🌹 مسائل شرعیہ کی فہم کیلئے نری حدیث دانی کافی نہیں
🔹 علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ تلبیس ابلیس میں فرماتے ہیں:
بعض محدثین نے یہ حدیث بیان کی کہ منع فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے کہ آدمی اپنے پانی سے دوسرے کے کھیت کو سیراب کرے ، حاضرین مجلس میں سے ایک جماعت نے کہا کہ بارہا ہم کو ایسا اتفاق ہوا ہے کہ جب ہمارے باغ میں پانی زیادہ ہو گیا تو ہم نے اپنے پڑوسی کے باغ میں وہ پانی چھوڑ دیا اب ہم اپنے اس فعل سے استغفار کرتے ہیں۔
حالانکہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حاملہ لونڈیوں سے وطی نہ کی جائے مگر اس کو نہ شیخ سمجھا اور نہ حاضرین مجلس کی نظر اس کی طرف گئی۔
یہ ہے عدم تفقہ کا ثمرہ۔
( تلبیس ابلیس ص۱۷۷)
🔹 علامہ ابن جوزی ؒ اپنی کتاب میں علامہ خطابی رحمہ اللہ کاقول نقل کرتے ہیں:
ایک شیخ نے یہ حدیث بیان کی کہ حضور ﷺ نے اس بات سے منع کیا ہے کہ جمعہ کے روز نماز سے پہلے حجامت بنوائی جاۓ اور اس کے بعد کہا کہ اس حدیث پر عمل کرتے ہوۓ میں نے چالیس سال سے کبھی جمعہ سے پہلے سر نہیں منڈایا ہے ۔ علامہ خطابی ؒ کہتے ہیں کہ میں نے کہا حضرت خلق بسکون لام نہیں بلکہ حلق بفتح لام و کسر حاء ہے جو حلقہ کی جمع ہے، اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ سے پہلے علم اور مذاکرہ کے حلقے نہ بناۓ جائیں اس لئے کہ یہ نماز پڑھنے اور خطبہ سنے کا وقت ہے۔
یہ سن کر وہ شیخ بہت خوش ہوۓ اور کہا تم نے مجھ پر بہت آسانی کر دی۔
(تلبیس ابلیس ۱۲۹۸)
🔹 ایک نرے محدث صاحب نے حدیث بیان کی:
"نهى رسول اللہ ﷺ ان يتخذ الروح عرضاً.
اور حدیث کی یہ تشریح کی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ ہوا کیلئے دریچہ ( کھڑکی ) کو عرضا بنایا جاۓ ،حالانکہ حدیث کا یہ مقصد و مطلب نہیں ہے ، حدیث میں لفظ روح بضم الراء ہے اور محدث صاحب نے بفتح الراء سمجھا اور غرضاً کو عرضا بعین مہملہ پڑھا اور مندرجہ بالا نتیجہ اخذ کیا ، حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کسی جاندار ( کو باندھ کر ) تیر (بندوق وغیرہ ) کا نشانہ نہ بنایا جاۓ،
یہ ہے فقہ فی الدین حاصل نہ کرنے کاثمرہ۔
(مقدمہ مسلم شریف ص ۱۸ج را نیز ص ۱۵۳٫ج ۲)
🔹 کشف بزدوی میں لکھا ہے کہ ایک محدث کی عادت تھی کہ استنجاء کے بعد وتر پڑھا کرتے تھے ، جب اس سے وجہ دریافت کی گئی تو دلیل پیش فرمائی کہ حدیث شریف میں ہے کہ "مـن اسـتـجـمـر فلیوتر“ کہ جوشخص استنجاء کرے وہ اس کے بعد وتر پڑھے،
حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ استنجاء کیلئے جو ڈھیلے استعمال کئے جائیں وہ وتر ( طاق عدد ) ہوں یعنی تین یا پانچ یا سات۔
( كشف الأسرارلیز دوی ج را بص ۲۰۰ ط قدیمی )
اسی بناء پر حضوراکرم ﷺ نے دعا فرمائی ہے:
اللہ تروتازہ رکھے اس بندے کو جو میری حدیث سنے پھر اس کو یاد رکھے اور اس کی حفاظت کرے پھر دوسرں تک اس کو پہنچا دے اس لئے کہ بسا اوقات جس کو حدیث پہنچائی جاتی ہے وہ اس سے زیادہ فقیہ ہوتا ہے۔
(مشکوة شریف ص ۳۵)
اور فرمایا ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے بھاری ہے۔
(ابن ماجہ 222#)
🔸 غیر مقلدین کے پیشوا علامہ داؤد ظاہری نے "لا يـولـن احـد كـم فـي الـمـاء الــدائـم ( تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاپ نہ کرے ) کے ظاہر پر عمل کرتے ہوۓ یہ فتوی دیا کہ ماءراکد میں پیشاب کرنا تو منع ہے اور پیشاپ کرنے سے پانی ناپاک ہو جاۓ گا۔ لیکن اگر کسی الگ برتن میں پیشاب کر کے وہ برتن پانی میں الٹا دیا گیا تو پانی ناپاک نہ ہوگا ، اسی طرح اگر کوئی شخص پانی کے کنارے پیشاب کرے اور پیشاب بہہ کر پانی میں چلا جاۓ تب بھی پانی ناپاک نہ ہوگا ، اس لئے کہ حدیث میں صرف ماءرا کد میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے اور ان دونوں صورتوں میں ماءراکد میں پیشاپ نہیں کیا لہذا پانی ناپاک نہ ہوگا ، امام نووی ؒ شارح مسلم شریف نے شرح مسلم شریف میں علامہ داؤ ظاہری کے اس فتوی کونقل کرنے کے بعد فرمایا ہے "هـذا مـن اقبح ما نقل عنه في الجمود على الظاهر “ فتوی داؤد ظاہری کے جمود علی الظاہر کے غلط مسائل میں سے (ایک مسئلہ ) ہے۔
( نووی شرح مسلم ص ۱۳۸۷)
🔸 غیر مقلدین کے دوسرے پیشوا حافظ ابن حزم ؒ ( جو بڑے محدث مفسر اور متکلم ہیں) نے قرآن کی آیت:"وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ “
اور جب تم زمین میں سفر کرو تو اس میں کوئی گناہ نہ ہوگا کہ نماز میں قصر کرو (سورۂ نساء) کے ظاہر کو دیکھ کر کہا کہ مدت سفر کوئی چیز نہیں ،اپنے گھر سے صرف ایک میل کے ارادے سے بھی جاۓ تو قصر کرے المحلی میں اس مسئلہ پر بہت زور دیا ہے ان کو یہ خیال نہ ہوا کہ پھر جتنے لوگ مسجد میں جا کر نماز پڑھیں وہ سب ہی قصر کیا کریں کیونکہ ضرب فی الارض صادق آگیا ،آیت میں تو ایک میل آدھ میل کی بھی کوئی تحدید نہیں ہے۔
(فضل الباری شرح بخاری ص 73 ج 2)
آجکل کے غیرمقلدین کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے اکثر مسائل میں نصوص کے ظاہر پر عمل پیرا ہیں۔
ضرار خان الحنفی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں