نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث طلاقِ ثلاثہ کے وقوع پر احادیث سے دلیل (قسط:۳)

 


 مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث

 طلاقِ ثلاثہ کے وقوع پر احادیث سے دلیل 

مفتی رب نواز صاحب حفظہ اللہ ، احمد پور شرقیہ                                                              (قسط:۳)

 مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث

 طلاقِ ثلاثہ کے وقوع پر احادیث سے دلیل

ماخوذ  : مجلہ  راہ     ہدایت    شمارہ 23

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

            اَب ہم کچھ وہ حدیثیں پیش کرتے ہیں جنہیں علمائے کرام نے طلاق ِثلاثہ کے وقوع پر بطورِ دلیل کے ذکر کیا ہے۔

پہلی حدیث :

امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث ذِکر کی ہے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

            اِنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَہٗ ثَلاَ ثًا فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَّ اَ تَحِلُّ لِلْاَوَّلِ قَالَ لَا حَتّٰی یَذُوْقَ عُسَیْلَتَھَا کَمَا ذَاقَھَا الْاَوَّلُ ۔

            ترجمہ: ایک آدمی نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دے دیں، اس عورت نے دوسری جگہ شادی کر لی اور اس مرد نے (ہم بستری سے پہلے ہی ) اسے طلاق دے دی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہے آپ نے فرمایا نہیں۔ جب تک دوسرا خاوند اس سے ہم بستری نہ کرلے ۔(بخاری: ۲؍۷۹۱مسلم: ۱؍۴۶۳)

اعتراض :

  حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’اس حدیث کے الفاظ میں کوئی ایک حرف بھی ایسا نہیں ہے کہ جس سے دفعۃً تین طلاقوں کے وقوع کا ثبوت ملتا ہو۔ ‘‘

 (احسن الابحاث صفحہ ۲۸،ناشر: ادارہ تحقیقات عثمانیہ اہلِ حدیث گوجرانوالہ )

الجواب:

(۱) ایک مجلس کی تین طلاقوں کو اس سے نکالنے کی اور علیحدہ علیحدہ مجالس یا الگ الگ طہر میں دی جانے والی تین طلاقوں کی تخصیص پرغیرمقلدین کے پاس کیا دلیل ہے؟اُن کا دعوی ہے کہ اس حدیث میں الگ الگ مواقع میں دی جانے والی تین طلاقیں ہیں تو پہلے انہیں اس کی دلیل دینی چاہیے۔ اور چوں کہ غیرمقلدین سلفی کہلاتے ہیں اور حدیثوں کو فہم سلف کے مطابق سمجھنے اورماننے کے دعوے دار ہیں، اس لئے وہ اَسلاف کے حوالے پیش کریں کہ اس حدیث میں الگ الگ دی جانے والی طلاقیں مراد ہیں اور ایک مجلس کی تین طلاقیں نہیں ۔

(۲)حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ کوئی یہ نہ کہے کہ تین طلاقوں میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ تینوں تین طہر میں دی گئی ہوں گی اس لئے کہ یہ احتمال خلافِ ظاہر ہے۔علامہ عینی نے عمدۃ القاری اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری (جلد۹ صفحہ ۴۶۹) میں لکھا ہے : ’’ فَالتَّمَسُّکُ بِظَاھِرقَوْلِہٖ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا فَاِنَّہٗ ظَاھِرٌ فِیْ کَوْنِھَا مَجْمُوْعَۃً یَعْنِیْ طَلَاقَھَا ‘‘تینوں طلاقوں کے بیک وقت ہونے میں ظاہر ہے،لہذا ظاہر کو چھوڑ کر بلا وجہ اور بلا قرینہ غیر ظاہر کو اختیا ر نہیں کیا جا سکتا ہے اور لطف یہ ہے کہ امام بخاری نے بھی ’’ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا ‘‘ سے ہر سہ طلاق کا بیک لفظ یا بیک مجلس ہونا ہی سمجھا ہے اس لئے کہ وہ حدیث مذکورہ بالا کو ’’ بَابُ مَنْ اَجَازَ طَلَاقَ الثَّلَاثِ ‘‘کے ماتحت لائے ہیں یعنی وقوع ثلاث مجموع کی دلیل اس حدیث کو قرار د یا ہے۔ ‘‘

( الاعلام المرفوعۃ فی حکم الطلاقات المجموعۃ صفحہ ۱۳)

شارح بخاری حافظ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

            ’’ فَاالتَّمَسُّکُ بِظَاھِر قَوْلِہٖ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا فَاِنَّہٗ ظَاھِرٌ فِیْ کَوْنِھَا مَجْمُوْعَۃً ۔‘‘

 (عمدۃ القاری :۹؍۵۳۷ ، دوسرا نسخہ :۲۰؍۳۳۶)

            ترجمہ: امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال بہ ظاہر ’’ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا ً‘‘کے لفظوں سے ہے اس لیے کہ ظاہر یہ ہے کہ یہ تین طلاقیں اکٹھی تھیں۔

 (۳) غیرمقلدین کو اعتراف ہے کہ حدیث کو محدثین کے فہم کی رو سے سمجھنا چاہیے۔اور انہیں یہ بھی تسلیم ہے کہ حدیث کا راوی اپنی بیان کردہ حدیث کے مطلب کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ محدثین اور راویانِ حدیث نے اس حدیث سے کیا سمجھا؟

 امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے اوپر باب قائم کیا ہے :

’’ بَابُ مَنْ اَجَازَ طَلَاقَ الثَّلَاثِ ‘‘

یعنی جس نے تین طلاقوں کو جائز قرار دیا ہے۔(بخاری ۲؍۷۹۱ )

            حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ’’ فتح الباری ‘‘ اورعلامہ عینی رحمہ اللہ کی ’’ عمدۃ القاری ‘‘ کو بخاری کی مفید ترین شروح قرار دیا گیا ہے۔ ان دونوں شرحوں میں لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کے الفاظ ’’  طَلَّقَ  ثَلَاثًا‘‘سے اکٹھی تین طلاقیں مراد لی ہیں جیسا کہ اوپر باحوالہ منقول ہوا۔

            امام بخاری رحمہ اللہ خود بھی تین طلاقوں کو تین مانتے ہیں،جیساکہ ہم نے خود غیرمقلدین کی کتابوں سے عبارتیں کتاب کے مقدمہ میں نقل کردی ہیں۔

            آگے بڑھنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ ہم یہاں امام بخاری رحمہ اللہ کے تراجم ابواب اور ان کے اقوال کی حیثیت غیرمقلدین کی کتابوں سے نقل کردیں۔

مولانا ابو القاسم بنارسی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ امام بخاری کے اجتہاد کا یہ کمال ہے کہ وہ جون سا باب منعقد کرکے اس کے ذیل میں کوئی حدیث ذِکر کرتے ہیں، اس میں صرف ایک امرسے مطابقت ہوتی ہے، نہ کہ پورری حدیث کے پورے مضامین سے۔ ‘‘

( دفاع بخاری صفحہ ۲۱۷، تقدیم مولانا ارشاد الحق اثری، مولانامحمد عزیر شمس ..تحقیق و تعلیق حافظ شاہد محمود )

            غیرمقلدین اگر زیر بحث حدیث میں ’’ طَلَّقَ ثَلَاثًا‘‘کو اکٹھی تین طلاقوں پہ محمول نہیں کرتے تومذکورہ عبارت کے پیش ِ نظر ترجمۃ الباب سے حدیث کے ایک امر کی مطابقت کیا ہے ،ذرا بتانے کی زحمت کریں ۔

 بنارسی صاحب نے آگے لکھا:

            ’’ امام بخاری کا فتوی تو عین حدیث سے ہوتا تھا، وہ کیا غلط ہو سکے گا؟ ‘‘

(دفاع بخاری صفحہ ۲۲۳)

             اس عبارت کے پیش ِ نظربخاری کے ترجمۃ الباب ’’ اکٹھی تین طلاقوں کا جواز‘‘ کی بابت غیرمقلدین یہ کہنے کو تیار ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ مسئلہ حدیث سے ماخوذ ہے ، وہ کیا غلط ہو سکے گا؟؟

بنارسی صاحب نے مزید لکھا:

            ’’ دنیا میں اَصلی مجتہد صرف امام بخاری ہی ہوئے ہیں، جو واقعی اس قابل ہیں کہ ان کا رتبہ فلک الافلاک سے بھی بالا ہو،ان کے علاوہ باقی اور نام کے مجتہد ضرور تھے۔‘‘

(دفاع بخاری صفحہ ۲۷۷)

             بنارسی صاحب نے سب کو نام نہاد مجتہد قرار دے کر جنہیں’’ اصلی مجتہد‘‘ کا درجہ دیا ہے، اُن کا اجتہاد یہ ہے کہ زیر بحث حدیث میں اکٹھی تین طلاقیں مراد ہیں۔لہٰذا غیرمقلدین کو چاہیے کہ اصلی مجتہد کے مقابلہ میں نہ تو کسی نقلی مجتہد کاقول پیش کریں اور نہ ہی اپنی رائے۔

مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ صحیح بخاری صرف احادیث پر مشتمل نہیں بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ جنہیں سید الفقہاء، افقہ خلق اللہ، فقیہ ھذہ الامۃ، امام الدنیا فی الفقہ کے القاب سے نوازا گیا ہے کہ فقہ کی شہکار ہے اور علماء کا یہ جملہ زبان ِ زَد عام ہے ’’ فقہ البخاری فی تراجمہ‘‘ کہ امام بخاری کی فقہ ان کے تراجم ابواب سے عیاں ہے ۔ہمیں معلوم ہے کہ امام بخاری کے حاسدین کوجس طرح ان کی جلالتِ قدر سے انکار ہے ، اسی طرح ان کی فقہ و اجتہاد سے بھی ناک بھوں چڑھاتے ہیں ۔‘‘

 (تقریظ: عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری صفحہ ۳۹، تالیف : محمد حسین میمن ، ناشر:ادارۃ تحفظ حدیث فاونڈیشن ، اشاعت: ۲۰۱۴ء)

             اثری صاحب نے جنہیں فقاہت میں دنیا کا امام اور سب سے بڑا فقیہ کہا،انہوں نے زیر بحث حدیث سے ایک مجلس کی تین طلاقوں کا تین ہونا سمجھا ہے۔ اثری صاحب کے بقول :’’ حاسدین ان کی فقہ و اجتہاد سے بھی ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔‘‘یہاں بتایا جائے کہ مسئلہ تین طلاق کی بابت غیرمقلدین امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہ سے ناک بھوں چڑھاتے ہیں یانہیں؟

 مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح میں ایک باب کا عنوان تجویز فرماتے ہیں : بَابُ مَنْ اَجَازَ طَلَاقَ الثَّلَاثِ‘‘... اس باب میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ صرف دو واقعات پر مشتمل تین احادیث لائے ہیں۔ ایک واقعہ عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے اور دوسرا رفاعہ قرظی سے متعلق ۔ گویا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تین احادیث ایسی ہیں ، جن سے قائلین تطلیق ثلاثہ استدلال فرما سکتے ہیں‘‘

(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل صفحہ۷۹ )

 حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں اسی مسلک کو اختیار کیا ہے کہ وہ قرآن و حدیث سے شرعی احکام کا استنباط کرتے ہیں ۔ ‘‘

( فتاویٰ اصحاب الحدیث:۲؍۳۰۹)

خواجہ محمد قاسم غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ امام بخاری ؒ نے جو طلاق ثلاثہ واقع ہو جانے کے حق میں باب باندھا ہے تو کیا ہوا...ہو سکتا ہے امام صاحب کی اپنی تحقیق یہی ہو ۔‘‘

( تین طلاقیں ایک وقت میں ایک ہوتی ہے صفحہ ۶۱)

مولانا حمید اللہ غیرمقلدلکھتے ہیں:

            ’’ اکیلے بخاری علیہ الرحمۃ ہی کو اللہ پاک نے اس فن میں وہ مرتبہ عطا فرمایا ہے کہ ان کی مخالفت لوہے کے چنے چبانے ہیں ۔‘‘

 ( فتاویٰ نذیریہ :۱؍۴۲۷)

یہ عبارت اس فتوی کا حصہ ہے جس کی میاں نذیر حسین دہلوی نے تصدیق کی ہے۔

علامہ وحید الزمان غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ قرآن اور صحیح بخاری کے خلاف جو کوئی کہے،اس کو دروغ گو اور کذاب اور مفتری سمجھنا چاہیے۔ یہی دونوں کتابیں ہمارے دین میں اصل الاصول ہیں ہرکتاب کو ان دونوں کتابوں سے جانچنا چاہیے۔ اگر موافق ہوں تو خیر ورنہ کالائے بد بریش خاوند ایسی کتاب کو اس کے مؤلف کے منہ پر پھینک دینا چاہیے ۔ ‘‘

( تیسیر الباری شرح بخاری : ۸؍۲۴۴، تاج کمپنی )

حافظ ابو النضر عبد الرحمن ازہرغیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ مشہور مقولہ ہے کہ ’’ فقہ البخاری فی تراجمہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہ ان کے قائم کردہ ابواب اور ان کی ترجمانی میں ہے کیوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے ابواب اور ان کی ترجمانی کے لیے جو اہتمام کیا ہے، وہ سبھی کے لیے قابل رشک ہیں۔ ‘‘

( اصول الاجتہاد :۱؍۵۲، شعبہ قرآن وسنت کلیۃ معارف اسلامیہ جامعہ کراچی )

 امام بیہقی رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا:

’’ بَابُ مَاجَآءَ فِیْ ٓاِمْضَاءِ الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ وَاِنْ کُنَّ مَجْمُوْعَاتٍ ۔‘‘

یعنی تین طلاقوں کو جاری کردینا اگرچہ وہ تینوں اکٹھی دی گئی ہوں۔

پھر اس باب کے تحت زیر بحث حدیث بھی ذکر کی ہے۔ ( سنن الکبری :۷؍۳۳۳)

            امام بخاری رحمہ اللہ اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے زیر بحث حدیث سے اکٹھی تین طلاقیں دینا سمجھا ہے اور غیرمقلدین کو اعتراف ہے کہ محدثین کرام اپنی بیان کردہ حدیثوں کی مراد کو دوسروں کی بہ نسبت زیادہ سمجھتے ہیں۔

قاضی شوکانی لکھتے ہیں:

’’ رَاوِیُ الْحَدِیْثِ اَعَرَفُ بِالْمُرَادِ مِنْ غَیْرِہٖ۔‘‘

( نیل الاوطار : ۱؍۲۵۶)

 ترجمہ: حدیث کا راو ی اپنی مروی حدیث کی مراد کو اپنے غیر سے زیاد جانتا ہے۔

نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:

            ’’ اِنَّ تَفْسِیْرَ الرَّاوِیِّ اَرْجَحُ مِنْ تَفْسِیْرِ غَیْرِہٖ۔‘‘

(عون الباری :۱؍۲۷۶ علی النیل)

ترجمہ: راوی کی تفسیر دوسروں کی تفسیر سے راجح تر ہے ۔

 مولانا عبد الرحمن مبارک پوری لکھتے ہیں:

            ’ وَقَدْ تَقَرَّرَ اَنَّ رَاوِیَ الْحَدِیْثِ اَدْرٰی بِمُرَادِ الْحَدِیْثِ مِنْ غَیْرِہٖ۔ ‘‘

( تحفۃ الاحوذی : ۱؍۲۵۷)

            ترجمہ: یہ بات طے شدہ ہے کہ حدیث کا راوی اپنی مرو ی حدیث کی مراد کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے ۔

مبارک صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:

            ’’ وَمَذْھَبُ الشَّافِعِیِّ وَمُحَقِّقِی الْاُصُوْلِیِّینَ اَنَّ تَفْسِیْرَ الرَّاوِیِّ مُقَدَّمٌ اِذَا لَمْ یُخَالِفِ الظَّاھِرَ قَالَہُ النَّوَوِیُّ۔ ‘‘

 ( تحفۃ الاحوذی :۲؍۲۳۵)

            ترجمہ: حضرت امام شافعی ؒ اور محقق اصولیوں کا یہ مذہب ہے کہ راوی کی تفسیر جب کہ ظاہر کے خلاف نہ ہو دوسروں کی تفسیر سے مقدم ہوگی جیسا کہ امام نووی ؒ نے کہا ہے ۔

            مذکورہ بالا حوالہ جات حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی کتاب ’’ احسن الکلام صفحہ ۴۷۲ ‘‘ سے منقول ہیں۔

شیخ بدیع الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ قاعدہ مشہور ہے کہ اَلرَّاوِیُّ اَدْرٰی بِمَرْوِیْہِ ۔‘‘

( شرعی طلاق صفحہ ۲۰)

راوی اپنی مروی روایت کو زیادہ جانتا ہے ۔

شیخ ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ ہمیں اس اصول سے انکار نہیں کہ راوی حدیث اپنی مروی حدیث کا مفہوم دوسروں سے بہتر جانتا ہے مگر ...وہ مفہوم ظاہر روایت کے خلاف نہ ہو۔ ‘‘

( توضیح الکلام صفحہ ۱۵۵، اشاعت: ۲۰۰۵ء ، ادارۃ العلوم الاثریہ فیصل آباد )

یاد رہے کہ زیر بحث حدیث میں راوی کا بیان کردہ مطلب ظاہرِ حدیث کے ہرگز خلاف نہیں۔

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلدلکھتے ہیں:

’’ اور یہ ظاہر ہے کہ فقہائے محدثین اپنی بیان کردہ احادیث کا تفقہ سب سے زیادہ جانتے ہیں ۔ ‘‘

( علمی مقالات : ۳؍۸۳)

علی زئی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ محدثین کرام ہی اپنی روایات کو سب سے بہتر جانتے ہیں۔ ‘‘

( فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام :۱؍۳۷۷)

علی زئی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ محدثین کے مقابلہ میں چودہویں صدی والے ...کی کون سنتا ہے ؟‘‘

( علمی مقالات :۳؍۱۸۹)

            حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد بھی چودہویں صدی کے ہیں،علی زئی اصول کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ اور امام بیہقی رحمہ اللہ کے مقابلہ میں اُن کی بات کسی کو نہیں سننی چاہیے۔

علی زئی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’حدیث مذکور سے درج ذیل سلف صالحین نے تکبیراتِ عیدین پر استدلال کیا ہے: (۱)امام بیہقی رحمہ اللہ ... (۲)امام محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابور ... سلف صالحین میں سے کسی نے بھی اس استدلال کا رَد نہیں کیا، لہذا محدث مبارک پوری اور محدث البانی رحمہما اللہ کا نظریہ سلف صالحین کے استدلال کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔ ‘‘

( علمی مقالات :۲؍۱۷۵)

            اس عبارت کے پیش نظر ہم بھی کہتے ہیں کہ زیر بحث حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے ایک مجلس کی تین طلاقیں سمجھی ہیں اوراسلام کی پہلی سات صدیوں کے سلف صالحین میں سے کسی نے بھی ان کا رَد نہیں کیا، لہذا حکیم محمد صفدر عثمانی وغیرہ غیرمقلدین کی رائے فہم ِسلف صالحین کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

            سوال ہے کہ عیدین کی تکبیروں میں دو محدثوں کا استدلال عمل کے لئے کافی ہے تو مسئلہ تین طلاق میں کیوں نہیں؟

علی زئی صاحب نے اپنے استاد شیخ بدیع الدین راشدی غیرمقلد کا رَد کرتے ہوئے لکھا:

            ’’ محدثین کرام جو فہم حدیث کے سب سے زیادہ ماہر تھے، انہوں نے بھی اس حدیث

سے عدم بسم اللہ کی بجائے عدم ِ جہر مراد لیا ہے ۔مثلاً: حافظ بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر درج ذیل باب باندھا ہے :بَابٌ مَّنْ قَالَ لَا یَجْھَرُ بِھَا، باب: جو کہتا ہے کہ اسے جہرا نہیں پڑھنا چاہیے۔(السنن الکبری :۲؍۵۰)نیز ان سے پہلے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس مسئلے کو صراحت سے بیان کیا ہے۔ ‘‘

 ( فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام : ۳؍۱۸۹، مکتبہ اسلامیہ ، سن اشاعت: ۲۰۱۵ء )

            یہی بات ہم کہتے ہیں کہ زیر بحث حدیث سے امام بیہقی رحمہ اللہ نے اکٹھی تین طلاقیں سمجھا ہے اور اُن سے پہلے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر بَابُ مَنْ اَجَازَ طَلَاقَ الثَّلَاثِ قائم کیا ہے بلکہ مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد نے تصریح کی ہے سات صدیوں کے محدثین میں سے کسی سے بھی تین طلاقوں کو ایک کہنا ثابت نہیں۔ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

            ’’صحابہ و تابعین و تبع تابعین سے لے کر سات سو سال تک کے سلف صالحین:صحابہ و تابعین و محدثین سے تو تین طلاق کا ایک مجلس میں واحد شمار ہونا تو ثابت نہیں۔‘‘

 ( فتاوی ثنائیہ :۲؍۲۱۷، اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )

علی زئی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ سلف صالحین (محدثین کرام، روایان ِ حدیث ) نے حدیث کی جو تفسیر اور مفہوم بیان کیا ہوتا ہے، اُسے ہمیشہ مد نظر رکھا جاتا ہے بشرطیکہ سلف کے مابین اس مفہوم پر اختلاف نہ ہو۔[ اس کے بعد علی زئی صاحب نے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اور امام ابن المنذر رحمہ اللہ کے تراجم ابواب درج کرکے لکھا(ناقل)] ان دونوں محدثین کرام کی تبویب سے معلوم ہوا کہ اس حدیث میں ’’ اَھْلَ دَارِھَا‘‘ سے مراد عورتیں ہیں، مرد نہیں ۔ ‘‘

 ( فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام : ۱؍۲۸۸)

            اگر دو محدثین: امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اور امام ابن المنذر رحمہ اللہ کے تراجم ابواب سے حدیث کا مطلب متعین ہو سکتا ہے تو دو محدثین : امام بخاری رحمہ اللہ اور امام بیہقی رحمہ اللہ کے تراجم ابواب حدیث کی مراد سمجھنے کے لیے کافی کیوں نہیں؟

            حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد کی ضیافتِِ طبع کے لیے غیرمقلد ین کے ’’ محدث العصر ‘‘ شیخ زبیر علی زئی کی کچھ اور عبارتیں پیش کرتے ہیں ۔

علی زئی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ حدیث کو سمجھنے کے لیے اسلاف کی طرف رجوع کرو...جو لوگ اسلاف کی طرف رجوع نہیں کرتے وہ قرآن و حدیث میں خود ساختہ تاویل و تحریف کرکے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ ‘‘

 ( اشاعۃ الحدیث ، اشاعت ِ خاص بیاد حافظ زبیر علی زئی صفحہ ۲۱)

علی زئی صاحب مزید لکھتے ہیں:

            ’’ اپنے ہی اصول خود توڑ کر پاش پاش کردینا مذہبی خود کُشی کی بدترین مثال ہے ۔ ‘‘

( فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام : ۳؍۲۵۶)

             حکیم صفدر عثمانی وغیرہ آلِ غیرمقلدیت سے ہم کہتے ہیں کہ اپنے بیان کردہ اصول کے مطابق مسئلہ تین طلاق کو فہم محدثین اور فہم اسلاف کے مطابق حل کریں ورنہ اصول توڑنے کا حکم علی زئی صاحب بیان کر چکے ہیں۔

علی زئی صاحب کی ایک اور عبارت بھی ملاحظہ ہو:

            ’’متقدمین کے مقابلے میں متاخرین کی بات کب قابلِ مسموع ہو سکتی ہے؟ ‘‘

 ( نور العینین صفحہ ۱۳۷، طبع جدید، سن اشاعت : اکتوبر ؍ ۲۰۱۲ء )

            اس لئے ہم اُمیدکرتے ہیں کہ حکیم صاحب امام بخاری رحمہ اللہ اور امام بیہقی رحمہ اللہ کے خلاف کسی متاخر کی بات پیش نہیں کریں گے۔

            حکیم صاحب کہتے ہیں کہ حدیث زیر بحث حدیث میں اکٹھی تین طلاقوں کا لفظ نہیں ۔ مگر خود اپنے دعوی :اکٹھی تین طلاقوں کے ایک ہونے پر صحیح مسلم کی حدیث درج کی ہے، اس میں بھی ایک مجلس کی صراحت نہیں۔انہوں نے اس حدیث کو اپنے دلائل میں نہ صرف شامل کیا بلکہ اسے پہلا نمبر دیا۔ مزید یہ کہ حدیث نقل کرتے ہوئے تاثر دیا کہ ’’ایک مجلس ‘‘ الفاظ بھی حدیث کے ہیں۔ملاحظہ ہو:

’’ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ ‘‘

(احسن الابحاث صفحہ۵۱)

             غیرمقلدین کے بیہقی وقت مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد نے بھی اس کا اعتراف کیاکہ اس حدیث میں ’’ مجلس واحد ‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں ۔

چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’ اس میں مجلس واحد کا ذکرہی نہیں ۔‘‘

( فتاوی ثنائیہ :۲؍۲۱۶، اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )

            حاصل یہ کہ حکیم صاحب دوسروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک مجلس کی تصریح دکھاؤ لیکن خود ایسی حدیث کو پہلا نمبر دیا جس میں ایک مجلس کی صراحت نہیں ۔

            حکیم صاحب کہتے ہیں کہ حدیث میں اکٹھی تین طلاقوں کی تصریح نہیں ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ اگر حدیث میں صریح لفظ موجود ہو تو کیا آپ مان لیاکرتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ! ہم پہلے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کیا کرتے تھے اور اب ہم تیرے نبی کے چچا کا وسیلہ دیتے ہیں ۔

(بخاری : ۱؍۱۳۷، حدیث:۱۰۱۰ )

حدیث میں وسیلہ کا لفظ صریح ہے، پھر بھی شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے کہا:

’’ اس حدیث میں توسل سے مراد زندہ آدمی کی دعا ہے۔ ‘‘

( توضیح الاحکام : ۳؍۴۷۱)

            حدیث میں وسیلہ کے لیے صریح لفظ ہونے کے باوجود علی زئی صاحب نے اسے تاویل کی نذر کر دیا۔اور یہی تاویل دیگر کئی غیرمقلدین نے لکھی ہوئی ہے ۔

 دوسرا اعتراض:

حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ حضرت رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو بتہ یعنی مختلف اوقات میں تین طلاقیں دی تھیں۔ ‘‘

(احسن الابحاث صفحہ ۳۰)

الجواب:

 (۱) حضرت مولاناحبیب الرحمن اعظمی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ یہ شبہ بھی نہ کرنا چاہیے کہ حدیث مذکور میں رفاعہ قرظی کا واقعہ مذکور ہے،اس لئے کہ یہ محض بے دلیل بات ہے اور واقعے یقینا متعدد ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر نے خود فتح الباری میں اس پر متنبہ فرمایا ہے تو خوامخواہ رفاعہ قرظی کے قصے پر محمول کرنا تحکم ہے ۔ ‘‘

 ( الاعلام المرفوعۃ فی حکم اللاقات المجموعۃ صفحہ ۱۲)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

            ’’ فَالتَّمَسُّکُ بِظَاھِرقَوْلِہٖ﴿ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا﴾ فَاِنَّہٗ ظَاھِرٌ فِیْ کَوْنِھَا مَجْمُوْعَۃً وَسَیَأْتِیْ فِیْ شَرْحِ قِصَّۃِ رِفَاعَۃَ اَنَّ غَیْرَہٗ وَقَعَ لَہٗ مَعَ امْرَاَتِہٖ نَظِیْرُ مَا وَقَعَ لِرِفَاعَۃَ فَلَیْسَ التّعَدُّدُ فِیْ ذٰلِک بِبَعِیْدٍ۔‘‘

(فتح الباری :۹؍۲۸۰ )

            ترجمہ: استدلال حدیث کے ظاہری الفاظ ’’ ٖ﴿ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا﴾‘‘ سے ہے اس لیے کہ بظاہر وہ اکٹھی تین طلاقیں تھیں اور عن قریب قصہ رفاعہ کی شرح میں آئے گا کہ رفاعہ کے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی وہی معاملہ پیش آیا جو رفاعہ کو پیش آیا۔ پس تعدد واقعات قرار دینا بعید نہیں۔

            (۲) مزید یہ کہ بتہ کامعنی ’’پختہ ‘‘ہے اورجو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی جاتی ہیں وہ بھی پختہ ہوتی ہیں۔لہذا البتہ کا لفظ اکٹھی تین طلاقوں کے خلاف نہیں ہے۔

            حافظ عبد الغفور غیرمقلد (خطیب جامع مسجد اہلِ حدیث سرگودھا )نے طلاق کی دوقسموں : طلاقِ بائنہ اور طلاقِ مغلظہ کی تعریف لکھنے کے بعد ’’طلاقِ بتہ ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھا:

’’بتہ کے لفظی معنیٰ کاٹنے کے ہیں ہر وہ طلاق جس سے نکاح ٹوٹ جائے اور میاں بیوی کا تعلق ختم ہو جائے، اسے طلاقِ بتہ کہتے ہیں مذکورہ دونوں اقسام پر طلاق بتہ کا بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ‘‘

 (البیان المحکم صفحہ ۱۳)

مولانا صفی الرحمن مبارک پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’طلاق البتہ یہ ہے کہ طلاق دینے والا ﴿انت طالق البتۃ ﴾کہے اور البتۃ، البت سے

ماخوذ ہے جس کا معنی قطع کرنے اور کاٹنے کے ہیں ، گویا وہ اس طرح کہتا ہے کہ میں نے تجھے ایسی طلاق دی جس نے نکاح کو قطع کر دیا ہے، کاٹ کر رکھ دیا ہے، اَب اس نے رجوع کا موقع نہیں چھوڑا۔‘‘

 ( اتحاف الکرام شرح بلوغ المرام اردو:۲؍ ۷۰۱، مترجم مولانا عبد الوکیل علوی ، دار السلام لاہور)

            حافظ عبد الغفورغیرمقلد اور مولانا صفی الرحمن مبارک پوری غیرمقلد کی تصریح کے مطابق طلاق بتہ بائنہ طلاق کو کہتے ہیں جس میں رجوع کی گنجائش نہیں ہوتی۔

             مزید یہ کہ متعد د غیرمقلدین نے واضح طور پر دعویٰ کیا ہے کہ طلاق البتہ اکٹھی دی جانے والی تین طلاقوں کو کہتے ہیں۔ چند حوالے ملاحظہ ہوں ۔

رئیس محمد ندوی غیرمقلدنے طلاقِ بتہ کے متعلق لکھا:

            ’’اس سے مراد ایک مجلس کی تین ہی طلاقیں ہیں کیوں کہ اہلِ مدینہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو طلاق بتہ کے نام سے موسوم کیا کرتے تھے۔‘‘

( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۳۸۲)

ندوی صاحب اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

            ’’ اہلِ مدینہ کی اصطلاح میں ایک وقت کی طلاق ثلاثہ کو طلاق بتہ کہا جاتا تھا۔ ‘‘

( سلفی تحقیقی جائزہ صفحہ ۵۲۱)

ندوی صاحب نے آگے لکھا:

            ’’دیوبندیہ نے غیرمقلد عالم شارح دارقطنی علامہ شمس الحق کی یہ بات ... نقل کی کہ اہلِ مدینہ تین طلاقوں کو طلاق بتہ کہتے ہیں۔ ‘‘

 ( سلفی تحقیقی جائزہ صفحہ ۵۲۴)

مولانا داود ارشد غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’اہلِ مدینہ طلاق ثلاثہ کو طلاق بتہ کہتے تھے ... اس لحاظ سے مدنی عرف کے مطابق حدیث رکانہ کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے بیوی کومجلس واحد میں تین طلاقیں دی تھیں ۔‘‘

 (دین الحق :۲؍۶۵۶، مکتبہ غزنویہ لاہور ، تاریخ اشاعت:دسمبر ۲۰۰۱ء)

 اگلے صفحہ پہ لکھا:

            ’’بتہ سے مراد ایک دم دی گئی تین طلاقیں ہیں ۔‘‘

(دین الحق :۲؍۶۵۷، مکتبہ غزنویہ لاہور ، تاریخ اشاعت:دسمبر ۲۰۰۱ء)

            سنن دارمی ،باب فی طلاقِ البتۃ ،حدیث: ۲۳۱۸میں ہے صحابی نے اپنی بیوی کو طلاق ِ بتہ دی ۔ اس کی شرح میں مولانا عبد المنان راسخ غیرمقلد نے لکھا:

            ’’ ثابت ہوا کہ ایک مجلس میں اکٹھی دی گئیں تین طلاقیں ایک ہی شمارہوں گیں۔ ‘‘

 ( سنن الدارمی مترجم: ۲؍۲۰۱)

            راسخ ٓصاحب نے طلاق بتہ کا مصداق اکٹھی تین طلاقوں کو قرار دیا ۔ اس کتاب پہ نظرثانی : ’’شیخ الحدیث قاری سعید احمد کلیروی ، حافظ مطیع اللہ‘‘ لکھا ہواہے ۔

 مسعوداحمد غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’رکانہ نے کاٹنے والی طلاق دی یعنی تین طلاقیں دیں...صحیح یہی ہے کہ البتۃ کے معنی تین ہی کے ہیں، نہ کہ ایک کے ۔‘‘

 (مجلس ِ واحد میں تین طلاقیں ایک کیوں نہیں؟صفحہ:۱۸)

 دوسری حدیث:

            سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنی بیوی سے لعان کیا پھر کہا:

            ’’ کَذَبْتُ عَلَیْھَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنْ اَمْسَکْتُھَا فَطَلَّقَھَا ثَلَاثًا قَبْلَ اَنْ یَّاْمُرَہٗ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَّ ۔‘‘

            اے اللہ کے رسول!اگر میں اس کو اپنے پاس روکے رکھوں پھر تو میں نے اس پر جھوٹ بولا۔ پھر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم فرمانے سے پہلے ہی اس کو تین طلاقیں دے دیں۔ (بخاری ۲؍۷۹۱)

             یہاں پہلے لعان کا مسئلہ سمجھ لیجئے! اگر خاوند اپنی بیوی پر صراحتاً زنا کی تہمت لگادے تو اس صورت میں خاوند بیوی دونوں لعان کرتے ہیں، بشرطیکہ لعان کی شرطیں پوری پائی جائیں۔ان شرطوں کی مکمل تفصیل اور عدالتی کاروائی کا پورا طریقہ فقہ میں مذکور ہے۔ لعان یہ ہے کہ پہلے مرد چار مرتبہ کہے : میں اللہ کی قسم کھا کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی فلاں بنت فلاں پرجو زنا کی تہمت لگائی ہے میں اس میں سچا ہوں۔پانچویں مرتبہ اپنی مذکورہ قسم اور گواہی کے بعد یہ الفاظ بھی کہے کہ اگر میں اپنی اس بیوی پر تہمت لگانے میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ اس کے بعد عورت چار مرتبہ کہے :میں اللہ کی قسم کھا کر گواہی دیتی ہوں کہ میرا شوہر مجھ پر زنا کی تہمت لگانے میں جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ مذکورہ قسم اور گواہی کے ساتھ یہ بھی کہے کہ اگر میرا شوہر مجھ پر زنا کی تہمت لگانے میں سچا ہو تو میرے اوپر اللہ کا غضب ہو ۔ جب خاوند بیوی دونوں نے لعان کر لیا تو اس لعان میں نکاح ختم نہیں ہوتا لیکن مذکورہ بالا مرفوع حدیث کے مطابق لعان کرنے والے مرد و عورت نکاح میں دوبارہ کبھی بھی جمع نہیں ہو سکتے،اس لئے یا قاضی خاوند وبیوی کے درمیان تفریق کر دے یعنی نکاح فسخ کر دے یا خاوند اپنی اس بیوی کو قاضی کے سامنے اکٹھی تین طلاقیں دے دے جیسا کہ عویمر عجلانی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اکٹھی تین طلاقیں دیں۔

 ( حرام کاری سے بچئے صفحہ ۸۶)

             سیدنا عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے اور آپ کی موجودگی میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ اگر تین کا شرعاً اعتبار نہ ہو اور تین طلاقیں ایک طلاق کے حکم میں ہوں تو اس جزو میں آپ ضرور حکم فرماتے اور کسی طرح خاموش نہ رہتے ۔

حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر حمہ اللہ نے لکھا:

            ’’ آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دفعۃً تین طلاقوں کے صادر کرنے پر گرفت اور انکار نہ کرنا ان کے وقوع کی دلیل ہے اور استدلال صرف اسی جزو سے ہے ۔ ‘‘

 ( عمدۃ الاثاث صفحہ ۵۷)

            امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث لعان سے تین طلاقوں کا واقع ہونا سمجھا ہے۔ مولانا ابو القاسم سیف بنارسی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ امام بخاری نے ’’ بَابُ مَنْ اَجَازَ طَلَاقَ الثَّلَاثِ‘‘ منعقد کرکے اختلاف بتلایا ہے کہ بعض کے نزدیک تین طلاقیں ایک طہر کی تین ہی ہوتی ہیں ، بدلیل حدیث لعان ’’ فَطَلَّقَھَا ثَلَاثًا قَبْلَ اَنْ یَّاْمُرَہٗ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَّ ۔‘‘ (گو بعض کا یہ استدلال فی نفسہ مسلّم نہیں ) اور بعض کے نزدیک تین طلاقیں تین طہر کی ہوتی ہیں، نہ کہ ایک طہر کی، بدلیل حدیث زوجہ رفاعہ قرظی ۔‘‘

 ( دفاع صحیح بخاری صفحہ ۳۶۷، تقدیم مولانا ارشاد الحق اثری، مولانامحمد عزیر شمس ...تحقیق و تعلیق حافظ شاہد محمود )

قوسین کی عبارت بھی ’’دفاع بخاری‘‘ کتاب کی ہے، میری نہیں ۔

بنارسی صاحب نے یوں بھی لکھا:

            ’’ امام بخاری رحمہ اللہ کی فقاہت اور اجتہادات بے شک صحیح بخاری کے ترجمۃ الابواب میں ہیں اور صحیح بخاری میں کوئی بھی ایسی حدیث نہیں جس کو اس کے باب سے تعلق نہ ہو، لیکن اس کو معلوم کرنے کے لیے مردِ دانا و عقل بینا ہونا چاہیے۔ ‘‘

 ( دفاع صحیح بخاری صفحہ ۲۱۷، تقدیم مولانا ارشاد الحق اثری، مولانامحمد عزیر شمس. ..تحقیق و تعلیق حافظ شاہد محمود )

            بنارسی صاحب کادعویٰ ’’ صحیح بخاری میں کوئی بھی ایسی حدیث نہیں جس کو اس کے باب سے تعلق نہ ہو‘‘ کے پیش ِ نظر یہ کہنا بجا ہے کہ حدیث ِ لعان سے ایک مجلس کی تین طلاقوں کا تین واقع ہونا ثابت ہے ۔ بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ کا قائم کردہ باب ’’ اکٹھی تین طلاقیں دینے کا جواز ‘‘ ہے ۔ اس لئے بنارسی صاحب کے مذکورہ دعوی کی رُو سے یہ کہنا درست ہوگا کہ حدیث ِ لعان اکٹھی تین طلاقیں دینے کے جواز کی دلیل ہے ۔ ورنہ مذکورہ دعویٰ ’’صحیح بخاری میں کوئی بھی ایسی حدیث نہیں جس کو اس کے باب سے تعلق نہ ہو۔‘‘ کی کوئی حقیقت نہیں۔

            بنارسی صاحب نے کہا:بخاری کی حدیث اور ترجمۃ الباب میں مناسبت معلوم کرنے کے لیے مردِ دانا و عقل بینا ہونا چاہیے۔ ‘‘ عرض ہے کہ غیرمقلدعلماء خود کومردِ دانا اوراپنی عقل کو ’عقل ِ بینا ‘‘ سمجھتے ہیں تو انہیں حدیث ِ لعان کی ترجمۃ الباب کے ساتھ مناسبت سمجھ آ جانی چاہیے۔

بنارسی صاحب مزید لکھتے ہیں:

            ’’ بے شک امام بخای رحمہ اللہ کی فقاہت صحیح بخاری کے ترجمۃ الابواب میں ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے جیسا ترجمۃ الباب قائم کیا ، تمام دنیا اس پر حیران ہے ، محدثین عش عش کر

اُٹھتے ہیں اور حاسدین نکتہ چینی ۔ ‘‘

 ( دفاع صحیح بخاری صفحہ ۲۲۱، تقدیم مولانا ارشاد الحق اثری، مولانامحمد عزیر شمس ...تحقیق و تعلیق حافظ شاہد محمود )

            بنارسی صاحب کی اس عبارت کے پیش نظریہ کہنا بجا ہوگا کہ امام بخاری کے ترجمۃ الباب ’’اکھٹی تین طلاقوں کا جواز ‘‘ پہ محدثین عش عش کر اُٹھے ہوں گے اور حاسدین نکتہ چینی میں مصروف ہیں ۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بخاری کے ترجمۃ الباب ’’ من اجازالطلاق الثلاث ‘‘ پہ نکتہ چینی کرنے والے حاسدین میں خود غیرمقلدین شامل ہیں یا نہیں ؟ کیا انہیں اس ترجمۃ الباب میں ذکر کیا گیا مسئلہ قبول ہے؟

پڑھتے جائیں :

            ’’ امام بخاری کا فتوی تو عین حدیث سے ہوتا تھا، وہ کیا غلط ہو سکے گا؟‘‘

( دفاع صحیح بخاری صفحہ۲۳ ۳، تقدیم مولانا ارشاد الحق اثری، مولانامحمد عزیر شمس. ..تحقیق و تعلیق حافظ شاہد محمود )

            اگر امام بخاری رحمہ اللہ کا فتوی عین حدیث سے ہوتا تھا اور وہ غلط نہیں ہو سکتا تو ان کا ایک مجلس کی تین طلاقوں کے واقع ہونے کا موقف بھی حدیث سے ہے اور وہ بھی غلط نہیں۔

پڑھئے :

            ’’ امام بخاری کی فقاہت ان کے ترجمہ باب سے معلوم ہوتی ہے، لیکن سمجھنے کو عقل کامل اور دیکھنے کو چشم ِ بینا چاہیے۔ امام بخاری کے فہم اور دماغ کے مقابلہ میں آج تک کسی کا فہم و دماغ ظاہر نہیں ہوا۔ ‘‘

 ( دفاع صحیح بخاری صفحہ۲۸۰، تقدیم مولانا ارشاد الحق اثری، مولانامحمد عزیر شمس. ..تحقیق و تعلیق حافظ شاہد محمود)

            غیرمقلدین تو بزعم خود عقل کامل اور چشم ِ بینا رکھتے ہیں تو انہیں حدیث ِلعان کی مطابقت ترجمۃ الباب کے ساتھ سمجھ آنی چاہیے ۔

پڑھیں:

            ’’ہاں صاحب ہاں! امام بخاری کے اجتہاد و فقاہت پر عنوان ابواب ہی شاہد کامل ہے، آپ [کسی بریلوی کو خطاب ہے (ناقل ) ] نے چوں کہ مدرسہ اہلِ حدیث کو چھوڑ دیا اور تعصب کی پٹی کھول کر صحیح بخاری نہیں پڑھی، اس لئے آپ کی ظاہر نظر میں ترجمہ باب حدیث سے بے لگاؤ معلوم ہوتا ہے اور مطابقت ظاہر نہیں ہوتی، سنئے مطابقت دینی ہر کہ و مہ کا کام نہیں ہے، صرف خاص لوگ جو اِس فن میں مہارت تامہ رکھتے ہیں، انہیں کو مطابقت معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘

( دفاع صحیح بخاری صفحہ ۲۸۱، تقدیم مولانا ارشاد الحق اثری، مولانامحمد عزیر شمس ..تحقیق و تعلیق حافظ شاہد محمود )

            غیرمقلدین نے اہلِ حدیث مدرسہ میں پڑھا،انہیں غیرمتعصب ہونے کا دعوی بھی ہے۔اور فن میں مہارت کے مدعی بھی ہیں ،تو انہیں حدیث ِلعان کی ترجمۃ الباب کے ساتھ مطابقت ضرور سمجھ آجانی چاہیے، ورنہ بریلوی کو کیا گیا وعظِ مذکور خود کو سنانا پڑے گا۔

پڑھئے :

            ’’ ہاں ہاں اِمام ہمام نے دنیا کو اجتہاد کا ڈھب اور طریقہ بتلایا، ان کے جیسا اجتہاد کسی کا پیش تو کرو! اَصل یہ ہے کہ تم نے صحیح بخاری کما حقہ نہیں پڑھی، اس لئے تم کو ساری بخاری کے عنوان ِ باب کی اس کی حدیثوں سے مطابقت معلوم نہیں ہوتی ۔ ‘‘

( دفاع صحیح بخاری صفحہ۲۸۶، تقدیم مولانا ارشاد الحق اثری، مولانامحمد عزیر شمس ..تحقیق و تعلیق حافظ شاہد محمود )

            اگر غیرمقلدین اس مقام پر حدیث ِلعان کے مضمون کو ترجمۃ الباب کے مطابق نہیں مانتے تو بریلوی پہ کسے گئے مذکورہ بالا جملے خود اُن پہ چسپاں ہو جائیں گے ۔

اعتراض:

اگرتین طلاقوں کا وقوع حدیث سے ثابت ہے تو  تین طلاقیں دینا بدعت کیوں ہے ؟

            اوپر’’ عمدۃ الاثات‘‘ سے حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی عبارت منقول ہے۔حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا:

            ’’ یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیوں کہ وہ خود اسے بدعت حرام اور گناہ کہتے ہیں۔اگر آپ کی خاموشی دلیل مان لیں تو پھر بدعت، حرام اور گناہ والا فتویٰ اس خاموشی کے خلاف ہوگا۔آخر دونوں باتوں میں سے ایک کو تو چھوڑنا ہوگا ۔‘‘

( احسن الابحاث صفحہ ۳۲)

جواب:

حضرت مولانا منیر احمد منور صاحب دام ظلہ لکھتے ہیں:

            ’’حدیث بالا میں ہے عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ اور اس کی بیوی نے دربارِ نبوت میں لعان کیا، لعان کرنے کے بعد عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول َ اللہ ! اگر میں لعان کے بعد اس عورت کو اپنے پاس رکھوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے زنا کی تہمت لگانے میں جھوٹ بولا ہے، لہذا میری طرف سے اس کو تین طلاقیں ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سکوت سے دو چیزوں کی تصدیق کردی ۔(۱)…… لعان سے نکاح ختم نہیں ہوتا کیوں کہ اس پر اجماع ہے کہ طلاق نکاح والی عورت کو دی جاتی ہے۔ اگر لعان سے نکاح ختم ہو جاتا تو عویمر ؓ اپنی بیوی کو لعان کے بعد طلاق نہ دیتا اور اگر لعان سے نکاح ختم ہو جاتا ہے تو عویمر رضی اللہ عنہ کے طلاق دینے سے بقاء نکاح کا شبہ ہوتا ہے۔ نیز اس صورت میں طلاق دینا ہے بھی غلط، اس لئے اس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منصب نبوت کے مطابق ضرور اس غلطی پر عویمر ؓ کو تنبیہ فرماتے اور بقاء نکاح کے شبہ کو دُور کرتے اور خاموش نہ رہتے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی دلیل ہے لعان کے بعد بقاء نکاح پر۔ اسی لئے لعان کے بعد ضروری ہے کہ یا قاضی خاوند بیوی کے درمیان فسخ نکاح کا فیصلہ کرکے ان کو جدا کر دے یا خود خاوند قاضی کے سامنے اکٹھی تین طلاقیں دے کر عورت کو جدا کر دے۔ (۲)…… تین طلاقیں اکٹھی واقع ہو جاتی ہیں اور اس کے ساتھ خاوند بیوی ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے سامنے پیش آمدہ امر پر سکوت کو علم ِ حدیث کی اصطلاح میں حدیث تقریری کہا جاتا ہے۔پس اس حدیث تقریری سے اکٹھی تین طلاقوں کا وقوع ثابت ہوا اور اکٹھی تین طلاقوں کا معصیت ہونا اس محل میں ہے جہاں رجوع کی یا بغیر حلالہ کے دوبارہ نکاح کی گنجائش ہو، پھرکوئی آدمی اکٹھی تین طلاقیں دے کر اپنے لئے رجوع یا دوبارہ نکاح کا راستہ بندکر لے اور چوں کہ لعان کے بعد مرد و عورت کبھی بھی دوبارہ جمع نہیں ہو سکتے اس لئے لعان کے بعد اکٹھی تین طلاقیں دینا معصیت نہیں ہے۔اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکٹھی تین طلاقوں پریہاں سکوت فرمایا جب کہ محمود بن لبید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آپ کے غضب ناک ہونے کا ذِکر ہے کہ وہاں پر شرعی طریقہ طلاق کے بعد رجوع یا دوبارہ نکاح کرنے کی گنجائش باتی تھی مگر تین اکٹھی طلاقوں سے یہ گنجائش ختم ہو گئی،اس لئے آپ نے اس پر غصہ کا اظہار فرمایا۔ ‘‘

( حرام کاری سے بچئے صفحہ ۸۷)

            مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلدنے لعان کے بعد طلاقیں دینے کے فعل کو ’’ عبث ‘‘ قرار دیا۔ پھر لکھا:

            ’’اَب رہا یہ سوال کہ اگر حضرت عویمر رضی اللہ عنہ کا یہ فعل عبث تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش کیوں رہے ؟ اس کے دو عدد جوابات ممتاز حنفی عالم شمس الائمہ سرخسی کی زبانی سنئے جو اُنہوں نے اپنی تالیف ’’ مبسوط ‘‘ میں بیان فرمائے ہیں ...[دوسرا جواب یہ ہے۔(ناقل )]تین طلاقیں ایک ساتھ دینا اس لئے مکروہ ہے کہ تلافی کا دروازہ بلا ضرورت بند ہو جاتا ہے اور حضرت عویمر رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں یہ بات موجود نہیں، کیوں کہ لعان کرنے والے جب لعان پر مصرہوں تو تلافی کا دروازہ یوں بند ہوتا ہے کہ پھر کبھی کھل نہیں سکتا اور عویمر رضی اللہ عنہ اس بات پر مصر تھے ۔ ‘‘

( ایک مجلس کی تین طلاقیں اوراُن کا شرعی حل صفحہ۶۰)

            حکیم محمد صفدر عثمانی نے اعتراض کیا کہ اکٹھی تین طلاقیں دینے کو بدعت ، حرام اور گناہ کہتے ہو اورپھر ان کا وقوع بھی مانتے ہوان دونوں میں سے ایک بات کو چھوڑنا پڑے گایعنی یا اسے بدعت حرام اورگناہ نہ کہو یا اسے واقع نہ مانو۔

            جناب!دو مسئلے الگ الگ ہیں ایک ہے اکٹھی تین طلاقیں دینا۔ اور دوسرا ہے اکٹھی دی گئی تین طلاقوں کا

واقع ہوجانا ۔ ہم اکٹھی تین طلاقیں دینے کو ممنوع کہتے ہیں ، نہ کہ تینوں کے واقع ہونے کو۔ کوئی عمل شرعی طور پر ناجائز ہوتا ہے مگر جب کوئی اس کا ارتکاب کرلے تو اس پر اگلا حکم مرتب ہوجاتا ہے۔ اس کی تفصیلی اور باحوالہ بحث ہماری اسی کتاب کے ’’باب نمبر :۱۶ ... غیر شرعی ؍ بدعی طلاق کا وقوع ، غیرمقلدین کی زبانی۔‘‘ میں ہے۔

             جو سوال حکیم صاحب نے اپنے مخالف پر کیا،وہی سوال غیرمقلدین پر ہوتا ہے کہ وہ حالتِ حیض میں طلاق دینے کو بدعت، حرام اور گناہ بھی کہتے ہیں اور اس کا واقع ہونا بھی مانتے ہیں۔ خود حکیم صاحب نے لکھا:

 ’’ حیض میں ایک طلاق واقع ہونے کی دلیل صحیح بخاری و دیگر کتب احادیث میں موجود ہے۔‘‘

( احسن الابحاث صفحہ ۱۲)

            حکیم صاحب کو اپنے اصول کو مطابق ایک چیز کو چھوڑنا دینا چاہیے تھا، یا حالتِ حیض میں طلاق دینے کو بدعت ، حرام اور گناہ نہ کہتے یا پھر اس کا وقوع نہ مانتے۔کیوں کہ ان نزدیک کسی کام کو گناہ ، بدعت اور حرام مان کر اسے واقع ماننا غلط بلکہ بہت بڑا ظلم ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

            ’’ معمولی عقل والا بھی جانتا ہے کہ حرام، گناہ او ربدعت وہی کام ہوتا ہے جس کا کتاب و سنت میں ثبوت نہ ہو ۔اگر کتاب و سنت سے ثابت بھی ہو اور اسے بدعت ، حرام اور گناہ بھی کہا جائے تو یہ ظلم عظیم ہے کیوں کہ بدعت ، حرام اورگناہ کے ارتکاب کا کتاب وسنت میں حکم نہیں آ سکتا۔اس کے برعکس شریعت نے بدعت کو گمراہی اور جہنم کا سبب بتایا ہے ۔ ‘‘

( احسن الابحاث صفحہ ۱۳)

 ایک اور اعتراض :

سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ کی طلاقیں غیر محل میں ہونے کی وجہ سے لغوتھیں

             سیدنا عویمررضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کا نکاح لعان کی وجہ سے ختم ہو چکا تھا،اس لیے ان کی طرف سے دی گئی تین طلاقیں لغو اور کالعدم شمار ہوئیں۔حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ صرف لعان ہی سے میاں بیوی کے درمیان تفریق واقع ہو جاتی ہے، اس لیے حصول تفریق کے لیے لعان کرنے والے شوہر کو طلاق دینے کی ضرورت نہیں۔نہ ایک طلاق دینے کی حاجت ہے، نہ ایک سے زیادہ کی۔ ‘‘

( احسن الابحاث صفحہ ۳۳)

جواب:

             محض لعان سے تعلق نکاح ختم نہیں ہوتا،بلکہ لعان کے بعد طلاق یا تفریقِ قاضی کی ضرورت رہتی ہے ۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے :

            ’’ بَابُ اللِّعَانِ وَمَنْ طَلَّقَ بَعْدَ اللِّعَانِ ‘‘ یعنی لعان کے بعد طلاق دینے کا بیان۔ (بخاری :۲؍۷۹۹)

 غیرمقلدین کے ’’امام ‘‘ علامہ وحید الزمان اس باب کے تحت لکھتے ہیں:

            ’’یہ بظاہر امام ابو حنیفہ کے مذہب کے موافق ہے جو کہتے ہیں خود لعان سے جدائی نہیں ہوتی جب تک حاکم جدائی کا حکم نہ دے یا مرد طلاق نہ دے۔ ‘‘

 (تیسیر الباری شرح بخاری ۷؍۲۱۷)

            علی زئی صاحب نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا ہے کہ لعان کرنے والوں کے درمیان جدائی کی وجہ لعان نہیں، بلکہ یہ جدائی طلاق کے سبب ہوئی یعنی لعان کے بعد بھی تعلق نکاح باقی تھا جو طلاق دینے سے ختم ہوا۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث ذکر فرمائی ہے :

            لَاعَنَ النَّبیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَّ بَیْنِ رَجُلٍ وَّ امْرَأَۃٍ مِّنَ الْاَنْصَارِ وَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا ۔

            نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے ایک مرد و عورت کے درمیان لعان کرایا، پھر دونوں میں جدائی کرا دی ۔ (بخاری ۲؍۸۰۱)

علامہ وحید الزمان غیرمقلد اِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

            ’’ اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو کہتے ہیں نفس لعان سے جدائی نہیں ہوتی جب تک حاکم جدائی کا حکم یا مرد طلاق نہ دے ۔‘‘

 ( تیسیر الباری ۷؍۲۲۳)

غیرمقلدین کے ’’ محدث العصر ‘‘ شیخ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:

            ’’صحیح بخاری کی حدیث سے ثابت ہے کہ جب لعان کرنے والے نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی لہٰذا جدائی کا سبب طلاق ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ جدائی کا سبب لعان ہے لیکن یہ قول محلِ نظر ہے۔ ‘‘(مؤطا امام مالک مترجم صفحہ ۳۱۹تحت حدیث:۲۳۲)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            ’’ وَقَالَ الثَّوْرِیُّ وَاَبُوْحَنِیٖفَۃَ وَاَتْبَاعُھُمَا لَا تَقَعُ الْفُرْقَۃُ حَتّٰی یُوْقِعَھَا عَلَیْھِمَا الْحَاکِمُ وَ احْتَجُّوْ ا بِظَاھِرِ مَا وَقَعَ فِیْ اَحَادِیْثِ اللِّعَانِ۔‘‘

(فتح الباری : ۹؍۳۵۶)

            ترجمہ: ثوری، ابو حنیفہ اور ان دونوں کے متبعین نے کہاجب تک شوہر وبیوی کے درمیان حاکم جدائی نہ کرائے ، جدائی واقع نہیں ہوگی اور انہوں نے لعان کی حدیثوں کے ظاہر سے استدلال کیا ہے ۔

مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’اس با ت میں تو اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ یہ جدائی لعان کے فوراً بعد اَز خود ہی مؤثر ہوتی ہے یا قاضی کے فیصلہ کی بھی محتاج ہے...لیکن اس بات میں قطعاً کوئی اختلاف نہیں کہ اس موقع پر مرد کا طلاقیں دینا ایک عبث اور زائد اَز ضرورت فعل ہے ۔‘‘

( ایک مجلس کی تین طلاقیں اوراُن کا شرعی حل صفحہ ۵۸)

ٍ         اگر غیرمقلدین کی بات مان لی جائے کہ یہ جدائی لعان ہی کی وجہ سے ہوئی تھی تو بھی کیلانی صاحب کی تصریح کے مطابق ’’لعان کے بعد تین طلاقیں دینا عبث فعل ہے ۔‘‘اس لئے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’ عبث ‘‘ کام دیکھ کر خاموش نہ رہتے۔آپ کی خاموشی سے کیا تاثر ملتا ہے؟اسے واضح کرنا چاہیے تھا۔

             بعض غیرمقلدین اس جگہ یوں بھی کہتے ہیں کہ سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ کا لعان کے بعد تین طلاقیں دینا  محض تاکید کے لیے تھا ، ورنہ جدائی تو اس سے پہلے لعان سے ہو چکی تھی ۔

            عرض ہے کہ غیرمقلدین کے ہاں لعان کے بعد طلاقیں دینا لغو عمل ہے، تو لغو عمل کسی غیر لغو؍ حقیقت (لعان ) کی تاکید کیسے ہو سکتا ہے ؟

ایک نیا اعتراض

مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ علمائے احناف نے بھی حضرت عویمر رضی اللہ عنہ کے تین طلاق کہنے سے تطلیق

ثلاثہ کے جواز پر احتجاج نہیں کیا ۔ ‘‘

 ( ایک مجلس کی تین طلاقیں اوراُن کا شرعی حل صفحہ۶۰)

جواب :

            اکٹھی تین طلاقیں دینے کا جواز احناف نہ مانتے ہیں اور نہ ہی اس حدیث سے اس کے جواز کا احتجاج کیا۔یہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں یا نہیں؟ دیگر اہلِ سنت کی طرح احناف بھی اس کا وقوع مانتے ہیں اور زیرِ بحث حدیث سے اس کے وقوع کا استدلال بھی کیا ہے۔ اس عنوان کی کتابیں دیکھئے مثلا:

 الاعلام المرفوعۃ ۔(مولانا حبیب الرحمن اعظمی )

 عمدۃ الاثات۔ (حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر )

            اگر احناف نے اس سے استدلال نہ بھی کیا ہوتا تو بھی کوئی قابل ِ اعتراض بات نہ ہوتی کیوں کے اس کے علاوہ بھی تو دلائل موجود ہیں۔مزید یہ کہ خود غیرمقلدین ایسا استدلال کر لیا کرتے ہیں جو اُ ن سے پہلے کسی نے نہ کیا ہو۔ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی غیرمقلد نے قرآنی آیت’’ فاسئلوا اھل الذکر الخ‘‘ کاایک مطلب بیان کیا،اس کے متعلق غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا:

            ’’مولوی عبدالعزیز نے اس آیت کی ایسی تفسیر کی ہے جو متقدمین میں سے کسی نے نہیں کی اور امام رازی وغیرہ کو بھی نہیں سوجھی۔‘‘

(چالیس علمائے حدیث صفحہ ۹۲،عبدالرشیدعراقی)

            کیلانی صاحب نے احناف کے متعلق تو لکھ دیاکہ انہوں نے’’ تطلیق ثلاثہ کے جواز پر احتجاج نہیں کیا۔ ‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ اور علامہ ابن حزم ظاہری کی بابت بھی کچھ بتا دیتے کہ انہوں نے حدیث عویمر رضی اللہ عنہ سے اکٹھی تین طلاقوں کا جوا ز سمجھا یا نہیں؟یہ بھی بتا دیتے کہ غیرمقلدین کے ہاں امام بخاری رحمہ اللہ اورعلامہ ابن حزم ظاہری’’ اہلِ حدیث و غیرمقلد ‘‘شمار ہوتے ہیں یا ’’اہلِ سنت اور مقلد ‘‘؟

            امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب ’’اکٹھی تین طلاقوں کا جواز‘‘ اوپر مذکور ہوا۔ ابن حزم کی عبارت پڑھ لیں:

            ’’ لَوْ کَانَتْ طَلَاقُ الثَّلَاثِ مَجْمُوْعَۃً مَّعْصِیَۃً لِلّٰہِ لَمَا سَکَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیَانِ ذٰلِکَ فَصَحَّ یَقِیْنًا اَنَّہٗ سُنَّۃٌ مُبَاحَۃٌ ۔

( المحلی :۱۰؍۱۷۰، دار الآفاق الجدیدۃ بیروت)

             ترجمہ: اگر اکٹھی تین طلاقیں دینا اللہ کی نافرمانی ہوتی تو رسول اللہ علیہ وسلم اس کے بیان کرنے سے خاموش نہ رہتے اس لیے یہ کہنا صحیح ہوا کہ وہ سنت اور مباح ہے ۔

            علامہ ابن حزم ظاہری کے اس استدلال سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ لعان سے جدائی واقع نہیں ہوئی اور یہ کہ سیدنا عویمررضی اللہ عنہ کا لعان کے بعد طلاقیں دینا لغو نہیں، بلکہ بر محل ہے ۔

سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں:

            ’فَطَلَّقَھَا ثلَاثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَّ فَاَنْفَذَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَّ ‘‘

            عویمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تین طلاقیں دے دیں اور آپ نے ان کو نافذ کردیا ۔(ابو داود ۱؍۳۰۶)

            ابو داود کی سند پر بحث آگے حدیث : ۳ کے تحت آ رہی ہے ان شاء اللہ ۔ابوداود میں مذکور حدیث کے اس حصہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ کا لعان کے بعد طلاقیں دینا لغو نہیں ، بلکہ برمحل تھا ۔ جیسا کہ ’’ فَاَنْفَذَہٗ ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نافذ کیا۔‘‘ سے ثابت ہورہا ہے ۔

مزیداعتراض: فَاَنْفَذَہٗ کا جملہ معتبر نہیں ۔

مولانا امین محمد ی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ کتب ِ اصول حدیث میں یہ بات مسلّم ہے کہ اگر کسی روایت کے مختلف طرق صحیح بھی ہوں لیکن اُن میں کچھ فرق ہو تو اسی حدیث کو ترجیح ہوگی جو بخاری و مسلم دونوں میں ہو۔ ‘‘

(مقالہ بحوالہ جواب مقالہ صفحہ ۱۲۸، عمر اکادمی نزد گھنٹہ گھر گوجرانوالہ)

            امین صاحب کے اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہفَاَنْفَذَہٗ کا جملہ چوں کہ بخاری و مسلم میں نہیں اور ابوداود میں ہے۔ ایسی صورت میں ترجیح حدیث کے اس حصے کوہونی چاہیے جو بخاری و مسلم میں ہے۔

جواب:

مولانا حافظ عبد القدوس خان قارن دام ظلہ نے اس اعتراض کے جواب میں لکھا:

            ’’ جناب محمدی صاحب کا یہ کہنا کہ اگر کسی روایت کے مختلف طرق صحیح بھی ہوں لیکن اُن میں کچھ فرق ہوتو اسی حدیث کو ترجیح ہوگی جو بخاری و مسلم دونوں میں ہو الخ یہ جناب محمدی صاحب کی فن حدیث سے بے خبری کی علامت ہے، اس لئے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جتنی روایت بخاری اور مسلم نے ذِکر کردی اتنی ہی معتبر ہوگی، باقی نہیں ہو۔اس لئے کہ بہت سی احادیث کو امام بخاری اور امام مسلم نے نقل کیا ہے مگر ان میں بعض الفاظ ذِکر نہیں کر سکے حالاں کہ دیگر صحیح اسناد سے وہ الفاظ روایت میں ثابت ہوتے ہیں اور اس کی نشان دہی کے لیے تو حضرات محدثین کرام نے مستقل کتابیں لکھیں جن کو مستخرجات کہا جاتا ہے۔اگر جناب محمدی صاحب کی یہ بات تسلیم کر لی جائے تو پھرمستخرجات کی حیثیت ہی نہیں رہتی اور نہ ہی زیادتِ ثقہ کا اصول باقی رہتا ہے۔جو محمدی صاحب نے کہا ہے وہ قطعاًفن حدیث کا مسئلہ نہیں ہے ۔ ‘‘

( جواب مقالہ صفحہ ۱۲۸، عمر اکادمی نزد گھنٹہ گھر گوجرانوالہ)

            قارن صاحب نے فرمایا اگر محمدی صاحب کے خود ساختہ اصول کو تسلیم کریں تومستخرجات اور زیادہ ثقہ کی کوئی اہمیت نہیں رہتی جب کہ غیرمقلدین کو بھی ان دونوں کی اہمیت کا دعویٰ ہے۔

مولانا سلطان محمود جلال پوری غیرمقلد لکھتے ہیں :

            ’’ المستخرج : جس کتاب میں کسی ایک کتاب کی احادیث دوسری اسانید سے روایت کی جائیں جیسے مستخرج الاسماعیلی علی صحیح البخاری ۔ ‘‘

 ( اصلاحات المحدثین صفحہ۵۵ ، دار البلاغ پبلشرز لاہور ، اشاعتِ اول: جون ؍۲۰۱۴ء )

ابو محمد خرم شہزاد غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ المستخرج : وہ کتاب جس میں مؤلف کسی کتاب کی احادیث کی تخریج کرے، لیکن اس کے مصنف کی اسناد کو چھوڑ کر اپنی سندوں کو ذِکر کرے۔بسا اوقات یہ اپنے شیخ یا اوپر کسی طبقہ میں جا کر اس سے مل جاتا ہے ، چند مشہور مستخراجات یہ ہیں: ۱۔ المستخرج : لابی بکر الاسماعیلی (ابوبکر احمد بن ابراہیم بن اسماعیل ، ۲۷۷ھ ،۳۷۱ھ ) یہ صحیح بخاری پر ہے ۔ ۲۔ المستخرج : لابی عوانہ الاسفرائینی ( یعقوب بن ابراہیم ، م ۳۱۶ھ) یہ صحیح مسلم پر ہے ۔ ۳۔ المستخرج : لابی نعیم الاصبہانی ( ابو نعیم احمد بن عبد اللہ بن احمد بن اسحاق ، ۳۳۶ھ ، ۴۳۰ھ ) یہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم پر ہے ۔ ‘‘

 (اصولِ حدیث و اصول ِ تخریج صفحہ ۹۳، ناشر: مکتبۃ التحقیق و التخریج، اشاعتِ اول: اپریل ؍۲۰۱۷ء)

            غیرمقلدین یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ زیادت ثقہ معتبر ہے۔ ( بدور الاھلۃ صفحہ ۵۶، تالیف نواب صدیق حسن ... تحفۃ الاحوذی : ۱؍۲۰۵، تالیف مولانا عبد الرحمن مبارک پوری ... تعلیق المغنی : ۲؍۳۸۱، تالیف مولانا شمس الحق عظیم آبادی ...سنن دارمی مترجم :۲؍۱۹۵، ترجمہ و فوائد مولانا عبد المنان راسخ)

 شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے تو یہاں تک لکھ دیا :

            ’’ اگر ہزار راویوں نے بھی اسے روایت نہیں کیا تو کوئی بات نہیں، صرف ایک صحابی کی روایت بھی کافی ہے۔‘‘

 ( الحدیث حضرو ،شمارہ: ۴۷ صفحہ ۹)

امین صاحب کے برعکس حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد نے لکھا:

            ’’ ایک حدیث کومختلف طرق، معاجم، مسانید، صحاح و سنن وغیرہ میں دیکھ کر حکم لگایا جاتا ہے ،لہذا مسئلہ کی صحیح نوعیت متعین کی جاتی ہے ۔ ‘‘

( احسن الابحاث صفحہ ۲۹)

             امین صاحب تو اصول تراشے ہوئے ہیں کہ بخاری ومسلم کی کسی حدیث کا کوئی لفظ باہرہو تو اس پر بخار ی و مسلم کی حدیث کو ترجیح ہوگی مگر غیرمقلدین کااپنا عمل اس اصول پر نہیں ہے ۔ مثلا:

             بخاری کتاب الطھارۃ میں حدیث ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو پتھروں سے استنجاء کیا۔ انتھیٰ

 چوں کہ غیرمقلدین کے ہاں استنجاء میں تین پتھر استعمال کرنا ضروری ہے، اس لیے یوں کہہ دیتے ہیں کہ آپ صلی

اللہ علیہ وسلم نے تیسرا پتھر تلاش کر لیاہوگا یاپھریوں لکھ دیا کہ فلاں(بخاری و مسلم کے علاوہ) کتاب میں مذکور ہے کہ آپ نے تیسرا پتھر تلاش کر لیاتھا ۔مثلاً حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد نے لکھا:

’’ پھر آپ نے تیسرا پتھر تلاش طلب فرمایا ۔( فتح الباری :۱؍۲۵۷)‘‘

 ( مختصر صحیح بخاری :۱؍۱۵۴)

تیسرے پتھر کی بات بخاری و مسلم میں نہیں ہے ، اس کے لیے فتح الباری کا حوالہ دے دیا ۔

             غیرمقلدین بخاری و مسلم میں حدیث ہوتے ہوئے اس کے مخالف پہلو کی حدیث کسی اور کتاب سے لے لیتے ہیں مثلا ًبخاری ومسلم میں نماز میں بسم اللہ آہستہ پڑھنے کی حدیث ہے مگر غیرمقلدین بخاری و مسلم سے باہرنسائی سے حدیث لے کر کہتے ہیں کہ جہری نماز وں میں بسم اللہ جہراً پڑھیں۔ جب کہ اس روایت سے استدلال کرنا کمزوربھی ہے۔اس پر ہمارے پاس متعدد حوالہ جات محفوظ ہیں۔ اُن میں سے ایک حوالہ درج ذیل ہے۔

 ( فتاویٰ راشدیہ صفحہ ۲۶۷، مولانا محب اللہ شاہ راشدی)

            اس سے بڑھ کر سینہ زوری یہ کہ شیخ بدیع الدین راشدی غیرمقلد نے آہستہ بسم اللہ پڑھنے کی حدیث ِمسلم کو ضعیف کہہ دیا، چنانچہ وکیل ولی قاضی غیرمقلد ( حیدر آباد سندھ) لکھتے ہیں:

