (مسائل ِ احمد بروایۃ عبد اللہ : رقم ۲۵۳، سنن ابی داؤد : حدیث نمبر ۷۴۸)،  لیکن زبیر علی زئی صاحب کا موقف جیسا کہ تفصیل گزر چکی کہ ثقہ کی زیادتی کو قبول کرنے کا ہے، لہذا موصوف کی دیانت داری تھی کہ وہ ان جروحات اور ان جیسی دوسری جروحات ، جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے، اس کو پیش نہ کرتے۔

مگر اپنے مسلک کےخاطر موصوف نے اپنے منہج کو نظر انداز کیا، تاکہ یہ ابن مسعود ؓ کی حدیث کو ضعیف ثابت کرسکیں ۔

الغرض یہ اہل حدیث علماء کی ثقہ کی زیادتی کے مسئلہ میں کچھ دوغلی پالیسیاں ہیں ۔

آخر میں اہل حدیث حضرات سے عرض ہے کہ :

-            جو حضرات ثقہ کی زیادتی کے مسئلہ میں یحییٰ گوندلوی ، ارشاد الحق اثری صاحب وغیرہ کے مسلک (قرائن)  کو مانتے ہیں ، تو وہ (سینہ پر ہاتھ باندھنے کے مسئلہ میں ) صحیح ابن خزیمہ اور مسند احمد کی حدیث اور ان جیسی دوسری احادیث، جہاں پر ثقہ اپنی زیادتی میں منفرد ہو اور اوثق نے اس کو بیان نہ کیا ہو ۔ ( مثلاً سنن ابی داؤد  کی اسامہ بن زید اللیثی کی یہ روایت ) تو ایسی روایت وہ پیش نہیں کر سکتے اور ان کے مسلک کے مطابق ثقہ کی زیادتی ان روایات میں شاذ ہوگی ۔

-            اور جو حضرات ثقہ کی زیادتی  کے مسئلہ میں زبیر علی زئی صاحب کے مسلک کو صحیح مانتے ہیں ، ت ان سے عرض ہے کہ وہ ’’ لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب ‘‘ کی حدیث میں ’’ فصاعدا ‘‘کی زیادتی ، اسی طرح  صحیح مسلم کی ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حدیث میں سلیمان التیمی کی زیادتی وغیرہ کو صحیح  تسلیم کریں ، نیز ترکِ رفع یدین کے مسئلہ میں زبیر صاحب کے پیش کردہ ائمہ کے اقوال ، جس میں انہوں نے ’ثم لا یعود ‘ کی زیادتی پر کلام کیا ہے ، تو ان تمام ائمہ کے اقوال کو غیر صحیح تسلیم کریں ، کیونکہ جب ثقہ کی زیادتی مقبول ہے ، تو وہاں بھی ان روایات میں ’    ثم لا یعود ‘کی زیادتی مقبول ہوگی ، چاہے وہ اثر ِ عمر ؓ ہو یا اثر علی ؓ ہو  یا حدیث ابن مسعود ؓ ہو ، یا کوئی دوسری حدیث ہو۔

لہذا غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ وہ ثقہ کی زیادتی کے مسئلہ میں اپنے موقف کی وضاحت کریں اور اوپر موجود  سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ، بتائیے کہ وہ کن حدیثوں کو صحیح ، کن کو ضعیف اور کن اقوال کو مردود تسلیم کرتے ہیں ؟ 


[1]  کفایت اللہ  صاحب کی بد دیانتی اور دوغلی پالیسی:

جب کفایت اللہ سنابلی صاحب کو کوئی روایت شاذ ثابت کرنی ہوتی ہے ، تو اس روایت کے مقابلہ میں اپنے راوی کے بارے میں کئی ائمہ کے حوالے سے اس کی توثیق کو بیان کرتے ہیں ، مثلاً جب یزید بن خصیفہ ؒ کی ۲۰ رکعات تراویح والی روایت کو شاذ ثابت کرنا تھا ، تو موصوف نے اپنے راوی محمد بن یوسف ؒ کی توثیق میں ابن قطان ، ابن حجر اور اسماء الرجال کی کتابیں تہذیب التہذیب ، تہذیب الکمال کے حوالوں کو پیش کیا ہے۔ (مسنون رکعات تراویح : صفحہ ۷۴)

لیکن جب کفایت اللہ صاحب کی اپنی کوئی روایت شاذ ثابت ہونے لگتی ہے ، تو موصوف  بد دیانتی اور دوغلی پالیسی کا ثبوت دیتے ہیں :

جی ہاں ! علی صدرہ کی زیادتی بیان کرنے والے خطا کار اور وہمی راوی مؤمل بن اسماعیل کی روایت کو غیر شاذ ثابت کرنے کے لئے ، موصوف نے عبد اللہ بن الولید ؒ کو مؤمل سے کم تر بتایا ہے اور ابن الولید کی اعلیٰ درجہ کی توثیق کو چھپاکر ، ان کے بارے میں صرف ۲ اقوال نقل کئے ہیں ۔ (انوار البدر : صفحہ ۱۶۵) اور اس میں بھی دھوکہ اور فراڈ سے کام لیا۔

عبد اللہ بن الولید ؒ کے بارے میں امام احمد بن حنبل ؒ کہتے ہیں کہ ’ قد سمع من سفيان، وجعل يصحح سماعه، ولكن لم يكن صاحب حديث، وحديثه حديث صحيح، وكان ربما أخطأ في الأسماء، وقد كتبت أنا عنه كثيراً ‘ انہوں نے سفیان ثوری ؒ سے سماع کیا اور وہ صحیح سماع کرتے تھے، وہ صاحب حدیث نہیں تھے، اور ان کی حدیثیں صحیح ہیں اور کبھی وہ لوگوں کے نام میں غلطی کرتے تھے اور میں نے ان سے بہت کچھ حدیثیں لکھی ہیں ، ان کی حدیثوں کو امام احمد ؒ نے خود صالح کہا ہے، ان کے الفاظ یہ ہیں : ’ كانت صدور أحاديثه صحاحا كتبت عنه شيئا صالح ‘۔(الجرح والتعدیل : جلد۵ : صفحہ ۸۷۵، سوالات ابی داؤد لاحمد : رقم ۲۳۹)،  اور ابن الولید کی یہ روایت بھی امام احمد ؒ سے ہی مروی ہے، جس میں علی صدرہ کا اضافہ نہیں ہے، امام خزرجی ؒ نے بھی امام احمد ؒ کے قول کو اپنا فیصلہ بتایا ۔ (خلاصہ تہذیب التہذیب : صفحہ ۲۱۸) امام ابو داؤد ؒ نے آپ کو ثقات مکہ میں شمار کیا ہے ۔ (دیکھئے سوالات ابی داؤد : صفحہ ۲۲۸) ،  امام ابن حبان ؒ نے بھی آپ کو ثقات میں شمار کیا  اور کہا کہ عبد اللہ بن الولید مستقیم الحدیث ہے ، امام دار قطنی ؒ نے آپ کو ثقہ ، مامون کہا ، نیز آپ کو سفیان ثوری ؒ  کے حفاظ ساتھیوں میں شمار کیا ہے، امام ابو زرعہ الرازیؒ صدوق  کہتے ہیں ، امام ابن عدی ؒ کہتے ہیں کہ میں نےان کی حدیثوں میں کوئی حدیث منکر نہیں دیکھی، امام بخاری ؒ آپ کو مقارب کہتے ہیں ، نیز آپ ؒ سے امام بخاری ؒ  نے اپنی صحیح میں تعلیقاً روایت لی ہے ، اور باصول غیر مقلدین ، آپ ؒ امام بخاری ؒ کے نزدیک ثقہ ثابت ہوتے ہیں ۔ (انوار البدر : صفحہ ۱۳۶) ، نیز امام دار قطنی ؒ ( م ۳۸۵؁ھ)  نے آپ کو ’ ذكر أسماء التابعين ومن بعدهم ممن صحت روايته عن الثقات عند البخاري ومسلم ‘ میں بھی شمار  کیا ہے۔ (صفحہ ۲۰۴)،  حافظ عقیلی ؒ نے بھی آپ کو ثقہ ، معروف کہا ہے۔ ( تہذیب التہذیب : جلد ۶ : صفحہ ۷۰،  موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله: جلد۲ : صفحہ۳۸۲)،  امام ابو علی الطوسی ؒ ، امام ترمذی ؒ ، امام ابن حبان ؒ ، امام ابو نعیم ؒ ، امام ضیاء الدین مقدسی ؒ ، امام بغویؒ ، امام ابو عوانہ ؒ ، امام حاکم ؒ ، اور امام ذہبیؒ وغیرہ نے آپ کی حدیث کو صحیح کہا ہے۔ (مستخرج الطوسی : جلد۳ : صفحہ ۲۰۷، سنن ترمذی : حدیث نمبر ۱۶۲۳، صحیح ابن حبان : حدیث نمبر ۱۱۱۶، المستخرج علی صحیح مسلم لابی نعیم : جلد۲ : صفحہ ۱۶۴، شرح السنہ للبغوی : جلد ۱۳: صفحہ ۱۶۹، الاحادیث المختارۃ: جلد۱ : صفحہ ۳۸۸، صحیح ابی عوانہ : حدیث نمبر ۱۲۶۰، المستدرک للحاکم مع التلخیص للذہبی : جلد۱ : صفحہ ۳۱۴)،یعنی ان تمام محدثین کے نزدیک عبد اللہ بن الولید ؒ ثقہ ہیں ، جیسا کہ کفایت اللہ صاحب کا اصول ہے۔ (انوار البدر : صفحہ ۲۷)،  امام ذہبی ؒ نے صدوق بھی کہا ہے۔ (المغنی فی الضعفاء : رقم ۳۴۱۴)،  نیز امام ذہبی ؒ نے ان کی روایت کو مضبوط کہا ہے۔ (المہذب  فی اختصار السنن الکبیر : جلد۱ : صفحہ ۲۰۲) اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امام ذہبی ؒ کے نزدیک بھی ابن الولید  ؒ نے ثقہ ، صدوق ہیں ، غیر مقلدین کے محدث ، البانی صاحب اور علامہ احمد شاکر غیر مقلد نے بھی ان کو ثقہ کہا ہے۔ ( ارواء الغلیل : جلد۳ : صفحہ ۲۷۸، مسند احمد بتحقیق شاکر  : جلد۱ : صفحہ ۳۷۴)، بلکہ حافظ ابن حجر ؒ کا رد کرتے ہوئے، شیخ شعیب الارناؤط اورشیخ بشار العواد  معروف سلفی نے انہیں صدوق اور حسن الحدیث کہا ہے۔(تحریر تقریب التہذیب : ج۲: ص۲۸۴)،حافظ ہیثمی ؒ نے بھی آپ ؒ کو ثقہ کہا ہے۔(مجمع الزوائد : جلد ۹ : صفحہ ۲۹۹، حدیث نمبر ۱۵۶۳۳، المعجم الصغیر : حدیث نمبر ۵۲۷)

ان پر جرح کی  حقیقت :

امام ابو حاتم ؒ نے ان کے بارے میں کہا کہ ان سے احتجاج نہیں کیا جائے گا، یہ جرح کے بارے میں کفایت اللہ صاحب کی حفاظت سن لیجئے ، وہ کہتے ہیں کہ :  بلکہ ارشاد الحق اثری صاحب نے کہا : یہ جرح قابل اعتبار نہیں ، نیز کہتے ہیں کہ یہ جرح باعثِ ضعف قطعا نہیں ۔ ( توضیح الکلام : صفحہ ۳۸۹)،

