نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام موفق بن احمد المکی الخوارزمیؒ (م۵۶۸؁ھ)[صاحب مناقب امام ابوحنیفہ ] صدوق ہیں ۔

 


امام موفق بن احمد المکی  الخوارزمیؒ ۵۶۸؁ھ)[صاحب مناقب امام ابوحنیفہ ]  صدوق ہیں ۔

مولانا نذیر الدین قاسمی

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 4

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

امام ابو المؤید موفق بن احمد المکی  الخوارزمیؒ ۵۶۸؁ھ) صدوق اور حسن الحدیث  ہیں ۔

آپ ؒ کی توثیق و ثنا درج ذیل ہیں :

امام ابوسعد السمعانی ؒ ۵۶۲؁ھ)اور امام ابن دبیثی ؒ(م۶۳۷؁ھ) ان کو خطیب بارع ادیب فاضل قرار دیتے ہیں۔ (المختصر المحتاج الیہ من تاریخ ابن الدبیثی للذہبی ص:۳۴۹) امام جمال الدین ابو الحسن القفطیؒ ۶۴۶؁ھ)ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’ادیب فاضل لہ معرفۃ تامۃ بالادب والفقہ ‘‘ امام موفق ابن احمد ؒ ادیب ہیں فاضل ہیں اور ان کو ادب اور فقہ میں مکمل معرفت حاصل ہیں ۔ (انباہ الرواۃ علی انباہ النحاۃ ج:۳ص:۳۳۲) علامہ حاجی خلیفہ ؒ (م ۱۰۶۷؁ھ) انہیں شیخ ،امام ،فقیہ، فاضل ادیب اور شاعر کہتے ہیں ۔(سلم الوصول الی طبقات الفحول ج:۳ص:۳۰۶) حافظ صلاح الدین الصفدی ؒ(م۷۶۴؁ھ)کہتے ہیں کہ ’’کان متمکنا فی العربیۃ ،غزیرالعلم فقیہا فاضلا ادیبا شاعرا ‘‘ موفق ؒ عربی میں بلند رتبے والے تھے ،علم کے گہرے تھے ،فقیہ فاضل ،ادیب اور شاعر تھے ۔(بغیۃ الوعاۃ فی طبقات اللغویین والنحاۃ ج:۲ص:۳۰۸) حافظ ذہبی ؒ کہتے ہیں کہ ’’ابوالمؤید المکی العلامۃ خطیب خوارزم کان ادیبا فصیحا مفوہا ً ۔‘‘(تاریخ الاسلام ج:۱۲ص:۴۰۰)

یہ الفاظ امام موفق بن احمد المکی ؒ ۵۶۸؁ھ)کے صدوق ہونے کے لئے کافی ہے ۔ اور غیر مقلدین اہل حدیث کے اصول سے بھی امام موفق بن احمد ؒ صدوق ہیں ۔

چنانچہ زبیر علی زئی صاحب ایک راوی کی تحقیق میں کہتے: عباس بن یوسف ؒ ۳۱۴؁ھ) کے متعلق خطیب بغدادی اور ابن الجوزی نے کہا : وہ نیک اور دیندار تھے ۔ان سے ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے روایات بیان کی ہیں ۔تیسری صدی ہجری کے بعد مشہور عالم پر اگر کوئی جرح نہ ہو،تو اس کی توثیق کی صراحت ضروری نہیں ہے ۔بلکہ علم،فقاہت ،نیکی اور دینداری کے ساتھ مشہور ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ایسے شخص کی حدیث حسن درجے سے کبھی نہیں گرتی اور اس کا مقام کم از کم صدوق ضرور ہوتا ہے ۔(اضواء المصابیح ص:۲۵۱)

اسکین :


اعتراض نمبر ۱ :

امام موفق بن احمد ؒ پر اعتراض کرتے ہوئے اور دوغلی پالیسی کا ثبوت دینے میں مشہور زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ موفق بن احمد معتزلی اور رافضی ہونے کی وجہ سے مجروح ہے ،لہذا اس کی ساری کتاب ناقابل اعتماد ہے ۔(مقالات ج:۴ص:۳۲۳)

الجواب : 

زبیرعلی زئی صاحب کا انہیں معتزلی اور رافضی کہنے کی وجہ ،امام کردری ؒ کا قول ہے ،چنانچہ ان کا قول یہ ہے کہ وہ معتزلی تھے اور علی رضی اللہ کو تمام صحابہ پر فضیلت دیتے تھے ۔(مقالات ج:۴ص:۳۲۲)