            ’’ یہاں یہ بات یاد رہے کہ محترم ومکرم بدیع الدین شاہ صاحب رحمہ اللہ بسم اللہ بالجہر کے قائل و فاعل تھے اور مذکورہ روایت میں چوں کہ بسم اللہ کو سرا پڑھنے کی طرف اشارہ ہے، غالبا ً اسی وجہ سے بحث میں شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اس پر کلام کیا ہے۔ ‘‘

 ( فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام :۳؍۱۸۴، شیخ زبیر علی زئی)

            کہاں وہ اصول کہ ترجیح بخاری ومسلم کی حدیث کو ہے اور کہاں یہ سینہ زوری کہ بخاری و مسلم کی حدیثوں کے خلاف کسی اور کتاب کی روایت لے کر اس کے مقابلہ میں صحیح مسلم کی حدیث پر ضعف کی چھاپ لگا دینا۔ جب کہ اس روایت سے استدلال کمزور بھی ہے۔

 تیسری حدیث

امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

            ’’ حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ عَمَرٍو بْنِ السَّرْحِ حَدَّثَنَا ابْنُ وَھْبٍ عَنْ عِیَاضٍ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْفَہْرِیِّ

عَنِ ابْنِ ِشھَابٍ عَنْ سَھْلٍ بْنِ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فَیْ ھٰذا الْخَبْرِ قَالَ وَطَلَّقَھَا ثَلَاثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَّ فَاَنْفَذَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَّ ۔

(سنن ابی داود :۱؍۳۰۶)

            ہمیں احمد بن عمرو بن سرح نے بیان کیا، ہمیں ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے عیاض بن عبد اللہ فہری سے، وہ ابن شہاب سے، وہ سہل بن سعید سے روایت کرتے ہیں ۔کہا: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تین طلاقیں دے دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان طلاقوں کو نافذ کر دیا ۔

تحقیق السند

 (۱)پہلے راوی امام ابو داود رحمہ اللہ صاحب السنن ہیں جو بلاشبہ ثقہ ہیں ۔

 ( تہذیب الکمال :۱۱؍۳۵۵۔ وتذکرۃ الحفاظ :۲؍۱۴۷)

(۲)احمد بن عمرو بن السرح المصری یہ صحیح مسلم ، ابو داود، نسائی، ابن ماجہ کے ثقہ ثبت لابأس بہ راوی ہیں۔

 ( تہذیب الکمال للمزی ۱؍۴۱، تذکرۃ الحفاظ للذھبی :۲؍۶۷)

(۳)ابن وہب المصری صحیح بخاری ، صحیح مسلم و سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ و صدوق ہیں ۔

 ( تہذیب الکمال :۶؍۲۷۷،تذکرۃ الحفاظ:۲؍۱۱)

(۴)عیاض بن عبد اللہ الفہری المصری۔یہ صحیح مسلم ، ابوداود ونسائی و ابن ماجہ کے راوی ہیں۔ ثقہ راوی ہیں ۔

 ( الثقات لابن ِ حبان : ۸؍۵۳۴، الفتاویٰ لابن شاھین :۱؍۱۸۰، الکاشف للذھبی :۴؍۱۰۷ ومن تکلم فیہ وھو موثق للذھبی :۱؍۱۴۹، میزان الاعتدال للذھبی : ۳؍۳۰۷)

(۵)امام ابن شہاب زہری بخاری، مسلم اور سنن اربعہ کے ثقہ راوی ہیں۔

(تہذیب الکمال: ۲۶ ؍ ۴۱۹ ، تذکرۃ الحفاظ للذھبی :۱؍۸۳)

(۶)سیدنا سہل بن سعید جلیل القدر صحابی ہیں ۔

( تہذیب الاسماء :۱؍۲۴۸،تہذیب الکمال :۱۲؍۱۸۸)

 غیرمقلدین کے ’’امام المحدثین ‘‘ شیخ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کے بارے میں لکھا:

            ’’ حدیث صحیح واسنادہ علی شرط مسلم‘‘ ، حدیث صحیح ہے اور اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے ۔( صحیح ابو داود صفحہ ۲۰۷)

             مزید یہ کہ غیرمقلدعلماء کو اعتراف ہے کہ جس حدیث پر امام ابو داود رحمہ اللہ سکوت اختیار کریں ،وہ ان کے نزدیک قابل قبول ہوتی ہے ۔

مولانا عبد الرحمن مبارک پوری غیرمقلد نے ایک روایت کی صحت پہ بحث کرتے ہوئے لکھا:

            ’’ حافظ ابن عبد البر ؒ نے اُس کی سند کو حسن بتایا ہے اور ابوداود ؒ نے اُس پر سکوت کیا ہے ‘‘

 ( القول السدید صفحہ ۱۶)

غیرمقلدین کے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری نے کہا:

            ’’ ابو داود کا اصول ہے کہ جس حدیث پر سکوت کرے وہ صحیح ہے۔ ‘‘

( سیرت ثنائی صفحہ ۳۳۵)

مولانا عبد المنان نور پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ اہلِ علم جانتے ہیں جس حدیث کے متعلق امام ابو داود سکوت اختیار کریں وہ صالح ہوتی ہے کیوں کہ ابو داود کا فرمان ہے جس حدیث کے متعلق میں سکوت اختیار کروں وہ صالح للعمل ہوتی ہے ۔ ‘‘

 ( مقالاتِ نور پوری صفحہ ۴۰۷، ادارہ تحقیقات ِ سلفیہ گوجرانوالہ )

 امام غربائے اہلِ حدیث مولانا عبد الستار غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ اہلِ حدیث کے نزدیک تو صحاح ستہ کی کل احادیث اپنے اپنے محل موقع پر قابل عمل و لائق تسلیم ہیں ۔ ‘‘

 ( فتاویٰ ستاریہ :۲؍۵۷دوسرا نسخہ صفحہ ۳۷)

            سنن ابو داود بھی کتب ستہ میں شامل ہے ،لہذا اس میں مذکور تین طلاق کے نفاذ کی حدیث مولانا عبد الستار غیرمقلد کی تصریح کے پیشِ نظر اہلِ حدیث میں قابل عمل و لائق تسلیم ہونی چاہیے ۔

 یہاں اکِ اور پہلو سے بھی غور فرما لیں ۔ علامہ وحیدالزمان غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’جب مدینہ کے عالم کوئی حدیث روایت کریں اور اس پر عمل کریں تو وہی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہوگی۔ ‘‘

( تیسیرا لباری :۷؍۱۹۴، تاج کمپنی )

            حدیث کے مضمون ’’اکٹھی تین طلاقوں کے نفاذ‘‘ کوتومشرق و مغرب کے علماء مانتے ہیں۔بلکہ مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلدین کی تصریح کے مطابق تو اسلام کی پہلی سات صدیوں کے علماء و محدثین کا تین طلاقوں کے واقع ہونے پر اتفاق ہے ۔ ( فتاوی ثنائیہ: ۲؍۲۱۹)

چوتھی حدیث

امام نسائی رحمہ اللہ نے باب قائم کیا :

’’ بَابُ الرُّخْصَۃِ فِیْ ذٰلَکَ، ایک ساتھ تین طلاقیں دے دینے کی رخصت کا بیان ‘‘

اس باب کے تحت سیدہ فاطمہ بنت قیس والی حدیث روایت کی ۔ جس کے آخر میں الفاظ ہیں :

            ’’ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! اِنَّہٗ قَدْاَرْسَلَ اِلَیْھَا بِثَلاَثِ تَطْلِیْقَاتٍ قَالَتْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا النَّفْقَۃُ وَالسُّکْنٰی لِلْمَرْاَۃِ اِذَا کَانَ لِزَوْجِھَا عَلَیْھَا الرَّجْعَۃُ۔

            ترجمہ :لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دے بھیجی ہیں، وہ کہتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ نفقہ و سکنی اس عورت کو ملتا ہے جس کے شوہر کو اس سے رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے ۔‘‘

( نسائی مترجم:۳؍۳۹۷، ح۳۴۳۲)

اس حدیث کی تخریج میں ’’( صحیح )‘‘ لکھا ہے ۔( حوالہ مذکورہ )

            مذکورہ سنن نسائی مترجم پر تقدیم مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد اور مراجعت ڈاکٹر عبد الرحمن بن عبد الجبار الفریوائی غیرمقلد کی ہے ۔

 امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

            ’’ نَا اََبُوْبَکْرٍ النِّیْسَا بُوْرِیْ نَا مُحَمَّدٌ بْنُ بِشْرٍبْنِ مَطَرٍ نَا شَیْبَانُ مُحَمَّدٌ بْنُ رَاشِدٍ بِاسْنَادِہٖ مِثْلَہٗ فِی الْقَضْیَتَیْنِ یَعْنِیْ نَا سَلْمَۃُ بْنُ اَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ حَفْصَ بْنَ الْمُغِیْرَۃِ طَلَّقَ امْرَاَتَہٗ فَاطِمَۃَ بِنْتَ قَیْسٍ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ تَطْلِیْقَاتٍ فِیْ کَلِمَۃٍ وَّاحِدَۃٍ فَاَبَانَھَا مِنْہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔(سنن الدارقطنی :۵؍۴۳، حدیث : ۳۹۲۲،۳۹۲۳)

            ترجمہ :حفص بن مغیرہ نے اپنی بیوی فاطمہ بنت قیس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تین طلاقیں ایک کلمہ کے ساتھ دیں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اُن سے جدا کردیا ۔

            اس حدیث میں ایک کلمہ کے ساتھ تین طلاقیں دینے کی بات ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو مرد سے جدا کردیا ۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ تین طلاقوں سے عورت بائنہ ہو جاتی ہے۔

اس حدیث کی سند کے رواۃ کی توثیق درج ذیل ہے ۔

(۱)امام دار قطنی رحمہ اللہ مشہور محدث اور ثقہ ہیں ۔

( تذکرۃ الحفاظ : ۳؍۱۳۴، سیر اعلام النبلاء :۱۲؍۴۱۴)

(۲)ابو بکر نیشاپوری مشہور حافظ اور شیخ الاسلام ہیں ۔

 ( سیر اعلام النبلاء :۱۵؍ ۶۵العبر للذھبی :۴؍۲۲، تذکرۃ الحفاظ للذھبی :۳؍۲۷)

(۳)ابو بکر محمد بن بشر بن مطر الوراق ثقہ و صدوق ہیں ۔

(المنتظم لابن الجوزی : ۱۲؍ ۳۸۸،تاریخ الاسلام للذھبی :۲۱؍۲۵۵)

(۴)شیبان بن فروخ یہ صحیح مسلم ، ابو داود ، نسائی کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں ۔

( سیر اعلام النبلاء للذھبی : ۹؍ ۱۴۱و تہذیب لابن حجر : ۴؍۳۷۴)

(۵)محمد بن راشد المکحول الدمشقی ثقہ و صدوق ہیں۔

( سیر اعلام النبلاء للذھبی: ۷؍۴۵، الجرح والتعدیل : ۷؍۲۵۳)

(۶)سلمہ بن ابی سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف ، ثقہ اور لا باس بہ ہیں ۔

 ( الثقات للعجلی:۱؍۱۹۷، الجرح و التعدیل : ۴؍۱۶۴)

(۷)سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ۔

( تہذیب لابن حجر :۶؍۲۴۴و تقریب لابن حجر :۱؍۳۴۸)

(۸)سیدنا حفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں۔

 ( الثقات لابن حبان : ۳؍۹۱، معرفۃ الصحابۃ لابن مندہ : ۱؍۴۴۶)

 ایک اعتراض کا جواب:

            بعض غیرمقلدین نے یہاں اعتراض کیا کہ بعض کتب میں فطلق آخر ثلاث تطلیقات آیا ہے جس کا مطلب ہے کہ سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو الگ الگ تین طلاقیں دی گی تھیں۔

 ( ایک مجلس کی تین طلاقیں اوراُن کا شرعی حل صفحہ۶۱،مولانا عبد الرحمن کیلانی )

الجواب:

 حضرت مولانا منیر احمد منور دام ظلہ لکھتے ہیں :

            ’’ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی مذکورہ بالا حدیث میں دو قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ (۱)وہ الفاظ جو تین طلاقوں کے اکٹھے ہونے میں صریح اورمحکم ہیں یعنی طَلَّقَ بِکَلِمَۃٍ وَاحِدَۃٍثَلَاثًا، طَلَّقَ ثَلَاثَ تَطْلِیْقَاتٍ فِیْ کَلِمَۃٍوََاحِدَۃٍ ، طَلَّقَنِیْ زَوْجِیْ ثَلَاثًا جَمِیْعًا ، اِنَّ اَخِیْ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا جَمِیْعًا (۲) وہ الفاظ جن میں اکٹھی تین طلاقوں کا بھی احتمال ہے اور متفرق ہونے کا بھی ۔ پھرمتفرق ہو کر موافق شرع ہوں یا خلاف شرع ہوں جیسے َفَطَلَّقَ آخِرَ ثَلَاثِ تَطْلِیْقَاتٍ اس میں موافق شرع متفرق تین طلاقوں کا بھی احتمال ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں دیں حتی کہ آخری تیسری طلاق بھی دے دی اور کوئی طلاق باقی نہ رکھی ۔ اسی طرح البتہ اوربائن میں میں بھی طلاق بائنہ اور تین طلاق کا احتمال ہے کیوں کہ دونوں میں خاوند سے جدائی ہو جاتی ہے۔اسی طرح ثلاث تطلیقات میں بھی دونوں احتمال ہیں کہ تین طلاقیں اکٹھی ہوں یا تین طلاقیں متفرق ہوں اور قاعدہ یہ ہے کہ محتمل کو محکم پر اور مبہم کو مفصل پر محمول کرکے محتمل و مبہم کا وہ مفہوم مراد لیاجاتا ہے جومحکم اور مفصل میں واضح اور تفصیلی طور پر مذکور ہوتا ہے چوں کہ پہلی قسم کی احادیث فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے واقعہ میں تین طلاقوں کے اکٹھے ہونے میں صریح اور واضح ہیں اس لئے دوسری قسم کی محتمل احادیث میں بھی یہی معنی مراد ہوگا تاکہ ان سب حدیثوں میں توافق پیدا ہو جائے اور اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں ۔اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام ابن ماجہ نے اسی حدیث پر ایک مجلس میں تین طلاق دینے کا ترجمۃ الباب قائم کیا ہے ۔ ‘‘

 ( حرام کاری سے بچئے صفحہ ۹۶ ، ناشر: مکتبہ اہل السنۃ والجماعۃوہاڑی ،سن اشاعت: جمادی الاولی ۱۴۳۴ھ )

حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ یہ بھی قانون ہے کہ عام روایات کو خاص پر محمول کرکے بظاہر دونوں کا تعارض ختم کیا جائے گا ۔لہٰذا اس مبہم روایت کو مفصل پر پیش کرکے صحیح مطلب سمجھا جائے گا۔ ‘‘

( احسن الابحاث صفحہ ۲۹)

            امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو ان کے شوہر نے اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں۔

حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی کی کتاب ’’الاعلام المرفوعۃ ‘‘کے حاشیہ میں لکھا ہے :

            ’’ جن روایتوں سے فاطمہ کے شوہر کا بیک وقت تین طلاقیں دینا ثابت ہوتا ہے ، ان کو ’’ازہار المربوعۃ‘‘ ص ۱۱۴میں ملاحظہ فرمائیے ۔ ابن حزم نے ( محلی : ۱۰؍ ۱۷۱، ۱۷۲) بھی اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ اور جن روایتوں سے اس کے خلاف معلوم ہوتا ہے ،ان کا جواب دیا ہے ۔‘‘

 ( حاشیہ : الاعلام المرفوعۃ صفحہ ۲۴ )

            علامہ ابن حزم ظاہر ی کو غیرمقلدین اپنا غیرمقلد باور کرایا کرتے ہیں اس لئے بطور الزام ان کا حوالہ پیش خدمت ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:

             ’’ فَھٰذَا نَقْلٌ تَوَاتُرٌ عَنْ فَاطِمَۃَ بَاَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَالِکَ اُخْبِرَھَا ھِیَ وَنَفْرٌ سِوَاھَا بِاَنَّ زَوْجَھَا طَلَّقَھَا ثَلَاثًا وَلَمْ یُنْکِرْ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامُ ذَالِکَ وَلَا اَخْبَرَ بِاَنَّہٗ لَیْسَ بِسُنَّۃٍ وَّ فِیْ ھٰذا کِفَایَۃٌ لِمَنْ تَصِحُّ نَفْسُہٗ ۔

( المحلی لابن حزم : ۱۰؍۱۷۱،بحوالہ آپ کے مسائل اور ان کا حل :۶؍۵۱۸ تخریج شدہ ایڈیشن )

            ترجمہ :پس تواتر کے ساتھ فاطمہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی طرف سے اور ان کے سوا ایک جماعت کی جانب سے خبردی گئی کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دے دیں اور آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر انکار نہیں کیا اور نہ ہی یوں خبر دی کہ یہ سنت نہیں ہے اوریہ دلیل اس شخص کے لئے کافی ہے جس میں نفس کی سلامتی ہو۔

            اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ علامہ ابن حزم ظاہری نے اس حدیث سے اکٹھی تین طلاقیں دینے کا جواز

اخذ کیا ہے ۔ یعنی ان کے نزدیک بھی اس حدیث میں اکٹھی دی جانے والی تین طلاقوں کا بیان ہے ۔