-                امام ازدی ؒ نے کہا کہ : انہیں کچھ احادیث میں وہم ہوا ۔ (تہذیب التہذیب )،  امام ازدی ؒ بذات خود غیر مقلدین کے نزدیک ضعیف ہیں ۔ (دفاع  صحیح بخاری : ص ۴۴۰،مقالات زبیر علی زئی : ج۶ :ص ۱۴۰)  لہذا یہ جرح  خود اہل حدیث کے اصول  سے مردود ہے۔

کیا عبد اللہ بن الولید ، مؤمل سے کم تر ہیں ؟؟

کفایت اللہ صاحب نے یہ کہہ کر دھوکہ دیا کہ عبد اللہ بن الولید عدنی ؒ مؤمل بن اسماعیلؒ سے کمتر ہیں ، عبد اللہ بن الولید ؒ کی توثیق اور  آپ ؒ پر جرح کی حقیقت واضح کردی گئی ۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ دیکھ لیں اور فیصلہ کریں کہ  کفایت اللہ صاحب کی بات میں کتنی سچائی ہے۔

کیونکہ ایک طرف ثقہ ، مامون ، حافظ عبد اللہ بن الولید ؒ ہیں ، اور دوسری طرف مؤمل بن اسماعیل ؒ ہیں ، جن کا حال سب جانتے ہیں کہ ان پر کتنی جروحات موجود ہیں ۔

خود سلفی  اور عرب علماء  نے ان کی تضعیف کو کھول کھول کر بیان کیا ہے۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے : الاجماع مجلہ : شمارہ نمبر ۵ : صفحہ ۱)،  لیکن موصوف نے اپنے مسلک کی نصرت میں بیچاری عوام کو دھوکہ دیا ۔

امام ابو حاتم ؒ کے قول سے مؤمل کی تضعیف ہوتی ہے ، نہ کہ ابن  الولید ؒ کی :

امام ابو حاتم ؒ نے مؤمل کو صدوق کہنے کے ساتھ ساتھ ’ کثیر الخطا‘ کہا ، جو کہ غیر مقلدین کے نزدیک جرح مفسر ہے۔ (توضیح الکلام : ص ۹۳۸)  جبکہ  ’لا یحتج بہ ‘ غیر مقلدین کے نزدیک جرح  غیر مفسر اور نہ قابل ِ  اعتبار جرح ہے جیسا کہ حوالہ گزرچکا، (دیکھئے ص : ۴۹) اور خود غیر مقلدین نے  لکھ رکھا ہے  کہ جرح مفسر کے مقابلہ میں جرح مبہم کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (سلسلة الأحاديث الضعيفة: ج۱: ص ۵۲۹،احسان الجدال : ص ۹۲،دین الحق : ج۱: ص ۶۷)

لہذا خود کفایت  صاحب کے مسلک کے اصول سے امام ابو حاتم ؒ کی نظر میں مؤمل کی تضعیف واضح  ہے، نہ کہ ابن الولید ؒکی ۔

امام ذہبی ؒ کے قول میں خیانت :

امام ذہبی ؒ کا موصوف نے صرف ایک ہی قول نقل کیا ، کہ وہ ابن الولید ؒ کو شیخ کہتے ہیں ، حالانکہ امام ذہبی ؒ کے نزدیک وہ صدوق اور ثقہ ہیں ، جیسا کہ حوالہ  عبد اللہ بن الولید ؒ کی توثیق کے ضمن  میں گزر چکے ، جس کو موصوف نے نقل نہیں کیا، اسی طرح اور بھی کئی ائمہ نے ان کی صریح اور اعلیٰ توثیق کی ہے ، جس کو موصوف نے چھپا لینے میں عافیت سمجھی ، صرف اس وجہ سے کہ اس سے مؤمل بن اسماعیل ؒ کی روایت شاذ ثابت ہورہی تھی ۔