اس پر کئی سوالات کھڑے ہوتے ہیںاور کچھ باتیں ذہن میں آتی ہیں :

اولاً         کیا غیر مقلدین اور زبیر علی صاحب کے نزدیک امام کردری ؒ ثقہ ہیں ؟

دوم         یہ کہ بہت سے علماء نے امام موفق ؒ کا ذکر کیا ،ان کی تعریف وثنا فرمائی ہے ،جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ۔لیکن کسی نے بھی انہیں معتزلی قرار نہیں دیا ،سوائے امام کردری کے ؟

لہذا ایسی صورت میں بھی کیا امام کردری ؒ کا قول غیر مقلدین کے نزدیک قابل حجت ہے؟

سوم         یہ کہ کیا غیر مقلدین اور علی زئی کے نزدیک معتزلی ہونا جرح ہے ؟جبکہ خود زبیر علی زئی صاحب کے مطابق صحیحین وغیرہ میں ہی ایک جماعت کی احادیث ہیں ، جن پر قدری وغیرہ ہونے الزام ہے ۔

کیا ان کی حدیث رد کردی جائے گی ؟ (نورالعینین ص:۱۰۸)

اسکین :


اپنی پسند کے راوی کا دفاع اور مخالف کے راوی پر جرح اور یہ زئی صاحب کی دوغلی پالیسی نہیں ہے ،بلکہ ان کی تحقیق ہے ؟ (اللہ ان کی غلطی کو معاف فرمائے ۔۔آمین)

چہارم       یہ کہ کیا غیر مقلدین اور علی زئی صاحب کے پاس کسی سلف یا محدث کا حوالہ موجود ہے ،کہ اگر کوئی صرف علی ؓ کو تمام صحابہ پر فضیلت دے ،تو رافضی ہوجائیگا ؟

عجیب بات ہے کہ علی بن الجعد ؒ زئی صاحب کے نزدیک صحابہ پر کلام کرنے والے تھے ۔(امین اوکاڑوی کا تعاقب ص:۶۵) لیکن پھربھی ان کے نزدیک ثقہ ہیں ۔ حالانکہ امام موفق ؒ بھی ائمہ اور علماء کے نزدیک امام شیخ، علامہ،فاضل ،ادیب ،شاعر اور خطیب تھے ، جو کہ خود زئی صاحب کے اصول ـــ’’ تیسری صدی ہجری کے بعد مشہور عالم پر اگر جرح نہ ہو تو اس کی توثیق کی صراحت ضروری نہیں ہے ۔بلکہ علم فقاہت نیکی اور دینداری کے ساتھ مشہور ہونے کا یہی مطلب ہے کہ کہ ایسے شخص کی حدیث حسن درجے سے کبھی نہیں گرتی اور اس کا مقام کم از کم صدوق ضرور ہوتا ہے ‘‘ سے صدوق اور حسن الحدیث ثابت ہوتے ہیں ۔

پھر یہ بھی ذہن میں رہے کہ زبیر علی صاحب نے لکھا کہ جس راوی کا ثقہ وصدوق ہونا ثابت ہو جائے ، اس کا قدری ،خارجی ،معتزلی ،جہمی اور مرجی وغیرہ ہونا صحت حدیث کے خلاف نہیں ہے ۔(نور العینین ص:۶۳)

اسکین :


لیکن  افسوس وہ زئی صاحب کے نزدیک صرف معتزلی اور خود ساختہ رافضی ہونے کی وجہ سے مجروح ٹھہرے۔

دوغلی پالیسی اور مسلکی تعصب کی بھی حد ہوتی ہے ۔الغرض زبیر صاحب کا امام موفق بن احمد ؒ کو مجروح کہنا خود ان کے اصول سے باطل و مردود ہے ۔

نوٹ :

امام حاکم ؒ پر رافضی ہونے کا الزام ہے،جس کا جواب دیتے ہوئے زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ حاکم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ،اور سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب لکھے ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شیعہ ان صحابہ کی فضیلت کا خیال ہو ،بلکہ شیعہ تو ان صحابہ کو برا کہتے ہیں ۔نعوذ باللہ (نور العینین ص:۴۳۰)

اسکین :