 پانچویں حدیث

امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

            حَدَّثَنَا ابْنُ سَرْحٍ وَ اِبرَاہِیْمُ ابْنُ خَالِدٍ الْکَلْبِیُّ اَبُوْثَوْرٍ فِیْ آخَرِیْنَ قَالُوْا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ حَدَّثَنِیْ عَمِّیْ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ شَافِعٍ عَنْ [عَبْدِ اللّٰہ]ِ بْنِ عَلِیٍّ بْنِ السَّائِبِ عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَیْرِبْنِ عَبْدِ یَزِیْدَ بْنِ رُکَانَۃَ اَنَّ رُکَانَۃَ بْنَ عَبْدِ یَزِیْدٍ طَلَّقَ امْرَاَتَہٗ سُھَیْمَۃَ الْبَتَّۃَ فَاَخْبَرَ النَّبِیُّ صَلَّی النَّبِیُّ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ وَقَالَ وَاللّٰہِ مَا اَرَدْتُّ اِلَّا وَاحِدَۃً فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی النَّبِیُّ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاللّٰہِ مَا اَرَدْتَّ اِلَّا وَاحِدَۃً فَقَالَ رُکَانَۃُ وَاللّٰہِ مَا اَرَدْتُّ اِلَّا وَاحِدَۃً فَرَدّھَا اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّہِ صَلَّی النَّبِیُّ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَطَلَّقَھَا الثَّانِیَۃَ فِیْ زَمَانِ عُمَرَ والثَّالِثَۃَ فِی زَمَانِ عُثْمَانَ ۔‘‘

 ( سنن ابی دواود :۱؍۳۰۰، کتاب الطلاق ، باب فی البتۃ ، حدیث: ۲۲۰۶)

            ترجمہ: نافع سے روایت ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سہیمہ کو طلاق بتہ دی، پھر اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی ۔ اور قسم اُٹھا کر کہا میں نے بتہ کے ساتھ ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قسم دے کرپوچھا کہ اللہ کی قسم! تو نے ایک ہی طلاق کا ارادہ کیا تھا؟ رکانہ نے کہا: اللہ کی قسم میں نے صرف ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو رکانہ کی طرف لوٹادیا۔پھر حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو حضرت عمر کے زمانہ میں دوسری طلاق دی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تیسری طلاق دی ۔

 امام بیہقی رحمہ اللہ(وفات:۴۵۸) فرماتے ہیں:

            ’’ قَالَ الشَّافِعِیُّ وَطَلَّقَ رُکُانَۃَ امْرَاََتَہٗ وَ ھِیَ تَحْتَمِلُ وَاحِدَۃً وَّتَحْتَمِلُ الثٰلَاثَ فَسَاَلَہُ النَّبِیُّ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ نِیَّۃٍ وَّاَحْلَفَہٗ عَلَٰیْھَا وَلَمْ نَعْلَمْہُ نَھٰی اَنْ یُطَلِّقَ اَلْبَتَّہَ یُرِیْدُ بِھَا ثَلَاثًا۔ ‘‘

( سنن بیہقی :۷؍۵۳۹)

            ترجمہ: امام شافعی نے فرمایا حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو کہا تجھے طلاق البتہ ہے اور البتہ کے لفظ میں ایک طلاق کا بھی احتمال ہے اور تین کا بھی۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نیت پوچھی اور اس پر قسم اُٹھوائی لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے البتہ کے لفظ سے تین طلاق کی نیت کرنے سے منع کیاہو ۔

            ’’الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان ‘‘میں طلاق بتہ والی حدیث پر درج ذیل الفاظ میں باب قائم کیا گیا ہے:

            ’’ ذِکرُ الْخَبْرِ الدَّالِ عَلیٰ اَنَّ طَلَاقَ الْمَرْءِ امْرَاَتَہٗ مَا لَمْ یُصَرِّحْ بِالثَّلَاثِ فِیْ نِیَّتِہٖ یُحْکَمُ لَہٗ بِھَا۔ ‘‘

(الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان قبل حدیث: ۲۴۷۴)

            ترجمہـ: اس حدیث کا تذکرہ جو دلالت کرنے والی ہے اس بات پہ کہ آدمی کا اپنی بیوی کو طلاق دینا جب کہ تین طلاقوں کی تصریح نہ کی ہو تو اس کی نیت کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔

            یعنی اگر اس نے طلاق بتہ سے ایک طلاق کی نیت کی ہوتو ایک واقع ہوگی اور اگر تین کی نیت کی ہوگی تو تین واقع ہو جائیں گی ۔

            سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ کی طلاق بتہ والی حدیث میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اللہ کی قسم ! آپ نے ایک کی نیت کی تھی؟ انہوں نے جواب دیا: ایک کی ہی نیت تھی ۔امام نووی رحمہ اللہ نے حدیث میں مذکور اس جملہ کی وضاحت میں لکھا:

            ’’ فَھٰذَا دَلِیْلٌ عَلٰی اَنَّہٗ لَوْ اَرَادَ الثَّلَاثَ لَوَقَعْنَ وَاِلَّا فَلَمْ یَکُنْ لِتَحْلِیْفِہٖ مَعْنًی۔ ‘‘

 ( شرح مسلم : ۱؍۴۷۸)

            پس یہ قسم دینا دلیل ہے کہ اگر حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے تین طلاقوں کا ارادہ کیا ہوتا تو تین واقع ہو جاتیں ورنہ قسم اُٹھوانے کا کوئی مقصد نہیں ۔

حضرت مولانامحمد امین اوکاڑوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            ’’ اس حدیث پاک سے تو یہ معلوم ہوا کہ اگر طلاق دینے والا زبان پر تین کا لفظ بھی نہ

لائے، ایسا لفظ لائے جس کی دل میں تین کی نیت ہو سکتی ہو تو بھی تین کی نیت کرنے سے تین ہی واقع ہوجائیں گی ۔ پھر جب زبان و قلم پر تین آجائیں تو وہ تین کیوں نہ ہوں گی ۔ ‘‘

( تجلیاتِ صفدر :۴؍۶۰۲)

حضرت مولانا منیر احمد منور صاحب دام ظلہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

            ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ سے نیت کے بارے میں سوال کرنے اور پھر ایک طلاق کے ارادہ پر اللہ کی قسم اُٹھوانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ تین طلاقوں کا ارادہ کرتے تو تین نافذ ہو جاتیں اور اس عورت کے ساتھ دوبارہ براہ راست نکاح کی گنجائش نہ رہتی ورنہ اگر ایک طلاق کے ارادے کی صورت میں بھی ایک طلاق ہو اور تین طلاق کا ارادہ ہو تب بھی ایک ہو تو پھر نیت کا پوچھنا اور اس پر قسم اُٹھوانا بے فائدہ کام ہے جس سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پاک ہے ۔ ‘‘

( حرام کاری سے بچئے صفحہ ۹۷)

خواجہ محمد قاسم غیرمقلد نے حدیث بتہ رکانہ ترمذی سے نقل کرنے کے بعد لکھا :

            ’’نبی علیہ السلام کا اس سے یہ پوچھنا کہ تم نے بتہ سے کیا مرادلیا ہے اُس کا ایک میں جواب دینا پھر آپ کا اُس سے حلفیہ تصدیق لینا یہ ظاہرکرتاہے کہ اگر وہ ایک سے زائد مراد لیتا تو اتنی واقع ہوجاتیں۔‘‘

(ایک مجلس تین طلاقیں ایک ہوتی ہے صفحہ۶۰)

خواجہ صاحب نے حدیث رکانہ البتہ ترمذی اور ابوداود سے نقل کرکے لکھا:

            ’’ یہ روایتیں اگر صحیح ہوتیں تو بے شک اُن سے استدلال درست ہوتا لیکن ان دونوں کی سندیں ضعف سے خالی نہیں پہلی سند میں زبیر بن سعد ضعیف اور متروک ہے ... دوسری سند میں نافع بن عجیر راوی مجہول ہے ۔ ‘‘

( تین طلاقی ایک مجلس کی ایک ہوتی ہے صفحہ ۶۱)

             اس مضمون کی ایک روایت سنن ابن ماجہ میں بھی ہے۔ اسے یہاں نقل کرنا ہمارا مطلوب نہیں ،بلکہ اس مضمون پرایک محدث کا تبصرہ نقل کرکے اس کی وضاحت غیرمقلدین کی جانب سے پیش کرنا چاہتے ہیں۔

 امام ابن ماجہ نے کہا:

            ’’ سَمِعْتُ اَبَا الْحَسَن،عَلِیَّ بْنَ مُحَمَّدالطَّنَافِسِیَّ یَقُوْلُ مَا اَشْرَفَ ھٰذَا الْحَدِیْثَ ۔‘‘

 ترجمہ: میں نے ابو الحسن علی بن محمد طنافسی کو فرماتے ہوئے سنا : یہ حدیث کتنی اچھی ہے!

            محدث ابوا لحسن علی بن محمد کے قول ’’ یہ حدیث کتنی اچھی ہے !‘‘ کامطلب غیرمقلدین کی کتاب میں یوں مذکور ہے :

            ’’کیوں کہ اس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ طلاق بتہ میں مرد کی نیت پر فیصلہ ہوگا۔ اگر مرد نے ایک طلاق کی نیت کی ہوگی تو ایک واقع ہوگی، اگر تین کی نیت ہوگی تو تینوں واقع ہو جائیں گی۔‘‘

( سنن ابن ماجہ مترجم:۳؍۲۳۳ ،باب طلاق البتہ ، تحت حدیث: ۲۰۵۱، تحقیق و تخریج حافظ زبیر علی زئی،ترجمہ و فوائد : مولانا عطاء اللہ ساجد ... نظر ثانی، تصحیح ، تنقیح اور اضافات :حافظ صلاح الدین یوسف ،مولانا ابو عبد اللہ عبدالجبار ، حافظ آصف اقبال ، مولانا ابو محمد اجمل، حافظ عبد الخالق، مولانا عثمان منیب ... طبع :دار السلام )

مولانا صفی الرحمن مبارک پوری غیرمقلد نے ’’حدیث البتہ ‘‘کے متعلق لکھا:

            ’’ قسم لینے کا مقصد تو یہ تھا کہ اگر اس نے تین کی نیت کی ہوگی تو تین بھی واقع ہو جائیں گی لیکن یہ حدیث ضعیف ہے ۔ ‘‘

 ( اتحاف الکرام شرح بلوغ المرام اردو:۲؍ز۷۰۱، مترجم مولانا عبد الوکیل علوی ، دار السلام لاہور )

            خواجہ صاحب ،مبارک پوری صاحب اور دیگر غیرمقلدین نے یہ تو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ حدیث اکٹھی دی جانے والی تین طلاقوں کے وقوع کی دلیل ہے ۔البتہ یہ دعویٰ کیا کہ ضعیف ہے۔ذیل میں ہم اس دعوی کا جائزہ لیتے ہیں۔وباللہ التوفیق ۔

 اعتراض :

یہ سند نافع بن عجیر کی وجہ سے ضعیف ہے

خواجہ محمد قاسم غیرمقلد کہتے ہیں :

            ’’ نافع بن عجیر راوی مجہول ہے ۔ ‘‘

( تین طلاقی ایک مجلس کی ایک ہوتی ہے صفحہ ۶۱)

 جواب:

            نافع بن عجیر کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا:

بعض حضرات ان کو صحابہ میں شمار کرتے ہیں اورمحدث ابن حبان وغیرہ نے ان کو تابعین میں شمار کیا۔

(تقریب صفحہ ۳۷۱)

 دوسرے مقام پہ کہا:

امام ابن حبان ان کو ثقات میں لکھتے ہیں اور نیز انہوں نے ان کو صحابہ میں بھی شمار کیا ہے اور ابو القاسم بغوی محدث ابونعیم اور حافظ ابوموسی وغیرہ ان کو صحابی بتاتے ہیں۔

 (تہذیب التہذیب جلد ۱۰ صفحہ ۴۰۸)

            امام ابن حبان رحمہ اللہ کے حوالہ کے لئے اُن کی کتاب’’ کتاب الثقات :۵؍۴۶۹’’ دیکھئے! ۔

            یہ حوالے حضرت مولانامحمد سر فراز خان صفدر رحمہ اللہ کی کتاب ’’ عمدۃ الاثاث ‘‘ میں منقول ہیں۔حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد نے ’’عمدۃ الاثات‘‘ کا جواب دیتے ہوئے نہ تو ان حوالوں کو موضوع بحث بنایا اور نہ ہی نافع بن عجیر کو مجہول کہنے کی ہمت کر پائے ۔

 امام حاکم نے مستدرک ( ۳؍۲۱۱ح ۴۹۳۹) میں اور امام ابوداود رحمہ اللہ نے اُن کی حدیث کو صحیح کہا۔

 ( توضیح الاحکام : ۱؍۵۹۷ ،تالیف شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد)

            غیرمقلدین کویہ بات تسلیم ہے کہ کسی حدیث کو صحیح کہنا اس کی سند کے تمام راویوں کی توثیق ہے ۔شیخ زبیر علی زئی نے نعیم بن حمادکے تذکرہ میں لکھا:

            ’’ محدثین کا کسی روایت یا سندکی تصحیح کرنا اس روایت یا سندکے تمام راویوں کی توثیق ہے۔‘‘

( ماہ نامہ الحدیث حضرو ،شمارہ: ۴۹ صفحہ ۳۷)

علی زئی صاحب نے دوسری جگہ لکھا:

            ’’ روایت کی تصحیح صاحب ِ تصحیح کے نزدیک راویوں کی توثیق ہوتی ہے۔‘‘

( فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام :۲؍۳۵۱)

            علی زئی صاحب نے اس طرح کی بات ’’ القول المتین صفحہ ۲۱‘‘ اور ’’نصر الباری صفحہ ۱۸‘‘ پہ بھی لکھی ہے ۔ ( تلامذہ امام اعظم ابو حنیفہ کا محدثانہ مقام صفحہ ۳۳۹،۳۴۰)

             اس اصول کے مطابق یوں کہنا بجا ہے کہ امام حاکم اور امام ابوداود نے نافع بن عجیر کی سند سے مروی حدیث کو صحیح کہہ کر ان کی بابت’’ ثقہ ‘‘ ہونے کا تاثر دیا ہے ۔

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’خلاصہ یہ کہ نافع بن عجیر یا تو صحابی تھے یا ثقہ و صدوق تابعی تھے۔ رحمہ اللہ۔ ‘‘

( توضیح الاحکام : ۱؍ ۵۹۸)

 خواجہ صاحب لکھتے ہیں:

            ’’صرف اتنی بات ضرور ہے کہ ابن جریج نے مروی عنہ کا نام ذِکر نہیں کیا۔بعض بنی ابی رافع کہاہے اس سے یہ وہم ہوتا ہے نا معلوم وہ مجہول راوی کیسا ہوگالیکن تابعین ایسے لوگ نہیں تھے جن کے متعلق بدگمانی کی جاسکے بالخصوص ابو رافع کی اولاد میں تو کوئی بھی متہم بالکذب نہیں تھا ۔‘‘

 (ایک مجلس تین طلاقیں ایک ہوتی ہے صفحہ۵۹)

            نافع بن عجیر کو اگر صحابی کی بجائے تابعی بھی مان لیا جائے تو بھی خواجہ صاحب کو اپنا لکھا یاد رکھنا چاہیے تھا کہ تابعین ایسے لوگ نہیں تھے جن کے متعلق بدگمانی کی جاسکے۔اوریوں بھی سوچ لیتے کہ نافع بن عجیر متہم بالکذب نہیں۔

            اس کے ساتھ مزید ایک بات قابل توجہ ہے وہ یہ کہ نافع بن عجیر اور بعض بنی ابی رافع میں تین طرح کا فرق ہے۔ایک یہ کہ نافع کو متعدد حضرات نے صحابی کہا ہے جب کہ بعض بنی ابی رافع کو نہیں۔ دوسرا یہ فرق ہے کہ خواجہ صاحب کی تحریر میں نافع نام کی صراحت ہے مگر دوسری طرف بعض بنی ابی رافع لکھاہواہے ، خواجہ صاحب نے اُن کا تک درج نہیں کیا۔ تیسرا فرق :نافع کو تابعی مان کر بھی متعدد حضرات نے ثقہ بتلایا، خود شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے بھی ثقہ تسلیم کیا ہے۔ جب کہ محدثین نے بعض بنی ابی رافع کے مجہول ہونے کی وجہ سے سند کو ضعیف کہا اور کسی نے بعض بنی ابی رافع کا مصداق محمد بن عبید اللہ کوبتایا تو محدثین نے اسے بھی مجروح قرار دیا ہے۔ حوالہ جات بندہ کی اسی کتاب کے ’’باب : ۱۲ ، غیرمقلدین مزعومہ دلائل کے جائزہ‘‘ میں منقول ہیں۔ صاحبِ کتاب امام ابو داود رحمہ اللہ نے بھی نافع والی روایت کو ترجیح دی ہے ۔چنانچہ خود معترض خواجہ صاحب لکھتے ہیں:

            ’’امام ابو داود نے نافع بن عجیر کی حدیث کو جریج کی روایت کی نسبت زیادہ صحیح کہا ہے۔وجہ یہ بیان کی ہے یہ روایت رکانہ کی اولاد سے مروی ہے اور انہیں ہی صورت ِحال کا زیادہ علم ہو سکتا ہے کہ آیا رکانہ نے ایک طلاق دی یا تین طلاقیں دی تھیں یابتہ کا لفظ بولا تھا۔ دوسری وجہ ترجیح غالبا ً اُن کے نزدیک یہ ہوگی کہ ابن جریج کی سند میں بعض بنی ابی رافع کا ذِکر ہے۔‘‘

 (ایک مجلس تین طلاقیں ایک ہوتی ہے صفحہ۶۲)

            حاصل یہ کہ مذکورہ بالا وجوہ سے نافع بن عجیر کوبعض بنی ابی رافع پہ بہت زیادہ فوقیت حاصل ہے۔ اس کے باوجود خو اجہ صاحب بعض بنی ابی رافع کے متعلق حسن ظن رکھیں اور نافع کو مجہول قرار دے کر ضعیف کہیں تو اسے کیا نام دیا جائے؟

خواجہ صاحب نے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب ’’ زاد المعاد ‘‘ سے نقل کیا:

            ’’ نافع بن عجیر مجہو ل ہے اس کا حال بالکل معلوم نہیں، پتہ نہیں یہ کون اور کیسا تھا۔‘‘

( ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہوتی ہے صفحہ ۶۱)

            حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا نافع بن عجیر کا حال معلوم نہیں تو کیاہوا ؟جنہیں ان کا حال معلوم تھا انہوں نے اسے قابل اعتماد بتایا ہے جیسا کہ اوپر با حوالہ معلوم ہوا ۔