الغرض امام  ذہبی ؒ کے نزدیک بھی عبد اللہ بن الولید صدوق اور ثقہ ہیں ۔

کفایت اللہ صاحب سے عرض ہے کہ : آپ مؤمل کو ابن الولید سے اعلیٰ کہہ رہے ہیں  ، حالانکہ محدثین کے علاوہ آپ کے اپنے مسلک ۱،۲ نہیں بلکہ کئی سلفی علماء نے مؤمل  بن اسماعیل  کو ضعیف قرار دیا ہے، لہذا اللہ سے ڈریں اور بیچاری عوام کو دھوکہ نہ دیں ۔

نیز، الٹا آپ کے البانی صاحب نے واضح  کیا ہے کہ عبد اللہ بن الولید ؒ کا درجہ  مؤمل سے بڑھا ہوا ہے ، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ’ مؤمل هذا قريب حاله من حال العدني ‘ یہ مؤمل بن اسماعیل  کی حالت ( یعنی مؤمل کا درجہ ) عبد اللہ بن الولید  العدنی کی حالت (یعنی العدنی کے درجہ ) سے قریب ہے۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ : جلد۶ : صفحہ ۹۲۹)، الغرض  کفایت اللہ صاحب کا دھوکہ ، بد دیانتی  باطل ومردود ہے اور تحقیق اور ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال کی رو سے عبد اللہ بن الولید ؒ کا درجہ مؤمل بن اسماعیل ؒ  سے اعلیٰ ہے۔

لہذا خود غیر مقلدین کے اصول سے ابن الولید ؒ کی روایت کے مقابلہ میں مؤمل کی زیادتی  (علی صدرہ) شاذ ہے۔

نوٹ :

 ابن الولید ؒ کے ساتھ ساتھ حسین بن حفصؒ  اور محمد بن یوسف الفریابی ؒ نے بھی ہاتھ باندھنے کا ذکر تو کیا، لیکن علی صدرہ کا اضافہ ذکر نہیں کیا ، جیسا کہ حوالہ گزر چکا ۔

کفایت صاحب اس کا کیا کریں گے ؟؟؟

[2] محمدبن یوسف الفریابی ؒ سے روایت کرنے والے عبد اللہ بن محمد بن سعد بن ابی مریم ضعیف ہیں، لیکن سفیان  ثوری ؒ کے علاوہ عاصم بن کلیب ؒ سے بھی ایک جماعت (زائدہ ؒ ، بشر بن المفضل ؒ ، سلام بن سلیم ؒ ، خالد بن عبد اللہ ؒ ، عبد اللہ بن ادریس ؒ، شعبہ ؒ ، ظہیر بن معاویہ ؒ ، عبد الواحد ؒ ، ابو عوانہ ؒ ، ابو اسحاقؒ ، قیس بن الربیعؒ ، محمد بن فضیل ؒ ، ابو الاحوصؒ ، وغیرہ ) نے یہ روایت نقل کی ہے جس میں ہاتھ  باندھنے کا ذکر ہے، لیکن علی صدرہ کا اضافہ نہیں ہے، اور پھر  سفیان ثوری ؒ سے بھی حسین بن حفص  اور عبد اللہ بن الولید ؒ نے بھی یہی روایت ذکر کی ہے، جس میں ہاتھ باندھنے کا ذکر ہے، لیکن  علی صدرہ کا اضافہ نہیں ہے۔

لہذا ان تمام شواہد کی وجہ سے ، محمد بن یوسف فریابی ؒ کی روایت بھی مقبول ہے اور عبد اللہ بن محمد بن سعد  بن ابی مریم کا ضعف مضر نہیں ۔

 

[3] نوٹ :

یہی سوال زبیر علی زئی صاحب  نے ارشاد الحق اثری  صاحب اور ان کے مقلدین سے کیا ہے۔ (الاعتصام : ۲۰۰: ۲۸؍ نومبر  - ۴ ؍ دسمبر :  صفحہ ۱۲)

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...