اسی طرح امام عبدالرزاق الصنعانی  ؒ ۲۱۱؁ھ) پر تشییع کے جواب میں موصوف نے ثابت کیا کہ امیر معاویہ ؓ  اور ابوہریرہ ؓ کی حدیث پر عبدالرزاق ؒ کا عمل ہے اور پھر کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ ؓ اور سیدنا ابوہریرہ ؓ کی بیان کردہ احادیث پر عمل کر نے والے شیعہ پوری دنیا میں کہیں نہیں ملے گی ۔چاہے چراغ کے بجائے آفتاب کے ذریعے سے ہی تلاش کیا جائے۔ (مقالات ج:۱ص:۴۱۰)

اسکین :


ان عبارتوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ زبیر علی زئی صاحب کے نزدیک ،جب کوئی راوی کسی فر قے کی مخالفت کرے ،تو وہ راوی اس فرقے کا ہر گز نہیں ہوتا ۔

حالانکہ زبیر علی زئی صاحب اپنا یہی اصول امام موفق بن احمد المکی ؒ کے بارے میں یاد رکھتے تو وہ مکی ؒ پر ہرگز معتزلی ہونے کا اعتراض نہ کرتے ۔کیونکہ امام موفق بن احمد ؒ المکی نے عقیدہ خلق قرآن کے مسئلے میں امام ابوحنیفہؒ کا دفاع کیا اور ثابت کیا کہ امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک قرآن مخلوق نہیں ہے ۔(مناقب  للمکی : ص ۴۶۵) اسکین  ملاحظہ فرمائے


جب کہ معتزلہ کا مشہور عقیدہ ہے کہ قرآن مخلوق ہے ۔

لہذا اگر امام موفق المکی ؒ سچ میں معتزلی ہوتے ،تو وہ خلق قرآن میں اپنے ہی فرقے سے اختلاف کیوں کرتے  ؟ بالفاظ زبیر علی زئی صاحب کے ’’کوئی معتزلی ہو اور قرآن کو مخلوق نہ مانے،ایسا شخص آپ پوری دنیا میں کہیں نہیں ملے گا ،چاہے چراغ کے بجائے آفتاب کے ذریعے سے ہی تلاش کیا جائے ۔‘‘

الغرض زبیر علی زئی صاحب کا موفق ؒ کو معتزلی کہنا تحقیق کی رو سے بھی باطل ومردود ہے ۔

اعتراض نمبر۲:

زئی صاحب لکھتے ہیں کہ :حافظ ابن تیمیہ ؒ نے فرمایا کہ وہ علماء حدیث میں نہیں اور نہ اس فن میں ان کی طرف کبھی رجوع کیاجاتا ہے ۔حافظ ذہبی ؒ نے فرمایا :ان کی کتاب فضائل علی میں نے دیکھی ہے ، اس میں انتہائی کمزور روایتیں بہت زیادہ ہیں ۔

لہذا ایسے شخص کو (معتزلی کو) علامہ ،ادیب ،فصیح اور مفوہ کہہ دینے سے توثیق ثابت نہیں ہوتی ۔مختصراً عرض ہے کہ موفق بن احمد معتزلی اور رافضی ہونے کی وجہ سے مجروح ہے ،لہذا اس کی ساری کتاب ناقابل اعتماد ہے ۔(مقالات ج:۴ص:۳۲۲،۳۲۳)

الجواب :

اول        یہ کہ زبیر علی صاحب کے اصول کے مطابق جمہور کی توثیق کی وجہ سے وہ صدوق اور حسن الحدیث ہیں ،جیسا کہ تحقیق پہلے گزر چکی ۔

دوم         یہ کہ جب راوی جمہور کے نزدیک صدوق اور حسن الحدیث ہو تو اس کا قدری ،معتزلی ہونے سے روایت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔

سوم        امام موفق بن احمد المکی ؒ کو معتزلی کہنا بھی مردود ہے ،جیسا کہ تفصیل اوپر گزر چکی ۔

چہارم      حافظ ابن تیمیہ ؒ کے الفاظ میں کوئی جرح نہیں ہے ۔کیونکہ کسی راوی کا حدیث کا باقاعدہ ماہر نہ ہونا یا حدیث کے فن سے ناآشنا رہنے سے اس کا صدوق اور ثقہ نہ ہونا لازم نہیں آتا ۔

مثلا ً حماد بن دلیل المدنی ؒ ۱۸۱؁ھ) کے بارے میں امام احمد بن حنبلؒ کہتے ہیں کہ وہ صاحب حدیث نہیں ہے ،مگر پھر بھی امام احمد بن حنبلؒ نے ان سے روایت لی ہے ۔(تہذیب الکمال ج: ۸ ص : ۲۸۸)اور غیر مقلدین کے نزدیک امام احمد ؒ صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں ۔(انوار البدر ص:۱۸۲)