نواب صدیق حسن غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ عدم ِعلم اُو علم بعدم نیست۔‘‘( بدور الاھلۃصفحہ ۳۷۹)

یعنی کسی چیز کاعلم کا نہ ہونا، اس کے معدوم ہونے کی دلیل نہیں۔

             حافظ ابن قیم رحمہ اللہ ایک طرف تو نافع بن عجیر کو مجہول قرار دے کرحدیث رکانہ بتہ کو ناقابل استدلال قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب وہ خود ہی حدیث بتہ سے استدلال کرتے نظر آتے ہیں چنانچہ انہوں نے طلاق کنائی کی بحث میں استدلال کرتے ہوئے لکھا:

            ’’ وَقَدِ اسْتَحْلَفَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہَ وَسَلَّمَ رُکَانَۃَ لَمَّا طَلَّقَ امْرَاَتَہٗ اَلْبَتَّۃَ۔

(زاد المعاد : ۲؍۲۴۲طبع مصر )

ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ کو قسم دی جب انہوں نے اپنی بیوی کوطلاق ِ البتہ دی ۔

زیر بحث حدیث کی تصحیح پہ محدثین کے حوالے

             حدیث رکانہ بتہ کے راوی نافع بن عجیر پہ جرح کا جواب پڑھ لینے کے بعد اَب اس حدیث کی تصحیح پہ محدثین کے حوالہ جات ملاحظہ ہوں۔

حضرت مولانا محمدسرفراز خان صفدر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            ’’ امام حاکم اور علامہ ذہبی پہلے زبیربن سعد سے اسی مضمون کی روایت نقل کرتے ہیں ( جس کا ذِکر ان شاء اللہ تعالیٰ ابھی متابع میں آرہا ہے ) اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اگرچہ اس روایت سے صحیحین میں صرف نظر کی گئی ہے لیکن فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا متابع موجود ہے جس سے یہ حدیث صحیح ہوجاتی ہے لکن لہ متابعا یصح بہ الحدیث اور آگے نافع بن عجیر کی مذکورہ روایت پیش کی ہے ۔(ملاحظہ ہو المستدرک جلد ۲ صفحہ ۱۹۹ و تلخیص المستدرک جلد ۲ صفحہ ۱۹۹ واللظ لہ ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ روایت امام حاکم اور علامہ ذہبی دونوں کے نزدیک صحیح ہے اور حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام ابوداود ،ابن حبان اور امام حاکم اس کی تصحیح کرتے ہیں۔(تلخیص الحبیر صفحہ ۳۱۹) امام دارقطنی اس روایت کو امام ابو داود کے حوالہ سے نقل کرکے آگے فرماتے ہیں وقال ابو داود وھذا حدیث صحیح ، امام ابوداو فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے ۔( دار قطنی جلد ۲ صفحہ ۵۳۹) .. . بہرحال اصول ِ حدیث کے لحاظ سے یہ حدیث صحیح اور قابلِ احتجاج ہے ۔ البتہ خوئے بد را بہانہائے بسیار کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ ‘‘

 ( عمدۃ الاثات صفحہ ۶۳)

            حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد نے ’’عمدۃ الاثات‘‘ کا جواب لکھتے ہوئے نہ تو مذکورہ بالا حوالوں پہ لے دے کی اور نہ ہی اس حدیث کی سند پر جرح کر پائے۔یہاں مجھے مولانا داود ارشد غیرمقلد کا انتخاب یاد آرہا ۔ انہوں نے بریلویوں کے ’’مفتی ‘‘احمد یار گجراتی کے متعلق لکھا:

            ’’ حضرت مفتی صاحب نے بھی اس کی صحت کو تسلیم کیا ہے کیوں کہ انہوں نے اپنا پورا زور حدیث مذکورہ کی تاویل میں صَرف کیا ہے۔ اگر صحت حدیث میں رتی بھر بھی گنجائش نظر آتی تو حضرت حکیم صاحب اپنی مخصوص حکمت کو جوش میں لا کر کوئی نہ کوئی حواس باختہ جرح ضرور کرتے ۔ ‘‘

( دین الحق :۲؍۶۵۷، ۶۵۸،ناشر: مکتبہ غزنویہ لاہور ، تاریخِ اشاعت: دسمبر ؍۲۰۰۱ء )  

حدیث رکانہ بتہ کی تصحیح شیخ زبیرعلی زئی کی زبانی

            اوپرتین طلاقوں کے تین ہونے پر سنن ابی داود کی حدیث رکانہ بتہ (حدیث :۲۲۰۶) مذکورہوئی۔ اس کی صحت پر محدثین کے حوالے ہم نے نقل کر دئیے ہیں۔ اَب اس کی تصحیح غیرمقلدین کے ہاں ’’ محدث العصر ‘‘ کا لقب پانے والے مصنف شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد کی زبانی ملاحظہ فرمائیں :

 علی زئی صاحب اِس حدیث کی تخریج میں لکھتے ہیں:

            ’’ [ اِسْنَادُہٗ حَسَنٌ ] اخرجہ الدارقطنی: ۴؍۳۳، ح : ۳۹۳۳ من حدیث الشافعی بہ، وھو فی الام :۵؍۱۱۸، ۱۳۷، ۲۶۰و ۷؍۳۵، ومسند الشافعی ، ص: ۲۶۸، وَنَقَلَ الدَّارَقُطْنِیُّ بِسَنَدٍ صَحِیْحٍ عَنْ اَبِیْ دَاوٗدَ قَالَ: وَھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ وَاُعِلَّ بِمَا لَا یَقْدَحُ ۔‘‘

(تخریج ابو داود، حدیث :۲۲۰۶)

            ترجمہ : اس کی سند حسن ہے ... دارقطنی نے ابو داود سے اس سند کا صحیح ہونا نقل کیا اور کہا: یہ حدیث صحیح ہے اس کی ایسی علت بتائی گئی جو حدیث کو کمزور نہیں کر سکتی ۔

             علی زئی صاحب نے مشکوۃ کی تخریج میں بھی’’ حدیث البتہ ‘‘کو حسن تسلیم کیا ہے ۔ ان کے الفاظ ہیں:

            ’’ حسن، رواہ ابوداود (۲۲۰۶) والترمذی(۱۱۷۷) وابن ماجۃ (۲۰۵۱)والدارمی ۲؍۱۶۲ح ۲۲۷۷) ‘‘

( تخریج مشکوۃ :۲؍۳۴۰ حدیث : ۳۲۸۳)

حکیم صفدر عثمانی کا بے جا اعتراض:

            سنن ابی داودکی حدیث رکانہ بتہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’عمدۃ الاثات‘‘ میں میں درج کی ہے۔ حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد نے’’ عمدۃ الاثاث ‘‘سے اسے نقل کیا اور پھر اس پر یوں اعتراض کیا:

             ’’ اس حدیث کا دار و مدار زبیر بن سعید نوفلی پر ہے اور وہ ضعیف ہے ۔ ‘‘

( احسن الابحاث صفحہ ۳۹)

جواب:

حدیث رکانہ بتہ ابو داودمیں دوسندوں کے ساتھ مروی ہے۔

پہلی سند یہ ہے :

            ’’ حَدَّثَنَا ابْنُ سَرْحٍ وَ اِبرَاہِیْمُ ابْنُ خَالِدٍ الْکَلْبِیُّ اَبُوْثَوْرٍ فِیْ آخَرِیْنَ قَالُوْا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ حَدَّثَنِیْ عَمِّیْ مُحَمَّدُبْنُ عَلِیِّ بْنِ شَافِعٍ عَنْ [عَبْدِ اللّٰہ]ِ بْنِ عَلِیٍّ بْنِ السَّائِبِ عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَیْرِبْنِ عَبْدِ یَزِیْدَ بْنِ رُکَانَۃَ‘‘

 دوسری سند درج ذیل ہے :

            ’’ حدثنا محمد بن یونس النسائی ان عبد اللّٰہ بن الزبیر حدثھم عن محمد بن ادریس : حدثنی عمی محمد بن علی عن رکانۃ بن عبد یزید عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بھذا الحدیث ۔‘‘

            دونوں سندوں میں سے کسی میں بھی زبیر بن سعید نہیں ہے۔ لہذا حکیم صاحب کا زبیر بن سعید کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہنا درست نہیں۔مزید یہ کہ حکیم صاحب کا یہ دعوی بھی غلط ہے کہ اس حدیث کا دار و مدار زبیر بن سعید نوفلی پر ہے۔‘‘ اس لئے کہ یہ صحیح سندوں سے مروی ہے جو زبیر بن سعید کی سند سے بے نیاز کر دیتی ہیں جیسا کہ شیخ زبیرعلی زئی غیرمقلد نے کہاہے۔

            زبیر بن سعید کے طریق سے اس مضمون کی ایک روایت سنن ابن ماجہ (باب طلاق البتہ ، حدیث: ۲۰۵۱) میں ہے ۔ علی زئی صاحب نے اس کی تخریج میں لکھا:

            ’’ اِسْنَادُہٗ ضَعِیْفٌ ... ویُغنِیْ عَنْہُ طَرِیْقُ اَبِیْ دَاوٗدَ ح: ۲۲۰۶، ۲۲۰۷ وَغَیْرِہٖ وَصَحَّحَہٗ اَبُوْدَاوٗدَ وَالْحَاکِمُ وَالْقُرْطَبِیُّ ، وَلَمْ اَرَ لِمُضَعِّفِیْہِ حُجَّۃً ۔‘‘

 (تحقیق و تخریج سنن ابن ماجہ:۳؍۲۳۳ ،باب طلاق البتہ ، حدیث: ۲۰۵۱ )

            ترجمہ : اس کی سند ضعیف ہے ... اور ابوداود حدیث :۲۲۰۶،۲۲۰۷ وغیرہ کی سند اس سے بے پرواہ کر دیتی ہے۔ اسے ابوداود، حاکم اور قرطبی نے صحیح کہا ہے ۔ اور میں اسے ضعیف قرار دینے والوں کی کوئی دلیل نہیں دیکھ سکا۔

            علی زئی صاحب کی اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ حکیم صاحب کا اس حدیث کو ضعیف کہنا بے جا ہے اور یہ کہنا بھی غلط کہ اس حدیث کا مدار زبیر بن سعید پر ہے ۔

              حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے اصالۃً اس حدیث کو پیش کیا جس کی سند میں زبیر بن سعید نہیں اوروہ علی زئی صاحب کی تحقیق کے مطابق بھی قابل اعتماد سند ہے۔ رہی زبیر بن سعید والی روایت اسے ’’عمدۃ الاثاث‘‘ میں متابعۃً ذِکر کیا گیا ہے۔چنانچہ حضرت صفدر رحمہ اللہ نے زبیر بن سعید اور عبد اللہ بن علی کے متعلق لکھا:

            ’’ ان کو متابعت میں پیش کیا جاسکتا ہے ،چنانچہ مشہور غیرمقلدعالم مولانا حافظ محمد صاحب گوندلوی لکھتے ہیں کہ مستور کی روایت کو متابعت میں ذِکر کرنے سے کوئی حرج نہیں ہے۔ (خیر الکلام صفحہ ۲۲۵) اور دوسرے مقام پر چند آثار کا ذِکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے بعض راوی اگرچہ ضعیف ہیں مگر متابعت میں ذِکر کرنے سے کوئی حرج نہیں ہے۔ ( خیر الکلام صفحہ۳۱۶) الغرض یہ [زیر بحث ابو داود والی (ناقل)] روایت بھی اصولِ حدیث کے رُو سے حسن سے کم نہیں اور پھر اس کا متابع بھی موجود ہے جو متابعت میں پیش کیا جا سکتا ہے اور جمہور کے عمل کی تائید اس کومزید حاصل ہے جس کی حجیت میں کوئی شک باقی نہیں رہتا ۔ ‘‘

( عمدۃ الاثاث صفحہ ۶۴)

            حاصل یہ کہ حکیم صاحب اصالۃً پیش کی جانے والی حدیث کے کسی راوی پہ جرح نہیں کر سکے۔ صرف اتنا کر پائے کہ اپنے طور پر زبیربن سعید کو اس کا راوی قرار دے کر حدیث پہ ضعف کی چھاپ لگادی۔جب کہ زبیر اس کی سند میں ہے ہی نہیں۔ البتہ متابع میں پیش کی جانے والی روایت میں زبیر بن سعیدموجود ہے مگر حضرت رحمہ اللہ نے غیرمقلدین کے شیخ الاسلام مولانا محمد گوندلوی سے تائیدی حوالہ نقل کردیاکہ متابعت میں ضعیف روایت پیش ہو سکتی ہے۔

            متابعت میں ضعیف روایت کے کفایت کرنے کی بات دیگر غیرمقلدین کو بھی تسلیم ہے مثلا ً

            علامہ وحید الزمان غیرمقلد نے صحیح بخاری میں عبد الرحمن ابن نمرکی سند سے مروی ایک حدیث کی تشریح میں لکھا:

            ’’ بات یہ ہے کہ عبد الرحمن بن نمر دمشقی میں لوگوں نے کلام کیا ہے گو ذہلی وغیرہ نے اس کو ثقہ کہا ہے مگر یحی بن معین نے اس کو ضعیف کہا ہے تو امام بخاری نے اس روایت کا ضعف رفع کرنے کے لیے یہ بیان کردیا کہ عبدالرحمن کی متابعت سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے بھی کی ہے ۔ گو یہ دونوں بھی ضعیف ہیں مگر متابعت سے حدیث قوی ہو جاتی ہے ۔ ‘‘

 ( تیسیر الباری :۲؍۱۲۴، طبع تاج کمپنی )

            بخاری (کتاب المناسک ، حدیث: ۷۷۳) عن ایوب عن رجل عن انس سند سے روایت ہے ۔ علامہ وحید الزمان نے’’ عن رجل ، ایک شخص ‘‘ کے متعلق لکھا:

            ’’ یہ شخص مجہول ہے مگر امام بخاری نے متابعت کے طور پر اس مسند کو ذِکر کیا تواس کے مجہول ہونے میں قباحت نہیں ۔ ‘‘

( تیسیر الباری :۲؍۵۵۶، طبع تاج کمپنی)

مولانا ابو القاسم سیف بنارسی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ کوئی راوی ضعیف یا قدرے شیعی کسی صحیح حدیث کی متابعت والی سند میں لایا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا کیوں کہ اصل روایت اس عیب سے بری ہے اور یہ مجروح محض تائید و متابعت میں لایا گیا ۔‘‘

( دفاع بخاری صفحہ ۱۴۹)

            متابعت میں ضعیف روایت کو پیش کرنے کا جواز قریبا سبھی غیرمقلدین کو تسلیم ہے یہاں تک ضعیف روایات سے کلی اجتناب کے دعوے دار شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد بھی متابعۃً ضعیف روایت پیش کرنے کا جواز مانتے ہیں۔ اورانہوں نے شواہد میں بھی ضعیف روایات کو پیش کیا ۔چنانچہ وہ ایک روایت کی سند کو ضعیف قرار دے کر لکھتے ہیں:

            ’’ اس روایت کے متعدد شواہد ہیں جن کے ساتھ یہ حسن ہے [ آگے لکھا (ناقل )] اس روایت کے متعدد شواہد بھی ہیں۔ مثلاً (۱)اسماعیل بن عیاش (ضعیف ) عن صالح بن کیسان (ثقہ ؍حجازی ) عن عبد الرحمن الاعرج (ثقہ ) عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ، اخرجہ ابن ماجہ (۸۶۰) و احمد (۲؍۱۳۲) وغیرہما ۔یہ سند ضعیف ہے ۔ (۲)محمد بن مصعب القرقسانی (ضعیف، ضعفہ الجمھور ووثقہ ابن قانع وغیرہ) عن مالک عن ابن شہاب الزھری عن ابی سلمۃ بن عبد الرحمن عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ بہ الخ [ التمہید : ۷؍۷۹،۸۰ و کتاب العلل للدارقطنی ]یہ سند بھی ضعیف ہے۔ (۳)عمرو بن علی عن ابن عدی عن محمد بن عمرو ابی سلمۃ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ الخ [ العلل للدارقطبی، التلخیص الحبیر۱؍۲۱۹]اس کی سند (عمرو بن علی الفلاس سے اوپر ) حسن ہے لیکن نیچے والی سند نامعلوم ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف و مردود ہے ۔ ‘‘

( نور العینین صفحہ ۳۳۳، طبع جدید ،سنِ اشاعت : اکتوبر ؍ ۲۰۱۲ء)

 حکیم صفدرعثمانی کا ایک اور اعتراض:

             سنن ابی داود کی حدیث بتہ کی سند پر حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد اعتراض نہیں کر سکے مگر چپ رہنا بھی گوارہ نہ تھا تو یوں گویا ہوئے :

            ’’ لفظ بتہ سے دفعۃً تین طلاقیں پڑنے کا جواز ثابت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکانہ رضی اللہ عنہ کو کیوں رجوع کا حکم دیتے۔اگر دفعۃً تین طلاقیں تین ہی ہوجاتی ہیں تو پھر بدعت ، حرام اور گناہ کیوں لکھا ہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اکٹھی تین طلاقوں پر کوڑے مارنا بھی حدیث کے خلاف ہو گا۔‘‘

( احسن الابحاث صفحہ ۳۷،۳۸)

 جواب:

            محدثین کرام نے کہا ہے کہ سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تھی ، نہ کہ تین طلاقیں۔ مزید یہ کہ جس روایت میں تین طلاقیں دینے کی بات ہے، اسے محدثین اور خود متعدد غیرمقلدین نے ضعیف کہا ہے۔ حوالہ جات ہماری اسی کتاب کے ’’باب:۱۲ غیرمقلدین کے مزعومہ دلائل کا جائزہ ‘‘ میں درج ہیں ہیں والحمد للہ۔

            حکیم صاحب نے اپنی اسی کتاب میں یہ جملہ ’’اگر دفعۃً تین طلاقیں تین ہی ہوجاتی ہیں تو پھر بدعت ، حرام اور گناہ کیوں ؟‘‘بار بار دہرایا ہے۔اس لئے ہمیں بھی بار بار جواب دہرانا ہوگا ،لہذا تکرار ناگزیر ہے۔ دو باتیں الگ الگ ہیں ایک یہ کہ اکٹھی تین طلاقیں دینا ممنوع ہے ، دوسرا یہ کہ اگر کوئی شخص ممنوع ہونے کے باوجود تین طلاقیں دے چھوڑے تو واقع ہو جاتی ہیں۔غیرمقلدین کو بھی تسلیم ہے کہ طلاق ِبدعت مثلاً حالتِ حیض میں طلاق دینا ممنوع ہے مگر واقع ہو جاتی ہے۔ حوالہ جات ہم نے اپنی اسی کتاب کے باب: ۱۶ ، غیر شرعی بدعی طلاقوں کا وقوع غیر مقلدین کی زبانی ‘‘ میں نقل کر دیئے ہیں خود حکیم صاحب کے ہاں بھی حالتِ حیض میں دی جانے والی طلاق ممنوع و بدعت ہونے کے باوجود واقع ہوجاتی ہے ۔ ( احسن الابحاث صفحہ ۱۲)

            حکیم صاحب کی اس کتاب کا پیش لفظ مولانا مبشر احمد ربانی نے لکھا اور تقریظ حافظ صلاح الدین یوسف نے تحریر کی ۔ دونوں:ربانی صاحب اور یوسف صاحب کے نزدیک بھی حالتِ حیض میں دی جانے والی طلاق ممنوع و بدعت ہونے کے باوجود واقع ہو جاتی ہے ۔ ربانی صاحب نے یہ مسئلہ احکام و مسائل ...اور... آپ کے مسائل اور ان کا حل میں لکھا ۔اور یوسف صاحب نے تفسیری حواشی میں درج کیا ۔ دونوں کی عبارتیں ہم نے اس کتاب کے سولہویں باب’’ غیرشرعی ؍ بِدعی طلاقوں کا وقوع غیرمقلدین کی زبانی ‘‘ میں نقل کردی ہیں۔

            حکیم صاحب نے جو اعتراض اہل سنت پر کیا ہے وہی بشمول حکیم صاحب غیرمقلدین پر ہو تا ہے کہ اگر بدعی (مثلاًحالت ِ حیض میں دی جانے والی )طلاق واقع ہوجاتی ہے تویہ’’ بدعت ، حرام اور گناہ کیوں؟‘‘ ہے ۔

            اکٹھی تین طلاقوں کے وقوع کی بات آئی تو غیرمقلدین نے نظریہ بنالیا چوں کہ اکٹھی تین طلاقیں دینا ممنوع ، بدعت اور حرام ہیں اس لیے واقع نہیں ہوتیں مگر دوسری کئی بدعی و حرام طلاقوں کا وقوع مان کر خود ہی اپنے تراشیدہ اصول کو پاش پاش کر دیا ہے۔ شیخ زبیر علی زئی کی عبات ہم پہلے نقل کر چکے ہیں کہ اپنے اصول کو خود ہی پاش پاش کردینا مذہبی خود کشی کی بدترین مثال ہے ۔

حکیم صاحب نے اہلِ سنت پر اعتراض کرتے ہوئے یوں بھی لکھ دیا:

’’ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اکٹھی تین طلاقوں پر کوڑے مارنا بھی حدیث کے خلاف ہوگا۔‘‘

            عرض ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اکٹھی تین طلاقیں دینے کو قابل ِجرم سمجھتے تھے مگر اس کے باوجود اکٹھی تین طلاقوں کو نہ صرف واقع مانتے تھے بلکہ انہیں سرکار ی سطح پہ نافذ بھی کر دیا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کاتین طلاقیں دینے کو جرم سمجھنے کے باوجود واقع ماننا ہماری تائید میں ہے اور غیرمقلدین کے خلاف۔ پتہ نہیں حکیم صاحب کو کیا سوجھی کہ ایسی بات لکھ دی جو اُن کے خلاف اور ہمارے حق میں ہے۔

             حکیم صاحب کا یہاں اعتراض یہی ہے کہ اگر تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں تو انہیں بدعت وگناہ اور حرام کیوں کہتے ہو۔جس کا جواب اوپر دیا جا چکا ۔مزید عرض ہے کہ تین طلاقوں کے وقوع کو ماننے والوں میں ایسے افراد بھی ہیں جو اکٹھی تین طلاقیں دینے کو جائز سمجھتے ہیں جیسے امام شافعی رحمہ اللہ ، ابن حزم ظاہری اور شافعیہ حضرات وغیرہم تو کیا حکیم صاحب انہیں حق دیتے ہیں کہ وہ اس حدیث سے تین طلاقوں کے وقوع کو اَخذ کریں ؟تب تو یہ اشکال نہ رہے گا کہ اگر تین واقع ہوجاتی ہیں تو بدعت، گناہ اور حرام کیوں؟

 حکیم صفدر عثمانی کا تیسرا اعتراض

حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ مولانا محمد سرفراز صاحب نے لکھا ہے کہ طلاق تو مسخرہ سے بھی واقع ہو جاتی ہے اگر نیت والی بات مان لیں تو پھرمسخرہ والی بات کا انکار ہوگا اورطلاق دینے والا کہہ سکتا ہے کہ میری نیت طلاق دینے کی نہ تھی میں تو ویسے ہی مسخرہ کر رہا تھا۔‘‘

(احسن الابحاث صفحہ ۳۸)

            حکیم صاحب کے اعتراض کا حاصل یہ ہے کہ طلاق بتہ والی حدیث میں نیت کا اعتبارہے کہ اگر ایک کی نیت کی ہو تو ایک طلاق واقع ہوگی اور اگر تین کی نیت ہوئی تو تین واقع ہوں گی۔ جب کہ مولانا صفدرصاحب مسخرہ کی طلاق کوطلاق دینے کی نیت نہ ہونے کے باوجود واقع مانتے ہیں۔ یعنی طلاق بتہ میں نیت کا اعتبار کرنا اور مسخرہ کی (ہنسی مذاق میں ) طلاق دینے میں نیت کا اعتبار نہ کرنا تضاد ہے ۔

جواب:

             دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ الفاظِ طلاق دو طرح کے ہیں۔ کچھ الفاظ صریح ہوتے ہیں اور کچھ الفاظ کنائی ۔ صریح الفاظ سے دی جانے والی طلاق میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا، بغیر نیت کے بھی ہوجاتی ہے۔مسخرہ کی طلاق کا وقوع بھی تب ہوگا جب وہ صریح الفاظ سے طلاق دے ۔اگر اس نے کنائی الفاظ بولے تواس کی بھی نیت پوچھی جائے گی۔

            اور صریح کے بالمقابل کنائی الفاظ سے طلاق دینے کی صورت میں نیت کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔

             چوں کہ بتہ کے لفظ میں ایک کا بھی احتمال ہے اور تین کا بھی۔اس لیے نیت پوچھی جائے گی کہ ایک طلاق کی نیت تھی یا تین کی؟

            حکیم صاحب کومعلوم ہو نا چاہیے کہ غیرمقلدین کے ہاں بھی مسئلہ یوں ہی ہے کہ کنائی الفاظ سے طلاق دینے کی صورت میں نیت پوچھی جائے گی اورمسخرہ کی طلاق صریح الفاظ میں دی جانے کی صورت میں واقع ہو جاتی ہے ۔

 حافظ محمد امین غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’صریح لفط طلاق بولا جائے توطلاق ہی مراد ہو گی، نیت ہو یا نہ مگر کچھ ایسے الفاظ ہیں جن سے طلاق مراد لی جا سکتی ہے اور کوئی اور معنیٰ بھی مراد لئے جاسکتے ہیں ۔ان الفاظ سے طلاق تب واقع ہوگی جب نیت طلاق کی ہو ۔ ان کو کنایات طلاق کہتے ہیں ۔‘‘

(ترجمہ و فوائد :سنن النسائی مترجم اردوصفحہ ۵؍ ۳۰۷تحت :حدیث :۳۴۵۲، نظرثانی ، تصحیح و تنقیح اور اضافات حافظ صلاح الدین یوسف )

 حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ صریح طلاق: واضح اور دو ٹوک انداز میں لفظ طلاق استعمال کیا جائے، اس صورت میں طلاق ہو جاتی ہے،انسان کی نیت وغیرہ کو نہیں دیکھا جاتا، اگر مذاق کے طور پر بھی اس لفظ کو استعمال کیا جائے تو بھی طلاق ہو جاتی ہے ... طلاق کنائی: لفظ دو ٹوک انداز میں نہ کہا جائے بلکہ اشارے یا کنائے سے کام لیا گیا ہو۔مثلاً میری طرف سے تو آزاد ہے، میری طرف سے تو فارغ ہے، تو اپنے میکے چلی جاؤ، میں تجھے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا، ایسے الفاظ استعمال کرتے وقت انسان کی نیت کو دیکھا جاتا ہے اگر نیت طلاق کی ہے تو طلاق واقع ہوگی بصورت دیگر طلاق نہیں ہوگی ، کیوں کہ بعض اوقات انسان اپنی بیوی کا دماغ درست کرنے کے لیے اس قسم کے الفاظ بطور دھمکی استعمال کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی منکوحہ ’’ابنتۃ جون‘‘ کوبایں الفاظ طلاق دی تھی کہ ’’ تو اپنے گھر چلی جا۔ (بخاری کتاب الطلاق : ۵۲۵۴) لیکن مذکورہ الفاظ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے کہے تھے اور ان کا ارادہ طلاق دینے کا نہ تھا،اس لئے انہیں طلاق شمار نہیں کیا گیا۔ بخاری ،المغازی : ۴۴۱۸۔‘‘

( فتاوی اصحاب الحدیث : ۵؍۳۴۴، مکتبہ اسلامیہ )

            حماد صاحب نے دوباتیں لکھیں ایک یہ کہ الفاط کنائی میں نیت کا اعتبار ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ صریح الفاط کے ساتھ دی جانے والی طلاق میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا اس لیے مسخرہ ( مذاق میں دینے والے ) کی طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے ۔حکیم صاحب نے جوبے جا اعتراض حضرت مولانامحمد سر فراز خان صفدر حمہ اللہ پر کیا ہے،اس کی زَد سے اُن کے اپنے غیرمقلدین بھی نہیں بچ سکتے ۔

            مذکورہ بالا عبارت میں حماد صاحب نے طلاق کنایہ میں نیت کے معتبر ہونے پہ بخاری کی حدیثیں پیش کی ہیں۔ اور مسخرہ کی طلاق کو واقع ماننا بھی حدیث سے ثابت ہے :

            ’’ ثَلاَثٌ جِدُّھُنَّ جِدٌّ وَ ھَزْلُھُنَّ جِدٌّ اَلنِّکَاحُ وَالطَّلاَقُ وَ الرَّجْعَۃُ ‘‘(نسائی : کتاب الطلاق ،باب من طلق او نکح او رجع لاعبا، ہنسی مذاق میں طلاق دینے،نکاح کرنے اور رجوع کرنے کا بیان :حدیث: ۲۰۳۹)

 شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے اس کی تخریج میں لکھا:

’’ اسنادہ حسن ۔‘‘

شیخ ارشاد الحق اثری غیرمقلداس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :

            ’’ یہ روایت دواوین احادیث میں موجود ہے ۔ ‘‘

( احادیث ِہدایہ، فنی و تحقیقی حیثیت صفحہ۵۹، ادارۃ العلوم الاسلامیۃ فیصل آباد ،تاریخِ طباعت: ستمبر ؍۲۰۰۲ء)

              غیرمقلدین نے مذکورہ بالا حدیث کواپنے فتاوی اور دیگر کتب میں درج کرکے استدلال کیا ہے۔ حاصل یہ کہ حماد صاحب کے مذکورہ بالا فتویٰ کی دونوں باتیں : طلاق کنائی میں نیت کا اعتبار کرنا اور مسخرہ کی طلاق کا صریح الفاظ میں ہونے کی وجہ سے واقع ہونا حدیثوں سے ثابت ہے۔ حکیم صاحب کا اعتراض حدیثوں سے اَخذشُدہ مسئلہ پر ہے۔

             حکیم صاحب دوسروں کو تضادکا طعنہ دیتے ہیں جب کہ وہ خود اور اکثر غیرمقلد ین تضاد کا شکار ہیں کہ ایک طرف تو کہتے ہیں اکٹھی تین طلاقیں دینا چوں کہ ناجائز ہے اس لیے واقع نہیں ہونی چاہئیں ۔ جب کہ دوسری جانب بدعی و ممنوع طلاق(مثلاًحالتِ حیض میں دی جانے والی طلاق اور مسخرہ کی طلاق) کو ناجائزہونے کے باوجود واقع مانتے ہیں۔

 مولانا عبد المنان راسخ کا مخالف حدیث کو اپنی دلیل باور کرانا

            قارئین کرام!سنن ابی داود کی’’حدیث ِبتہ ‘‘ کی سند پر بحث آپ نے ملاحظہ فرما لی۔ اور غیرمقلدین کا اعتراف بھی پڑھ لیا کہ حدیث بتہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے تین ہونے کی دلیل ہے۔بحث کے آخر میں غیرمقلدین کے خطیب و مصنف مولانا عبد المنان راسخ کی سینہ زوری؍ اس حدیث کو اپنی دلیل باور کرانا بھی ملاحظہ فرمائیں۔

حدیث ِ بتہ سنن دارمی میں بھی ہے۔ہم یہاں اس کا ترجمہ نقل کر دیتے ہیں:

            ’’ سیدنا سعید رضی اللہ عنہ جو بنو عبد المطلب کے آدمی ہیں نے کہا: مجھے ایک حدیث عبد اللہ بن علی بن یزید بن رکانہ سے پہنچی۔ وہ اپنے ایک گاؤں میں تھے ۔میں نے ان کے پاس جا کران سے پوچھاتو انہوں نے کہا: میرے والد نے میرے دادا سے نقل کیا کہ انہوں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کا ذِکر کیا۔ آپ ؐ نے فرمایا :تیرا کیا ارادہ تھا ؟ اس نے کہا : ایک طلاق کا، آپؐ نے فرمایا: اللہ کی قسم؟ اس نے کہا: ’’ اللہ کی قسم ‘‘ آپ نے فرمایا : ’’ وہی ہے جو تم نے نیت کی ۔ ‘‘

 ( سنن دارمی مترجم ، حدیث : ۲۳۱۸، ترجمہ بنت شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد )

          تنبیہ: دارمی کی حدیث میں عربی الفاظ ’’ طلق امراتہ البتۃ‘‘ ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو بتہ طلاق دی ۔ بنت صاحبہ؍بنت ِحماد نے اس کا ترجمہ ’’تین طلاقیں‘‘کیا ہے ۔

مولانا عبدالمنان راسخ غیرمقلد نے اس حدیث کی شرح میں ’’ فوائد ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھا:

            ’’(۱) مذکورہ روایت کی سند اگرچہ ضعیف ہے۔بہرحال ابورکانہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کو شیخ صبحی حلاق نے حسن قرار دیا۔ [بلوغ المرام (۱۰۰۹) کی شرح سبل السلام پر تعلیق ملاحظہ کیجئے](۲) ثابت ہوا ایک مجلس میں اکٹھی دی گئیں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی۔ ‘‘

 (فوائد : سنن دارمی مترجم :۲؍۲۰۱، انصار السنۃ پبلی کیشنز لاہور )

            اس کتاب کے شروع میں’’نظر ثانی: شیخ الحدیث قاری سعید احمد کلیروی، حافظ مطیع اللہ ‘‘ لکھاہوا ہے ۔

            راسخ صاحب کے قلم کا کمال دیکھئے کہ جس حدیث سے ایک مجلس کی تین طلاقوں کا تین ہونا ثابت ہوتا ہے، اسے ایک طلاق واقع ہونے کی دلیل بنارہے ہیں۔ پھر چوں کہ وہ اسے اپنی دلیل باور کرا رہے تھے اس لئے ضروری تھا کہ اسے صحیح یا حسن ثابت کرتے تو جھٹ سے’’ مذکورہ حدیث کو شیخ صبحی حلاق نے حسن قرار دیا ۔‘‘ کہہ دیا ۔ آن ِ واحد میں حدیث کے ضعف کا مسئلہ حل کر دیا۔

             لیکن اس کے باوجود جواب طلب دو باتیں باقی ہیں ۔ (۱) اگر حدیث بتہ تین طلاقوں کے ایک ہونے کی دلیل ہے توچاہے نیت ایک کی ہو یا تین کی۔ ہر حال میں ایک ہی واقع ہونی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی سے قسم دے کر کیوں پوچھا کہ واقعی آپ نے ایک کی نیت کی تھی؟ اس کا جواب باقی ہے ۔

(۲)راسخ صاحب نے یہاں طلاق بتہ کو قابلِ رجوع طلاق باور کرایا جب کہ اس سے پہلے کہا کہ طلاق ِ بتہ کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں ۔اُن کے الفاظ یہ ہیں:

            ’’ تین طلاقوں یعنی طلاقِ بتہ کے بعد رجوع کاحق ختم ہوگیا۔ اَب اس خاوند سے دوبارہ ملاپ کے لئے اس کی صورت یہ ہے کہ عورت کسی دوسرے شخص سے شادی کرے، یہ نکاح صحیح شرعی اُصولوں کے مطابق ہو، پھر ان کی آپس کی ناچاقی یا کسی وجہ سے طلاق ہو جائے یا یہ دوسرا شوہر فوت ہو جائے اَب اس عورت کو جائز ہے کہ پہلے خاوند کی طرف لوٹ جائے بشرطیکہ دوسرے خاوند سے اس کے تعلقات قائم ہوں جیسے کہ حدیث میں(ہے) ’’ لا حتی یذوق عسیلتک ‘‘ حتی کہ وہ تیرا شہد چکھ لے ۔ ‘‘

(فوائد : سنن دارمی مترجم :۲؍۱۹۸، انصار السنۃ پبلی کیشنز لاہور )

            حاصل یہ کہ راسخ صاحب نے طلاق بتہ کو قابل رجوع طلاق بھی کہا اور ناقابل ِ رجوع بھی۔

ماخوذ  : مجلہ  راہ     ہدایت    شمارہ 21

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

 (جاری)

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...