اورپھر حدیث کے صحیح ہونے کے شرائط میں راوی کے عادل اور اسکے روایت کو محفوظ رکھے کے وصف کا تو ذکر ہے لیکن صاحب حدیث کا وہا ں بھی کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔                    لہذا اصول کی روسے یہ الفاظ جرح ہی نہیں ہیں ۔

اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ حافظ ابن تیمیہ ؒ ۷۲۸؁ھ) متشدد بھی ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کا کہنا ہے۔ (لسان المیزان ج:۶ص:۳۱۹)شیخ محمد رواس قلعجی ؒ نے بھی ابن تیمیہ کو متشدد تسلیم کیا ہے ۔(موسوعات فقہی لابن تیمیہ ج:۱ص:۲۲)

نیز امام موفق بن احمدؒ کی کتاب ’’مناقب علی ‘‘ میں موجود روایات کا رد کرتے ہوئے ابن تیمیہؒ نے  یہ بات ’’کہ وہ (موفق ؒ) علماء حدیث میں نہیں اور اس فن میں ان کی طرف کبھی رجوع کیا جاتا ہے ‘‘کہی ہے ۔حالانکہ اس کتاب میں جو ضعیف اور من گھڑت روایتیں موجود ہیں ،اس کے ذمہ دار موفق بن احمد ؒ نہیں ،بلکہ اوپر کے راوی ہیں ۔(دیکھئے پنجم )

پھر ان سب کے باوجود ،مناقب امام ابوحنیفہ للموفق بن احمد المکی کو ہی دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام موفق بن احمد المکی ؒ کو حدیث اور روات کے بارے میں کافی علم تھا ، لہذا ابن تیمیہ ؒ کا انہیں علماء  حد یث میں شمار نہ کرنا ،ان کا تشدد ہے جو کہ مقبول نہیں ۔

الغرض ان سب لحاظ سے ابن تیمیہ کی نہ بات صحیح ہے اورنہ ہی انکی بات میں کوئی جرح ہے ۔

پنجم          امام ذہبی ؒ کے الفاظ سے امام موفق بن احمد ؒ کی تضعیف ثابت نہیں ہوتی ۔

کیونکہ خود زبیر علی صاحب اپنے من پسند راوی کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’کسی محدث کا بے اصل روایت بیان کرنا ،اس محدث کے مجروح ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔

ابن ماجہ ؒ ،خطیب بغدادی ؒ ،ابونعیم اصبہانی ؒ وغیرہ نے متابعات بے اصل بلکہ موضو ع روایات بیان کی ہیں ۔ان روایات میں جرح دوسرے راویوں پر ہوتی ہے نہ کہ ان محدثین پر ۔لہذا نعیم کی بیان کردہ بے اصل روایات کے بے اصل ہونے کی وجہ اوپر کے راوی ہیں نہ کہ نعیم ۔‘‘ (مقالات ج:۱ص:۴۵۲) اسکین  ملاحظہ فرمائے


افسوس زبیر صاحب ! یہ اصول اپنے راوی کے بارے میں تو یاد رہا ،لیکن موفق بن احمد ؒ کے بارے میں یہ اصول بھول گئے ،کہ ان کی کتاب کے بارے میں حافظ ذہبیؒ ؒ نے کہاکہ میں نے اس میں انتہائی کمزور روایتیں زیادہ دیکھیں ۔اس کے ذمہ دار بھی امام موفق بن احمد ؒ  نہیں بلکہ اوپر کے راوی ہیں ۔

نیز حافظ ذہبیؒ نے اسی کتاب ’’مناقب علی ‘‘سے ایک روایت کو موضوع قرار دیتے ہوئے ،سند کے ایک راوی حسین بن غفیر المصری العطاری پر جرح کی ہے نہ کہ موفق بن احمد ؒ پر ۔(میزان الاعتدال ج:۱ص:۵۱۷)

اسکین   :


ثابت ہواکہ ان کی کتاب میں کمزور روایتوں کے ذمہ دار اوپر کے راوی ہیں ،نہ کہ موفق بن احمد ؒ ۔

لہذا زبیر صاحب کے اصول سے ہی ان کا اعتراض باطل و مردود ہے ۔اور امام موفق بن احمد ؒ ۶۸ ؁۵؁ھ) صدوق اور حسن الحدیث ہیں ،واللہ اعلم


ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 4

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...